بزنس وومن



بزنس وومن

شائستہ بیگم کا شمار ملک کے منجھے ہوۓ چند بزنس وومن میں ہوتا تھا انہوں نے یہ مقام سالہا سال کی محنت اور بزنس میں یکسوئی کے بعد بنایا تھا اور کوئی شک نہیں ہے کے انہوں نے شدید انتھک محنت کی تھی اس مقام کے لیے اور آج وہ بہت سی عورتوں اور مردوں کے لیے ایک کاروباری ماڈل کی حیثیت رکھتی تھی۔ کافی عرصہ ایک بات گردش کرتی رہی کے شائستہ بیگم کچھ مختلف تھی باقی عورتوں سے مطلب کے وہ کچھ عورتوں میں ضرورت سے زیادہ انٹرسٹ رکھتی تھی اور مشہور تھا کے وہ لیسبین ہے لیکن خیر آج تک یہ بات بات ہی رہی نہ کبھی شائستہ بیگم نے کبھی کسی کے ساتھ کھلنے کی کوشش کی نہ کسی اور کی ہمت ہوئی کے ایسی بات وہ پوچھ سکیں۔ پتا نہیں کیوں لیکن شائستہ بیگم کے شخصیت میں کچھ تھا کے انکا لہجہ کافی حکمکانہ تھا اور اگلا بندہ زیادہ دیر انکے سامنے ٹک نہ پاتا تھا اور جلد ہی انکی شخصیت سے مرعوب ہو جاتا تھا۔

شائستہ کی ایک دوست تھی لاریب، جو کے اسکے بہت ہی قریب تھی اور ہر دکھ سکھ تنہائی ویرانی کی ساتھ تھی اور اکثر زیادہ تر شائستہ کے ساتھ ہی پائے جاتی تھی ایک دن اس نے اپنی ایک دوست کی بہن کو جاب دلوانے کے لیے شائستہ سے سفارش کی تھی لیکن شائستہ نہ مانی اور بولی کے یار تم پے جان بھی حاضر ہے لیکن جانی تمہیں پتا ہے نہ کے آجکل بزنس میں مقابلہ سخت چل رہا ہے اور اصغر صاحب کی کمپنی کے مقابلے میں  ایک پروجیکٹ جیتنے کرنے کے لیے کچھ بہت اہم کام ہیں اور  وہ میں سفارش کے نظر نہیں کر سکتی تم تو سمجھتی ہو نا؟؟ یہ سن کے لاریب تھوڑا آگے جھکی اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بڑی مدھم آواز میں بہکے بہکے انداز میں بولی مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے تمہیں اور یہ کہتے ہوۓ اپنی مخروطی انگلیوں کو شائستہ کے لبوں پے پھیرتنے لگی اور پھر  اپنے نرم نرم گلابی ہونٹ شائستہ کے نیم وا ھونٹوں پے رکھ دے اور دھیرے دھیرے سے اسکا ہونٹ اپنے ھونٹوں کے بیچ دبا لیے اور اسپے زبان پھیرتے ہوۓ چوسنا سٹارٹ کر دیا اور ایک ہاتھ شائستہ کے مموں پے رکھ کے ہلکے سے ممے مٹھی میں دبائے اور نپل کو ہاتھوں میں لے تھوڑا سا سہلایا اور شائستہ اس حرکت پے پانی پانی ہو رہی تھی اور اسنے بھی آگے بڑھ کے لاریب کے ھونٹوں کو نرمی سے چوس لیا اور اسکی پھدی پے ہلکا سا تھپڑ مار کے اپنی انگلی اسکی پھدی کی گہرائی میں ڈالنا چاہی اور اسکے ھونٹوں کو کبھی اپنے اوپر والے ھونٹوں میں تو کبھی اپنے نیچے والے ھونٹوں میں چوستی ابھی شاید یہ مزہ کچھ دیر اور رہتا لیکن مین گیٹ پے کچھ شور ہوا تو انہوں نے لب کشائی چھوڑی اور سیدھے ہو کے بیٹھ گئی اور شائستہ بولی تو بہت کمینی ہے تجھے پتا کام کیسے نکلواتے ہیں لاریب بھی ہنس کے بولی ہاں نہ تم سے ہی سیکھا ہے ۔ شائستہ بولی کے بھیج دینا اسے لیکن بتا دینا کے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ویسے نام کیا بتایا ہے تم نے؟ ارے بابا میں تو بتانا ہی بھول گئی حورین نام ہے اسکا اور بہت ہی خوش شکل اور نہایت سلجھی ہوئی بچی ہے۔ شائستہ بولی ہاں ٹھیک ہے  بھیج دینا ہم بھی تو دیکھیں اس سلجھی ہوئی بچی کو

سوموار والے دن حورین نے جوئننگ دی اور سیکرٹری نے اسے کچھ انتظار کو کہا اور کچھ دیر بعد اسے شائستہ کے کمرے میں بھیج دیا ۔ وہ اندر گئی تو ایک دفا تو شائستہ حورین کو دیکھ کے ڈگمگا گئی اور بڑی مشکل سے خود کے اندر بڑھتے ہوۓ بہکے جذبات کو کنٹرول کیا کیا مست بچی تھی حورین، کیا گول گول ممے اور سینا تان کے چلتی اسکا ادائیں پل بھر میں شائستہ پے حاوی ہو گئی ۔ شائستہ نے اسے کام دیا کے پروجیکٹ کی پریزنٹیشن بنانی ہے اور ہاں یہ والا کام بہت امپورٹنٹ ہے کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ حالاں کے حورین بہت قابل تھی لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں ہر بار کوئی نہ کوئی غلطی ہو جاتی تھی اس سے اور ہر بار شائستہ قہر آلود نگاہوں سے اسے برداشت کر جاتی لیکن ایک دن تو حد ہی ہو گئی اور شائستہ کا دیا گیا انتہائی اہم کام بھول گئی۔ شائستہ انتہائی غصّے میں تھی اور اسنے بڑے غصّے سے اسے اپنے کمرے میں بلایا۔ سیکرٹری نے حوریں کو بتایا کے بیگم صاحبہ بہت غصّے میں ہیں ۔

حوریں اندر کمرے میں چلی گئی  اور ڈر کے مارے حورین کا حلق خشک ہوا تھا اور بات نہ ہو پا رہی تھی حورین انتہائی غصّے میں پوچھ رہی تھی ککم کے حوالے سے  اور حورین سر نیچے جھکا  کے زمین تاڑے جا رہی تھی جسکی وجہ سے شائستہ کا خون کھول اٹھا ۔

اسکی مسلسل چپ نے شائستہ کو غصہ دلایا اور وہ اپنی سیٹ سے اٹھی اور چلتے چلتے حورین کے پیچھے آئی اور اس کو حکمیہ لہجے میں بولی بس بہت ہو گیا اب برداشت سے باہر ہے اور اب تمہیں سزا ملے گی اور اسکو جھکنے کو کہا کوہنیوں کو میز پے ٹکا کے ۔ وہ پریشان تو ہوئی تھوڑا سا یہ سن کے لیکن اسکے لہجے کی تاب نہ لا سکی اور جھک گئی اس طرح کے اسکی موٹی موٹی گول گانڈ باہر کو نکل آئی۔  یہ دیکھ کے شائستہ کے تو وارے نیارے ہو گئے اور اسنے اسکی گانڈ پے تھپڑ مارنے سٹارٹ کر دے اس انداز سے کے شور زیادہ ہو لیکن درد کم۔ ہر تھپڑ کے بعد حورین کی ہلکی سی چیخ نکلتی اور وہ تھوڑا آگے کو جھکتی ۔ لیکن شائستہ اتنی نرم نرم روی مانند گانڈ کو چھوڑنا گوارا نہ کر سکتی تھی

کچھ دیر بعد ہی حورین کی ہلکی ہلکی سی سسکیاں نکلنا سٹارٹ ہو گئی اور اسکی گانڈ تھپڑ کی واضح سے لال اور گرم ہو گئی جسکی ذکر اسنے کیا کے مس بس کریں بہت درد ہو رہا ہے ۔ شائستہ بولی کے  اچھا درد ہوتا ہے؟ ذرا ہم بھی تو دیکھیں اور یہ کہ کے اسنے ایک جھٹکے سے اسکی سکرٹ اوپر کر دی اور اسکی چکنی نرم گانڈ بنا بالوں والی شائستہ کے سامنے آ گئی۔ شائستہ کچھ پل تو حیران ہوئی ایسا غضب کا مال دیکھ کے

لیکن یک دم شائستہ کو  احساس ہوا کے معاملا کہاں جا رہا ہے تو وہ پیچھے ہٹ گئی اور بولی چلو جو گھر اپنے اور اپنی جاب ختم سمجھو چلو شاباش۔ اور پیچھے ہو گئی لیکن حورین زمین پے بیٹھ گئی اور منتیں کرنے لگ گئی کے پلیز جاب ختم نہ کریں میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں لیکن جاب ختم نہ کریں۔ ایک غلطی کی اتنی بری سزا نہ دیں مجھے ۔ دراصل اسکے ذہن میں تھا کے اگر جاب ختم ہو گئی تو اتنی زیادہ تنخوا ختم ہو جائے گی اور اپنے میاں کے ساتھ گزر رہی  شاہانہ زندگی ختم ہو جائے گی

یہ ترلے سن کے شائستہ کے گھاک شیطانی دماغ میں ایک سیکسی سا آئیڈیا ایا کے کیوں نہ اس نازک جسم والی پری پے ہاتھ سیدھے کیے جائیں؟ آخر بہت عرصہ ہوا ایک جوان جسم کا ساتھ حاصل کے تو بولی کے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو؟ حورین بولی ہاں سب کچھ۔ شائستہ بولی کے سوچ لو اور شیطانی سی سمائل دی جسکا جواب دیا کو جی مس میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں ۔ یہ سن کے شائستہ نے حورین کو سیدھا اوپر  کھڑا کیا اور اپنی نگاہیں مموں پے فوکس کرتے ہوۓ زبان اپنے ھونٹوں پے پھیری اور پیچھے کھڑی ہو کے حورین کی شرٹ کے بٹن کھولنا سٹارٹ کر دے۔ ایک لحظے کو تو حورین حیران ہوئی کے یہ کیا ہو رہا ہے لیکن اسے امتحان سمجھ کے چپ رہی کے شاید یہ جان بوجھ کے بھگانے کے لیے کر رہی ہو ۔

پھر دھیرے دھیرے اسکے بٹن کھول کے اسکے برازییر کے اوپر سے اسکے موٹے موٹاتے مموں کو سہلایا اور پھر اسکا ایک مما باہر کو نکالا کیا غضب قیامت ڈھاتے ممے تھے حورین کے ۔ مموں پے خون کی ہری ہری رگیں صاف نظر آ رہی تھی ۔ شائستہ اپنی نگاہیں جھکنا اور جھپکنا بھول گئی اس نظارے سے۔ وہ سب کچھ بھول کے اس سیکسی بمب کے اثر میں تھی۔ بلکلل گنگ حیران پریشان ادھر حورین کو عجیب لگ رہا تھا یہ سب کیوں کے کسی بھی عورت کے سامنے ننگی ہونے کا یہ اسکا پہلا تجربہ تھا اور پھر عورت بھی وہ جو اسکی بوس تھی اور پتا نہیں کیوں کر رہی تھی ۔

پھر شائستہ نے دوبارہ حورین کو میز پے جھکایا اور دھرے دھیرے گانڈ پے ہاتھ پھیرتے ہوۓ اسکی گانڈ کو اپنی مٹھی میں قید کے اور پھر دھیرے دھرے سے اسکی سکرٹ کو دوبارہ اوپر کیا اور اسکی گانڈ کو انڈرویر کے اوپر سے ہی سہلانے لگ گئی۔ حورین کو یہ عجیب لگ رہا تھا لیکن مزہ بھی آ رہا تھا تھوڑا تھوڑا سا لیکن پھر اچانک شائستہ نے اسکی انڈرویر بھی کھینچ کے نیچے کر دی اور اسکی بنا بالوں بنا داغ کے بہکاتی للچاتی پھدی بشمول گانڈ کے صاف نظر آنے لگ گئی حورین کی سانس رک گئی یہ دیکھ کے کیوں کے ابھی تک احساس نہ ہو پا رہا تھا کے یہ سب کی حد کیا ہو گی اور ہو کیا رہا ہے؟ لیکن پھر آہستہ آہستہ گانڈ کو سہلاتے اور اپنی انگلی تھوک لگا کے شائستہ نے اسکی پھدی کو سہلانا سٹارٹ کر دیا پھدی تھوڑی کھلی تھی جسکا مطلب تھا کے حورین کے مرد کا لوڑا بہت ٹھلّا تھا اور وہ جم کے چدائی کرتا ہو گا حورین کی۔ اب حورین تھوڑا تھوڑا شرمندہ ہو رہی تھی یہ سب کے ھوتے ہوۓ

حورین کی گوری چٹی بنڈ اور تروتازہ پھدی کو ٹچ کر کے اور اسکی بھینی بھینی خوشبو کو محسوس کر کے پھدی کا نشہ شائستہ کے سر پے چڑھ کے بولنے لگ گیا  اور وہ جذبات کے دھارے پے بہکنا شروع ہو گئی اور اپنی کرسی پے بیٹھ کے اسکی دعوت دیتی گانڈ کو گھورنے لگ گئی اور سوچنے لگ گئی کے اگلا قدم کونسا اور کیسے اٹھانا ہے؟

پھر وہ کسی فیصلے کی نہج پے پہنچی اور  وہ اٹھی اور اپنی میز کے دراز کے اندر سے کچھ تلاش کرنے لگ گئی اور حورین مسلسل اشتیاق میں تھی کے آگے کیا ہونے جا رہا ہے اور پھر اسکا اشتیاق پریشانی میں بدل گیا کیوں کے شائستہ کچھ ڈھونڈ کے اسکے سامنے کر چکی تھی اور وہ کچھ اور نہیں بلکے موٹا لمبا اور جھریوں والا پنک رنگ کا پلاسٹک کا لوڑا تھا جی ہان ایک عدد لوڑا۔ یہ دیکھ کے حورین کی گانڈ ٹائٹ ہو گئی اور ٹٹی اوپر کو چڑھ گئی اور پھدی لمک کے پھدا بن گئی اب اسے سمجھ لگنے لگ گئی کے استاد جی ہن تے  پھدی پاٹی کے پاٹی

شائستہ بولی ایسا کیوں دیکھ رہی ہے جیسے لوڑا نہیں بلکے مچھندر دیکھ لیا ہو؟؟ آخر تم اس سے آشنا تو ہو نا کیوں کے اپنے شوھر کا لوڑا تو تم نے خوب چوسا اور کھایا ہو گا ہے نا؟؟ تم کچھ بولو نہ بولو لیکن تمہاری پھدی صاف بتا رہی ہے اور ہاں میں پھدیوں کی زبان اچھی طرح جانتی ہوں  اور اس وقت تمہاری پھدی کو دیکھ کے بتا سکتی ہوں کے وہ یہ والا لوڑا مانگ رہی ہے کیوں ایسا ہی ہے نا؟؟ حورین کے خدشے ٹھیک ثابت ہو رہے تھے مطلب شائستہ اسے چودنے والی تھی؟؟ حورین بدک کے پیچھے ہٹی اور بولی نہیں مس میں ایسا نہیں کروں گی یہ سن کے شائستہ بھوکی شیرنی کی طرح آگے بڑھی اور بولی کے آرام سے موں میں ڈالو اور ٹھیک طرح چوسو سمجھی بلکل اسی طرح تم اپنے ٹھوکو مطلب شوھر کا چوستی ہو ۔ پھر شائستہ نے نقلی لوڑا ایک سٹرپ کی مدد سے اپنی پھدی پے چڑھایا کے بلکل مردانہ لوڑا لگنے لگ گیا اور حورین کو کھینچ کے زمین پے بٹھایا اور لوڑا اسکے موں کے سامنے کر دیا اور دھیرے دھیرے سے اسکے ھونٹوں کے اوپر رگڑنے لگ گئی اور پیچھے سے اسکے بالوں کی چھوٹی ہاتھوں میں کھینچ کے پکڑ کے زور سے کھینچا تو اسکا موں کھل گیا اور شائستہ نے لوڑا اسکے موں میں دے دیا ۔ کچھ دیر تو مزاحمت کی لیکن پھر اسنے اپنے آپ کو حالات کے دھارے پے چھوڑ دیا

پھر شائستہ نے بولا کے اسکو اس طرح چوسو کے تمہاری پھدی میں آسانی سے چلا جائے ورنہ پھدی کی دیواریں چیرنا مجھے بہت آتا ہے اور یقین مانو مجھے بہت مزہ آئے گا تمہاری نازک پھدی کو لوڑے سے ٹھوک کے پھدا بنانے میں لیکن میرا مشورہ یہی ہے کے اسے اچھی طرح چوس لو تا کے تکلیف نہ ہو ورنہ میرے لن کو بھی ٹھنڈ نہیں ہے۔ یہ سن کے بنا سوچے سمجھے حورین نے لوڑا موں میں لے کے تھوک جمع کر کے چوسنا سٹارٹ کر دیا اور کبھی ٹوپی کو چوستی اور کبھی حلق تک لوڑا اندر لے لیتی اور کافی گیلا  کر دیا  ۔ شائستہ کے چہرے پے اطمینان تھا جیسے یہ اسکا اصل لوڑا ہو اور وہ آنکھیں بند کے چسائی کے مزے لے رہی تھی اور اپنے ھونٹوں کو اپنے دانتوں کے بیچ چبا رہی تھی ۔

پھر شائستہ نے لوڑا حورین کے موں سے باہر نکالا اور اسکو اٹھا کے دوبارہ میز کے ساتھ ٹکایا اور ایک جھٹکے کے ساتھ اسکو دھکا دے کے کوڈا کر لیا ۔ حورین نقلی لوڑے اور اپنی بوس سے چدائی کے موڈ میں نہ تھی اور بولی کے پلیز نہ کریں اس پھدی پے میرے شوھر کا حق ہے صرف پلیز اسکا مان ہی رہنے دیں۔ شائستہ طنزیہ ہنس کے بولی کے حورین بی بی اگر آج میں تمہاری تنخوا بند کر دوں تو کچھ ہی دن میں تمہاری بنڈ بند ہو جائے گی اور پھر جب پیسے نہ ہونے سے یہ پھدی گلی محلے کے لوگوں بچوں اور بوڑھوں کے لوڑے پے چڑھاوے کے طور پے چڑھاؤ گی تو تب تمہاری اس گانڈو شوھر کا حق کدھر جائے گا؟؟ بھوسڑی کی نہ ہو تو بڑی آئی حق جتانے۔ حورین کے موں میں جیسے لن وڑ گیا ہو اور وہ لوڑے جیسا موں بنا کے چپ کر گئی پھر شائستہ نے اپنی ایک انگلی حلق تک لے گئی اور اپنی چکنی تھوک نکال کے حورین کی پھدی پے لگائی اور پہلے انگلی سے مساج کیا اور پھر لوڑے کی ٹوپی کو پھدی کے سوراخ پے فٹ کیا اور تھوڑا سا اندر پریس کیا تو لوڑا موٹا ہونے کی وجہ سے اندر جا نہیں پا رہا تھا  پھر شائستہ نے جھٹکے مارنے شروع کر دئیے اور حورین ہر جھٹکے کے بعد تھوڑا آگے کو ہو جاتی جسکی وجہ سے لوڑا باہر کو آ جاتا پھر شائستہ نے ایک دردناک جھٹکا مارا اور لوڑا پھدی کی دیواروں کو رگڑتا ہوا دیواریں چیرتا ہوا اندر چلا گیا اور اسنے وہاں کھڑے کھڑے ہی چودنا سٹارٹ کر دیا

پھر کچھ دیر بعد وہ تھوڑا تھک گئی تو بالوں سے کتیا کی طرح گھسیٹتے ہوۓ اسکو صوفہ پے لے گئی اور کتیا بنا کے پیچھے سے لوڑا دوبارہ پھدی کے ساتھ ٹکایا اور ایک ہی جھٹکے سے ہی لوڑا آدھ اندر کر دیا حورین نے اپنا سر درد اور مزے کے ملے جلے جذبات کی وجہ سے نیچے جھکا لیا لیکن شائستہ کو یہ بات نہ پسند آئے اور اسنے اسکی بالوں کی چھوٹی کو پکڑ کے گھوڑی کی طرح اسکے بالوں کی مدد سے اسکا سر دوبارہ کھیچ کے اوپر اٹھایا تا کے سر اوپر کو رہے اور چدائی کی وجہ سے اسکے ممے ہلتے رھیں لٹک کے جو کے شائستہ کو بہت پسند تھے

پھر شائستہ نے اسے کپڑے اترنے کو کہا اور فل ننگی کر کے اسکو صوفہ پے لٹایا اور ٹانگیں کھول کے اسکی ٹانگوں کے بیچ آ گئی اور لوڑا اسکی پھدی کے اندر کر دیا اور اب وہ زیادہ اندر گہرائی تک جھٹکے مار رہی تھی جسکی وجہ سے حورین کو بہت تکلیف ہو رہی تھی اور کرب اسکی آنکھوں اور چہرے پے صاف واضح تھا اور ہر جھٹکے کے بعد اسکی ہلکی ہلکی دبی دبی سی چیخ نکل جاتی اور وہ اپنے ھونٹوں کو دانتوں میں دبائے درد کو برداشت کر رہی تھی لگتا ہے کے حورین کے شوھر کا لوڑا لمبا تو ہو گا لیکن موٹا نہیں کیوں کے لوڑا پھنس پھنس کے جا رہا تھا اور شائستہ مزے کی آخری حد پے تھی ایک جوان بچی کو چود کے اور اسکے چہرے پے پھیلے درد کے احساس اور جسم کے ساتھ لگے لوڑا اسے عجیب سی خوشی دے رہا تھا اور وہ ٹھکا ٹھک چود رہی تھی اور حورین کو ہی پتا تھا کے اتنا ٹھلّا لن وہ کیسے لے رہی ہے

شائستہ کو یہ بات پسند نہ آئی کے اسکی چدائی کی وجہ سے حورین واویلا کرے تو اسنے جھک کے ایک ہاتھ سے اسکی گردن دبا لی اور  تیز تیز جھٹکے مرنے لگ گئی اور بولی کے اب چیخ مار کے دکھاؤ  اور وحشی انداز میں چوت پھاڑ رہی تھی حورین کی آواز نہ نکل پا رہی تھی لیکن درد کا احساس وہ اپنی آنکھوں سے آنسو نکال کے دے رہی تھی اسکی آنکھیں سانس کی کمی کی وجہ سو ابل کے باہر کو آرہی تھی لیکن شائستہ کو پرواہ نہیں تھی

آنسو دیکھ کے شائستہ کا دل پسیج گیا اور اسنے چدائی کی سپیڈ کم کر دی اور اپنے ھونٹوں کو اسکی آنکھوں کے قریب کر اسکے سارے آنسو قطرہ قطرہ کر کے پی لیے اور دھیرے سے اسکے بالوں کو سہلانے لگ گئی اور اسکے حسن کے جلووں میں کھو گئی حورین واقعی ہی حور تھی اور دکھی موں میں وہ اور بھی سندر لگ رہی تھی اور اسکا پھولا پھولا چہرہ اور سوجی آنکھیں شائستہ کی جان نکل کے لے گئی اور اسنے پیچھے ہٹ کے لوڑا باہر کو نکالا اور سٹریپ کو کھول کے لوڑا آزاد کیا اور سائیڈ پے اتار کے پھینک دیا اور اسکی موتی موتی کھلی پھدی کو دیکھنے لگ گئی جسکو اسنے چود چود کے لال کر دی تھی۔ پھر وہ نرم لہجے میں بولی کے تمھارے شوھر نے کبھی تمہاری پھدی چوسی ہے؟ حورین بولی نہیں کبھی بھی نہیں چوسی اور کون چوستا ہے؟ جواب سن کے شائستہ ہنس پڑی اور بولی چلو آج تمہیں ایک نیا مزہ دیتی ہوں اور یہ کہ کے اسنے اپنا چہرہ نیچے کیا اور پھدی کے قریب لا کر اسکی پھدی کو سونگھا، کیا بھینی بھینی خوشبو  آ رہی تھی کون کمبخت ایسی پھدی نہیں چوسے گا؟ اور شائستہ نے اپنی گرم گرم سانسیں اسکی پھدی پے مارنا سٹارٹ کر دی حورین کے لیے یہ بلکل نیا تجربہ تھا اور وہ سر اٹھا کے دیکھ رہی تھی کے شائستہ کیا کرنے جا رہی ہے پھر شائستہ نے اپنی زبان آھستہ سے اسکی لکیر پے پھیری تو حورین جھٹکا کھا کے پیچھے کو ہو گئی اور آنکھیں باہر کو آ گئی کیوں کے اتنا شدید مزہ تھا پھر شائستہ نے دوبارہ اپنی زبان پہلے تو اسکی پھدی کے ارد گرد پھیری اور پھر اسنے اپنی زبان آہستہ آہستہ کر کے اکی لکیر کے اوپر اور پھر لکیر کے اندر تک پھیرنا شروع کر دی اور ادھر مزے میں پاگل تھی اور سر جھٹک رہی تھی وہ اپنا آپ ہلکا سا محسوس کر رہی تھی

پھر  شائستہ نے حورین کے پھدی کے لب تھوڑے سے کھولے اور زبان کو گول کر کے سخت کیا اور اسکو پھدی کے اندر لوڑا بنا کے چودنا سٹارٹ کر دیا وہ زبان کو اکابھی اندر کرتی اور کبھی باہر کرتی اور ہر بار جب بھی زبان اندر کرتی تو اس پے حورین کی پھدی کا جوس لگا ہوتا جو کے تھوڑا نمکین سا تھا اور اس بات کا ثبوت تھا کے حورین اس چدائی کو بھرپور طریقے سے انجویے کر رہی ہے پھر شائستہ نے اسکے دانے کو دانتوں میں جکڑ کے اپنی کھردری زبان سے جو چھیڑا تو حورین کی تو جان ہی نکل گئی وہ سپنے میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی کے ایسا بھی مزہ آ سکتا ہے اور وہ بھی اتنا شدید؟؟؟ اسکی پھدی بھل بھل پانی چھوڑ رہی تھی

پھر شائستہ نے پھدی کو چھوڑا اور گانڈ پے سوراخ پے نظر رکھی اور ننھا منا سا پنک رنگ کا سوراخ اسکی جان نکل رہا تھا اور پھر اسنے اپنی زبان جو کے اب کھردری ہو چکی تھی کو گانڈ کی درز پے جو پھیرا تو حورین مزے کی شدت کی تاب نہ لا سکی اور اسنے اپنی گانڈ کا سوراخ بھینچ لیا جو کے شائستہ کو بہت اچھا لگا اور اسنے اپنی زبان کو اسکی گانڈ مین ڈالا اور حورین کو کہا کے اب گانڈ ٹائٹ کرو اور جب حورین نے گانڈ ٹائٹ کی تو اسکی زبان اندر پھنس گئی جسکو شائستہ نے دھیرے دھیرے سے باہر نکالا اور پھر دوبارہ اندر کر کے یہی عمل دہرایا جسکی وجہ سے حورین کتی کی طرح مزے میں گم تھی  بلکل اسی طرح جس طرح کتیا کتے کے ساتھ گینڈ پھنسا کے خوش ہوتی ہے اور سانسوں کا طوفان اسکے سینے میں برپا تھا اور دل اتنا تیز دھڑک رہا تھا کے جیسے سینے کی دیواریں پھاڑ کے باہر کو آ جائے گا ابھی کے ابھی۔ اگر اسنے کبھی سپنا بھی دیکھا ہو گا تو اس میں بھی نہیں سوچا ہو گا کے اتنا مزہ ایک عورت عورت کو دے سکتی ہے۔ اسے یک دم شستہ پے بہت پیار ایا اور اسنے سوچا کے اسکو بھی مزہ دینا ہو گا نہ۔

پھر اسنے اپنا آپ اوپر کو اٹھایا اور شائستہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ اسکے تشنہ لب اپنے لبوں سے ملا لیے جیسے صدیوں کے پیاسے ہوں اور ایک ہی لمحے میں پیاس بھجانا چاہتے ہوں وہ دونوں۔ کیا کچھ نہیں تھا وہاں؟ تشنگی، دیوانگی، وحشت، جذباتیت، پیار، اقرار ایک کمی ایک نیا احساس اور نیا رشتہ اور نیا سفر۔ پھر حورین نے حوصلہ اکھٹا کیا اور شائستہ کو دھیرے سے صوفہ پے جھکایا اور پیچھے سے آہستہ شستہ پہلے اسکی پھدی کو چوما اور  پھر اپنا پیار کا رخ شائستہ کی گانڈ کی طرف موڑ دیا اور دھرے دھرے سے اسکی گانڈ کو زبان سے ٹٹولنا سٹارٹ کر دیا اور اسی طرح سے اپنی  زبان اسکی گانڈ کو پیش کڑ رہی تھی۔ شائستہ مزے میں گم آنکھیں بند کے اں لمحوں کو محسوس کر رہی تھی اور دعا مانگ رہی تھی کے کاش یہ لمحے یہیں تھام جائیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اور اپنی گانڈ میں ایک دوشیزہ کی گرم زبان محسوس کر رہی تھی ۔

پھر حورین نے شائستہ کو سیدھا کیا اور اسکی پھدی کو سونگھا جس میں پیاس اسے سونگھ کے ہی محسوس ہو رہی تھی اور اسنے اسی پیاس کے تریاق کو اپنی زبان کی مدد سے اسکی پھدی پے رکھ دیا اور پہلے پوری پھدی کو چوما اور پھر اپنی انگلیوں کی مدد سے اسکے لیب وہ کے اور اندر والے حصے کو زبان سے محسوس کیا اور ہر حصے پے اپنے پیار کے ثبوت نقش کیے اور پھر پھدی کے اندر اپنی زبان دے دی اور اسے گھومنا سٹارٹ کر دیا۔ شائستہ کا انگ انگ اس جذبے کی شدت سے دھک رہا تھا اور ہر حصہ ایک انجان سی مستی میں تھی اور سارا خوں اسے پھدی کی طرف جاتا محسوس ہو رہا تھا اور وہ مزے میں پاگل ہو رہی تھی اور حورین کے سر کو اپنے پھدی پے دبا رہی تھی  اور دل کر رہا تھا کے کسی طریقے سے اسکا سر یہیں جم جائے اور یہ لبوں سے لبوں کا ناتہ اور رابطہ نہ ٹوٹے اور لب لبوں سے ملے ہی رھیں ۔

پھر حورین نے ہمت پکڑی اور شرم حیا کو بالائے طاق رکھتے ہوۓ اس مزے کو آخری حد تک انجویے کرنے کو سوچا اور دھرے دھرے سے شائستہ کا دان اپنے لبوں مین لے کے اسے چوسنا شروع کر دیا اور کبھی اسے چوس کے اپنے موں کے اندر کھینچتی تو کبھی دانتوں سے رگڑتی اور ساتھ ساتھ پھدی پے حملہ بھی جاری رکھی رکھا۔ شستہ قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی اور اسکی زبان کے نیچے مچل رہی تھی اور بن پانی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی اور حورین کے لیے یہ ایک نیا مزہ تھا کے اسکی تھوک اور شائستہ کی پھدی کے جوس آپس میں مل کے ایک عجیب سا ذائقہ دے رہے تھے جو کے انتہائی شہوت انگیز تھا

پھر  شائستہ نے حورین کو نیچے لٹایا اور خود اسکے چہرے پے اس طرح بیٹھ گئی کے اسکی پھدی حورین کے لبوں کے اوپر آ گئی اور حورین نے بنا کسی تاخیر کے اپنے اپرلے لب شائستہ کے نچلے لبوں سے ملا دے اور ادھر شائستہ نے حورین کی ٹانگیں ھوا میں اٹھا دیں اور ایک ہاتھ سے اسکی پھدی پے تھپڑ مارنے لگ گئی ہلکے ہلکے سے اور ساتھ ہی تھپڑ ساتھ ہی تھپڑ مرتے مرتے اپنی ایک انگلی اسکی پھدی میں بھی دے دیتی اور پھر تیز تیز تھپڑوں کی رفتار اسکے دانے کے اوپر مرنے لگ گئی جسکا اثر یہ ہوا کے حورین کی پھدی درد اور مزے کے ملی جلے جذبات کی وجہ سے پانی چھوڑنے لگ گئی اور ادھر حورین بھی شائستہ کی پھدی کا جوس نکل رہی تھی اور شائستہ کی پھدی گاڑھا دھودیا مادہ سیدھا حورین کے حلق میں اتار رہی تھی اور حورین اسکو پیٹی جا رہی تھی اور وہ کسی قیمت پے اسکو ضایع نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ پھر ایک دم ہی شیستی کی سانسیں تیز ہوئی اور جسم اکڑنا شروع ہو گیا اور آہ آہ وی وی سو سو سو ام ام ام کی آوازوں کے ساتھ اسنے حورین کے چہرے پے فیصلہ سٹرٹ کر دیا اور چند ہی سیکنڈز میں اسکا آرگزم ہو گیا اور ڈھیر سارا مادہ حورین کے چہرے سے ہوتا ہوا کانوں کو اوپر سے اسکی گردن اور بالوں میں سرایت کر گیا اور بالوں کی طرح اسکی روح میں بھی سرایت کر گیا

۔ اسے سب ایک خواب سا لگ رہا تھا کے کہاں ایک وہ شریف سی گھریلو بچی اور کہاں وہ یہ کیا کیا کر گئی اور پل بھر میں ہی وہ کیا سے کیا بن گئی۔ اسے اب بچھڑنا اور واپسی کا سفر مشکل لگ رہا تھا اسے لگتا تھا کے وہ اب کبھی بھی اپنی ذات کے اس حصّے کو بھلا نہ پائے گی اور نہ ہی دفن کر پائے گی ۔ اسنے پھر اپنی نظروں کو شائستہ کی نظروں سے ملتے ہوۓ پوچھا کے کیا یہ سفر جاری رہ پائے گا؟ شائستہ دھیمے سے لہجے میں بولی کے یہ سوال تم مجھ سے پوچھنے کی بجائے خود سے پوچھو۔ پھر خود ہی حورین نے شائستہ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور انکی پشت کو لبوں سے ملا کے چوم لیا اور جواب ہاں میں تھا ۔ پھر اسکی لائف کا ایک نیا باب شروع ہوا اور وہ تھا صبح 9 سے شام 5 بجے تک وہ شائستہ کی بیوی ہوتی اور شام 5 سے رات تک وہ اپنے شوھر کی بیوی ہوتی۔ لیکن جو مزہ جو اپنائیت اسے شائستہ کی قربت سے ملتی ویسا سکون اسے اپنے شوھر سے نہ مل سکا پھر کبھی۔ یا شاید اسنے ویسا سکون اپنے شوھر میں تلاش کرنا خود ہی ختم کر دیا ہو،  خیر !! کون جانے؟؟؟؟ ہم انسان بھی نہ خود کی دنیا خود اپنے ہی ہاتھوں، باتوں اور سوچوں سے بناتے رہتے ہیں اور خود ہی ختم کرتے رہتے ہیں

لیکن پھر آہستہ آہستہ دنوں دنوں میں حورین شائستہ کی سیکرٹری بن گئی اور اسی کے کمرے میں شفٹ ہو گئی بقول لوگوں کے تا کے شائستہ کو پیغام دینے میں آسانی ہو لیکن اندر کی بات کون جانے؟؟؟ اور سنا کے پورے آفس میں حورین کی محنت اور لگن کی مثالیں دی جاتی ہیں کے اتنے کم وقت میں اسنے اتنی ترقی کر لی ہاہاہاہا اس بات پے اکثر حورین اور شائستہ خوب ہنستی کے لوگ بھی نہ، کچھ بھی بولتے ہیں ۔ ہائے یہ معصوم لوگ انکے الگ الگ ہیں روگ ۔ لیکن یہ  دنیا ہے بھائی یہاں  سب ہوتا ہے اور سب چلتا ہے اور چلتا رہے گا

 ختم شُد

romantic urdu bold novels

new urdu bold novels

urdu bold novels list

urdu bold novels pdf

most romantic and bold urdu novels list

husband wife bold urdu novels

hot and bold urdu novels pdf

urdu bold novels and stories

urdu bold novels and short stories

most romantic and bold urdu novels

ابھی میری عمر ہی کتنی تھی؟




ابھی میری عمر ہی کتنی تھی؟

 

میں والدین کی اکلوتی اولاد ہوں میں جب پیدا ہوئی تو گھر والے بہت خوش ہوئے کیونکہ میں شادی کے آٹھ سال بعد پیدا ہوئی تھی میں گھر والوں کی آنکھ کا تارا ہوں بچپن سے ہی میں بہت خوبصورت ہوں گول مٹول چہرہ اوپر سے نیلی آنکھیں گورا رنگ اور گال ایسے سرخ جیسے قندھاری انار ہوں دیکھنے والی پہلی نظر میں مجھے ایک خوبصورت پٹھانی سمجھتے ہیں جب بھی کوئی مہمان ہمارے گھر آتا تو وہ مجھے ضرور گود میں اٹھاتا کیونکہ میں بالکل گڑیا کی طرح لگتی تھی جب میں چار سال کی ہوئی تو گھر والوں نے مجھے شہر کے سب سے بہترین سکول میں داخل کروایا ، میں کلاس کی سب سے حسین لڑکی تھی ایک تو میں حسین تھی اور اوپر سے ذہین بھی ، اسلئے کلاس کی سب ٹیچرز مجھے بہت پسند کرتی تھیں جب میں تیسری جماعت میں آئی تو میرے محلے کی ایک لڑکی میری کلاس میں داخل ہوئی اس کا نام ثنا تھا چند ہی دنوں میں ہم سہیلیاں بن گئیں اور کھیلنے کے لئے ایک دوسرے کے گھر آنے جانے لگیں ۔۔

میں جب بھی ان کے گھر جاتی تو میں اور ثنا چھت پر کھیلا کرتی تھیں ان کی چھت پر ایک پرانی چارپائی تھی جسے ہم نے دیوار کے ساتھ کھڑا کر لیا تھا اور اس پر ہم نے ایک بڑی سی چادر ڈال کر اسے چاروں طرف سے بند کر کے ایک چھوٹا سا گھر بنایا ہوا تھا اس گھر میں ہم اپنی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں میری سہیلی کا بھائی بھی کبھی کبھی ہمارے ساتھ کھیلا کرتا تھا وہ ثنا سے تین چار سال بڑا تھا ، میں ایک دن اپنی ایک کتاب وہاں کلاس میں بھول آئی تھی میں گیٹ پر کھڑی پاپا کا انتظار کر رہی تھی وہ مجھے لینے ابھی تک نہیں پہنچے تھے سکول کے زیادہ تر بچے جا چکے تھے اچانک مجھے اپنی کتاب یاد آئی میں فوراََ اپنی کلاس میں گئی اور اپنی کتاب اٹھا کر کلاس سے باہر نکلی تو میری نظر سامنے دسویں کلاس کی کھڑکی کی طرف پڑی تو وہاں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ایک دوسرے سے کسنگ کر رہے تھے مجھے بہت عجیب لگا لیکن میں وہاں رکی نہیں اور سیدھی گیٹ پر آ گئی میرے پاپا اتنی دیر میں آ چکے تھے میں ان کے ساتھ گھر چلی آئی لیکن یہ واقعہ جیسے میرے ذہن پر ثبت ہو کر رہ گیا تھا میں جب بھی کسی فلم میں کسنگ سین دیکھتی تو میری فیلنگزعجیب سی ہو جاتیں لیکن

 میں ان کو سمجھنے سے قاصر تھی کیونکہ بچپن کے دن تھے میں سیکس کی الف ب بھی نہیں جانتی تھی ایسے ہی تین چار سال گزر گئے لیکن ہماری ایک دوسرے کے گھر جا کر کھیلنے والی عادت نہیں بدلی ۔ ایک دن ہم نے اپنی گڑیا کی شادی کی ، ہم جب بھی نئی گڑیا خریدتیں تو ان کی آپس میں شادی ضرور کرتیں تھیں شادی والے دن ہم کیک ، پیسٹری وغیرہ ثنا کے بھائی سے ہی منگواتی تھیں اسطرح وہ بھی شادی میں شریک ہو جاتا تھا اس کی عمر تقریبا پندرہ سال ہو چکی تھی اور میں بھی اس وقت بارہ سال کی ہو چکی تھی ایک دن ہم نے گڑیا کی شادی کی تو ثنا کے بھائی نے کہا کہ گڑیوں کی شادی تو بہت دفعہ ہو چکی ھے اب اگلی دفعہ ہم ایک دوسرے سے شادی کریں گے اور آپس میں کھیلیں گے بچپن کے دن تھے اتنی زیادہ سمجھ بوجھ بھی نہیں تھی اور نہ ہی شادی کی اصل حقیقت سے واقف تھیں اسلئے ہم مان گئیں ثنا کے بھائی نے کہا کہ سنڈے کو ہم شادی شادی کھیلیں گے ۔ سنڈے والے دن میں ثنا کے گھر گئی تو ثنا اور اس کا بھائی سنی مجھے لے کر چھت پر چلے گئے چھت پر ہم اپنے مخصوص کمرے میں چلے گئے جو ہم نے چارپائی سے بنایا ہوا تھا سنی نے مجھ سے کہا کہ آج میں اور تم شادی کریں گے آج تم ثنا کی بھابی بنو گی اور ثنا آج کے بعد تمہاری خدمت کیا کرے گی ۔ بچپن کی باتیں آج یاد آتی ہیں تو خود پر ہنسی آتی ھے کہ بچپن بھی بس بچپن ہوتا ھے لیکن بچپن کے اس واقعے نے میری زندگی بدل کر رکھ دی تھی اور میں پہلی دفعہ سیکس کے مزے سے آشنا ہوئی تھی جو کہ بہت تکلیف دہ اور برا تجربہ تھا –

ہاں تو بات ہو رہی تھی بچپن کے اس واقعے کی تو کہانی کی طرف آتی ہوں ۔ سنی نے مجھ سے پوچھا کہ تم مجھ سے شادی کرو گی تو میں نے ثنا کی طرف دیکھا تو سنی نے کہا کہ بہن بھائی کے درمیان شادی نہیں ہوتی اسلئے تمہیں ہی مجھ سے شادی کرنی پڑے گی ، میں نے کہا ٹھیک ھے کہ آپ مجھ سے ہی شادی کر لو ۔ جب ہم گڑیا اور گڈے کی شادی کرتے تھے تو گڈے کی طرف سے گڑیا کے گلے میں ایک ہار پہنا دیا کرتی تھیں اور کیک اور پیسٹری کھا کر گڑیا اور گڈے کی رخصتی کر دیتی تھیں ۔ اگر میرا گڈا ہوتا تو میں اس کی گڑیا ساتھ لے آتی اور اگر میری گڑیا ہوتی میں وہاں چھوڑ آتی ۔ سنی کے پاس بھی ایک ہار تھا اس نے میرے گلے میں پہنا دیا اور کہا کہ اب تم میری دلہن ہو ، میں نے کہا کہ آپ میرے دلہا ہو ۔ پھر ہم نے مل کر مٹھائی کھائی جو سنی ہماری شادی کے لئے سپیشل لے کر آیا تھا۔۔

 سنی نے اپنی بہن ثنا سے کہا کہ جب دلہن نئی نئی گھر آتی ھے تو وہ کام نہیں کرتی اسلئے اب گھر کے کام تم نے کرنے ہیں بعد میں گھر کے کام آپ کی یہ بھابی ہی کیا کرے گی اس نے میری طرف ہاتھ کرتے ہوئے کہا ۔ ثنا اب تم ہمارے لئے چائے بنا کر لاؤ سنی نے کہا اور ثنا چائے بناتے چلی گئی ثنا جیسے ہی نیچے گئی تو سنی نے کہا دولہا اور دلہن ساتھ سوتے ہیں اس لئے آپ میرے ساتھ ہی لیٹا کرو گی اب ، میں نے بھی ماما پاپا کے ساتھ کچھ فلموں میں دیکھا تھا کہ دولہا اور دلہن علیحدہ کمرے میں اکٹھے ہی رہتے ہیں لیکن مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ وہ علیحدہ کیوں سوتے ہیں ۔۔؟

 سنی نے کہا کہ لیٹ جاؤ میں نیچے چٹائی پر لیٹ گئی اور سنی بھی میرے ساتھ ہی لیٹ گیا اس نے میری طرف منہ کر کے اپنی ٹانگیں میری ٹانگوں پر اور ہاتھ میرے سینے پر رکھ دیا اس وقت میرے سینے پر بہت معمولی ابھار تھے اور ابھی بالکل ہی چھوٹی چھوٹی نپلز تھیں یعنی کہ میرے ممے ( چھاتیاں ) نکلنے کی ابتدا تھی میں ان چند خوش نصیب لڑکیوں میں سے ایک ہوں جن کے نپلز کا رنگ گلابی ھے ان دنوں مجھے تو کسی بات کا بھی پتا نہیں تھا جبکہ سنی نیا نیا جوان ہو رہا تھا اس نے لڑکوں سے سیکس سے متعلقہ باتیں سنی تھیں کہ مرد اور عورت کا تعلق کس قسم کا ہوتا ھے اور وہ کیا کیا کرتے ہیں لیکن یہ سب سنی سنائی باتیں تھیں اسے بھی مکمل معلومات نہیں تھی جس کا آپ کو آگے جا کر اندازہ ہو جائے گا سنی نے میرے سینے پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا سنی نے میرے نئے نکلتے ہوئے مموں کو آہستہ آہستہ سہلانا شروع کر دیا میری اس وقت عجیب سی فیلنگز ہو رہی تھیں مجھے انجانا سا احساس ہو رہا تھا جس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی اور میرے جسم میں بےچینی سی ہونے لگی تھی اب سنی نے اپنا ہاتھ میرے سینے سے نیچے میرے پیٹ پر پھیرنا شروع کر دیا میں انجانی سی لذت محسوس کرنے لگی تھی اس کا ہاتھ میرے پیٹ سے گردش کرتا ہوا نیچے میری پیشاب والی جگہ کی طرف جانے لگا لیکن اس سے پہلے ہی اس کا ہاتھ میری رانوں کی طرف چلا گیا اور سنی میری نرم و نازک تھائیوں کو سہلانے لگا ان پر بڑی آہستگی اور نرمی سے ہاتھ پھیرنے لگا میرے کنوارے جسم میں عجیب لذت بھرا خمار چھا رہا تھا جس کی مجھے اس وقت بالکل بھی سمجھ نہیں تھی لیکن میٹھا میٹھا احساس میری رگوں میں ضرور اتر رہا تھا، اس کی انگلیوں کی ہر جنبش میرے جسم میں کرنٹ پیدا کر رہی تھی اور یہ فیلنگز مجھے مزا دے رہی تھیں اسلئے میں سنی کو روک نہیں پا رہی تھی مجھے اتنا تو پتا تھا کہ یہ ٹھیک نہیں ھے لیکن اتنا زیادہ غلط کام ہو گا اس کا مجھے بالکل بھی پتا نہیں تھا۔۔۔

 اب سنی نے میرے چہرے کو بھی چومنا شروع کر دیا تھا اس کے ہونٹوں کے لمس نے مجھے مزے کی انوکھی دنیا سے روشناس کروایا جس طرح آج کل لوگ ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر کس کرتے ہیں ان دنوں ایسی عادتیں لوگوں میں بہت کم تھیں آج کل تو سیکس کی ابتدا ہی ہونٹوں سے کسنگ سے ہوتی ھے ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ سنی نے مجھ سے کسنگ شروع کر دی تھی جس کا مجھے بہت مزا آ رہا تھا ، میری سانسوں کی رفتار میں تیزی آ رہی تھی اور سنی کا ایک ہاتھ اس دوران میری پھدی پر چلا گیا تھا اور وہ اس پر انگلیاں پھیرنے لگا اس کے ہاتھ کا میری پھدی پر لگنا ہی تھا کہ میرے جسم کو ایک لذت بھرا جھٹکا لگا اور میں مزے کی انتہا گہرائیوں میں ڈوب گئی اور میرے منہ سے خود بخود آہ . . . اوہ . . . اف . . . آہ . . . جیسی سسکاریاں نکلنے لگیں اس سے پہلے کہ سنی میرے ساتھ کچھ اور کرتا سنی کی بہن چائے بنا کر لے آئی اس کی سینڈلوں کی آواز سیڑھیوں سے ہی سنی نے سن لی تھی اسلئے فورا وہ سیدھا ہو گیا تھا اور مجھے کہا کہ ثنا کو کچھ نہیں بتانا ثنا تین کپ چائے بنا کر لائی تھی اس نے ایک کپ سنی کو دیا اور ایک کپ میری طرف بڑھایا ، اس کی نظر میرے چہرے پر پڑی تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بات ھے تمہارا چہرہ اتنا سرخ کیوں ہو رہا ھے ؟ اس وقت میرے دل کی دھڑکنیں بہت تیز تھیں اور میرا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا لیکن ثنا نے محسوس نہیں کیا تھا، میں خاموش رہی ، میں نے کوئی جواب نہیں دیا مجھے خاموش پا کر سنی نے اپنی بہن سے کہا کہ اس کو اچانک بخار ہو گیا ھے اور بخار کی وجہ سے اس کا چہرہ بھی سرخ ہو گیا ھے ۔ آج سوچتی ہوں تو ہنسی آتی ھے کہ یہ کوئی معقول بہانہ نہیں تھا اگر ثنا کی جگہ اس کی ماما یا میری ماما ہوتی تو شاید معاملہ بھانپ جاتی لیکن ثنا بھی میری طرح بارہ سال کی تھی اسے بھی ان دنوں ایسی باتوں کا پتا نہیں تھا اسلئے اس نے پریشانی سے کہا کہ جلدی سے ڈاکٹر کے پاس جاؤ ۔ سنی نے کہا کہ اب اسے چائے تو پی لینے دو۔ آج ہی میری شادی ہوئی ھے اور تم میری دلہن کو بھگا رہی ہو ۔ ثنا نے کہا دولہا جی پہلے دلہن کی دوائی تو لاؤ ۔

 میں نے کہا کہ میں پاپا کے ساتھ چلی جاؤں گی مجھے گھر جانا ھے ثنا نے کہا کہ پہلے چائے تو پی لو ، میں چائے پینے کے بعد اپنے گھر آ گئی ۔ اس دن پہلی دفعہ میرے ساتھ ایسا کچھ ہوا تھا اور مجھے بہت اچھا لگا تھا میں نے گھر میں بھی کسی کو نہیں بتایا اور نہ ہی اپنی کسی سہیلی کو ، ثنا کو بھی نہیں ، دل کے کسی کونے میں یہ ضرور تھا کہ یہ غلط کام ہے اسلئے کسی کو نہیں بتانا چاہئے اور نہ ہی کسی کو بتایا تھا ، اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی مجھے ابھی مرد اور عورت کے درمیان تعلقات سے آگاہی حاصل نہیں ہو سکی تھی پہلے میں صرف ثنا سے کھیلنے کے لئے جاتی تھی لیکن اس دن کے بعد میرے دل میں یہ خواہش بھی ہوتی تھی کہ سنی میرے کنوارے جسم پر اپنا ہاتھ پھیرے اور مجھے چومے ، میری یادداشت میں چار سال پہلے کا وہ واقعہ بھی گردش کرنے لگا تھا جب میں نے دسویں کلاس کے لڑکے اور لڑکی کو کس کرتے دیکھا تھا میں معمول کے مطابق ثنا کے گھر کھیلنے جاتی سنی کبھی گھر ہوتا تھا تو کبھی دوستوں کے ساتھ کھیلنے گیا ہوتا تھا ، ثنا کے ہوتے ہوئے دوبارہ ایسا کوئی موقع نہیں آیا کہ سنی کھل کر ویسی حرکت کرتا لیکن موقع محل دیکھ کر وہ کبھی مجھے انگلی کر دیتا تھا تو کبھی میرے سینے پر چٹکی بھر لیتا، ایسے ہی ایک مہینہ گزر گیا ، ایک مہینے میں ہی میری چھاتیاں جو نہ ہونے کے برابر تھیں اب واضح ہونا شروع ہو گئی تھیں جبکہ ثنا کی ویسی کی ویسی تھیں ۔ میں اس وقت ساتویں جماعت میں تھی اور سنی نے دسویں کے بعد ابھی کالج میں داخلہ لیا ہی تھا اور اس کے دوستوں میں ایک لڑکا بری صحبت کا شکار تھا جس نے سنی کو مرد اور عورت کے تعلقات کے بارے میں بہت سی باتیں بتائی تھیں جس وجہ سے وہ میرے ساتھ یہ سب کر رہا تھا (یہ سب کچھ سنی نے مجھے بعد میں بتایا تھا) ۔

ایسے ہی ایک دن میں ثنا کے گھر گئی تو گھر میں سنی کے سوا کوئی نہیں تھا ۔ سنی نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ ثنا ماما کے ساتھ بازار گئی ھے اور انہیں آنے میں کافی وقت لگے گا ، چاہئیے تو یہ تھا کہ میں واپس چلی جاتی لیکن ذہن کے کسی کونے میں اس دن کا مزا تھا جس نے مجھے جانے نہ دیا ، سنی مجھے کہنے لگا کہ آؤ اتنی دیر ہم دلہا دلہن کھیلتے ہیں وہ مجھے لے کر کمرے میں چلا گیا ۔ کمرے میں لے جا کر سنی نے مجھے بیڈ پر بیٹھنے کا کہا اور خود میرے ساتھ بیٹھ گیا ، اس نے مجھ سے پوچھا کہ "اس دن والی بات کسی کو بتائی تو نہیں" ؟ میں نے نفی میں سر ہلایا تو سنی نے کہا ۔ "اس دن اچھا لگا تھا" ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو سنی نے کہا "آج پھر کرتے ہیں"، میں خاموش رہی تو سنی نے مجھے وہاں ہی بیڈ پر لٹا لیا اور خود بھی ساتھ لیٹ کر مجھے سینے سے چمٹا لیا یعنی کہ مجھ سے جپھی ڈال لی، میرے سینے کے چھوٹے چھوٹے ابھار اس کے سینے سے لگے ہوئے تھے تھوڑی دیر تو وہ ایسے ہی رہا پھر اس نے میری کمر پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا ، اس کے ہاتھوں کے لمس نے میرے اندر عجیب سی بےچینی بھر دی تھی ، اس دوران اس کا لن تناؤ کی حالت میں آگیا تھا اور مجھے اپنی ٹانگوں پر اس کی سختی محسوس ہو رہی تھی اور اس سے مجھے گدگدی کا احساس ہو رھا تھا ۔ پھر اس نے میرے چہرے کو چومنا شروع کر دیا اس کے ہونٹوں کے لمس نے میرے جسم میں آگ لگا دی تھی اور میرے کنوارے جسم میں بےچینی کی لہریں ڈورنے لگیں تھیں میں اس وقت بارہ سال کی تھی اور میری ماہواری کا بھی ابھی آغاز نہیں ہوا تھا اور مجھے سیکس کی بھی کوئی شدبد نہ تھی لیکن اس کے باوجود مجھے بہت مزا آ رھا تھا۔ سنی نے اب کی بار میری قمیض کے اندر ہاتھ ڈال کر میری آدھ نکلی چھوٹی چھوٹی چھاتیوں کو ایک ہاتھ سے سہلانا شروع کر دیا جس سے مجھے اور بھی مزا آنے لگا تھا اور میری سانسیں خود بخود بہت تیز ہو گئی تھیں ۔۔

اسے اس کے دوستوں نے بتایا تھا کہ عورت کی چدائی کرنے سے پہلے اسے گرم کرتے ہیں اور گرم کرنے کا جو طریقہ اسے بتایا گیا تھا کہ اس کو چومتے ہیں اس کی چھاتیاں سہلاتے ہیں اس کے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہیں وہ ان پر عمل کر رھا تھا اور وہ میرے ساتھ ایسا ہی کر رھا تھا مجھے چدائی کا تو پتا نہیں تھا میں نے کیا گرم ھونا تھا کیونکہ میں تو پہلے سے ہی ایک طرح کی گرم تھی اور مجھے بہت مزا آ رہا تھا ویسے بھی جن لڑکیوں کو سیکس کے بارے میں معلومات ہوتیں ہیں لیکن ابھی سیکس نہیں کیا ہوتا وہ تو ہاتھ لگانے سے ہی گرم ہو جاتی ہیں میں ابھی بارہ سال کی ایک چھوٹی بچی تھی اور مجھے اتنا مزا آ رھا تھا تو ایک جوان کنواری لڑکی کا کیا حال ہوتا ہو گا وہ تو مزے سے مرنے والی ہو جاتی ہو گی تھوڑی دیر اس نے میری چھاتی مسلنا جاری رکھی پھر اس نے میری قمیض اتارنے کی کوشش کی تو میں نے اتارنے نہ دی وہ تو مجھے ننگی کرنا چا ہارھا تھا اور یہ تو بہت غلط کام تھا جس پر میں نے اسے روکا تھا لیکن اس دن وہ کہاں رکنے والا تھا اس نے پہلے اپنی شرٹ اتار دی اور پھر بہت اصرار کے بعد میری قمیض بھی اتر گئی ۔۔

میں نے سنی کی ضد کے آگے ہار مان لی تھی سنی نے میرے چھوٹے چھوٹے مموں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے اس کے ہونٹوں کے میرے مموں پر لمس نے مجھے ایک نئی دنیا سے متعارف کروا دیا تھا اور وہ دنیا مزے کی دنیا تھی جس سے میں صرف بارہ سال کی عمر میں ہی آشنا ہو گئی تھی اور جب اس نے میری پنک چھاتی کو اپنے ہونٹوں میں لیا تو بے اختیار میرے منہ سے سسکاری نکل گئی آہ . . . اف . . . . آں . . . آہ . . . آہ : : : : آہ . . . . جیسی آوازیں میرے منہ سے نکلنے لگیں جیسے جیسے وہ میری چھاتیوں کو منہ میں لے کر چوس رھا تھا میں بہت مزے میں تھی سنی میری آدھ کھلی جوانی سے کھیل رھا تھا  لیکن مجھے اس کا احساس نہیں تھا کہ عورت کی عصمت اس کی عزت ہوتی ھے اور میں نادانستگی میں اپنی عزت لٹوا رہی تھی ۔ آج کے دور میں جب لڑکے اور لڑکی کو جنسی تعلقات کے بارے میں آگاہی ابتدائی عمر میں ہی حاصل ہو جاتی ھے تو ایسے میں والدین کا فرض ھے کہ بچے کو اچھے برے کا احساس چھوٹی عمر میں ہی دلانا شروع کر دیں، دس بارہ سال کی عمر میں بچوں کو ایسے معاملات سے متعلق اچھے برے کاموں کا پتا ہوناچاہیےاور یہ آگاہی والدین کی طرف سے ہی ہونی چاہیے کیونکہ ہمارے ہاں جنسی تعلیم سے آگاہی سے متعلق کوئی ذریعہ نہیں ھے ایسے میں بچوں کے بھٹکنے کا اندیشہ رہتا ھے ۔

 میں سنی کے گھر کے ایک کمرے میں اس کے ساتھ جنسی فعل میں مصروف تھی اور وہ میرے کنوارے جسم سے لطف اندوز ہو رھا تھا ۔ سنی شرٹ کے بغیر تھااور میں قمیض کے بغیر ہم دونوں کا بالائی جسم ننگا تھا سنی میرے اوپر تھا اور میرے جسم پر کسنگ کر رھا تھا اور مجھے بھی بہت مزا آ رھا تھا ۔ پھر سنی نے پہلے اپنی پینٹ اتاری اس نے انڈر وئیر نہیں پہنا ہوا تھا اس کا لن شاید اسوقت چار انچ سے تھوڑا بڑا تھا مکمل تناؤ کی حالت میں بالکل سیدھا کھڑا تھا اس نے میری شلوار کو ہاتھ ڈالا اور ایک ہی جھٹکے سے اس نے میری شلوار اتار دی میں اس وقت مزے میں تھی اور میں نے ننگا ہونے پر بہت زیادہ شرم محسوس نہیں کی کیونکہ میں اس وقت ایک نئی دنیا کی دریافت میں سنی کا ساتھ دے رہی تھی ۔ سنی نے مجھے بھی ننگا کر دیا تھا آپ تصور کریں کہ ایک بارہ سالہ لڑکی جس کے چھوٹے چھوٹے ممے ہوں اور جس کی پھدی بالوں سے پاک ہو اور پھدی کے لپس آپس میں مضبوطی سے جڑے ہوں مطلب کے بہت ٹائٹ پھدی ہو اور ایسی لڑکی آپ کے سامنے ننگی لیٹی ہو اور آپ کی دسترس میں ہو تو آپ کو کتنا مزا آئے گا ؟

 سنی بھی اسوقت اتنے ہی مزے میں تھا وہ میرے اوپر لیٹا ہوا تھا اور میری گلابی چھوٹی سی نپلز منہ میں لے کر سک کر رھا تھا اور میرے جسم میں لذت کی انوکھی لہریں گردش کر رہی تھیں ۔ عام طور پر پہلی دفعہ سیکس کرنے والے اتنا لمبا فورپلےنہیں کرتے لیکن سنی نے فورپلےمیں کافی وقت لگا دیا تھا اور پھر اس نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ لن پھدی میں کرنے کے لئے کوشش کا آغاز کیا ، اس نے اپنا چارجر مطلب کہ اپنا لن میرے پھدی کے تنگ سوراخ پر رکھا اور ایک جھٹکا مارا لیکن لن میری پھدی میں داخل نہ ہوا اور میرے پٹوں میں سلپ کر گیا ۔۔

سنی کو اندازہ نہیں ہوا تھا کہ لن پھدی میں گیا ھے یا باہر ، اسلئے اس نے اوپر نیچے ہونا شروع کر دیا اپنی طرف سے وہ اندر باہر کر رھا تھا لیکن اس کا لن میری پھدی کے اوپر اوپر ہی حرکت کر رھا تھا اس نے تھوڑی دیر اوپر نیچے حرکت کی تو اسے احساس ہوا کہ لن اندر نہیں گیا تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا پھدی کے اندر جا رھا ھے تو میں نے نفی میں سر ہلایا تو سنی نے دوبارہ سے لن میری پھدی کے سوراخ پر رکھا اور پھر ایک جھٹکا مارا لیکن اس کا لن اس دفعہ پھر میری پھدی کے اوپر سے سلپ کر گیا اور اندر نہیں گیا اس دفعہ اوپر کی طرف سلپ ہوا تھا اسلئے سنی کو پتا چل گیا کہ اندر نہیں گیا جس طرح وہ اندر کرنے کی کوشش کر رھا تھا اس سٹائل میں اندر جانا کافی مشکل ہوتا ھے اور تجربہ کار مرد ہی ایسے اندر کر سکتا ھے ، میں بالکل سیدھی لیٹی ہوئی تھی اور میری ٹانگیں بھی بالکل سیدھی تھیں اس کا بالائی جسم میرے اوپر تھا اور ٹانگیں میرے ٹانگوں کے دائیں بائیں تھیں اور وہ میرے اوپر لیٹ کر اندر کرنے کی کوشش کر رھا تھا چدائی کے معاملہ میں سنی بالکل اناڑی تھا ۔ دو دفعہ اس نے اندر کرنے کی کوشش کی تھی اور ناکام رھا تھا ، اسے ان دنوں ٹانگیں اٹھا کر یا سائڈوں میں کر کے جس سے پھدی کا سوراخ بالکل واضح ہو جاتا ھے اور اندر کرنے میں آسانی رہتی ھے جیسے آسان سٹائل کا پتا نہیں تھا اور ویسے بھی جنسیات میں سنی سنائی باتوں اور پریکٹیکل میں بہت فرق ہوتا ھے ۔ سنی نے بہت کچھ سنا تھا لیکن پریکٹیکل میں ناکام ہو رھا تھا، تیسری بار کوشش میں بھی ناکام رہنے پر اس نے مجھے الٹا لٹا دیا، اب میں پیٹ کے بل الٹی لیٹی ہوئی تھی اور سنی پیچھے سے میرے اوپر سوار ہو گیا اور لن کو میرے نرم و نازک چوتڑوں کے درمیان اپنی طرف سے میری پھدی کے سوراخ پر رکھ کر اندر کرنے لگا اور پھر دوبارہ سے اوپر نیچے ہونے لگا لیکن وہی ڈھاک کے تین پات ، سنی پھر ناکام رھا تھا شاید اسے احساس ھو گیا تھا کہ اس سے اندر نہیں ہونا اسلئے اس نے اب زور زور سے اپنے لن کو میرے چوتڑوں میں ہی آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا تھا، وہ بہت جوش سے کر رھا تھا کہ اچانک میرے منہ سے ایک زور دار چیخ کے ساتھ نکلا " امی جی" ! اس کا لن غلطی سے میری گانڈ میں انٹری مار چکا تھا اور مجھے ایسا لگا تھا جیسے میری گانڈ میں دہکتا انگارہ چلا گیا ہو یا پھر کسی نے میری گانڈ میں سرخ مرچیں ڈال دی ہوں،۔۔

یکبارگی میرے جسم میں درد اور تکلیف کا ایک ریلا امڈ آیا تھا جس کے رد عمل میں میرے منہ سے زوردار چیخ کے ساتھ امی جی نکلا تھا، میں نے درد اور تکلیف کے شدید احساس سے رونا شروع کر دیا، لن جس تیزی سے اندر گیا تھا اتنی ہی تیزی سے باہر بھی آ گیا تھا کیونکہ سنی بہت جوش اور تیزی سے اوپر نیچے ہو رھا تھا میری چیخ کے ساتھ ہی سنی بھی رک گیا اور میں سیدھی ہو گئی اور میں نے رونا شروع کر دیا تھا سنی مجھے روتا دیکھ کر ڈر گیا اور مجھے چپ کرانے کی کوشش کرنے لگا ۔ مجھے درد کا جو اک شدید جھٹکا لگا تھا آہستہ آہستہ اس کی شدت میں کمی آنے لگی تھی اور تقریبا پانچ دس منٹ رونے کے بعد میں چپ ہو گئی اور سنی نے مجھے میری شلوار قمیض پکڑائی جسے میں پہن کر واپس اپنے گھر آ گئی ۔ جیسے کہ میں آپ کو بتا چکی ہوں کہ میری زندگی کا یہ پہلا تجربہ بہت تکلیف دہ ثابت ہوا تھا اور اس تجربے نے پچھلا سارا مزہ بھلا دیا تھا اور جو آخری تجربہ تھا ‏ اس نے مجھے دوبارہ ایسے کسی کام میں شامل ہونے سے روکے رکھا اور شادی تک میں نے ایسا کچھ نہ کیا ۔ اس واقعے کے بعد میں چند ماہ بعد ہی بالغ ہو گئی تھی اور ماہواری سٹارٹ ہو گئی تھی اور میری چھاتیاں بھی تندرست و توانا ہو گئی تھیں جبکہ ثنا مجھ سے دو سال بعد جوان ہوئی تھی اور اس کی چھاتیاں بھی مجھ سے بہت چھوٹی رہ گئیں تھیں ۔ اس کے بعد میں کچھ عرصے کے لئے ثنا کے گھر نہیں گئی اور ثنا میرے گھر آنے لگی اور پھر میں نے بھی اس کے گھر جانا شروع کر دیا ۔ اب میں جوان ہو چکی تھی اور مجھے ان باتوں کا بھی پتا چل گیا تھا اور میں نے اپنی عزت بچ جانے پر بہت شکر کیا تھا ۔ میرے پاپا اور ماما کے ہاں میرا کوئی جوڑ نہیں تھا، سنی نے ثنا سے مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تھا ثنا نے مجھ سے پوچھا تو میں نے بھی اعتراض نہیں کیا اور پھر ثنا کے ماما پاپا نے میرے ماما پاپا سے میرا رشتہ مانگا اور پھر بیس سال کی عمر میں میری سنی سے شادی ہو گئی اور سہاگ رات کو سنی نے پہلی ہی بار میں اپنا لن جڑ تک میری پھدی میں گھسا دیا تھا اور اس بار میرے رونے کی پروا بھی نہیں کی اور اپنا کام جاری رکھا ۔ اب میں کبھی کبھی مذاق کرتی ہوں کہ بچپن میں تم کتنے شریف تھے ۔

قارئین ! آپ نے اخبارات میں پڑھا ہو گا کہ پانچ سالہ بچی سے زیادتی ، کبھی دس سالہ بچی سے زیادتی اور کبھی بارہ سالہ بچے سے زیادتی ، اس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ والدین ہیں جو اپنے بچوں پر صحیح سے توجہ نہیں دیتے ، میں گھر سے یہ بتا کر جاتی تھی کہ میں ثنا کے گھر جارہی ہوں لیکن کبھی بھی میرے ماما پاپا نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ میں وہاں کیا کرتی ہوں اور ساتھ میں کون کون کھیلتا ھے ؟ اب یہ بچے کی قسمت کہ جس گھر میں وہ جا رہا/رہی ھے اس گھر میں کوئی جنسی جنونی تو نہیں رہتا ، اگر رہتا ہوا تو یہاں سےبچے کی بدقسمتی کا آغاز ہوتا ھے اور پھر ساری زندگی یہ بدقسمتی اس کے ساتھ رہتی ھے، وہ ذہنی اور نفسیاتی دباؤ سے ہی نہیں نکل سکتا اور زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتا ھے، عام طور پر ایسے بچے جن کے ساتھ بچپن میں جنسی استحصال ہو چکا ہو، ان میں سے زیادہ تر بڑے ہو کر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایسے لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے اپنے بچوں کو بچا کر رکھنا چاہئے ۔ میں اس کہانی کے ذریعے آپ لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کا جنسی استحصال نہ ہو تو اپنے بچوں کو دوسروں کے گھروں میں جا کر کھیلنے کی اجازت نہ دیں اور بچوں پر نظر رکھیں کہ اس کی دوستی کیسے لوگوں سے ھے ۔ میرا بھی جنسی استحصال ہوا لیکن ایک اناڑی کے ہاتھوں ،جسے ابھی جنسی معاملات کی اتنی سمجھ بوجھ نہیں تھی اور میری خوش قسمتی کہ میں اب اس کی سچ میں دلہن ہوں اور ہر کوئی میری طرح خوش قسمت نہیں ہوتا۔۔

ختم شُد

romantic urdu bold novels

new urdu bold novels

urdu bold novels list

urdu bold novels pdf

most romantic and bold urdu novels list

husband wife bold urdu novels

hot and bold urdu novels pdf

urdu bold novels and stories

urdu bold novels and short stories

most romantic and bold urdu novels


تم کو بھول نہ پائیں گے

 


تم کو بھول نہ پائیں گے

میٹرک کے پیپر دینے کے بعد میں فری تھا اور ابھی سواے آرام اور سیر و تفریح کے میں اور کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا ۔ لیکن مجے فارغ دیکھ کر گھر والوں کو سب کام مجھ سے ہی کرانا یاد آتے تھے۔ کبھی سبزی لا دو تو کبھی دودھ ختم ہو گیا ہے۔ گرمیاں بھی اپنے عروج پر تھیں اور اوپر سے رہی سہی کسر لوڈ شیدڈنگ نے پوری کی ہوئی تھی۔ میں نے جو جو سوچا ہوا تھا ویسا کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا اور یہ فارغ وقت گزارنا زیادہ مشکل لگ رہا تھا۔ دوستوں کے ساتھ کچھ سیر و تفریح کا پروگرام بنایا لیکن سب کی کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے وہ بھی نہ بن سکا۔ ایک دن اماں نے مجھے کہا اپنی خالہ کی طرف چلے جاؤ میں نے کچھ چیزیں بھجوانی ہیں اور ویسے بھی تمہاری خالہ اتنی بار تمہیں آنے کا کہ چکی ہیں لیکن تم ہو کہ جاتے ہی نہیں ہو۔ میری خالہ گجرات میں رہتی تھی اور مجھے وہاں جانا کبھی بھی اتنا پسند نہیں تھا اس لئے لئے پچھلے 3 - 4 سال سے میں ان کی طرف گیا ہی نہیں تھا۔ شاید ویسے تو میں انکار کر دیتا لیکن میں نے سوچا موجودہ حالات میں چلو یہی تفریح سہی۔ دو دن کے بعد میں خالہ کے گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔ خالہ کا گھر گجرات کے ایک گنجان محلے میں تھا۔ خالہ مجھےدیکھ کر بہت خوش ہوئی اور میری خوب خاطر کی۔ خالہ کے 2 بچے تھے بڑی بیٹی مہوش جو کہ مجھ سے 3 - 4 چھوٹی ہو گی اور ایک بیٹا جو کہ چھ سات سال کا تھا۔ دونوں بچے اسکول گئے ہوے تھے اور خالو بھی گھر پر نہیں تھے۔ خالہ نے بتایا کہ تمھارے خالو کا ایک دوسرے شہر میں تبادلہ ہو گیا ہے اس لئے وہ صرف ہفتہ اور اتوار کو ہی آتے ہیں۔ کھانے پینے سے فارغ ہو کر میں وقت گزاری کے لئے چھت پر چلا گیا۔ چھت پر کافی کھلا صحن اور ایک طرف 2 کمرے تھے جس میں سے ایک کو اسٹور بنایا ہوا تھا اور دوسرے کمرے کی حالت سے لگتا تھا کہ اس کو کبھی کبھار سونے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کمرے کے درمیان میں ایک چھوٹا سا پلنگ بچھا ہوا تھا اور اس پلنگ کے دونو اطراف فرشی بستر لگے ہویے تھے۔ صحن کے ایک طرف ایک چھوٹا سا واش روم تھا جس کی حالت سے لگتا تھا کہ وہ بہت کم استعمال ہوتا ہے۔ میں نے چھت کی دیواروں سے ارد گرد تانکا جھانکی کر کے ماحول کا جائزہ لیا لیکن کوئی انٹرسٹنگ چیز نظر نہیں آئی۔ میں نیچے آ کر خالہ سے باتوں میں مصروف ہو گیا۔تھوڑی دیر کے بعد باہر کا دروازہ کھلا اور سفید اسکول یونیفارم میں ملبوس ایک گوری چٹی اور خوبصورت لڑکی گھر میں داخل ہوئی۔ اس کے آنے کے انداز سے مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ خالہ کی بیٹی مہوش ہی ہے۔ اگر کہیں اور دیکھا ہوتا تو شاید نہ پہچان سکتا کیوں کہ وہ بلکل بدل چکی تھی۔ رنگت میں دودھ جیسی سفیدی، بے داغ چہرہ، لمبے گھنے بال جن کو اس نے چٹیا کی صورت میں با ندھا ہوا تھا۔ دھوپ کی وجہ سے اس کے سفید رنگ میں سرخی آ رہی تھی جسم کے خدوخال اس کی جوانی کے شروعات کا ثبوت دے رہے تھے۔ اس نے آ کر سرسری سا سلام کیا جس کا میں نے پر تپاک انداز میں جواب دیا لیکن اس نے کوئی خاص پیش رفت نہیں دکھائی اور اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ کپڑے بدلنے اور کھانا کھانے کے بعد وہ اپنی کتابیں کھول کر پڑھائی میں مصروف ہو گئی۔ میں اس سے پڑھائی کی باتیں کرنے لگ گیا۔ وہ صرف میری باتوں کا بے رخی سے جواب دے رہی تھی اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کر رہی تھی۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ نویں جماعت میں پڑھ رہی ہے اور آج کل اس کے اسکول میں ماہانہ ٹیسٹ چل رہے ہیں۔ میں خالہ اور ان کےبیٹے سے باتوں میں لگ گیا لیکن میرا ذہن بار بار مہوش کی طرف ہی جا رہا تھا وہ مجے جتنا اگنور کر رہی میں اتنا ہی اس کے پاس جانے کے لئے بہانے تلاش کر رہا تھا۔ میرے ذہن میں اس کے بارے میں کوئی غلط سوچ نہیں تھی لیکن میں اس کی طرف اٹراکٹ ہو رہا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے بات کرے لیکن وہ اپنی پڑھائی میں مگن تھی اور ایسے شو کر رہی تھی جیسے میں وہاں موجود ہی نہ ہوں۔ رات کو سب لوگ چھت پر سوتے تھے مجے بھی خالہ نے ایک سائیڈ پر چارپائی پر بستر بچھا کر دیا وہ مجھ سے کافی دور خالہ کے قریب والی چارپائی پر سو رہی تھی۔ سب سو چکے تھے لیکن میں اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میں گھر سے تو صرف 2 دن ہی خالہ کے گھر رہنے کا سوچ کر آیا تھا لیکن اب میرا مہوش کی وجہ سے جانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ سب لوگ سو چکے تھے اور میں لیٹا ہوا دور سے مہوش کو دیکھ رہا تھا جو کہ رات کے اندھیرے میں مجے نظر تو نہیں آ رہی تھی لیکن پھر بھی اس کی طرف دیکھ کر مجھے عجیب سکون مل رہا تھا۔ نہ جانے رات کے کس پہر مجھے نیند آئی صبح خالہ کے جگانے پر آنکھ کھلی تو میں نے سب سے پہلے مہوش کو دیکھا لیکن تب تک وہ شائد اسکول جا چکی تھی۔ سارا دن اس کی واپسی کا انتظار کرتا رہا لیکن واپس آ کر اس نے اسی بے رخی کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنی کل والی روٹین جاری رکھی۔ میں جواد ( خالہ کا بیٹا ) کے ساتھ بازار گیا اور اس کو کچھ چیزیں لے کر دیں وہاں سے مہوش کے لئے بھی ایک چاکلیٹ لی۔ گھر آ کر میں نے اس کو چاکلیٹ دی لیکن اس نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ مجھے چاکلیٹ پسند نہیں ہیں اور دوبارہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہو گئی۔وہ مجھ سے جتنا اجنبیوں والا برتاؤ کر رہی تھی مجھے اور زیادہ کشش ہو رہی تھی۔ جواد مجے با ہر جانے کا کہتا لیکن میرا مہوش کے سامنے سے ہٹنے کو دل ہی نہیں کرتا تھا بس دل کرتا تھا ہر وقت اسی کو دیکھتا جاؤں۔ اس رات سب چھت پر سو رہے تھے کہ اچانک بارش ہونا شروع ہوگئی۔ خالہ نے مجھے کہا کہ اندر کمرے میں جا کر سو جاؤ۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ میں اندھیرے میں ٹٹو لتے ہوے پلنگ کے ایک سائیڈ پر بچھے ہوے فرشی بستر پر دیوار کے ساتھ لگ کر لیٹ گیا۔ مجھے لیٹتے ہی نیند آ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد بادل گرجنے کی آواز سے میری آنکھ کھلی تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی لیٹا ہوا ہے۔ بجلی ابھی تک نہیں آیی تھی اور کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ میرے خیال میں جواد میرے ساتھ آ کر لیٹ گیا ہو گا۔ اس وقت آسمانی بجلی چمکی جس سے کمرے میں تھوڑی سی روشنی ہوئی اور میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ مہوش لیٹی ہوئی ہے میری تو جیسے سانس رک گئی ہو اور مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسا میرا جسم بلکل حرکت نہیں کر رہا۔ اس کو اپنے اتنا قریب محسوس کر کے میرے جسم میں جیسے کرنٹ سا دوڑ رہا تھا۔ میں اسی کی طرف کروٹ لے کر بلکل ساکت لیٹا ہوا تھا جیسے کہ کوئی حرکت کی تو جان نکل جائے گی۔ مجھے اپنی شلوار میں حرکت محسوس ہو رہی تھی نہ چاہتے ہوے بھی میرا لن کھڑا ہو گیا تھا۔ میں کافی دیر تک اسی حالت میں لیٹا رہا۔ تھوڑی دیر میں کچھ نارمل ہوا تو میرا دل اس کو چھونے کو کیا۔ لیکن مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ اگر اس کی آنکھ کھل گئی تو کہیں کوئی مسلہ نہ ہو جائے۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ کمرے میں اندھیرے کی وجہ سے وہ یہاں آ کر لیٹ گئی ہے اگر اس کو معلوم ہوتا تو وہ کبھی بھی اس کے ساتھ نہ لیٹتی۔ میں نے کسی بھی قسم کی حرکت کرنے سے پہلے یہ جاننے کا فیصلہ کیا کہ وہ غلطی سے یہاں لیٹی ہے یا جان بوجھ کر۔ میں نے نیند میں کروٹ لینے کے انداز میں اپنا ہاتھ اس کے بازو پر اس طرح رکھا کہ اس کی آنکہ کھل جائے۔ میرا ہاتھ جیسے ہی اس کو چھوا مرے جسم میں ایک عجیب سا کرنٹ لگا۔ اس کا بازو کسی ریشم کے تکیے کی طرح نرم اور ملائم تھا۔ میرا لن جو پہلے ہی کھڑا ہوا تھا مزید جھٹکے مارنے لگا۔ میرے پلان کے مطابق میرا ہاتھ لگنے سے اس کی آنکھ کھل گئی اس نے میرا ہاتھ پیچھے کیا اور اٹھ کر بیٹھ گئی اور اندھیرے میں غور سے میری طرف دیکھنے لگی جیسے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اس کے ساتھ کون سو رہا ہے ۔ میں ایسے شو کر رہا تھا جیسے گہری نیند میں ہوں اور مجے آس پاس کی دنیا کی کوئی خیر خبر نہیں۔ مرے ہلکے ہلکے خراٹوں سے اس کو معلوم ہو گیا کہ وہ جواد کی بجاے میرے ساتھ سو رہی تھی۔ اس سے جلدی سے اپنی چادر اٹھائی اور پلنگ کے دوسری سائیڈ پر جا کر لیٹ گئی۔ میں نے ٹھنڈی سانس بھری اور اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ اس کو جگانے کی کیا ضرورت تھی ایسے کم از کم وہ میرے پاس تو لیٹی ہوئی تھی اب پتا نہیں ایسا موقع دوبارہ ملے یا نہ ملے۔ اگلے دن اس نے پہلے جیسا ہی برتاؤ رکھا ایسا کچھ نہیں لگ رہا تھا کہ رات کی بات پر کچھ ریکٹ کر رہی ہو۔ آج تو وہ پہلے سے بھی زیادہ پریشانی سے پڑھائی میں مصروف تھی۔ میں نے تھوڑی ہمت کر کے اس سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس کی بجایے خالہ نے بتایا کہ کل میتھ کا پیپر ہے اور یہ میتھ میں کافی کمزور ہے۔ میں نے کہا کہ خالہ آپ فکر نہ کریں میں تیاری کرا دیتا ہوں۔ یہ سن کر اس کو کچھ تسلی ہوئی۔ میں نے دیر رات تک اس کے ساتھ بیٹھ کر میتھ کی تیاری کرائی ۔ اس دوران کافی بار میرا ہاتھ اس کے ہاتھ کو چھوا تو جیسے کرنٹ سا لگ جاتا تھا،۔اس کے بعد وہ میرے ساتھ کچھ حد تک فرینک ہو گئی ۔ اگلے دن پیپر دے کر آیی تو کافی خوش لگ رہی تھی۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میتھ پیپر بہت اچھا ہو گیا اور آج میرے پیپر بھی ختم ہو گئے ہیں۔ اس نے مجھ سے ہاتھ ملا کر میرا شکریہ ادا کیا کہ آپ کی وجہ سے میرا پیپر بھی اچھا ہو گیا۔ اس کا نرم و نازک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر میں تو اپنے ہوش سے ہی بیگانہ ہو گیا۔اس کے بعد تو میں نے اس کا بلکل ہی الگ روپ دیکھا وہ مجھ سے بہت فرینک ہو گیی تھی اور اگلے دو دن ہم لوگوں نے خوب گپ شپ کی اور لڈو، کیرم بھی بہت کھیلا ۔ اگلی رات کو سوتے میں پھر سے بارش ہو گیی اور خالہ نے مجھے جگا کر کہا کہ اندر جا کر سو جاؤ۔ میں اندھیرے میں ٹٹولتے ہوۓ بیڈ کی دوسری سائیڈ پر آ کر سو گیا جہاں جواد سویا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ لگ رہا تھا کہ پورے محلے کی لائٹ بند تھی۔ اسی وقت بجلی چمکی اور اس چند سیکنڈ کی روشنی میں مجھے لگا کہ میرے ساتھ جواد کی بجاے مہوش سو رہی ہے۔ میں تو جیسے ساکت ہو گیا۔ تھوڑی دیر ایسے ہی لیٹے رہنے کے بعد میں نے سوچا کہ اس دن کی طرح مہوش کو ایک بار پھر جگا دوں ورنہ اگر لائٹ آنے پر یا صبح اٹھنے پر خالہ نے دیکھ لیا تو پتا نہیں کیا سمجھیں گی۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کے بازو پر اس طرح مارا جیسے کہ کروٹ لیتے ہوۓ نیند میں لگ گیا ہو۔ وہ اٹھ گئی اور بیٹھ کر غور سے میری طرف دیکھا اور پھر دوسری طرف کروٹ لے کر لیٹ گئی۔ میں بلکل ساکت لیٹا رہا اور سونے کی ایکٹنگ جاری رکھی۔ میں دیوار والی طرف تھا اور وہ پلنگ کی طرف تھی۔ ہمارے درمیان فاصلہ بہت ہی کم تھا۔ شلوار میں لن بھی اکڑا ہوا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں۔ میں نے سوچا کہ اٹھ کر دوسری طرف سو جاؤں لیکن پھر وہیں لیٹا رہا ۔ دس منٹ تک تو میں ایسے ہی لیٹا رہا پھر تھوڑی ہمت کر کے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اس کی کمر پر رکھ دیا۔ اس کی نرم و ملائم کمر پر ہاتھ رکھتے ہی جیسے مجھے کرنٹ سا لگا۔ میں تھوڑی دیر تک اس کی کسی حرکت کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے گہری نیند سو رہی تھی۔ مجھ میں اور ہمت آ گئی اور آرام آرام سے اپنا ہاتھ اس کی کمر اور پیٹ پر پھیرنا شروع کر دیا۔ اس نے اپنے اوپر چادر لی ہوئی تھی اور میں چادر کے اوپر سے ہی اسکے جسم پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ پندرہ منٹ تک میں ایسے ہی چادر کے اوپر سے اس کی کمر اور پیٹ پر ہاتھ پھیرتا رہا لیکن مہوش نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔ کمرے میں ایک تو بہت اندھیرا تھا اور باہر سے تیز بارش کی آواز کا شور تھا۔ اب مجھ میں مزید ہمت آ گئی اور میں تھوڑا سا آگے کو سرکا۔ اب اس کے اور میرے درمیان کا فاصلہ مزید کم ہو گیا تھا۔ اب میں نے اپنا ہاتھ چادر کی اندر ڈالا اور اس کی قمیض کو تھوڑا سا ہٹا کر اس کی ننگی کمر پر ہاتھ رکھا۔ ہاتھ رکھتے ہی مجھے ایسے لگا کہ جیسے اس کی جسم کو ایک جھٹکا سا لگا۔ میں نے اسی وقت اپنا ہاتھ وہیں روک لیا۔ تھوڑی دیر تک اس کی طرف سے کوئی ریکشن نہیں آیا تو میں نے اپنے ہاتھ کو تھوڑی حرکت دینی شروع کی اور پیٹ کی طرف لے گیا۔ میرا ہاتھ اس کی قمیض میں تھا اور ہاتھ کا نچلا حصہ اس کی شلوار سے لگ رہا تھا۔ اب میں نے ہاتھ قمیض میں اوپر کی طرف کرنا شروع کر دیا لیکن قمیض تنگ ہونے کی وجہ سے زیادہ اوپر نہیں جا سکا۔ میں اسی طرح کمر اور پیٹ پر ہلکا ہلکا ہاتھ پھیرتا رہا۔ وہ بلکل ساکت لیٹی ہوئی تھی۔ مجھے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ جاگ رہی ہے یا سو رہی ہے۔ لیکن جو بھی تھا میں مزے میں تھا۔ میرے اندر کا ڈر اب تقریبآ ختم ہو گیا تھا اور میں نے کسی قسم کا کوئی رسپانس نہ پا کر مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ میں کمر پر ہاتھ پھیرتا ہوا آھستہ آھستہ اس کی ٹانگوں اور پھر گانڈ پر لے آیا۔ اس کی گانڈ بہت نرم تھی۔ میں مزے میں مدہوش اس کی گانڈ اور اس کی لکیر پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ اتنی زبردست گانڈ پر تو میرا دل کر رہا تھا کہ زور زور سے دباؤں لیکن جگہ اور حالات کی مناسبت سے اتنا مزہ بھی میرے لئے حد سے زیادہ ہی تھا۔ میں آہستہ سے اپنا ہاتھ آگے پھدی کی طرف لے گیا لیکن وہ کروٹ لے کر ایسی پوزیشن میں سوئی ہوئی تھی کہ اس کی پھدی دونوں ٹانگوں میں چھپی ہوئی تھی اور میں کوشش کے باوجود پھدی کو نہیں ٹٹول سکا۔ میں نے گانڈکا مزہ لینے میں ہی غنیمت جانی۔ وہ بالکل بے سدھ سونے کے انداز میں پڑی ہوئی تھی لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ جاگ رہی ہے۔بارش ابھی بھی ہو رہی تھی اور بجلی بھی ابھی تک نہیں آی تھی۔ اب میں مزید دلیرانہ طریقے سے اس کی گانڈ دبا رہا رہا تھا۔ اس کی گانڈ کی لکیر کے اندر تک انگلیاں پھیر رہا تھا۔ میں اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ اب میں نے شلوار میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ بہت ٹائٹ بند تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس نے ازار بند ڈالا ہوا ہے۔ میں نے ہاتھ آگے لےجا کر اس کا ازار بند ٹٹولنا شروع کر دیا۔ مجھےمحسوس ہوا کہ وہ مجھے روکنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن میں اپنے کام میں لگارہا۔ آخر کار میرے ہاتھ میں اس کے ازار بند کا ایک سرا آ گیا جسے میں نے آرام سے کھینچ کر کھول دیا۔ اب اس کی شلوار کی گرفت کافی ڈھیلی ہو گیی تھی اور میں نے پیچھے سے اس کی شلوار میں ہاتھ ڈال دیا۔ اس کی گانڈ بہت گرم ہو رہی تھی۔ میں نے ہلکا ہلکا دبانا شروع کر دیا اور لکیر پر بھی ہاتھ پھیرنے لگا۔ مزے سے میری حالت ایسے ہو رہی تھی جیسے بہت تیز بخار ہو اور میرا لن تو شلوار پھاڑ کر باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر میں اپنی انگلی لکیر کے اندر لے گیا اور اس کی گانڈ کے سوراخ کو دبانے لگا۔ پھر انگلی کو تھوڑا اور نیچے اس کی پھدی کی طرف لے گیا۔ گانڈ کے سوراخ کے نیچے تو مجھے ایسے لگا کہ جیسے میں نے کسی بہت چکناہٹ والی جگہ میں انگلی ڈال دی ہو۔ وہاں سے بہت زیادہ گیلا ہو رہا تھا۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد میں پیچھے سے اپنی انگلی اس کی پھدی کے نچلے حصے پر لگانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی پھدی بہت گیلی ہو رہی تھی۔ اب مجھ سے مزید صبر نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے ہاتھ باہر نکالا اور ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیا۔ کمرے میں ابھی بھی اندھیرا تھا اور بارش کی آواز سے لگ رہا تھا کہ اب ذرا آھستہ ہو گئی ہے۔ خالہ کے خراٹوں کی آواز سے لگ رہا تھا کہ وہ دوسری طرف منہ کر کے گہری نیند سو رہی ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو تھوڑا اور آگے سرکایا اور اس کی چادر اپنے اوپر بھی لے لی۔ اب ہم دونوں ایک ہی چادر میں تھے اس نے دوسری طرف منہ کر کے کروٹ لی ہوئی تھی اور میں اس کے پیچھے اس کی طرف کروٹ لے کر لیٹا ہوا تھا۔ ہمارے درمیان فاصلہ بہت ہی کم رہ گیا تھا۔ تھوڑا سا اور آگے ہوا تو لن اس کی گانڈ کی لکیر پر سیٹ کر کے ہلکا ہلکا دبانا شروع کر دیا۔ میں تو مزے کی کسی اور ہی جہاں میں تھا۔ پھر میں نے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اس کی گانڈ کی لکیر میں اندر تک پھیرنا شروع کر دیا۔ دو تین منٹ اسی طرح مزے لے کر میں تھوڑا پیچھے ہٹا اور اس کی شلوار کو تھوڑا اور ڈھیلا کر کےگانڈ کے نیچے تک سرکا دیا۔ اور ساتھ ہی اپنی شلوار کھول کر لن بھی باہر نکال لیا۔اب ہم دونوں چادر میں تھے اور میرا لن اور اس کی گانڈ کے درمیان کوئی کپڑا نہیں تھا۔ میں نے اس کی گانڈ کو تھوڑا سا کھول کر اس کا سوراخ پر اپنا لن لگا کر ہلکا سا دبایا اور ہاتھ سے اس کی گانڈ کو چھوڑ دیا۔ اب میرا لن اس کی گانڈ میں پھنسا ہوا اور ٹوپی اس کے سوراخ پر سیٹ تھی۔ میں نے آہستہ آہستہ دبانا شروع کر دیا۔ اس کی گانڈ بہت گرم ہو رہی تھی۔ میں نے ایک ہاتھ اس کی کمر پر رکھ کر اپنی طرف کھینچ کر نیچے سے گانڈ پر دھکے لگا رہا تھا۔ کیوں کہ اب میں مہوش کے بالکل ساتھ لگا ہوا تھا اس لئے اب اس کے تیز سانسوں کی آواز مجھے سنائی دے رہی تھی۔ پھر میں نے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر اوپر نیچے پھیرنا شروع کر دیا۔ نیچے پھدی پر رکھ کر میں نے جسے ہی دبایا تو وہاں پر چکناہٹ کی وجہ سے لن پھسل کر دونوں ٹانگوں میں گھس گیا۔ میں نے وہیں دھکے مارنے شروع کر دئے۔ لن اس کی ٹانگوں میں آگے پیچھے کرنا شروع دیا۔ ایک بار پھر پھدی میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن نا تجربہ کاری اور لیٹنے کی پوزیشن کی وجہ سے ناکام رہا اور لن پھر سے پھسل کر اس کی ٹانگوں میں چلا گیا۔ اب میں اپنا ہاتھ منہ کے پاس لایا اور اس پر تھوک لگا کر نیچے لے جا کر لن کی ٹوپی اور باقی لن پر لگا دیا۔ لن پھدی کے پانی سے ویسے ہی گیلا تھا تھوک لگنے سے اور چکنا ہو گیا۔ میں نے اس کی اوپر والی ٹانگ تھوڑا آگے کر کے پھدی مارنے کی ایک اور کوشش کی لیکن پھر ناکامی ہی ہوئی۔ پھر میں نے اپنی انگلی پر تھوک لگایا اور اس کی گانڈ کے سوراخ پر اسی انگلی سے تھوک لگا دیا۔ پھر اپنا چکنا لن اس کی گانڈ کے سوراخ پر سیٹ کیا اور اس کی کمر سے پکڑ کر آہستہ سے دھکا لگایا تو لن کی ٹوپی اس کی گانڈ میں گھس گیی۔ میں ابھی مزے کی اس کفیت کو سمجھ ہی نہیں پایا تھا کہ وہ جلدی سے آگے کو ہو کر الٹی لیٹ گی، اسی دوران مجھے اس کے منہ درد بھری سسکی کی آواز سنائی دی۔ مجھے سمجھ آ گی کہ درد کی وجہ سے وہ الٹی ہو گیی ہے تاکہ میں مزید لن نہ ڈال سکوں۔ مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ اتنا قریب آ کر بھی نہ پھدی ماری اور نہ ہی گانڈ۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ گانڈ یہ اب دے گی نہیں اور ان حالات اور پوزیشن میں پھدی مارنا مشکل ہے۔ باہر بارش بھی رک چکی تھی لیکن بجلی ابھی تک نہیں آیی تھی۔ میرا لن جھٹکے کھا رہا تھا۔ میں نے کچھ سوچا اور پھر مہوش کے کان میں سرگوشی کرتے ہوے کہا "ساتھ والے کمرے میں جا رہا ہوں تھوڑی دیر کے بعد وہاں آ جانا" میں اتنا کہ کر پیچھے ہو گیا اور بیٹھ کر ارد گرد کا جائزہ لیا۔ خالہ گہری نیند میں ہی تھی۔ میں آرام سے اٹھا اور باہر نکل آیا۔ اسٹور کا دروازہ صحن میں سے ہی تھا۔ میں دبے قدموں چلتا ہوا وہاں آ گیا۔ کمرے میں اندھیرا تھا لیکن دروازہ کھلنے کی وجہ سے اندر تھوڑا بہت دکھایی دے رہا تھا۔ دروازے کے سامنے ہی چارپائی بچھی ہوئی تھی اور باقی کمرے میں پیٹیاں، الماری اور کافی دوسرا سامان پڑا ہوا تھا۔ میں حالات کا جائزہ لے کر وہیں کھڑا ہو کر اس کا انتظار کرنے لگ گیا۔ کافی دیر ہو گئی تھی لیکن وہ نہیں آیی۔ میرا لن بھی اب ڈھیلا ہو چکا تھا۔ میں نے سوچا وہ نہیں آے گی۔ آج جتنا مزہ لے لیا ہے وہی کافی ہے۔ اب مٹھ لگا کر سکون لیتا ہوں اور جا کر سوتا ہوں۔میں نے شلوار کھولی اور ڈھیلے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلانا شروع کر دیا۔ کچھ دیر پہلے والے واقعات یاد کر کے میرا لن پھر سے سخت ہو گیا۔ اتنی دیر میں مجھے دروازے کے پاس ایک سایہ سا نظر آیا جو اسٹور کے دروازے سے اندر اندھیرے میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔ خدو خال سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ مہوش ہے۔ میں نے ہلکی سے آواز دی کہ اندر چارپائی پر آ جاؤ۔ وہ اندر آ گئی میں نے اس کو پکڑا اور گلے لگا کر کہا کہ "مجھے لگا تم نہیں آؤ گی"۔ وو بس اتنا بولی "جلدی کرو"۔ میں اس کو چارپائی پر اس طرح لٹایا کہ اس کی گانڈ چارپائی کے کونے پر تھی۔ میں اس کی ٹانگوں میں چارپائی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ شلوار میری پہلے ہی پاؤں میں تھی قمیض کو بھی گریبان میں پھنسایا اور اپنے لن پر تھوک لگا لیا۔ اندھیرے میں کچھ زیادہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں ہاتھ لگا کے چیک کیا تو اس نے ابھی تک شلوار پہنی ہوئی تھی۔ میں ٹٹولتے ہوتے اس کا ازار بند کھولا اور شلوار نیچے پاؤں تک کر کے اس کی ٹانگیں اوپر کی اور ان کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ ہاتھ پر تھوڑا تھوک لگا کر اس کی پھدی پر لگایا جو پہلے ہی کافی گیلی تھی پھر اندھیرے میں اس کی پھدی کے سوراخ پر انگلی رکھی اور اپنا لن اس انگلی کی جگہ رکھ کر اس کے اوپر لیٹ گیا۔ اس کی ٹانگیں میرے کندھے پر تھی۔ میں نے لن کو تھوڑا دبایا تو وہ پھسلتا ہوا پورا پھدی کے اندر چلا گیا۔ مہوش نے پھر ہلکی سی سسکاری لی۔ مجھے ایسے لگا کہ میں نے لن کسی گرم اور نرم ملائم چکنی جگہ میں ڈال دیا ہے۔ اس کی پھدی کی اندرونی دیواروں نے میرے لن کو جکڑا ہوا تھا۔ اور مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میری ساری جان لن کے اندر آ گئی ہے اور میں فارغ ہونے والا ہوں میں نے جھٹکے لگانے شروع کر دیے۔ ہر جھٹکے میں جب لن اندر جاتا تو مزے سے میرا پورا جسم کانپ جاتا اور مہوش کے منہ سے بھی سسکاری نکلتی۔ لیکن افسوس کہ میں پانچ چھ جھٹکوں سے زیادہ کنٹرول نہیں کر سکا اور فارغ ہو گیا۔ لن باہر نکال کر دوسری طرف منہ کر کے ساری منی نیچے گرا دی۔ جب میں فارغ ہو کر مڑا تو مہوش کپڑے ٹھیک کر کے دروازے میں سے نکل رہی تھی۔ میں بھی تھوڑی دیر کے بعد چپکے سے آ کر جواد کے ساتھ سو گیا۔ اس کے بعد اگلے دو دن میں تین بار موقع ڈھونڈ کر اس کی پھدی لی۔ دو بار اوپر والے باتھ روم میں اور ایک بار سیڑھیوں میں۔ اسی دوران مجھے پتا چلا کہ وہ پہلے بھی دو لڑکوں سے مرواتی رہی ہے۔ ایک تو ہمارا ہی کزن شانی اور دوسرا ان کا ایک ہمسایہ لڑکا جس سے اوپر والے باتھ روم یا اسٹور میں چدواتی رہی ہے۔ دو دن کے بعد مجھے واپس آنا پڑا لیکن وہ والی رات کا سیکس میری زندگی کا سب سے یادگار سیکس ایکسپیرینس رہا۔

زبردست ہتھیار

 

زبردست ہتھیار
میرا نام صدف ہے اور میری عمر تیس سال ہے ، میں ایک شادی شدہ عورت ہوں۔ کالج کے زمانے سے مجھے سیکس کا شوق ہوااسکی بنیادی وجہ سیکسی اسٹوریز اور موویز تھا مگر شادی سے پہلے ایک دفعہ بھی مجھے سیکس کرنے کا موقع نہ مل سکا۔پھر میری شادی ہوگئی اسوقت میری عمر چوبیس سال تھی آج بھی میرا فگر غضب کا ہے ، اور اس وقت تو اچھے اچھے مردوں کی نظریں میرے تعاقب میں ہوتی تھیں۔ اب میں ایک بچے کی ماں ہونے کے باوجود بھی کافی سیکسی ہوں۔میرے شوہر ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں ٹیکسٹائل انجینیر ہیں۔میری سیکس لائف بہت اچھی گذر رہی تھی۔شادی کے بعد میرے شوہر کا تبادلہ فیکٹری سے دور کراچی میں ہوگیا، مجھے بھی انکے ساتھ شفٹ ہونا پڑا مگر میرے شوہر کو ابھی یہاں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگنا تھا وہ ابھی ایک ہفتہ میں ایک بار گھر آتے تھے۔ایک دن میں وہ ایک بار سے زیادہ میرے ساتھ سیکس نہیں کرتے تھے۔جس سے میری سیکس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی۔ سارا دن انکا تو آرام کرتے ہی گذر جاتا تھا اور نئے نئے کھانوں کی فرمائش میں۔ اور میں تڑپتی رہتی تھی کچھ عرصہ تو میں ایمانداری کے ساتھ زندگی گزارتی رہی مگر پھر مجھ کو ضد ہو گئی اور میں نے وہ سب کچھ کر لیا جسکا کوئی شریف عورت سوچ نہیں صکتی تھی۔اس وقت میں ایک بچے کی ماں بن چکی تھی مجھے معلوم تھا سیکس کیا ہوتا ہے ، میرا بچہ آپریشن سے ہوا تھا اسی وجہ سے میری چوت ابھی تک بہت ٹائٹ تھی۔
یہ گرمیوں کے دن تھے میرے شوہر دو دن پہلے ہی اپنی جاب پر گئے تھے، اور اس بار وہ مجھ سے سیکس نہ کرسکے تھے کیونکہ مجھے ماہواری آرہی تھی، انکے جانے کے بعد میں فارغ ہوئی تھی اور اب بری طرح دل مچل رہا تھا سیکس کرنے کو مگر کچھ نہیں سوجھتا تھا کہ کیا کروں،میں گھر میں اکیلی تھی میرا بچہ پیٹ بھر کر میرا دودھ پی کر سو چکا تھا اور میں بھی لیٹی ٹی وی دیکھ رہی تھی میں نے اسوقت قمیض شلوار پہنی ہوئی تھی اسکے نیچے کچھ نہیں کیونکہ میرے گھر کس کو آنا تھا یہاں ہمارا کوئی جاننے والا نہں تھا اور نہ محلے میں کسی سے اتنی سلام دعا ۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی میں اس سوچ میں ڈوبی کہ اس گرمی میں کون آگیا؟ دروازے تک گئی کہ دیکھوں کون ہے میں نے دروازہ کھولے بغیر پوچھا کون ہے؟تو باہر سے آواز سنائی دی: بی بی جی قالین خریدنا ہے؟
ایکدم میرے دماغ کی بتی جل اٹھی میں نے سوچا اس گرمی میں کون ہوگا جو گھر سے باہر ہوگا اسی مرد کے ساتھ اپنے سیکس کی خواہش پوری کرلوں۔میں نے دروازہ کھولا تو ایک پسینے میں شرابور مظبوط جسم والا پٹھان مرد کچھ قالین اٹھائے میرے دروازے کے باہر کھڑا تھا اسکی عمر میرے مطابق چالیس سال تو ہوگی، میں نے پوچھا کیا قیمت ہے قالین کی؟
اس نے کہا بی بی جی آپ پہلے پسند کر لو پھر قیمت بھی طے کر لیتے ہیں۔میں نے کہا اچھا اندر آجاؤ اس نے ایک لمحے کو سوچا پھر قالین اٹھا کر اندر آگیا، میں نے اسکے اندر آنے کے بعد ذرا سا سر باہر کر کے دیکھا تو پوری گلی میں سناٹا تھا۔میں نے دروازہ بند کیا تو دیکھا پٹھان میرے پیچھے کھڑا مجھے غور سے دیکھ رہا تھا میں نے صحن میں رکھی ایک ٹیبل کے سامنے پڑی کرسی کی جانب اشارہ کیا یہاں بیٹھ جاؤ اور سارے قالین زمین پر رکھ دو میں خود پسند کر لونگی کونسا لینا ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا پھر مجھ سے کہا بی بی جی تھوڑا پانی مل سکتا ہے پینے کو میں کچن میں گئی وہاں سے ایک بوتل اور گلاس لا کر ٹیبل پر رکھی مگر اس دوران اسکو متوجہ کرنے کے لیے میں نے دوپٹہ گلے میں ڈال لیا اور بالکل جھک کر بوتل اور گلاس ٹیبل پر رکھا جس سے لازمی اسکی نظر میرے بڑے بڑے دودھ سے بھرے مموں پرپڑی ہوگی۔ میں نے بوتل رکھنے کے بعد سیدھی ہو کر ایک نظر اسکو دیکھا وہ بغور مجھے ہی دیکھ رہا تھا ۔ میں اب دوبارہ جھک جھک کر قالین دیکھنے لگی اسی دوران ایک سائڈ سے میں نے اپنا دوپٹہ نیچے گرا دیا تاکہ وہ اچھی طرح کپڑوں کے اندر چھپے میرے حسن کا نظارہ کر لے ۔ ویسے مفت کا مال کیسا بھی ہو کوئی مرد نہیں چھوڑتا۔ پھر میں تو ایک اچھی خاصی سیکسی عورت تھی۔
میں نے محسوس کیا کہ وہ پانی پینے کے دوران مسلسل میرے جسم کا جائزہ لے رہا تھا۔ میں خوش ہو رہی تھی کہ کام بنتا نظر آرہا ہے۔ میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتی رہی کہ تم کہاں رہتے ہو کہاں سے لائے ہو یہ قالین وغیرہ وغیرہ، پھر میں باتوں باتوں میں اسکے قریب گئی اور اسکے چہرے پر ہمت کر کے ہاتھ پھیرا اور کہا اتنی گرمی میں اتنی محنت کیوں کرتے ہو۔ دیکھو کتنا پسینہ بہہ رہا ہے ، اس نے ایکدم میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا بی بی جی کیا چاہتی ہوتم؟
میں نے بھی ڈھٹائ سے جواب دیا وہ ہی جو ایک عورت ایک مرد سے اور ایک مرد ایک عورت سے چاہتا ہے۔ یہ سنتے ہی اسکی آنکھوں میں چمک آگئی، وہ ایکدم اٹھا اور مجھے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا، میں نے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا ایسے نہیں پہلے تم غسل کر لو مجھے تم سے بو آرہی ہے وہ اپنے سفید سفید دانت نکالتا ہوا کہنے لگا کدھر ہے نہانے کی جگہ میں نے اسکو ہاتھ کے اشارے سے بتایا اور کہا نہانے کے بعد اس کمرے میں آجانا ، وہ کچھ کہے بغیر باتھ روم میں گھس گیا، میں بھی جلدی سے کمرے میں چلی گئی اور جاکر روم اسپرے کردیا اور لائٹ جلا دی، ذرا دیر بعد ہی روم کا دروازہ کھلا اور وہ پٹھان کمرے میں داخل ہوگیاوہ نہانے کا تولیہ لپیٹ کر ہی کمرے میں آگیا تھا اور اسکے کپڑے اسکے دوسرے ہاتھ میں تھے میں اسکی عقلمندی دیکھ کر خوش ہوئی، آتے ہی وہ بیڈ پر اچھل کر بیٹھ گیا، اب میں نے اسکو غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اچھا خاصہ خوبصورت مرد تھا ہلکی ہلکی داڑھی تھی اسکی اورتھوڑی بڑی مونچھیں۔ سرخ سفید رنگت اور مظبوط چوڑا سینہ جس پر با ل ہی بال بھرے تھے۔ میں تو دیکھ کر خوشی سے پاگل ہونے لگی، وہ بیڈ پر سے کھسکتا ہوا میرے نزدیک آیا اور ایک ہاتھ بڑھا کر میری کمر میں ڈالا اور مجھے کھینچ کر اپنے ساتھ چپکا لیا، کہنے لگا بی بی تم بہت خوبصورت ہے تم کو ایسا مزہ دے گا کہ تم یاد کرے گا۔میں بھی تو مزہ ہی چاہتی تھی اپنے مطلب کی بات سن کر اسکے منہ سے بہت خوشی ہوئی ، میں نے بے شرموں کی طرح اسکے لنڈ پر ہاتھ لگایا تو محسوس کیا وہ ڈھیلا پڑا ہے۔ اس نے میری ہمت دیکھ کر تولیہ ہٹا دیا اب جو میں نے دیکھا تو ایک لمحہ کو سہم گئی کیونکہ اسکا لنڈ سخت نہ ہونے کے باوجود اتنا بڑا اور موٹا لگ رہا تھا کہ میرے شوہر کا سخت ہونے کے بعد بھی ایسا نہ تھا میں نے اس سے پوچھا اسکو سخت کرو، تو وہ بولا میری بلبل یہ کام تم کو کرنا ہے باقی کام میں خود کرلونگا۔ میں نے اسکے لنڈ کو ہاتھ لگایا تو اس میں تھوڑی سختی محسوس کی مگر اس طرح نہیں کہ وہ میری تو کیا کسی کی چوت میں بھی جا سکتا۔ میں نے خود کو اسکی گرفت سے آزاد کیا اور نیچے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکے لنڈ کو ہاتھ میں لے کر مسلنا شروع کیا ، ذرا دیر میں وہ سخت ہونے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ تو ایک لمبے اور موٹے ڈنڈے کی شکل اختیار کر گیا ، اب میرے دل میں ڈر جاگ اٹھا کہ یہ لنڈ تو میری نازک سے چوت کو بری طرح سے پھاڑ ڈالے گا، مگر پھر سوچا جو ہوگا دیکھا جائے گا میں یہ لنڈ ضرور اپنی چوت میں لونگی۔ اب اس نے کہا تم بھی اپنے کپڑے اتارو میں نے مزید انتظار نہیں کیا اور فٹا فٹ اپنے کپڑے اتارکر اسکی طرح پوری ننگی ہوگئی، وہ میرے ممے دیکھ کر پاگل سا ہوگیا اور مجھے دبوچ کر بے تحاشہ میرے ممے چوسنے لگا اس کے اس پاگل پن سے مجھے تکلیف ہورہی تھی، مگر میں نے سیکس کی خواہش پورا کرنے کے لیے اسکو برداشت کیا، وہ حقیقتاً جنگلی لگ رہا تھا ، اس کے اسطر ح پاگلوں کی طرح چوسنے سے میں نشے میں مدہوش ہونے لگی تھی اور میری چوت پانی سے گیلی ہورہی تھی، میں اب اسکا لنڈ اپنی چوت سے نگلنے کے لیے بے تاب تھی مگر وہ تھا کہ دودھ پینے سے باز نہیں آرہا تھا۔میں نے بڑی کوشش کے بعد خو د کو اس سے آزاد کیا اور فوراً بیڈ پر لیٹ کر ٹانگیں تھوڑی سی کھول کر اسکو اپنی گیلی اور گرم چوت کا نظارہ کروایا۔اب وہ بھی پاگل ہوکر چھلانگ لگا کر میرے نزدیک آیا اور میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے انہیں مزید کھولا۔اب میری تڑپتی چوت اسکی نظروں کے سامنے تھی اس نے اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیری اور اپنا لمبا ڈنڈے جیسا لنڈ میری چوت کے منہ پر سیٹ کیا اور تھوڑا سا زور لگایا، جس سے اسکے لنڈ کا ہیڈ میری چوت میں ضرور داخل ہوا مگر مجھے ایسا لگا جیسے پہلی بار کسی لنڈ کو چوت میں لیا ہو، اتنی تکلیف کہ برداشت سے باہر تھا میں نے اس کو ظاہر تو نہیں ہونے دیا مگر اتنا ضڑور کہا میں نے اتنا موٹا لنڈ پہلے کبھی نہیں لیا ذرا دھیان سے اور آرام سے کرنا، اس نے کہا فکر نہ کر میری جان تجھے ایسا مزہ دونگا کہ یاد کرے گی۔ اسکی اس بات کا اندازہ تو تھا مجھے کہ یہ مزہ ضرور دے گا مگر کتنا درد دے گا اسکا اندازہ نہیں تھا اس نے کہا تو کہ فکر نہ کر مگر اگلے ہی لمحے مجھے فکر لاحق ہوگئی جب اس نے تھوڑا سا لنڈ باہر کر کے دوبارہ سے اندر کیا تو وہ دوبارہ اسی جگہ آکر اٹک گیا ، اس نے کہا واہ تیری چوت تو کنواری لڑکیوں جیسی لگتی ہے، اب برداشت تو کرنا پڑے گا میں بھی تڑپ رہا ہوں ایک مدت سے کوئی ملا نہیں چودنے کو مگر آج تیری اور اپنی خواہش پوری کرونگا اب روک مت مجھے تو نے خود دعوت دی ہے۔میرے پاس اسکی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا اور میں خود بھی یہ مرد کھونا نہیں چاہتی تھی۔
اب اس نے کہا تیار ہو جاؤ میرا لنڈ کھانے کے لیے اور یہ کہہ کر پورا لنڈ باہر نکال لیا، میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ اچانک مجھے اسکا سخت لنڈ اپنی چوت پر محسوس ہوا اسکے بعد بس ایسا لگا جیسے میری چوت پھٹ گئی ہے اور تکلیف کی انتہا تھی اسکا لنڈ آدھا میری چوت میں داخل ہوچکا تھا وہ بھی چہرے سے پریشان لگ رہا تھا ، پھر اس نے میری جانب دیکھا اور پیاربھرے انداز میں بولامیری بلبل تھوڑا برداشت کر لے پھر مزے ہی مزے کرنا۔ میں سمجھ رہی تھی اس کی بات کو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا مگر یہ تکلیف کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ خیر تھوڑی دیر میں تکلیف کم ہونا شروع ہوئی اتنی دیر وہ میرے جسم کو بری طرح جگہ جگہ سے کاٹتا رہا اور مجھے مست کرتا رہا ، اب میں نے اسکا منہ اپنے مموں سے ہٹایا جہاں وہ کاٹ رہا تھا وہ میرا مطلب سمجھ گیا اور لنڈ کو تھوڑا باہر کر کے پھر سے اندر کیا اور میرے چہرے کے تاثرات کو دیکھنے لگا اسکو میرے چہرے پر سکون نظر آیا تو وہ ایک بار پھر جنگلی کا روپ دھار گیا اور اس بار ایک ہی جھٹکے میں پورا لنڈ میری چوت میں داخل کردیا مجھے شدید تکلیف اپنی چوت اور پیٹ میں محسوس ہوئی اسکا لنڈ میری بچہ دانی کو ٹھوک رہا تھا۔ جس سے مجھے تکلیف ہورہی تھی۔ مگر اب کی بار وہ نہیں رکا اور لنڈ کو اندر باہر کرنے لگا اسکا لنڈ رگڑتا ہوا اندر باہر ہورہا تھا ایسا لگتا تھا جیسے ابھی تک میری چوت اسکے قابل نہیں ہوئی۔ مگر ذرا دیر کی کوشش کے بعد میری چوت پورا پورا ساتھ دینے لگی۔میری فارغ ہوچکی تھی جس سے میری چوت پوری گیلی ہوگئی تھی اور وہ اب شڑاپ شڑاپ میری چوت کو چود رہا تھا، اب میں بے مزے کی بلندیوں کا سفر کرنے لگی مگر وہ تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور مسلسل مجھے چودے جارہا تھا۔میں سانسیں بے ترتیب تھیں اور بری طرح اچھل رہی تھی میں ہر ہر جھٹکے پر۔ وہ تو لگتا تھا جیسے صدیوں سے بھوکا ہے اس بری طرح مجھے چود رہا تھا کہ بس مگر اسکی اس چدائی میں جو مزہ تھا وہ کبھی میرے شوہر نے نہیں دیا تھا۔ پھر اس نے مجھے کمر کے نیچے دونوں ہاتھ ڈال کر اٹھایا اور گود میں بٹھا لیا اب اسکا پورا لنڈ میری چوت میں اور میں اسکی گود میں بیٹھی تھی یوں سمجھ لیں کہ اسکے لنڈ کی سواری کر رہی تھی۔ میرے بڑے بڑے ممے اسکے چوڑے سینے سے دب کر پچکے ہوئے تھے اور میرے مموں سے دودھ نکل کر اسکے سینے پر لگ گیا تھاوہ اچھال اچھال کر مجھے اس بری طرح چود رہا تھا کہ میرا برا حال تھا مگر میں اس سب کو روک نہیں سکتی تھی مجھے تو اب چدنا ہی تھا چاہے وہ کیسے بھی چودے۔ تھوری دیر اسی طرح چودنے کے بعد اور مجھے بے حال کرنے کے بعد اس نےلنڈ باہر نکالا اور مجھے دوبارہ سے بیڈ پر لٹایا مگر کروٹ سے اور بیڈ کے کنارے پر پھر میری ایک ٹانگ اپنے کندھے پر رکھی اور اپنی ایک ٹانگ نیچے زمین پر پھر اسکے بعد اس نے دوبارہ سے اپنا ڈنڈا میری چوت میں ایسے ڈالا جیسے وہ اسی کے لیے بنی ہو اور وہ ہی اسکا مالک ہو۔ بس اب کی بار ایک اور نیا مزہ تھا میں اس دوران پتہ نہیں کتنی بار فارغ ہوچکی تھی مجھ میں مزاحمت کی ہمت بھی نہیں تھی اسکا لنڈ اند ر کیا گیا میں پھر سے نشے کی کیفیت سے دوچار ہونے لگی۔ اب اسکا ایک ہاتھ میں گانڈ پر تھا اور ایک ہاتھ میرے ایک ممے کو دبوچے ہوئے بری طرح مسل رہا تھا ذرا دیر بعد میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی ایک انگلی اپنے منہ میں لی اور اچھی طرح اس پر اپنا تھوک لگایا پھر اس کو میری گانڈ میں داخل کردیا میں ایکدم سے اچھل پڑی کیونکہ آج تک میں نے خود کبھی اپنی گانڈ میں انگلی نہیں کی تھی ایک مرد کی انگلی سے تو کرنٹ لگنا ہی تھا۔اور میرے شوہر نے تو صرف میرے کولہوں کو چوما تھا کبھی میری گانڈ نہیں ماری تھی۔ مجھے اسکے ارادے کا اندازہ ہوا تو خوف سے میری حالت خراب ہونے لگی۔مگر اگلے ہی سیکنڈ اسکا لنڈ کے جھٹکوں سے میں سب بھول کر صرف اسکے لنڈ کو اپنی چوت میں محسوس کر کے مدہوش ہوتی رہی۔ اب اس نے سب چھوڑ کر پورالنڈ اندر ڈال کر میرے اوپر لیٹ گیا اور مجھے کمر کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر کس کے دبوچ لیا اب فارغ ہونے کی باری اسکی تھی۔ پھر اس کے لنڈ نے کھولتا ہوا لاوا اگلنا شروع کیا اور مجھے ایسا لگا جیسے میرے جسم کی حرارت بڑھ رہی ہے اور میں ذرا دیر میں پگھل کر پانی بن جاؤں گی۔اسکا لنڈ تقریبا دومنٹ تک لاوا اگلتا رہا۔ اس نے اپنی منی کا آخری قطرہ تک میری چوت کی نذر کردیا۔ اور پھر اسی طرح لیٹا رہا اور لمبے لمبے سانس لیتا رہا۔میں تقریباً بے ہوش ہونے کے قریب تھی۔میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ پھر وہ میرے اوپر سے ہٹ گیا اور کہنے لگا ایسا مزہ مجھے میری بیوی نے پہلی رات دیا تھا اسکا بھی ایسا ہی حال کیا تھا میں نے۔ اب مجھ میں تھوڑی طاقت پیدا ہوئی تو دیکھا اسکا لنڈ میری چوت کے خون سے تر تھا شاید میری چوت پھٹ چکی تھی۔اس بری طرح میں کبھی نہیں چدی تھی۔
پھر وہ اٹھ کر میرے روم کے باتھ روم میں گیا اور اپنا لنڈ دھو کر واپس آیا اور مجھ سے کہا اٹھو اور میرا لنڈ منہ میں لو اب تمہاری گانڈ کی باری ہے ، میں یہ سنتے ہی چیخنے لگی نہیں ایسا مت کرو دوبارہ میری چوت مار لو مگر مجھے گانڈ سے مت چودو مگر اس نے میرا انکار سن کر ایک زوردار تھپڑ میرے چہرے پر رسید کیااور کہا پٹھان سے چدوانے کا شوق ہے تو سب برداشت کرو اب۔اسکا تھپڑ اتنا زور دار تھا کہ آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئے میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے پھر میں نے دل میں سوچا اگر اس جنگلی کو مزید انکار کیا تو یہ مار مار کر بھرتا نکال دے گا اور کرے گا اپنی مرضی ، خود اس مصیبت کو دعوت دی ہے اب بھگتنا تو پڑے گا۔ یہ سوچ کر میں نے پھر سے اسکا لنڈ منہ میں لیا نہ جانے کس مٹی کا وہ بنا تھا اور کیا وہ کھاتا تھا اسکا لنڈ اس تیزی سے دوبارہ سخت ہوا جیسے ابھی کچھ کیا ہی نہیں تھا اس نے۔مگر میں اسکے سائز سے خوفزدہ تھی یہ میری گانڈ میں جاکر تو برا حال کرے گا میرا۔ پھر اس نے کہا فکر مت کر میری بلبل بہت خیال سے تیری گانڈ ماروں گا۔ میں سمجھ چکی تھی کتنا خیال کر سکتا ہے وہ جنگلی۔مگر اب میں کچھ کر نہیں سکتی تھی آخر کار اس نے مجھے چدائی کا وہ مزہ دیا تھا جس کے لیے ساری زندگی ترسی تھی میں۔اب اسکو گانڈ دینے میں کوئی حرج تو نہیں تھا مگر فکر تکلیف کی ہی تھی۔اس نے مجھے ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا میری ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھی وہ مجھے سہاارا دے کر چلاتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل تک لایا اور کہا آگے جھکو اور دونوں ہاتھ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھومیں نے ایسا ہی کیا اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے ایک کریم اٹھائی اور ہاتھ پر لگا کر اچھی طرح میری گانڈ پر مل دی اسکے اس طرح ملنے سے مجھے مزہ آرہا تھا۔اب وہ ہی کریم اس نے اپنے لنڈ پر بھی ملی اور پھر مجھے کہا تھوڑا اپنی گانڈ کو اونچا کرو میں نے ایسا ہی کیا اب اسکا لنڈ میری گانڈ پر دستک دے رہا تھا اس نے تھوڑا سا زور لگایا اور میری تکلیف کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا اسکا لنڈ ابھی تھوڑا سا ہی اندر گیا تھا کہ میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو نکل کر ٹیبل کو گیلا کرنے لگےمگر وہ جیسے ان سب باتوں سے لاپرواہ تھا نہ اسے میرے رونے کی آواز اور نہ میرے آنسو رکنے پر مجبور کر رہے تھے۔اس نے مزید وقت ضائع کیا نہ میری جانب دیکھا بس شروع ہو گیا میری گانڈ کا سوراخ چوڑا کرنے میں۔ اس کے زور دار دھکوں سے میرا سر بار بار ڈریسنگ ٹیبل سے ٹکرا رہا تھا۔ اب اسکا پورا لنڈ میری گانڈ میں راج کر رہا تھا اور میں تکلیف کی شدت کو روکتے روکتے اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی۔ پھر اس نے دیکھا کہ اس طرح مزہ نہیں آرہا تو مجھے حکم دیا کہ میں فرش پر گھٹنے رکھ کر اپنا پورا جسم بیڈ پر ڈال دوں اور اس طرح وہ میرے پیچھے دوبارہ سے آیا اور ایک بار پھر سے اپنا لنڈ میری گانڈ میں ڈالا اور دوبارہ سے جھٹکے دینا شروع ہوگیا، اب کی بار تقریباً بیس منٹ تک مسلسل جھٹکے دینے کے بعد وہ میری گانڈ میں فارغ ہوا میرا حال یہ تھا کہ میں خود سے کھڑی بھی نہیں ہوسکتی تھی ۔ اس نے ہی مجھے بیڈ پر لٹایا اور مجھے زور دار پپیاں دینے کے بعد اپنے کپڑے پہن کر اپنے قالین اٹھا کر چلا گیا ۔ میں نے ہمت کر کے درازہ لاک کیا اور واپس کسی طرح لڑکتی ہوئی آکر بیڈ پر ڈھیر ہوگئی۔ پتہ نہیں کتنی دیر اسی طرح پڑی رہنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ میرا بیٹا نہ اٹھ گیا ہو میں نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور جا کر دیکھا تو میرا بیٹا سو رہا تھا۔ میں باتھ روم گئی اور خود کو اچھی طرح صاف کیا اور پھر روم میں آکر ایک ٹیبلیٹ کھائی جو کہ برتھ کنٹرول ٹیبلیٹ تھی۔ میرے شوہر ابھی اور بچہ نہیں چاہتے تھے لہٰذا ہم لوگ اس طرح اس پروگرام پر عمل کر رہے تھے۔
اگلے دن پھر اسی وقت وہ پٹھان پھر سے آیا اور ایک بار پھر مجھے سیکس کا بھرپور مزہ دے کر گیا مگر اس بار میں نے اس سے شرط رکھی کہ تم میری گانڈ میں اپنا لنڈ نہیں ڈالو گے۔ وہ بھی مان گیا اور صرف میری چوت کو ہی اپنی گرم منی سے بھر کر چلا گیا۔ بس پھر کیا تھا مجھے تو مزے لگ گئے اب شوہر نہ بھی ہو تو مجھے بہت مزے سے چودنے والا مل گیا تھا ، مگر ایک دن اس نے کیا کیا کہ وہ اپنے ساتھ دو اور پٹھانوں کو بھی لے آیا اور ان تینوں نے مل کر مجھے بہت بری طرح چودا اس دن میرا حال ایسا تھا کہ جیسے میں مر جاؤں گی میرے بدن میں بالکل جان نہیں تھی۔ اگلے دن پھر وہ پٹھان آیا مگر میں نے اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا بلکہ اسکو چلتا کیا ۔ پھردن تک وہ مسلسل آتا رہا مگر میں نے اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا پھر کچھ مہینے بعد میرے شوہر کا تبادلہ پھر کسی اور جگہ ہوگیا۔ پھر نہیں معلوم وہ اتنے زبردست لنڈ والا پٹھان کدھر گیا۔