Showing posts with label Gurm Lurkio Ki Stories(Free). Show all posts
Showing posts with label Gurm Lurkio Ki Stories(Free). Show all posts

سوتیلے بھائی

 

 



سوتیلے بھائی

میرا نام رضیہ ہےمیری آنکھ ایک یتیم خانے میں کھلی تھی اور بچوں کی طرح مجھے نہیں پتا میرے ماں باپ کون تھے۔بعقول ہمارے یتیم خانے کے منیجر کے مجھے کوئی دروازے پر چھوڑ گیا تھا ۔تب سے لے کر آج تک میں کبھی اپنے ماں باپ کا پتا نہیں چلا سکی۔میری عمر 14 سال ہو چکی تھی۔جوانی میں قدم رکھ دیا تھا۔ایک دن مجھے منیجر نے اپنے آفس میں بلایا،بلانے کا مقصد مجھے جانے کے بعد پتا لگا کہ مجھے کوئی فیملی اڈاپٹ کرنا چاہ رہی تھی جو ان کے آفس میں بیٹھی ہوئی تھی وہ دو میاں بیوی مجھ سے بہت پیار سے پیش آئے اور مجھ سے کافی باتیں کی مجھے بھی ان سے باتیں کر کے اچھا لگا ،میں نے ان کے ساتھ جانے کی حامی بھر لی ۔یتیم خانے کو چھوڑنے کا دکھ بھی ہو رہا تھا یہاں میں نے زندگی کے 14 سال گزارے تھے،کافی دوست بنائے تھے پر جانے کی خوشی بھی تھی۔میں نے اپنا سامان پیک کیا اور ان کی کار میں بیٹھ کر ان کے ساتھ گھر کی طرف چل دی۔رستے میں انہوں نے اپنا تعارف کروایا میاں کا نام الطاف تھا اور ان کی بیوی کا نام آسیہ تھا ان کے 2 بیٹے تھے ان کو بیٹی کی خواہش تھی اس لیئے انہوں نے مجھے گود لیا تھا۔ گھر پہنچے کر انہوں نے اپنے بیٹوں سے میرا تعارف کروایا بڑا بیٹا 18 کی عمر کا تھا اس کا نام سلیم تھا اور چھوٹا بیٹا 16 سال کا تھا اس کا نام نعیم تھا۔انہوں نے روکھے منھ سے مجھ سے ہاتھ ملایا ان کی ناراضگی کا پتا بعد میں چلا کہ مجھے نعیم کا کمرا دیا گیا تھا رہنے کے لیئے اور نعیم کو سلیم کے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ان دونوں نے مجھے کبھی بہن تسلیم نہیں کیا تھا ہمیشہ میں کوشش کرتی تھی ان کے ساتھ گھل ملنے کی پر ان کی سرد مہری دیکھ کر میں پیچھے ہٹھ جاتی تھی۔میرے سوتیلے ماں باپ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے میرا خیال رکھتے تھے انہوں نے مجھے اپنی بیٹی ہی سمجھا تھا ہمیشہ ، ایک دن میرے امی ابو گھر سے باہر دوسرے شہر گئے تھے اور میں گھر اکیلی تھی ۔میں نے دوپہر کا کھانا بنایا اور اپنے بھائیوں کو بلانے ان کے کمرے میں گئی میں نے دیکھا دروازہ بند تھا میں نے دھکا لگایا تو دروازہ کھل گیا اندر کا منظر دیکھ کر میرے پیروں سے زمین کھسک گئی۔ سلیم اور نعیم دونوں ایک بلیو فلم دیکھ رہے تھے اور ان کے ہاتھ اپنے ٹراؤزر میں ڈالے ہوئے تھےکمرے میں سگریٹ کی سمیل پھیلی ہوئی تھی۔مجھ کو دیکھ کر دونوں گھبرا گئے نعیم نے مجھے غصے سے ڈانٹا اور کہا دفع ہو جاؤ میرے کمرے سے۔ میں ڈر کر سہم گئی اورجلدی سے ان کے کمرے سے نکل آئی اور اپنے کمرے میں آ گئ تھوڑی دیر بعد کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے سلیم کھڑا تھا۔میں نے پوچھا جی بھائی سلیم :سوری نعیم نے تم سے بد تمیزی کی تم میرے کمرے کی صفائی کر دو گی میں:جی بھائی میں ابھی کر دیتی ہوں میں سلیم کے ساتھ چل دی کمرے میں داخل ہوئی تو مجھے نعیم نے دبوچ لیا اور مجھے بیڈ پر گرا دیا میں گھبرا گئی میں نے غصے سے کہا مجھے چھوڑو نعیم :بہن چود تم ہماری شکایت ابو کو لگا دو گی آج کل تم ان کی بہت چہیتی ہو میں:نہیں میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی مجھے جانے دو میں بیڈ پر اس طرح لیٹی تھی میرے پاؤں زمین پر تھے مجھے بازؤں سے نعیم نے پکڑا ہو ا تھا پاؤں کی سائیڈ پر سلیم آ گیا تھا میرا سر بیڈ سے پیچھے کی جانب تھا میں نعیم کو تو دیکھ سکتی تھی سلیم کو نہیں مجھے نہیں پتا وہ کیا کر رہا تھا۔اچانک اس نے میری شلوار کو نیچے اتار دیا میں سمجھ گئی سلیم کیا کرنا چاہ رہا ہے میں نے اس کو واسطے دینا شروع کر دئےاس نے اب میری شلوار کو پورا اتار دیا میں نے ٹانگیں چلانا چاہی پر اس نے میری ٹانگوں کو دبوچ لیا اور میں دیکھ نہیں پا رہی تھی وہ کیا کر رہا ہے اچانک اس نے اپنا منھ میری چوت پر رکھ دیا اور اس کو چاٹنے لگ پڑا کچھ دیر چاٹنے کے بعد اس نے منھ ہٹایا اور نعیم سے کہا بھائی اسکی چوت تو بہت مزے کی ہے سالی سیل پیک ہے آج تو لا ٹری نکل آئی نعیم:میں بھی چکھنا چاہوں گا زرا تم اس کے ہاتھ پکڑو انہوں نے اتنی پھرتی سے اپنی جگہ بدلی میں اٹھ ہی نہیں پائی اب نعیم میری چوت کو مزے سے چاٹ رہا تھا اور سلیم میرے ہونٹوں پر زبردستی کس کر رہا تھا سلیم :بہن چود اب بس بھی کر میرا لنڈ پھٹنے پر آیا ہوا ہے پیچھے ہٹ جا نعیم :بھائی مجھے اسکی اوپننگ کرنے دو سلیم:میں تم سے بڑا ہوں میں ہی اوپننگ بیٹنگ کروں گا میں پچ کو تمھارے کھیلنے کے لائق تو بنا دوں دونوں ہنس پڑے۔انہوں نے دوبارا اپنی جگہ بدلی میں نے آخری کوشش کے طور پر اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی پر کچھ فائدہ نہیں ہوا اس نے اپنے لنڈ کو میری چوت پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے سے پورا لنڈ اندر ڈال دیا مجھے درد تو ہوئی پر اتنی نہیں جتنی پہلی بار ہوئی تھی اب چیخوں کی جگہ سسکاریوں نے لے لی تھی،اب وہ مجھے چود رہا تھا جم کر جھٹکے مار رہا تھا ۔میرے جسم نے اچانک اکڑنا شروع ہو گیا مجھے لگا میرے جسم کا سارا خون میری چوت کی جانب منتقل ہو گیا ہو میری آنکھیں جیسے اوپر چڑھ گئی تھیں۔نعیم :سالی چوت تیری ویسی ہی اتنی تنگ ہے اس کو اور کیوں بھینچ لیا ہے میں اس طرح جلدی چھوٹ جاؤں گا سلیم:ارے پگلے وہ فارغ ہونے والی ہے جم کر چدائی کر ایک دو جھٹکوں کے بعد ہی میجھے ایسے لگا میری چوت نے پانی چھوڑ دیا ہو اور اس کے بعد نعیم نے اپنا لنڈباہر نکالا اور میرے منھ کی جانب آ کر ساری منی میرے منھ پر گرا دی اسکی منی میرے منھ اور بالوں پر گری جسکو اس نے اپنی انگلی سے میرے منھ میں ڈالنے کی کوشش کی میں نے سر کو پیچھے ہٹانا چاہا پر اس نے مجھے بالوں سے پکڑا اور زبردستی اپنی انگلی کو میرے منھ میں ڈال دیا عجیب نمکین سا زائقہ تھا اس نے مجھے نگلنے کو کہا میں نے ناچار نگل لی اس کے بعد اس نے جتنی منی میرے منھ پر لگی تھی اسکو انگلی سے اکھٹی کر کر کے مجھے کھلایا۔میں نے روتے ہوئے اپنے کپڑے اٹھانے چاہےپر انہوں نے کہا سالی ابھی ایک ایک راؤنڈ اور باقی ہے۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا اور بلیو فلم چلا دی میں نے زندگی میں کبھی سیکسی فلم نہیں دیکھی تھی اس میں ایک لڑکی 5 بندوں سے سیکس کر رہی تھی اور انجوائے کر رہی تھی۔میں نے نطریں جھکائی ہوئی تھیں پر اس لڑکی کی آوازیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں،وہ دونوں فریج سے کوک کے کین اٹھا لائے تھے ایک مجھے بھی دیا میرا گلا خشک ہو چکا تھا میں نے خاموشی سے کین پینا شروع کر دیا۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ مووی دیکھ رہے تھے ساتھ ساتھ میرے جسم سے کھیل رہے تھے۔تھوڑی دیر میں ان کے لنڈ دوبارا تیا ر ہوچکے تھے انہوں نے کہا چلو ساتھ میں شاور لیتے ہیں آخری راونڈ وہاں پر ہی ہوگا میں خاموشی سے ان کے ساتھ چل دی، چلنے میں تھوڑی تکلیف ہو رہی تھی واش روم میں جا کر انہوں نے مجھے بیٹھنے کو کہا اور مجھے اپنا لںڈ چوسنے کو کہا۔ میں چپ چاپ ان کی باتیں مان رہی تھی میرے سامنے 2 موٹے تازے لنڈ میرے منھ میں جانے کے لئے بے تاب تھے۔میں نے نعیم کا لنڈ منھ میں لیا اور بلیو فلم میں جس طرح لڑکی چوس رہی تھی اس طرح اس کے لنڈ کو چوسنا شروع کر دیا۔ نعیم نے کہا اپنے دانتوں کو نہیں اپنے ہونٹوں کو استعمال کرو اس نے میری انگلی کو اپنے منھ میں لے کر مجھے چوس کر دکھائی اور اپنے منھ کو میری اانگلی پر اوپر نیچے کیا کبھی زبان نکال کر میری انگلی کو چاٹ کر مجھے سمجھایا کہ کیسے لنڈ کو چوستے ہیں۔ میں نے اس کی ہدایت پر عمل کیا تو وہ بہت خوش ہو گیا۔کوئی 5 منٹ چوسنے کے بعد وہ سامنے کموڈ پر بیٹھ گیا اور مجھے اپنے لنڈ پر بیٹھنے کا کہا میں اسکے لنڈ کو اپنی چوت پر سیٹ کیا اور اس کے لنڈ کو آہستہ اہستہ اندر لے لیا اب میں اس کے لنڈ پر اوپر نیچے ہو رہی تھی کچھ دیر کے بعد میری ٹانگیں تھک گئی تو اس نے مجھے زمین پر گھوڑی بننے کو کہا اور خود میری چوت کو جم کر چودنے لگا سلیم اب میرے منھ کی جانب آیا اور مجھے اپنا لنڈ چوسنے کو کہا ایک بھائی میری چوت کو چود رہا تھا اور ایک بھائی میرے منھ کو۔ اس بار کوئی 20 منٹ کے بعد نعیم نے اپنے لنڈ کو باہر نکالا اور اپنی گرم گرم منی میری پیٹھ پر گرا دی اب سلیم نے میرے منھ کو چھوڑا اور میری چوت کی طرف آیا،اس نے تیل کی شیشی اٹھائی اور اس نے کچھ تیل میری گانڈ پر گرایا کچھ اپنے لنڈ پرمیں سمجھی نہیں تھی وہ کیا کرنا چاہا رہا ہے اس نے میرے چوتڑ کھولے اور اپنے لنڈ کی ٹوپی کو میری گانڈ پر رکھ کر جھٹکا مارا مجھے ایسا لگا میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچ رہے ہوں درد کی شدید لہر میری گانڈ میں دوڑ گئی۔میں نے اتنی زور سے چیخ ماری میرا گلا بیٹھ گیا میں نے اس کو رو رو کر واسطے دینا شروع کر دیے




 سلیم:سالی تیری گانڈ بہیت ٹائیٹ ہے مجھے لگ رہا ہے میرے لنڈ کی کھال اتر رہی ہو ابھی صرف ٹوپی اند گئی ہے پورا لنڈ باقی ہے یہ سن کر ہی میرے اوسان خطا ہو گئے اس نے کہا میں پورا نہیں ڈالوں گا پر تیرے اس سوراخ کو تو رواں کرنا ہے نا آگے چل کر تو بہت کام آئے گی ہم دو بھائیوں کے،ابھی تو صرف آدھا بھی نہیں گیا تیرے اندر اس نے ایک دو جھٹکے مارے تو میں جیسے درد کے مارے بیہوش ہونے کے قریب ہو گئی تھی میں مسلسل رو رہی تھی ان دو جانوروں نے میری حالت خراب کر دی تھی شائید میری گانڈ کی سختی کی وجہ سے وہ جلدی فارغ ہو گیا مجھے لگا میری گانڈ میں کوئی گرم پگھلا ہوا لوہا گرا دیا ہو۔اس نے کچھ جھٹکے کھانے کے بعد اپنا لنڈ باہے نکال لیا۔مجھے ایسا لگ رہا تھا میری گانڈ میں کسی نے مرچیں بھر دی ہوں جلن اور درد بہت ہو رہا تھا ۔اس کے بعد ہم نے شاور لیا میں نے اپنے کپڑے پہنے ۔انہوں نے مجھے بیڈ کی چادر تبدیل کرنے کو کہا میں نے چادر تبدیل کی اور پرانی چادر کو جا کر دھویا بھی تاکہ اس پر لگے ہوئے میرے کنوارپن کے خون کے داغ دھل جائیں۔چادر بدلنے کے بعدمیں اپنے کمرے میں آگئی پورے جسم میں درد تھا میں بیڈ پر لیٹ کر اپنی قسمت پر رو رہی تھی۔ روتے روتے شام ہو گئی شام کو اٹھی تو فون کی گھنٹی بجی میں نے فون اٹھانا چاہا تو سلیم جلدی سے آیا اور مجھے دھمکاتے ہوئے کہا یہ یقینا ابو کا فون ہوگا تم نے ان کو کچھ بھی بتایا تو ہم تو ان کی اپنی اولاد ہیں ہم کو وہ کچھ نہیں کہیں گے تم کو گھر سے نکال دیں گے۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ فون اٹھانے کے بعد ابو نے مجھ سے حال احوال پوچھا میرا دل کیا میں زور زور سے چیخ کر ان کو انکے بیٹوں کے کرتوت بتا دوں پر مجھے سلیم کی دھمکی یاد آگئی تھی۔ میں نے ان کو کہا سب ٹھیک ہے آپ کب واپس آ رہے ہو انہوں نے دل دہلا دینے والی خبر سنا ئی کہ ہم آج نہیں آ سکتے کل دوپہر تک ہم پہنچ جائیں گے میں نے فون رکھ دیا سلیم نے دوسرے کمرے میں رکھے ہوئے ایکسٹینشن سے ساری باتیں سن لی تھیں اور وہ خوش ہو کر اپنے بھائی کو بتا رہا تھا دونوں بھائیوں کی خوشی کی وجہ میں سمجھ رہی تھی وہ آج کی رات مجھ سے اپنی گندی خواہشوں کواوراچھے طریقے سے سر انجام دینے والے تھے۔ شام کو سلیم باہر نکل گیا میں خاموشی سے گھر کے کام کرتی رہی کوئی گھنٹے کے بعد واپس آیا تو ساتھ میں کھانا لے آیا جو ہم نے مل کر کھایا میں خاموش رہی۔کھانے کے بعد میں نے برتن اٹھائے اور دھونے لگ پڑی کچھ دیر بعد سلیم نے مجھے آواز دی اور دو گلاس دودھ لانے کو کہا میں نے دودھ کو گرم کیا اور گلاسوں میں ڈال کر ان کے کمرے کے باہر آ کر دستک دی مجھے اندر جاتے ڈر لگ رہا تھا۔سلیم نے کہا اندر آ جاؤ میں:بھائی آپ دودھ پکڑ لیں مجھے گھر کا کام ہے سلیم:کام کی بچی میں نے کہا نا اندر آؤ ورنہ تجھے تیرے کمرے میں بھی آ کر چود سکتے ہیں۔ میں ججھک کر دروازہ کھول کر اندر چلی گئی ۔کمرے میں دونوں بھائی بیڈ پر بیٹھے تھے،میں نے ان کو دودھ پکڑایا سلیم نے جیب سے دو ٹیبلیٹ نکالی اور ایک خود کھائی اور دوسری نعیم کو دی جو اس نے بھی کھا کر خالی گلاس میرے حوالے کر دیا۔میں خالی گلاس لے کر واپس مڑنے لگی تو سلیم نے میری گانڈ پر زوردار تھپڑ مارا اور کہا ۔ جان تیار رہنا یہ گولی تیرے لئیے کھائی ہے آج تجھے مزے کی بلندیوں پر پہنچائیں گے۔ میں کچھ سمجھ نہیں پائی اور سر جھکا کر ان کے کمرے سے نکل آئی۔ میں کچن میں گلاس رکھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دی ابھی کمرے تک نہیں پہنچی تھی تو مجھے سلیم نے آواز دی اور کہا آ جاؤ میرے کمرے میں ۔ میں نے سر ہلا کر انکار کیا اور کہا نہیں میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے مجھے سونے دو۔ سلیم:بہن چود سالی رانڈ ہم نے گولی کھائی ہے ٹائمنگ والی کچھ دیر میں اس کا اثر شروع ہو جائے گا ۔ میں:نہیں مجھ کو دوپہر والا درد ابھی تک ہو رہا ہے سلیم نے غصے سے آ کر میرے بال پکڑ لئیے اورکہا تم کو پیار کی زبان سمجھ نہیں آتی شائید میں:اچھا بال چھوڑو میں آتی ہوں اس نے جیسے بال چھوڑے میں نے بھاگ کر اپنے کمرے میں جانا چاہا پر اس نے مجھے پکڑ لیا اور اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آیا۔ کمرے میں ٹی وی پر بلیو فلم چل رہی تھی ۔دونوں مل کرفلم دیکھنے لگ پڑ ے اور مجھ کو بیچ میں بٹھا لیا دونوں نے اپنے لنڈ ٹراؤزر سے باہر نکال لیئے اور مجھ کو پکڑنے کو کہا میں نے دونوں مل کرفلم دیکھنے لگ پڑ ے اور مجھ کو بیچ میں بٹھا لیا دونوں نے اپنے لنڈ ٹراؤزر سے باہر نکال لیئے اور مجھ کو پکڑنے کو کہا میں نے دونوں ہاتھوں سے ان کے لنڈ کو پکڑ لیا۔میں دونوں کے لنڈ کو پکڑ کر بیٹھی بلیو فلم دیکھ رہی تھی۔اب نعیم نے اپنا ہاتھ میری شلوار میں ڈال دیا اور سلیم میرے مموں کو پکڑ کر دبانے لگ پڑا ۔نعیم نے اپنی انگلی میری چوت میں ڈال دی اور سلیم سے کہا سالی کی چوت گیلی ہو رہی ہے یہ بھی انجوائے کر رہی ہے اب دونوں مجھ پر ٹوٹ پڑے ایک میری چوت کو مسل رہا تھا اوردوسرا میرے بوبس کونوچ رہا تھا ۔کبھی نعیم مجھے کس کرنے لگ پڑتاتو کبھی سلیم، اب دونوں فل تیا ر ہو چکے تھے ہم بیڈ پر آ گئےان دونوں نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھےمجھے بھی کپڑے اتارنے کو کہا مجھے پتا تھا اب کوئی اور چارہ نہیں ہے اس لئے ان کی بات مان کر میں نے اپنے کپڑے اتار دئے اور بیڈ پر لیٹ گئی نعیم میری چوت کی طرف آ گیا اور اپنے منھ کو میری چوت پر رکھ کر اپنی زبان سے چاٹنے لگ پڑا اس کی زبان کبھی میری چوت کے اندر جاتی کبھی میری چوت کے اوپر بنے ہوئے دانے کو چاٹتتی ۔مجھے اب مزہ آ رہا تھا میرے منھ سے مزے سے سسکاریا ں نکل رہی تھیں۔سلیم نے اپنے لنڈ کو میرے منھ کے پاس لا کر مجھے اس کو چوسنے کا کہا




میں نے خاموشی سے اس کے لنڈ کو منھ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا میرے چوسنے کی وجہ سے اس کا لنڈ اکڑنا شروع ہو گیا کافی دیر تک چوسنے کے بعد سلیم نے مجھے اپنے اوپر آنے کو کہا اور خود لیٹ گیا میں نے اس کے لنڈ کو اپنی چوت کے اوپرسیٹ کیا اور آہستہ آہستہ اندر لینا شروع کر دیا آدھے سے زیادہ اندر جانے کے بعد مجھے ہلکی ہلکی درد شروع ہوگئی میں نے اس کو رکنے کا کہا پر اس نے نیچے سے زوردار جھٹکا مارا اور پورا لنڈ میری چوت کی گہرائیوں میں اتار دیا۔میرے منھ سے ہلکی چیخ نکلی اب اس نے مجھے اوپر نیچے ہونے کا کہا نعیم اٹھ کر واش روم چلا گیا اور میں سلیم کے لنڈ پر اوپر نیچے ہونا شروع ہو گئ کچھ دیر بعد نعیم واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں تیل کی شیشی دیکھ کر میں سمجھ گئی وہ کیا کرنا چاہ رہا ہے ۔میں نے سلیم کے اوپر سے اٹھنے کی کوشش کی پر اس نے مجھ دبوچ لیا اور پیچھ سے نعیم نے تیل میری گانڈ کے اوپر انڈیل دیا اور کچھ تیل انگلی کی مدد سے میری گانڈ کے سوراخ کے اندر تک ڈال دیاباقی تیل اس نے اپنے لنڈ پر مل لیا اور بیڈ پر چڑ ھ کر اپنے لنڈ کو میری گانڈ کے سوراخ پر سیٹ کر نے لگا میں نے کہا پلیز مجھے پیچھے سے نا کرو مجھے بہت درد ہوتا ہے اس نے کہا میں صرف ٹوپی ڈالوں گا تم کو زیادہ درد نہیں ہوگا۔ میں چپ ہو گئی اس نے تھوڑا زور لگاکر اپنی ٹوپی کو میری گانڈ میں گھسا دیا میں نے درد کے مارے تکیے پر دانت گاڑ دئیے درد تو تھا پر برداشت ہو رہا تھا اب نیچے سے سلیم نے دوبا رہ دھکے مارنے شروع کر دئیے ایک دم نعیم نے پورا زور لگایا اوراپنا لنڈ پورا میری گانڈ میں گھسا دیاتیل کی وجہ سے اسکا لنڈ میری گانڈ کو چیرتا ہوا اندر چلا گیا۔میں نے چیخ ماری اور زبح کی ہوئی مرغی کی طرح تڑپنے لگ پڑ ی میری آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے خود کو کوس رہی تھی کہ میں کن جانوروں میں پھنس گئی ہوں۔کچھ درد تھما تو ان دونوں نے دھکے مارنے شروع کر دئیے دونوں کسی مشین کی طرح مجھے چود رہے تھے آج تو فارغ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے میں دعا مانگ رہی تھی کہ جلدی فارغ ہوں پر شائید یہ اس گولی کا کمال تھا جو انہوں نے کھائی تھی۔30 منٹ کی دھواں دار چدائی کے بعد اب انہوں نے پوزیشن چینج کر لی تھی اب چوت کا محا ز نعیم نے سنبھالا تھا اور گانڈ کا سلیم نے ہم تینوں پسینے سےشرابور ہو چکے تھے میں 2 بار فارغ ہو چکی تھی 30 منٹ کی اور چدائی کے بعد سلیم نے میری گانڈ کے اندر ہی اپنی گرم منی کوانڈیل دیا تھا۔نعیم نے کچھ دیر اور چودنے کے بعد اپنے لنڈ کو میری چوت سے نکالا اور میرے منھ میں دے دیا میں نے اس کو چوسنے لگ پڑ ی اس کے لنڈ پر میری چوت کا رس لگا ہواتھا اب ایک دو بار ہی اپنے منھ کو اسکے لنڈ پر اوپر نیچے کیا تھا کہ اس نے گرم گرم منی ایک زوردار جھٹکے سے میرے منھ میں انڈیل دی میں نے اس کے لنڈ کو باہر نکالنا چاہا پر اس نے میرے منھ کو اوپر دبا دیا کچھ منی میرے حلق سے اتر گئی اور کچھ میرے منھ سے باہر نکل گئی مجھے ابکائی آنے لگی تو مجھے چھوڑا اس کا لنڈ میرے منھ سے نکل گیا اسکا لنڈ ابھی بھی جھٹکے کھا رہا تھا اور ہر جھٹکے سے اس کے لنڈ سے منی نکل کر میرے گریبان پر گر رہی تھی میں بڑی مشکل سے ابکا ئی کو روکا ۔دونوں بے حال ہو کر گر گئے تھے نعیم نے سلیم سے کہا آج تو مزہ آ گیا پہلے لگ رہا تھا ڈیڈی نے اس کو گھر لا کر غلطی کر دی ہے پر یہ تو ہم دونوں کے کھیلنے کے لئیے مست چیز ہے دونوں ہنس دئیے اس رات دونوں نے 3 ،3 بار مجھ کو چودا ان کا ارادہ تو اور بھی تھا میں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی اور اپنے کمرے میں آ گئی۔ صبح اٹھی تو جسم میں درد تھا اور رات کی تھکاوٹ کی وجہ سے مجھے بخار ہو گیا تھا۔ دوپہر کو شکر ہے امی ابو واپس آ گئے مجھے بخار میں دیکھ کر امی گھبرا گئیں اور مجھے دوائی کھلائی ان کا ایثار دیکھ کر مجھے رونا آ گیا ان کے بیٹے میری عزت کو تار تار کر چکے تھے ۔شام تک میرا بخا ر بھی اتر گیا زندگی معمول پر آ گئی اب وہ دونوں اپنی امی ابو کو دکھا نے کے لئیے ان کے سامنے مجھے اپنی بہن تسلیم کر چکے تھے پر ان کو جب بھی موقع ملتا وہ دونوں میرے جسم سے کھیلتے اور میں نے بھی اب ان کے کھیل کو تسلیم کر لیا تھا اور ان کا ساتھ دیتی تھی ۔اور اب تو میں نے خود اس کھیل میں مزہ لینا شروع کر دیا تھا ۔ہم جب بھی اکیلے ہوتے بلیو فلمز دیکھتے ایک دوسرے کی جسم کی آ گ بجھاتے ۔ابو کے جانے کے بعد ایک بھائی کمرے سے باہر پہرا دیتا کہ امی نا آ جائے دوسرا بھائی مجھے چودتا ۔اگر امی ان کے کمرے کی طرف آنے لگتی تو پہرے پر کھڑ ا بھائی ہم کو اشارہ کر دیتا ہم جلدی سے ویڈیو گیم کھیلنا شروع کر دیتے اس طرح کسی کو شک بھی نہیں ہوتا۔ بس یہی کچھ ہی زندگی کا حصہ تھا۔گھر والوں اور دنیا کی نظر میں ہم بہن بھائی تھے پر اصل میں ہم ایک دوسرے کے سیکس پارٹنر۔

 



منہ بولی بھابھی۔ ایک نئی کہانی

 

منہ بولی بھابھی

، یہ میرے ایک دوست کی کہانی ہے اُس کی زبانی سنیں

۔ میں ہاسٹل میں پڑھتا تھا ۔ ہاسٹل میں اپنے گروپ میں ہم جنسی سے متعلق بہت سی باتیں ایک دوسرے سے شیئر کرتے رہتے تھے، کافی اچھا لگتا تھا ، میرا مطلب اب بھی لگتا ہے ۔

ایک بار گرمی کی چھٹیوں میں میں اپنے گھر آیا تھا ، کافی خوش تھا ، گھر آکر جیسا تمام هسٹلر ہوتے ہیں ۔

تبھی مجھے پتہ چلا کہ میری ماں نے ایک نئے شادی شدہ جوڑے کو گھر کرایہ پر دیا ہے ۔

میں اپنی چھٹیاں اپنے فرےنڈس وغیرہ کے ساتھ مزے کرنے لگا ۔ تو جب میرے کچھ فرےنڈس کو پتہ چلا کہ میرے گھر پر ایک كپل رےنٹ پر رہ رہے ہیں ۔ تو

فرےنڈس - آئے آشو سنا ہے تیرے یہاں ایک مال رہنے آیا ہے ۔۔۔ ! ؟ !

میں - جی ہاں یار ۔۔۔ آیا ہے ، پر شادی شدہ ہے ۔۔۔ ! !

فرےنڈس - تو کیا ہوا پٹا سالی کو اور مزے کر ۔۔ !

میں - پر یار ، کچھ خاص نہیں ہے ۔۔ !

فرےنڈس - ابے تجھے کون سا گرلفرےنڈ بنانی ہے ۔۔۔ کام چلا ۔۔۔ اور چھٹیوں کے مزے لے ۔۔ !

میں - یار پھر بھی اس میں وہ بات نہیں ہے ۔۔۔ ! وہ چنگاری نہیں ہے جو مجھے چاہئے ۔۔۔

فرےنڈس - جو چاہئے وہ تو ہے نہ بس ۔۔ اور تجھے کون سا سگریٹ جلاني ہے ۔۔۔ اور سن جب آپ کے دل میں کامدیو ہو تو سالی ہر عورت مال لگتی ہے ۔

میں - سوچتا ہوں ۔

فرےنڈس - سوچتا نہیں چودتا ہوں دھن ۔۔۔ اور ہو سکے تو ہمیں بھی ٹیسٹ کرا ۔۔۔ !

میں - سالوں ، اب سمجھا کیوں اتنا مچ - مچ کر رہے ہو ۔۔۔ ! !

تمام ہنسنے لگے ۔۔

فرےنڈس سے ملنے کے بعد میں اپنے گھر آیا ، گھر پر کوئی نہیں تھا ، تمام کام پر گئے تھے ، میں اپنے روم میں آکر وہی باتیں سوچنے لگا ۔

پھر اچانک میں اوپر والی منزل پر گیا جہاں بھابھی اکیلی کچھ کام کر رہی تھی ، ان کے شوہر بھی کام پر گئے تھے ، پورے گھر میں صرف ہم دو لوگ تھے ، میں ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا ۔

تبھی میری نظر ان کے اوپر گئی ، میں انہیں شہوت انگیز نظروں سے دیکھ رہا تھا ، وہ مجھے آج سیکسی لگ رہی تھی میرا مطلب سپاركي لگ رہی تھیں ، تھی تو وہ پہلے بھی پر شاید میں نے انہیں کبھی ان نظروں سے دیکھا نہیں تھا ۔ کیا فگر تھا یار ۔۔۔ ! !

تبھی ' کیا مال ہے یار ' میں نے کہا ۔

بھابھی - تم نے کچھ کہا ؟

میں - نني ۔۔ نہیں کچھ نہیں بھابھی !

بھابھی - کیا ہوا ؟

میں - کچھ نہیں ، بھابھی بس ایسے ہی ۔

میں وہاں سے فورا نکل آیا ۔۔۔ ہم دونوں کے درمیان ایسے ہی باتیں کافی دنوں تک چلتی رہیں ۔ میرے فرےنڈس بھی اس بارے میں ڈیلی طرف لیتے رہتے تھے ۔

میری کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے ؟ کہاں سے شروع کی جائے ؟ تبھی ایک دن میرا ایک دوست نے مجھ سے بات کی -

خاندان - آئے آشو ، اور کیا چل رہا ہے آج کل ؟

میں - یار کچھ نہیں بس ایسے ہی ٹايم پاس ہو رہا ہے ۔

خاندان - اچھا تو یہ بتا اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان پٹتی کیسی ہے ؟

میں - کچھ نہیں یار لڑتے بہت ہیں ، تھوڑا کم پٹتی ہے ۔

خاندان - تو تو انتظار کس کا کر رہا ہے میدان بالکل صاف ہے ، موقع پہ چوکا مار ، وہ 100 ٪ تیرے سے قائم ہو جائے گی ۔

میں - مگر یار فٹتي بہت ہے میری ۔

خاندان - یار کس کی نہیں فٹتي ایسے ٹايم ، اچچھو - اچچھو کی فٹتي ہے ۔ تو بس اپنا کام کر ۔

فرےنڈس سے ملنے کے بعد ، میں سوچتا ہوں اب چاہے جو ہو جائے سالی کو پٹا کے ہی رہوں گا ۔ آخر دوسرے دن سب لوگوں کے جانے کے بعد میں بھابھی کے کمرے میں اوپر جاتا ہوں ۔ وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی ۔

میں - میں اندر آ سکتا ہوں ؟

بھابھی ( هسكر ) - ارے آو نہ ! کیوں مذاق کرتے ہو !

میں - اور بھابھی کیا ہو رہا ہے ؟

بھابھی - کچھ نہیں ٹی وی دیکھ رہی ہوں ۔

میں - کیا دیکھ رہی ہو ؟

بھابھی - هوليوڈ تصویر ۔۔۔ وہ بھی خاموش کرکے ۔

میں - ریلی ! ! کون سی ؟

بھابھی - ارے میں مذاق کر رہی ہوں ۔۔۔ نیوز دیکھ رہی ہوں ۔

میں - بھابھی دوگی ۔۔۔ !

بھابھی - کیا ؟

میں - ریموٹ !

پر مانگنا تو کچھ اور چاہ رہا تھا ۔

ان سب کے درمیان میرے دماغ میں بس ایک ہی بات چل رہی تھی کہ بھابھی کو کیسے پٹايا جائے ، پر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اور فٹ کے ہاتھ میں آ رہی تھی ، وہ الگ ۔

تبھی میں نے دیکھا ان کے ہاتھ کچھ پانی سا گیا تھا ۔ میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور پوچھا - یہ کیسے ہوا بھابھی ؟

بھابھی - کچھ نہیں کھانا بناتے وقت جل گیا ۔

میں - آپ اپنا خیال رکھا کرو ۔

میں نے دیکھا ان کے ہاتھ کتنے خوبصورت ہیں ۔۔۔ تبھی میرے ذہن میں ایک خیال آیا ، میں بولا - بھابھی ، آپ کے ہاتھوں کی ریکھا تو کمال کی ہیں ۔

بھابھی - کیوں کیا ہوا ؟

میں - ہوا تو کچھ نہیں پر شاید کچھ ہونے والا ہے ۔

بھابھی - کیا مذاق کر رہے ہو ۔۔۔ اور ویسے بھی تمہیں آتا ہے یہ سب دیکھ کر ؟

میں - جی ہاں پر زیادہ نہیں ۔ وہ ایک کتاب پڑھی تھی ، بہت پہلے ۔

بھابھی - اچھا تو بتاؤ اور کیا - کیا لکھا ہے ؟

میں - آپ کی زندگی میں بہت جلد کچھ اچھا ہونے والا ہے ۔

بھابھی هسكر - کیوں ؟ میرے شوہر مجھے طلاق دینے والے ہیں ؟

بھابھی اور ان کے شوہر کے درمیان اکثر لڑائی - جھگڑے ہوتے تھے ۔

میں - کیا بھابھی آپ بھی ۔۔ !

پھر ہم لوگ آپس میں ایسے ہی باتیں کرنے لگے ۔ اس دوران ہم لوگوں میں کافی مذاق ہوا اور ایک دوسرے کو چھو لیا بھی ۔ ایسا ہم دونوں میں کافی دنوں تک چلتا رہا ، پر وہ نہیں ہو پا رہا تھا جس کا مجھے انتظار تھا ۔

پھر ایک دن میں اپنی ماں سے کسی بات کو لے کر تھوڑا ناراض ہو گیا تو اس دن میں اپنے ہی روم میں بیٹھا لیپ ٹاپ چلا رہا تھا ۔ آج میں بھابھی کے پاس بھی نہیں گیا ، اسی وقت ایک آواز آئی۔

بھابھی - کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟

میں ( مسکرا ) - بھابھی آپ ؟ آو ۔۔۔ نہ !

وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔

بھابھی - کیوں آ نہیں سکتی ؟

میں - کیوں نہیں !

بھابھی - اب تم نہیں آئے ، تو میں نے سوچا کہ میں ہی چلی جاؤں ۔ ویسے کیا کر رہے ہو ؟

میں - کچھ نہیں نیٹ چلا رہا ہوں ۔

تھوڑے ٹايم بعد میرا روم بالکل پرسکون ۔۔۔ کوئی آواز نہیں تبھی ۔۔۔

میں - بھابھی میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔

بھابھی - جی ہاں کہو ۔

میں نے بھابھی کے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھا اور کہا - بھابھی ۔۔۔ میں پسند کرتا ہوں ۔

میری سانس اور دھڑکن دونوں بہت تیز چلنے لگی ۔

بھابھی - ۔۔۔ اممم ۔۔۔ مم ۔۔۔ میں بھی ۔۔

میں نے بغیر ٹايم برباد کی انہیں کس کرنے لگا ۔۔۔ اب میرے دونوں ہاتھ ان کبوتروں پر تھے ۔ میں انہیں دبانے لگا ، وہ بھی مجھے کس کرنے لگی ۔

اس درمیان ہم دونوں ایک - دوسرے کے کپڑے اتارنے لگتے ہیں ۔ اب وہ میرے سامنے سرف برا - پیںٹی میں تھیں ۔

قسم سے مال لگ رہی تھی ۔۔۔ كرےكر جو مجھے چاہیے تھی ۔ پھر میں نے وہ بھی اتار دئے اب وو نںگی تھیں میرے سامنے ۔ میں بس ان کے اور ان کے فگر کو دیکھے جا رہا تھا ۔

میں - کیا مال ہے یار !

بھابھی ( مسکرا ) - یہ آپ کو پہلے بھی کہہ چکے ہو ۔

میں - کیسے پتہ ؟

بھابھی - میں نے سن لیا تھا ۔۔

میں مسکرایا اور انہیں کس کرنے لگا ۔ میرے ہاتھ ان کے جسم پر گھوم رہے تھے ، جس سے ان کے سارے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ بالکل ایسا لگ رہا تھا ، جیسے ان کے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا ہو ۔

وہ چیز میں خود محسوس کر رہا تھا ، وہ شادی شدہ تھیں ، تو ظاہر سی بات ہے کہ مجھ سے دو قدم آگے ہوگئیں ۔

وہ میرے نیچے آکر میرا لنڈ منہ میں لے کر چوسنے لگیں ۔ میرا پہلی بار تھا ، تو سب کچھ مجھے بڑا عجیب لگ رہا تھا ۔

پر میں نے سب کچھ اپنے دوستوں سے سن رکھا تھا ۔ خیر تھوڑی دیر بعد مجھے مزے آنے لگا ، تو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کا سر پکڑ کر ان کا ساتھ دینے لگا ۔

پھر کچھ دیر بعد میں نے نیچے آ کر بھابھی کی ٹانگوں کو فےلايا ۔ اب مجھے ان کی چوت صاف دکھ رہی تھی ۔ بالکل گلاب کی پكھڈي کی طرح ایک دم گلابی لگ رہی تھی ۔ جیسے کہ وہ اب تک كاري ہو ۔

میں نے آو دیکھا نہ تاو ، ان کی چوت پر ایک کس کیا اور ان کی چوت کے مزے لینے لگا ۔ کبھی - کبھی درمیان میں دانتوں سے کاٹ بھی لیتا تو بھابھی چیخ اٹھتي ۔

کچھ دیر میں بھابھی آواجیں نکالنے لگی ، بھابھی بولی - آشو اب تم جلدی کرو ۔

مجھے لگنے لگا کہ اب بالکل صحیح ٹايم ہے تو میں اٹھا اور اپنا لنڈ انکی چوت پر رگڑنے لگا ، پر میں نہیں ڈال رہا تھا ، صرف ان کو تڑپا رہا تھا ۔

بھابھی - اب جلدی کرو ، کیوں تڑپا رہے ہو ؟

مجھے لگا اب بھابھی بالکل لاسٹ اسٹیج پر ہیں ، تو میں نے بغیر ٹايم بیسٹ کئے اپنا لنڈ انکی چوت میں پیل دیا ۔ جس سے بھابھی کے منہ سے آواز نکل گئی ۔

میں - کیا ہوا بھابھی ؟

بھابھی - کچھ نہیں ، آپ کو صرف مزے دو اور لو ۔

اور میں ان کو چودنے لگا ۔

بھابھی - آشو اور تیز چلاو اور تیز ۔

مجھے لگنے لگا کہ اب بھابھی کا بس ہونے والا ہے ، میں انہیں اور تیز چودنے لگا ، پھر بھابھی نے مجھے کس کے پکڑ لیا ، یعنی بھابھی جھڑ چکی !

پھر کچھ دیر بعد مجھے لگا کہ میں بھی جھڑنے والا ہوں ، میں اور تیز چودنے لگا ۔

۔۔۔ تھوڑے وقت کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر بستر پر گر گئے اور مسکرا ایک دوسرے کو چومنے لگے ۔

پھر ہم دونوں باتھ روم میں گئے ، وہاں ہم دونوں نہاتے ہوئے کافی مزے کرتے رہے ۔ پھر آکر کپڑے پہن کر ایک - دوسرے کو گلے لگا کر ، کافی ٹايم تک ایک - دوسرے کے ساتھ لیٹے رہے ۔

پھر جب گھر والوں کو گھر آنے کا وقت ہوا تو بھابھی مسکرا ایک چمبن دے کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔

ہم دونوں نے بعد میں بھی کئی بار سیکس کیا اور بھی مزہ طریقے کے ساتھ ۔۔۔

آپ کو میری آپ - بیتی کیسی لگی ۔ ۔

ختم شدہ

 hot urdu novel ek lafz ishq

urdu book novel

urdu novels to read

hot urdu novel house

urdu novel in which heroine is teacher

hot and bold urdu novels list pdf

urdu longest novel

hot urdu novel menu

زبردست ہتھیار

 

زبردست ہتھیار
میرا نام صدف ہے اور میری عمر تیس سال ہے ، میں ایک شادی شدہ عورت ہوں۔ کالج کے زمانے سے مجھے سیکس کا شوق ہوااسکی بنیادی وجہ سیکسی اسٹوریز اور موویز تھا مگر شادی سے پہلے ایک دفعہ بھی مجھے سیکس کرنے کا موقع نہ مل سکا۔پھر میری شادی ہوگئی اسوقت میری عمر چوبیس سال تھی آج بھی میرا فگر غضب کا ہے ، اور اس وقت تو اچھے اچھے مردوں کی نظریں میرے تعاقب میں ہوتی تھیں۔ اب میں ایک بچے کی ماں ہونے کے باوجود بھی کافی سیکسی ہوں۔میرے شوہر ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں ٹیکسٹائل انجینیر ہیں۔میری سیکس لائف بہت اچھی گذر رہی تھی۔شادی کے بعد میرے شوہر کا تبادلہ فیکٹری سے دور کراچی میں ہوگیا، مجھے بھی انکے ساتھ شفٹ ہونا پڑا مگر میرے شوہر کو ابھی یہاں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگنا تھا وہ ابھی ایک ہفتہ میں ایک بار گھر آتے تھے۔ایک دن میں وہ ایک بار سے زیادہ میرے ساتھ سیکس نہیں کرتے تھے۔جس سے میری سیکس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی۔ سارا دن انکا تو آرام کرتے ہی گذر جاتا تھا اور نئے نئے کھانوں کی فرمائش میں۔ اور میں تڑپتی رہتی تھی کچھ عرصہ تو میں ایمانداری کے ساتھ زندگی گزارتی رہی مگر پھر مجھ کو ضد ہو گئی اور میں نے وہ سب کچھ کر لیا جسکا کوئی شریف عورت سوچ نہیں صکتی تھی۔اس وقت میں ایک بچے کی ماں بن چکی تھی مجھے معلوم تھا سیکس کیا ہوتا ہے ، میرا بچہ آپریشن سے ہوا تھا اسی وجہ سے میری چوت ابھی تک بہت ٹائٹ تھی۔
یہ گرمیوں کے دن تھے میرے شوہر دو دن پہلے ہی اپنی جاب پر گئے تھے، اور اس بار وہ مجھ سے سیکس نہ کرسکے تھے کیونکہ مجھے ماہواری آرہی تھی، انکے جانے کے بعد میں فارغ ہوئی تھی اور اب بری طرح دل مچل رہا تھا سیکس کرنے کو مگر کچھ نہیں سوجھتا تھا کہ کیا کروں،میں گھر میں اکیلی تھی میرا بچہ پیٹ بھر کر میرا دودھ پی کر سو چکا تھا اور میں بھی لیٹی ٹی وی دیکھ رہی تھی میں نے اسوقت قمیض شلوار پہنی ہوئی تھی اسکے نیچے کچھ نہیں کیونکہ میرے گھر کس کو آنا تھا یہاں ہمارا کوئی جاننے والا نہں تھا اور نہ محلے میں کسی سے اتنی سلام دعا ۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی میں اس سوچ میں ڈوبی کہ اس گرمی میں کون آگیا؟ دروازے تک گئی کہ دیکھوں کون ہے میں نے دروازہ کھولے بغیر پوچھا کون ہے؟تو باہر سے آواز سنائی دی: بی بی جی قالین خریدنا ہے؟
ایکدم میرے دماغ کی بتی جل اٹھی میں نے سوچا اس گرمی میں کون ہوگا جو گھر سے باہر ہوگا اسی مرد کے ساتھ اپنے سیکس کی خواہش پوری کرلوں۔میں نے دروازہ کھولا تو ایک پسینے میں شرابور مظبوط جسم والا پٹھان مرد کچھ قالین اٹھائے میرے دروازے کے باہر کھڑا تھا اسکی عمر میرے مطابق چالیس سال تو ہوگی، میں نے پوچھا کیا قیمت ہے قالین کی؟
اس نے کہا بی بی جی آپ پہلے پسند کر لو پھر قیمت بھی طے کر لیتے ہیں۔میں نے کہا اچھا اندر آجاؤ اس نے ایک لمحے کو سوچا پھر قالین اٹھا کر اندر آگیا، میں نے اسکے اندر آنے کے بعد ذرا سا سر باہر کر کے دیکھا تو پوری گلی میں سناٹا تھا۔میں نے دروازہ بند کیا تو دیکھا پٹھان میرے پیچھے کھڑا مجھے غور سے دیکھ رہا تھا میں نے صحن میں رکھی ایک ٹیبل کے سامنے پڑی کرسی کی جانب اشارہ کیا یہاں بیٹھ جاؤ اور سارے قالین زمین پر رکھ دو میں خود پسند کر لونگی کونسا لینا ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا پھر مجھ سے کہا بی بی جی تھوڑا پانی مل سکتا ہے پینے کو میں کچن میں گئی وہاں سے ایک بوتل اور گلاس لا کر ٹیبل پر رکھی مگر اس دوران اسکو متوجہ کرنے کے لیے میں نے دوپٹہ گلے میں ڈال لیا اور بالکل جھک کر بوتل اور گلاس ٹیبل پر رکھا جس سے لازمی اسکی نظر میرے بڑے بڑے دودھ سے بھرے مموں پرپڑی ہوگی۔ میں نے بوتل رکھنے کے بعد سیدھی ہو کر ایک نظر اسکو دیکھا وہ بغور مجھے ہی دیکھ رہا تھا ۔ میں اب دوبارہ جھک جھک کر قالین دیکھنے لگی اسی دوران ایک سائڈ سے میں نے اپنا دوپٹہ نیچے گرا دیا تاکہ وہ اچھی طرح کپڑوں کے اندر چھپے میرے حسن کا نظارہ کر لے ۔ ویسے مفت کا مال کیسا بھی ہو کوئی مرد نہیں چھوڑتا۔ پھر میں تو ایک اچھی خاصی سیکسی عورت تھی۔
میں نے محسوس کیا کہ وہ پانی پینے کے دوران مسلسل میرے جسم کا جائزہ لے رہا تھا۔ میں خوش ہو رہی تھی کہ کام بنتا نظر آرہا ہے۔ میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتی رہی کہ تم کہاں رہتے ہو کہاں سے لائے ہو یہ قالین وغیرہ وغیرہ، پھر میں باتوں باتوں میں اسکے قریب گئی اور اسکے چہرے پر ہمت کر کے ہاتھ پھیرا اور کہا اتنی گرمی میں اتنی محنت کیوں کرتے ہو۔ دیکھو کتنا پسینہ بہہ رہا ہے ، اس نے ایکدم میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا بی بی جی کیا چاہتی ہوتم؟
میں نے بھی ڈھٹائ سے جواب دیا وہ ہی جو ایک عورت ایک مرد سے اور ایک مرد ایک عورت سے چاہتا ہے۔ یہ سنتے ہی اسکی آنکھوں میں چمک آگئی، وہ ایکدم اٹھا اور مجھے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا، میں نے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا ایسے نہیں پہلے تم غسل کر لو مجھے تم سے بو آرہی ہے وہ اپنے سفید سفید دانت نکالتا ہوا کہنے لگا کدھر ہے نہانے کی جگہ میں نے اسکو ہاتھ کے اشارے سے بتایا اور کہا نہانے کے بعد اس کمرے میں آجانا ، وہ کچھ کہے بغیر باتھ روم میں گھس گیا، میں بھی جلدی سے کمرے میں چلی گئی اور جاکر روم اسپرے کردیا اور لائٹ جلا دی، ذرا دیر بعد ہی روم کا دروازہ کھلا اور وہ پٹھان کمرے میں داخل ہوگیاوہ نہانے کا تولیہ لپیٹ کر ہی کمرے میں آگیا تھا اور اسکے کپڑے اسکے دوسرے ہاتھ میں تھے میں اسکی عقلمندی دیکھ کر خوش ہوئی، آتے ہی وہ بیڈ پر اچھل کر بیٹھ گیا، اب میں نے اسکو غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اچھا خاصہ خوبصورت مرد تھا ہلکی ہلکی داڑھی تھی اسکی اورتھوڑی بڑی مونچھیں۔ سرخ سفید رنگت اور مظبوط چوڑا سینہ جس پر با ل ہی بال بھرے تھے۔ میں تو دیکھ کر خوشی سے پاگل ہونے لگی، وہ بیڈ پر سے کھسکتا ہوا میرے نزدیک آیا اور ایک ہاتھ بڑھا کر میری کمر میں ڈالا اور مجھے کھینچ کر اپنے ساتھ چپکا لیا، کہنے لگا بی بی تم بہت خوبصورت ہے تم کو ایسا مزہ دے گا کہ تم یاد کرے گا۔میں بھی تو مزہ ہی چاہتی تھی اپنے مطلب کی بات سن کر اسکے منہ سے بہت خوشی ہوئی ، میں نے بے شرموں کی طرح اسکے لنڈ پر ہاتھ لگایا تو محسوس کیا وہ ڈھیلا پڑا ہے۔ اس نے میری ہمت دیکھ کر تولیہ ہٹا دیا اب جو میں نے دیکھا تو ایک لمحہ کو سہم گئی کیونکہ اسکا لنڈ سخت نہ ہونے کے باوجود اتنا بڑا اور موٹا لگ رہا تھا کہ میرے شوہر کا سخت ہونے کے بعد بھی ایسا نہ تھا میں نے اس سے پوچھا اسکو سخت کرو، تو وہ بولا میری بلبل یہ کام تم کو کرنا ہے باقی کام میں خود کرلونگا۔ میں نے اسکے لنڈ کو ہاتھ لگایا تو اس میں تھوڑی سختی محسوس کی مگر اس طرح نہیں کہ وہ میری تو کیا کسی کی چوت میں بھی جا سکتا۔ میں نے خود کو اسکی گرفت سے آزاد کیا اور نیچے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکے لنڈ کو ہاتھ میں لے کر مسلنا شروع کیا ، ذرا دیر میں وہ سخت ہونے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ تو ایک لمبے اور موٹے ڈنڈے کی شکل اختیار کر گیا ، اب میرے دل میں ڈر جاگ اٹھا کہ یہ لنڈ تو میری نازک سے چوت کو بری طرح سے پھاڑ ڈالے گا، مگر پھر سوچا جو ہوگا دیکھا جائے گا میں یہ لنڈ ضرور اپنی چوت میں لونگی۔ اب اس نے کہا تم بھی اپنے کپڑے اتارو میں نے مزید انتظار نہیں کیا اور فٹا فٹ اپنے کپڑے اتارکر اسکی طرح پوری ننگی ہوگئی، وہ میرے ممے دیکھ کر پاگل سا ہوگیا اور مجھے دبوچ کر بے تحاشہ میرے ممے چوسنے لگا اس کے اس پاگل پن سے مجھے تکلیف ہورہی تھی، مگر میں نے سیکس کی خواہش پورا کرنے کے لیے اسکو برداشت کیا، وہ حقیقتاً جنگلی لگ رہا تھا ، اس کے اسطر ح پاگلوں کی طرح چوسنے سے میں نشے میں مدہوش ہونے لگی تھی اور میری چوت پانی سے گیلی ہورہی تھی، میں اب اسکا لنڈ اپنی چوت سے نگلنے کے لیے بے تاب تھی مگر وہ تھا کہ دودھ پینے سے باز نہیں آرہا تھا۔میں نے بڑی کوشش کے بعد خو د کو اس سے آزاد کیا اور فوراً بیڈ پر لیٹ کر ٹانگیں تھوڑی سی کھول کر اسکو اپنی گیلی اور گرم چوت کا نظارہ کروایا۔اب وہ بھی پاگل ہوکر چھلانگ لگا کر میرے نزدیک آیا اور میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے انہیں مزید کھولا۔اب میری تڑپتی چوت اسکی نظروں کے سامنے تھی اس نے اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیری اور اپنا لمبا ڈنڈے جیسا لنڈ میری چوت کے منہ پر سیٹ کیا اور تھوڑا سا زور لگایا، جس سے اسکے لنڈ کا ہیڈ میری چوت میں ضرور داخل ہوا مگر مجھے ایسا لگا جیسے پہلی بار کسی لنڈ کو چوت میں لیا ہو، اتنی تکلیف کہ برداشت سے باہر تھا میں نے اس کو ظاہر تو نہیں ہونے دیا مگر اتنا ضڑور کہا میں نے اتنا موٹا لنڈ پہلے کبھی نہیں لیا ذرا دھیان سے اور آرام سے کرنا، اس نے کہا فکر نہ کر میری جان تجھے ایسا مزہ دونگا کہ یاد کرے گی۔ اسکی اس بات کا اندازہ تو تھا مجھے کہ یہ مزہ ضرور دے گا مگر کتنا درد دے گا اسکا اندازہ نہیں تھا اس نے کہا تو کہ فکر نہ کر مگر اگلے ہی لمحے مجھے فکر لاحق ہوگئی جب اس نے تھوڑا سا لنڈ باہر کر کے دوبارہ سے اندر کیا تو وہ دوبارہ اسی جگہ آکر اٹک گیا ، اس نے کہا واہ تیری چوت تو کنواری لڑکیوں جیسی لگتی ہے، اب برداشت تو کرنا پڑے گا میں بھی تڑپ رہا ہوں ایک مدت سے کوئی ملا نہیں چودنے کو مگر آج تیری اور اپنی خواہش پوری کرونگا اب روک مت مجھے تو نے خود دعوت دی ہے۔میرے پاس اسکی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا اور میں خود بھی یہ مرد کھونا نہیں چاہتی تھی۔
اب اس نے کہا تیار ہو جاؤ میرا لنڈ کھانے کے لیے اور یہ کہہ کر پورا لنڈ باہر نکال لیا، میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ اچانک مجھے اسکا سخت لنڈ اپنی چوت پر محسوس ہوا اسکے بعد بس ایسا لگا جیسے میری چوت پھٹ گئی ہے اور تکلیف کی انتہا تھی اسکا لنڈ آدھا میری چوت میں داخل ہوچکا تھا وہ بھی چہرے سے پریشان لگ رہا تھا ، پھر اس نے میری جانب دیکھا اور پیاربھرے انداز میں بولامیری بلبل تھوڑا برداشت کر لے پھر مزے ہی مزے کرنا۔ میں سمجھ رہی تھی اس کی بات کو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا مگر یہ تکلیف کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ خیر تھوڑی دیر میں تکلیف کم ہونا شروع ہوئی اتنی دیر وہ میرے جسم کو بری طرح جگہ جگہ سے کاٹتا رہا اور مجھے مست کرتا رہا ، اب میں نے اسکا منہ اپنے مموں سے ہٹایا جہاں وہ کاٹ رہا تھا وہ میرا مطلب سمجھ گیا اور لنڈ کو تھوڑا باہر کر کے پھر سے اندر کیا اور میرے چہرے کے تاثرات کو دیکھنے لگا اسکو میرے چہرے پر سکون نظر آیا تو وہ ایک بار پھر جنگلی کا روپ دھار گیا اور اس بار ایک ہی جھٹکے میں پورا لنڈ میری چوت میں داخل کردیا مجھے شدید تکلیف اپنی چوت اور پیٹ میں محسوس ہوئی اسکا لنڈ میری بچہ دانی کو ٹھوک رہا تھا۔ جس سے مجھے تکلیف ہورہی تھی۔ مگر اب کی بار وہ نہیں رکا اور لنڈ کو اندر باہر کرنے لگا اسکا لنڈ رگڑتا ہوا اندر باہر ہورہا تھا ایسا لگتا تھا جیسے ابھی تک میری چوت اسکے قابل نہیں ہوئی۔ مگر ذرا دیر کی کوشش کے بعد میری چوت پورا پورا ساتھ دینے لگی۔میری فارغ ہوچکی تھی جس سے میری چوت پوری گیلی ہوگئی تھی اور وہ اب شڑاپ شڑاپ میری چوت کو چود رہا تھا، اب میں بے مزے کی بلندیوں کا سفر کرنے لگی مگر وہ تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور مسلسل مجھے چودے جارہا تھا۔میں سانسیں بے ترتیب تھیں اور بری طرح اچھل رہی تھی میں ہر ہر جھٹکے پر۔ وہ تو لگتا تھا جیسے صدیوں سے بھوکا ہے اس بری طرح مجھے چود رہا تھا کہ بس مگر اسکی اس چدائی میں جو مزہ تھا وہ کبھی میرے شوہر نے نہیں دیا تھا۔ پھر اس نے مجھے کمر کے نیچے دونوں ہاتھ ڈال کر اٹھایا اور گود میں بٹھا لیا اب اسکا پورا لنڈ میری چوت میں اور میں اسکی گود میں بیٹھی تھی یوں سمجھ لیں کہ اسکے لنڈ کی سواری کر رہی تھی۔ میرے بڑے بڑے ممے اسکے چوڑے سینے سے دب کر پچکے ہوئے تھے اور میرے مموں سے دودھ نکل کر اسکے سینے پر لگ گیا تھاوہ اچھال اچھال کر مجھے اس بری طرح چود رہا تھا کہ میرا برا حال تھا مگر میں اس سب کو روک نہیں سکتی تھی مجھے تو اب چدنا ہی تھا چاہے وہ کیسے بھی چودے۔ تھوری دیر اسی طرح چودنے کے بعد اور مجھے بے حال کرنے کے بعد اس نےلنڈ باہر نکالا اور مجھے دوبارہ سے بیڈ پر لٹایا مگر کروٹ سے اور بیڈ کے کنارے پر پھر میری ایک ٹانگ اپنے کندھے پر رکھی اور اپنی ایک ٹانگ نیچے زمین پر پھر اسکے بعد اس نے دوبارہ سے اپنا ڈنڈا میری چوت میں ایسے ڈالا جیسے وہ اسی کے لیے بنی ہو اور وہ ہی اسکا مالک ہو۔ بس اب کی بار ایک اور نیا مزہ تھا میں اس دوران پتہ نہیں کتنی بار فارغ ہوچکی تھی مجھ میں مزاحمت کی ہمت بھی نہیں تھی اسکا لنڈ اند ر کیا گیا میں پھر سے نشے کی کیفیت سے دوچار ہونے لگی۔ اب اسکا ایک ہاتھ میں گانڈ پر تھا اور ایک ہاتھ میرے ایک ممے کو دبوچے ہوئے بری طرح مسل رہا تھا ذرا دیر بعد میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی ایک انگلی اپنے منہ میں لی اور اچھی طرح اس پر اپنا تھوک لگایا پھر اس کو میری گانڈ میں داخل کردیا میں ایکدم سے اچھل پڑی کیونکہ آج تک میں نے خود کبھی اپنی گانڈ میں انگلی نہیں کی تھی ایک مرد کی انگلی سے تو کرنٹ لگنا ہی تھا۔اور میرے شوہر نے تو صرف میرے کولہوں کو چوما تھا کبھی میری گانڈ نہیں ماری تھی۔ مجھے اسکے ارادے کا اندازہ ہوا تو خوف سے میری حالت خراب ہونے لگی۔مگر اگلے ہی سیکنڈ اسکا لنڈ کے جھٹکوں سے میں سب بھول کر صرف اسکے لنڈ کو اپنی چوت میں محسوس کر کے مدہوش ہوتی رہی۔ اب اس نے سب چھوڑ کر پورالنڈ اندر ڈال کر میرے اوپر لیٹ گیا اور مجھے کمر کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر کس کے دبوچ لیا اب فارغ ہونے کی باری اسکی تھی۔ پھر اس کے لنڈ نے کھولتا ہوا لاوا اگلنا شروع کیا اور مجھے ایسا لگا جیسے میرے جسم کی حرارت بڑھ رہی ہے اور میں ذرا دیر میں پگھل کر پانی بن جاؤں گی۔اسکا لنڈ تقریبا دومنٹ تک لاوا اگلتا رہا۔ اس نے اپنی منی کا آخری قطرہ تک میری چوت کی نذر کردیا۔ اور پھر اسی طرح لیٹا رہا اور لمبے لمبے سانس لیتا رہا۔میں تقریباً بے ہوش ہونے کے قریب تھی۔میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ پھر وہ میرے اوپر سے ہٹ گیا اور کہنے لگا ایسا مزہ مجھے میری بیوی نے پہلی رات دیا تھا اسکا بھی ایسا ہی حال کیا تھا میں نے۔ اب مجھ میں تھوڑی طاقت پیدا ہوئی تو دیکھا اسکا لنڈ میری چوت کے خون سے تر تھا شاید میری چوت پھٹ چکی تھی۔اس بری طرح میں کبھی نہیں چدی تھی۔
پھر وہ اٹھ کر میرے روم کے باتھ روم میں گیا اور اپنا لنڈ دھو کر واپس آیا اور مجھ سے کہا اٹھو اور میرا لنڈ منہ میں لو اب تمہاری گانڈ کی باری ہے ، میں یہ سنتے ہی چیخنے لگی نہیں ایسا مت کرو دوبارہ میری چوت مار لو مگر مجھے گانڈ سے مت چودو مگر اس نے میرا انکار سن کر ایک زوردار تھپڑ میرے چہرے پر رسید کیااور کہا پٹھان سے چدوانے کا شوق ہے تو سب برداشت کرو اب۔اسکا تھپڑ اتنا زور دار تھا کہ آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئے میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے پھر میں نے دل میں سوچا اگر اس جنگلی کو مزید انکار کیا تو یہ مار مار کر بھرتا نکال دے گا اور کرے گا اپنی مرضی ، خود اس مصیبت کو دعوت دی ہے اب بھگتنا تو پڑے گا۔ یہ سوچ کر میں نے پھر سے اسکا لنڈ منہ میں لیا نہ جانے کس مٹی کا وہ بنا تھا اور کیا وہ کھاتا تھا اسکا لنڈ اس تیزی سے دوبارہ سخت ہوا جیسے ابھی کچھ کیا ہی نہیں تھا اس نے۔مگر میں اسکے سائز سے خوفزدہ تھی یہ میری گانڈ میں جاکر تو برا حال کرے گا میرا۔ پھر اس نے کہا فکر مت کر میری بلبل بہت خیال سے تیری گانڈ ماروں گا۔ میں سمجھ چکی تھی کتنا خیال کر سکتا ہے وہ جنگلی۔مگر اب میں کچھ کر نہیں سکتی تھی آخر کار اس نے مجھے چدائی کا وہ مزہ دیا تھا جس کے لیے ساری زندگی ترسی تھی میں۔اب اسکو گانڈ دینے میں کوئی حرج تو نہیں تھا مگر فکر تکلیف کی ہی تھی۔اس نے مجھے ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا میری ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھی وہ مجھے سہاارا دے کر چلاتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل تک لایا اور کہا آگے جھکو اور دونوں ہاتھ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھومیں نے ایسا ہی کیا اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے ایک کریم اٹھائی اور ہاتھ پر لگا کر اچھی طرح میری گانڈ پر مل دی اسکے اس طرح ملنے سے مجھے مزہ آرہا تھا۔اب وہ ہی کریم اس نے اپنے لنڈ پر بھی ملی اور پھر مجھے کہا تھوڑا اپنی گانڈ کو اونچا کرو میں نے ایسا ہی کیا اب اسکا لنڈ میری گانڈ پر دستک دے رہا تھا اس نے تھوڑا سا زور لگایا اور میری تکلیف کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا اسکا لنڈ ابھی تھوڑا سا ہی اندر گیا تھا کہ میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو نکل کر ٹیبل کو گیلا کرنے لگےمگر وہ جیسے ان سب باتوں سے لاپرواہ تھا نہ اسے میرے رونے کی آواز اور نہ میرے آنسو رکنے پر مجبور کر رہے تھے۔اس نے مزید وقت ضائع کیا نہ میری جانب دیکھا بس شروع ہو گیا میری گانڈ کا سوراخ چوڑا کرنے میں۔ اس کے زور دار دھکوں سے میرا سر بار بار ڈریسنگ ٹیبل سے ٹکرا رہا تھا۔ اب اسکا پورا لنڈ میری گانڈ میں راج کر رہا تھا اور میں تکلیف کی شدت کو روکتے روکتے اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی۔ پھر اس نے دیکھا کہ اس طرح مزہ نہیں آرہا تو مجھے حکم دیا کہ میں فرش پر گھٹنے رکھ کر اپنا پورا جسم بیڈ پر ڈال دوں اور اس طرح وہ میرے پیچھے دوبارہ سے آیا اور ایک بار پھر سے اپنا لنڈ میری گانڈ میں ڈالا اور دوبارہ سے جھٹکے دینا شروع ہوگیا، اب کی بار تقریباً بیس منٹ تک مسلسل جھٹکے دینے کے بعد وہ میری گانڈ میں فارغ ہوا میرا حال یہ تھا کہ میں خود سے کھڑی بھی نہیں ہوسکتی تھی ۔ اس نے ہی مجھے بیڈ پر لٹایا اور مجھے زور دار پپیاں دینے کے بعد اپنے کپڑے پہن کر اپنے قالین اٹھا کر چلا گیا ۔ میں نے ہمت کر کے درازہ لاک کیا اور واپس کسی طرح لڑکتی ہوئی آکر بیڈ پر ڈھیر ہوگئی۔ پتہ نہیں کتنی دیر اسی طرح پڑی رہنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ میرا بیٹا نہ اٹھ گیا ہو میں نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور جا کر دیکھا تو میرا بیٹا سو رہا تھا۔ میں باتھ روم گئی اور خود کو اچھی طرح صاف کیا اور پھر روم میں آکر ایک ٹیبلیٹ کھائی جو کہ برتھ کنٹرول ٹیبلیٹ تھی۔ میرے شوہر ابھی اور بچہ نہیں چاہتے تھے لہٰذا ہم لوگ اس طرح اس پروگرام پر عمل کر رہے تھے۔
اگلے دن پھر اسی وقت وہ پٹھان پھر سے آیا اور ایک بار پھر مجھے سیکس کا بھرپور مزہ دے کر گیا مگر اس بار میں نے اس سے شرط رکھی کہ تم میری گانڈ میں اپنا لنڈ نہیں ڈالو گے۔ وہ بھی مان گیا اور صرف میری چوت کو ہی اپنی گرم منی سے بھر کر چلا گیا۔ بس پھر کیا تھا مجھے تو مزے لگ گئے اب شوہر نہ بھی ہو تو مجھے بہت مزے سے چودنے والا مل گیا تھا ، مگر ایک دن اس نے کیا کیا کہ وہ اپنے ساتھ دو اور پٹھانوں کو بھی لے آیا اور ان تینوں نے مل کر مجھے بہت بری طرح چودا اس دن میرا حال ایسا تھا کہ جیسے میں مر جاؤں گی میرے بدن میں بالکل جان نہیں تھی۔ اگلے دن پھر وہ پٹھان آیا مگر میں نے اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا بلکہ اسکو چلتا کیا ۔ پھردن تک وہ مسلسل آتا رہا مگر میں نے اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا پھر کچھ مہینے بعد میرے شوہر کا تبادلہ پھر کسی اور جگہ ہوگیا۔ پھر نہیں معلوم وہ اتنے زبردست لنڈ والا پٹھان کدھر گیا۔