Showing posts with label BOLD SOCIAL STORIES(Free). Show all posts
Showing posts with label BOLD SOCIAL STORIES(Free). Show all posts

آنکھ مچولی

 

 

آنکھ مچولی

چائے کی بھینی بھینی خوشبو نے مجھے مہکا دیا۔۔۔بھابھی نے چائے کا کپ میری طرف بڑھایا تو میں نے کہ اٹھاتے ہوئے کہا۔قسم سے بھابھی اس کی بہت ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ویسے آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں یہاں ہوں تو بھابھی میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولیں۔۔۔سمیر،،میں نے تم دونوں کی ساری باتیں سن لی ہیں۔میں کسی کام سے نیچے گئی تھی واپس آ رہی تھی تو دروازہ کھلا دیکھ کر جیسے ہی اندر داخل ہونے لگی تو مجھے تمہاری آواز سنائی دی تم آفتاب کو مومو کے بارے میں بتا رہے تھے۔۔۔تو میں نے ساری باتیں سن لیں۔۔۔میں بھابھی کی بات سن کر ہکا بکا رہ گیا۔۔۔پہلے آفتاب میری بات سن کر حیران ہوا تھا اب بھابھی کی باتیں سن کر میں پشیماں ہو گیا۔۔۔اسی تذبذب کی کیفیت میں کھڑا تھا کہ بھابھی پھر گویا ہوئیں۔۔۔سمیر،،میں تم دونوں کو ملوانے کی کوشش کرو گی۔۔۔پتہ کروں گی کہ مومو کی کہیں بات پکی ہوئی ہے یا نہیں۔یا اسے کوئی اور مجبوری تو نہیں ہے۔۔۔ بھابھی کی بات سن کر میں چند لمحے خاموش رہا۔پھر میں نے بھابھی سے پوچھا کہ بھابھی میری بپتا سننے کے بعد آپ کو میری مدد کرنے کی کیا سوجھی۔۔۔اس سے آپ کو کیا ملے گا۔۔۔یہ کہہ کر میں استجائیہ نظروں سے بھابھی کو دیکھنے لگا۔۔۔بھابھی نے گرم چائے کی ایک چسکی بھری اور ایک ٹھنڈی سانس لیکر بولیں۔۔۔سمیر،،میں اور ارمغان سکول لیول سے یونیورسٹی لیول تک ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔۔۔سکول سے یونیورسٹی تک ساتھ رہنے سے پہلے دوستی اور پھر یہ دوستی محبت میں تبدیل ہو گئی۔۔۔ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ہم شادی کریں گے لیکن شادی تک ایک دوسرے کے درمیان فاصلے کو کم نہیں کریں گے۔۔۔اتنا کہہ کر بھابھی چپ ہو گئیں اور پاؤں کے انگوٹھے سے زمین کو کریدنے لگیں۔۔۔میں چائے کا کپ ختم کر چکا تھا۔۔۔میں نے بھابھی سے پوچھا اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو آگے بتائیں پھر کیا ہوا۔۔۔بھابھی چند لمحے اور خاموش رہنے کے بعد بولیں۔۔۔پھر ہم لوگوں نے اپنے گھر والوں کو مطلع کیا اور ان کی مرضی سے ہماری شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی۔جب سہاگ رات کو میں ارمغان کی دلہن بنی سہاگ کی سیج پر بیٹھی تھی۔تب ارمغان نے میرے تمام ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔۔۔***** نے ان کو وجاہت اور خوبصورتی تو بے تحاشا دی ہے لیکن ان کی مردانگی میرے آگے چند لمحے بھی ٹِک نہ پائی اور وہ ٹھس ہو گئے۔۔۔ جب ایک جگہ پر مرد اور عورت تنہائی میں ہوں تو ان کے درمیان شیطان آ ہی جاتا ہے۔ بھابھی کی باتیں سن کر میں کافی حیران تو ہوا لیکن ساتھ ساتھ ہی میرا لن بھی کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔۔۔میں نے ہاتھ نیچے کر کے لن کے ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی اور میری یہ حرکت بھابھی سے چھپی نہ رہ سکی۔۔۔میں نے بھابھی کی آنکھوں میں نظریں گاڑھتے ہوئے پوچھا کہ اب آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں۔۔۔بھابھی میری طرف دیکھنے کے بعد دوسری طرف مڑ گئیں اور بولیں۔۔۔ ایک رات کا ساتھی۔ ایک رات کا ہمسفر۔ مضبوط طاقتور ہمسفر۔ میں ایک دم لڑکھڑا گیا۔بھابھی نے بات ہی ایسی کی تھی۔۔۔اتنے ڈائریکٹ انداز میں کھلی ڈھلی بات سن کر مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔۔۔میں نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا۔۔۔لیکن بھابھی میں۔۔۔ابھی یہ الفاظ میرے منہ میں ہی تھے کہ بھابھی نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور دو قدم بڑھ کر میرے پاس سے گزر کر نچلی سیڑھیوں کی طرف چل دی۔۔۔پھر جاتے جاتے مڑ کر بولیں۔میں انتظار کروں گی۔اتنا کہہ کر بھابھی سیڑھیاں اترتی چلی گئیں۔اور میں وہیں کھڑا منہ پھاڑے دیکھتا رہا۔۔۔بھابھی جا چکی تھیں اور میں وہیں کھڑا اس نئی افتاد کے بارے میں غور و فکر کرنے لگا۔۔۔کافی دیر سوچ بچار کرنے اور سگریٹ پھونکنے کے بعد میں نے دل میں یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ آج رات آفتاب نے تو آنا نہیں اس لیے رات چھت پر ہی گزاری جائے۔۔۔میں ادھر ادھر ٹہلتا رہا لیکن اگلے چالیس منٹ میں ہی سمجھ میں آ گیا کہ چھت پر رات گزارنا بہت مشکل ہے۔۔۔ہر طرف مچھر بھنبھنا رہے تھے۔۔۔مچھروں کی بھوں بھوں سے تنگ آ کر میں نے نیچے جانے کا سوچا اور پھر میں چھت سے نیچے اترنے لگا۔۔۔جیسے ہی میں تیسرے فلور پر مطلب سدرہ بھابھی والے فلور پر پہنچا۔تو دیکھا کہ پورے پورشن کی تمام لائٹس بند تھیں۔۔۔تمام کمرے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔۔۔میرے دل میں بہت سے خدشات جنم لے رہے تھے۔۔۔بھابھی کے کمرے کی دھیمی سی لائٹ یہ ظاہر کر رہی تھی کہ کمرے میں زیرو کا بلب چل رہا ہے۔۔۔میں نے سوچا کہ چلو ایک دفعہ بھابھی کا کمرہ دیکھتا ہوں پھر جا کر سو جاؤں گا کیونکہ کافی دیر ہو چکی ہے۔۔۔اور ہو سکتا ہے کہ اب تک بھابھی بھی سو چکی ہوں۔۔میں نے بھابھی کے کمرے کے پاس جا کر کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا۔ہلکا سا دبانے پر ہی دروازہ کھلتا چلا گیا۔۔۔جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ اے سی آن ہے۔۔۔بھابھی دلہن بنی سیج پر لیٹی ہوئی سو رہی تھیں۔۔۔میں بھابھی کے پاس چلا گیا۔بھابھی نے ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا۔اور اپنے تمام زیورات پہنے ہوئے تھے۔۔۔بھابھی کے چہرے پر پھیلی ہوئی پیاس دیکھ کر میرے دل میں نفس نے چوٹ لگائی۔۔۔ارے تو کیسا مرد ہے رے۔۔۔ایک پرائی عورت اپنی خود کی عزت جو کہ کسی دوسرے کی امانت ہے خود اپنے ہاتھوں تجھے سونپنے کیلئے۔دلہن بنی اپنی چوت میں تمہارا لن لینے کیلئے تیار ہے اور تم نامردوں کی طرح رات گزارتے چلے جا رہے ہو۔۔۔میں بیڈ کے اور پاس ہو گیا۔۔۔میرا دل کیا کہ ہاتھ بڑھا کر بھابھی کے گال چھو لوں۔۔۔میں نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بھابھی کے گالوں کو چھو لیا۔۔۔سیکس کی پیاس سے گال تپ رہے تھے۔۔۔جیسے ہی میں نے گال کو چھوا تو گال پر ہاتھ کا لمس محسوس کرتے ہی بھابھی کی آنکھ کھل گئی اور بھابھی نے ہاتھ بڑھا کر میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ میرا ہاتھ پکڑ کر بھابھی بولی۔۔۔سمیر میرا دل کہتا تھا تم ضرور آؤ گے۔۔۔میری برسوں کی پیاس بجھانے،میری روح کو سیراب کرنے ضرور آؤ گے۔۔۔یہ کہتے ہوئے بھابھی اٹھ کر بیڈ سے نیچے اتر کر میرے روبرو کھڑی ہو گئی۔۔۔میں ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔۔۔آخر جو بھی تھا یہ غلط تھا۔۔۔دل میں کہیں ایک کونے میں تھوڑی سی پشیمانگی تھی جو مجھے بھابھی کی طرف بڑھنے سے روک رہی تھی۔۔۔بھابھی نے جب یہ دیکھا کہ میں خیالوں کے بھنور میں غوطے لگا رہا ہوں تو آگے بڑھ کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔۔۔اففففف بھابی کے ہونٹ تھے کہ جیسے گلاب کی پنکھڑیاں۔۔۔جیسے ہی بھابھی کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر ٹچ ہوئے میں سب صحیح غلط بھول گیا۔۔۔میری شہوت۔۔۔لن کو ہلا شیری دیتے ہوئے بولی۔۔۔قدم بڑھاؤ لن صاحب۔۔۔میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔لن نے جیسے سرگوشی کی۔۔۔اگر بھابھی کی مست پھدی لینی ہے تو آگے بڑھ۔۔۔ایک مست پھدی ایک قدم کی دوری پر۔۔۔ابھی یہ پھدی تیرے نیچے ہو گی۔۔۔لن کی سرگوشی سن کر میں نے اپنے اور بھابھی کے درمیان فاصلہ ختم کر دیا اور بھابھی کو اپنے بازوؤں میں کس لیا۔۔۔میری رضامندی دیکھ کر بھابھی نے پوری گرم جوشی کے ساتھ میرے ہونٹوں کو چومتے ہوئے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی۔۔۔اور میں نے بھابھی کی زبان کو ویلکم کہتے ہوتے زبان چوسنا شروع کر دی۔۔۔مجھے لگا کہ میں شہد بھری کوئی میٹھی گولی چوس رہا ہوں۔۔۔ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ہونٹ چوس رہے تھے۔۔۔ایک دوسرے سے زبانیں لڑا رہے تھے۔۔۔ایک دوسرے کے نشے میں چور ہو رہے تھے۔۔۔اففففف کیا ہاٹ اور گیلا منہ تھا بھابھی کا۔۔۔میں ساتھ ساتھ بھابھی کی گانڈ اور کمر پر ہاتھ پھیری جا رہا تھا۔۔۔بھابھی نے اپنے دونوں بازو کس کر میری کمر پر باندھ رکھے تھے اور ایڑھیاں اٹھا کر مجھے کس کر رہی تھی۔۔۔ اب جب بھابھی مجھ سے چدنے ہی والی تھی تو میں نے دل میں سوچا کہ اب بھابھی کہنا ٹھیک نہیں۔۔۔اب میں اسے اس کے نام سے ہی پکاروں گا۔۔۔کافی دیر کسنگ کرنے کے بعد میں نے سدرہ کو کندھوں سے پکڑ کر پیچھے ہٹایا تو وہ الٹتی پتھلتی ہوئی سانسوں کے ساتھ مجھے دیکھنے لگی۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر سدرہ کے کپڑے اتارنے شروع کر دیے۔۔۔چند سیکنڈ بعد سدرہ میرے سامنے مادر زاد ننگی کھڑی تھی۔۔۔سدرہ ایک بہت ہی سیکسی اور خوبصورت فگر والی لڑکی ثابت ہوئی۔۔۔اس کا فگر 37۔27۔36bتھا۔۔۔آنکھوں کا رنگ سیاہ۔بال بھی گھنے لمبے سیاہ۔اوپر سے سیکس کی بھوک نے اس کے چہرے پر ایسا نکھار ڈالا کہ میرا لن پورا اکڑ گیا۔اور ٹراؤزر میں ایک تمبو بن گیا۔۔۔جسے دیکھ کر سدرہ کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔۔۔اس نے آگے بڑھ کر ٹراؤزر کے اوپر سے ہی میرا لن اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور میرے ہونٹ کو چوم کر بولی اٹھ گیا میرا شیر۔۔۔آج زندگی میں پہلی بار مزہ آئے گا۔۔۔ارمغان کا تو اتنا موٹا اور لمبا نہیں ہے۔۔۔مجھے لگ رہا ہے کہ جیسے آج میری پہلی چدائی ہو گی۔۔۔پھر کچھ دیر تک میرے لن کو مٹھیوں میں دباتے ہوئے بولی سمیر تمہارا لن تو بہت جاندار ہے جانو۔۔۔ایسے لن تو فلموں میں ہوتے ہیں بس۔۔۔میں نے حیرانگی سے کہا کہ سدرہ تم نے وہ فلمیں کہاں دیکھ لیں۔۔۔تو سدرہ سارے تکلفات کو بالائے تاک رکھ کر بولی۔۔۔وہ ارمغان ہے نا کنجری کا بچہ۔۔۔روزانہ تین چار سیکسی فلمیں مجھے دکھاتا ہے۔پھر اپنا لن چسوا کر مزہ لیتا ہے اور میری پھدی میں ڈال کر دس منٹ میں ہی گشتی کا بچہ فارغ ہو جاتا ہے۔۔۔اس کے منہ سے ایسی گالیاں سن کر میں اور حیران ہوا۔۔۔تو میں نے کہا کہ یار تم تو کہتی تھی کہ ارمغان سے بہت محبت ہے۔۔۔اب اتنی گندی گندی گالیاں دے رہی ہو۔۔۔تو وہ میری شرٹ اتارتے ہوئے بولی۔۔۔جانو یہ ساری عادتیں مجھے ارمغان نے ہی ڈالی ہیں۔۔۔اب جب تک سیکس کے ساتھ ساتھ گندی باتیں یا گالیاں نہیں نکالتے۔ہم لوگوں کو مزہ نہیں آتا۔۔۔ سدرہ کے منہ سے یہ باتیں سن کر مجھے ایک عجیب سا مزہ آ رہا تھا۔۔۔اسی دوران سدرہ میری شرٹ اتار کر ایک طرف پھینک چکی تھی۔۔۔پھر اس نے اپنے ہاتھ میرے دونوں کولہوں کے پاس سے ٹراؤزر پر رکھے اور میری ٹانگوں کے درمیان زمین پر بیٹھتے ہوئے اس نے میرا ٹراؤزر اتار دیا۔۔۔انڈروئیر تو میں نے پہنا نہیں تھا۔۔۔اس لیے ٹراؤزر اترتے ہی لن ایک جھٹکا کھا کر سیدھا ہوا اور اس کے منہ کے سامنے جھومنے لگا۔۔۔یہ دیکھ کر سدرہ ایک دم اٹھی اور سوئچ بورڈ کے پاس جا کر اس نے ساری لائٹس آن کر دیں اور کمرے کے دروازے کو لاک لگا دیا۔۔۔بلا شبہ سدرہ جنسی لحاظ سے بڑے ہی پرکشش جسم کی مالک تھی۔۔۔اور ساتھ ساتھ اس کے پورے جسم میں شہوانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔۔۔اففف کیا ممے تھے۔کیا گانڈ تھی۔۔۔نرم نرم چوتڑوں پر دل کرتا تھا دندی کاٹ لوں۔۔۔سدرہ چلتی ہوئی سامنے الماری کی طرف گئی اور وہاں سے ایک چھوٹی سی عجیب قسم کی شیشی اٹھا کر میرے پاس آئی اور میرے اکڑے ہوئے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر شیشی کا ڈھکن اتارا تو میں نے آخر پوچھ ہی لیا۔۔۔جانم کیا کرنے لگی ہو۔۔۔تو وہ بولی کہ اپنے ٹھوکو کے ساتھ اس سہاگ رات کو یادگار بنانے کیلئے اسپرے لگانے لگی ہوں۔۔۔اس سے تمہاری ٹائمنگ بڑھ جائے گی۔۔۔ہم لوگ خوب مزہ کریں گے۔۔۔میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ تم نے ارمغان پر آزمایا ہے تو وہ بولی نہیں جانو ابھی آج ہی تو ایک سہیلی دے کر گئی ہے۔۔۔اس کا عاشق اسے یہ اسپرے لگا کر چودتا ہے اور وہ بتا رہی تھی کہ کم از کم بھی آدھا گھنٹہ تو وہ صرف پھدی کی بینڈ بجاتا ہے۔۔۔یہ سن کر ایکسائٹمنٹ سے میری آنکھیں چمک اٹھیں۔۔۔سدرہ نے میرے لن کو ٹوپی سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور لن کی نچلی جانب ٹوپی کے پاس دو بار اسپرے کیا اور انگلی کی مدد سے ہلکا ہلکا مساج کر دیا۔۔۔اسی طرح اس نے لن کی چاروں سائیڈوں پر ہلکا ہلکا اسپرے مار کے مساج کر دیا۔۔۔اور بولی اب اگلے بیس منٹ تک لن کی طرف دیکھنا بھی نہیں اس کا اثر بیس منٹ بعد شروع ہو گا۔۔۔اور وہ اسپرے کی شیشی ایک طرف سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے خود بیڈ پر لیٹ گئی اور اپنے دونوں بازو کھول کر مجھے اشارہ کیا۔۔۔مجھے لن پر ہلکی ہلکی جلن ہو رہی تھی۔۔۔جس کا ذکر میں نے اس سے کیا تو اس نے بتایا کہ یہ نارمل ہے ایسا میری سہیلی نے بتایا تھا کہ یہ ہوتا ہے لیکن صرف تھوڑی دیر۔۔۔اس کے بعد لن ہلکا سا سن ہو جائے گا۔۔۔اور پھر بے شک جب تک دل کرے چدائی کرو۔۔۔اتنا کہہ کر پھر اس نے اپنے بازو کھول دیے اور میں اس کے اوپر لیٹ کر بازؤوں میں سما گیا۔۔۔جیسے ہی سدرہ کے اکڑے ہوئے نپلز میرے بالوں بھرے سینے سے لگے۔میرے اندر بجلی سی کوند گئی۔۔۔میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور سدرہ کی گردن کو ایک ایک ملی میٹر سے چاٹنے لگا۔۔۔سدرہ نے میری زبان کا ٹچ اپنی گردن پر محسوس کرتے ہی اپنے دونوں ہاتھوں کو میری کمر پر رکھتے ہوئے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر پھیرتے ہوئے اپنے مموں کو دائیں بائیں ہلاتے ہوئے میرے سینے پر رگڑنے لگی۔۔۔ میرا لن پورے جوش میں آ کر سدرہ کی رانوں میں دبا ہوا تھا۔۔۔میں اس کی گردن کو چاٹتا ہوا نیچے اس کے کندھوں تک آیا اور وہاں سے اس کے مموں کی گولائیوں تک آ گیا۔۔۔پہلے میں دائیں ممے کو چاٹنے لگا۔۔۔پھر میں نے باری باری اس کے دونوں ممے چاٹ لیے لیکن نپلز کو بلکل نہیں چھیڑا۔۔۔میں جیسے ہی ممے کو چاٹتا ہوا نپلز تک پہنچتا۔تو اسے ٹچ کیے بنا دوسرے ممے کی گولائی کو چاٹنا شروع کر دیتا۔۔۔جب چار پانچ بار میں ایسی ہی کرنے کے بعد ممے کو چاٹتا ہوا نپل تک پہنچا تو سدرہ نے غصے سے میرے سر کے بالوں کو اپنی مٹھی میں جھکڑا اور نیچے اپنے نپل کی طرف دبایا۔۔۔میرے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔میں جان چکا تھا کہ اب سدرہ مزے اور لذت میں پوری طرح سے خوار ہو چکی ہے۔۔۔
 میں نے سدرہ کا ایک نپل منہ میں لے لیا۔۔۔۔۔واؤ۔۔۔۔۔اوووو۔۔۔۔نپل منہ میں لیتے ہی میرا لن پھنکاریں مارنے لگا۔۔۔میں باری باری دونوں نپل منہ میں لیکر چوسنے لگا۔۔۔اب سدرہ کے بدن میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔میری کوشش تھی کہ سدرہ کا پورا مما منہ میں لے لوں۔۔۔پر یہ ممکن نہیں تھا۔۔۔کیونکہ میرا منہ بہت چھوٹا اور سدرہ کا مما منہ کی مناسبت کافی بڑا تھا۔اور اس ٹائم تو ویسے بھی سخت ہو رہا تھا۔۔۔میں نے نپل کو دانتوں سے ہلکا سا کاٹا تو وہ کراہ اٹھی۔۔۔۔آہ۔ہ۔آہہہ۔۔۔سمیر۔۔۔۔ررر۔۔۔۔آرام سے۔۔۔۔میری جان۔۔۔۔آرام سے۔میں نے سدرہ کے ممے چوستے ہوئے ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے تنے ہوئے لن پر رکھ دیا۔۔۔اس نے فوراً ہی میرے لن کو مٹھی میں دبا لیا۔۔۔میں نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لیجا کر سدرہ کی پھدی پر رکھ دیا۔۔۔پھدی فل گیلی ہو رہی تھی۔۔۔میں زور زور سے مموں کو چوسنے اور نپلز کو کاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے اس کی پھدی کو مسلنے لگا۔۔۔سدرہ یہ مزہ برداشت نہ کر سکی اور سسکنے لگی۔۔۔آہ۔ہ۔آہہہ۔۔۔سمیر۔۔۔ایسے ہی۔۔۔افففف۔۔۔میں نے اپنی دو انگلیاں پھدی کے اندر گھسا دیں اور زور زور سے پھدی کے دانے کو اپنے انگوٹھے سے مسلنے لگا۔۔۔سدرہ کیلئے برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔شاید یہ کسی پرائے مرد سے سیکس کی شہوت تھی جو وہ اتنی جلدی منزل تک پہنچ گئی اور اس نے ایک جھٹکے سے اپنی دونوں ٹانگوں کو بھینچ لیا اور زور زور سے جھٹکے کھاتے ہوئے چھوٹ گئی اور اس کی پھدی سے پانی بہنے لگا۔۔۔چونکہ سدرہ کا کمرہ ساؤنڈ پروف تھا تو اس بات کا کوئی ڈر نہیں تھا کہ آواز کہیں باہر سنی جا سکتی ہے۔۔۔ سدرہ اب فارغ ہو چکی تھی۔۔۔جبکہ میرا لن اب فل جان پکڑ چکا تھا۔۔۔سدرہ اٹھی اور مجھے لٹاتے ہوئے خود میرے اوپر آ گئی۔اور چٹا چٹ میرے گالوں کے کئی بوسے لے ڈالے۔۔۔پھر بولی سمیر میری جان میں بہت خوش ہوں کہ تم نے مجھے اتنا مزہ دیا۔۔۔اب میری باری ہے کہ میں تمہیں مزہ دوں۔۔۔یہ کہہ کر وہ میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کے میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر سہلاتے ہوئے بولی۔۔۔مجھے تمہارا لن بہت پسند آیا ہے۔۔۔کچھ دیر تو وہ میرے لن کو ایسے ہی سہلاتی رہی۔



۔۔پھر جب مجھ سے برداشت نہ ہوا تو میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے آگے لن کی طرف دبایا تو وہ سمجھ گئی کہ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔مجھے دیکھتے ہوئے وہ بولی کہ لگتا ہے جانو کو اپنا لن چسوانا ہے۔۔۔میں نے مخمور نگاہوں سے اسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔پھر اس نے اپنا پورا منہ کھولا اور میرے لن کی ٹوپی کو اپنے منہ کے اندر لے لیا۔۔۔میرے منہ سے مزے کی شدت سے ایک سسکی نکل گئی۔۔۔سدرہ نے میرا لن منہ سے باہر نکالا اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے اپنی لمبی زبان باہر نکالی اور اس کی نوک سے میرے لن کے سوراخ کے اندرونی حصے کو چھیڑنے لگی۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی چھڑنے کے بعد سدرہ نے دوبارہ میرا لن منہ میں ڈال لیا اور بڑے پیار سے چوسنے لگی۔۔۔اس کے منہ کی گرمی کو اپنے لن پر محسوس کر کے میری حالت خراب ہو گئی۔۔۔اس نے میرے لن کی صرف ٹوپی اپنے منہ میں رکھی اور اپنے ہونٹوں کو بند کر کے منہ کے اندر سے ہی لن کے سوراخ اور ٹوپی پر اپنی زبان گھمانے لگی۔۔۔میں لذت کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔۔۔اس کے منہ کی گرمی سے اتنا مزہ مل رہا تھا کہ میں نے ایسا مزہ پہلے کبھی محسوس نہیں کیا۔۔۔حالانکہ اس سے پہلے خانم اور نازنین اور اپنے محلے میں بھی رنڈیوں سے چوپے لگوائے تھے۔۔۔پر اس رنڈی کے چوپے میں جو چاہت تھی۔۔۔جو مزہ تھا۔۔۔وہ کہیں نہیں ملا۔۔۔اس کے علاوہ اصل مزہ ان فیلنگز کا تھا کہ سدرہ بھابھی ارمغان کی بیوی تھی اور اس کو اپنے نیچے لٹانے کے صرف خواب ہی دیکھ سکتا تھا۔۔۔اور آج وہ رنڈی کی طرح سچ مچ پوری ننگی میرے سامنے موجود میرے لن کے چوپے لگا رہی تھی۔۔۔ اصل چیز یہ احساس تھا جو میرے مزے کو بڑھا رہا تھا۔۔۔سدرہ کچھ دیر اسی طرح میرے لن کی ٹوپی کو چوستی رہی۔۔۔پھر آہستہ سے اپنا تھوڑا منہ اور کھولا اور میرے لن کو اپنے منہ کے اندر اتارنا شروع کر دیا۔۔۔جتنا لن منہ میں جا سکتا تھا اتنا لینے کے بعد اس نے تھوڑا زور لگایا تو لن کی ٹوپی اس کے حلق کو جا لگی جس کیوجہ سے اسے ابکائی سی آئی اور اس نے فوراً ہی میرا لن باہر نکال دیا۔۔۔پھر میری طرف دیکھ کر بولی سوری جانو وہ دراصل آج تک چھوٹا لن چوسنے کی عادت تھی نا تو وہ حلق تک کبھی پہنچ ہی نہیں پایا۔۔۔پر تمہارا شاندار لن تو لگتا ہے آج میرے سارے کس بل ادھیڑ ڈالے گا۔۔۔پھر اس نے دوبارہ لن کی ٹوپی کو منہ میں لے کر چوسا اور اوپر سے لے کر جڑ تک لن کو چاٹا۔۔۔اسی طرح چاٹنے کے بعد اس نے جتنا لن منہ میں جا سکتا تھا لے لیا اور باقی لن کو ہاتھ کی گرفت میں رکھتے ہوئے پوری شدت سے چوسنے لگی۔۔۔اس انداز میں چوسنے سے اس کا گال پِچک کر اندر ہو جاتے۔اور اس کا چہرہ لال ہو جاتا تھا۔۔۔وہ اب اتنی طاقت سے چوپا لگا رہی تھی کہ مجھے صاف محسوس ہوا کہ میرے لن سے مزی کا ایک قطرہ پوری شدت سے رگڑ کھاتا ہوا باہر جا رہا ہے۔۔۔جیسے ہی وہ قطرہ باہر آیا تو سدرہ نے اپنی زبان سے اس قطرے کو لپیٹا اور منہ میں لیکر ایسے چسکے لینے لگی جیسے کسی چیز کی مٹھاس یا کھٹاس چیک کی جاتی ہے۔۔۔کچھ دیر لن چوسنے کے بعد سدرہ اٹھی اور میرے سینے کے اوپر بیٹھ گئی۔۔۔چند لمحے وہ میری آنکھوں میں دیکھتی رہی اور پھر اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر اپنی ہاتھ کی دو انگلیاں اپنی پھدی میں ڈال کر بولی دیکھو کیسے لیک کر رہی ہے۔۔۔میں نے سدرہ کی گانڈ کے نیچے دونوں ہاتھ رکھے اور اسے آہستہ سے اپنی طرف کھینچا تو وہ میرے اتنے قریب آ گئی کہ اس کی پھدی میرے منہ سے صرف دو انچ کے فاصلے پر تھی۔۔۔میں نے اسے اور آگے کھینچا اور اس کی پھدی پر ناک لگا کر اس کی مہک لینے لگا۔۔۔سدرہ میری حرکتوں کو غور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔وہ بولی سمیر کبھی پہلے پھدی ماری ہے سچ سچ بتانا تو میں نے کہا ہاں ماری ہے۔۔۔تو لازمی تم نے پھدی چاٹی بھی ہو گی تو میں نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ وہ پھدیاں چاٹنے والے نہیں تھیں۔۔۔تو سدرہ اپنی پھدی کے لبوں کو کھینچ کر بولی میری چوت کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔شہوت کے ڈورے اس کی آنکھوں کو لال کر رہے تھے۔۔۔سدرہ کی پھدی کے اوپری حصے پر چھوٹے چھوٹے بال تھے۔۔۔ایسا لگتا تھا کہ جیسے ایک دن پہلے ہی شیو کی گئی ہو۔۔۔بال جہاں ختم ہوتے تھے وہاں سے ہی پھدی سٹارٹ ہو رہی تھی۔۔۔پھدی کے ہونٹ کافی پھولے ہوئے تھے۔۔۔پھدی کے شروع میں ہلکا سا گوشت ابھرا ہوا تھا جہاں پھدی کا دانہ صاف پھولا ہوا نظر آ رہا تھا۔۔۔میرے ہاتھ نے سدرہ کی پھدی کے دانے کو ٹچ کیا تو اس کا جسم ایک دم مچلا اور اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ پیچھے کر کے میرے لن کو پکڑا اور سہلاتے ہوئے بولی۔۔۔سمیر۔۔۔۔۔۔جانو۔۔۔۔میری پھدی چاٹو اور مجھے پوری طرح سے مزہ دو۔۔۔۔میں نے سدرہ کو اپنے اوپر سے اٹھایا اور بیڈ پر سیدھا لٹاتے ہوئے اس کے اوپر لیٹ کر ایک دفعہ اس کے ہونٹوں کو چوما اور سیدھا اس کے مموں پر حملہ آور ہوا۔۔۔اب میں اس کے دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں سے مسل رہا تھا اور ایک ممے کے نپل کو منہ میں لیکر چوس رہا تھا۔۔۔میرے زور زور سے نپل چوسنے پر اس کے حلق سے سسکیاں برآمد ہو رہی تھیں۔اور وہ اپنے دونوں ممے باری باری اٹھا کر ایسے میرے منہ میں دے رہی تھی کہ جیسے اس کا دل کر رہا ہو کہ اپنا پورا مما میرے منہ میں ڈال دے۔۔۔تھوڑی دیر ایسے ہی ممے چوسنے کے بعد میں نے اس کے مموں کو چھوڑا اور تھوڑا نیچے ہوتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگیں اٹھا کر اوپر کرتے ہوئے مخالف سمتوں میں کھول دیں۔۔۔سدرہ نے میری مدد کرتے ہوئے اپنی دونوں ٹانگوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے پکڑ لیا۔اس طرح اس کی پھدی میرے منہ کے بلکل سامنے آ گئی۔۔۔ میں اس کی بالوں سے صاف اور چھوٹی سی پھدی کو دیکھنے لگا۔اس کی پھدی پانی نکلنے کی وجہ سے کافی گیلی ہو رہی تھی۔اور تھوڑا سا پانی نیچے اس کی گانڈ کی طرف بھی گیا ہوا تھا۔۔۔میں نے آہستہ سے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کی پھدی کو چاٹ لیا جس سے سدرہ پوری کی پوری کانپ گئی۔۔۔اس کے پانی کا ذائقہ ہلکا سا ترش تھا لیکن مجھے بہت اچھا لگا۔۔۔میں نے اس کی پھدی کا ایک لب اپنے ہونٹوں میں لیکر چوس لیا۔سدرہ کے جسم کو ایک اور جھٹکا لگا اور اس کی پھدی نے تھوڑا سا پانی اور چھوڑ دیا۔۔۔میں نے دوسرے لب کو بھی ایسے ہی چوسا اور پھر اس کے اندر والے لبوں پہ زبان پھیرنے لگا۔۔۔سدرہ تو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے مزے سے پاگل ہونے والی ہے۔۔۔ایک دفعہ تو مجھے ایسا لگا کہ وہ چھوٹنے والی ہے تو اسی وقت میں نے اپنا منہ اس کی پھدی سے ہٹا لیا اور زور سے ایک تھپڑ اس کی پھدی پر رسید کیا۔۔۔تکلیف کی وجہ سے اس کا مزہ کچھ کم ہوا اور وہ چیخ پڑی۔۔۔آ۔۔۔آؤچ۔۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو سمیر۔۔میرا پانی نکلنے دو۔۔۔یہ کہہ کر اس نے میرے سر کو اپنے ہاتھ سے پھدی کی طرف دبا دیا۔۔۔میں نے دوبارہ سے اس کی پھدی کے باہر والے لبوں پر زبان پھیرنی شروع کر دی۔۔۔جب مجھے لگا کہ اس کا مزہ تھوڑا کم ہو گیا ہے۔۔۔تو میں نے دوبارہ سے اس کی پھدی کے اندرونی لبوں کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔سدرہ کو دوبارہ مزہ آنا شروع ہو گیا اور اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر پھدی چٹوانے لگی۔۔۔میں نے اٹھ کر سدرہ کے اوپر لیٹتے ہوئے اپنا اکڑا ہوا لن اس کے منہ میں دیا اور 69 پوزیشن میں خود اس کی پھدی چاٹنے لگا۔۔۔وہ میرے لن کو ایسے چوس رہی تھی کہ جیسے کھا ہی جائے گی۔۔۔جب مجھے دوبارہ لگا کہ اب وہ پھر چھوٹنے کے قریب ہے تو میں اٹھ کر اس کی ٹانگوں کے درمیان آ گیا اور لن کو پکڑ کر پوری طرح گیلی پھدی پر رگڑنے لگا۔۔۔ پھر اس کی پھدی کے دانے کو رگڑتے ہوئے محسوس ہوا کہ جیسے ب وہ منزل کے بلکل پاس ہے تو میں نے آخری دفعہ اس کی پھدی کے دانے کو رگڑا اور لن کو پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا۔۔۔سدرہ کی آنکھیں مزے سے بند تھیں اور وہ اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر ایسے ہلا رہی تھی کہ کسی بھی طرح لن پھدی کے اندر چلا جائے۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں تھوڑا اور اوپر اٹھائی اور لن کو پھدی پر سیٹ کرتے ہوئے ایک زور کا جھٹکا مارا۔اور لن اس کی پھدی میں گھسا دیا۔۔۔سدرہ کیلئے بھی یہ جھٹکا آخری ثابت ہوا اور اس کی پھدی نے لرزتے ہوئے فوارے کی طرح پانی چھوڑ دیا۔۔۔سدرہ اتنی زور سے چھوٹی تھی کہ اس کی آنکھیں اوپر چڑھ گئیں اور پاؤں کی انگلیاں اکڑ گئی تھیں۔۔۔ سدرہ کے اس طرح چھوٹنے سے اتنا پانی نکلا کہ میرے ٹٹوں تک کو بھگو گیا۔۔۔اس کی اپنی پھدی کا بھی برا حال تھا۔۔۔میں نے ٹشو لیکر اس کی پھدی اور اپنے لن کو صاف کیا۔کیونکہ مجھے گیلی پھدی کا مزہ نہیں آتا۔۔۔بلکہ اس کے برعکس اگر لن رگڑ کھا کر اندر اور باہر آئے تب مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔۔۔پھدی کو صاف کرتے ہوئے جیسے ہی میرے ہاتھ نے اس کے دانے کو چھوا تو سدرہ کے منہ سے سسکاری نکل گئی۔۔۔کیونکہ دو دفعہ اور اتنا زیادہ چھوٹنے کے بعد اس کا دانہ بہت نازک ہو چلا تھا۔۔۔میں نے لن کو صاف کر کے دوبارہ اس کی پھدی میں ڈال دیا۔۔۔ابھی تھوڑا لن باہر ہی تھا کہ مجھے لگا کہ جیسے لن کسی نرم دیوار سے ٹکرا گیا ہے۔۔۔ساتھ ہی سدرہ کے منہ سے دوبارہ سسکیاں جاری ہو گئیں۔۔۔اففففف۔آہہہ۔آہہہ۔۔۔میرا اندازہ تھا کہ یہ ضرور سدرہ کی بچہ دانی ہو گی۔جس سے میرا لن ٹکرا کر رک رہا ہے۔۔۔ میں نے وہیں پہ رہ کر لن اندر باہر کرتے ہوئےسدرہ سے پوچھا۔۔۔کیا ہوا جان۔تکلیف ذیادہ ہو رہی ہے۔۔۔تو وہ بولی۔۔۔پین چود۔۔۔درد ہووے یا نہ ہووے۔توں اج رکنا نئیں۔اج اس پھدی دا پھدا بنا دے۔۔۔او ارمغان گشتی دا بچہ چھوٹی للی آلا۔۔۔کچھ وی نئیں کر پاوے گا۔۔۔میں ہمیشہ تڑپدی رہ جاندی آں۔۔۔اج پہلی واری تیرے تگڑے لن نے میری پھدی نوں سلامی دتی اے۔۔۔تے ہن توں بنڈ آلا زور لا کے لن اندر پا دے۔۔۔میری فکر نا کرِیں۔۔آج مینوں ایداں چود کہ میری پھدی پھاٹ جاوے۔۔۔میری پھدی دا شوربہ بنا دے۔۔۔۔ہن دیر نا کر۔۔۔کتے دیا پترا۔۔۔میری پھدی مار۔۔۔مینوں چود۔۔۔کس کس کے گھسے مار۔۔۔یہہ کہ تہہ لا دے۔۔۔ اسی طرح وہ شہوت کے زیرِ اثر بے ربط گندی زبان استعمال کرتی رہی۔۔۔



لیکن حیرت کی بات تھی کہ اس کی گالیاں سن کر بھی میں بدمزہ نہیں ہوا۔۔۔بلکہ مجھے اپنے لن میں اکڑاہٹ بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔اور میں پورے جوش کے ساتھ اس کے گھسے مارنے لگا۔۔۔میرے ہر جھٹکے کے جواب میں وہ صرف ایک بات ہی کہتی۔۔۔چود مینوں۔۔۔میری پھدی مار۔۔۔مینوں چود۔۔۔اس کی یہ بات سن سن کر میرے کان پک گئے اور مجھے بھی تاؤ آ گیا۔۔۔میں نے اپنا لن باہر نکالا۔۔۔پاس پڑا ہوا ایک چھوٹا تکیہ کھینچ کر اس کی گانڈ کے نیچے رکھ کر اس کی ٹانگیں اس شدت کے ساتھ اٹھائیں کہ سدرہ کے گھٹنے اس کے کندھوں کے ساتھ جا لگے۔۔۔میں نے پھر سے لن اندر ڈالا اور سٹارٹ سے ہی فل سپیڈ میں دھکے مارنے شروع کر دیے۔۔۔میرے طاقتور گھسوں کی وجہ سے میرے ٹوپے کی نوک بار بار سدرہ کی بچہ دانی کے ساتھ ٹکرا رہی تھی۔۔۔اور پھر جیسے ہی میرا لن سدرہ بھابھی کی بچہ دانی پر ٹھوکر مارتا۔۔۔نیچے سے وہ تڑپ سی جاتی اور پھر پہلے سے بھی ذیادہ سیکسی انداز میں وہی لذت آمیز راگ الاپتی کہ جسے سن کر میرا جوش مزید بڑھ جاتا۔۔۔اب مجھے سدرہ کو چودتے ہوئے چھ،سات منٹ گزر چکے تھے۔۔۔ہر گھسے پر ایسا لگتا کہ جیسے سدرہ کی پھدی میرے لن کو اندر سے جھکڑ رہی ہے۔۔۔اور ایک بار پھر اس کا جسم اکڑنا شروع ہو گیا۔۔۔میں نے اس کے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا اور ساتھ ہی اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جھکڑ کر پوری جان سے ایک گھسہ مارا۔۔۔اس گھسے سے یہ ہوا کہ میرا لن پوری طاقت کے ساتھ جڑ تک اندر گیا اور لن کی ٹوپی سدرہ کی بچہ دانی کے اندر جا گھسی۔۔۔سدرہ کے منہ سے ایک لرزہ خیز چیخ نکلی جو کہ ہونٹ دبے ہونے کیوجہ سے میرے منہ کے اندر ہی دم توڑ گئی۔۔۔سدرہ کا جسم فل اکڑ چکا تھا۔۔۔میں چند سیکنڈ وہیں پر رک کر اس کے مموں کو مسلتا اور چوستا رہا جس سے اس کی سانس میں دوبارہ تھوڑی بحالی ہوئی اور اس نے زور سے مجھ اپنی بانہوں میں کس لیا۔۔۔سدرہ اب اتنی چودائی کے بعد کافی تھک چکی تھی۔۔۔میں نے خود کو اس کی بانہوں سے آزاد کروایا اور اپنا لن باہر نکال کر اس کو ڈوگی سٹائل میں ہونے کو کہا۔۔۔وہ کافی تھک چکی تھی اور درد بھی محسوس کر رہی تھی اس لیئے فوراً اٹھ کر ڈوگی سٹائل میں آ گئی اور اپنے گھٹنے تھوڑے سے آگے کر کے اپنی گانڈ کو باہر نکال دیا۔۔۔واہ۔ہ۔ہ۔۔۔کیا نظارہ میرے سامنے تھا۔۔۔سدرہ کی موٹی سیکسی گانڈ بلکل میرے سامنے تھی۔۔۔اس کے گول مٹول گورے گورے چوتڑ مجھے اپنی طرف بلا رہے تھے۔۔۔اس کی گانڈ کا چھوٹا سا سوراخ اتنا سیکسی اور پیارا لگ رہا تھا کہ میں نے بے اختیار اس پہ اپنا انگوٹھا پھیرنا شروع کر دیا۔۔۔سدرہ کی گانڈ اور پھدی اب دونوں میرے سامنے تھیں اور مجھے اپنی طرف بلا رہی تھیں۔کہ آ جاؤ ہمیں چود ڈالو۔۔۔میں نے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کے چوتڑوں کو کھول لیا اور اپنا لن اس کی پھدی میں ڈال دیا۔سدرہ کے منہ سے مزے اور درد سے ملی سسکی نکل گئی۔۔۔آہ۔آہہہ۔۔۔میں نے پہلے سدرہ کو آہستہ آہستہ چودنا شروع کیا پھر اپنی سپیڈ بڑھاتا گیا۔۔۔مجھے اب اس کی پھدی میں اپنا لن جاتا بھی نظر آ رہا تھا اور اس کی گانڈ کا سوراخ بھی نظروں کے سامنے تھا۔اب سدرہ بھی فل مزے میں آ گئی تھی اور میرے ہر گھسے کے جواب میں اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکیلتی تھی۔۔۔لن جب پھدی سے باہر آتا تو اس کے پانی سے لتھڑا ہوتا تھا۔۔۔ایک دفعہ پھر مجھے محسوس ہوا کہ جیسے اس کی پھدی میرے لن کو اندر سے پکڑ رہی ہے۔لیکن لن اس میں سے پھسلتا ہوا بچہ دانی سے ٹکرا جاتا اور ٹوپی بچہ دانی کے اندر تک چلی جاتی۔۔۔ سدرہ کی گانڈ کا کھلتا،بند ہوتا ہوا سوراخ مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔۔۔میرا دل چاہا اور کچھ نہیں تو اس میں اپنی ایک انگلی ہی ڈال کر دیکھوں کہ کتنی ٹائٹ ہے۔۔۔سدرہ اب فل تھک چکی تھی اس لیے اس نے اپنا سر آگے بیڈ پر ڈال دیا جس سے اس کی گانڈ اور باہر کو نکل آئی اور اس کا سوراخ میرے جی کو للچا گیا۔۔۔مجھ سے اب برداشت نہیں ہوا تو میں نے اپنی انگلی کو تھوڑا سا تھوک لگا کر اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر انگلی تھوڑی اندر کر دی۔۔۔پہلے تو اسے تھوڑا سا شاک لگا اور اس نے مڑ کر میری آنکھوں میں دیکھا لیکن پھر وہ اپنا سر آگے کر کے دوبارہ پیچھے کو دھکے مارنے لگی۔۔۔اب وہ مزے کی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اور پتہ نہیں کیا اول فول بک رہی تھی۔۔۔اہسا لگ رہا تھا کہ جیسے دارو کے نشے میں بول رہی ہے۔۔۔ہاں سمیر۔۔۔ایداں ای۔۔۔پورا پا دے اندر۔۔۔ویکھ لے کوئی شے باہر نہ رہ جاوے۔۔۔پھاڑ دے میری پھدی۔۔۔بنڈ اچ زور نال انگل مار۔۔۔آہ۔۔۔آہہہ۔آہہہ۔۔۔اپنا موٹا،جبرو،لن زور نال اندر پا۔۔۔ہر واری ایداں ای مینوں ٹھوکیں۔۔۔اپنی رنڈی بنا،گشتی بنا،پر ایداں ای مینوں چودی جاویں۔۔۔اففففف۔۔۔میں مر گئی۔۔۔صواد آ گیا۔۔۔ اب مجھے بھی لگ رہا تھا کہ میں چھوٹنے کے قریب ہوں۔اور سدرہ کی یہ باتیں میرے لیے سونے پر سہاگا ثابت ہوئیں۔۔۔میں نے طوفانی رفتار سے گھسے مارتے ہوئے ایک دفعہ اپنا لن باہر نکالا اور حقیقتاً بنڈ والا زور لگا کر پورا لن اندر گھسا دیا۔اور ساتھ ہی سدرہ کے کندھوں کو پکڑ کر اپنی طرف دبایا جس سے لن اس کی بچہ دانی میں گھس گیا۔۔۔سدرہ کیلئے بھی یہ آخری جھٹکا ثابت ہوا اور اس نے پانی چھوڑ دیا۔۔۔ساتھ ہی میرے لن نے منی کی پہلی پچکاری ماری اور پھر مارتا ہی گیا۔۔۔سدرہ کی بچہ دانی منی سے بھرنا شروع ہو گئی۔مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے منی کا دریا بہہ رہا ہو۔۔۔جیسے ہی لن سے منی کا آخری قطرہ نکلا۔میں نے سدرہ کے کندھوں کو چھوڑ دیا اور وہ بے سدھ ہو کر آگے گر گئی۔۔۔میں اس کے اوپر ہی لیٹ گیا۔۔۔تھوڑی دیر بعد میں اٹھا اور ٹشو سے اس کی پھدی اور اپنے لن کو صاف کیا۔۔۔پھر میں نے سدرہ کو ہلایا تو وہ جیسے نشے میں بولی۔۔۔ہوں۔اوں۔۔۔میں نے کہا سدرہ میں جا رہا ہوں کافی دیر ہو گئی ہے ارمغان لوگ کسی بھی ٹائم واپس آتے ہوں گے۔۔۔تو سدرہ نے آنکھیں کھولیں اور مجھے پکڑ کر اپنے اوپر گراتے ہوئے بولی۔۔۔نہیں جان وہ نہیں آئیں گے۔۔۔تمہارے آنے سے پہلے میری ارمغان سے بات ہو چکی ہے وہ لوگ اب کل شام میں واپس آئیں گے۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں تم یہاں ہی میرے ساتھ سو سکتے ہو۔۔۔ویسے بھی گھر والے تو سب دس بجے کے بعد ہی اٹھیں گے اور اس لیے بے فکر رہو۔۔۔میں نے ٹائم دیکھا تو دو بج رہے تھے۔۔۔مطلب اس چدائی کھیل میں ٹائم کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔میں سدرہ کو ایک طرف کھسکا کر اس کی سائیڈ میں ہی لیٹ گیا۔۔۔مجھے لیٹتا دیکھ کر سدرہ نے کروٹ بدلی اور اپنا سر میرے بازو پہ رکھتے ہوئے مجھ سے لپٹ کر سو گئی۔۔۔میں بھی کافی تھک گیا تھا۔اس لئیے کب آنکھ لگی پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔ دوبارہ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ سدرہ دوسری طرف منہ کیے سو رہی ہے۔۔۔اور اس کی سیکسی گانڈ میری طرف تھی۔۔۔اس کی گانڈ کو دیکھتے ہی میرا لن پھر سے سر اٹھانے لگا۔۔۔میں نے اپنے لن کو تھوک لگایا اور اس کی ایک ٹانگ اٹھا کر تھوڑی آگے کو کی اور لن کو اس کی پھدی کی لکیر میں پھیرنے لگا۔۔۔ساتھ ساتھ اس کے مموں اور گانڈ پر بھی ہاتھ پھیرتا رہا۔۔۔سدرہ شاید کوئی سیکسی خواب دیکھ رہی تھی یا پھر میری حرکتوں کو ہی خواب سمجھ رہی تھی۔۔۔اس لیے اس کی پھدی کافی گیلی ہو رہی تھی۔۔۔میں نے سدرہ کی اوپر والی ٹانگ کو تھوڑا اور آگے کیا اور اپنے لن کو اچھی طرح سے تھوک لگا کر ایک ہاتھ سے اس کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے نپل کو مسلتے ہوئے ایک زور کا گھسہ مارا تو نیند میں ہی اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔۔۔اور ساتھ ہی اس کی آنکھ کھل گئی پہلے تو اس نے بجلی کی سی تیزی سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن میرے ہاتھ کی گرفت نے اسے اٹھنے سے روک دیا۔۔۔اتنی دیر میں وہ بھی ساری سچویشن کو سمجھ چکی تھی تو سی سی کرتے ہوئے مجھے لن باہر نکالنے کو بولا۔۔۔جیسے ہی میں نے لن باہر نکالا تو وہ میری طرف مڑی اور کھٹکنی بلی کی طرح دانت نکوستے ہوئے مجھے دونوں ہاتھوں سے مارنے لگی۔۔۔کمینے،پین چود،گانڈو،۔۔۔یہ کیا حرکت تھی۔۔۔کیا میں نے منع کیا تھا جو ایسے حملہ کیا۔۔۔میں نے اس کے ہاتھوں کی ضربوں سے خود کو بچاتے ہوئے کہا۔۔۔جانو کیا کرتا۔۔۔سوتے ہوئے تیری گانڈ میں طرف ہو گئی تھی تو میرے لن نے مجھے جگا دیا۔۔۔اور اتنی چکنی اور خوبصورت گانڈ دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا۔۔۔ لڑکی کی تعریف جس چیز کی بھی کرو وہ خوش ہی ہوتی ہے۔چاہے گانڈ کی ہی تعریف کرو۔۔۔ سدرہ اپنی تعریف سن کر تھوڑا ٹھنڈی ہوئی لیکن پھر بھی آنکھیں نکالتے ہوئے بولی۔۔۔گانڈو لن تو تم نے پھدی میں ڈالا ہے۔۔۔تعریف گانڈ کی کر رہے ہو۔مطلب جھوٹی تعریف کر کے بچنا چاہتے ہو۔۔۔تو میں نے اسے اپنے گلے سے لگاتے ہوئے کہا جانو میں سچ کہہ رہا ہوں آج تک اتنی پیاری گانڈ نہیں دیکھی۔۔۔میرا بہت دل کیا تیری گانڈ مارنے کو پر دماغ نے سمجھایا کہ نہیں پہلے اپنی جان کی پھدی کی پیاس بجھا دو۔۔۔اپنا شوق پھر پورا کر لینا۔اس لیے دماغ کی سنی اور لن کو پھدی میں پیل دیا۔۔۔سدرہ نے میری بات سنی تو خوشی سے پھول گئی اور ہاتھ نیچے کر کے میرے لن کو سہلاتے ہوئے بولی سمیر صاحب آپ ہوا کے جھونکے کی طرح آئے ہیں اور واپس چلے جائیں گے۔۔۔میں تمہیں تمہاری مرضی ضرور کرنے دیتی پر مجھے میرا انعام چاہیے۔۔۔یاد ہے نا رات کو ذکر ہوا تھا۔۔۔تو وہ انعام یہی ہے کہ میں اپنا پہلا بچہ تم سے چاہتی ہوں۔۔۔تو جتنے دن بھی تم یہاں ہو مجھے روزانہ کم از کم ایک دفعہ ضرور چودو۔۔۔میری پھدی میں روزانہ اپنا پانی نکالو۔۔۔مجھے تمہارے بچے کی ماں بننا ہے۔۔۔پہلا حمل تم سے کروانا چاہتی ہوں۔۔۔ یہ کہہ کر سدرہ اٹھی اور میری ٹانگوں کے بیچ لیٹتے ہوئے میرے لن کو منہ میں لے کر قلفی کی طرح چوسنے لگی۔۔۔اور میں دل میں سوچ رہا تھا کہ بچے وچے کا تو مجھے نہیں پتہ پر بھابھی تجھے چودوں گا تو ایسے کہ مدتوں یاد رکھو گی۔۔۔کچھ دو منٹ تک میرے لن کو مسلسل چوسنے کے بعد سدرہ اٹھی اور میری سائیڈ پر لیٹ گئی اور مجھے اوپر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔میں نے اس کے اوپر آتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگیں اوپر اٹھائیں اور سائیڈوں پر کھولتے ہوئے اپنا لن اس کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے میں پورا لن اندر ڈال دیا۔۔۔لن کی ٹوپی اس کی پھدی کو چیرتی ہوئی اس کی بچہ دانی میں گھس گئی۔اور سدرہ کے منہ سے مزے کی وجہ سے اففففففففف نکل گیا۔۔۔ میں نے گھسے مارنے شروع کیے تو اس نے بھی نیچے سے اپنی گانڈ ہلا ہلا کر پھدی کی تال میرے لن کے ساتھ ملانا شروع کر دی۔۔۔اس کی پھدی کافی گیلی ہو چکی تھی جس کیوجہ سے اسے مزہ آنا شروع ہو گیا تھا۔۔۔تھوڑی دیر ایسے ہی چودنے کے بعد میں نے سدرہ کی دونوں ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھ کر لن اندر ڈالا اور دوبار گھسوں کی پمپ ایکشن چلا دی۔۔۔سدرہ کی پھدی کے ہونٹ اتنی چدائی کی وجہ سے تھوڑا سوج چکے تھے۔۔۔اب تو میں جیسے ہی گھسہ مارتا اس کے منہ سے بے اختیار نکل جاتا۔۔۔افففففففف۔ظا۔۔۔۔ظالم۔۔م۔م۔م۔۔۔۔پھاڑ دتی میری پھدی۔۔۔ہائے نی ماں میں لوڑے لگ گئی۔۔۔میری پھدی دا پھدا بنا چھڈیا۔۔۔افففففف۔۔۔سمیر جانو۔۔۔تیرا تگڑا لن میری پھدی دا حشر خراب کیتی جاندا۔۔۔ٹھوک اس پین چود نوں۔۔۔وجا۔۔۔وجا۔۔۔ہور۔۔۔۔وجا۔۔۔۔اپنے سوٹے ورگے لن نال سٹاں مار مار۔۔۔پھدی پولی کر دے۔۔۔ ہائےماں۔۔۔۔مر گئی۔۔۔۔۔ سدرہ کی یہ سیکسی باتیں مجھے اور بڑھاوا دے رہی تھیں اور میرے گھسے مارنے کی سپیڈ نوے تک پہنچ گئی۔۔۔دو منٹ بعد ہی سدرہ کہنے لگی۔۔۔سمیر زور دی۔۔۔میں چھٹن لگی۔۔۔۔آں۔۔۔۔مجھے بھی لگ رہا تھا کہ اب میرا بھی پانی نکلنے لگا ہے۔اوپر سے سدرہ کی سیکسی باتیں سنتے ہی میرا لن ہار مان گیا اور اس کی بچہ دانی کو منی سے بھرنے لگا۔۔۔ کچھ دیر بعد ہی میں سدرہ کے کمرے سے باہر نکل رہا تھا۔۔۔اس وقت صبح کے چھ بج رہے تھے۔تو آفتاب کے کمرے میں جا کر میں سو گیا۔۔۔دوبارہ میری آنکھ 9 بجے کھلی۔۔۔نہا دھو کر میں نیچے آیا تو سب لوگ ناشتہ کر رہے تھے۔۔۔میں بھی ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ گیا اور گھر والوں کے ساتھ ہی ناشتہ کیا۔۔۔ناشتے کے بعد آفتاب کے پاپا مجھ سے گھر کے متعلق اور دادی امی کے بارے میں خیر و عافیت پوچھنے لگے۔۔۔اس کے بعد خاندان کے متعلق باتیں ہوتی رہیں تو ٹائم کا پتہ ہی نہیں چلا اور ٹھیک بارہ بجے جب ہم لوگ چائے پی رہے تھے۔۔۔آفتاب اور ارمغان گھر میں داخل ہوئے۔۔۔اس وقت آفتاب کے پاپا ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور میں نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی اور اٹھ کر اوپر آفتاب کے کمرے میں چلا گیا۔کیونکہ میں جانتا تھا کہ آفتاب سیدھا اوپر ہی آئے گا۔۔۔اور وہی ہوا تھوڑی دیر بعد ہی آفتاب کمرے میں داخل ہوا اور تھکا ماندا میرے ساتھ ہی لیٹ گیا۔۔۔چند سیکنڈز کی خاموشی کے بعد آفتاب بولا سوری جگر کام کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ مجھے جانا پڑا لیکن تم بے فکر رہو آج ہی میں کچھ جگاڑ لگاتا ہوا اور تیری مومو کی خبر نکالے دیتا ہوں۔۔۔میں اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔۔۔چونکہ وہ سفر سے آیا تھا تو جلد ہی سو گیا اور میں کمپیوٹر آن کر کے موویز دیکھنے لگا۔۔۔اسی طرح موویز دیکھتے ہوئے میں نے کافی ٹائم گزار لیا۔۔۔شام پانچ بجے آفتاب نیند سے جاگا اور نہا دھو کر فریش ہوا۔۔۔تو بولا کہ چل جانی بھوک بہت لگی ہے۔۔۔صبح سے ناشتہ کیا ہوا ہے۔۔۔

 

سوتیلے بھائی

 

 



سوتیلے بھائی

میرا نام رضیہ ہےمیری آنکھ ایک یتیم خانے میں کھلی تھی اور بچوں کی طرح مجھے نہیں پتا میرے ماں باپ کون تھے۔بعقول ہمارے یتیم خانے کے منیجر کے مجھے کوئی دروازے پر چھوڑ گیا تھا ۔تب سے لے کر آج تک میں کبھی اپنے ماں باپ کا پتا نہیں چلا سکی۔میری عمر 14 سال ہو چکی تھی۔جوانی میں قدم رکھ دیا تھا۔ایک دن مجھے منیجر نے اپنے آفس میں بلایا،بلانے کا مقصد مجھے جانے کے بعد پتا لگا کہ مجھے کوئی فیملی اڈاپٹ کرنا چاہ رہی تھی جو ان کے آفس میں بیٹھی ہوئی تھی وہ دو میاں بیوی مجھ سے بہت پیار سے پیش آئے اور مجھ سے کافی باتیں کی مجھے بھی ان سے باتیں کر کے اچھا لگا ،میں نے ان کے ساتھ جانے کی حامی بھر لی ۔یتیم خانے کو چھوڑنے کا دکھ بھی ہو رہا تھا یہاں میں نے زندگی کے 14 سال گزارے تھے،کافی دوست بنائے تھے پر جانے کی خوشی بھی تھی۔میں نے اپنا سامان پیک کیا اور ان کی کار میں بیٹھ کر ان کے ساتھ گھر کی طرف چل دی۔رستے میں انہوں نے اپنا تعارف کروایا میاں کا نام الطاف تھا اور ان کی بیوی کا نام آسیہ تھا ان کے 2 بیٹے تھے ان کو بیٹی کی خواہش تھی اس لیئے انہوں نے مجھے گود لیا تھا۔ گھر پہنچے کر انہوں نے اپنے بیٹوں سے میرا تعارف کروایا بڑا بیٹا 18 کی عمر کا تھا اس کا نام سلیم تھا اور چھوٹا بیٹا 16 سال کا تھا اس کا نام نعیم تھا۔انہوں نے روکھے منھ سے مجھ سے ہاتھ ملایا ان کی ناراضگی کا پتا بعد میں چلا کہ مجھے نعیم کا کمرا دیا گیا تھا رہنے کے لیئے اور نعیم کو سلیم کے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ان دونوں نے مجھے کبھی بہن تسلیم نہیں کیا تھا ہمیشہ میں کوشش کرتی تھی ان کے ساتھ گھل ملنے کی پر ان کی سرد مہری دیکھ کر میں پیچھے ہٹھ جاتی تھی۔میرے سوتیلے ماں باپ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے میرا خیال رکھتے تھے انہوں نے مجھے اپنی بیٹی ہی سمجھا تھا ہمیشہ ، ایک دن میرے امی ابو گھر سے باہر دوسرے شہر گئے تھے اور میں گھر اکیلی تھی ۔میں نے دوپہر کا کھانا بنایا اور اپنے بھائیوں کو بلانے ان کے کمرے میں گئی میں نے دیکھا دروازہ بند تھا میں نے دھکا لگایا تو دروازہ کھل گیا اندر کا منظر دیکھ کر میرے پیروں سے زمین کھسک گئی۔ سلیم اور نعیم دونوں ایک بلیو فلم دیکھ رہے تھے اور ان کے ہاتھ اپنے ٹراؤزر میں ڈالے ہوئے تھےکمرے میں سگریٹ کی سمیل پھیلی ہوئی تھی۔مجھ کو دیکھ کر دونوں گھبرا گئے نعیم نے مجھے غصے سے ڈانٹا اور کہا دفع ہو جاؤ میرے کمرے سے۔ میں ڈر کر سہم گئی اورجلدی سے ان کے کمرے سے نکل آئی اور اپنے کمرے میں آ گئ تھوڑی دیر بعد کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے سلیم کھڑا تھا۔میں نے پوچھا جی بھائی سلیم :سوری نعیم نے تم سے بد تمیزی کی تم میرے کمرے کی صفائی کر دو گی میں:جی بھائی میں ابھی کر دیتی ہوں میں سلیم کے ساتھ چل دی کمرے میں داخل ہوئی تو مجھے نعیم نے دبوچ لیا اور مجھے بیڈ پر گرا دیا میں گھبرا گئی میں نے غصے سے کہا مجھے چھوڑو نعیم :بہن چود تم ہماری شکایت ابو کو لگا دو گی آج کل تم ان کی بہت چہیتی ہو میں:نہیں میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی مجھے جانے دو میں بیڈ پر اس طرح لیٹی تھی میرے پاؤں زمین پر تھے مجھے بازؤں سے نعیم نے پکڑا ہو ا تھا پاؤں کی سائیڈ پر سلیم آ گیا تھا میرا سر بیڈ سے پیچھے کی جانب تھا میں نعیم کو تو دیکھ سکتی تھی سلیم کو نہیں مجھے نہیں پتا وہ کیا کر رہا تھا۔اچانک اس نے میری شلوار کو نیچے اتار دیا میں سمجھ گئی سلیم کیا کرنا چاہ رہا ہے میں نے اس کو واسطے دینا شروع کر دئےاس نے اب میری شلوار کو پورا اتار دیا میں نے ٹانگیں چلانا چاہی پر اس نے میری ٹانگوں کو دبوچ لیا اور میں دیکھ نہیں پا رہی تھی وہ کیا کر رہا ہے اچانک اس نے اپنا منھ میری چوت پر رکھ دیا اور اس کو چاٹنے لگ پڑا کچھ دیر چاٹنے کے بعد اس نے منھ ہٹایا اور نعیم سے کہا بھائی اسکی چوت تو بہت مزے کی ہے سالی سیل پیک ہے آج تو لا ٹری نکل آئی نعیم:میں بھی چکھنا چاہوں گا زرا تم اس کے ہاتھ پکڑو انہوں نے اتنی پھرتی سے اپنی جگہ بدلی میں اٹھ ہی نہیں پائی اب نعیم میری چوت کو مزے سے چاٹ رہا تھا اور سلیم میرے ہونٹوں پر زبردستی کس کر رہا تھا سلیم :بہن چود اب بس بھی کر میرا لنڈ پھٹنے پر آیا ہوا ہے پیچھے ہٹ جا نعیم :بھائی مجھے اسکی اوپننگ کرنے دو سلیم:میں تم سے بڑا ہوں میں ہی اوپننگ بیٹنگ کروں گا میں پچ کو تمھارے کھیلنے کے لائق تو بنا دوں دونوں ہنس پڑے۔انہوں نے دوبارا اپنی جگہ بدلی میں نے آخری کوشش کے طور پر اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی پر کچھ فائدہ نہیں ہوا اس نے اپنے لنڈ کو میری چوت پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے سے پورا لنڈ اندر ڈال دیا مجھے درد تو ہوئی پر اتنی نہیں جتنی پہلی بار ہوئی تھی اب چیخوں کی جگہ سسکاریوں نے لے لی تھی،اب وہ مجھے چود رہا تھا جم کر جھٹکے مار رہا تھا ۔میرے جسم نے اچانک اکڑنا شروع ہو گیا مجھے لگا میرے جسم کا سارا خون میری چوت کی جانب منتقل ہو گیا ہو میری آنکھیں جیسے اوپر چڑھ گئی تھیں۔نعیم :سالی چوت تیری ویسی ہی اتنی تنگ ہے اس کو اور کیوں بھینچ لیا ہے میں اس طرح جلدی چھوٹ جاؤں گا سلیم:ارے پگلے وہ فارغ ہونے والی ہے جم کر چدائی کر ایک دو جھٹکوں کے بعد ہی میجھے ایسے لگا میری چوت نے پانی چھوڑ دیا ہو اور اس کے بعد نعیم نے اپنا لنڈباہر نکالا اور میرے منھ کی جانب آ کر ساری منی میرے منھ پر گرا دی اسکی منی میرے منھ اور بالوں پر گری جسکو اس نے اپنی انگلی سے میرے منھ میں ڈالنے کی کوشش کی میں نے سر کو پیچھے ہٹانا چاہا پر اس نے مجھے بالوں سے پکڑا اور زبردستی اپنی انگلی کو میرے منھ میں ڈال دیا عجیب نمکین سا زائقہ تھا اس نے مجھے نگلنے کو کہا میں نے ناچار نگل لی اس کے بعد اس نے جتنی منی میرے منھ پر لگی تھی اسکو انگلی سے اکھٹی کر کر کے مجھے کھلایا۔میں نے روتے ہوئے اپنے کپڑے اٹھانے چاہےپر انہوں نے کہا سالی ابھی ایک ایک راؤنڈ اور باقی ہے۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا اور بلیو فلم چلا دی میں نے زندگی میں کبھی سیکسی فلم نہیں دیکھی تھی اس میں ایک لڑکی 5 بندوں سے سیکس کر رہی تھی اور انجوائے کر رہی تھی۔میں نے نطریں جھکائی ہوئی تھیں پر اس لڑکی کی آوازیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں،وہ دونوں فریج سے کوک کے کین اٹھا لائے تھے ایک مجھے بھی دیا میرا گلا خشک ہو چکا تھا میں نے خاموشی سے کین پینا شروع کر دیا۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ مووی دیکھ رہے تھے ساتھ ساتھ میرے جسم سے کھیل رہے تھے۔تھوڑی دیر میں ان کے لنڈ دوبارا تیا ر ہوچکے تھے انہوں نے کہا چلو ساتھ میں شاور لیتے ہیں آخری راونڈ وہاں پر ہی ہوگا میں خاموشی سے ان کے ساتھ چل دی، چلنے میں تھوڑی تکلیف ہو رہی تھی واش روم میں جا کر انہوں نے مجھے بیٹھنے کو کہا اور مجھے اپنا لںڈ چوسنے کو کہا۔ میں چپ چاپ ان کی باتیں مان رہی تھی میرے سامنے 2 موٹے تازے لنڈ میرے منھ میں جانے کے لئے بے تاب تھے۔میں نے نعیم کا لنڈ منھ میں لیا اور بلیو فلم میں جس طرح لڑکی چوس رہی تھی اس طرح اس کے لنڈ کو چوسنا شروع کر دیا۔ نعیم نے کہا اپنے دانتوں کو نہیں اپنے ہونٹوں کو استعمال کرو اس نے میری انگلی کو اپنے منھ میں لے کر مجھے چوس کر دکھائی اور اپنے منھ کو میری اانگلی پر اوپر نیچے کیا کبھی زبان نکال کر میری انگلی کو چاٹ کر مجھے سمجھایا کہ کیسے لنڈ کو چوستے ہیں۔ میں نے اس کی ہدایت پر عمل کیا تو وہ بہت خوش ہو گیا۔کوئی 5 منٹ چوسنے کے بعد وہ سامنے کموڈ پر بیٹھ گیا اور مجھے اپنے لنڈ پر بیٹھنے کا کہا میں اسکے لنڈ کو اپنی چوت پر سیٹ کیا اور اس کے لنڈ کو آہستہ اہستہ اندر لے لیا اب میں اس کے لنڈ پر اوپر نیچے ہو رہی تھی کچھ دیر کے بعد میری ٹانگیں تھک گئی تو اس نے مجھے زمین پر گھوڑی بننے کو کہا اور خود میری چوت کو جم کر چودنے لگا سلیم اب میرے منھ کی جانب آیا اور مجھے اپنا لنڈ چوسنے کو کہا ایک بھائی میری چوت کو چود رہا تھا اور ایک بھائی میرے منھ کو۔ اس بار کوئی 20 منٹ کے بعد نعیم نے اپنے لنڈ کو باہر نکالا اور اپنی گرم گرم منی میری پیٹھ پر گرا دی اب سلیم نے میرے منھ کو چھوڑا اور میری چوت کی طرف آیا،اس نے تیل کی شیشی اٹھائی اور اس نے کچھ تیل میری گانڈ پر گرایا کچھ اپنے لنڈ پرمیں سمجھی نہیں تھی وہ کیا کرنا چاہا رہا ہے اس نے میرے چوتڑ کھولے اور اپنے لنڈ کی ٹوپی کو میری گانڈ پر رکھ کر جھٹکا مارا مجھے ایسا لگا میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچ رہے ہوں درد کی شدید لہر میری گانڈ میں دوڑ گئی۔میں نے اتنی زور سے چیخ ماری میرا گلا بیٹھ گیا میں نے اس کو رو رو کر واسطے دینا شروع کر دیے




 سلیم:سالی تیری گانڈ بہیت ٹائیٹ ہے مجھے لگ رہا ہے میرے لنڈ کی کھال اتر رہی ہو ابھی صرف ٹوپی اند گئی ہے پورا لنڈ باقی ہے یہ سن کر ہی میرے اوسان خطا ہو گئے اس نے کہا میں پورا نہیں ڈالوں گا پر تیرے اس سوراخ کو تو رواں کرنا ہے نا آگے چل کر تو بہت کام آئے گی ہم دو بھائیوں کے،ابھی تو صرف آدھا بھی نہیں گیا تیرے اندر اس نے ایک دو جھٹکے مارے تو میں جیسے درد کے مارے بیہوش ہونے کے قریب ہو گئی تھی میں مسلسل رو رہی تھی ان دو جانوروں نے میری حالت خراب کر دی تھی شائید میری گانڈ کی سختی کی وجہ سے وہ جلدی فارغ ہو گیا مجھے لگا میری گانڈ میں کوئی گرم پگھلا ہوا لوہا گرا دیا ہو۔اس نے کچھ جھٹکے کھانے کے بعد اپنا لنڈ باہے نکال لیا۔مجھے ایسا لگ رہا تھا میری گانڈ میں کسی نے مرچیں بھر دی ہوں جلن اور درد بہت ہو رہا تھا ۔اس کے بعد ہم نے شاور لیا میں نے اپنے کپڑے پہنے ۔انہوں نے مجھے بیڈ کی چادر تبدیل کرنے کو کہا میں نے چادر تبدیل کی اور پرانی چادر کو جا کر دھویا بھی تاکہ اس پر لگے ہوئے میرے کنوارپن کے خون کے داغ دھل جائیں۔چادر بدلنے کے بعدمیں اپنے کمرے میں آگئی پورے جسم میں درد تھا میں بیڈ پر لیٹ کر اپنی قسمت پر رو رہی تھی۔ روتے روتے شام ہو گئی شام کو اٹھی تو فون کی گھنٹی بجی میں نے فون اٹھانا چاہا تو سلیم جلدی سے آیا اور مجھے دھمکاتے ہوئے کہا یہ یقینا ابو کا فون ہوگا تم نے ان کو کچھ بھی بتایا تو ہم تو ان کی اپنی اولاد ہیں ہم کو وہ کچھ نہیں کہیں گے تم کو گھر سے نکال دیں گے۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ فون اٹھانے کے بعد ابو نے مجھ سے حال احوال پوچھا میرا دل کیا میں زور زور سے چیخ کر ان کو انکے بیٹوں کے کرتوت بتا دوں پر مجھے سلیم کی دھمکی یاد آگئی تھی۔ میں نے ان کو کہا سب ٹھیک ہے آپ کب واپس آ رہے ہو انہوں نے دل دہلا دینے والی خبر سنا ئی کہ ہم آج نہیں آ سکتے کل دوپہر تک ہم پہنچ جائیں گے میں نے فون رکھ دیا سلیم نے دوسرے کمرے میں رکھے ہوئے ایکسٹینشن سے ساری باتیں سن لی تھیں اور وہ خوش ہو کر اپنے بھائی کو بتا رہا تھا دونوں بھائیوں کی خوشی کی وجہ میں سمجھ رہی تھی وہ آج کی رات مجھ سے اپنی گندی خواہشوں کواوراچھے طریقے سے سر انجام دینے والے تھے۔ شام کو سلیم باہر نکل گیا میں خاموشی سے گھر کے کام کرتی رہی کوئی گھنٹے کے بعد واپس آیا تو ساتھ میں کھانا لے آیا جو ہم نے مل کر کھایا میں خاموش رہی۔کھانے کے بعد میں نے برتن اٹھائے اور دھونے لگ پڑی کچھ دیر بعد سلیم نے مجھے آواز دی اور دو گلاس دودھ لانے کو کہا میں نے دودھ کو گرم کیا اور گلاسوں میں ڈال کر ان کے کمرے کے باہر آ کر دستک دی مجھے اندر جاتے ڈر لگ رہا تھا۔سلیم نے کہا اندر آ جاؤ میں:بھائی آپ دودھ پکڑ لیں مجھے گھر کا کام ہے سلیم:کام کی بچی میں نے کہا نا اندر آؤ ورنہ تجھے تیرے کمرے میں بھی آ کر چود سکتے ہیں۔ میں ججھک کر دروازہ کھول کر اندر چلی گئی ۔کمرے میں دونوں بھائی بیڈ پر بیٹھے تھے،میں نے ان کو دودھ پکڑایا سلیم نے جیب سے دو ٹیبلیٹ نکالی اور ایک خود کھائی اور دوسری نعیم کو دی جو اس نے بھی کھا کر خالی گلاس میرے حوالے کر دیا۔میں خالی گلاس لے کر واپس مڑنے لگی تو سلیم نے میری گانڈ پر زوردار تھپڑ مارا اور کہا ۔ جان تیار رہنا یہ گولی تیرے لئیے کھائی ہے آج تجھے مزے کی بلندیوں پر پہنچائیں گے۔ میں کچھ سمجھ نہیں پائی اور سر جھکا کر ان کے کمرے سے نکل آئی۔ میں کچن میں گلاس رکھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دی ابھی کمرے تک نہیں پہنچی تھی تو مجھے سلیم نے آواز دی اور کہا آ جاؤ میرے کمرے میں ۔ میں نے سر ہلا کر انکار کیا اور کہا نہیں میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے مجھے سونے دو۔ سلیم:بہن چود سالی رانڈ ہم نے گولی کھائی ہے ٹائمنگ والی کچھ دیر میں اس کا اثر شروع ہو جائے گا ۔ میں:نہیں مجھ کو دوپہر والا درد ابھی تک ہو رہا ہے سلیم نے غصے سے آ کر میرے بال پکڑ لئیے اورکہا تم کو پیار کی زبان سمجھ نہیں آتی شائید میں:اچھا بال چھوڑو میں آتی ہوں اس نے جیسے بال چھوڑے میں نے بھاگ کر اپنے کمرے میں جانا چاہا پر اس نے مجھے پکڑ لیا اور اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آیا۔ کمرے میں ٹی وی پر بلیو فلم چل رہی تھی ۔دونوں مل کرفلم دیکھنے لگ پڑ ے اور مجھ کو بیچ میں بٹھا لیا دونوں نے اپنے لنڈ ٹراؤزر سے باہر نکال لیئے اور مجھ کو پکڑنے کو کہا میں نے دونوں مل کرفلم دیکھنے لگ پڑ ے اور مجھ کو بیچ میں بٹھا لیا دونوں نے اپنے لنڈ ٹراؤزر سے باہر نکال لیئے اور مجھ کو پکڑنے کو کہا میں نے دونوں ہاتھوں سے ان کے لنڈ کو پکڑ لیا۔میں دونوں کے لنڈ کو پکڑ کر بیٹھی بلیو فلم دیکھ رہی تھی۔اب نعیم نے اپنا ہاتھ میری شلوار میں ڈال دیا اور سلیم میرے مموں کو پکڑ کر دبانے لگ پڑا ۔نعیم نے اپنی انگلی میری چوت میں ڈال دی اور سلیم سے کہا سالی کی چوت گیلی ہو رہی ہے یہ بھی انجوائے کر رہی ہے اب دونوں مجھ پر ٹوٹ پڑے ایک میری چوت کو مسل رہا تھا اوردوسرا میرے بوبس کونوچ رہا تھا ۔کبھی نعیم مجھے کس کرنے لگ پڑتاتو کبھی سلیم، اب دونوں فل تیا ر ہو چکے تھے ہم بیڈ پر آ گئےان دونوں نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھےمجھے بھی کپڑے اتارنے کو کہا مجھے پتا تھا اب کوئی اور چارہ نہیں ہے اس لئے ان کی بات مان کر میں نے اپنے کپڑے اتار دئے اور بیڈ پر لیٹ گئی نعیم میری چوت کی طرف آ گیا اور اپنے منھ کو میری چوت پر رکھ کر اپنی زبان سے چاٹنے لگ پڑا اس کی زبان کبھی میری چوت کے اندر جاتی کبھی میری چوت کے اوپر بنے ہوئے دانے کو چاٹتتی ۔مجھے اب مزہ آ رہا تھا میرے منھ سے مزے سے سسکاریا ں نکل رہی تھیں۔سلیم نے اپنے لنڈ کو میرے منھ کے پاس لا کر مجھے اس کو چوسنے کا کہا




میں نے خاموشی سے اس کے لنڈ کو منھ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا میرے چوسنے کی وجہ سے اس کا لنڈ اکڑنا شروع ہو گیا کافی دیر تک چوسنے کے بعد سلیم نے مجھے اپنے اوپر آنے کو کہا اور خود لیٹ گیا میں نے اس کے لنڈ کو اپنی چوت کے اوپرسیٹ کیا اور آہستہ آہستہ اندر لینا شروع کر دیا آدھے سے زیادہ اندر جانے کے بعد مجھے ہلکی ہلکی درد شروع ہوگئی میں نے اس کو رکنے کا کہا پر اس نے نیچے سے زوردار جھٹکا مارا اور پورا لنڈ میری چوت کی گہرائیوں میں اتار دیا۔میرے منھ سے ہلکی چیخ نکلی اب اس نے مجھے اوپر نیچے ہونے کا کہا نعیم اٹھ کر واش روم چلا گیا اور میں سلیم کے لنڈ پر اوپر نیچے ہونا شروع ہو گئ کچھ دیر بعد نعیم واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں تیل کی شیشی دیکھ کر میں سمجھ گئی وہ کیا کرنا چاہ رہا ہے ۔میں نے سلیم کے اوپر سے اٹھنے کی کوشش کی پر اس نے مجھ دبوچ لیا اور پیچھ سے نعیم نے تیل میری گانڈ کے اوپر انڈیل دیا اور کچھ تیل انگلی کی مدد سے میری گانڈ کے سوراخ کے اندر تک ڈال دیاباقی تیل اس نے اپنے لنڈ پر مل لیا اور بیڈ پر چڑ ھ کر اپنے لنڈ کو میری گانڈ کے سوراخ پر سیٹ کر نے لگا میں نے کہا پلیز مجھے پیچھے سے نا کرو مجھے بہت درد ہوتا ہے اس نے کہا میں صرف ٹوپی ڈالوں گا تم کو زیادہ درد نہیں ہوگا۔ میں چپ ہو گئی اس نے تھوڑا زور لگاکر اپنی ٹوپی کو میری گانڈ میں گھسا دیا میں نے درد کے مارے تکیے پر دانت گاڑ دئیے درد تو تھا پر برداشت ہو رہا تھا اب نیچے سے سلیم نے دوبا رہ دھکے مارنے شروع کر دئیے ایک دم نعیم نے پورا زور لگایا اوراپنا لنڈ پورا میری گانڈ میں گھسا دیاتیل کی وجہ سے اسکا لنڈ میری گانڈ کو چیرتا ہوا اندر چلا گیا۔میں نے چیخ ماری اور زبح کی ہوئی مرغی کی طرح تڑپنے لگ پڑ ی میری آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے خود کو کوس رہی تھی کہ میں کن جانوروں میں پھنس گئی ہوں۔کچھ درد تھما تو ان دونوں نے دھکے مارنے شروع کر دئیے دونوں کسی مشین کی طرح مجھے چود رہے تھے آج تو فارغ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے میں دعا مانگ رہی تھی کہ جلدی فارغ ہوں پر شائید یہ اس گولی کا کمال تھا جو انہوں نے کھائی تھی۔30 منٹ کی دھواں دار چدائی کے بعد اب انہوں نے پوزیشن چینج کر لی تھی اب چوت کا محا ز نعیم نے سنبھالا تھا اور گانڈ کا سلیم نے ہم تینوں پسینے سےشرابور ہو چکے تھے میں 2 بار فارغ ہو چکی تھی 30 منٹ کی اور چدائی کے بعد سلیم نے میری گانڈ کے اندر ہی اپنی گرم منی کوانڈیل دیا تھا۔نعیم نے کچھ دیر اور چودنے کے بعد اپنے لنڈ کو میری چوت سے نکالا اور میرے منھ میں دے دیا میں نے اس کو چوسنے لگ پڑ ی اس کے لنڈ پر میری چوت کا رس لگا ہواتھا اب ایک دو بار ہی اپنے منھ کو اسکے لنڈ پر اوپر نیچے کیا تھا کہ اس نے گرم گرم منی ایک زوردار جھٹکے سے میرے منھ میں انڈیل دی میں نے اس کے لنڈ کو باہر نکالنا چاہا پر اس نے میرے منھ کو اوپر دبا دیا کچھ منی میرے حلق سے اتر گئی اور کچھ میرے منھ سے باہر نکل گئی مجھے ابکائی آنے لگی تو مجھے چھوڑا اس کا لنڈ میرے منھ سے نکل گیا اسکا لنڈ ابھی بھی جھٹکے کھا رہا تھا اور ہر جھٹکے سے اس کے لنڈ سے منی نکل کر میرے گریبان پر گر رہی تھی میں بڑی مشکل سے ابکا ئی کو روکا ۔دونوں بے حال ہو کر گر گئے تھے نعیم نے سلیم سے کہا آج تو مزہ آ گیا پہلے لگ رہا تھا ڈیڈی نے اس کو گھر لا کر غلطی کر دی ہے پر یہ تو ہم دونوں کے کھیلنے کے لئیے مست چیز ہے دونوں ہنس دئیے اس رات دونوں نے 3 ،3 بار مجھ کو چودا ان کا ارادہ تو اور بھی تھا میں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی اور اپنے کمرے میں آ گئی۔ صبح اٹھی تو جسم میں درد تھا اور رات کی تھکاوٹ کی وجہ سے مجھے بخار ہو گیا تھا۔ دوپہر کو شکر ہے امی ابو واپس آ گئے مجھے بخار میں دیکھ کر امی گھبرا گئیں اور مجھے دوائی کھلائی ان کا ایثار دیکھ کر مجھے رونا آ گیا ان کے بیٹے میری عزت کو تار تار کر چکے تھے ۔شام تک میرا بخا ر بھی اتر گیا زندگی معمول پر آ گئی اب وہ دونوں اپنی امی ابو کو دکھا نے کے لئیے ان کے سامنے مجھے اپنی بہن تسلیم کر چکے تھے پر ان کو جب بھی موقع ملتا وہ دونوں میرے جسم سے کھیلتے اور میں نے بھی اب ان کے کھیل کو تسلیم کر لیا تھا اور ان کا ساتھ دیتی تھی ۔اور اب تو میں نے خود اس کھیل میں مزہ لینا شروع کر دیا تھا ۔ہم جب بھی اکیلے ہوتے بلیو فلمز دیکھتے ایک دوسرے کی جسم کی آ گ بجھاتے ۔ابو کے جانے کے بعد ایک بھائی کمرے سے باہر پہرا دیتا کہ امی نا آ جائے دوسرا بھائی مجھے چودتا ۔اگر امی ان کے کمرے کی طرف آنے لگتی تو پہرے پر کھڑ ا بھائی ہم کو اشارہ کر دیتا ہم جلدی سے ویڈیو گیم کھیلنا شروع کر دیتے اس طرح کسی کو شک بھی نہیں ہوتا۔ بس یہی کچھ ہی زندگی کا حصہ تھا۔گھر والوں اور دنیا کی نظر میں ہم بہن بھائی تھے پر اصل میں ہم ایک دوسرے کے سیکس پارٹنر۔

 



بوڑھی عورت سے دوستی ھوگئی

 

 
بوڑھی عورت سے دوستی ھوگئی

ھیلو دوستو میرا نام صفدر ھے۔ میں بہت چکنا ھوں میری باڈی شیروں جیسی ھے اور میرا لن نو انچ لمبا اور چار انچ موٹا ھے اور لن کا ٹوپہ لن سے موٹا اور پینک ھے اور لن کی ٹائمنگ بہت لمبی ھے۔ ھم گھر کے افراد چار ہیں مماپاپا بہن اور میں۔ تو دوستو میری ایک آنٹی سے دوستی ہوگئی جس کے منہ میں ایک دانت بھی نہیں تھا آنٹی سے میری دوستی کیسے ھوئی آپ دوستوں سے شیر کرتا ھوں۔ پاپا کراچی میں جوب کرتا تھا پھر پاپا نے ھم گھر والوں کو بلا لیا پھر ھم پاپا کے ساتھ رہنے لگے اس وقت میں سترا سال کا تھا یہاں میرے کچھ دوست بنے میرے دوست اکثر نگی فلمیں دیکھتے دوستوں کی وجہ سے مجھے بھی نگی فلمیں دیکھنے کی لت لگ گئی فلمیں دیکھ کر میں مٹھیں بھی بہت مارنے لگا ایک بار ایسا ھوا کے دوپہر کو مما نے مجھے اٹھایا اور کہا صفدر شگفتہ آنٹی بہت بیمار ھے اس کا کوئی نہیں ھے اسے ڈوکٹر کے پاس لے جانا ھے تم میرے ساتھ چلو میں نے کہا کون سی شگفتہ آنٹی کہا وہ جو تیسرے گھر میں رہتی ھے۔ شگفتہ آنٹی کو میں نے نہیں دیکھا تھا جب میں مما کے ساتھ شگفتہ آنٹی کے گھر گیا تو شگفتہ آنٹی کو دیکھا تو شگفتہ آنٹی بہت کمال کی عورت تھی خوبصورت سا چہرہ بڑے ممے موٹی گانڈ فگر تو ایک دم سیکسی تھا شگفتہ آنٹی ابھی بھی جوان تھی شگفتہ آنٹی کو کوئی دیکھ کر اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کے شگفتہ آنٹی بوڑھی ھے

 

شگفتہ آنٹی کے صرف منہ میں دانت نہیں تھے شگفتہ آنٹی واقعی بہت بیمار تھی بہت تیز کا بخار تھا شگفتہ آنٹی کو ھم ڈوکٹر کے پاس لے گئے پھر واپس آئے تو مما نے شگفتہ آنٹی کی دیکھ بھال کیلئے میری ڈیوٹی لگا دی اور میں شگفتہ آنٹی کی دیکھ بھال دن رات کرنے لگا اور دن رات شگفتہ آنٹی کے ساتھ رہتا شگفتہ آنٹی کا بیڈ بڑا تھا اس لئے میں شگفتہ آنٹی کے ساتھ سائڈ میں سوتا میرا بہت من کرتا کے شگفتہ آنٹی کو چود دوں کیونکہ شگفتہ آنٹی بہت خوبصورت تھی شگفتہ آنٹی کو دیکھ دیکھ کے میرا لن کھڑا رہتا۔ لیکن جب شگفتہ آنٹی کو بیماری میں دیکھتا تو بہت ترس آتا اور پیار تو بے پناہ آتا پھر آنٹی بماری سے دھیرے دھیرے ٹھیک ھونے لگی اب شگفتہ آنٹی باتیں بھی کرنے لگی اور ہماری خوب گپشپ ھوتی اور ھم دوست بننے لگے پھر شگفتہ آنٹی بلکل ٹھیک ٹھاک ھوگئی۔ ایک بار شگفتہ آنٹی نے مجھ سے کہا کوئی گلفرینڈ ھے میں نے کہا نہیں ھے۔ پھر میں نے شگفتہ آنٹی سے کہا۔ کیا آپ کو کسی سے پیار ھوا تھا تو شگفتہ آنٹی نے ٹھنڈی آہ لےکر کہا۔ کیا یاد دیلا دیا ھے میں نے کہا بتاؤ کہا میری جوانی میں مجھ پر بہت سے لڑکے عاشق تھے میں نے ان کا کبھی دل نہیں توڑا ان لڑکوں میں سے ایک لڑکا مجھے بہت پسند تھا بس اس سے بہت پیار کیا تھا وہ تھا میرا پیار پھر اس کی شادی ہوگئی بس اس سے پیار کیا تھا بس کہے کر چپ ھوگئی میں نے کہا اور کہا سناتو دیا میں نے کہا نہیں آنٹی ساری بات بتاؤ منع کرنے لگی میں بھی ضد کرتے کہا مجھے تفصیل سے بتاؤ رات کو آپ کے پاس ھوں پھر بتایا کے جس لڑکے سے مجھے پیار ھوا اسی نے میرے کنوارے پن کو ختم کیا میں نے پھر کہا صاف صاف بتاؤ آنٹی ایسے مزہ نہیں آرھا آنٹی نے مسکرا کر کہا مجھے شرم آتی ھے میں نے کہا آنٹی مجھ سے شرم نہ کرو پلز۔ پھر آنٹی نے کہا اس لڑکے نے میری دونوں سیلیں کھولیں میں نے کہا کون سی سیلیں۔ شگفتہ آنٹی نے مسکرا کر کہا میری چوت اور گانڈ کی پھر ھم بہت چدائی کرتے تھے پھر جب وہ چلا گیا مجھے چدائی کے بنا مزہ نہیں آتا تھا پھر میرے جتنے عاشق تھے ایک ایک کرکے میں سب سے مزے کرتی آنٹی کی باتیں سن کر میرا لن کھڑا ھو گیا آنٹی کے سامنے اپنے کھڑے لن کو سہلاتا اور آنٹی بھی دیکھتی میں بہت ھوٹ ھوگیا میں نے کہا آنٹی کیا اب بھی آپ کا من کرتا ھے تو آنٹی نے کہا من تو بہت کرتا ھے لیکن اب اس عمر میں مجھ سے کون کرے گا میں نے کہا آنٹی اگر برا نہ مانیں تو میں ایک بات کہوں کہا ہاں بولو میں نے کہا آپ میرے ساتھ کر سکتی ھو کہا نہیں میں نے کہا کیوں کہا ابھی تم بچے ھو اور کسی کو پتا چلا تو۔ میں نے کہا میں کسی کو نہیں بتاؤ گا پلز آنٹی۔ تو آنٹی خاموش ھوئی۔ میں پلز پلز کرتے آنٹی کو چومنے لگا اور آنٹی کے اوپر چڑھ گیا اور چومنے لگا کچھ دیر آنٹی مست رھی پھر چھڑاکر کہا میں تیری مما کی عمر کی ھوں اور اتنی دیر میں گیٹ بجنے کی آواز آئی میں نے گیٹ کھولا تو مما کھانا لائی تھی کچھ دیر باتیں کی میں نے مما سے آنٹی کے ساتھ رات رہنے کو کہا پھر مما چلی گئی میں گیٹ بند کرکے آنٹی پر چڑھ گیا آنٹی منع کرتی رہی میں لگا رھا پھر آنٹی نے کہا کھانا کھاکر مجھے دوائی کھانی ھے میں اور آنٹی نے کھانا کھایا آنٹی کی بہت تعریف کی آنٹی نے کہا مجھے دانتوں کی بیماری ھوئی اور میرے سارے دانت جھڑنے لگے اسی طرح میری ساری بتیسی ختم ھوگئی۔ پھر میں نے آنٹی کو دوائی دی میں نگا ھوکر ساری رات آنٹی کو چومتے ھوئے چدائی کا کہتا رہا لیکن آنٹی نے چدائی نہیں کرنے دی اور میں نگا ھی سو گیا صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں آنٹی کی باھوں میں تھا میں چومنے لگا آنٹی نے منع کیا اور دوسری طرف منہ کر کے لیٹی میں پیچھے سے آنٹی کو باھوں میں بھر کر مموں کو دباتے ھوئے آنٹی کی گانڈ کے ہیپ میں لن رگڑنے لگا اور آنٹی چپ کرکے پڑی رھی میں آنٹی کی گانڈ سے شلوار اتارنے لگا آنٹی نے میرا ہاتھ ہٹا دیا بہت دیر بعد میں فاریغ ھوا اور سیدھا لیٹ گیا پھر آنٹی میری طرف ھوکر مجھے دیکھ کر مسکرا کے کہا کپڑے پہن لو تیری مما آنے والی ھوگی میں بھی کپڑے بدل لیتی ھو تم نے میری شلوار خراب کر دی ھے۔ اور اتنی دیر میں گیٹ بجا مما تھی میں نے کپڑے پہنے اور آنٹی نے اپنی گانڈ کی شلوار سے میری منی کو کپڑے سے صاف کیا میں نے گیٹ کھولا مما آئی اور آنٹی سے کہا صفدر نے تنگ تو نہیں کیا آنٹی نے میری تعریف کی میرا لن کھڑا تھا آنٹی نے مجھے پاگل کیا ھوا تھا پھر مما نے گھر کا سامان لانے کو کہا میں سامان لینے چلا گیا۔ سامان لےکر مما کو دےکر شگفتہ آنٹی کے پاس آیا اور نگا ھوکر آنٹی پر چڑھ کیا پھر رات کو مما آئی مجھے آنٹی کی داوائیاں لینے کو کہا میں دوائیاں لایا اور مما ابھی آنٹی کے پاس تھی مما نے مجھ سے کہا گھنٹے ڈیڈھ گھنٹے تک آنا اور کھانا لے جانا مما چلی گئی پھر میں نگا ھوکر آنٹی پر چڑھ گیا ڈیڈھ گھنٹے تک لگا رھا فاریغ ھوا تو آنٹی نے کھانے کا کہا میں کھانا لینے گیا۔ جب میں نگا ھوتا تو آنٹی کے چہرے پر بہت خوشی دیکھتا اور آنٹی مما سے شکایت بھی نہیں کرتی تھی بلکہ میری تعریف کرتی میں آنٹی کی قمیض اور شلوار اتارنے کی کوشش کرتا مگر اتارنے نہیں دیتی تھی میں آنٹی کو خوب چومتا اب آنٹی بھی مجھے باھوں میں بھر کر خوب چومتی کبھی آنٹی کو اپنے اوپر کرتا کبھی نیچے کرتا اور لن کو خوب رگڑتا مموں کو خوب دباتا اب آنٹی بھی مجھے اپنی باھوں میں بھر کر خوب دباتی کبھی منہ کا پیار کرتی ھونٹ زبان چوستی اب آنٹی خود میرے اوپر آتی لن پر چوت رگڑتی کبھی آنٹی اپنی ٹانگیں اٹھاکر مجھے اپنے اوپر کرتی میں چوت پر لن رگڑتا آنٹی میری گانڈ پر اپنی ٹانگیں رکھ کر مجھے باھوں میں بھر کر چومتی میں لن کی رگڑائی کرتا جب میں آنٹی کی چوت کو سہلاتا تو میرا ہاتھ ہٹا دیتی کبھی میں آنٹی کی ٹانگیں اٹھا کر شلوار پر آنٹی کی چوت پر لن رگڑتا کبھی آنٹی کو الٹا ھونے کو کہتا تو آنٹی الٹی لیٹ جاتی اور میں آنٹی کی گانڈ کے ہیپ میں لن رگڑتا ایک رات کو شگفتہ آنٹی کی شلوار پر چوت کو پیار کرنے لگا آنٹی نے ہٹانے کی بڑی کوشش کی لیکن میں لگا رھا اور شلوار کو تھوک سے گیلا کر دیا جب میں تھک کر لیٹتا تو شگفتہ آنٹی مجھے اپنی باھوں میں بھر لیتی اور لن پر اپنی ٹانگ رکھ دیتی میں پھر مستی میں آجاتا کالج کے آنے کے بعد میں آنٹی کے ساتھ مست ھوتا دن رات آنٹی کے ساتھ اسی طرح کشتی ھوتی ایک دن دوستو نے مجھے گھیر لیا اور رات کے نو بجے چھوڑا میں آیا اور آنٹی کے ساتھ لیٹ گیا آنٹی نے کہا آج کپڑے پہن کر سو رھے ھو میں نگا ھوکر آنٹی کے ساتھ کشتی کرنے لگا ایک دن مما نے گھر سونے کو کہا مما کے جانے کے بعد آنٹی نے کہا مما کو منع کرو نہیں تو مجھے نیند نہیں آئے گی میں نے کہا آنٹی کرنے تو دیتی نہیں ھو اس سے اچھا ھے گھر سویا کروں کہا اگر کرنے دوں تو مجھے چھوڑو گے تو نہیں میں نے کہا کبھی نہیں چھوڑوں گا کہا ساری زندگی ساتھ دوگے میں نے کہا میں وعدہ کرتا ھوں آپ کو ہمیشہ خوش رکھوں گا اور آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا کہا ٹھیک ھے تم مما کو منع کرو میرے لن کو پکڑ کر کہا ساری راتیں میں بھی تیرے ساتھ نگی رھوں گی پہلے مما کو منع کرو پھر مجھے پیسے دیئے کہا پہلے مجھے ایک ریزر لادو میں نے کہا کیوں میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی چوت پر رکھ کر کہا اس کی شیب کروں گی پھر لن کو پکڑ کر کہا تم بھی اس کی شیب کر کے آنا اب جاؤ میں نے ریزر لاکر دیا چومنے لگا کہا تم تیار ھوکر آؤ میں گیا مما کو منع کرکے لن کی شیب کر کے آیا میں بہت خوش تھا کے آج سے آنٹی کے ساتھ چدائی ھوگی جب میں اندر آیا تو شگفتہ آنٹی نے مست میکپ کیا ھوا تھا اور سیکسی ڈریس پہنا تھا میں تو دیکھ کے پاگل ہو گیا شگفتہ آنٹی نے مجھے باھوں میں بھر کر اپنا منہ میرے منہ میں دیا ھم ھونٹ زبان چوسنے لگے شگفتہ آنٹی نے مجھے بیڈ پر لیٹا کر میرے اوپر آکر مجھے چومنے لگی پھر شگفتہ آنٹی نے میری شیٹ اتار دی پھر اپنی قمیض اتار کر اپنے بڑے ممے دیکھائے آف شگفتہ آنٹی کے کیا مست ممے تھے میں تو دبانے اور چومنے چوسنے میں مست ھوگیا پھر شگفتہ آنٹی نے اپنی شلوار اتارنے لگی میں نے جلدی سے اپنی پینٹ اتار دی اب ھم دونوں نگے تھے مجھے کہا تم لیٹو میں لیٹا میرے لن کو اپنے ہاتھ میں لے کر کہا تیرا لن بہت پیارا ھے سچ میں آج تک میں نے اتنا لمبا اور موٹا لن زندگی میں نہیں دیکھا پھر لن کو چومنے لگی پھر لن کو جو چوپے لگائے اف میں تو مست ھوگیا آنٹی تو فل ھوٹ تھی بہت دیر تک لن کو چومتی اور چوپے لگاتی رھی پھر لیٹ کر اپنی چوت دیکھائی شگفتہ آنٹی کی چوت دیکھ کے میں تو مستی میں چومنے چاٹنے لگا میرا تو چھوڑنے کو من نہیں کر رہا تھا پھر میرے اوپر آکر اپنی چوت میں لن لےکر فل جوش سے چدائی کرنے لگی پھر گھوڑی بنی ہر طریقے سے چدائی کرتی رھی پھر شگفتہ آنٹی کی چوت نے رس چھوڑا تو کہا گانڈ میں چدائی کرو پھر گانڈ کی چدائی کی مجھے کہا جب لن کا پانی نکلنے والا ھو تو بتانا میں پیوں گی میں نے بتایا کے نکلنے والا ھے لن کو منہ میں لےکر چوپے لگائے سارا پانی شگفتہ آنٹی کے منہ میں نکلا سارا پانی پی گئی اسی طرح ساری رات چدائی کی پھر مموں کی چدائی کا کہا اف مموں کو چودنے کا الگ مزہ تھا میں اور آنٹی دن رات چدائی کرنے لگے میں جب کالج سے آتا شگفتہ آنٹی میکپ میں فل تیار ھوتی اچھے سے اچھا کھانا بناتی مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلاتی ایک رات شگفتہ آنٹی نے کہا ھم ایک دوسرے کی مساج کرتے ہیں ھم دونوں نے ایک دوسرے کی مساج کرتے چدائی کی پھر شگفتہ آنٹی کو دانو والے ڈاکٹر کے پار لے گیا آنٹی کی بتیسی بنی جب بتیسی لگائی تو آنٹی پہلے سے بہت خوبصورت ھوگئی ھم نے چار سال تک چدائی کی شگفتہ آنٹی اور میں نگے سوتے پھر مجھے جوب ملی اور اپارٹمنٹ بھی ملا آنٹی سے کہا میرے ساتھ چلو کہا کب چلنا ھے میں نے بتایا اور مما کو اس بات کا پتا چلا کے ھم چدائی کرتے ہیں اور میں شگفتہ آنٹی کو ساتھ لے جاؤں گا مما نے منع کیا تو میں نے کیا میں شگفتہ کے بنا نہیں رھے سکتا  اس شگفتہ آنٹی سے شادی کر لوں گا پہلے تو مما بہت ناراض ھوئی پھر مان گئی پھر میں اور شگفتہ آنٹی یہاں رہنے لگے ھم خوب چدائی کرتے اور نگے رہتے آنٹی اب بھی جوان تھی بوڑھی نظر نہیں آتی تھی شگفتہ آنٹی کے دانت نہ ھونے سے لن کو چوپے لگاتی  تو مجھے بہت مزہ آتا پھر میں نے شگفتہ آنٹی سے نکاح کر لیا پھر شگفتہ پیٹ سے ھوگئی پھر میرا بیٹا ھوا شگفتہ مجھے کہتے تم نے اپنا وعدہ پورا نبھایا شگفتہ مجھے ہر طرح سے خوش رکھتی ھے اور میں بھی خوش رکھتا ھوں ھم دونو آپس میں بہت پیار کرتے ہیں اس وقت میری عمر پینتالیس ھے اور شگفتہ اب بھی  ویسی جوان لگتی ھے اور شگفتہ میں آج بھی وھی مزہ ھے

 

۔۔

شادی کی پہلی رات۔ ایک نئی کہانی

 

شادی کی پہلی رات

شادی کی پہلی رات تھی اور میں بہت گھبرا رہی تھی، جسم کانپ رہا تھا، یہ سوچ کر ہی میری جان نکل رہی تھی کہ اگر سلمان کو پتہ چل گیا کہ میں کنواری نہیں رہی،تو شاید وہ مجھے جان سے ہی مار دے گا۔کیونکہ میرے پیٹ میں طارق کا بچہ تھا۔،سردیوں کے وہ رات میں کبھی نہیں بھول سکتی تھی،جب میں اور طارق اک غلطی کر بیٹھے تھے۔ آخر سلمان رات بارہ بجے کمرے میں د ا خل ہوا، میرا دل دھک دھک کرنے لگا، کیونکہ میرا راز کھل جانا تھا، پھر سہاگ رات کا آغاز ہوا تو اچانک میرا شوہر میرا جسم دیکھ کر آگ بگولہ ہو گیا اور میری؟؟؟

------------------

کرن میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی کیونکہ اسے ڈ اکٹر بننے کا بہت شوق تھا اس لیے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لیا اور دل لگا کر پڑھنے لگی، کرن کی کلاس میں ایک بہن بھائی بھی پڑھتے تھے، کرن کی ان سے دوستی ہو گئی۔طارق اور اس کی بہن کا زیادہ وقت کرن کےساتھ گزرتا تھا، وہ دونوں بہت آزاد خیال تھے۔

کرن اور طا رق ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور میڈیکل کی تعلیم کے بعد شادی کا پلان بھی بنا لیا، لیکن زندگی میں جو سوچا جائے ویسا نہیں بھی ہوتا۔کرن ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، ایک رات نے اس لڑکی کا سب کچھ برباد کر دیا،اس کی زندگی میں ایسی بھیانک رات آئی کہ سب کچھ برباد ہو گیا۔

طارق بہت جذباتی لڑکا تھا، وہ شادی سے پہلے کے جنسی تعلق کو وقت کی ضرورت سمجھتا تھا، لیکن کرن نے اس کا ایسے کسی بھی معاملے میں ساتھ نہ دیا، جب بھی وہ ایسی بات کرتا کرن شرم محسوس ہونے لگتی،اور اسے اک حد میں رکھتی تھی، لیکن پھر بھی اسے جب بھی موقع ملتا وہ کوئی نہ کوئی شرارت ضرور کر لیتا تھا۔اس کا صبر جواب دے رہا تھا اور کرن ، طارق کو خود سے دور بھی نہیں کرنا چاہتی تھی اور پاس بھی نہیں آنے دے رہی تھی۔ کبھی کبھی وہ خود اس کشمکش میں مبتلا ہو جاتی کہ کیا اسے طارق کی بات مان لینی چاہیے؟

ایک سال بیت گیا، اور ایک ہفتہ کی چھٹی آئی تو سب نے باہر گھومنے کا پروگرام بنا لیا،اس طرح کرن، طارق، اسکی بہن نبیلہ اور ایک ان کا کزن حاشر کاغان کے لیے روانہ ہوئے، انہوں نے خوب انجوائے کرنے کا سوچ رکھا تھا، لیکن نہ جانے کیوں اک انجانہ سا خوف کرن کو گھیرے ہوئے تھا۔اسے لگتا تھا جیسے کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔


ہوٹل میں ایک ہی کمرہ لیا گیا ، کرن نے اعتراض کیا کہ ہم لڑکیوں کے لیے الگ کمرہ ہونا چاہئے، لیکن طارق نے ہنس کر ٹال دیا۔

خیر سب تھکے ہوئے تھے اس لیے کچھ دیر کے لیے آرام کرنے لگے، پھر طارق نے کرن کو ساتھ لیا اور کچھ ضروری ارینج منٹ کے لیے باہر آ گئے، انہیں ایک گاڑی چاہئیے تھی اور کچھ کیمپنگ کا سامان بھی، ہوٹل کے کمرے میں نبیلہ اور حاشر اکیلے تھے، ایک گھنٹے بعد دونوں واپس آئے تو ہوٹل کے پاس پہنچ کر طارق کو کچھ یاد آیا اور کرن کو کمرے میں جانے کا کہ کر واپس بازار چلا گیا، کرن ہوٹل میں د اخل ہوئی اور اپنے کمرے کی جانب بڑھی،لیکن جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا، اچانک رک گئی، کمرے میں نبیلہ اور حاشر ایک شرم ناک کھیل میں مصروف تھے، ایسی آوازیں آ رہی تھیں کہ کرن سمجھ گئی کہ پچھلے ایک گھنٹے سے کمرے میں کیا چل رہا تھا۔

کرن کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ اب کیا کرے اس لیے ہوٹل کے لاؤنج میں بیٹھ کر طارق کا انتظار کرنے لگی۔آدھا گھنٹہ بعد طارق آیا تو اس نے پوچھا کہ باہر کیوں بیٹھی ہو؟ کرن کہنے لگی: کچھ نہیں، میں تو آپ کا انتظار کر رہی تھی، لیکن اب کرن گھبرا بھی رہی تھی کہ کہیں ابھی تک کمرے میں وہی چکر نہ چل رہا ہو، کیونکہ کچھ پتہ نہیں تھا کہ طارق کا ردِعمل کیا ہوتا۔

طارق نے کرن سے چابی لی اور کمرے کا دروازہ کھولا تو کرن کا دل دھک دھک کر رہا تھا، لیکن اندر کا منظر دیکھ کر کرن کو سکون ملا، نبیلہ نہا رہی تھی اور حاشر بیڈ پر لیٹا سو رہا تھا، طارق بھی شرارت کے موڑ میں تھا، اور کرن کو باہوں میں بھر لیا، وہ بچاری گھبرا گئی کہ کہیں حاشر نے دیکھ لیا تو ؟

طارق نے حاشر کو جگایا اور تیاری کرنے کا کہا، نبیلہ نہا کر باہر آ گئی اور حاشر کر دیکھ کر مسکرا رہی تھی، حاشر بھی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا، کرن دونوں کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ دونوں اک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور ان کو حد میں رہنا چاہئے۔

سب نے ناشتہ کیا، اور گاڑی میں بلند و بالا پہاڑی علاقوں کی سیر کو نکل گئے، موسم بھی اچھا تھا، بارش ہو سکتی تھی، سردی بھی کافی تھی۔حاشر نے طارق سے پوچھا کہ کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ طارق نے کوئی جواب نہ دیا اورمسکرا رہ گیا، پھر بولا: سب کے لیے سرپرائز ہے۔طارق بہت دور نکل آیا تھا، چند لوگ موجود تھے جو اب واپس جا رہے تھے، حاشر اور طارق نے گاڑی سے سامان نکالا اور دو خیمے نصب کرنے لگے، ان کا ارادہ یہاں رات گزارنے کا تھا۔

کرن کچھ اپ سیٹ سی تھی، وہ نبیلہ کے ساتھ کچھ دور بیٹھی خوبصورت نظاروں میں کھوئی ہوئی تھی، اچانک کرن نے نبیلہ سے کہا: تم حاشر کو کچھ زیادہ ہی ڈھیل دے رہی ہو، مجھے سب پتہ ہے ہمارے جانے کے بعد تم دونوں کمرے میں جس کام میں مصروف تھے نا اس کا انجام اچھا نہیں ہونا۔نبیلہ نے بے شرمی کی انتہا کرتے ہوئے کہا: کیا بتاؤں یار،۔۔۔تم لوگ ایک گھنٹہ اور لیٹ آ جاتے تو؟؟

پھر دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑی اور نبیلہ نے کہا: ڈونٹ وری ، حاشر نے پروٹیک شن یوز کیا تھا۔طارق کو اپنے پاس آتا دیکھ کر دونوں خاموش ہو گئیں، پھر سب خیموں میں اپنا اپنا ساماں سیٹ کر رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔وہ لوگ خیموں میں دبک کر بیٹھ گئے۔

سب نے دوپہر کا کھانا کھایا، تب تک بارش بھی رک چکی تھی۔پھر اپنا اپنا مختصر سا مان لیا اور اک پہاڑی کی طرف بڑھے، حاشر اور نبیلہ آگے تھے، اور تھوڑے فاصلہ پر کرن اور طارق آ رہے تھے، درختوں اور پودوں کہ بہتات تھی، نبیلہ اور حاشر بہت آ گے نکل گئے، کرن تھک گئی اور طارق سے کہا کہ کچھ دیر سانس لے لیں۔ دونوں ایک جگہ بیٹھ گئے، طارق اسے دیکھے جا رہا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی کو حاصل کرنے کا یہی موقع ہے، وہ سرک کر کرن کے پاس ہو گیا، دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ اک دوسرے کی سانسیں بھی محسوس کر رہے تھے، پھر تو صبر کا سارے بندٹوٹ گئے اور دونوں دیوانہ وار ایک دوسرے کو پیار کرنے لگے، پھر پہلی بار کرن کو محسوس ہوا کہ وہ ساری حدیں پار کر چکی ہے، دونوں تھک گئے اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔

اچانک کرن کی نظر حاشر پر پڑی جو اسے گھور رہا تھا، کرن نے جلدی جلدی اپنا لباس درست کیا، نبیلہ نے کہا: بھائی آپ کہاں رہ گئےتھے؟ ہم نے سوچا کہ کہیں آپ لوگ ہم سے بچھڑ ہی نا جائیں اس لیے ہم واپس آ گئے، سفر ایک بار پھر شروع ہوا، کچھ دور جا کر کرن نے طارق سے کہا کہ واپس چلتے ہیں شام بھی ہو رہی ہے، بارش پھر آ گئی تو مشکل ہو گئی۔


سب نے واپسی کا ارادہ کر لیا، اب کی بار حاشر اور نبیلہ کہیں دور رہ گئے، شام کا اندھیر ا پھیل چکا تھا، اچانک نبیلہ کی چیخ سن کر طارق واپس دوڑا، کرن اور طارق نے جو منظر دیکھا ان کے تو ہوش اڑ گئے، حاشر نیچے کھائی میں گر کر بے ہوش ہو چکا تھا، اور نبیلہ رو رہی تھی، طارق نے حاشر کو آوازیں دی لیکن کوئی جواب نہ آیا تو طارق نے نیچے جانے کا فیصلہ کر لیا۔

کرن اور نبیلہ ڈ ر رہی تھیں، انہوں نے طارق کو روک لیا ، کرن کے پاس اک ٹارچ تھی، جب اس کے روشنی نیچے کھائی میں ڈ الی گئی تو اس کے اوسان خطا ہو گئے، حاشر کا سر پھٹ چکا تھا، اور وہ اس دنیا سے جا چکا تھا۔اس وقت کسی کی مدد لینا بھی مشکل تھا ، کیونکہ وہ بہت دور آ چکے تھے، آخر وہ خیمے والی جگہ واپس آئے تو ان کی گاڑی اور خیمے غائب تھے، اب تو ان کا خون خشک ہو گیا۔

اچانک تین آدمیوں نے انہیں گھیر لیا اور اپنے ساتھ لے گئے، وہ ڈ اکو تھے اور لوگوں کو لوٹتے تھے، پھر تو ان کے ساتھ کچھ بہت بھیانک ہونے والا تھا، رات ہو چکی تھی ، سردی بڑھ رہی تھی، وہ لوگ ان کو لے کر ایک پرانے سے گھر پہنچے جہاں ایک خوفناک صورت والا موٹا آدمی بیٹھا تھا، حسین اور جوان لڑکیوں کو دیکھ کر اس کی رال ٹپکنے لگی، اس نے آگے بڑ ھ کر طارق کی بہن کو کھنچ کر باہوں میں کس لیا، طارق کا جوان خون جوش مارنے لگا، اس کے آگے بڑھ کر اس موٹے انسان کو ایک مکا رسید کر دیا، جس سے اس کے جبڑے سے خون کا فوارہ چھوٹ پڑا۔

دوسرے ہی لمحے دونوں لڑکیوں کی چیخ نکل گئی، ایک ڈ اکو نے طارق کے سینے میں دو گولیاں اتار دیں اور طارق بھی مر گیا۔

موٹے سردار نےنبیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس لڑکی کو آج رات کے لیے میرے حوالے کر دو، اور دوسری کو کمرے میں بند کر دو۔نبیلہ تھر تھر کانپ رہی تھی، جبکہ کرن بے ہوش ہو چکی تھی۔

جب کرن کو ہوش آیا تو اک کمرے میں تھی، اس نے کمرے کا جائزہ لیا تو اس کی نظر اک ادھ کھلی کھڑکی پر پڑی۔اب کرن کے پاس دو راستے تھے ۔اک اگر وہ بھاگ جاتی تو جان بچ سکتی تھی، دوسرا ان کے رحم و کرم پر رہتی تو وہ درندے اس کا جو حشر کرتے ، وہ سوچ کر ہی کانپ گئی۔

جلدی سے اٹھی اور کھڑکی سے باہر جھانکا تو چاند کی ہلکی روشنی میں اک راستہ نیچے جاتا نظر آیا، کرن کھڑکی سے نکلنا چاہتی تھی کہ نبیلہ کی درد بھر ی چیخوں کے آواز سن کر اس پر سکتہ طاری ہو گیا، وہ ظالم نبیلہ کی عزت سے کھیل رہے تھے، کرن نے جلدی سے باہر چھلانگ لگا دی۔

وہ تیزی سے اس تنگ سے راستے پر چلی جا رہی تھی، اس کا جسم ابھی تک کانپ رہا تھا، اور سردی بھی بڑھ رہی تھی۔وہ رکے بغیر چلتی رہی، آخر اک سڑک تک پہنچ گئی،دور اک گاڑی کی ہیڈ لائٹس نظر آ ریہ تھیں۔ لیکن سنسان سڑک پرپہنچتے ہی لڑ کھٹرا کر گر پڑی۔اور بے ہوش ہوگئی۔

جب اسے ہوش آیا تو صبح ہو چکی تھی اور ایک گھر میں تھی، وہ ذہنی طور اپ سیٹ ہو چکی تھی اس کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا، اچانک ایک عورت اندر آئی اور اس سے پوچھنے لگی، تو کرن نے جو بیتی سب بتا دی۔حاشر اور طارق جان سے جا چکے تھے، نبیلہ کا کیا بنا ہو گا کوئی کچھ نہیں کہ سکتا تھا، اس عورت نے مجھے ایک آدمی ساتھ شہر روانہ کیا، یوں میں لٹی پھٹی اپنے گھر پہنچ گئی۔

حاشر، طارق اور نبیلہ کی تلاش میں پولیس گئی لیکن کچھ ہاتھ نہ لگا۔ایک مہینہ گزر گیا، کرن کی طبیعت خراب رہنے لگی، اس کا علاج ہوا اور وہ کافی بہتر ہو گئی، اس ساری بات کو کرن نے راز میں رکھا کہ کیسے وہ طارق کے ہاتھوں اپنی جوانی لٹا چکی تھی، اور کیسے ان کو اغوا کیا گیا، اس نے بس اتنا بتا دیا کہ وہ ان سے بچھڑ گئی تھی۔

سلمان اس کا کزن تھا اور اسے چاہتا بھی تھا، اس نے کرن کے رشتے کے لیے اپنے والدین کو بھیجا تو کرن کے ماں باپ نے اس کا رشتہ طے کر دیا، کرن طارق کی موت کو بھلا نہ پائی تھی، کیونکہ طارق اس کی پہلی محبت تھا۔شادی کے دن قریب آ رہے تھے، لیکن کرن گم سم تھی، اچانک اسے آبکائیاں آنا شروع ہوئیں تو اسے ہوش آیا اور وہ واش روم دوڑی، اس کا دل دھک کر رہ گیا، وہ میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی لیکن پڑھنا چھوڑ دیا تھا، وہ سمجھ گئی کہ اب وہ کنواری نہیں رہی تھی۔ وہ حاملہ ہو چکی ہے، اس کے پیٹ میں طارق کا بچہ تھا۔

شادی کی رات وہ کمرے میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ اب کیا ہو گا، تھوڑی دیر بعد سلمان سہاگ کی سیج پر آنے والا تھا، کرن کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، کیونکہ اس کا راز کھلنے والا تھا، سلمان بچہ نہیں تھا کہ اسے پتہ نہ چلتا۔اچانک کمرے کا دورازہ کھلا اور سلمان اندر داخل ہوا، کرن سہاگ رات کے خوف سے پسینے میں بھیگ چکی تھی، اک قیامت آنے والی تھی۔

سلمان اس کے قریب آ گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا، وہ صرف سر ہلا کر جواب دے رہی تھی۔آخر وہ لمحہ بھی آ گیا جس کا ڈر تھا، سلمان نے اسے باہوں میں بھر لیا اور اس سے پیار کرنے لگا، وہ کرن کا دیوانہ تھا، اب اس کی دلی مراد پوری ہو رہی تھی۔پھر وہ ہوا جس کا ڈ ر تھا، اچانک سلمان نے محسوس کیا کہ اس کی بیوی کنواری نہیں ہے ،وہ پریشان ہو گیا کہ یہ سب کیا ہے، اس نے سوالیہ نظروں سے کرن کی طرف دیکھا تو وہ سر جھکا کر بیٹھ گئی، سلمان نے لباس پہنا اور جانے لگا تو کرن اس کے سامنے کھڑی ہو گئی،کرن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

سلمان نے کہا: کرن اب کیا رہ گیا ہے، تم نے میرا دل ہی توڑ دیا ہے۔ لیکن کرن نے کہا: پہلے آپ میری بات سن لیں پھر جو فیصلہ کریں مجھے منظور ہو گا۔کرن نے اس پر جو بیتی سب کہ سنائی اور سسکیاں بھرنے لگی، سلمان اسے حیرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا، وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اس لڑکی نے کتنی درد بھرے لمحے گزارے ہیں، محبت میں انسان اندھا ہو جاتا ہے اور بہت سی غلطیاں کر لیتا ہے، ایسے ہی کرن بھی اک غلطی کر چکی تھی جو اس کے پیٹ میں پل رہی تھی۔

وہ رات ایسے ہی گزر گئی، اگلی صبح کرن کا سلمان سے سامنہ ہوا تو وہ سر جھکائے پریشان کھڑی تھی، سلمان اس کے پاس آیا اور بولا:کرن رات والی بات کی معذرت چاہتا ہوں، تم میری زندگی ہو، میں ہر مشکل وقت میں تمہارے ساتھ ہوں۔ کرن کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ سلمان سے لپٹ گئی اور ایک بہت بڑا بوجھ اس کے دل سے اتر گیا۔

 hot urdu novel ek lafz ishq

urdu book novel

urdu novels to read

hot urdu novel house

urdu novel in which heroine is teacher

hot and bold urdu novels list pdf

urdu longest novel

hot urdu novel menu

شغل شغل میں

شغل شغل میں

یہ تب کی بات ہے جب میں نیا نیا جوان ہوا تھا اور میٹرک کا امتحان دے کر فارغ  ہوا  تھا  میں فریش  تو
تھا پر تب تک بہت ساری چوتوں کا مزہ لے
   چکا تھا اور مُٹھ تو روزانہ کا کام تھا ھی- امتحان کے فوراً بعد میرے کزن کی شادی آ گئی تھی اور ہم  مہ فیملی گاؤں چلے گئے – اور وہاں شادی پر خوب ھلہ گلا کیا – گاؤں میں  میرے انکل زمان بھی اپنی فیملی کے ساتھ  لا ہور سے  گاؤں  آ
ۓ ھوۓ  تھے – اور  اُن کا  لڑکا  آصف میرا  ہم عمر تھا  اور وہ بھی میری طرح    فری تھا-چنانچہ شادی کے ھلے گلے میں اُ س نے پوری طرح میرا ساتھ  دیا – جس کا رزلٹ یہ نکلا کہ  شادی کے  اختتام  تک  ہم بڑے اچھے  دوست بن چکے تھے چنانچہ شادی کے بعد اس نے اور اُس کے ساتھ  ساتھ  زمان   انکل   اور اُن کی بیگم ندا آنٹی نے بھی  مجھے اپنے ساتھ  لاہور چلنے کی آفر کی اور  بولے تم آج کل فری ہو چلو تم کو لاہور  کی سیر کرواتے ھیں کچھ  ہچکچاہٹ کے
بعد میں اس شرط پر راضی ہوا کہ گھر والوں سے اجازت  آپ لیں گے اور  یہ  کام     اُنہوں نے بڑی  آسانی  کر لیا

اور اس طرع میں شادی کے فوراً بعد ان کے
ساتھ  لاہور چلا   گیا
اسی دن صبع کو ہم گاوں سے چلے تو رات  کو ہم لاہور پہنچ گئے ان کا گھر   کافی  اچھا  خوب صورت  اور دو منزلہ تھا جہاں  انکل اور آنٹی گھر کے    گراءونڈ   فلور پر رہتے تھے جبکہ آصف اوراس کی  بڑی بہن آسیہ گھر کے فرسٹ   فلور پر رہتے تھے – میں نے وھاں خوب انجوا
ۓ کیا  اور انہوں نے تھوڑے ھی
دنوں میں  مجھے لاہور کی کافی سیر بھی  کروا دی۔
       ایک  دن با توں باتوں میں آصف بولا یار پتہ نہیں کیوں آج صبع سے     ہی  مجھے   دادا   دادی  بڑے یاد  آ ر رہے ھیں اس پر آسیہ بولی  یار آصف تم       نے تو  میرے منہ کی بات چھین لی  ہے   قسم سے میرا بھی بڑا جی کر رہا تھا   ان سے
ملنے کو اور پھر بیٹھے بیٹھے  ان دونوں کا وہاں  جانے کا پروگرام  بن      گیا- اسی دوران ان کو میرا بھی خیال آ گیا اور  انہوں نے مجھے بھی ساتھ
چلنے کو کہا  لیکن پتہ نہیں کیوں  میرا  وھاں جانے کا مُوڈ نہ  بنا سو میں  نے  ان کے ساتھ   وہاں  جانے سے صاف انکار  کر دیا – تب آصف نے مجھ سے پوچھا کے ہمارے
جانے کے بحد  تم اُوپر   اکیلے سو جاوء گے ؟ تو میں نے جواب دیا کہ میں
اکیلا نہیں سو سکتا کہ اکیلے میں مجھے ڈر لگتا ھے اس پر ںدا  آنٹی
بولی کوئ بات نہیں اگر تم کو ڈر لگتا ھے تو تم ہمارے ساتھ والے رُوم میں
سو جانا
سو اس طرح اُس رات میں آنٹی کے ساتھ والے روم میں سویا ۔
 اس کمرے  کی خاص    بات یہ تھی کہ اس کمرے اور آنٹی کے کمرے کا  باتھ  روم  مشترکہ تھا- اب میں آپ کو ندا آنٹی کا تھوڑا سا تعارف کروا تا ہوں ۔ ندا آنٹی گورے رنگ کی ایک بھرے بھرے جسم کی مالک خاتون تھئ قد اچھا تھا اور گانڈ  اور ممے بہت بڑے تھے- غرض   یہ کہ آنٹی ایک چلتی پھرتی قیامت تھی  لیکن اس سے قبل نا انہوں نے نا میں نے کھبی ایک دوسرے کو ایسی نطروں سے دیکھا تھا پر وہ دیکھنے میں مجھے ہمیشہ  ہی بڑی اچھی لگتی تھی خاص کر ان کی موٹی گانڈ پر میں دل و جان سے فدا تھا ۔۔وہ بھی دل ہی دل میں ورنہ ان کے   سامنے ایسی کوئ بات نہ تھی – ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ  آدھی رات کا وقت تھا کہ مجھے بڑے  زور سے پیشاب کی حاجت محسوس  ہوئ  اور میری آنکھ کھل گئ اور
میں اس پریشر کو ریلز کرنے کے لی
ۓ فوری طور پر  واش روم چلا گیا
اور
   جیسے ھی میں واش روم میں داخل ھوا مجھے آنٹی کے روم سے   پلنگ  کی
چرچراہٹ  اور سسکیوں  کی  مخصوص  آوازیں سنائ دیں ان آوازوں  سے   میری
بڑی  اچھی شناسائ تھی اور میں سمجھ گیا کہ اندر آنٹی انکل کا چودائ سین چل رہا ہے  چنانچہ  جیسے ہی میرے کانوں نے  یہ  آوازیں  سنی
میں پیشاب کرنا  بھول گیا اور اگلے ہی لمحے میں ان کی  چودائ کا منظر دیکھنے کے
لی
ۓ  ان کے   روم کی طرف بڑھا اور  جیسے ھی میں نے   آنٹی کے روم کے
دروازہ پر ھاتھ رکھا تو    خوش قسمتی سے وہ تھوڑا سا  کھلا ھوا تھا ۔
اندر کا منظر دیکھ کر میرا جی خوش ھو گیا کہ منطر ھی  بڑا دلکش تھا   ندا
آنٹی فل  ننگی پلنگ پر لیٹی  تھی اور اس کےاوپر انکل زمان چڑھے ھو
ۓ تھے اور وہ  آنٹی
کے موٹے  موٹے  ممے چوس رہے تھے اور ساتھ ساتھ  ان کی ایک انگلی آنٹی کی چوت میں  بھی
 گھوم رہی  تھی کچھ   دیر بعد انہوں نے   آنٹی کا نپل اپنے منہ سے باہر
نکلا اور  انھوں نے   آنٹی کے موٹے ممے اپنے  دونوں ھاتھوں  میں
پکڑ  لی
ۓ  اور انکو زور زور سے  پریس کرنے لگے - اس  کے ساتھ ھی آنٹی نے اور اونچی  آوازوں
میں      کراہنا شروع کر دیا آہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ  ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔زور سے
دباؤ نا میری جان ۔۔۔۔۔۔۔۔مزہ آ۔۔۔رہا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اورآنٹی کی یہ مست آوازہں  سن کر انکل مزید
 زور سے آنٹی کے ممے دبانے لگے ۔۔۔
 کچھ دیر تک انکل ایسے ھی کرتے رہے پھر وہ اٹھے اور پلنگ پر لیٹ کر بولے

" "ندا  اب تم  میرا   لن چوسو"  جون ہی انکل پلنگ پر لیٹے تو میری نطر ان کے لن پر پڑی ۔۔۔سوری اسے لن  کہنا   لن سے مزاق  تھا  انکل کی  تو  چھوٹی سی للی تھی ۔۔پتلی اور باریک سی    جسے وہ آنٹی کو  منہ میں لینے کو کہ رہے تھے  " پر انٹی نے ان کا لن چوسنے سے انکار کر
دیا اور بولی " نہیں جانو اس  طرح   آپ جلدی چھوٹ جاؤ گے" اس  پر انکل  بڑی لجا جت   سے  بولے پلیز
ڈارلینگ  میرا بڑا دل کر رھا ھے کہ تم  میرا  لن اپنے  منہ میں ڈالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آخر کار
انکل کے بے حد  اصرار پر آنٹئ ان کے پاس جا کر بیٹھ گئ اور انہوں نے انکل کا لن اپنے ھاتھ میں پکڑا اور برا سا منہ بنا کر  مُٹھ مارنے لگی یہ دیکھ کر
انکل بولے ۔۔۔۔ندا۔۔۔۔۔۔مُٹھ نہیں  پلیز ۔۔۔۔ منہ میں ڈالو  نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب چار  و  ناچار  ندا آنٹی   اپنا  منہ  انکل  کے  لن پر لے گئی اور زبان نکال کر ٹوپے پر پھیرنے لگی ۔۔۔۔جب آنٹی نیچے جھکی تو میری نطر ان کی گانڈ پر پڑی۔۔۔۔واہ۔۔۔کیا مست گانڈ تھی اسے دیکھتے ھی میرا لن بری طرح سے  کھڑا ہو گیا-پھر انٹی نے انکل کا پورا لن منہ میں ڈال لیا اور اسے اچھی طرح چوسنے لگی جیسے ھی آنٹی نے انکل کا  ننھا  سا  لن پورا منہ میں لیا  میرے بڑے سے لن  نے مجھ سے  فریاد کی اور بولا ۔۔ میرا بھی کچھ کر سا لے  ۔۔۔۔پر میں اس  کا کیا  کر سکتا   تھا۔۔؟؟؟

سواۓ   ھاتھ  میں پکڑ کر مسلنے کے۔۔۔۔سو وہ میں نے کیا  اور لن  کو ھاتھ  میں  پکڑ کر دبانے لگا ۔ اُدھر انکل اپنے لن پر آنٹی کے نرم ہونٹ  محسوس کر کے     مستی  سے  کراہ  رہے تھے  ۔۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔ ندا تم  بہت اچھا   لن چوستی   ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔اُف ف ف۔ف۔ف۔ف۔ف۔۔۔۔۔میری جان مزہ آ گیا-  بلا شبہ  آنٹی کا لن چوسنے کا انداز بڑا ھی زبردست تھا  جسے دیکھ کر میں اور بھی گرم ہو گیا ۔۔۔اور۔۔۔لن۔۔۔مت پوچھو دوستو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لن تو اتنا ۔۔بس ۔۔اتنا مست ہو گیا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ اور اتنا اکڑ گیا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے  لن میں درد ہوتا  محسوس ہو رہا تھا۔۔۔او ر میں سوچ رہا تھا کہ آنٹی کتنا  زبردست لن چوستی  ھے  اُ  ن کو لن چوستے دیکھ  کر میرا   یہ    حال  ہو رہا ھے  تو  انکل کی حالت کیا  ہو  گی؟؟؟

۔۔۔۔۔ آنٹی ایسے ھی  2،3 منٹ تک انکل کا  لن چوستی ر ہی ۔"۔۔۔۔اور پھر اچانک   انہوں نے اپنا منہ  لن سے ھٹایا  اور بولی"  بس" اس سے زیادہ  میں   نہیں   چوسوں  گی  تو انکل بولے  تھوڑا سا اور چوسو  کہ بڑا مزہ  آ رہا تھا ۔۔۔۔لیکن      آنٹی   نہ   مانی۔۔۔ اور پلنگ پر  لیٹ گئ اور  بولی بڑی ادا سے بولی  ۔۔۔۔۔۔  . مجھے ۔چودو  نا۔۔۔  جان۔۔۔۔۔۔۔

یہ سُن کر انکل بیڈ   سے  اٹھے  اور  آنٹی کی  ٹانگوں  کے  درمیان  آ گے اور آنٹی سے بولے  ایک  دفح  اور چوس  لیتی  تو  کیا  بات  تھی ۔۔پر  آنٹی نے ان کی  یس   بات  کا   کوئ جواب  نہ  دیا  بس ٹانگوں  کو  تھوڑا  اٹھا   دیا یہ یو با ت  کا سگنل تھا کہ اندر ڈال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب انکل نے اپنے  لن پر تھوڑا سا  تُھوک  لگایا  اور آنٹی  کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھ کر ھلکا    سا  دھکا  لگایا  اور آئ  تھنک لن  انٹی کی چوت  میں اتر گیا تھا ۔۔۔۔۔کیونکہ  میں نے آنٹی کی ہلکی  سی کراہ  سنی   تھی  وہ کہ رہی تھی ۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔آہ  میری جان زور سے دھکا مار  نا۔۔۔۔۔۔  یہ سن کر انکل نے اپنے دھکوں کی رفتار  تیز  کر دی   اور زور زور سے لن کو آنٹی کی چوت میں اندر باہر  کرنے لگے۔۔۔۔ اور  پھر 7،8 دھکوں کے بحد   ہی  انکل ایک دم چیخے۔۔۔۔۔۔۔۔آو۔۔آو۔۔و۔۔و۔و۔وو۔و۔و۔۔و۔۔۔  ان کی یہ اواز سنتے ھی  آنٹی  ان کے نیچے سے چلائ ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔پلیز۔۔۔نہیں ۔۔۔۔۔۔ ابھی  نھیں ۔۔۔۔۔ زمان  مجھے   اور  لن  چایۓ ۔۔۔۔ میں نے ابھی  اور چدوانا ھے   ابھی تو میری پھدی گرم ہوئ ھے      ۔۔۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔  جان۔۔۔۔     پر انکل  نے آنٹی کی بات سنی ان سنی کر دی  اور تیز تیز  دھکے مارتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر  اگلے ھی لمحے  ان کی کافی اونچی اواز سنائ دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ندا۔۔ا۔ا۔ا۔ا۔ا۔ا۔اا۔۔ا۔۔ا۔۔ا۔ا۔۔ا۔۔۔۔ میں جا۔۔۔رہا ہوں اور یہ کہتے ہوۓ وہ  آنٹی کے اوپر  ہی  لیٹ گئے اور جھٹکے لینے لگے اور انہوں نے اپنی ساری منی      آنٹی کی چوت میں ھی چھوڑ دی۔۔۔۔۔
   اُس   ٹائم   میں نے آنٹی کو دیکھا  تو وہ بڑی اپ سیٹ نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔ پھر میں نے ان کی غصوے سے بھری آواز سنی ۔۔۔ وہ کہ رہی تھی یہ تم نے کیا  کیا زمان ؟؟؟ ۔۔۔۔۔ مجھے تمھارا  لن   مزید  لینا   تھا  ۔  دیکھ لو  تم نے پھر وہی    حرکت  کی ہے نا۔۔۔۔۔ منح بھی کیا تھا کہ لن نا    چوسواؤ۔۔۔۔ پر تم کسی کی سنتے کب ہو۔۔۔۔ آنٹی کی ڈانٹ سن کر انکل نے ایک کھسیانی سی ھنسی  ھنس کر بولے ۔۔ کوئ با ت نہیں ڈارلنگ  میں کل زیادہ  ٹائم  لگا دوں گا۔۔۔۔ یہ سن کر آنٹی آگ بگولہ  ھو گئ اور بولی ٹائم  کے بچے مجھے ابھی لن چاہ
ۓ اور تم کل کی بات کر رہے ہو۔۔۔ آنٹی کی بات سن کر انکل دوبارہ کھسیانی ھنسی ھنس کر بولے " انگلی  مار دوں"   
   یہ سن کر آنٹی کو مزید غصہ آ گیا اور  تقریباً چلا کر بولی ۔۔۔۔بہن چود ۔۔۔ حرامی ۔۔۔۔۔ سالے۔۔۔۔ تم ہمیشہ ایسے  ہی  بہانے بناتے  ہو۔۔۔۔ اور پلنگ سے اُٹھ کر کپڑے   پہننے  لگی
 یہ دیکھ کر میں وہاں سے بھاگا  اور جا  کر بیڈ  پر لیٹ  گیا  لیکن  نیند  میری آنکھوں سے کوسوں  دور تھی  میں بہت  زیادہ  گرم ہو چکا  تھا  اور میرا  لن میرے پاجامے  میں کھڑا تھا اور  بیٹھنے کا نام ھی نہیں لے رہا تھا  گرمی سے میرے ہونٹ خشک ہو رہے تھے اور میں ھلکا  ہلکا  کانپ  بھی  رھا   تھا میرا حلق بھی  خشک ہو  رہا تھا اور میں لن کو ہاتھ    میں  پکڑے اسے   مسلسل  دبا  رھا  تھا  میں نے سوچا  چلو  مُٹھ   مارتا شاید کھچھ سکُون    مل جا
ۓ  ۔۔ پر  مُٹھ سے پہلے مجھے سخت  پیاس  لگ  رہی   تھی  چنانچہ   میں  ٹھنڈا  پانی  پینے کے لیۓ  کچن کی طرف  چلا گیا اور پھر ٹھنڈے پانی کی بوتل کے لیۓ  جیسے ھی میں نے   فرج   کا  دروازہ    کھولا  مجھے ندا آنٹی  بھی  کچن کی طرف  آتی     دکھائ  دی     اُنہوں نے  بھی مجھے    دیکھ  لیا  تھا  سو جیسے ھی وہ میرے پاس  آئ اور بڑے خوشگوار لہجے میں  بولی ھیلو شاہ    جی  کیا ہو رہا ھے ؟  میں  نے ندا آنٹی کے سوال کا کوئ  جواب نا  دیا اور چپ  رہا کہ اس وقت  میری حالت  کافی  خراب تھی میری  آنکھیں اور چہرہ بہت  سُرخ  ہو رہے تھے اور میں  جزبات  کی وجہ سے ہولے ہولے کانپ بھی   رہا تھا میری ساری باڈی    ہیٹ کی وجہ سے  بہت  تپ رہی تھی ۔۔ آنٹی نے جو میری حالت دیکھی  تو وہ یہ  سمجھی  کہ میں بخار کی وجہ سے  تپ رہا ہوں – وہ آکے  بڑھی اور اپنا ایک ہاتھ میرے ماتھے پر رکھ کر بولی۔۔۔۔۔۔او۔۔۔۔۔ شاہ جی تم کو تو بڑا سخت  بخار  ھے


 اور تمہارا  جسم بخار کی وجہ سے تپ رھا ھے اور یہ کہ کر انہوں نے میرا ھاتھ  پکڑا  اور مجھے بیڈ روم میں لے گئ  اور مجھے بستر پر لٹا کر بولی  تم لیٹو  میں تمھارے لی
ۓ دوائ وغیرہ   لے کر آتی ہوں یہ کہا اور  دوائ لینے کے لیۓ چلی  گئ    کچھ   دیر بعد جب وہ واپس آی تو  ان کے ہاتھ  میں کچھ  گولیاں اور پانی کا گلاس تھا وہ میرے پاس آی اور بولی     اُٹھو  بیٹا  یہ  دوائ کھا لو  اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر  اٹھا لیا  ۔  اور میرے ساتھ پلنگ پر ہی  بیٹھ  گئ میں نے ان کے ہاتھ سے گولیاں لیں اور وہ تھوڑا میری طرف جھک گئ اور پانی کا   گلاس  میرے منہ سے لگا  دیا-
  گرمیوں کے  دن  تھے  اور آنٹی  نے  باریک سا لباس  پہنا ہوا تھا اُس پر قیامت  یہ کی ان کی  قمیص  کا گلا  کچھ  زیادہ  ھی کھلا  تھا  میں جو  پہلے ھی سیکس    کی آگ میں جل رہا تھا  اور اب اُن کے یوں نزدیک بلکل میرے پاس  بیٹھنے سے میرا حال مزید  بے حال ہوتا جا رہا تھا   چنانہ جب انہوں نے   جھک کر پانی کا گلاس میرے منہ   سے  لگایا  تو  میری نطر  ان کے شفاف بدن پر تھی ان کے اس طرح جھکنے سے مجھے  ان  کے موٹے ممے  اس قدر صاف اور واضح نظر  آ
ۓ کہ مجھے خود پر قابو رکھنا مشکل ہو گیا چنانچہ  میں نے اپنا  لن اُن کی کمر کے ساتھ   ٹچ  کر دیا لکین  وہ میری صحت کے بارے  میں اتنی فکر مند تھیں کہ ان کو محسوس ہی نہ ہوا کہ  میرا لن ان کی کمر کو ٹچ کر رہا ہے  چنانہ انہوں نے   اس ٹچ  کا  کوئ نوٹس نہ لیا  لیکن جب میں نے اپنا لن    اُن کے ساتھ  دوسری ۔۔۔۔۔ پھر  تیسری دفحہ ٹچ کیا تو وہ تھوڑا  سا  چونکی  اور پھر جوں ہی اُنہوں نے گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا  تو ۔۔۔۔۔۔ وہاں ایک  موٹا  اور  بڑا  سا  لن  مست ہاتھی کی طرح  پاجامے میں  لہرا رہا تھا   میرے لن کا سائز ۔۔  لمبائ ۔۔  موٹائ یہ  سب دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بے اختیار ہو کر  بولی ۔۔۔۔   اوہ۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ۔۔  میں نے دیکھا کہ حیرت کی وجہ سے  ان کی آنکھیں  ڈھیلو ں سے باہر نکلی ہویئں  تھیں اور وہ متاثر کُن نطروں سے لہراتے ہوۓ لن کو  مسلسل دیکھے جا رہی تھیں ( بحد میں انہوں نے مجھ  سے  اس بات کا  اعتراف بھی  کیا تھا کہ وہ ایک چھوٹے سے لڑکے سے اتنے بڑے لن کی توقع نہیں کر رہی تھی) وہ کبھی مجھے اور کبھی میرے لن کو دیکھتی اور اپنے خشک ہونٹوں کو تر کرنے کے لیۓ  ان  پر زبان پھیرتی جا رہی تھی ۔۔۔ اُ ن کا چہرہ جزبات کی وجہ سے سُرخ ھو رہا تھا اور اُن کو کچھ سمجھ نھیں آ رہا تھا کہ وہ میری اس حرکت پر کیا ری ایکٹ کرے۔۔۔۔۔ کیونکہ  تھوڑی دیر قبل  وہ خود بھی اس آگ میں جل چکی تھی ۔۔۔۔ اور میرا لن دیکھ کر اُن کے جزبات میں اُتھل پتھل ہو چکی تھی جس کا ثبوت اُن کا سُرخ چہرہ اور خشک ہونٹ تھے۔ جب وہ لن کی طرف دیکھتی تو ان کا دل کرتا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ کر لیں پر جب میری طرف دیکھتی   تو وہ سوچ میں پڑ جاتی کہیں ایسا نا ہو جاۓ کہیں ویسا نہ  ہو جاۓ
غرص کی وہ ایک دوراہے کر کھڑی نظر آ رہی  تھی ۔۔۔۔

اُن کے یہ  تائثرات  دیکھ  کر میں نے ہی کچھ کرنے کی ٹھانی  ویسے بھی عورت ہونے کی وجہ سے وہ پہل نہ کر سکتی تھی اور میرا یہ حال تھا کی منی میرے سر پر چٹرھی ہوئ تھی ۔۔۔ چنانچہ میں نے فوراً  ہی  پاجامے  کا  نالا  کھولا  اور  لن کو پاجامے سے باہر کر دیا میرے موٹے ٹوپے کو دیکھ کر وہ اور متاثر ہوئ کہ نھیں یہ  میں  نہیں  جانتا پر میں نے یہ ضرور جج کر لیا کہ اُن کی نظریں اب بھی میرے لن پر ھی تھیں میں نے دوسری حرکت یہ کی کہ میں نے اُن کا گورا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ کہ جو ہو سو ہو ۔۔۔
جیسے ھی میں نے اُن کا ہاتھ اپنے لن پر رکھا اُنہوں نے فوراً ہی  اپنا  ہاتھ  وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔پر میں نے  زبردستی ان کا ہاتھ اپنے لن پر ٹکا دیا-
انُہوں نے لن پر ہاتھ   رکھے رکھے میری طرف دیکھا اور سرگوشی میں  بولی ۔۔۔۔۔۔ ایسا نہ کرو شاہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پلیز مجھے جانے دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر میں نے زبردستی ان کا ہاتھ  اپنے لن پر رکھے رکھا ۔۔۔۔۔۔ ۔  اور بولا آنٹی پلیز  بس تھوڑی دیر میرا لن پکڑے رکھیں اور ان کا ہاتھ لن پر دبا دیا ۔۔۔۔    اس پر وہ بولیں ۔۔۔۔۔ دیکھو تم میرے آصف کے دوست ھو اور مجھے آصف ہی کی طرح لگتے ہو ۔۔۔۔ اور میں تمہاری آنٹی ہوں  ۔۔۔۔۔۔ یہ کہا اور ایک گہری سانس لی  اور سر جھکا لیا ۔۔۔۔ تب میں نے ان سے کہا   آنٹی جی  !!۔۔۔۔ بےشک آپ میری انٹی ہو   اور بے شک آپ میرے دوست کی ماں ہو پر آپ  ایک  عورت بھی ہو  ۔۔۔ اور    مجھے پتہ ھے کہ اس وقت   اس عورت کو اس کی  شدید  ضرورت ھے   اس لی
ۓ کہ میں نے  تھوڑی دیر پہلے آپ کا انکل کے ساتھ  سارا سیکس سین دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔
میری بات سن کر وہ ایک دم اپنی جگہ سے اُچھلی ۔۔ ایسا لگا کہ کسی نے ان کے پاؤں میں بم  پھوڑ دیا  ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے  بڑی بے یقینی سے میری طرف  دیکھا اور بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تت۔۔۔ تت ۔۔۔ تم نے کب دیکھا۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟   ان کی انکھوں میں ہزاروں سوال تھے۔۔ تو میں نے جواب دیا کہ اب سے کھچھ دیر پہلے ۔۔۔۔۔۔اور میں نے جلدی جلدی ساری سٹوری سنا دی۔۔۔۔ اس دوران وہ پھٹی پھٹی نطروں سے میری طرف دیکھے جا ری تھی ۔۔۔۔  جب میں نے بات ختم کی وہ کافی حد تک نارمل  ہو چکی تھی کہنے لگی ۔۔۔۔۔ اچھا  تو تم یہ سب کھچہ دیکھتے رہے ۔۔۔ بڑے بے شرم ہو تم ۔۔۔  ان کا موڈ دیکھ کر مجھے کچھ اور حوصلہ ہوا اور میں نے کچھ اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔  اور بولا ۔۔ یس س۔س۔س آنٹی جی اس کے ساتھ ساتھ  میں نا اپ کے جسم کا ایک ایک انچ بھی دیکھا ہے  اور آنٹی بڑا زبردست جسم ھے آپ کا ۔۔۔۔۔  اور آنٹی جی مجھے بخار نہیں آپ کے جسم کی گرمی ھے جو میرے   پورے بدن میں پھیلی ہوئ ھے
میں نے یہ کہا اور ساتھ ھی اپنا منہ ان کے پاس لے گیا اور آنٹی کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دی
ۓ ۔۔۔ پہلے تو انہوں نے اپنا منہ ادھر اُدھر کرنے کی کوشش کی  پھر میری مسلسل کوشش کو دیکھ کر اپنا منہ ایک جگہ کھڑا کر دیا اُن کی مزاحمت  دم توڑ چکی تھی  اب میں نے اپنی زبان نکا ل کر ان کے ہونٹ چاٹنا شروع کر دیۓ پہلے تو انہوں نے اپنا منہ سختی سے بند رکھا پھر دھیرے دھیرے ان کے ہونٹوں کی سختی نرمی میں بدلتی گئ اور پھر انھوں نے اپنا منہ میری زبان کے لیۓ پوری طرح کھول دیا اوراب  میں نے  اپنی زبان ان کے منہ میں داخل کر دی  اُف ف ف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان  کا منہ بڑا ہی گرم اور اس میں سے بڑی ہی مست مہک آ رہی تھی میں نے بڑی بے صبری سے ان کی زبان کو اپنے منہ میں لیا اور اس کو چوسنے لگا  ۔۔۔۔۔ اور کافی دیر تک ان کی ٹیسٹی زبان کا رس اپنے منہ میں منتقل کرتا رہا اس دوران پہلی  دفہ مجھے ان کا ھاتھ اپنے لن پر سخت ہوتا ہوا محسوس ہوا- وہ با ر بار میرے لن کو اپنی مُٹھی میں پکڑ کر دباۓ جا ری تھیں-
کچھ دیر تک ہم کسنکگ کرتے رہے پھر جب ان کا ہاتھ کی گرفت میرے لن پر کافی ٹائٹ محسوس تو میں نے کسنگ چھوڑ دی اور اپنا منہ ان کے منہ سا الگ کر لیا ۔ جیسے ھی ان کا منہ میرے منہ سے الگ ہوا ان کی ساری توجو میرے لن کی طرف منتقل ہو گئ  اور انہوں نے میرا لن ہاتھ میں پکڑا تو پہلے سے ہوا تھا اب انہوں نے میری مُٹھ مارنی شروع کر دی اور بولی ۔۔ شاہ تمھارا لن بڑا ہی  کمال کا ہے اس نے تو مجھے پاگل کر دیا ھے   ۔۔۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ آنٹی میرا لن اچھا ھے نا۔۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا  نہیں بہت اچھا  ہے ۔۔۔۔۔ یہ سن کر میں نے ان کا سر پکڑ کر لن کی طرف دبا دیا اور بولا آنٹی جی میرا بھی لن چوسو نا پلیز۔۔۔۔۔۔۔اور کہا جیسے آپ انکل کا چوس رہی تھی ویسے ھی میرا بھی چوسیں

انہوں نے لن پکڑے پکڑے ایک نظر میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔۔ فکر نہیں کرو میں  انکل کی طرح  نہیں بلکہ اس سے بھی  اچھا  تمہارا لن  چوسوں گی  یہ کہا اور اپنا سر میرے لن پر جھکا دیا-
اب انہوں نے اپنی زبان منہ سے باہر  نکالی اور میرے ٹوپے کو چاٹنا شروع کر دیا  پھر  اس کے بعد انہوں نے میرا لن اپنے منہ میں لینا شروع کر دیا انہوں نے میرے سخت لن کو   اپنے نرم ہونٹوں میں بڑی سختی سے  دبا لیا اور  آہستہ آہستہ اپنا منہ لن کے نیچے کی طرف لے جانا شروع کر دیا   اور اس کے ساتھ ساتھ   وہ   لن کو اپنی زبان کا ٹچ بھی دیتی جاتی  تھی  اس طرح  انہوں نے  اپنا منہ جہاں تک ہو سکا میرے لن کے اینڈ تک  لے گیئں جب لن کا منہ آگے جانا ممکن نہ رہا تو انہوں نے اندر ہی اندر لن پر زبان پھیری اور لن کہ اپنے منہ سے   باہر نکال  لیا  اور  پھر ۔۔۔۔ انہوں نے اپنی زبان سے سارا لن چاٹنا  شروع کر دیا اور  نیچے سے لے کراوپر تک  میرے لن کو خوب  چاٹا پھر جب لن کو چاٹتے چاٹتے اوپر تک آئ تو پھر سے لن کو اپنے منہ میں لے کر  پھر سے چوسنا   شروع کر دیا
     اُف ۔ف۔ف۔فف۔ف۔فف۔  ایک تو آنٹی کے لن چوسنے   کا دلکش  انداز دوسرا  ان کے  منہ کی گرمی  ۔۔۔۔ ان سب چیزوں نے مل کر مجھے پا گل سا کر دیا اور   میرے سارے بدن میں ایک آگ سی بھر گئ چنانچہ   اگلی دفعہ جیسے ہی آنٹی نے میرا سارا لن اپنے منہ میں ڈالا ۔۔۔  تو ۔۔۔۔ مجھے ایسا لگا کہ میرے سارے جسم کا  خون میرے لن کی طرف دوڑ رھا ھے  اور میں نے آنٹی کا  سر بڑی  مضبو طی   سے پکڑ لیا  اور اس کو اپنے لن کی طرف دبانے لگا میرا خیال ہے وہ  سمجھ  گئ   تھی  کہ میں چھٹنے والا ہوں  سو انہوں نے بڑی ٹرائ کی کہ وہ اپنے منہ سے میرا لن باہر نکال سکیں لیکن میں نے ان کا سر اتنی مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا کہ وہ چاہ کر بھی ایسا نہ کر سکیں – اس کھیچھا تانی میں وہ بس اتنا ہی کر سکیں کہ میرا ٹوپا  ہی ان کے منہ میں  رہ گیا اور۔۔۔۔۔
پھر اچانک ہی میرے لن نے ایک پچکاری ماری اور ساری   منی ان کے منہ میں گرنا شروع ہو گئ ۔۔۔۔

جیسے ہی میری منی ان کے منہ میں گرنا شروع  ہوئ وہ  بھی  جوش میں آ گٰئ اور انہوں نے باہر بچے ہوۓ لن کی مُٹھ مارنا شروع کر دی اور جب انہوں نے محسوس کر لیا کہ منی کا آخری قطرہ بھی ان کے منہ میں گر      چکا ہے تو انہوں نے لن کو اپنے منہ سے باہر نکالا اور ساری منی  قالین پر تھوک  کر بڑی ہی مست آواز میں بولی "   گندا بچہ " پھر مسکرائ اور پاس پڑے دوپٹے سے اپنا منہ   صاف  کیا   اور   بولی  " مسٹر شاہ تم تھوڑے سے فریش ہو جاؤ"  میں تمھارے انکل کو دیکھ کر ابھی آتی ہوں یہ کہ کر وہ چلی گئ

تقریباً  10،15 منٹ کے بعد وہ واپس آئ تو میں نے ان سا پوچھا کہ آنٹی انکل کی کیا پوزیشن ھے ؟ تو وہ برا سا منہ بنا کر بولی بے خبر سو رہا ھے سالا اور  پھر میرے لیۓ  اپنی  باہیں   پھیلا  دیں میں بھاگ کر گیا اور ان کے گلے سے لگ گیا  انُہوں نے  بڑی گرم جوشی کے ساتھ اپنا سینہ میرے سینے کے ساتھ دبایا  اور میری گردن پر بوسہ دیا پھر اُنہوں نے میرے دائیں کان کی لو کو اپنے منہ میں لیا اور  اسے چوسنے لگی  جس سے میرے سارے بدن میں سنسنی سی دوڑ گئ اور میں نے اپنے ہونٹ ان کے ہونٹوں پر رکھ دیۓ اور ان کا نیچے والا ہونٹ چوسنا شروع کر دیا ۔۔پھر آنٹئ  نے اپنی زبان میرے  منہ میں ڈالی اور ان کی زبان میری زبان کو تلاش کرنے لگی یہ دیکھ کر  میں نے فوراً  ہی اپنی زبان کو ان کی زبان کے حوالے کر دیا اور اب ہماری زبانوں نے آپس میں ٹکرانا  شروع کر دیا تو مجھے ان کی زبان تھوڑی سی نمکین محسوس ہوئ ۔۔۔ اور میں تھوڑا  ہچکچایا  تو وہ سمجھ   گئ  اور اپنا  منہ ہٹا کر بولی ڈرو نہیں یہ تمہاری ہی منی کا ٹیسٹ ھے تو میں نے کہا کہ وہ تو آپ نے تھوک دی تھی  تو وہ کہنے لگی نہیں تھوڑی سی رکھ بھی لی تھی تو میں نے کہا وہ کیوں تو وہ کہنے لگی " بس ویسے ہی " اور کہنے لگی اپنی زبان دو میں چوسوں گی اور  دوبارہ زبان میرے منہ میں ڈال دی اور میری زبان کو چوسنے لگی – زبان چوسا ئ کے ساتھ ساتھ ان کا تھُوک بھی میرے منہ میں آ گیا   تھا میں نے ان کا تھُوک اپنے منہ میں جمع کیے اور پھر اس میں کچھ اپنی طرف سے اضافہ کیا اور ان کے منہ میں واپس ڈال دیا اور اس طرح ہم کافی دیر تک کسنگ کرتے رہے اس دوران میرا لن پھر سے کھڑا ہو چکا تھا سو انہوں نے اپنے ایک ہاتھ سے میرے لن کو پکڑا اور اسے دبانے لگی


پھر انہوں نے اپنا منہ میرے منہ سے ہٹایا اور مست اؒواز مین بولی  بولی " دودھ پیو گے بےبی " یہ کہا اور اپنی قمیض اتار دی اور پھر جلدی سے برا کا ہُک بھی کھول دیا اور مما ننگا کر کے اسے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور نپل میرے منہ کے ساتھ لگا کر بولی دودھ پی لے منا اور میں نے ان کا نپل اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگا  جبکہ دوسرے ھاتھ سے ان کا دوسرے ممے کا نپل مسلنے لگا ۔۔۔۔ اور آنٹی نے مستی میں کراہنا شروع کر دیا ۔۔۔آہ۔ہ۔ہ۔ہ ۔۔۔۔۔۔۔ اُف ۔۔۔۔  چوستے رہو میرا مما ۔۔۔۔۔۔۔ ایسے ھی پیتے رہو میرا دودھ ۔۔۔۔آہ ۔ہ۔ہ۔۔۔ہمم مم۔ اور میں اگلے 10 منٹ تک ایسے  ہی  آنٹی کے  باری باری    نپلز  چوستا اور مسلتا رہا-
پھر انٹی نے میرے منہ سے اپنے نپلز چھڑا
ۓ اور  بولی  آؤ اب کچھ اور کرے ھیں اور جلدی سے مجھے کپڑے اتارنے کو کہا اور خود وہ اوپری ننگی تھی ہی سو  اب اُنہوں نے  فٹوفٹ  اپنی شلوار بھی اتار دی اور فل ننگی ہو کر بیڈ پر لیٹ گئ پھر جیسے ھی میں ننگا ھو کر ان کے پاس بیڈ پر پہنچا  تو وہ چھلانگ لگا کر بیڈ سے اٹھی اور میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی  اُف۔۔۔۔۔کیا لن ھے اور پھر اپنا منہ لن کے قریب لے گئ اور ایک چوما دے کر بولی  تمہیں پتہ ھے جب فرسٹ ٹائم میں نے اسے دیکھا تھا تو میں اسی وقت لیک ہو گئ تھی یہ کہا اور لن کہ منہ میں لے کر پُر جوش طریقے سے چوسنے لگی ۔۔۔۔۔


آنٹی کافی دیر تک مجھے اپنے  زبردست  چوپے کا مزہ دیتی رہی  پھر اُنہوں نے اپنے منہ سے  میرے  لن  نکلا  اور بیڈ  پر سیدھی   ہو  کر لیٹ  گئ   اور انہوں نے  ٹانگیں کھول دیں اور  اپنی پھدی کی طرف اشارہ کر کے بولی شاہ میری پھدی کا مزہ نہیں  لو  گئے ؟؟   یہ سُن کر میں ان کی ٹانگوں کے بیچ جا کر بیٹھ گیا اور آنٹی کی چوت دیکھنے لگا-  آنٹی کی پھدی بالوں سے پاک تھی اور پھدی کے لپس  کافی سُرخ تھے  پھدی کے سُوراخ کے عین اوپر براؤن رنگ کا موٹا سا  دانہ  تھا  جو اُس  وقت   تک  کافی  سُوجا  ہوا   تھا میں نے یہ سب ایک نطر میں دیکھا اور اپنے ہونٹ آنٹی کی چوت پر رکھ دی
ۓ  ۔ ۔۔۔۔ ان کی چوت سے بڑی ہی مست مہک آ رہی تھی اور میں بے کود ہو کر وہ بُو سونگھنے لگا ۔۔۔۔  میں کافی دیر تک آنٹی کی پھدی سے آنے والی مہک سونگھتا رہا پھر میں نے میں  اپنی  زبان  منہ سے باہر نکالی اور ان کی چوت  پر رکھ دی-
آنٹی کی چوت بڑی تپی  ہوئ  اور گرم  تھی  اور پھر جیسے ہی میں نے اپنی زبان اُن کی پھدی میں ڈالی تو ۔۔۔۔ وہ بہت زیادہ گیلی تھی اور اُن کی چوت کے گرم پانی  کا زائقہ مجھے اپنی  زبان پر بڑا اچھا لگ رہا تھا اب میں نے اپنی زبان ان کی چوت کے  تھوڑا اور اندر لے گیا اور اچھی طرح سے چوت چاٹنے لگا ادھر آنٹی  مزے کے مارے شور مچا رہی تھی  آہ۔ ہ۔ ہ۔ ہ۔ ہ۔ہ ۔۔۔ شاہ ۔۔۔ تم نے اتنی اچھی طرح چوت  چاٹنا کہاں سے سیکھا؟؟؟؟ ۔۔۔۔ تمہاری زبان تو میری جان  نکا ل دے گی ۔۔۔ اور دوران آنٹی 2،3 دفعہ ڈسچارج بھی ہوئ ۔۔۔۔ پر میں ان کی چوت چاٹنے میں لگا رہا ۔۔۔آخر کر  آنٹی مجھ  سے خود ہی  بولی ۔۔۔۔ بس میری جان بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب لن میری اندر ڈالو کہ تمھارے چاٹے نے تو میری چوت  کی پیاس اور بھی بڑھا دی ہے۔۔


یہ سن نے اپنا منہ ان کی چوت سے ہٹا دیا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر لن کو ان کی چوت پر سیٹ کیا اور ہلکا  سا  دھکا  لگا  کر اندر ڈالنے لگا  تو اس  دوران آنٹی بولی ۔۔۔ لن اندر ڈال کر تھوڑی دیر ہلنا نہیں    تو میں نے کہا ہلنا کیوں نہیں آنٹی جی   ؟؟؟؟؟؟؟؟  تو وہ کہنے لگی  میں کھچہ دیر تمہارا لن اپنی چوت میں محسوس کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔ تو میں نے کہا کہ ٹھیک ھے آنٹی جیسا کہا ھے ویسا ہی ہو گا اور ٹوپا ان کی چوت کے اینڈ پر رکھا اور ہلکا سا دبا دیا اور لن پھسلتا ہوا   آنٹی کی چوت میں داخل ہو گیا – جیسے ہی لن آنٹی کی چوت میں گھسا آنٹی نے مستی میں ایک چیخ ماری آُف۔۔ ۔۔۔ ف ۔۔۔ ف  آہ۔۔۔۔ ہ ۔۔ شاہ تیرا لن بہت بڑا اور ۔۔۔ آہ  ہ ہ۔۔ پورا ڈال۔۔۔۔۔ لن پورا    ڈالنا ۔۔۔۔ پھر بولی سُنا تم نے لن پورا ڈالنا۔۔۔۔۔۔ تو میں نے جواب دیا کہ ۔۔۔۔ آنٹی میں لن پورا ہی ڈالوں گا ۔۔۔میں نے یہ کہا اور ایک زور دار گھسا مارا ۔۔۔۔۔ وہ پھر مستی میں چلائ ۔۔ مار دیا شاہ تیرے لن نے مار دیا  میں تمھارے لن کی نشے میں  ڈوب رہی ہوں اور بولی ۔۔۔۔ اب ہلنا نہیں بس ایسے ہی لن پڑا رہنے دو اور خود آنکھیں  بند کر لی اور بولی  شاہ ہ ہ ۔۔۔۔  میں تمہارے لن کا مزہ لے رہی ہوں میری چوت تمہارے لن سے بھر گئ ہے۔۔۔۔۔ کچھ دیر تک لن اُن کی چوت میں پڑا رہا

پھر اچا نک آنٹی نے اپنے چوتڑ نیچے سے اُٹھا کر گھسا مارا اور  بولی  مار میری پھدی کو مار ۔۔۔۔۔ بہن چود مار نا۔۔۔۔  اور میں سمجھ گیا کہ آنٹی  اب چھوٹنے والی ہیں ۔۔  چناچہ  میں نے زور زور گھسے مارنا شروع کر دیۓ میرے ہر گھسے کا وہ مزہ لیتی اور پھر سے کہتی ۔۔۔۔۔۔ میری چوت پھاڑ دے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر   ان کا سانس  دھوکنی کی طرح  چلنا  شروع  ہو گیا اور اب ان کے منہ سے بس آ آ آ۔۔۔آہ ہ ہ ہ ہ  ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔۔ کی آوازیں نکلتی رہیں اور پھر مجھے بھی ایسا لگا کہ میری ٹانگوں کا سارا خون میرے لن کی طرف بھاگ رہا ھے ۔۔۔۔ تب میں نے اپنے گھسوں کی رفتار مزید بڑھا دی ۔۔۔  یہ دیکھ کر آنٹی چونک گئ اور بولی شاہ ہ ہ تم ۔۔۔بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے اُکھڑے اُکھڑے سانسوں میں جواب دیا ۔۔۔۔۔ ہاں میں بھی چھوٹنے والا ہوں یہ سن کر انہوں نے میری کمر پر ہاتھ پھیرنا شوروع کر دیا اور بولیں ۔۔۔۔  چھوٹ میری ۔۔۔۔ جان میری میں اپنا سارا پانی  چھوڑنا ایک قطرہ بھی پھدی سے باہر نہیں جانا چاہیۓ ۔۔۔ شاباش چھوٹ۔۔۔۔ چھوٹ نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر میں 2،3 اچھے خاصے گھسوں کے بعد ان کی پانی سے بھری چوت میں چُھوٹتا گیا
ختم شد

 romantic urdu bold novels

new urdu bold novels

urdu bold novels list

urdu bold novels pdf

most romantic and bold urdu novels list

husband wife bold urdu novels

hot and bold urdu novels pdf

urdu bold novels and stories

urdu bold novels and short stories

most romantic and bold urdu novels