Showing posts with label Romantic Love Stories(Free). Show all posts
Showing posts with label Romantic Love Stories(Free). Show all posts

یوں ہی۔راہ چلتے

 

 


یوں ہی۔راہ چلتے

نعیم بہت تیزی سے گاڑی بھگا رہا تھا ، سو کے قریب سپیڈ والی سوئی چلی گئی تھی ، نعیم اکیلا ہی تھا وہ گاڑی کو چیک کر رہا تھا کہ اب انجن کیسا کام کر رہا ھے پہلے گاڑی پچاس تک بڑی مشکل سے پہنچتی تھی لیکن اب گاڑی ایسے تھی جیسے زیرو میٹر ، میٹر کی سوئی ایک سو بیس تک جا رہی تھی -نعیم پنجاب پولیس میں ایک ڈرائیور تھا ، آج صبح وہ ڈیوٹی پہ واپس آیا تھا تو اسے پتا چلا تھا کہ کل گاڑی کا کام کروایا گیا ھے اس لئے وہ چیکنگ کے لئے نکلا تھا باقی ملازم ابھی ناشتہ کر رہے تھے اس لئے وہ اکیلا ہی تھا – نعیم چیکنگ کے بعد نارمل سپیڈ سے واپس پولیس سٹیشن آ رہا تھا کہ نہر کے پاس اسے کچھ لوگوں نے رکنے کا اشارہ کیا ، نعیم نے گاڑی روکی تو لوگوں نے اسے بتایا کہ ایک لڑکی خودکشی کرنے لگی تھی اور ہم نے اسے پکڑ رکھا ھے لیکن ہمیں وہ گالیاں دے رہی ھے ، نعیم نے لڑکی کا پوچھا تو وہ ایک طرف کھڑی تھی اور دو تین مرد اس کے اردگرد کھڑے تھے ، نعیم نے لڑکی کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا تو وہ گاڑی کے دروازے کے پاس آ گئی – نعیم نے پوچھا کیوں خودکشی کرنے لگی تھیں ؟ وہ آگے سے خاموش رہی نعیم نے لوگوں سے پوچھا کہ اسے روکا کس نے تھا ؟ تو ایک آدمی آگے آیا ،بقول اس کے “کہ لڑکی نے جوتا اتارا اور اپنا دوپٹا اتار کر پل کی دیوار پر رکھا اور دیوار پر چڑھنے لگی تو میں نے اسے پکڑ لیا “-نعیم نے پوچھا تم اس وقت اس کے پاس کیسے پہنچے ؟میں وہاں سے گزر رہا تھا میری نگاہ اس پر تب پڑی جب یہ پل پر کھڑی ہوئی ، میرے سامنے اس نے دوپٹا اتارا اور جب جوتا اتار کر اوپر دیوار پر چڑھنے لگی میں اس وقت قریب پہنچ گیا تھا اور اسے پکڑ لیا، اس آدمی نے تفصیل بتائی –نعیم نے لڑکی سے دوبارہ پوچھا کہ کس وجہ سے مرنے لگی تھیں لیکن وہ خاموش رہی -نعیم نے لڑکی کا جائزہ لیا اس کے اندازہ کے مطابق لڑکی کی عمر لگ بھگ بائیس سال تھی اور وہ ایک قبول صورت لڑکی تھی ، سانولہ رنگ ، پتلے پتلے ہونٹ ، اور بھاری چھاتی مطلب کہ نسوانی حسن سے مالا مال تھی اور قد بھی عام عورتوں سے تھوڑا نکلتا ہوا تھا اسے کسی حد تک خوبصورت سمجھا جا سکتا تھا جب نعیم نے دیکھا کہ وہ خاموش ھے اور اس کے سوالوں کا جواب نہیں دے رہی تو اس نے لوگوں سے پوچھا کہ کوئی اس کو جانتا ھے ؟ تو سب نے نفی میں جواب دیا نعیم نے اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا تو وہ پیچھے بیٹھ گئی ، نعیم نے لوگوں سے پوچھا ساتھ میں کون جائے گا بطور گواہ ؟کسی نے بھی ساتھ جانے کی حامی نہ بھری ،لوگ پولیس سے ایسے ڈرتے ہیں جیسے بواسیر والا بندہ سالن میں تیز مرچوں سے ،نعیم نے جب دیکھا کہ ساتھ کوئی بھی نہیں جائے گا تو اس نے لڑکی کو آگے افسر والی سیٹ پہ بلا لیا مبادہ پیچھے سے کہیں کود ہی نہ جائے –لڑکی نعیم کے ساتھ بیٹھ گئی اور نعیم نے گاڑی آگے بڑھا دی ، نعیم نے اس کی طرف دیکھا وہ خاموشی سے ہونٹ کاٹ رہی تھی ، نعیم کی نگاہ اس کی چھاتی پر پڑی جس پر دوپٹا ہٹا ہوا تھا ، لڑکی کی تگڑی چھاتی دیکھ کر نعیم کی پینٹ میں تھوڑی ہلچل ہوئی اور اس کے سات انچ لمبے موٹے لن میں اکڑاہت پیدا ہونا شروع ہو گئی ، نعیم نے اپنا ہاتھ گئیر سے اٹھا کر اپنے لن پہ رکھا اور اسے مسلنے لگا ، لڑکی نے کن آنکھیوں سے نعیم کے ہاتھ کی طرف دیکھا جس سے اس نے اپنا لن پکڑا ہوا تھا اور اسے مسل رہا تھانعیم نے جب دیکھا کہ لڑکی نے اسے لن مسلتے دیکھ لیا ھے تو اس نے اپنا ہاتھ وہاں سے اٹھا کر سٹئیرنگ پر رکھ لیا –اس نے لڑکی سے اس کا نام پوچھاسونیا لڑکی نے آہستہ سے جواب دیانعیم نے اس سے پوچھا کیوں مرنا چاہتی ہو ؟سونیا نے کوئی جواب نہیں دیا سونیا خاموش تھی لیکن نعیم کے ذہن پر سیکس سوار ہو چکا تھا اور اس کے ذہن پر شیطانیت چھا چکی تھیاس نے سونیا کی طرف دیکھا اس کی جاندار چھاتی اب بھی علیحدہ ہی نظر آ رہی تھی دوپٹا ہٹا ہوا تھا ، نعیم نے دوبارہ سے پوچھا سونیا کیوں خودکشی کرنے لگی تھیں ؟امی سے لڑائی ہوئی تھی اسلئے مرنا چاہتی تھی سونیا نے اھستگی سے جواب دیا،ابھی تمہاری عمر ہی کیا ھے ، تم نے ابھی دیکھا ہی کیا ھے اس دنیا میں ؟(نعیم کا ہاتھ سٹیئرنگ سے گئیر پر ) یہ دنیا بہت خوبصورت ھے تمہیں شاید ابھی اس کا احساس نہیں ھے – یہ کہتے ہوئے اس کا ہاتھ سونیا کے ران پر رینگ گیاسونیا کی نرم ران پر نعیم کا ہاتھ آھستگی سے حرکت کرنے لگا ، سونیا ایسے تھی جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو ، اس کی طرف سے کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں تھی کوئی روک نہیں تھی لیکن چہرے پہ اقرار کا بھی کوئی شائبہ تک نہیں تھا ایسے لگتا تھا جیسے اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس قسم کا ردعمل ظاہر کرے گھر سے وہ خودکشی کرنے نکلی تھی اور پھر پولیس کی گاڑی میں پولیس والا اپنی حد سے بڑھ رہا تھا لیکن دماغ پہ بےحسی چھائی ہوئی تھی لیکن اس کی بے حسی اسوقت ختم ہو گئی جب نعیم کا ہاتھ اھستگی سے اس کی رانوں کے درمیان اس کے سوراخ کی طرف بڑھا اور اس کے سوراخ کے دیواروں کو نعیم کی انگلیوں نے چھوا تو اس کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور کرنٹ کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی اور سونیا نے بے اختیار نعیم کا ہاتھ پرے دھکیل دیا سونیا ہوش کی دنیا میں واپس آ چکی تھی -‏ نعیم نے اس کی طرف سے مزاحمت محسوس کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی رانوں کی طرف دوبارہ نہ بڑھایا –نعیم پہلے اسے باتوں سے رام کرنا چاہتا تھا اسے پتا تھا کہ یہ ابھی جذباتی ھے اور خودکشی کرنے آئی تھی ایسے میں کوئی مسلئہ ہی کھڑا نہ کر دے اور اسے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں –نعیم نے صدیوں پرانا عورتوں کے لئے بنا ہتھیار استمال کرنے کا فیصلہ کیا جس سے عورت عام طور پر چت ہو جاتی ھے جی ہاں آپ صحیح سمجھے اس ہتھیار کا نام ھے تعریف –سونیا تم بہت حسین ہو ، تمہارا حسن ہی ایسا ھے کہ زاہد بھی گناہ پر آمادہ ہو جائے ، سوری sorry میں بہک گیا تھا نعیم نے سونیا پر تعریف کا جال پھینکتے ہوئے کہا –سونیا بالکل خاموش رہی اس نے کوئی جواب نہیں دیا –نعیم نے لاگ بک سے پنسل اور ورک لیا اور اس پر اپنا نمبر لکھ کر سونیا کی طرف بڑھایا ، یہ کہتے ہوئے کہ کسی قسم کا کوئی مسلئہ ہو تو تم اس نمبر پر رابطہ کر لینا میں آپ کی ہر طرح کی مدد کروں گا سونیا تم بہت پیاری ہو ، وہ زندگی جسے تم ختم کرنے جا رہی تھیں اسے میرے نام کر دو سونیا نے کوئی جواب نہیں دیا وہ خاموش بیٹھی رہی ، سونیا نے نعیم کے موبائل نمبر والا کاغذ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا ، نعیم نے سوچا سونیا سے پولیس سٹیشن میں کوئی اس کاغذ کے بارے میں ہی نہ پوچھ لے اور اس کا نمبر دیکھ کر اس کے ساتھی اس کا مذاق ہی نہ اڑائیں – نعیم نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے لیا – سونیا نے اس پر بھی کوئی ری ایکشن نہیں دیا اس دفعہ بھی خاموش تھی –نعیم نے اسے اپنا نمبر زبانی بتایااور دو تین دفعہ دوہرایا ، اس دوران پولیس اسٹیشن آ گیا اور نعیم سونیا کو لے کر انچارج کے کمرے میں چلا گیا – انچارج ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا اور شوگر کا مریض تھا اسلئے وہ عورتوں کو شہوت بھری نظروں سے دیکھنے کے قابل نہیں رہا تھا اس نے سونیا کو سرسری نظروں سے دیکھا اور نعیم سے پوچھا کہ یہ کون ھے ؟یہ خودکشی کرنے لگی تھی اور بس چند لمحے دیر ہو جاتی تو اس وقت یہ آپ کے سامنے کھڑی نہ ہوتی باجوہ صاحب نعیم نے انچارج کو بتایا – یہ نہر والے پل پر سے کودنے لگی تھی کہ ایک آدمی نے پیچھے سے پکڑ لیا اور میرے حوالے کر دیا میں اسے آپ کے پاس لے آیا ھوں باقی کی قانونی کاروائی آپ کی بوریت کا سبب بن سکتی ھے اسلئے حذف کر رہا ھوں لیکن ایک دلچسپ بات آپ کو بتاتا چلوں کہ خودکشی واحد جرم ھے جس کی تکمیل پر مجرم کو سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ کہ سزا زندہ افراد کے لئے ھے –لڑکی کا معاملہ تھا اسلئے اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی اور اسے اس کے والدین کے حوالے کر دیا گیا – ایک دو دن تک سونیا نعیم کے حواس پر چھائی رہی اور پھر ایک نائکہ کے پاس نئی آئی لڑکی کے ساتھ رات گزارنے کے بعد سونیا نعیم کے ذہن سے نکل گئی –اس واقعہ کے تقریبا دس سے پندرہ دن بعد رات دو بجے کے قریب نعیم کے موبائل پر ایک انجان نمبر سے کال آئی ، آواز لڑکی کی تھی –


آپ کون ؟ لڑکی نے نعیم سے پوچھا سونیا کی اپنی امی سے کسی بات پر تکرار ہوئی تھی اس کی امی نے سونیا کو گاؤں کی جاہل عورتوں کی طرح گالیاں دینا شروع کر دی ایک گالی نے سونیا کو جذباتی کر دیا کیونکہ اس کے دل میں چور تھا وہ اپنے کزن سے چدوا چکی تھی جب اس کی ماں نے اسے گشتی کہا تو نہ جانے کیوں سونیا کے دل پہ یہ گالی تازیانے کی طرح لگی اور وہ جذباتی ہو کر مرنے کے لئے گھر سے نکل آئی ماں نے سمجھا پاس پڑوس کے کسی گھر میں گئی ھے – سونیا نے نہر میں ڈوب کر مرنے کا سوچا اور نہر پہ چلی گئی اس کی زندگی ابھی باقی تھی عین اسوقت جب وہ چھلانگ لگانے کے لئے پل کی دیوار پر چڑھی تو اسے کسی نے پکڑ لیا اور وہ چاہنے کے باوجود بھی مر نہ سکی – لوگوں نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا – گاڑی میں پولیس والے نے پہلے اپنے لن کو ہاتھ میں لے کر مسلا تھا سونیا نے کن آنکھیوں سے اس کی ساری کاروائی دیکھی تھی اس کا موٹا لمبا لن پینٹ میں پھڑپھڑا رہا تھا اور اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا سونیا اس وقت گبھرائی ہوئی تھی وہ پولیس کی حراست میں تھی اور جو لڑکی ایک دفعہ تھانے کا چکر لگا لے تو اسے معاشرہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا وہ بہت پریشان تھی کیونکہ اب بدنامی اس کے ماتھے کا ٹیکہ بننے والی تھی وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ اسے اپنی رانوں پر پولیس والے کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا ، پریشانی نے اس کے ہوش اڑائے ہوئے تھے اس سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کیا کرےاس دوران پولیس والے کا ہاتھ اس کی چوت کے دانے سے ٹکرایا تو اس کے جسم نے ایک جھرجھری لی اور اس نے اس کا ہاتھ بے اختیار جھٹک دیا لیکن چوت کے دانے پر پولیس والے کے ہاتھ نے اس کے اندر کی عورت کو جگا دیا تھا وہ ساری پریشانی بھول چکی تھی اور دوبارہ سے پولیس والے کی طرف سے جسمانی چھیڑ چھاڑ کی منتظر تھی لیکن اس نے دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہ کی اور باقاعدہ اس سے معذرت کی ، جب اس نے سونیا کے حسن کی تعریف کی تو سونیا کی چوت میں کچھ کچھ ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن بات تعریف سے آگے نہیں بڑھی ، جب پولیس والے نے اسے نمبر والی پرچی دی تو سونیا خاموش رہی اور واپس لینے پر دل میں حیران بھی ہوئی تھی لیکن جب پولیس والے نے اپنا نمبر زبانی دہرایا تو اس کے ذہن میں یہ نمبر فکس ہو گیا تھا – اس وقت اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کا کسی قسم کا پولیس والے سے تعلق بنے گا تھانے سے جب اس کے ابو اسے گھر لائے تو گھر والوں نے بہت لعنت ملامت کی اور سونیا نے گھر والوں سے ایسے دوبارہ نہ کرنے کا وعدہ کر لیا –اسی رات سونیا سوئی تو خواب میں اس پولیس والے کو دیکھا – سونیا اور وہ سیکس کر رہے تھے اس کا موٹا تازہ لن جب اس کی چوت میں ایک جھٹکے سے داخل ہوا تو ایک چیخ سونیا کے منہ سے نکلی اور اس کی آنکھ کھل گئی سونیا کی چوت گیلی ہو چکی تھی اس کی ماں نے پوچھا کیا ہوا سونیا ؟خواب میں ڈر گئی تھی سونیا نے اپنی امی سے کہا – کمرے کی لائٹ آن on تھی اور سونیا اپنے بستر میں تھی، کوئی مشکوک بات نہ تھی اسلئے اس کی ماں نے کہا بیٹی کچھ پڑھ کر سویا کرو ، یہ کہہ کر اس کی ماں نے دوسری طرف کروٹ لے لی –لیکن سونیا کی نیند اڑ چکی تھی ، یہ نہیں تھا کہ سونیا نے پہلے کبھی سیکس نہیں کیا تھا، سونیا پہلے اپنے کزن کے ساتھ سیکس کر چکی تھی ،ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک دن سونیا کا کزن ان کے گھر آیا گھر میں کوئی نہیں تھا سوائے سونیا کے – سونیا کے کزن نے اس دن سونیا سے زومعنی مذاق کئے تھے لیکن عملی طور پر کوئی حرکت نہیں کی تھی ، سونیا جوان تھی تنہائی میں جب اس کا کزن آیا تو اس کا ذہن پراگندہ ہو گیا تھا اور وہ سیکس پر بھی آمادہ تھی لیکن کزن کی بدقسمتی کہ وہ نہ سمجھ سکا اور اس کے جانے کے بعد تھوڑی ہں دیر بعد اس کا دوسرا کزن آ دھمکا تھا اس نے تنہائی اور موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سونیا کے ممے پیچھے سے آ کر پکڑ لئے جب وہ کچن میں اس کے لئے چائے بنا رہی تھی سونیا نے معمولی سی مزاحمت کی اور پھر اس کی بانہوں میں سما گئی ، وہ سونیا کو کمرے میں لے گیا وہاں اس نے سونیا کے مموں کو اتنا چوسا تھا کہ اگلے دن تک بھی لالگی نہیں گئی تھی پھر جب اس نے سونیا کی شلوار اتار کر اس کی چوت پہ اپنا لن رکھا تھا تو سونیا کے جسم میں مزے کی لہریں گردش کرنا شروع ہو گئی تھیں اور مزے کی یہ لہریں اس وقت تھم گئیں جب سونیا کے کزن نے اس کی چوت کے سوراخ کو ایک جھٹکے سے کھول دیا اور اس کے کنوارے پن کی جھلی کو بیدردی سے پھاڑ دیا جس سے سونیا کو ایسے لگا تھا جیسے اس کی پھدی میں کسی نے کوئی تیر چھوڑ دیا تھا بے اختیار اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی اور پھدی سے خون تیز جھٹکوں سے سونیا کی بیدردی سے چدائی کی تھی جس میں مزا بالکل بھی نہیں اور صرف درد ہی درد تھا ، اس چدائی کے بعد سونیا نے سیکس سے توبہ کر لی تھی اور دوبارہ اپنے اس کزن کو موقع نہیں دیا تھا – پولیس والے نے دو سالوں کے بعد دوبارہ سے اسے کے جسم کی آگ پر تیل پھینک دیا تھا اور وہ دوبارہ سے سیکس کے لئے آمادہ ہو گئی تھی ، اس کے پاس پولیس والے کا نمبر تھا لیکن بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی لیکن پھر ایک رات اس نے پولیس والے کا نمبر ڈائل کر ہی دیا ، پولیس والے سے سونیا نے پوچھا آپ کون؟نعیم لڑکی کی آواز وہ بھی رات میں سن کر حیران رہ گیا ، اس نے کہا میں نعیم ھوں –آپ ؟سونیا نے کہا میں بتاتی ھوں پہلے آپ بتاؤ آپ جاب کیا کرتے ہیں ؟میں پولیس میں ہوتا ھوں –میں سونیا جس کو آپ نہر والے پل سے پولیس سٹیشن لے کر گئے تھے –اچھا وہی خودکشی والی ؟جی میں وہی ھوں ؟ سونیا نے کہا –نعیم آپ کیسی ہیں ، آپ تو جا کر بھول ہی گئیں ؟اگر بھولی ہوتی تو کال کیسے کرتی آپ کو ؟ آپ سنائیں پولیس والے کیسے ہیں آپ ؟میں ٹھیک ھوں آپ سناؤ ؟میں بھی ٹھیک ھوں ، ویسے آپ بہت شرارتی ہیں پولیس والے ، سونیا نے کہا – اسطرح نعیم اور سونیا میں دوستی ہو گئی ، یہ دوستی بے تکلفی میں بدل گئی اور پھر نعیم نے سونیا سے پوچھا ،جان و نعیم آپ کا نمبر کیا ھے ؟سونیا ہنستے ہوئے جوتے کا ؟نعیم نے بھی ایک قہقہ لگایا اور کہا نہیں جی آپ کی نرم و گداذ چھاتی کا –سونیا : آپ نے کب اس کا گداذ دیکھا؟ دیکھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور دور سے ہی پہچان لیتے ہیں آپ تو بالکل میرے ساتھ بیٹھیں تھیں گاڑی میں اور دوپٹہ بھی ہٹا ہوا تھا ، سچ پوچھو تو اس دن آپ کی چھاتی دیکھ کر ہی میرے بدن میں گرمی چڑھ آئی تھی نعیم نے کہا –سونیا نے کہا جی مجھے پتا ھے آپ بہت بدتمیز ہو ، ویسے آپ کی نوکری بہت مزے کی ھے –جی ہاں بہت مزے کی ھے – بیس ہزار تنخواہ ھے گھر کا ماہانہ خرچ بچوں کی فیس، بجلی گیس کا بل بھی ان بیس ہزار میں ، بیوی بچے بیمار ہو جائیں تو ان بیس ہزار میں سے ہی علاج کروانا پڑتا ھے ، والدین میں سے کوئی بیمار ہو تو بھی ان بیس ہزار میں علاج کروانا پڑتا ھےحکومت نے کوئی سہولت نہیں دی ایک تنخواہ کے علاوہ اور تنخواہ بھی اتنی زیادہ کہ دس دن نہیں چلتی ، مزے کی بات یہ ھے کہ بنک والے بھی پولیس کو لون loan نہیں دیتے بہت سارے پولیس والوں کے گھر والے اس لئے مر جاتے ہیں کہ ان کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں ہوتے اور حکومت کی طرف سے ایسی کوئی سہولت بھی نہیں ھے کہ اپنا یا گھر والوں کا علاج کروا سکیں ، نعیم کی تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ درمیان میں سونیا بول پڑیپولیس والے تم تو سرئیس ہی ہو گئے میں نے تو ایسے ہی بات کی تھی میں بھی آپ کو ایسے ہی بتا رہا ھوں تاکہ تمہیں پتا چل سکے کہ ہم کتنے مزے میں ہیںنعیم نے سونیا سے کہا اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے : بس سونیا مجبوری میں نوکری کر رہے ہیں ورنہ کوئی حال نہیں پولیس والوں کا ، ہم سے تو ریڑھی والے اچھے ہیں جو اپنی مرضی تو کر سکتے ہیں ہم عید والے دن بھی ڈیوٹی پہ ہوتے ہیں گھر والوں کے ساتھ عید بھی نہیں منا سکتے ،پولیس والے اب بس بھی کرو سونیا نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ،نعیم ذرا پھر سے کہناکیا ؟ سونیا نے پوچھا –پولیس والےآپ کے منہ سے بہت اچھا لگتا ھے ایک دم سٹائلس نعیم نے کہا ،پولیس والے ،پولیس والے ،پولیس والے ،پولیس والے ،پولیس والے ، سونیا نے ایک ہی سانس میں چار پانچ دفعہ بول دیا –نعیم ایسے نہیں ، تو پھر کیسے سونیا نے کہا ؟ نعیم چھوڑو ان باتوں کو – میں نے تم سے تمہارا نمبر پوچھا تھا ؟ چھتیس کا برا پہنتی ھوں سونیا نے کہا،وڈے وڈے ممے پتا نہیں کب ہاتھ میں آئیں گے ؟ نعیم نے اسکی چدائی کے عزائم ظاہر کرتے ہوئے کہاسونیا اور نعیم بے تکلفی سے آگے نکل چکے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کرنا چاہتے تھے اسلئے وہ دونوں بہت بولڈ ہو چکے تھے – سیکس جذبات کا اظہار فون پر اور سیکس کی خواہش پوری کرنے کے ایکدوسرے سے ملنے کے لئے انہیں بے چین کیے ہوئے تھی نعیم نے اس کے ممے پکڑنے کی خواہش کا اظہار سونیا سے اسلئے کیا تھا تاکہ واضح ہو سکے کہ سونیا کی چوت سے لطف اٹھانے کے لئے اسے کتنا انتظار کرنا پڑے گا – میرے ممے تمہارے ہاتھ میں کیوں پولیس والے ؟ سونیا نے مسکراتے ہوئے کہا –سونیا ہاتھوں میں نہیں تو پھر منہ میں سہی ، اب تو کوئی اعتراض نہیں ؟ نعیم نے بے تکا سا جواب دیا –سونیا نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا پولیس والے بہت جلد میں تم سے ملنے آؤں گی ،ایسے ہی باتوں سے نعیم اور سونیا کا وقت گزرتا رہا اور پھر ایک دن سونیا نے نعیم سے کہا ،میں کل بازار آ رہی ھوں اپنی سہیلی کے ساتھ ، اس نے بھی اپنے یار سے ملنا ھے ، ہم کل صبح دس بجے گھر سے نکلیں گی اور رکشہ سے صدر چوک اتریں گی ، تم سوا دس بجے صدر چوک میرا انتظار کرنا – نعیم نے اسے دس بجے صدر چوک ملنے کا وعدہ کیا نعیم کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے سونیا نے بالاخر ملنے کا ٹائم دے دیا تھا ، نعیم نے اپنے دوست کو فون کیا کہ یار مجھے کل اپنے فلیٹ کی چابی دیتے جانا – فراز نعیم کا دوست تھا جو ایک کچی آبادی میں کرائے کے کمرے میں رہتا تھا اور بس کنڈکٹر تھا وہ صبح چھ بجے نکلتا تھا اور شام آٹھ بجے واپس آتا تھا ، نعیم کی اس سے دوستی ایک ایکسیڈنٹ کے دوران ہوئی تھی جب فراز کی بس سے ایک موٹر سائیکل سوار ٹکرا کر زخمی ہوا تھا اور بات پولیس تک پہنچ گئی تھی – وہاں نعیم کو پتا چلا کہ فراز اکیلا رہتا ھے نعیم خود ایک رنگین مزاج اور عیاش انسان تھا اسلئے اس نے بس والوں کی فیور کی اور اسطرح فراز سے دوستی کر لی ، بعد میں کافی دفعہ نعیم نے اس کے فلیٹ میں رنگ رلیاں منائی تھیں اور سونیا کی چدائی بھی فراز کے فلیٹ میں کرنے والا تھا رات سونیا اور نعیم کی باتیں صبح کی ملاقات سے متعلق رہیں ، سونیا تھوڑا بہت ڈر رہی تھی جبکہ نعیم اس کا ڈر ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا ،یہ لن پھدی کا کھیل ایسا ھے جس میں بہت زیادہ رسک ہوتا ھے لیکن کوئی پروا نہیں کرتا ، یہ لڑکی کی قسمت ہے کہ اس کے ساتھ دھوکہ نہ ہو ورنہ تو لڑکی ملنے ایک سے جاتی ھے اور آگے چار لڑکے ہاتھ میں لن لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور پھر کئی دن چوت کی ٹکور کرتی رہتی ھے ، کبھی ایسا ہوتا ھے کہ چدائی کے دوران اوپر سے کوئی آ گیا اور لڑکی بدنام – آج تک کسی کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ایک لڑکی دن کو کاکروچ سے ڈر جاتی ھے لیکن رات میں اکیلی دو میل پیدل لڑکے سے ملنے چلی جاتی ھے ، یہ پھدی عورت کا ڈر کیسے ختم کر دیتی ھے ؟اگلے دن دس بجے سے پہلے ہی نعیم صدر چوک پہنچ گیا ، تھوڑی دیر بعد سونیا اپنی سہیلی کے ساتھ رکشہ سے اتری تو نعیم اس کی طرف چل دیا ، سونیا نے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور بہت تازہ دم لگ رہی تھی ، نعیم نے سونیا کو ساتھ لیا اور بائیک پر پیچھے بٹھا کر چل پڑا – سونیا پولیس والے کیا حال چال ہیں ؟نعیم نے کہا میں بالکل ٹھیک ٹھاک ھوں تم سناؤ ؟پولیس والے میں بھی ٹپ ٹاپ ھوں ، تم کب پہنچے صدر چوک ؟ سونیا نے پوچھا –نعیم دس بجے سے چند منٹ پہلے –واہ ! کیا بات ھے پولیس وقت سے پہلے پہنچ گئی یہ تو معجزہ ہو گیا ورنہ تو پولیس تو ہمیشہ لیٹ پہنچتی ھے سونیا نے ہنستے ہوئے کہا-پولیس وقت پہ پہنچ جائے تو مصیبت اگر لیٹ پہنچے تو بھی مصیبت نعیم نے کہا –سونیا وہ کیسے ؟ اگر کسی ڈاکو کو مار دیں بیشک وہ اشتہاری ہو تو عدالت نے یہ نہیں دیکھنا کہ اس پر پہلے سے پچاس پرچے تھے اس نے پولیس سے یہی کہنا ھے کہ ڈاکو نے فائرنگ کی تو کوئی پولیس والا نہیں مرا اور پولیس کی فائرنگ سے ڈاکو مر گیا یہ جعلی مقابلہ ھے – پھر انکوائریاں بھگتو اور عدالت میں خجل علیحدہ سے اور بہت کم افسر ساتھ دیتے ہیں –اگر پولیس والا مر گیا تو اس کے بیوی بچے رل جاتے ہیں محکمہ دوبارہ اس کے گھر والوں کو پوچھتا تک نہیں ، اس سے بہتر ھے کہ بندہ لیٹ پہنچے ، ڈاکو کبھی نہ کبھی ہاتھ لگ ہی جانے ہیں لیکن یہ زندگی نہیں – نعیم کی تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ سونیا نے اپنی چھاتیاں نعیم کے جسم سے لگاتے ہوئے کہا پولیس والے ایک تو تم سٹارٹ ہو جاؤ تو رکنے کا نام نہیں لیتے اب یہ فضول گفتگو ختم کرو کوئی اور بات کرو –سونیا کے نرم و گداذ چھاتیاں جیسے ہی نعیم کے جسم سے ٹکرائیں تو اس کے جسم میں لذت آمیز لہریں حرکت کرنے لگیں اور وہ لیکچر بھول گیا نعیم نے اپنا جسم پیچھے کر کے اس کی چھاتیاں دبائیں تو سونیا اس سے مزید چپک گئی ، ایسے ہی ایکدوسرے کو اپنے جسموں کا احساس دلاتے ہوئے وہ فراز کے کمرے میں پہنچ گئے –کمرے میں ایک سنگل بیڈ ، ایک پرانا سا صوفہ سیٹ اور کچھ گھریلو استمال کی چیزیں تھیں –سونیا صوفہ پر بیٹھ گئی اور نعیم نے اندر سے کمرے کی چٹخنی لگا دی ، چٹخنی لگاتے ہوئے نعیم کے ہاتھ اندرونی جوش سے ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے ، چٹخنی لگانے کے بعد نعیم بھی صوفہ پر سونیا کے ساتھ بیٹھ گیا – آنے والے لمحات کا سوچ کر سونیا کا جسم بھی ہولے ہولے کانپ رہا تھا –


 نعیم سونیا کے قریب ہوتے ہوئے سونیا سے رومانٹک لہجے میں کیسی ہو میری جان ؟سونیا جذبات کی شدت سے لرزتی آواز میں “میں ٹھیک ھوں نعیم نے اپنا ایک ہاتھ اس کی ران پر رکھتے ہوئے سونیا سے کہا ” آج تم سے میری ملاقات والا سپنا پورا ہو رہا ھے (اس دوران اس کی ران پر آہستہ آہستہ انگلیاں پھیرنا شروع کر دیں) مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم میرے ساتھ ہو ، آج کا دن میری زندگی کا حسین ترین دن ھے کہ دنیا کی خوبصورت لڑکی مجھ سے ملنے آئی ھے ،“آئی لو یو سونیا “ نعیم نے یہ کہتے ہوئے سونیا کو سر کے پیچھے گردن پر ہاتھ ڈالتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دئیے ، نعیم نے سونیا کے ہونٹوں کو آہستہ آہستہ چومنا شروع کر دیا اس کا اوپر والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا ، نعیم نے اپنی زبان سونیا کے منہ میں کرنے کی کوشش کی تو سونیا نے اپنے دانت جوڑ لئے اور منہ بند کر لیا ، سونیا کو شاید لپس کسنگ پسند نہیں تھی نعیم نے سونیا کے رویہ سے اندازہ لگا لیا اسلئے اس نے سونیا کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کر لئے اور اسے اپنے بازؤں میں اٹھا کر بیڈ پر لے آیا – بیڈ پر سونیا کو لٹا کر خود اس کے اوپر لیٹ گیا ، سونیا کی چھاتیاں نعیم کے سینے میں دب گئیں اور نعیم سونیا کے چہرے کو چومنے لگا ، نعیم نے اس کی گالوں پر زبان کی نوک پھیرنی شروع کر دی جس سے سونیا کے جسم میں سرور پیدا ہونا شروع ہو گیا اور اس نے اپنا ہاتھ نعیم کے بالوں میں پھیرنا شروع کر دیا ، نعیم نے جب سونیا کی گردن پر اپنے ہونٹ لگائے اور اس کی گرم سانسیں سونیا نے اپنی گردن پر محسوس کیں تو سونیا کو ایسے لگا جیسے مزا اس کی رگ رگ میں سرایت کر گیا ھے نشے کی طرح اور جب نعیم نے اس کے کان کی لو کو ہونٹوں میں لیا اور دانتوں سے ھلکے سے دبایا تو اب کی بار سونیا یہ برداشت نہ کر سکی اور بالوں کو کھینچ کر اسے اپنی گردن اور کان سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن نعیم بھی پرانا پاپی تھا اور جان گیا تھا کہ سونیا سے اب مزا برداشت نہیں ہو رہا اور بہت زیادہ لطف محسوس کر رہی ھے تو اس نے سونیا کا ہاتھ بالوں سے نکالا اور اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اس کی انگلیوں میں پھنسا کر اس کے دونوں ہاتھوں کو جکڑ لیا اور پھر سے اس کی گردن اور کانوں چومنے لگا اور ان پر زبان پھیرنے لگا ، اب کی بار سونیا کی سانسیں تیز اور بھاری ہو گئیں اور ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کا سانس پھول گیا ہو ، سونیا کے منہ سے مزے سے بھرپور ھلکی ھلکی کراہیں نکلنا شروع ہو گئیں اور نعیم اور جوش سے سونیا کی گردن کو چومنے لگا ، نعیم کا چھ سات انچ کا لمبا اور موٹا لن مکمل تناؤ کی حالت میں آ چکا تھا اور سونیا کی رانوں پر چب رہا تھا ، سونیا نعیم کا تگڑا لن اپنی پھدی کے اردگرد محسوس کر رہی تھی جس کی چبن سے اس کی چوت مزید گیلی ہو رہی تھی نعیم سونیا کی گردن سے نیچے چوما چاٹی کرتے ہوئے آیا تو سونیا کے جسم پر ابھی بھی قمیض تھی اس نے سونیا کی قمیض اتارنے کا سوچا لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گیا ، اس نے سونیا کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس کی برا میں سے اس کی لیفٹ چھاتی باہر نکال لی ، اور اس کی براؤن نپل پر زبان کو ٹچ کرنے لگا جس پر سونیا مزے سے تڑپ اٹھی ، نعیم نے اس کی نپل ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا جس سونیا کے منہ سے آہ ، آہ ، او ، اں جیسی جنسی آوازیں خودبخود نکلنا شروع ہو گئیں اور سونیا نعیم کا سر اپنی چھاتی کی طرف دبانے لگی ، سونیا اس وقت مزے کی دنیا کی سیر کر رہی تھی ، نعیم کا لن تو کافی دیر سے کھڑا ہو چکا تھا اب اس سے مزید برداشت نہیں ہو پا رہا تھا اسلئے اس نے سونیا کی چدائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ، نعیم نے اس کی چھاتی چوسنے کے بعد اس کی شلوار کھینچی اور اسکی شلوار گھٹنوں تک نیچے آگئی نعیم نے سونیا کی شلوار کھینچی تو وہ گھٹنوں تک اتر گئی ، نعیم نے اس کی قمیض اس کی رانوں سے اٹھائی تو نیچے سونیا کی پھولی ہوئی چوت پر نعیم کی نظر پڑی جس کے لب آپس میں ملے ہوئے تھے تو نعیم کا لن ایک جھٹکا کھا کر مزید تناؤ میں آ گیا اور سونیا کی چوت کو سلامی دینے کی لئے تیار تھا ، نعیم نے تازہ شیوڈ چوت دیکھی تو اس کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے اپنے لب سونیا کی چوت کے لبوں سے ملا دئیے اور اسکی چکنی چوت میں زبان ڈال دی ، سونیا ایک دم تڑپ اٹھی اور لطف و سرور کی بلندیوں پر پہنچ گئی ، نعیم نے اس کی گیلی چوت کا ذائقہ محسوس کیا اور اس کی چوت کے اندر زبان کرنا شروع کر دی ، نعیم کبھی تو اس کی چوت پر زبان پھیرتا اور کبھی زبان اندر کرتا جس سے سونیا کے منہ سے مزے سے بھرپور جنسی آوازیں نکلنا شروع ہو گئی – نعیم چھپر چھپر اس کی چوت چاٹ رہا تھا اور سونیا مزے سے بھرپور آوازیں نکال رہی تھیں ، چند منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ سونیا کی آواز میں تیزی اور جسم میں اکڑاہت آ گئی ، نعیم کو اندازہ ہو گیا کہ سونیا اب فارغ ہونے والی ھے تو اس نے سونیا کی چوت کے دانے کو دانتوں میں لے کر آہستہ سے کاٹا اور ایک دم زبان سونیا کی چوت میں ڈال دی سونیا کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی اور پھدی سے پانی – نعیم نے اپنا چہرہ پیچھے کر لیا – سونیا آنکھیں بند کئے لیٹی مزے میں تھی ، نعیم اپنے کھڑے لن کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور وہاں پڑے ہوئے ایک کپڑے سے اپنا منہ صاف کیا اور سونیا کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا – سونیا بہت خوش لگ رہی تھی یہ اس کی زندگی کا پہلا خوشگوار سیکسی تجربہ تھا – تھوڑی دیر بعد نعیم نے اس کی چھاتی پر ہاتھ رکھا اور اس کی نپل پر انگلی گھمانے لگا ساتھ ہی اس کی چھاتی کو مٹھی میں لے کر دبانے لگا سونیا مدہوش ہونے لگی نعیم نے سونیا کی قمیض اتار دی ، سونیا کا برا اس کی چوچیوں سے نیچے تھا اور اس کی چوچیاں تنی ہوئی تھیں اور براؤن رنگ تھا ان کا – نعیم نے سونیا سے مزید تھوڑی جنسی چھیڑ چھاڑ کی اور جب دیکھا کہ سونیا کی چوت گیلی ہو چکی ھے اور وہ خود بھی چدنے کے لئے تیار ھے تو نعیم نے خود کو بھی کپڑوں سے آزاد کیا اور سونیا کی ٹانگوں کے درمیان آ کر اس پر لیٹ گیا – سونیا کی چوت کو سلامی دینے کے لئے نعیم کا جاندار لن تیار تھا نعیم نے سونیا کی ٹانگوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں اوپر کیا اور اپنا لن سونیا کی پھدی کے لبوں کے درمیان اس کے سوراخ پر ایڈجسٹ کیا – سونیا آنے والے لمحات سے ڈری ہوئی تھی اس کے ذہن میں پہلا تجربہ تھا جو انتہائی تکلیف دہ تھا – نعیم نے لن اس کی پھدی پر ایڈجسٹ کرنے کے بعد سونیا سے کہا ، سونیا اندر جانے پر تمہیں درد ہو گا لیکن تم اگر تھوڑی دیر یہ برداشت کر گئیں تو پھر مزا ہی مزا ہو گا- سونیا نے اثبات میں سر ہلایا تو نعیم نے ایک ہلکا سا جھٹکا دیا تو سونیا کے منہ سے ایک درد بھری کراہ نکلی – نعیم کے لن کی ٹوپی سونیا کی گیلی چوت میں داخل ہو چکی تھی نعیم نے چند لمحے رک کر تھوڑا سا جھٹکا مارا تو اس کا آدھا لن سونیا کی چوت میں چلا گیا اور سونیا درد سے بلبلا اٹھی – سونیا نے نعیم سے کہا پلیز اسے باہر نکالو بہت درد ہو رہی ھے – نعیم جانتا تھا کہ ایک دفعہ باہر نکال لیا تو اس نے دوبارہ سے نہیں کرنے دینا – نعیم نے سونیا سے کہا جان ! بس یہی چند لمحات تکلیف دہ ہیں بس تھوڑا برداشت کر لو اپنے اس پولیس والے کی خاطر درد کے بعد مزا آئے گا ، نعیم نے نیچے سے حرکت روک دی اور اس کے مموں کو آہستہ آہستہ دبانے لگا اور ساتھ ساتھ اس کے گالوں ، آنکھوں اور ہونٹوں پر کس کرنے لگا ، اس دوران بیچ میں وہ سونیا سے آئی لو یو ، آئی لو یو بھی سونیا کے کانوں میں کہہ رہا تھا ، نعیم کے رکنے سے سونیا کے درد میں بھی کمی آ گئی تھی اس کے چومنے سے اور کانوں میں آئی لو یو کی تکرار سے اسے پھر سے مزا آنا شروع ہو گیا تھا حالانکہ نعیم کا شاندار طاقت سے بھرپور لن ابھی بھی آدھے سے زیادہ اس کی چوت میں تھا اور اس کی حرکت سے سونیا کی گانڈ پھٹ رہی تھی مطلب اسے درد ہو رہا تھا- نعیم نے خاص طور پر نیچے اپنے لن پر نظر ڈالی کہ اس پر خون ھے یا نہیں ؟ وہاں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا نعیم کو پتا چل گیا کہ سونیا کی پہلے سے ہی چدائی ہو چکی ھے اور اسے سونیا کی چوت کی تنگی سے یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ سونیا بہت زیادہ چدی ہوئی نہیں ھے – نعیم نے آہستہ آہستہ اپنا لن باہر کرنا شروع کر دیا اور پھر جب ٹوپہ اس کی پھدی کے لبوں تک آیا تو نعیم نے اپنا تھوک اپنے لن پر گرایا اور پھر آہستہ آہستہ واپس چوت میں کرنا شروع کر دیا اس دفعہ لن بہت ہی اھستگی سے سونیا کی چوت میں جا رہا تھا اور سونیا کو بہت کم درد ہو رہا تھا، آہستہ آہستہ لن سونیا کی پھدی کی گہرائیوں میں اتر رہا تھا اور بالآخر سارے کا سارا لن سونیا کی چوت میں چلا گیا، اس بار اتنا بڑا لن لینے کے باوجود بھی سونیا کے منہ سے کسی قسم کی آواز نہیں نکلی جو تھوڑا بہت درد تھا وہ برداشت کر گئی تھی – اسلئے تو کہتے ہیں کہ اگر عورت برداشت کرنے پہ آئے تو بہت کچھ برداشت کر لیتی ھے ورنہ تو چھوٹی چھوٹی بات پہ اس کی گانڈ پھٹ جاتی ھے – نعیم نے اب دھیرے دھیرے اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا ، سلو سپیڈ سے لن چوت میں اندر باہر والا سفر طے کر رہا تھا اور بتدریج اس کی سپیڈ میں اضافہ ہو رہا تھا ، سپیڈ بڑھنے سے سونیا کی چوت میں تکلیف ہونا شروع ہو گئی تھی ، اس کا بند منہ اب کھل گیا تھا اس کے منہ سے ھلکی ھلکی درد بھری کراہیں نکلنا شروع ہو گئی اور یہ کراہیں سپیڈ بڑھنے کے ساتھ ساتھ بلند ہو رہی تھیں – ابھی تک درد ہی درد تھا مزا کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا – نعیم بھی سات آٹھ دن بعد کسی لڑکی کو چود رہا تھا اور لڑکی بھی ایسی جس کی چوت بہت زیادہ ٹائیٹ تھی ،اسلئے نعیم اپنی اصلی ٹائمنگ سے پہلے ہی ڈسچادج ہونے کے قریب پہنچنے لگا تھا ، اس نے اپنی سپیڈ بڑھا دی – اب لن ایک دفعہ پورے کا پورا باہر آتا اور رگڑ مارتا ہوا چوت کی گہرائی میں غائب ہو جاتا ، آہ ، اں ، اف. . . آہ . . . . آہ : .. جیسی درد بھری آوازیں سونیا کے منہ سے نکل رہی تھیں – نعیم کا لن بڑی روانی سے سونیا کی چوت کی سیر کر رہا تھا ، نعیم ایسے ہی سپیڈ سے آگے پیچھے کر رہا تھا اور اس کی منی اس کے ٹٹوں سے لن کی ٹوپی کی طرف سفر کرنا شروع ہو گئی ، اور چند سیکنڈ بعد لن کی ٹوپی سے نکل کر سونیا کی پھدی میں جا گری ، جس سے سونیا کی تکلیف میں کمی آ گئی منی سے لتھڑا ہوئے لن نے تھوڑی دیر ہں حرکت کی اور پھر سونیا کی چوت کی گہرائیوں کی سیر کرنے اور اسے اپنے پانی سے سیراب کرنے کے بعد باہر نکل آیا – سونیا نے فورپلے فل انجوائے کیا تھا لیکن چدائی میں اسے بالکل مزا نہیں آیا تھا یہ عمل تکلیف دہ تھا لیکن پہلی چدائی سے کم – آہستہ آہستہ یہ تکلیف بھی ختم ہو جانی ھے لیکن چدائی والا سلسلہ ختم نہیں ہونا

 


اپنا لن چوسوانے چل پڑا

 

 
اپنا لن چوسوانے چل پڑا

ھ۔ میری جب شادی ھوئی تو میں نے بیوی سے کہا سکس کا پتا ھے تو بیوی نے کہا بہت پتہ ھے میں نے کہا کیسے تو کہا کرکے دیکھاتی ھوں پھر میرے لن کو ایسا پیار کیا کے میں مست ھوگیا پھر میرے لن کا پانی نکلا تو بیوی نے پیا پھر کہا میری چوت کو پیار کرو میں نے بیوی کی چوت کو خوب پیار کیا پھر بیوی کی چوت نے پانی چھوڑا پھر بیوی کی چوت میں لن ڈالا تو راستہ پہلے سے بنا ھوا تھا پھر خوب چودائی کی پھر کہا میری گانڈ کی چودائی کرو گانڈ کے بھی راستے کھلے تھے میں بیوی کی چوت گانڈ مموں کو خوب چودتا جب بھی میں نید میں ھوتا تو بیوی میرے لن کو چومتی چوپے مارتی ھوئی مجھے نید سے جگاتی لن کا پانی نکال کر پیتی بیوی میرے لن کو بہت پیار کرتی منی نکالتی میں مست رہتا میں بیوی کو خوب پیار کرتا اور چودائی کرتا بیوی بھی بڑے پیار سے چودواتی اور ہر اسٹائل سےچودواتی ایک بار ھم چودائی کررھے تھے تو بیوی سے کہا کس کے لن سے مزے کیئے ہیں تو بیوی مسکرانے لگی میں نے کہا میری جان بتاؤ تو بیوی نے کہا دو کے ساتھ بہت کیا ھے میں نے کہا دو کے ساتھ بہت مزہ آیا ھوگا مسکراکر کہا ہاں بہت مزہ آتا تھا میں نے کہا دو ایک ساتھ مسکرا کہا آپ کو سُناؤں میں نے ہاں سُناؤ پھر کہا اچھا میں شروع سے سُاتی ھوں بیوی میرے اوپر لیٹ کر اپنی چوت میں میرا لن لےکر سلوسلو چودائی کرتے میرے ھونٹوں کو چوم کر کہا تم کو تو پتا ھے ھم گاؤں میں رہتے ہیں جب میں جوان ھورہی تھی تو میرا چاچو مجھے بہت چومتا میری چوت کو سہلاتا اور میری گانڈ کو اور میرے چھوٹے مموں دباتا میرے ھونٹ چوستا اور میرے ہاتھوں میں لن پکڑواتا مجھے بھی اچھا لگتا میں ایک رات کو پیشاب کرنے گئی اور پیشاب کر رھی تھی چاچو کے بیٹے نے مجھے وہیں لیٹاکر میری شلوار اتار کر میری چوت کو چومنے چاٹنے لگا مجھے بہت مزہ آرہا تھا کزن نے اپنا لن نکال کر میرے منہ دیا میں نے جب لن کو چوما تو بہت مزہ آیا پھر چوپہ مارے اس کے لن کا پانی نکلا میں نے پیا پھر وہ چلا گیا پھر میں اپنے بستر پہ لیٹی تو چاچو آیا لنگی باندھے میرے ساتھ لیٹ کر لنگی اوتار کر میری شلوار اتار کر اپنا لن رگڑتے کبھی میرے ہاتھوں میں دیتے پھر میری چوت کے ھونٹوں میں لن کا ٹوپہ خوب رگڑنے لگے تو میں بہت مست ھوجاتی اسی طرح کبھی چاچو پکڑ لیتا تو کبھی چاچو کا بیٹا میرا کزن پکڑ لیتا بس اسی طرح دونوں باپ بیٹے مجھے بہت مزہ دیتے پھر جب میں جوان ھوئی تو اپنے باغ گئی کزن کے ساتھ تو کزن نے مجھے وہی ھوٹ کرکے میری چوت کی سیل توڑی تو چاچی کھیتوں گئی ھوئی تھی تو میں چاچو سے مزے لنے گئی تو چاچو نے میری گانڈ کی سیل توڑ کر گانڈ کی خوب چدائی کی چاچو تو صرف گانڈ چودتے تو چاچو کا بیٹا میری چوت گانڈ کو چودتا ایک بار میں اور کزن چود رہے تھے تو چاچو نے دیکھ لیا مجھ سے کہا تم میرے بیٹے سے بھی میں نے کہا ہاں چدائی کرتے ہیں اس نے میری چوت کو چودا اور تم نے میری گانڈ کو چودا چاچو نے کہا کوئی بات نہیں پھر چاچو مجھے چودنے لگا اور کزن نے دیکھ لیا مجھ سے کہا تم میرے باپ سے چدائی کرتی ھو میں نے کہا جسے تم مجھے پکڑتے تھے تیرا باپ بھی مجھے پکڑتا تھا تم نے میری چوت چودی چاچو نے میری گانڈ چودی ھے پھر کبھی چاچو سے تو کبھی کزن کے ساتھ چوودائی کرتی پھر ایک بار مما نے کہا تیرا رشتہ آیا ھے شادی کروگی میں نے کہا ہاں پھر میری تم سے شادی ھوئی پھر میں نے بیوی سے کہا تم بہت مست ھو بیوی نے کہا مجھے چدائی میں بہت مزہ آتا ھے اور لن کو تو میں بہت پیار کرتی ھوں مجھے لن بہت اچھے لگتے ہیں میں نے کہا اب بھی بہت تڑپ ھوتی ھوگی بیوی نے کہا بہت تڑپ ھوتی ھے اس لیئے تو میں تیرے لن کو خوب پیار کرتی ھوں پھر ھم چدائی کرکے سوگئے  ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, پھر ایک  بار بیوی بہت گرم تھی فون کیا کے جلدی آؤں میری چوت میں لن کی آگ لگی ھے میں نے بہت انگلی ماری ھے آگ نہیں بجھتی جلدی آؤ اور میں دیر سے گیا تو بیوی ناراض ھوگئ میں بھی بہت گرم تھا جب میں گھر آیا اور میں نگاھوکر بیوی کے ہونٹوں پہ اپنا لن رکھ کر کہا پیار کرو تو بیوی نے غصہ سے انکار کردیا مگر مجھ پر اپنا لن چوسوانے کا بھوت سوار تھا پھر میں گھر سے باہر آگیا سوچنے لگا کے اپنا لن کس سے چوسواؤں ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,, پھر ایک شیمیل یاد آیا جس کا پیارا سا چہرہ بڑے ممے اور کمال کا فگر ھے

 

میں وہاں گیا تو وہ اپنے دروازے کے بیچ میں کھڑاتھا میں نے اس سے کہا آپ کی یاد آرہی تھی تو اس نے کہا اندر آجاؤ میں اندر گیا اس نے دروازہ بند کیا اور پوچھا بلب بند کردوں میں نے کہا پھر مزہ کیا آئے گا پھر میں نے اسے کھڑے کھڑے اپنی باہوں میں بھرلیا میں نے شیمیل کو کَس کے جپھی ڈالی اور اس کی کمر پہ ہاتھ پھیرتا ہوا

 

اس کی نرم نرم گانڈ کے پٹھوں کو دبانے لگا پھر اس نے اپنا منہ میرے منہ میں دےدیا ہم ایک دوسرے کی زبان اور ہونٹوں کو چوس رہے تھے ۔ پھر اس نے ایک ہاتھ سے میرے لن کو  لےکر سہلانے لگا پھر اس نے  کپڑے اتار کر میرے کپڑے اوتار دیا اب ھم دونوں نگے کھڑے منہ کا پیار کرتے ھوئے میں ایک ہاتھ سے شیمیل کی گانڈ دبارہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے شیمیل کے بڑے مموں کو دبارہا تھا اور ہمارے لن آپس میں ٹکراکر پیار کر رہے تھے

 

پھر وہ میرا چہرہ چومتے ہوئے نیچے ہوتا گیا اور میرے لن کے سامنے بیٹھ گیا اور اس نے اپنے پیارے ہونٹوں کو میرے لن کے ٹوپے  پہ رکھ کر چومنے اور زبان سے چاٹنے لگا پھر اس نے اپنے پیارے ہونٹوں کو کھولا اور میرے لن کے ٹوپے کو اپنے منہ میں لیا اور چوپے مارنے لگا پھر پورے لن کو منہ میں لے کر چوپے مارتا اور کبھی ٹوپے کو کو چومتہ چاٹتہ پھر اس نے کہا بیڈ پر سیکس کرتے ہیں پھر ہم بیڈ پہ نگے تھے ہم دونوں کی گرم گرم سیسکاریا منہ سے نکل رہی تھی پھر اس نے اپنا منہ میرے منہ میں دےدیا چومتے ہوئے مجھے نیچے لیٹا دیا اور میرے اوپر آگیا میرے لن کے اوپر اپنی ٹائٹ گانڈ رکھ کر گانڈ ہلانے لگا اور اس کا منہ میرے منہ میں تھا ہم ایکدوسرے کی زبانیں چوس رھے تھے پھر وہ مجھے چومتاہوا میرے لن پہ پہنچ گیا اور میرے لن کو چومنے اور چاٹنے چوپے مارنے لگا  اس نے مجھے اتنا مست کردیا تھا کے مستی میں مجھے پتہ ہی نہ چلا کے یہ میں نے کیا کیا  پھر وہ میرے اوپر آگیا پھر اس نے مجھے کروٹ دےکر اوپر کر دیا میں اس کے اوپر تھا اور وہ میرے نیچے تھا اور ہم ایکدوسرے کو چوم چاٹ رھے تھے  اور میں اسے چومتا ہوا اس کے لن تک پہونچ گیا اور اس کے لن کو دیکھا جو میرے لن سے بڑا اور موٹا تھا  میرے زہن میں خیال آیا کے اگر میں اپنے لن کو چوپے مارتا تو کیسے مارتا تو لن میرے سامنے تھا میں نے بڑی حسرت سے اپنے ہاتھوں میں اس کے لن کو لیا اور اپنے ہونٹوں کو کھولا اور منہ سے اپنی زبان نکالی اور اس کے لن کے ٹوپہ پر اپنی زبان رکھی تو ٹوپہ اتنا نرم اور ملائم تھا کے مجھ سے رہا نہ گیا تو لن کو منہ میں لےکر چوپے مار نے لکا اس کے لن کو اپنے منہ میں پورا لےکر چوپے مارنے لگا

 

پھر جب اس کی منی نکلنے والی تھی تو اس نے میرے منہ سے اپنا لن نکال کر لن کو اپنی طرف کیا تو اس کے پیٹ پر ساری منی  نکلی اور میں دیکھ رہا تھا پھر اس نے اپنی دونوں ٹانگوں کو میری کمر کے پیچھے کرکے میری کمر کو جکڑ لیا  اور  اپنی گانڈ کو اور میرے لن کو اپنی منی سے تر کردیا پھر کہا اب چودو میں نے اپنا لن کو حرکت دینے لگا اور لن اپنا آپ گھستا گیا اور گھس گیا پھر میں نے اس کی گانڈ چودنا شروع کیا اور قریب تیس منٹ بعد میرے لن سے منی نکلی اور میں اس کے اوپر گر گیا میں نے جانے کو کہا تو شیمیل نے کہا ایک بار اور چودو پھر میں نے چودائی کی  پھر میں نے کپڑے پہنے اور باہر آگیا اور گھر کی طرف چل پڑا اور چلتے چلتے سوچہ کے یہ میں نے کیا کیا اس کے لن کو چوپے مارے پھر میں گھر گیا بیوی نے دروازہ کھولا اور میں کمرے میں جاکر  اپنی آنکھیں بندکرکے لیٹ گیا  بیوی آئی اور میرا ناڑہ کھولا اور میرا لن باہر نکال کر منہ میں لےکر چومنے چاٹنے لگی میں نے اپنی آنکھ کھولی تو دیکھا کے بیوی ایکدم نگی تھی بیوی نے کہا میں مستی میں ھوں پھر بیوی اور میں نے خوب جم کے چدائی ماری ۔ اب مجھے شیمیل کے لن کو چوپہ کی یاد آئی میں شیمیل کے پاس گیا تو شمیل چڈی میں تھا وہ بیٹھا تو میں نے کہا اپنا لن تو دیکاؤ پھر شیمیل نے چڈی سے لن نکال کر مجھے دیکھایا میں نے جب اس کے لن کو دیکھا

 

تو مجھے بہت پیار آیا پھر میں شیمیل کے لن کو پیار کرنے میں مست ھوا اور اس کے لن کی تعریف کرتا پھر اس کی گانڈ چود کے آتا اب تو مجھے اس کے لن کو پیار کرنے کی تڑپ ھوتی تو میں جاتا تو اس کے لن کو خوب پیار کرتا

 

اور اس کی گانڈ چود کے آتا پھر بیوی کو چودتا بیوی کو چودتے کہا یار دوستوں نے بتایا ھےکہ ایک نیا شیمیل آیا ھے کمال کا ھے بیوی نے کہا کیا وہ سیکس کرتا ھے میں نے کہا ہاں پھر بیوی نے کہا تم کرنا چاہتے ھو میں نے کہا ہاں اگر تم کہوں تو ویسے اس کا لن میرے لن سے موٹا ھے  اور لن کا ٹوپہ کیوٹ ھے تو بیوی نے کہا پھر کب بلاوگے میں نے کہا تم بتاؤ بیوی نے کہا ابھی بلالو میں بیوی کو چومتے کہا جب اس کا لن دیکھو گی تو مست ھو جاؤ گی بیوی نے کہا ایسی بات ھے تو ابھی فون کرو میں بیوی کو چومتے کہا تجھے بہت مزہ آئے گا پھر بیوی نے مجھے فون دیا میں نے فون کیا اور آنے کو کہا وہ آیا بیوی نے اس کے اسمارٹ فگر کی بہت تعریف کی پھر میں بیوی شیمیل ھم تینوں چومنے لگے بیوی نے جب شیمیل کا لن دیکھا

 

تو بہت تعریف کرتی ھوئی لن کو خوب چوما چوسا چاٹا اور چوپے مارے پھر ھم نے چودائی کی میں شیمیل کے لن کو پیار کرتا بیوی ہمارے لنوں کو پیار کرتی بیوی نے شیمیل سے خوب چودوایا میں نے شیمیل کو خوب چودا پھر وہ چلا گیا پھر ہم نے چودائی کی بیوی سے کہا مزہ آیا بیوی نے کہا بہت مزہ آیا پھر کچھ دن بعد میں گھر آیا تو شیمیل اور میری بیوی چودائی میں مست ہیں اتنی دیر میں بیوی کی چوت نے پانی چھوڑا پھر شیمیل میرے پاس آیا تو میں اس کے لن کو پیار کرنے لگا

 

بیوی نے بتایا ساری چودائی کرینگے پھر چودائی کی پھر بیوی نے بتایا کے میرا کزن مجھے چودنے کے لیۓ تڑپتا ھے اس نے کہا ھے کے میں بیوی کو لےکر آتا ھوں پھر بیوی نے مجھے سے کہا تم اس کی بیوی کو چود لینا میں نے کہا ٹھیک ھے میں نے تیرے کزن کی ماں بہت مست ھے بیوی نے کہا تم بات کرو بیوی کہا میری چاچی بہت چداکڑ ھے اس نے ایک بار کہا تھا کے تم اسے اچھے لگتے ھو کبھی چودائی کا بولے تو بتانا بیوی نے کہا چاچو بھی میرے لیئے تڑپتا ھے میں نے کہا پھر کب بلارھی ھو کہا پہلے کزن پھر وہ بیوی نے کہا شیمیل کو بھی بلالینگے میں نے کہا ہاں یہ ٹھیک ھے پھر وہ آئے چودائی کی پھر بیوی کا چاچو اپنی بیوی کے ساتھ آیا مل کے چدائی کی پھر وہ چلے گئے پھر شیمیل کو اپنے گھر میں رکھا اب تو شیمیل کے دوست آتے میں اور بیوی مزے کرتے بیوی کہتی بہت مزہ آتا ھے اور مجھے بھی بہت مزہ آتا  سوگئی

ٓ

ہم سلگ رہے تھے!

 


ہم سلگ رہے تھے!

ہمارا تعلق سوات سے ہیں مگر فکرِ معاش کے سلسلے میں گزشتہ بیس برسوں سے راولپنڈی میں ہی قیام پزیر ہیں۔ ہم دو بھائی ہے۔ والد کی کریانہ کی دکان ہے جبکہ ہم دونوں بھائی پڑھتے ہیں۔
میرا نام ارشیان اور میرے بھائی کا نام علیان ہے۔ ابھی میں میٹرک میں تھا کہ میری ایک لڑکی سے ایک رونگ نمبر پر دوستی ہوگئی دن گزرتے رہے بات ہوتی رہی اور ہم ایک دوسرے میں گھل مل گئے۔۔۔
اب یہاں سے آگے کی کہانی شروع کرتا ہوں۔
بیٹا جلدی کرو تنزیلہ کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ امی نے مصنوعی غصے سے پھنکارتے ہوئے بلایا تو میں نے عجلت میں جوتے پہنے اور تیار ہو کر نیچے آ گیا۔
یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ تنزیلہ میری چچا زاد بہن تھی جسے میں کالج جاتے ہوئے اس کے اسکول چھوڈ دیا کرتا تھا۔
کیا ہے چڑیل پانچ منٹ صبر نہیں کر سکتی، میں نے مصنوعی غصے سے کہاں تو سب ہنس پڑے۔
موٹر سائیکل سٹارٹ کرتے ہی وہ میرے پیچھے بیٹھ گئی اور ہم اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔


ارشیان۔۔! تنزیلہ نے کہاں۔
کیا ہے میں نے سرسری سا جواب دیا۔
یہ تم صبح تھوڑا جلدی نہیں اٹھ سکتے ہمیشہ تمہاری وجہ سے میں اسکول سے لیٹ ہو جاتی ہوں اور مجھے میڈم سے سو سو باتیں سننی پڑتی ہیں۔
واہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے، میڈم ایک تو خود لیٹ آتی ہوں اور اوپر سے باتیں بھی مجھے سناتی ہوں۔
ہمیشہ تم لیٹ ہوتے ہو آج آگر میں ہوگئی تو کونسا قیامت آگئی۔
ہم اسی نوک جھونک میں تھے کہ اس کا اسکول آ گیا وہ اندر چلی گئی اور کالج کی طرف روانہ ہو گیا۔


ہائے۔۔۔۔
کون۔۔۔۔
ایک انجان نمبر سے مسج آیا تو میں کافی حیران ہوا اس لیئے کہ ابو نے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے موبائل لے کر دیا تھا اور سوائے چند آشنا لوگوں کے یہ نمبر کسی انجان کے پاس نہیں تھا۔
آپ ارشیان ہے! دوبارہ مسج آیا۔
جی اور آپ کون ہے۔
میں نام بتاتی ہوں مگر پہلے وعدہ کرو کہ یہ راز رہے گا تمہارے اور میرے علاوہ کسی دوسرے کو اس بات کا علم نہیں ہونا چاہیئے کہ ہماری بات ہوئی تھی۔
ٹھیک ہے وعدہ کرتا ہوں میں نے متجسس لہجے میں کہاں۔
میں ہُما ہوں۔۔
ہُما! اچانک جھماکہ سا ہوا۔
جی ہُما۔
ہم جس مکان میں رہتے تھے وہ تین منزلہ تھا ہر پورشن میں پانچ پانچ کمرے تھے درمیانے پورشن میں ہم اور چاچو اکھٹے رہتے تھے جب کہ ہُما تنزیلہ کی کلاس فیلو تھی اور وہ ہمارے ہی مکان کے سب سے اوپر والے پورشن میں رہتے تھے۔
آپ کے پاس میرا نمبر کہاں سے آیا۔ میں نے دوسرا سوال دہرایا۔
آپ کا نمبر تنزیلہ کے پاس تھا رجسٹر میں تو میں نے وہاں سے لیا۔
تنزیلہ جانتی ہے؟
نہیں! اس نے برجستہ جواب دیا۔
اچھا چھوڑیں، خیریت تھی۔۔؟؟
جی! اس نے سرسری جواب دیا۔
اچھا۔۔۔
ایک بات کہوں برا تو نہیں مانیں گے قریب 5 منٹ کے وقفے کہ بعد اس نے دوبارہ مسج کیا۔
جی بلکل کہیں۔
آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔
کیا۔۔؟؟
جی میں نے کئی بار چاہا کہ اس بات کا اظہار کروں آپ سے مگر اک ڈر تھا جو ہمیشہ راستہ روک دیتا پھر جب آپ نے موبائل لیا آپ کا نمبر ملا تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے کہہ دیا۔
میں کیوں اچھا لگتا ہوں آپ کو اتنا۔
بس یہ نہیں پتہ مگر آپ بہت اچھے لگتے ہیں شائد محبت کرنے لگی ہوں آپ سے اور وہ بھی بہت زیادہ۔
اچھا۔
جانتی ہوں آپ کے قابل نہیں مگر دل کا کیا کرے آ گیا۔
ایسی بات نہیں ہے ہُما! تم ہر لحاظ سے قابل ہو خوبصورت ہو زہین ہو بس کبھی کسی نے اس طرح کہاں نہیں نا تو کچھ عجیب سا لگا۔
بس مجھے اپنے دل کی حکمرانی دیں ارشیان میں سمجھوگی مجھے سب کچھ مل گیا۔
آئی لو یو ارشیان آئی لو یو سو مچ۔۔۔
ایک عجیب سا احساس تھا کسی کے چاہے جانے کا جس نے وجود کو ایک نئی تازگی سے دوچار کر دیا تھا۔
اسی طرح مزید بات ہوتی رہی لمحے سرکتے رہے دن گزرتے رہے اور ہم دونوں ایک دوسرے میں ضم ہوتے گئے۔۔۔


دسمبر اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ ہمارے وجود پر حکمراں تھا۔ شدید یخبستگی کا عالم تھا۔ مجھے ہُما کے ساتھ ریلیشن میں آئے ہوئے چار ماہ ہوچکے تھے مگر ان چار مہینوں میں چاہ کر بھی ہم ایک دوسرے سے مل نہیں پائے تھے۔
حالانکہ ملاقات آسانی سے ہو سکتی تھی مگر اک ڈر تھا جو دیمک کی طرح روح کو چاٹ رہا تھا۔
ان چار مہینوں میں ہم یہاں تک آ گئے تھے کہ کبھی کبھار میں اسے موبائل پر ایک آدھ فحش ویڈیو بھی بھیج دیا کرتا تھا مگر یہ ویڈیو ابھی تک کِس یا ہلکے پھلکے رومانس تک محدود تھی۔
دسمبر کی سخت شدید سردی نے ہمارے اندر ایک آگ لگا دی تھی جسے بجھانے کی سعی میں ہم دونوں یک جام کمر بستہ تھے۔


جان آج ملنے کا بہت دل کر رہا ہے! دسمبر کی بوندا باندی نے آج پھر اندر آگ لگا دی تھی۔
مجھے بھی ملنا ہے مگر کیسے ملے ہم؟
ہُما نے دل کی بات ہونٹوں پر لاتے ہوئے ساتھ تشویش کا بھی اظہار کیا۔
تمہارے گھر والے سارے کس ٹائم تک سو جاتے ہیں میں نے پھر سے پوچھا۔
گیارہ بجے تک سب سو جاتے ہیں مگر کیوں؟ اس نے ایک ساتھ اکھٹے دو سوال کر ڈالے۔
بس ٹھیک ہے پھر میری جان آج ہم رات کو بارہ بجے نیچے سیڑھیوں پر ملیں گے جب سب سو جائیں گے۔
نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔ وہاں کوئی آ جائے گا کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آ جائے گی۔
میری جان نیچے تمہارے گھر والے سارے سو جائیں گے تو اوپر سے کون نیچے آئے گا۔
نیچے سے کوئی اوپر آ نہیں سکتا اور جب میں آؤں گا تو اپنے ہورشن کے دروازے کو باہر سے لاک کر دوں گا ہمارا مسلہ بھی ختم۔۔۔
نہیں نا ارشیان ایسے نہیں نا مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔
میری جان پیار بھی کرتی ہو اور ڈرتی بھی ہو پچھلے چار ماہ سے ہم سُلگ رہے ہیں بس تھوڑی سی ہمت رکھو پھر دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا۔
میں نے اس کی ڈھارس باندھتے ہوئے کہاں، حالانکہ اندر سے میں خود اتنا ڈر رہا تھا کہ نا پوچھے، مگر مجھے آج ہر حال میں ملنا تھا اس سے۔
اور پھر آخر کار اس نے ہمت کر کے وہ مان گئی۔
اب وقت کا یہ عالم تھا کہ گزرے نا گزر رہا تھا ادھر میں اک عجیب سی آگ میں سلگ میں رہا تھا اور ادھر گھڑی کی ٹِک ٹِک میرا لہو مزید گرما رہی تھی۔
چار نا چار وقت گزرا اور بارہ بج گئے۔
جان کہاں ہو میں نے ایک طویل سانس کھینچی اور موبائل اٹھا کر میسج کیا۔
اپنے کمرے میں۔۔۔
جان بارہ بج گئے ہیں۔۔۔
جی۔۔۔۔
میں سیڑھیوں پر کھڑا ہوں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔
ارشیان مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔
ہُما دیکھو میں بھی تو آ گیا ہوں سب سے نظریں چرا کے میری جان کچھ نہیں ہوتا پہلی بار ہے اس لیئے تمہارے دل میں زیادہ ڈر ہے جب تم آ جاؤ گی دیکھنا سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔
اچھا تھوڑا انتظار کرے میں آتی ہوں کرتی ہوں کچھ۔۔۔
اسی اثنا انتظار میں مزید آدھا گھنٹا اور بیت گیا۔
میں نے کئی مسج کیئے مگر اس نے جواب نہیں دیا آخر کار میں اکتا گیا اور جیسے ہی واپسی کے لیئے قدم اٹھائے مجھے کسی کے آنے کی آہٹ نے چونکا دیا میرے قدم وہی رُک گئے سیڑھیوں سے دھیرے دھیرے ایک ہالہ نیچے اتر رہا تھا جیسے ہی وہ میرے قریب پہنچا میری سانس سینے میں ہی اٹک کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔


وہ کوئی اور نہیں ہُما تھی۔ ٹائیٹ ٹراؤزر اور تنگ شرٹ نے اس کے جسم کے ابھار کو قیامت خیز بنا دیا تھا۔ مجھے لگ ریا تھا پرستان سے کوئی حسن کی پری میرے سامنے آ گئی ہے۔
میں مسلسل اس کے حسن کے جلووں میں کھویا ہوا تھا میں پلک تک جھپکانا بھول چکا تھا۔
وہ یونہی دھیرے دھیرے سیڑھیوں سے اترتی ہوئی میرے قریب آگئی وہ میرے اتنے قریب آ چکی تھی کے اس کے جسم سے اٹھتی خوشبو میرے نتھنو سے ٹکرا رہی تھی جسے ایک طویل سانس لے کر میں نے اپنے اندر سمو دیا۔


ہُما سہمی ہوئی تھی اور اسکی حالت بتا رہی تھی کے وہ فل ڈری ہوئی ہے ۔اسکا بازو کانپ رہا تھا اس کے قریب ہو کر میں نے اسے کہا کہ دیکھو ہُما تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں یہاں اس وقت کوئی نہیں آسکتا اس لیے اپنے آپ کو ریلیکس کرو۔۔۔


ہُما خود کو سنبھالتے ہوے بولی ججی ٹھیک ہے۔ میں نے ہمممم کیا اور گڈ گرل کہہ کر چاروں اطراف کی سن گھن لینے لگا کہ کہیں کسی طرف سے کوئی خطرہ تو نہیں مگر ہر طرف امن امان کا ہی سگنل ملا ۔
میں نے تسلی کر کے جب ہُما کی طرف دیکھا تو وہ دیوار کے ساتھ کھڑی میری طرف بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔
مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے ہُما نے نظریں جھکا لیں ۔۔
میں نے کہا کیا دیکھ رہی تھی۔
ہُما بولی کچھ نہیں۔
ہُما ٹراوزر شرٹ، لمبے سیاہ بالوں میں گوری رنگت کے ساتھ واقعی چاند لگ رہی تھی ۔۔۔
میں اس کے ساتھ جڑ کر کھڑا ہو گیا ۔
اتنی آشنائی کے باوجود مجھے اسکے جسم کو چھونے میں جھجھک محسوس ہورہی تھی ۔
میں کچھ دیر اسکا ہاتھ پکڑ کر کھڑا رہا اور ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر سہلاتا رہا۔
اور پھر ہمت کرکے میں نے اپنا ایک ہاتھ اسکے ممے کی طرف بڑھایا اور ہُما کا چونتیس سائز کا گول مٹول مما پکڑ کر دبا دیا اور پھر اس کو مٹھی میں بھر کر ممے کوکبھی دباتا تو کبھی سہلانے لگ جاتا ۔


ہُما نے بریزیر بہت سوفٹ پہنا ہوا تھا میں جب بھی ممے کو مُٹھی میں بھر کر دباتا تو مما میری مٹھی سے سلپ ھوکر مٹھی سے نکلنے کی کوشش کرتا۔
مجھ سے مذید صبر نہ ہوا تو میں نے ہُما کو بانہوں میں بھر کر پیچھے کی طرف دیوار کے ساتھ لگا کر اس کے اوپر آ گیا۔
میرا اکڑا ہوا لن ہُما کی ران کی ساتھ لگ گیا اور اسکے ممے میرے سینے کے ساتھ لپٹ گئیے میں نے اپنے ہونٹ ہُما کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔
ہُما کا رنگ سرخ ٹماٹر جیسا لال ہوچکا تھا اور میں اس کے ہونٹ چوسے جا رہا تھا۔
میں نے ہُما کا بازو پکڑا اور اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لگا دیا ۔ہُما میرے ساتھ لگ گئی۔
میں نے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر سے ہٹاے تو اسکے چہرے پر گبھراہٹ دیکھ کر میں اسکے بالوں کو سہلاتے ھوے بولا ۔
کیا ہوا اتنا گبھرا کیوں گئی ہو۔۔
ہما صرف نفی میں سرہلانے پر ھی اکتفاء کیا۔میں نے پھر پوچھا کیا ہوا بولو تو سہی ۔
ہُما بولی یہاں بہت ڈر لگ رہا ہے۔
مجھ سے نہیں رہا جا رہا۔
میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور سیڑھیوں سے نیچے لے جاتے ہوئے اپنے پورشن کے دروازے کی طرف آ گیا۔
کیا کرنے لگے ہو وہ انتہائی حیرت سے بولی۔
خاموش بتاتا ہوں میں سرسری جواب دیا۔
دروازہ آرام سے کھولا یہاں وہاں دیکھ کر دھیرے دھیرے اسے اپنے کمرے میں لے آیا اسے بیٹھنے کا کہہ کر واپس دروازے کی طرف آ کر اسے آرام سے بند کر کے کمرے میں اس کے قریب بیڈ پر آ کر بیٹھ گیا۔
لو اب سب ٹھیک ہے اب تو کوئی گھبراہٹ نہیں نا۔
وہ بس آنکھیں پھاڑیں مجھے دیکھی جا رہی تھیں۔
میں اس کے قریب ہو کر بیٹھ گیا اور دوبارا اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور ایک ہاتھ نیچے لیجا کر ہُما کی شرٹ کو اسکے پیٹ سے اوپر کرکے اسکے نرم ملائم پیٹ پر ہاتھ پھرنے لگ گیا ۔
میں ہاتھ کو سرکاتا ہوا شرٹ کے اندر سے ہی اسکے مموں پر لے آیا اور بریزیر کے نیچے سے ہاتھ سیدھا کر کے اسکے ننگے ممے کو مٹھی میں بھرا تو پہلی دفعہ ہُما کے منہ سے سیییییییی نکلا اور اس نے میرے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ لیا۔
ہُما کے ممے کی سوفٹنس میں الفاظوں میں بیان نہیں کرسکتا اففففففففف کیا روئی جیسے نرم اور ریشم جیسے ملائم ممے تھے ۔
ْجب میری انگلی میں اسکے ممے کا نپل آیا تو نپل فل ہارڈ ہوچکا تھا اور نپل کو جب بھی مسلتا سویرا کے منہ سے سسکاری ضرور نکلتی۔۔۔
ہُما کی جان اسکے ممے کے نپل میں تھی ۔
کچھ دیر میں نے ہُما کے نچلے ہونٹ کو پہلی دفعہ کھینچ کر چوسنا شروع کیا تو مجھے اپنی محنت کا پھل ملتا محسوس ہونے لگ گیا ۔
اور میں بار بار اسکے دونوں نپلوں کو ہی کبھی مسلتا تو کبھی سہلاتا ہُما آہستہ آہستہ جوبن میں آتی جارہی تھی ۔
ہُما نے میرے نچلے ہونٹ کو قابو کر لیا تھا اور اسے چوسنے لگ گئی اور اسکے ساتھ ہی اسکا ہاتھ اٹھا اور میری گردن کو سہلاتے ھوے میرے سر کو مذید نیچے کی طرف دبا کر میرا نچلا ہونٹ چوستی۔
ہُما کے ایکشن میں آنے کی دیر تھی کہ میرا بھی پارا چڑھ گیا اور میں نے بھی والہانہ انداز میں اسکے ممے کو دبانا اور اسکے اوپری ہونٹ کو چوسنا شروع کردیا ۔۔۔
مجھے ہُما کی سیکس کی بھوک کا اندازہ اسکی والہانہ کسنگ اور کمر اٹھا اٹھا کر میرے ساتھ چپکنے سے ہورہا تھا اور ساتھ میں جس انداز سے وہ میری گردن کو سہلاتے ہوے میرے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی ۔
اس سے میرے اندر انتہاء کا جوش بڑھ رہا تھا ۔
اور میرا لن فل ٹائٹ ہو کر پھٹنے والا ہو چکا تھا میرا دل کررہا تھا کہ ابھی ہُما کی شلوار اتار کر ایک ہی جھٹکے میں سارا لن اسکی پھدی میں اتار دوں۔
مگر میں ہُما کو پورا تیار کرنا چاہتا تھا کہ وہ فل گرم ہو کر خود میرا لن اپنی پھدی میں ڈال دے ۔۔
اس لیے میں لگاتار مسلسل اسکے مموں پر اور نپلوں پر انگلیوں سے منتر پڑھ کر اسکے اندر سیکس کی بھوک کو بڑھا رہا تھا اور اس میں قدرے کامیاب بھی ہورہا تھا ۔۔
کچھ دیر ہم دونوں کے ہونٹوں کا دنگل جارہی رھا ۔
اور بلاخره میں نے ہُما کے ہونٹوں کو چھوڑا اور اس کے اوپر آگیا اور اسکی ٹانگوں کو کھول کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔


ہُما میرے سامنے ٹانگیں کھولے لیٹی ھوئی تھی اور اسکی شرٹ اسکے پیٹ سے اوپر اور مموں سے نیچے تھی ۔۔۔
ہُما کا پیٹ چٹا سفید تھا اور روشنی میں چمک رھا تھا پیٹ بلکل اندر کی طرف تھا اسکی جلد میں شائنگ تھی ایسے جیسی ویکس کی ہو بال کی ایک لوں تک نہ دکھ رہی تھی ۔۔
میں نے اسکے پیٹ کو دیکھا تو بے اختیار میں اسکے پیٹ پرجھکتا گیا اور ہونٹ اسکے پیٹ پر رکھے اور پیٹ کا بوسا لے کر اسکے حسن کی تعریف کی ۔۔۔۔میرے ہونٹ ہُما کے پیٹ پر لگے تو ہُما کے پیٹ کی جلد وائبریشن ہونے لگ گئی اور ہُما نے بیڈ سے کندھے اٹھا کر سر کو پیچھے خم دے کر سسکاری بھرتے ھوے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنی شروع کر دی۔
میں نے تین چار چھوٹی چھوٹی پاریاں ہُما کے پیارے سے پیٹ پر کیں ۔


اور ساتھ ہی اپنی زبان کو نکال کر ناف میں ڈال دی اور ناف کے دائرے میں چاروں اطراف زبان کی نوک کو پھیرنے لگ گیا ہُما ایکدم مچل اٹھی اور میرے سر کے بالوں کو مٹھی میں بھر لیا اور لمبی لمبی سسکاریاں لیتی ھوئی سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔۔


اور ساتھ ہی سیکسی آوازوں میں پلیزززز نہ کرو پلیزززز نہ کرو مجھ سے برداشت نہیں ہورہا پلیزززززز ۔۔۔


ہُما کی نہیں نہیں سے میرا شوق بڑھتا گیا اور میں زبان کا جادو پیٹ پر چلانے کی تگ ودو میں لگ گیا ۔۔


میں کبھی زبان کی نوک کو ناف کے چھوٹے سے سوراخ کے اندر ڈالتا تو کبھی سوراخ کے کناروں پر نوک کو گھماتا ۔


اور پھر سلو موشن میں زبان کو سرکاتا ھوا ناف کے نیچے الاسٹک تک لے جاتا ۔


ہُما کی حالت ایسی تھی کہ جیسی ابھی ہلک سے جان نکل جائے ۔۔۔


کچھ دیر ایسے ہی اس کے پیٹ پر زبان اور ہونٹوں کا کھیل جاری رہا ۔


کچھ دیر بعد میں زبان کو سرکاتا ہوا اسکے مموں کی طرف لے گیا اور مموں پر شرٹ ہونے کی وجہ سے بریزیر کی لاسٹک تک ہی زبان لیجا سکا ۔۔


اور پھر ادھر والے حصے کو چوم کر سر اٹھا کر میں پھر سی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔


تو ہُما نے شکر ادا کیا اور لمبا سانس بھر کر میری طرف بڑی نشیلی نگاہوں سے دیکھنے لگ گئی میں نے اسکے دونوں ھاتھوں کو پکڑا اور ھاتھوں کو اوپر کی جانب کیا اور اپنے سر کو نیچے جھکا کر اسکے ریشم سے ملائم اور روئی سے نرم ہاتھوں کو چوم کر ھاتھوں کو ہلکے سے اپنی طرف کھینچ کر ہُما کو اٹھ کر بیٹھنے کا کہا۔۔


ہُما کسی جادوگر کے سحر میں جکڑی میرے اشارے پر چلتی ھوئی بے جان مورت کی طرح اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔میں نے اس کے ھاتھوں کو اسکے سر کے اوپر لیجا کر بازوں کو اوپری جانب کر کے اسکے ہاتھوں کو چھوڑ دیا ہُما کسی مجسمے کی طرح وہیں اپنے بازوں کو کھڑا کر کے میری طرف عجیب سی نظروں سےدیکھی جارھی تھی ۔۔


میں نے اسکی شرٹ کو دونوں اطراف سے پکڑ کر اوپر کیا اور اسکے مموں کو ننگا کرتے ھوے اسکے سر سے شرٹ نکالی اور بازوں میں لیجاکر چھوڑ دی ۔۔


بازوں سے شرٹ اس لیے نہیں نکالی تھی کہ باقی کا کام ہُما خود کر لے گی یعنی بازوں سے شرٹ خود نکال لے گی ۔۔۔کیونکہ شرٹ اتارتے ھوے بھی اس نے مجھے روکا نہیں تھا اور نہ ھی کوئی احتجاج کیا تھا ۔


بلکہ بلکل ایک سٹیچو کی طرح ہاتھ سر سے اوپر کر کے بازو بلکل سیدھے اوپر کی طرف کیے بیٹھی تھی ۔۔


جب میں نے اسکی شرٹ اسکے جسم اور سر سے نکال کر اسکے بازوں میں چھوڑی تو اس نے ایکدم بازو نیچے کو گراے اور میری طرف یوں بازو کردیے کہ جیسے کہنا چاہ رھی ھو کہ یہ بھی خود ھی اتار دو ۔


اور اسکی نظریں ویسے ھی مجھکو دیکھ رہیں تھی ۔


پتھر سی آنکھیں جیسے اسکی آنکھیں جھپکتی ھی نہ ھوں ۔


مجھے یہ لڑکی حسن کی مورت لگ رھی تھی ۔۔


میں نے اسکی بازوں سے شرٹ نکال کر ایک طرف بیڈ پر رکھ دی میری جیسے ھی نظر اسکی ننگے جسم اور ہلکے بلیو کلر کے بریزیر میں چھپے مموں پر پڑی ۔۔


دوستو قسم سے اس حسن مجسمہ کو دیکھتے ھی مجھ پر سکتہ طاری ھوگیا ۔


میں پلکوں کو جھپکانا بھول گیا سانس اندر باہر کھینچنا بھول گیا


اسکو دوبارا پیچھے کی جانب لیٹانا بھول گیا ۔۔


میرے ھاتھ اسکی رانوں پر تھے تو وہیں رک گئے میری کھلی آنکھیں پتھر ہوگئی میرا سانس جہاں تھا وہیں رک گیا ۔۔۔


اففففففففففففففف کیا اس ظالم کے حسن کی تعریف لکھوں کاش اسکے جسم کی بناوٹ اور اسکی خوبصورت گلابی رنگت کو الفاظوں میں ڈھال کر آپ دوستوں کے سامنے پیش کرسکتا۔۔۔


ہُما بت بنی میرے چہرے کو دیکھی جارہی تھی اور میں بت بنا ہُما کے چٹے سفید گلابی رنگت کے چمکتے جسم کو دیکھ رھا تھا ۔


کچھ دیر اسی حالت میں بےجان دو جسم ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے رھے۔


پھر یوں ہوا کہ مجھے ہوش آیا اور میرے ھاتھوں نے اٹھنے کی جرات کی اور اس حسن کی دیوی کے گول مٹول تنے ھوے چٹے سفید مموں کو بریزیر کے اوپر سے پکڑ لیا اور ایک دفا دباتے ھی اسے پیچھے کی طرف دھکیل دیا اور وہ مورت میری طرف دیکھتی ھوئی پیچھے کی جانب گرتی گئی اور بیڈ پر لیٹ گئی اور میں اسکو پیچھے لیٹاتا ھوا اسکے ننگے جسم کے اوپر جھکتا گیا اور اس کے مموں کے درمیاں لکیر کے اوپر اپنے ہونٹ اس انداز سے رکھ دیے کہ میرے ہونٹوں کا ایک طرف کا حصہ اسکے ایک طرف کے روئی سے نرم ممے پر تھا اور ہونٹوں کی دوسری سائڈ اسکے دوسرے ممے کو چھو رھی تھی ۔


اور میرے ہونٹ اس مخمل میں دھنستے گئے افففففففففف یارا کیا سوفٹنس تھی کیا ملائمت تھی کیا کشش تھی ۔


میں تو اس کو اپنے سحر میں جکڑنا چاہتا تھا مگر سالی کے جسم کا نظارا کرتے ھی میرا سارا حساب کتاب ھی بگڑگیا۔۔


لاکھ پلاننگ سوچی تھی اسکو ننگا کر کے چودنے کی ۔


سالی نے صرف مموں کے جلوے سے ھی میرا سارا حساب کتاب بگاڑ دیا۔


میں تو دور سے اسکے ممے اور گورا جسم دیکھ کر سکتے میں آگیا اب تو پھر بھی یہ گورا جسم حسن کی مورت میری آنکھوں کے سامنے اور میری دسترس میں تھا ۔۔


تو پھر میری تو ایسی کی تیسی ھونی ھی تھی ۔۔


خیر میرا کچھ خمار کم ھوا تو میں نے ہُما کے مموں سے پردہ اٹھا کر اوپر کر کے مموں کو جلوہ گر کیا اور اسکے روئی سے نرم مموں پر بے صبروں کی طرح ٹوٹ پڑا ۔


اور ہُما کے منہ سے سسکاریوں کا طوفان نکل پڑا ۔


نہ مجھے کوئی روکنے والا تھا اور نہ ہُما کی سسکاریاں رکنے والی تھیں ۔


مین مموں کے چھوٹے سے اکڑے ھوے نپل کو کبھی دانتوں میں بھینچتا تو کبھی انہوں ہونٹوں میں لے کر چوستا


ہُما سر اٹھا اٹھا کر مجھے اپنے ممے چوستی دیکھتی اور ساتھ میں سسکاریاں بھرتی ھوئی میرے سر پر ھاتھ رکھ کر مموں پر دباتی اور کبھی سر پیچھے لیجا کر کندھوں کو اٹھا کر مموں کو مزید اونچا کرتی ۔۔۔


کچھ دیر یہ کھیل چلتا رھا ۔


اور جب ہُما کے ممے سرخ ھوگئے اور میرے لباب سے تر ھوگئے اور سویرا کی سانسیں اکھڑنے کے بعد تھم گئی اسکا جسم اکڑنے کے بعد بےجان ھوگیا اور مجھے اسکی پھدی گیلی ہونی کا یقین ھوچلا تو تو میں اس کے مموں کو چھوڑ کر پھر سے اسکی ٹانگوں میں دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا اور اپنا ٹراؤزع کو اپنی ٹانگوں سے نکال کر ایک طرف رکھا اور پھر ہُما کے ٹراؤزر کو لاسٹک والی جگہ سے پکڑ کر اسکی سڈول اور گوری چٹی بالوں سے پاک گانڈ سے نکال کر اسکی ٹانگوں سے کھینچتا ھوا اسکے پیروں پر لے آیا اور پھر ٹراوزر کو اسکے پیروں سے باری باری نکال دیا اور پھر اپنی شرٹ اتار کر ایک طرف رکھ دی اب دو جسم مادر ذاد ننگے تھے اور ہُما کے جسم پر صرف بریزیر تھا جو اسکے مموں سے اوپر کی جانب اکھٹا ھو کر مموں کو ننگا کیے ھوے تھا۔۔


میں نے ہُما کی پھدی کا غور سے معائنہ کیا تو دیکھ کر حیران رھ گیا کہ اتنی پیاری اور سافٹ کے بس۔۔۔۔ پھدی کی ہونٹ اندر کی جانب ایک دوسرے سے چپکے ھوے تھے۔
جس طرح ہُما کے چہرے پر معصومیت جھلک رھی تھی بلکل اسی طرح ہُما کی پھدی پر بھی معصومت جھلک رھی تھی ۔۔۔
پھدی کے باریک سے ہونٹوں پر بس شبنم کے قطرے چمک رھے تھے ۔۔


میں نے ہُما کی پھدی پر انگلی پھیری تو ہُما ایک دم کانپی اور اپنی ٹانگوں کو آپس میں ملا کر میرے ہاتھ کو ٹانگوں کے بیچ جکڑ کر سر اٹھا کر سسکاری ماری ۔۔۔


میں نے اسکی روئی سی نرم رانوں میں پھنسے ھاتھ سے ھی انگلی کو حرکت دیتے ھوے پھدی سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی کچھ دیر تو ہُما سر دائیں مارتے ھوے سییییہہہی افففففف کرتی ھوئی مجھے فنگرنگ کرنے سے منع کرتی رھی مگر میں تو اسکی گرم پھدی کی گرمائش سے اپنی انگلی کو ٹکور دے رھا تھا اور پھدی کا درجہ حرارت معلوم کرنے کی کوشش کررھا تھا ۔۔۔


کچھ دیر میں ایسے ھی انگلی کی مدد سے ہُما کی پھدی کو چھیڑتا رھا تو کبھی پھدی کے چھوٹے سے پھولے ھوے دانے کو مسلتا رھا کہ ہُما کو ایک دم جوش چڑھا اور اس نے گانڈ اٹھا کر میرے انگلی کو پھدی کے اندر لیا اور پھر زور سے رانوں کو آپس میں بھینچ کر گانڈ کو اوپر نیچے کرنے لگی۔
میں نے یکدم اپنے ہونٹ ہُما کی پھدی پر رکھ دیئے ہُما کی پھدی اتنی ملائم تھی جیسے میں ریشم پر اپنی زبان پھر رہا تھا۔
میں مسلسل روانی سے ہُما کی پھدی چوس رہا تھا اور وہ اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر پھدی کو مزید پھیلا رہی تھی۔ پھدی چوستے چوستے میں نے دھیرے سے ایک انگلی پھر سے ہُما کی پھدی میں ڈال دی اس نے اوپر سے اپنے ہاتھ نیچے لے آتے ہوئے میرے سر پر رکھ دیئے۔ اور میرا سر پکڑ کر اپنی پھدی میں رکھ دیا میرے جوش میں مزید اضافہ ہوا اب میری انگلی ہُما کی پھدی کے اندر تھی اور ہونٹ پھدی کے اوپر میں پہلے سے زیادہ جوش کے ساتھ پھدی چوسنے لگا اب میری انگلی پھدی کے اندر باہر ہو رہی تھی اور ہونٹ پھدی کے اوپر اپنا کام کر رہے تھے۔


میں نے کچھ پل ایسے ہی اسکی پھدی کو چھیڑا اور پھر دیکھا اور پھر پیچھے ہٹ کر لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں کے درمیان ٹوپے کو پھنسانے لگا اور ٹوپے کو پھدی کے درمیان ٹوپے کو اڈجسٹ کر کے ہُما کے اوپر جھکا ۔


اور ایک جھٹکا مارا تو اسکی پتھرائی آنکھیں بھیگ گئیں اور اسکے منہ سے اتنا ھی نکلا امییییییییییی جییییییییییی ۔


پھدی کو چیرتا ھوا لن آدھا اندر گھس چکا تھا اور ہُما کے ہاتھوں نے میرے بازوں کو جکڑ لیا تھا ۔


اور اس نے پیچھے کھسکنے کی کوشش کی تھی مگر میرے ھاتھ اسکے کندھوں کو اپنے شکنجے میں لیے ھوے تھے ۔


میرا لن ایسے تھا جیسے کسی آگ کی بھٹی میں گھس گیا ھو اور پھدی کی جکڑ ایسی تھی جیسے کسی نرم چیز نے پوری طاقت سے میرے لن کو اپنے احصار میں لے کر جکڑا ھو ۔۔۔


ہُما نے نہ اوہہہہہہہ کی نہ ھاےےےےےےےے کی بس امی کو یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگ گئی ۔۔۔


میں نے اسکے سنبھلنے سے پہلے ھی دوسرا گھسا مار کر اسکی ننھی سی پھدی کی گہرائی کو لن سے ناپ لیا ۔۔


اور میرے ٹٹے اس کی گانڈ سے جا لگے اففففففف کیا ھی پھدی کی گرمائش تھی مجھے لگ رھا تھا کہ بس دوسرے گھسے میں ھی میں فارغ ھوجاوں گا۔۔۔


دوسرا گھسا جب مارا تو لن پھدی کی گہرائی میں چلا گیا اور اسکی آنکھیں باہر کو ابھلنے والی ھوگئیں ہُما سر کو دائیں بائیں مارتے ھوے میری رانوں پر ہاتھ رکھ کر مجھے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ھوے امییییییی جی مرگئیییییی پلیزززززز مجھے چھوڑ دو اسے باہر نکال لو میں مرجاوں گی ۔۔۔۔


.مجھ سے برداشت نہیں ھورھا.


خاموش گڑیا جو شروع سے ایک مجسمہ ایک بت ایک مورت ایک سٹیچو بنا ھوا تھا میرے لن نے اندر جاتے ھی اس بے جان مجسمے میں جان ڈال دی اسکی زبان چلی تو رکنے کا نام نہ لی ۔


جس مورت کو دی زباں ہم نے وہ بولے تو ہم پر ھی برس پڑے۔۔۔۔


ہُما مجھے دھکے دینے کی کوشش کررھی تھی مجھ کو برا بھلا کہنے پر اتر آئی ۔


مگر میں نے لن اندر سے باہر نہ نکلنے دیا اور میں نے ہُما کے خاموشی کو اسکی برداشت کا نام دے کر آہستہ آہستہ لن کو اندر باہر کرنا شروع کردیا ۔۔


میں نے آہستہ آہستہ گھسوں کی رفتار تیز کردی اب میرے گھسے سے اس کے ممے ہلنا شروع ھوچکے تھے دودھ کے پیالے چھلکنے لگ گئے تھے اسکے پیٹ کی جلد پر بھی وائبریشن ہورھی تھی ۔


اسکے آنسوں اب بھی بہہ رھے تھے ۔


پانچ منٹ بعد ہُما کو کچھ سکون ملا آنسو بھی تھم گئے مموں نے ہلتے ھوے اوپر کو اٹھنا شروع کردیا سویرا کے ھاتھ جو مجھے پیچھے کی طرف دھکیل رھے تھے اب میری رانوں کے آگے سے ہٹ کر میری رانوں کے پیچھے چلے گئے اور اسکی آہیں اب سسکاریوں میں بدل گئی ۔


میرے گھسوں کی بھی رفتار بھی ساتھی کے ساتھ ملنے کی وجہ سے بڑھ گئی ہُما نے ٹانگوں کو خود ھی مذید اوپر کیا اور میری کمر کے گرد ٹانگوں کا شکنجا ڈال کر گاند کو اوپر اٹھاتے ھوے


کہنے لگی زور سے کرو ایکدم مجھ سے کسی چمگادڑ کی طرح چمٹ گئی اور پھدی سے منی کا مینہ برسنا شروع ہوگیا ۔۔۔


کچھ دیر جھٹکے کھانے کے بعد ہُما بےدم ھوکر لیٹ گئی میں تھوڑا وقفہ دیا اور پھر سے چپو چلانا شروع کردیا تقریباً پانچ سات منٹ بعد ھی مجھے لگا کہ میں چھوٹنے والا ھوگیا ھوں تو میں نے آخری جاندار گھسا مارتے ھوے ہُما کو پھر امی کی یاد دلائی جس کا ثبوت اس نے ھاےےےے امییییی کر کے دیا اور میں نے لن کو جھٹکے سے باہر نکالا اور اسکی روئی سے نرم ران کے اوپر لن کو رکھ کر سویرا کے اوپر لیٹ گیا اور اسے اپنی باہوں میں جکڑ کر اسکے ہونٹوں کا رس پینے لگا۔۔

 جاری ہے