Showing posts with label BOYS STORIES(Free). Show all posts
Showing posts with label BOYS STORIES(Free). Show all posts

یوں ہی۔راہ چلتے

 

 


یوں ہی۔راہ چلتے

نعیم بہت تیزی سے گاڑی بھگا رہا تھا ، سو کے قریب سپیڈ والی سوئی چلی گئی تھی ، نعیم اکیلا ہی تھا وہ گاڑی کو چیک کر رہا تھا کہ اب انجن کیسا کام کر رہا ھے پہلے گاڑی پچاس تک بڑی مشکل سے پہنچتی تھی لیکن اب گاڑی ایسے تھی جیسے زیرو میٹر ، میٹر کی سوئی ایک سو بیس تک جا رہی تھی -نعیم پنجاب پولیس میں ایک ڈرائیور تھا ، آج صبح وہ ڈیوٹی پہ واپس آیا تھا تو اسے پتا چلا تھا کہ کل گاڑی کا کام کروایا گیا ھے اس لئے وہ چیکنگ کے لئے نکلا تھا باقی ملازم ابھی ناشتہ کر رہے تھے اس لئے وہ اکیلا ہی تھا – نعیم چیکنگ کے بعد نارمل سپیڈ سے واپس پولیس سٹیشن آ رہا تھا کہ نہر کے پاس اسے کچھ لوگوں نے رکنے کا اشارہ کیا ، نعیم نے گاڑی روکی تو لوگوں نے اسے بتایا کہ ایک لڑکی خودکشی کرنے لگی تھی اور ہم نے اسے پکڑ رکھا ھے لیکن ہمیں وہ گالیاں دے رہی ھے ، نعیم نے لڑکی کا پوچھا تو وہ ایک طرف کھڑی تھی اور دو تین مرد اس کے اردگرد کھڑے تھے ، نعیم نے لڑکی کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا تو وہ گاڑی کے دروازے کے پاس آ گئی – نعیم نے پوچھا کیوں خودکشی کرنے لگی تھیں ؟ وہ آگے سے خاموش رہی نعیم نے لوگوں سے پوچھا کہ اسے روکا کس نے تھا ؟ تو ایک آدمی آگے آیا ،بقول اس کے “کہ لڑکی نے جوتا اتارا اور اپنا دوپٹا اتار کر پل کی دیوار پر رکھا اور دیوار پر چڑھنے لگی تو میں نے اسے پکڑ لیا “-نعیم نے پوچھا تم اس وقت اس کے پاس کیسے پہنچے ؟میں وہاں سے گزر رہا تھا میری نگاہ اس پر تب پڑی جب یہ پل پر کھڑی ہوئی ، میرے سامنے اس نے دوپٹا اتارا اور جب جوتا اتار کر اوپر دیوار پر چڑھنے لگی میں اس وقت قریب پہنچ گیا تھا اور اسے پکڑ لیا، اس آدمی نے تفصیل بتائی –نعیم نے لڑکی سے دوبارہ پوچھا کہ کس وجہ سے مرنے لگی تھیں لیکن وہ خاموش رہی -نعیم نے لڑکی کا جائزہ لیا اس کے اندازہ کے مطابق لڑکی کی عمر لگ بھگ بائیس سال تھی اور وہ ایک قبول صورت لڑکی تھی ، سانولہ رنگ ، پتلے پتلے ہونٹ ، اور بھاری چھاتی مطلب کہ نسوانی حسن سے مالا مال تھی اور قد بھی عام عورتوں سے تھوڑا نکلتا ہوا تھا اسے کسی حد تک خوبصورت سمجھا جا سکتا تھا جب نعیم نے دیکھا کہ وہ خاموش ھے اور اس کے سوالوں کا جواب نہیں دے رہی تو اس نے لوگوں سے پوچھا کہ کوئی اس کو جانتا ھے ؟ تو سب نے نفی میں جواب دیا نعیم نے اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا تو وہ پیچھے بیٹھ گئی ، نعیم نے لوگوں سے پوچھا ساتھ میں کون جائے گا بطور گواہ ؟کسی نے بھی ساتھ جانے کی حامی نہ بھری ،لوگ پولیس سے ایسے ڈرتے ہیں جیسے بواسیر والا بندہ سالن میں تیز مرچوں سے ،نعیم نے جب دیکھا کہ ساتھ کوئی بھی نہیں جائے گا تو اس نے لڑکی کو آگے افسر والی سیٹ پہ بلا لیا مبادہ پیچھے سے کہیں کود ہی نہ جائے –لڑکی نعیم کے ساتھ بیٹھ گئی اور نعیم نے گاڑی آگے بڑھا دی ، نعیم نے اس کی طرف دیکھا وہ خاموشی سے ہونٹ کاٹ رہی تھی ، نعیم کی نگاہ اس کی چھاتی پر پڑی جس پر دوپٹا ہٹا ہوا تھا ، لڑکی کی تگڑی چھاتی دیکھ کر نعیم کی پینٹ میں تھوڑی ہلچل ہوئی اور اس کے سات انچ لمبے موٹے لن میں اکڑاہت پیدا ہونا شروع ہو گئی ، نعیم نے اپنا ہاتھ گئیر سے اٹھا کر اپنے لن پہ رکھا اور اسے مسلنے لگا ، لڑکی نے کن آنکھیوں سے نعیم کے ہاتھ کی طرف دیکھا جس سے اس نے اپنا لن پکڑا ہوا تھا اور اسے مسل رہا تھانعیم نے جب دیکھا کہ لڑکی نے اسے لن مسلتے دیکھ لیا ھے تو اس نے اپنا ہاتھ وہاں سے اٹھا کر سٹئیرنگ پر رکھ لیا –اس نے لڑکی سے اس کا نام پوچھاسونیا لڑکی نے آہستہ سے جواب دیانعیم نے اس سے پوچھا کیوں مرنا چاہتی ہو ؟سونیا نے کوئی جواب نہیں دیا سونیا خاموش تھی لیکن نعیم کے ذہن پر سیکس سوار ہو چکا تھا اور اس کے ذہن پر شیطانیت چھا چکی تھیاس نے سونیا کی طرف دیکھا اس کی جاندار چھاتی اب بھی علیحدہ ہی نظر آ رہی تھی دوپٹا ہٹا ہوا تھا ، نعیم نے دوبارہ سے پوچھا سونیا کیوں خودکشی کرنے لگی تھیں ؟امی سے لڑائی ہوئی تھی اسلئے مرنا چاہتی تھی سونیا نے اھستگی سے جواب دیا،ابھی تمہاری عمر ہی کیا ھے ، تم نے ابھی دیکھا ہی کیا ھے اس دنیا میں ؟(نعیم کا ہاتھ سٹیئرنگ سے گئیر پر ) یہ دنیا بہت خوبصورت ھے تمہیں شاید ابھی اس کا احساس نہیں ھے – یہ کہتے ہوئے اس کا ہاتھ سونیا کے ران پر رینگ گیاسونیا کی نرم ران پر نعیم کا ہاتھ آھستگی سے حرکت کرنے لگا ، سونیا ایسے تھی جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو ، اس کی طرف سے کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں تھی کوئی روک نہیں تھی لیکن چہرے پہ اقرار کا بھی کوئی شائبہ تک نہیں تھا ایسے لگتا تھا جیسے اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس قسم کا ردعمل ظاہر کرے گھر سے وہ خودکشی کرنے نکلی تھی اور پھر پولیس کی گاڑی میں پولیس والا اپنی حد سے بڑھ رہا تھا لیکن دماغ پہ بےحسی چھائی ہوئی تھی لیکن اس کی بے حسی اسوقت ختم ہو گئی جب نعیم کا ہاتھ اھستگی سے اس کی رانوں کے درمیان اس کے سوراخ کی طرف بڑھا اور اس کے سوراخ کے دیواروں کو نعیم کی انگلیوں نے چھوا تو اس کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور کرنٹ کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی اور سونیا نے بے اختیار نعیم کا ہاتھ پرے دھکیل دیا سونیا ہوش کی دنیا میں واپس آ چکی تھی -‏ نعیم نے اس کی طرف سے مزاحمت محسوس کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی رانوں کی طرف دوبارہ نہ بڑھایا –نعیم پہلے اسے باتوں سے رام کرنا چاہتا تھا اسے پتا تھا کہ یہ ابھی جذباتی ھے اور خودکشی کرنے آئی تھی ایسے میں کوئی مسلئہ ہی کھڑا نہ کر دے اور اسے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں –نعیم نے صدیوں پرانا عورتوں کے لئے بنا ہتھیار استمال کرنے کا فیصلہ کیا جس سے عورت عام طور پر چت ہو جاتی ھے جی ہاں آپ صحیح سمجھے اس ہتھیار کا نام ھے تعریف –سونیا تم بہت حسین ہو ، تمہارا حسن ہی ایسا ھے کہ زاہد بھی گناہ پر آمادہ ہو جائے ، سوری sorry میں بہک گیا تھا نعیم نے سونیا پر تعریف کا جال پھینکتے ہوئے کہا –سونیا بالکل خاموش رہی اس نے کوئی جواب نہیں دیا –نعیم نے لاگ بک سے پنسل اور ورک لیا اور اس پر اپنا نمبر لکھ کر سونیا کی طرف بڑھایا ، یہ کہتے ہوئے کہ کسی قسم کا کوئی مسلئہ ہو تو تم اس نمبر پر رابطہ کر لینا میں آپ کی ہر طرح کی مدد کروں گا سونیا تم بہت پیاری ہو ، وہ زندگی جسے تم ختم کرنے جا رہی تھیں اسے میرے نام کر دو سونیا نے کوئی جواب نہیں دیا وہ خاموش بیٹھی رہی ، سونیا نے نعیم کے موبائل نمبر والا کاغذ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا ، نعیم نے سوچا سونیا سے پولیس سٹیشن میں کوئی اس کاغذ کے بارے میں ہی نہ پوچھ لے اور اس کا نمبر دیکھ کر اس کے ساتھی اس کا مذاق ہی نہ اڑائیں – نعیم نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے لیا – سونیا نے اس پر بھی کوئی ری ایکشن نہیں دیا اس دفعہ بھی خاموش تھی –نعیم نے اسے اپنا نمبر زبانی بتایااور دو تین دفعہ دوہرایا ، اس دوران پولیس اسٹیشن آ گیا اور نعیم سونیا کو لے کر انچارج کے کمرے میں چلا گیا – انچارج ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا اور شوگر کا مریض تھا اسلئے وہ عورتوں کو شہوت بھری نظروں سے دیکھنے کے قابل نہیں رہا تھا اس نے سونیا کو سرسری نظروں سے دیکھا اور نعیم سے پوچھا کہ یہ کون ھے ؟یہ خودکشی کرنے لگی تھی اور بس چند لمحے دیر ہو جاتی تو اس وقت یہ آپ کے سامنے کھڑی نہ ہوتی باجوہ صاحب نعیم نے انچارج کو بتایا – یہ نہر والے پل پر سے کودنے لگی تھی کہ ایک آدمی نے پیچھے سے پکڑ لیا اور میرے حوالے کر دیا میں اسے آپ کے پاس لے آیا ھوں باقی کی قانونی کاروائی آپ کی بوریت کا سبب بن سکتی ھے اسلئے حذف کر رہا ھوں لیکن ایک دلچسپ بات آپ کو بتاتا چلوں کہ خودکشی واحد جرم ھے جس کی تکمیل پر مجرم کو سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ کہ سزا زندہ افراد کے لئے ھے –لڑکی کا معاملہ تھا اسلئے اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی اور اسے اس کے والدین کے حوالے کر دیا گیا – ایک دو دن تک سونیا نعیم کے حواس پر چھائی رہی اور پھر ایک نائکہ کے پاس نئی آئی لڑکی کے ساتھ رات گزارنے کے بعد سونیا نعیم کے ذہن سے نکل گئی –اس واقعہ کے تقریبا دس سے پندرہ دن بعد رات دو بجے کے قریب نعیم کے موبائل پر ایک انجان نمبر سے کال آئی ، آواز لڑکی کی تھی –


آپ کون ؟ لڑکی نے نعیم سے پوچھا سونیا کی اپنی امی سے کسی بات پر تکرار ہوئی تھی اس کی امی نے سونیا کو گاؤں کی جاہل عورتوں کی طرح گالیاں دینا شروع کر دی ایک گالی نے سونیا کو جذباتی کر دیا کیونکہ اس کے دل میں چور تھا وہ اپنے کزن سے چدوا چکی تھی جب اس کی ماں نے اسے گشتی کہا تو نہ جانے کیوں سونیا کے دل پہ یہ گالی تازیانے کی طرح لگی اور وہ جذباتی ہو کر مرنے کے لئے گھر سے نکل آئی ماں نے سمجھا پاس پڑوس کے کسی گھر میں گئی ھے – سونیا نے نہر میں ڈوب کر مرنے کا سوچا اور نہر پہ چلی گئی اس کی زندگی ابھی باقی تھی عین اسوقت جب وہ چھلانگ لگانے کے لئے پل کی دیوار پر چڑھی تو اسے کسی نے پکڑ لیا اور وہ چاہنے کے باوجود بھی مر نہ سکی – لوگوں نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا – گاڑی میں پولیس والے نے پہلے اپنے لن کو ہاتھ میں لے کر مسلا تھا سونیا نے کن آنکھیوں سے اس کی ساری کاروائی دیکھی تھی اس کا موٹا لمبا لن پینٹ میں پھڑپھڑا رہا تھا اور اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا سونیا اس وقت گبھرائی ہوئی تھی وہ پولیس کی حراست میں تھی اور جو لڑکی ایک دفعہ تھانے کا چکر لگا لے تو اسے معاشرہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا وہ بہت پریشان تھی کیونکہ اب بدنامی اس کے ماتھے کا ٹیکہ بننے والی تھی وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ اسے اپنی رانوں پر پولیس والے کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا ، پریشانی نے اس کے ہوش اڑائے ہوئے تھے اس سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کیا کرےاس دوران پولیس والے کا ہاتھ اس کی چوت کے دانے سے ٹکرایا تو اس کے جسم نے ایک جھرجھری لی اور اس نے اس کا ہاتھ بے اختیار جھٹک دیا لیکن چوت کے دانے پر پولیس والے کے ہاتھ نے اس کے اندر کی عورت کو جگا دیا تھا وہ ساری پریشانی بھول چکی تھی اور دوبارہ سے پولیس والے کی طرف سے جسمانی چھیڑ چھاڑ کی منتظر تھی لیکن اس نے دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہ کی اور باقاعدہ اس سے معذرت کی ، جب اس نے سونیا کے حسن کی تعریف کی تو سونیا کی چوت میں کچھ کچھ ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن بات تعریف سے آگے نہیں بڑھی ، جب پولیس والے نے اسے نمبر والی پرچی دی تو سونیا خاموش رہی اور واپس لینے پر دل میں حیران بھی ہوئی تھی لیکن جب پولیس والے نے اپنا نمبر زبانی دہرایا تو اس کے ذہن میں یہ نمبر فکس ہو گیا تھا – اس وقت اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کا کسی قسم کا پولیس والے سے تعلق بنے گا تھانے سے جب اس کے ابو اسے گھر لائے تو گھر والوں نے بہت لعنت ملامت کی اور سونیا نے گھر والوں سے ایسے دوبارہ نہ کرنے کا وعدہ کر لیا –اسی رات سونیا سوئی تو خواب میں اس پولیس والے کو دیکھا – سونیا اور وہ سیکس کر رہے تھے اس کا موٹا تازہ لن جب اس کی چوت میں ایک جھٹکے سے داخل ہوا تو ایک چیخ سونیا کے منہ سے نکلی اور اس کی آنکھ کھل گئی سونیا کی چوت گیلی ہو چکی تھی اس کی ماں نے پوچھا کیا ہوا سونیا ؟خواب میں ڈر گئی تھی سونیا نے اپنی امی سے کہا – کمرے کی لائٹ آن on تھی اور سونیا اپنے بستر میں تھی، کوئی مشکوک بات نہ تھی اسلئے اس کی ماں نے کہا بیٹی کچھ پڑھ کر سویا کرو ، یہ کہہ کر اس کی ماں نے دوسری طرف کروٹ لے لی –لیکن سونیا کی نیند اڑ چکی تھی ، یہ نہیں تھا کہ سونیا نے پہلے کبھی سیکس نہیں کیا تھا، سونیا پہلے اپنے کزن کے ساتھ سیکس کر چکی تھی ،ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک دن سونیا کا کزن ان کے گھر آیا گھر میں کوئی نہیں تھا سوائے سونیا کے – سونیا کے کزن نے اس دن سونیا سے زومعنی مذاق کئے تھے لیکن عملی طور پر کوئی حرکت نہیں کی تھی ، سونیا جوان تھی تنہائی میں جب اس کا کزن آیا تو اس کا ذہن پراگندہ ہو گیا تھا اور وہ سیکس پر بھی آمادہ تھی لیکن کزن کی بدقسمتی کہ وہ نہ سمجھ سکا اور اس کے جانے کے بعد تھوڑی ہں دیر بعد اس کا دوسرا کزن آ دھمکا تھا اس نے تنہائی اور موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سونیا کے ممے پیچھے سے آ کر پکڑ لئے جب وہ کچن میں اس کے لئے چائے بنا رہی تھی سونیا نے معمولی سی مزاحمت کی اور پھر اس کی بانہوں میں سما گئی ، وہ سونیا کو کمرے میں لے گیا وہاں اس نے سونیا کے مموں کو اتنا چوسا تھا کہ اگلے دن تک بھی لالگی نہیں گئی تھی پھر جب اس نے سونیا کی شلوار اتار کر اس کی چوت پہ اپنا لن رکھا تھا تو سونیا کے جسم میں مزے کی لہریں گردش کرنا شروع ہو گئی تھیں اور مزے کی یہ لہریں اس وقت تھم گئیں جب سونیا کے کزن نے اس کی چوت کے سوراخ کو ایک جھٹکے سے کھول دیا اور اس کے کنوارے پن کی جھلی کو بیدردی سے پھاڑ دیا جس سے سونیا کو ایسے لگا تھا جیسے اس کی پھدی میں کسی نے کوئی تیر چھوڑ دیا تھا بے اختیار اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی اور پھدی سے خون تیز جھٹکوں سے سونیا کی بیدردی سے چدائی کی تھی جس میں مزا بالکل بھی نہیں اور صرف درد ہی درد تھا ، اس چدائی کے بعد سونیا نے سیکس سے توبہ کر لی تھی اور دوبارہ اپنے اس کزن کو موقع نہیں دیا تھا – پولیس والے نے دو سالوں کے بعد دوبارہ سے اسے کے جسم کی آگ پر تیل پھینک دیا تھا اور وہ دوبارہ سے سیکس کے لئے آمادہ ہو گئی تھی ، اس کے پاس پولیس والے کا نمبر تھا لیکن بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی لیکن پھر ایک رات اس نے پولیس والے کا نمبر ڈائل کر ہی دیا ، پولیس والے سے سونیا نے پوچھا آپ کون؟نعیم لڑکی کی آواز وہ بھی رات میں سن کر حیران رہ گیا ، اس نے کہا میں نعیم ھوں –آپ ؟سونیا نے کہا میں بتاتی ھوں پہلے آپ بتاؤ آپ جاب کیا کرتے ہیں ؟میں پولیس میں ہوتا ھوں –میں سونیا جس کو آپ نہر والے پل سے پولیس سٹیشن لے کر گئے تھے –اچھا وہی خودکشی والی ؟جی میں وہی ھوں ؟ سونیا نے کہا –نعیم آپ کیسی ہیں ، آپ تو جا کر بھول ہی گئیں ؟اگر بھولی ہوتی تو کال کیسے کرتی آپ کو ؟ آپ سنائیں پولیس والے کیسے ہیں آپ ؟میں ٹھیک ھوں آپ سناؤ ؟میں بھی ٹھیک ھوں ، ویسے آپ بہت شرارتی ہیں پولیس والے ، سونیا نے کہا – اسطرح نعیم اور سونیا میں دوستی ہو گئی ، یہ دوستی بے تکلفی میں بدل گئی اور پھر نعیم نے سونیا سے پوچھا ،جان و نعیم آپ کا نمبر کیا ھے ؟سونیا ہنستے ہوئے جوتے کا ؟نعیم نے بھی ایک قہقہ لگایا اور کہا نہیں جی آپ کی نرم و گداذ چھاتی کا –سونیا : آپ نے کب اس کا گداذ دیکھا؟ دیکھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور دور سے ہی پہچان لیتے ہیں آپ تو بالکل میرے ساتھ بیٹھیں تھیں گاڑی میں اور دوپٹہ بھی ہٹا ہوا تھا ، سچ پوچھو تو اس دن آپ کی چھاتی دیکھ کر ہی میرے بدن میں گرمی چڑھ آئی تھی نعیم نے کہا –سونیا نے کہا جی مجھے پتا ھے آپ بہت بدتمیز ہو ، ویسے آپ کی نوکری بہت مزے کی ھے –جی ہاں بہت مزے کی ھے – بیس ہزار تنخواہ ھے گھر کا ماہانہ خرچ بچوں کی فیس، بجلی گیس کا بل بھی ان بیس ہزار میں ، بیوی بچے بیمار ہو جائیں تو ان بیس ہزار میں سے ہی علاج کروانا پڑتا ھے ، والدین میں سے کوئی بیمار ہو تو بھی ان بیس ہزار میں علاج کروانا پڑتا ھےحکومت نے کوئی سہولت نہیں دی ایک تنخواہ کے علاوہ اور تنخواہ بھی اتنی زیادہ کہ دس دن نہیں چلتی ، مزے کی بات یہ ھے کہ بنک والے بھی پولیس کو لون loan نہیں دیتے بہت سارے پولیس والوں کے گھر والے اس لئے مر جاتے ہیں کہ ان کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں ہوتے اور حکومت کی طرف سے ایسی کوئی سہولت بھی نہیں ھے کہ اپنا یا گھر والوں کا علاج کروا سکیں ، نعیم کی تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ درمیان میں سونیا بول پڑیپولیس والے تم تو سرئیس ہی ہو گئے میں نے تو ایسے ہی بات کی تھی میں بھی آپ کو ایسے ہی بتا رہا ھوں تاکہ تمہیں پتا چل سکے کہ ہم کتنے مزے میں ہیںنعیم نے سونیا سے کہا اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے : بس سونیا مجبوری میں نوکری کر رہے ہیں ورنہ کوئی حال نہیں پولیس والوں کا ، ہم سے تو ریڑھی والے اچھے ہیں جو اپنی مرضی تو کر سکتے ہیں ہم عید والے دن بھی ڈیوٹی پہ ہوتے ہیں گھر والوں کے ساتھ عید بھی نہیں منا سکتے ،پولیس والے اب بس بھی کرو سونیا نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ،نعیم ذرا پھر سے کہناکیا ؟ سونیا نے پوچھا –پولیس والےآپ کے منہ سے بہت اچھا لگتا ھے ایک دم سٹائلس نعیم نے کہا ،پولیس والے ،پولیس والے ،پولیس والے ،پولیس والے ،پولیس والے ، سونیا نے ایک ہی سانس میں چار پانچ دفعہ بول دیا –نعیم ایسے نہیں ، تو پھر کیسے سونیا نے کہا ؟ نعیم چھوڑو ان باتوں کو – میں نے تم سے تمہارا نمبر پوچھا تھا ؟ چھتیس کا برا پہنتی ھوں سونیا نے کہا،وڈے وڈے ممے پتا نہیں کب ہاتھ میں آئیں گے ؟ نعیم نے اسکی چدائی کے عزائم ظاہر کرتے ہوئے کہاسونیا اور نعیم بے تکلفی سے آگے نکل چکے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کرنا چاہتے تھے اسلئے وہ دونوں بہت بولڈ ہو چکے تھے – سیکس جذبات کا اظہار فون پر اور سیکس کی خواہش پوری کرنے کے ایکدوسرے سے ملنے کے لئے انہیں بے چین کیے ہوئے تھی نعیم نے اس کے ممے پکڑنے کی خواہش کا اظہار سونیا سے اسلئے کیا تھا تاکہ واضح ہو سکے کہ سونیا کی چوت سے لطف اٹھانے کے لئے اسے کتنا انتظار کرنا پڑے گا – میرے ممے تمہارے ہاتھ میں کیوں پولیس والے ؟ سونیا نے مسکراتے ہوئے کہا –سونیا ہاتھوں میں نہیں تو پھر منہ میں سہی ، اب تو کوئی اعتراض نہیں ؟ نعیم نے بے تکا سا جواب دیا –سونیا نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا پولیس والے بہت جلد میں تم سے ملنے آؤں گی ،ایسے ہی باتوں سے نعیم اور سونیا کا وقت گزرتا رہا اور پھر ایک دن سونیا نے نعیم سے کہا ،میں کل بازار آ رہی ھوں اپنی سہیلی کے ساتھ ، اس نے بھی اپنے یار سے ملنا ھے ، ہم کل صبح دس بجے گھر سے نکلیں گی اور رکشہ سے صدر چوک اتریں گی ، تم سوا دس بجے صدر چوک میرا انتظار کرنا – نعیم نے اسے دس بجے صدر چوک ملنے کا وعدہ کیا نعیم کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے سونیا نے بالاخر ملنے کا ٹائم دے دیا تھا ، نعیم نے اپنے دوست کو فون کیا کہ یار مجھے کل اپنے فلیٹ کی چابی دیتے جانا – فراز نعیم کا دوست تھا جو ایک کچی آبادی میں کرائے کے کمرے میں رہتا تھا اور بس کنڈکٹر تھا وہ صبح چھ بجے نکلتا تھا اور شام آٹھ بجے واپس آتا تھا ، نعیم کی اس سے دوستی ایک ایکسیڈنٹ کے دوران ہوئی تھی جب فراز کی بس سے ایک موٹر سائیکل سوار ٹکرا کر زخمی ہوا تھا اور بات پولیس تک پہنچ گئی تھی – وہاں نعیم کو پتا چلا کہ فراز اکیلا رہتا ھے نعیم خود ایک رنگین مزاج اور عیاش انسان تھا اسلئے اس نے بس والوں کی فیور کی اور اسطرح فراز سے دوستی کر لی ، بعد میں کافی دفعہ نعیم نے اس کے فلیٹ میں رنگ رلیاں منائی تھیں اور سونیا کی چدائی بھی فراز کے فلیٹ میں کرنے والا تھا رات سونیا اور نعیم کی باتیں صبح کی ملاقات سے متعلق رہیں ، سونیا تھوڑا بہت ڈر رہی تھی جبکہ نعیم اس کا ڈر ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا ،یہ لن پھدی کا کھیل ایسا ھے جس میں بہت زیادہ رسک ہوتا ھے لیکن کوئی پروا نہیں کرتا ، یہ لڑکی کی قسمت ہے کہ اس کے ساتھ دھوکہ نہ ہو ورنہ تو لڑکی ملنے ایک سے جاتی ھے اور آگے چار لڑکے ہاتھ میں لن لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور پھر کئی دن چوت کی ٹکور کرتی رہتی ھے ، کبھی ایسا ہوتا ھے کہ چدائی کے دوران اوپر سے کوئی آ گیا اور لڑکی بدنام – آج تک کسی کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ایک لڑکی دن کو کاکروچ سے ڈر جاتی ھے لیکن رات میں اکیلی دو میل پیدل لڑکے سے ملنے چلی جاتی ھے ، یہ پھدی عورت کا ڈر کیسے ختم کر دیتی ھے ؟اگلے دن دس بجے سے پہلے ہی نعیم صدر چوک پہنچ گیا ، تھوڑی دیر بعد سونیا اپنی سہیلی کے ساتھ رکشہ سے اتری تو نعیم اس کی طرف چل دیا ، سونیا نے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور بہت تازہ دم لگ رہی تھی ، نعیم نے سونیا کو ساتھ لیا اور بائیک پر پیچھے بٹھا کر چل پڑا – سونیا پولیس والے کیا حال چال ہیں ؟نعیم نے کہا میں بالکل ٹھیک ٹھاک ھوں تم سناؤ ؟پولیس والے میں بھی ٹپ ٹاپ ھوں ، تم کب پہنچے صدر چوک ؟ سونیا نے پوچھا –نعیم دس بجے سے چند منٹ پہلے –واہ ! کیا بات ھے پولیس وقت سے پہلے پہنچ گئی یہ تو معجزہ ہو گیا ورنہ تو پولیس تو ہمیشہ لیٹ پہنچتی ھے سونیا نے ہنستے ہوئے کہا-پولیس وقت پہ پہنچ جائے تو مصیبت اگر لیٹ پہنچے تو بھی مصیبت نعیم نے کہا –سونیا وہ کیسے ؟ اگر کسی ڈاکو کو مار دیں بیشک وہ اشتہاری ہو تو عدالت نے یہ نہیں دیکھنا کہ اس پر پہلے سے پچاس پرچے تھے اس نے پولیس سے یہی کہنا ھے کہ ڈاکو نے فائرنگ کی تو کوئی پولیس والا نہیں مرا اور پولیس کی فائرنگ سے ڈاکو مر گیا یہ جعلی مقابلہ ھے – پھر انکوائریاں بھگتو اور عدالت میں خجل علیحدہ سے اور بہت کم افسر ساتھ دیتے ہیں –اگر پولیس والا مر گیا تو اس کے بیوی بچے رل جاتے ہیں محکمہ دوبارہ اس کے گھر والوں کو پوچھتا تک نہیں ، اس سے بہتر ھے کہ بندہ لیٹ پہنچے ، ڈاکو کبھی نہ کبھی ہاتھ لگ ہی جانے ہیں لیکن یہ زندگی نہیں – نعیم کی تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ سونیا نے اپنی چھاتیاں نعیم کے جسم سے لگاتے ہوئے کہا پولیس والے ایک تو تم سٹارٹ ہو جاؤ تو رکنے کا نام نہیں لیتے اب یہ فضول گفتگو ختم کرو کوئی اور بات کرو –سونیا کے نرم و گداذ چھاتیاں جیسے ہی نعیم کے جسم سے ٹکرائیں تو اس کے جسم میں لذت آمیز لہریں حرکت کرنے لگیں اور وہ لیکچر بھول گیا نعیم نے اپنا جسم پیچھے کر کے اس کی چھاتیاں دبائیں تو سونیا اس سے مزید چپک گئی ، ایسے ہی ایکدوسرے کو اپنے جسموں کا احساس دلاتے ہوئے وہ فراز کے کمرے میں پہنچ گئے –کمرے میں ایک سنگل بیڈ ، ایک پرانا سا صوفہ سیٹ اور کچھ گھریلو استمال کی چیزیں تھیں –سونیا صوفہ پر بیٹھ گئی اور نعیم نے اندر سے کمرے کی چٹخنی لگا دی ، چٹخنی لگاتے ہوئے نعیم کے ہاتھ اندرونی جوش سے ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے ، چٹخنی لگانے کے بعد نعیم بھی صوفہ پر سونیا کے ساتھ بیٹھ گیا – آنے والے لمحات کا سوچ کر سونیا کا جسم بھی ہولے ہولے کانپ رہا تھا –


 نعیم سونیا کے قریب ہوتے ہوئے سونیا سے رومانٹک لہجے میں کیسی ہو میری جان ؟سونیا جذبات کی شدت سے لرزتی آواز میں “میں ٹھیک ھوں نعیم نے اپنا ایک ہاتھ اس کی ران پر رکھتے ہوئے سونیا سے کہا ” آج تم سے میری ملاقات والا سپنا پورا ہو رہا ھے (اس دوران اس کی ران پر آہستہ آہستہ انگلیاں پھیرنا شروع کر دیں) مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم میرے ساتھ ہو ، آج کا دن میری زندگی کا حسین ترین دن ھے کہ دنیا کی خوبصورت لڑکی مجھ سے ملنے آئی ھے ،“آئی لو یو سونیا “ نعیم نے یہ کہتے ہوئے سونیا کو سر کے پیچھے گردن پر ہاتھ ڈالتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دئیے ، نعیم نے سونیا کے ہونٹوں کو آہستہ آہستہ چومنا شروع کر دیا اس کا اوپر والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا ، نعیم نے اپنی زبان سونیا کے منہ میں کرنے کی کوشش کی تو سونیا نے اپنے دانت جوڑ لئے اور منہ بند کر لیا ، سونیا کو شاید لپس کسنگ پسند نہیں تھی نعیم نے سونیا کے رویہ سے اندازہ لگا لیا اسلئے اس نے سونیا کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کر لئے اور اسے اپنے بازؤں میں اٹھا کر بیڈ پر لے آیا – بیڈ پر سونیا کو لٹا کر خود اس کے اوپر لیٹ گیا ، سونیا کی چھاتیاں نعیم کے سینے میں دب گئیں اور نعیم سونیا کے چہرے کو چومنے لگا ، نعیم نے اس کی گالوں پر زبان کی نوک پھیرنی شروع کر دی جس سے سونیا کے جسم میں سرور پیدا ہونا شروع ہو گیا اور اس نے اپنا ہاتھ نعیم کے بالوں میں پھیرنا شروع کر دیا ، نعیم نے جب سونیا کی گردن پر اپنے ہونٹ لگائے اور اس کی گرم سانسیں سونیا نے اپنی گردن پر محسوس کیں تو سونیا کو ایسے لگا جیسے مزا اس کی رگ رگ میں سرایت کر گیا ھے نشے کی طرح اور جب نعیم نے اس کے کان کی لو کو ہونٹوں میں لیا اور دانتوں سے ھلکے سے دبایا تو اب کی بار سونیا یہ برداشت نہ کر سکی اور بالوں کو کھینچ کر اسے اپنی گردن اور کان سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن نعیم بھی پرانا پاپی تھا اور جان گیا تھا کہ سونیا سے اب مزا برداشت نہیں ہو رہا اور بہت زیادہ لطف محسوس کر رہی ھے تو اس نے سونیا کا ہاتھ بالوں سے نکالا اور اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اس کی انگلیوں میں پھنسا کر اس کے دونوں ہاتھوں کو جکڑ لیا اور پھر سے اس کی گردن اور کانوں چومنے لگا اور ان پر زبان پھیرنے لگا ، اب کی بار سونیا کی سانسیں تیز اور بھاری ہو گئیں اور ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کا سانس پھول گیا ہو ، سونیا کے منہ سے مزے سے بھرپور ھلکی ھلکی کراہیں نکلنا شروع ہو گئیں اور نعیم اور جوش سے سونیا کی گردن کو چومنے لگا ، نعیم کا چھ سات انچ کا لمبا اور موٹا لن مکمل تناؤ کی حالت میں آ چکا تھا اور سونیا کی رانوں پر چب رہا تھا ، سونیا نعیم کا تگڑا لن اپنی پھدی کے اردگرد محسوس کر رہی تھی جس کی چبن سے اس کی چوت مزید گیلی ہو رہی تھی نعیم سونیا کی گردن سے نیچے چوما چاٹی کرتے ہوئے آیا تو سونیا کے جسم پر ابھی بھی قمیض تھی اس نے سونیا کی قمیض اتارنے کا سوچا لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گیا ، اس نے سونیا کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس کی برا میں سے اس کی لیفٹ چھاتی باہر نکال لی ، اور اس کی براؤن نپل پر زبان کو ٹچ کرنے لگا جس پر سونیا مزے سے تڑپ اٹھی ، نعیم نے اس کی نپل ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا جس سونیا کے منہ سے آہ ، آہ ، او ، اں جیسی جنسی آوازیں خودبخود نکلنا شروع ہو گئیں اور سونیا نعیم کا سر اپنی چھاتی کی طرف دبانے لگی ، سونیا اس وقت مزے کی دنیا کی سیر کر رہی تھی ، نعیم کا لن تو کافی دیر سے کھڑا ہو چکا تھا اب اس سے مزید برداشت نہیں ہو پا رہا تھا اسلئے اس نے سونیا کی چدائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ، نعیم نے اس کی چھاتی چوسنے کے بعد اس کی شلوار کھینچی اور اسکی شلوار گھٹنوں تک نیچے آگئی نعیم نے سونیا کی شلوار کھینچی تو وہ گھٹنوں تک اتر گئی ، نعیم نے اس کی قمیض اس کی رانوں سے اٹھائی تو نیچے سونیا کی پھولی ہوئی چوت پر نعیم کی نظر پڑی جس کے لب آپس میں ملے ہوئے تھے تو نعیم کا لن ایک جھٹکا کھا کر مزید تناؤ میں آ گیا اور سونیا کی چوت کو سلامی دینے کی لئے تیار تھا ، نعیم نے تازہ شیوڈ چوت دیکھی تو اس کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے اپنے لب سونیا کی چوت کے لبوں سے ملا دئیے اور اسکی چکنی چوت میں زبان ڈال دی ، سونیا ایک دم تڑپ اٹھی اور لطف و سرور کی بلندیوں پر پہنچ گئی ، نعیم نے اس کی گیلی چوت کا ذائقہ محسوس کیا اور اس کی چوت کے اندر زبان کرنا شروع کر دی ، نعیم کبھی تو اس کی چوت پر زبان پھیرتا اور کبھی زبان اندر کرتا جس سے سونیا کے منہ سے مزے سے بھرپور جنسی آوازیں نکلنا شروع ہو گئی – نعیم چھپر چھپر اس کی چوت چاٹ رہا تھا اور سونیا مزے سے بھرپور آوازیں نکال رہی تھیں ، چند منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ سونیا کی آواز میں تیزی اور جسم میں اکڑاہت آ گئی ، نعیم کو اندازہ ہو گیا کہ سونیا اب فارغ ہونے والی ھے تو اس نے سونیا کی چوت کے دانے کو دانتوں میں لے کر آہستہ سے کاٹا اور ایک دم زبان سونیا کی چوت میں ڈال دی سونیا کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی اور پھدی سے پانی – نعیم نے اپنا چہرہ پیچھے کر لیا – سونیا آنکھیں بند کئے لیٹی مزے میں تھی ، نعیم اپنے کھڑے لن کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور وہاں پڑے ہوئے ایک کپڑے سے اپنا منہ صاف کیا اور سونیا کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا – سونیا بہت خوش لگ رہی تھی یہ اس کی زندگی کا پہلا خوشگوار سیکسی تجربہ تھا – تھوڑی دیر بعد نعیم نے اس کی چھاتی پر ہاتھ رکھا اور اس کی نپل پر انگلی گھمانے لگا ساتھ ہی اس کی چھاتی کو مٹھی میں لے کر دبانے لگا سونیا مدہوش ہونے لگی نعیم نے سونیا کی قمیض اتار دی ، سونیا کا برا اس کی چوچیوں سے نیچے تھا اور اس کی چوچیاں تنی ہوئی تھیں اور براؤن رنگ تھا ان کا – نعیم نے سونیا سے مزید تھوڑی جنسی چھیڑ چھاڑ کی اور جب دیکھا کہ سونیا کی چوت گیلی ہو چکی ھے اور وہ خود بھی چدنے کے لئے تیار ھے تو نعیم نے خود کو بھی کپڑوں سے آزاد کیا اور سونیا کی ٹانگوں کے درمیان آ کر اس پر لیٹ گیا – سونیا کی چوت کو سلامی دینے کے لئے نعیم کا جاندار لن تیار تھا نعیم نے سونیا کی ٹانگوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں اوپر کیا اور اپنا لن سونیا کی پھدی کے لبوں کے درمیان اس کے سوراخ پر ایڈجسٹ کیا – سونیا آنے والے لمحات سے ڈری ہوئی تھی اس کے ذہن میں پہلا تجربہ تھا جو انتہائی تکلیف دہ تھا – نعیم نے لن اس کی پھدی پر ایڈجسٹ کرنے کے بعد سونیا سے کہا ، سونیا اندر جانے پر تمہیں درد ہو گا لیکن تم اگر تھوڑی دیر یہ برداشت کر گئیں تو پھر مزا ہی مزا ہو گا- سونیا نے اثبات میں سر ہلایا تو نعیم نے ایک ہلکا سا جھٹکا دیا تو سونیا کے منہ سے ایک درد بھری کراہ نکلی – نعیم کے لن کی ٹوپی سونیا کی گیلی چوت میں داخل ہو چکی تھی نعیم نے چند لمحے رک کر تھوڑا سا جھٹکا مارا تو اس کا آدھا لن سونیا کی چوت میں چلا گیا اور سونیا درد سے بلبلا اٹھی – سونیا نے نعیم سے کہا پلیز اسے باہر نکالو بہت درد ہو رہی ھے – نعیم جانتا تھا کہ ایک دفعہ باہر نکال لیا تو اس نے دوبارہ سے نہیں کرنے دینا – نعیم نے سونیا سے کہا جان ! بس یہی چند لمحات تکلیف دہ ہیں بس تھوڑا برداشت کر لو اپنے اس پولیس والے کی خاطر درد کے بعد مزا آئے گا ، نعیم نے نیچے سے حرکت روک دی اور اس کے مموں کو آہستہ آہستہ دبانے لگا اور ساتھ ساتھ اس کے گالوں ، آنکھوں اور ہونٹوں پر کس کرنے لگا ، اس دوران بیچ میں وہ سونیا سے آئی لو یو ، آئی لو یو بھی سونیا کے کانوں میں کہہ رہا تھا ، نعیم کے رکنے سے سونیا کے درد میں بھی کمی آ گئی تھی اس کے چومنے سے اور کانوں میں آئی لو یو کی تکرار سے اسے پھر سے مزا آنا شروع ہو گیا تھا حالانکہ نعیم کا شاندار طاقت سے بھرپور لن ابھی بھی آدھے سے زیادہ اس کی چوت میں تھا اور اس کی حرکت سے سونیا کی گانڈ پھٹ رہی تھی مطلب اسے درد ہو رہا تھا- نعیم نے خاص طور پر نیچے اپنے لن پر نظر ڈالی کہ اس پر خون ھے یا نہیں ؟ وہاں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا نعیم کو پتا چل گیا کہ سونیا کی پہلے سے ہی چدائی ہو چکی ھے اور اسے سونیا کی چوت کی تنگی سے یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ سونیا بہت زیادہ چدی ہوئی نہیں ھے – نعیم نے آہستہ آہستہ اپنا لن باہر کرنا شروع کر دیا اور پھر جب ٹوپہ اس کی پھدی کے لبوں تک آیا تو نعیم نے اپنا تھوک اپنے لن پر گرایا اور پھر آہستہ آہستہ واپس چوت میں کرنا شروع کر دیا اس دفعہ لن بہت ہی اھستگی سے سونیا کی چوت میں جا رہا تھا اور سونیا کو بہت کم درد ہو رہا تھا، آہستہ آہستہ لن سونیا کی پھدی کی گہرائیوں میں اتر رہا تھا اور بالآخر سارے کا سارا لن سونیا کی چوت میں چلا گیا، اس بار اتنا بڑا لن لینے کے باوجود بھی سونیا کے منہ سے کسی قسم کی آواز نہیں نکلی جو تھوڑا بہت درد تھا وہ برداشت کر گئی تھی – اسلئے تو کہتے ہیں کہ اگر عورت برداشت کرنے پہ آئے تو بہت کچھ برداشت کر لیتی ھے ورنہ تو چھوٹی چھوٹی بات پہ اس کی گانڈ پھٹ جاتی ھے – نعیم نے اب دھیرے دھیرے اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا ، سلو سپیڈ سے لن چوت میں اندر باہر والا سفر طے کر رہا تھا اور بتدریج اس کی سپیڈ میں اضافہ ہو رہا تھا ، سپیڈ بڑھنے سے سونیا کی چوت میں تکلیف ہونا شروع ہو گئی تھی ، اس کا بند منہ اب کھل گیا تھا اس کے منہ سے ھلکی ھلکی درد بھری کراہیں نکلنا شروع ہو گئی اور یہ کراہیں سپیڈ بڑھنے کے ساتھ ساتھ بلند ہو رہی تھیں – ابھی تک درد ہی درد تھا مزا کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا – نعیم بھی سات آٹھ دن بعد کسی لڑکی کو چود رہا تھا اور لڑکی بھی ایسی جس کی چوت بہت زیادہ ٹائیٹ تھی ،اسلئے نعیم اپنی اصلی ٹائمنگ سے پہلے ہی ڈسچادج ہونے کے قریب پہنچنے لگا تھا ، اس نے اپنی سپیڈ بڑھا دی – اب لن ایک دفعہ پورے کا پورا باہر آتا اور رگڑ مارتا ہوا چوت کی گہرائی میں غائب ہو جاتا ، آہ ، اں ، اف. . . آہ . . . . آہ : .. جیسی درد بھری آوازیں سونیا کے منہ سے نکل رہی تھیں – نعیم کا لن بڑی روانی سے سونیا کی چوت کی سیر کر رہا تھا ، نعیم ایسے ہی سپیڈ سے آگے پیچھے کر رہا تھا اور اس کی منی اس کے ٹٹوں سے لن کی ٹوپی کی طرف سفر کرنا شروع ہو گئی ، اور چند سیکنڈ بعد لن کی ٹوپی سے نکل کر سونیا کی پھدی میں جا گری ، جس سے سونیا کی تکلیف میں کمی آ گئی منی سے لتھڑا ہوئے لن نے تھوڑی دیر ہں حرکت کی اور پھر سونیا کی چوت کی گہرائیوں کی سیر کرنے اور اسے اپنے پانی سے سیراب کرنے کے بعد باہر نکل آیا – سونیا نے فورپلے فل انجوائے کیا تھا لیکن چدائی میں اسے بالکل مزا نہیں آیا تھا یہ عمل تکلیف دہ تھا لیکن پہلی چدائی سے کم – آہستہ آہستہ یہ تکلیف بھی ختم ہو جانی ھے لیکن چدائی والا سلسلہ ختم نہیں ہونا

 


عجیب عادت

 

عجیب عادت
مجھے ایک عادت ھے کہ میں اکثر اوقات مالشیوں سے اپنا جسم دبوایا کرتا ھوں اور کبھی کبھی مالش بھی کروا لیا کرتا ھوں۔ ایک دفعہ مجھے باغ میں ایک 16،15 سال کا مالشیا مل گیا۔ میں نے باغ میں ہی اس سے اپنا جسم دبوانا شروع کر دیا۔میں نے اس سے کہا کہ یار تھکاوٹ بہت ھو رہی ھے زرا جم کر دبانا۔تو اس نے کہا کہ آپ جسم دبوانے کے بعد ھوٹل کے کمرے میں مالش بھی کروا لو تو میں آپ کی تھکاوٹ اچھی طرح اتار دوں گا۔میں نے کہا چلو ٹھیک ھے۔مین اہنا جسم دبوانے کے بعد اس کے ساتھ ایک قریبی ھوٹل کی طرف چل پڑا۔

ھوٹل کے کمرے میں پہنچ کر اس نے کہا۔آپ چادر باندھ لو اور کپڑے اتار دومیںنے چادر باندھی اور کپڑے اتار کر چارپائ پر لیٹ گیااس نے میری پنڈلیوں سے مالش شروع کر دی۔آہستہ آہستہ اسے پسینہ آنا شروع ھو گیا۔تو میںنے اس سے کہا کہ تم اپنی کمیض اتارر دو۔تیل سے خراب ھو جائگی۔مجھے اس کہ ہاتھوں سے ہی نشہ سا ھو رہا تھا۔اب اس کا جوان ھوتا ھوا گورا جسم دیکھ کر نشہ دوبالا ھونے لگا۔

میں نے اس سے اس کا نام پوچھا جو اس نے عتیق بتایا۔اب وہ چادر سرکا کہ میری رانوں پر مالش کر رہا تھا۔اس کے ہاتھوں کے لمس سے میری آنکھیں بند ھوئ جا رہیں تھیں۔اور میرا لوڑا تن کر پرن مینار کا منظر پیش کر رہا تھا۔اورمیرے لوڑے کی جگہ چادر کا ٹینٹ سا بن گیا تھا۔ وہ میری کیفیت بھانپ گیا۔ اور آہستہ آہستہ چادر کے نیچے میرے لوڑے کے آس پاس مالش کرنے لگا۔پھر اس نے چادر میرے لوڑے پر سے ھٹا دی اور پوچھا کیا اس کی بھی مالش کر دوں۔تو میں نے کہا ھاں یار اس کی بھی مالش کر دو پر بڑے پیار سے۔ مگر پہلے تم اپنی شلوار بھی اتار دو۔اس نے جھٹ سے اپنی شلوار اتاری اور ساتھ میں میری چادر بھی نکال کر سائیڈ پر رکھ دی

پھر وہ میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کرمیرے لوڑے پر تیل ڈال کر اس کی بڑے پیار سے مالش کرنے لگا۔تھوڑی دیر بعد میں نے اس سے کہا کہ ٹھرو یار ایسے مزا نہیں آ رہا۔تم ایسا کرو میرے ساتھ لیٹ جاؤ۔اس نے کہا کہ میں اس کہ علیحدہ سے پیسے لوں گا۔میں نے کہا کتنے۔اس نے کہا دو سو ۔میں نے کہا کہ میں تمھیں تین سو دوں گا پر تم کسی بات سے انکار نہیں کرو گے۔اس نے کہا کہ ٹھیک ھے۔پھر وہ میرے ساتھ لیٹ گیا۔

میںنے اس کو اپنے ساتھ لپٹا لیا اور اس کے گلابی کسے ھوے ھونٹوں پر اپنے ھونٹ رکھ دئے اور دیوانوں کی طرح اس کے ھونٹوں کو چوسنے لگا۔اب پوزیشن یہ تھی کہ ہم دونوں سائیڈ بائی سائیڈ لیٹے تھے میری ایک ٹانگ اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان تھی اور اس کی ایک ٹانگ میرے کولھے کے اوپر سے ھوتی ھؤی میری گانڈ کے پیچھے اور ہم دونوں کے ھونٹ جڑے ھوئے۔۔۔۔۔۔۔آہ کیا پوزیشن تھی۔وہ اب میری زبان کو اپنے منہ میں لے کر چوس رہا تھا 10 منٹ تک ہم ایسے ہی ایک دوسرے کی زبان چوستے رھے اور میرا لوڑا اس کے لوڑے سے کھیلتا رہا

پھر اچانک اس نے مجھے سیدھا کیا اور میرے اوپر آ کر میرے گالوں گردن پر سے کس کرتا ھوا اور چومتا ھوا میری چھاتی پر آ گیا اور میرے پستانوں کو منہ میں لے کر چوسنے لگا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں ھواؤں میں اڑ رہا ھوں۔ پھر وہ میرے پیٹ پر سے زبان پھیرتا ھوا میری رانوں کے جوڑوں کو باری باری چاٹنے لگا۔

آہ کیا مزا تھا۔میں بتا نہیں سکتا۔پھر وہ میرے ٹٹوں کو چوستا ھوا میرے لوڑے کی جڑ سے اپنی زبان چلاتا ھوا میرے ٹوپے پر پہنچا اور اس کو چوم کر پیچھے ھو گیا۔میں بہت زور سے تڑپا۔ میں نے کہا یہ کیا تو اس نے کہا۔اب آپ بھی ایسے ہی کرو۔پھر وہ میری سائیڈ میں سیدھا لیٹ گیا۔میں نے اس کے اوپر آ کر اس کے ھونٹوں پر اپنے ھونٹ رکھ کر چوسنے لگا۔پھر میں اس کے گالوں کو چاٹتا ھوا اور اس کی گردن پر زبان پھیرتا ھوا اس کے پستانوں پر پہنچ گیا پانچ منٹ تک اس کے پستانوں کہ باری باری چوسنے کے بعد میں نے اس کے یاتھ اس کی رانوں سے جوڑ دیئے اور اس کی چھاتی اور بغلوں کی درمیانی جگہ زبان گھسا کر چاٹنے لگا۔اس کو جیسے کرنٹ سا لگا۔میںنے پوچھا کیا ھوا کیا مزا نہیں آیا۔اس نے کہا بہت مزا آیا۔آپ دوبارا کرو۔

پھر میں نے اس کی چھاتی اور بازو کے درمیان بنی پھودی جیسی جگہ کو دس منٹ تک چاٹتا رہا۔ اس کے بعد میں اس کے پیٹ پر سے زبان پھیرتا ھوا اس کے رانوں کے جوڑوں پر پہنچ گیا۔اس کے گلابی لوڑا پانچ انچ کا بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا۔اس کے لوڑے کے اوپر والی جگہ پر ایک بھی بال نہیں تھا۔ میں اپنی زبان سے اس کے لوڑے کے اوپر والی جگہ اور اس کے رانوں کے جوڑوں کو چاٹتا رہا۔ پھر میں نے اس کے ٹٹے منہ میں لے کر چوسے اور اس کے لوڑے کی جڑ سے لے کر ٹوپے تک زبان پھیرنا شروع کر دی۔

پھر میں نے اس کے پورے لوڑے کو ایک دفعہ منہ میں ڈالا اور پیچھے ھو گیا۔اس نے میری آنکھوں میں دیکھا۔تو میں اس کے سر کے پاس گھوٹنوں کے بل جا کھڑا ھوا۔ اور اپنا لوڑا اس کے ھونٹوں کے پاس کر دیا۔اس نے سیدھے لیٹے لیٹے سر سائیڈ پر کیا اور میرا لوڑا منہ میں لے کر چوسنے لگا۔وہ سین مجھے اتنا اچھا لگ رہا تھا کہ دل کر رہا تھا کے اس کی فوٹو اتار لوں۔پھر تھوڑی دیر بعد سائیڈ کے بل کیا اور خود بھی اس کے سامنے سائیڈ کے بل اس طرح لیٹ گیا کہ اس کا سر میرے لوڑے کے پاس اور میرا سر اس کے لوڑے کے پاس ھو گیا۔اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کے لوڑے چوسنے شروع کر دئیے۔

تھوڑی دیر بعد وہ میرے منہ میں ہی چھوٹ گیا۔اور میں نے اس کی ساری منی پی لی۔کچھ دیر بعد میں بھی چھوٹ گیا۔میں نے اس سر اپنے گھٹنوں میں دبا لیا جس کی وجہ سے اسے مجبورا میری منی پینی پڑی۔

پھر میں نے سیدھا ھو کر اس کو خود سے لپٹا لیااور اس سے پوچھا کہ مزا آیا۔تو اس نے بہت کہ کر اپنے ھونٹ میرے ھونٹوں پر رکھ دئیے اوراپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی۔میں نے اپنی منی کا زائقہ چکھنے کے بعد اس کی زبان کو زور زور سے چوسنے لگا۔تھوڑی دیر بعد وہ اٹھا اور مجھے سیدھا لٹا کر میری ٹانگیں کھول کر میرے سوئے ھوے لوڑے کو چاٹتا ھوا میرے ٹٹے چوسنے لگا۔ پھر اس نے ایک کشن میری کمر کے نیچے رکھا اور میری ٹانگیں اٹھا کر میری گانڈ چاٹنے لگا۔ آہ کیا مزا تھا۔

میں نے اس کو سیدھا لٹایا۔اور اس کےمنہ پر اپنی گانڈ رکھ دی۔وہ تھوڑی دیر میری گانڈ چاٹتا رہا۔پھر میں نے اس کو ڈوگی سٹائل میں کر کے اس کے چوتڑ کھولے اور اس کی گانڈ کو بھوکوں کی طرح چاٹنے لگا۔پھر میں نے اپنی بڑی انگلی کو تھوک لگا کر اس کی گانڈ میں اندر باہر کرنے لگا۔جب اس کی گانڈ تھوڑی کھل گئی تو میں نے اپنی دوسری انگلی بھی اس کی گانڈ میں گھسا دی۔اس کے منہ سےسسکاریاں نکلنے لگیں۔آآہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اوف ف ف ف ۔آرام سے کرو درد ھو رھا ھے۔ اوہ ہ ہ ہ ہ ہ۔جب میری دونوں انگلیاں اس کی گانڈ رواں ھو گئیں تو میں نے اچانک اپنی انگلیاں نکال کر اور دونوں ھاتھوں سے اس گانڈ کھول کر اپنی زبان اس کی گانڈ میں گھسا دی۔وہ اور زور زور سے سسکاریاں لینے لگا۔

میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ھوا۔اس مے کہا آہ بہت مزہ آ رہا ھے۔تم اپنی زبان اندر باہر کرو۔میں نے اپنی زبان سے اس کو چودنا شروع کر دیا۔واہ یہ تو پھودی چاٹنے سے بھی سے زیادہ مزہ آ رہا تھا۔تھوری دیر بعد میں نے اس کے منہ میں اپنا لوڑا دے کر اس سے تھوک لگوایا اور اس کی گانڈ کے پیچھے آ کر(ڈوگی سٹائل میں ہی)اس کی گانڈ کی موری پر اپنا ٹوپا رکھ کر اندر گھسانے کی کوشش کرنے لگا۔اس نے کہا کہ تم ایسا کرو کہ اپنے لوڑے پر بھی تیل لگائو اور میری گانڈ پر بھی تیل لگایو۔میں نے اپنے لوڑے کی تیل سے اچھی طرح مالش کی پھر پلاسٹک کی تیل کی شیشی کو اس گانڈ کی موری کے اندر کر کے پیچھے سے شیشی دبا دی۔جس سے کافی سارا تیل اس کی گانڈ میں چلا گیا۔

پھر میں نے اس سے کہا کہ اپنی گانڈ دونوں ہاتھوں سے کھولو۔پھر میں نے اس کی کمر ایک ہاتھ سے دبائی اور دوسرے ہاتھ سے اپنا ٹوپا اس کی گانڈ کی موری پر رکھ کر تھوڑا سا زور لگایا تو (پڑچ) کی آواز کے ساتھ میرا ٹوپا اس کی گانڈ میں گھس گیا۔اس نے بری میٹھی سی سسکاری لی۔میں نے پوچھا مزہ آیا کیا۔وہ بولا کہ بہت اب تم ایسا کرو کہ اپنا ٹوپا میری گانڈ میں ہی رہنے دو اور اپنے باقی لوڑے پر ڈھیر سارا تیل لگا کر ایک ہی جھٹکے میں ہورا اندر گھسا دو۔ میں بیت حیران ھوا اور اس سے پوچھا کہ اس طرح تو تم کو بہت درد ھو گا۔ وہ بولا کہ تم تیسرے آدمی ھو جو میری گانڈ مار رھے ھو سب سے میرے اس دوست نے میری گانڈ ماری جو مجھے گائوں سے یہاں لایا تھا اس نے مجھے بتایا کہ یہاں پر روپے کمانے ھیں تو ایسے ہی گانڈ مروانی پڑے گی۔

دوسری بار میں نے ایک گاہک سے گانڈ مروائی جس نے بس میری گانڈ ہی ماری۔نا مجھے پیار کیا اور نا ہی مجھے کوئی مزہ آیا۔میں نے یہاں دوسرے لڑکوں سے سنا ھے کہ یہاں پٹھان اور کئی دوسرے گاہکوں کے لوڑے اتنے لمبے اور موٹے ھوتے ھیں جس طرح کہ آپکا ھے۔ وہ ایک ہی جھٹکے میں گانڈ پھاڑ دیتے ھیں۔اور ذرا ترس نہیں کھاتے۔ تم مجھے اتنا پیار کر رھے ھو اور اتنا مزہ دے رھے ھو۔ تو میں نے سوچا کے کیوں نہ تم سے ہی اپنی گانڈ کھلی کروائوں۔اس لییے کہا تھا کہ ایک ہی جھٹکے میں پورا اندر ڈال دو۔

اس کا سر چارپائی سے لگا ھوا تھا اور اس نے گھٹنوں کے بل اپنی گانڈ اوپر اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے کھول رکھی تھی اور میرا ٹوپا اس کی گانڈ مین گھسا ھوا تھا۔میں نے اپنے باقی لوڑے کو ڈھیر سا تیل لگایا اور اس کے شولڈرز کو پکڑ کر ایک زور دار گھسا مارا۔جس سے میرا پورا لوڑا تو اندر چلا گیا پر اس نے زور سے اپنی ٹانگیں سیدھی کیں اور چارپائی پر سیدھا گر کر لیٹ گیا۔اس مے بمشکل اپنی چیخ روکی۔میںنے چونکہ اس کو شولڈرز سے پکڑ رکھا تھا اس لییے میں بھی اس کے ساتھ ہی اس کے اوپر سیدھا لیٹ گیا۔ وہ زور زور سے کراہ رہا تھا۔میں نے اس کا سر موڑ کر اس کے ھونٹوں پر اپنے ھونٹ رکھ کر انہیں چوسنے لگا۔مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ھوں۔میں اس کے اوپر لیٹا ھوا تھا اور میرا لوڑا اس کی تنگ گانڈ میں بری طرح سے جکڑا ھوا تھا ۔جس سے مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔میرے تھوڑی دیر اس کے چتڑ سہلانے اور کسنگ کرنے سے اس کا درد کچھہ کم ھو گیا۔تو وہ بولا آہ تمھارا لوڑا میری چھوٹی سی گانڈ میں پورا گھسا ھوا ھے۔ کیا تم کو مزہ بھی آ رہا ھے کہ نہیں. میں نے اس کے گالوں کو چومتے ھئوے کہا کہ جانو مجھے آج سے ذیادہ مزہ کبھی بھی نہیں آیا۔

پھر میں آہستہ آہستہ اپنی گانڈ کو ہلا ہلا کر اپنا لوڑا اس کی گانڈ میں اندر باہر کرنے لگا۔تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔کہ زور زور سے میری گانڈ مارو اور اپنا پورا لوڑا باہر نکال کر بار بار میری گانڈ میں ڈالو۔مجھے بھی جوش آ گیا اور میں زور زور سے اس کی گانڈ مارنے لگا۔پر اس طرح میرا پورا لوڑا اندر باہر نہیں ھو رہا تھا۔میں اس کو سیدھا کرنے کے لییے پیچھے ھوا تو میںنے دیکھا کہ اس کی گانڈ سے کافی خون نکل کر گدے میں جذب ھہ چکا ھے۔چونکہ میں نے چادر پہلے ہی باندھنے کے لییے اٹھا لی تھی۔اس لییے وہ بچ گئی تھی۔میں نے جیب سے رومال نکال کر اپنا لوڑا اور اس کی گانڈ صاف کی۔پھر گدے کو الٹا کر اس کو چارپائی پر سیدھا لٹایا اور اس کی کمر کے نیچے موٹا سا کشن رکھ دیا۔پھر میں نے اپنے لوڑے اور اس کی گانڈ پرتیل لگایا۔اور اس کی ٹانگیں اتھا کر اپنے بازئووں پر رکھ لیں پھر میںنے اپنا ٹوہا اس اس کی گانڈ پر رکھ کر ایک زور دار جھٹکے سے اپنا پورا لوڑا اس کی گانڈ میں گھسا دیا۔

اس کو درد تہ ھوا۔ پر وہ برداشت کر گیا۔میں نے اب زور زور سے اسکی گانڈ مارنی شروع کر دی۔جب میرا لوڑا آسانی سے اندر باھر ھومے لگا تو میں نے پھر پورا لوڑا نکال کر بار بار اندر ڈ النا شروع کر دیا۔15 منٹ بعد میں اس کی گانڈ میںہی فارغ ھو کر اس کے ساتھ لیٹ گیا۔ وہ میری طرف منہ کر کہ مجھ سے لپٹ گیا۔ اور میرے گالوں اور ھونٹوں پر پیار کرنے کے بعد بولا۔کہ آج میں بہت خوش ھوں آج مجھے بہت مزہ آیا۔اب میں نے جانا ھے۔اتنی دیر ھو گئی ھے۔ھوٹل والا کہیں اوپر نا آ جائے۔میں نے کہا چلو ٹھیک ھے۔اگلی اتوار کو ھم دوبارہ ملیں گے۔اور اس سے ذیادہ مزہ کریں گے۔پھر ہم دونوں نے کپڑے پہنے اور ھوٹل سے باہر آ گئے

کمرے کی کنڈی

 


کمرے کی کنڈی

یہ ان دنوں کی بات ھے، جب میں لاھور میں قیام پذیر تھا۔ ھم کل دو افراد ایک مکان میں رھتے تھے۔ مالک مکان ھمارے اوپر ھی رھتے تھے۔ مالک مکان سے ھمارے تعلّقات شروع شروع میں اتنے اچھّے نھیں تھے، مگر ایک دو واقعات ایسے ھوئے، جس میں اتّفاقیہ طور پر ھمارے ذریعے سے قدرت نے مالک مکان کی مدد کروا دی تھی۔ اس طرح سے آھستہ آھستہ مالک مکان بھی ھم سے نرم رویّہ رکھنے لگا، جو بعد میں اچھّی خاصی سلام دعا میں بدل گیا۔ حتّیٰ کہ ھم ایک دوسرے سے ضرورت کی چیزیں، جس میں سب سے زیادہ اھم چیز استری تھی، لے لیتے تھے۔ تقریباْ پینتالیس سالہ مالک مکان کا نام امجد خان تھا، اور وہ ایک سرکاری نوکری کرتا تھا۔ اس کی اولاد میں ایک جوان بیٹی (رابعہ) اور دو چھوٹے چھوٹے بیٹے (سلیم اور کلیم ) شامل تھے۔ اس کے علاوہ اس کی بیوی تھی، جو بیچاری کسی وجہ سے دونوں آنکھوں سے محروم ھو چکی تھی۔ اس کی بیٹی میٹرک پاس کر چکی تھی، اور دونوں بیٹے پرائمری میں زیر تعلیم تھے۔ میرا کمرے کا ساتھی بھی میری طرح ایک پرائیویٹ جاب کرتا تھا۔ سارا دن کام کرنے کے بعد، ایک دن ھماری عید کا ھوتا تھا، اور وہ دن ھوتا تھا، اتوار کا۔ اتوار کے دن ھم دونوں لیٹ اٹھنے کے عادی تھے۔ بارہ ایک بجے تک ھم تیّار ھو کر باھر گھومنے پھرنے چلے جاتے تھے ۔ مالک مکان بھی ھماری اس روٹین سے واقف ھو چکے تھے، کیونکہ اتوار کے دن ھمارے کمرے کو اکثر تالہ لگا رھتا تھا۔ ایک اتوار میرے کمرے کے ساتھی نے اپنے گاؤں جانا تھا، تو اس کے جانے کے بعد، میں کمرے پر ھی لیٹ رھا۔ اس دن گرمی بھی بے حد پڑ رہی تھی۔ (لاھور میں رھنے والے زیادہ بہتر جانتے ھوں گے، کہ لاھور میں گرمی کتنے غضب کی پڑتی ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!) میں نے فل سپیڈ میں پنکھا لگایا ھوا تھا، اور آنکھیں موندے لیٹا ھوا تھا، کہ اچانک کمرے پر دستک ھوئی۔ میں نے آکھیں کھول کر دروازے پر توجّہ دی۔ اسی اثناٴ میں دوبارہ دستک ھوئی، تو مجھے معلوم ھوا، کہ دستک باھر والے دروازے پر نہیں، بلکہ اس دروازے پر ھو رھی ھے، جو مالک مکان کے گھر کی طرف کھلتا تھا، اور ھر وقت دونوں طرف سے بند ھی رھتا تھا۔ یہ میرے لئے اچھّی خاصی حیرانی کی بات تھی۔ خیر، میں اٹھّا، اور دروازہ کھولنا چاھا، تو دروازہ کھل گیا، کیونکہ دروازے کی دوسری جانب والی کنڈی بھی کھلی ھوئی تھی، اور وھاں مالک مکان کی بیٹی رابعہ کھڑی ھوئی تھی۔ ( رابعہ صرف اس وقت ھمارے دروازے پر دستک دیتی تھی، جب انتہائی مجبوری ھوتی تھی، ورنہ وہ گھر میں ھی بند رھنے والی لڑکی تھی۔) میں نے حیرانی سے اسے دیکھا، اور اس کے ابّو کا پوچھا۔ اس نے بتایا، کہ اس کے ابّو ایک کام سے گئے ھیں، اور اس کے دونوں بھائی بھی اس کے باپ کے ساتھ ھی ھیں۔ اس کو استری چاھئے تھی۔ میں نے استری اٹھّا کر اس کو دے دی۔ اس نے خاموشی سے استری لی، اور واپس مڑی۔ مگر جاتے جاتے اس نے آنکھوں ھی آنکھوں میں مجھے ایک مخصوص انداز سے دیکھا۔ یہ وہ انداز تھا، جو کہ میں نے اکثر اس کی آنکھوں میں اپنے لئے محسوس کیا تھا۔ میں کوئی دودھ پیتا بچّہ نہیں تھا، کہ اس طرح کے اشارے کا مطلب نہ سمجھتا، مگر میں اس محلّے میں ابھی رھنا چاھتا تھا، اور پردیس میں رھتے ھوئے، کسی محلّے میں رھنے کے لئے آپ کو اپنا کردار انتہائی مضبوط رکھنا پڑتا ھے۔ خصوصاْ جب آپ بغیر فیملی کے، بطور " چھڑے
" ( bachelor) رہ رھے ھوں۔ یہی وجہ تھی، کہ میں نے ابھی تک محلّے میں اپنی طرف اٹھنے والی ھرلڑکی کی نظر کو اگنور کیا تھا۔ میں صرف برے وقت سے بچنا چاھتا تھا، ورنہ تو میں بھی جوان مرد تھا، میرے اندر بھی مخصوص گرمی حد درجہ موجود تھی۔ میں بھی گندم کا آٹا کھاتا تھا۔ میں بھی آج کے ماحول میں ھی جی رھا تھا، اور عورت کی شدید طلب میرے اندر بھی موجود رھتی تھی۔ میرے لن میں بھی کھجلی ھوتی رھتی تھی، اور یہ کھجلی اس وقت اور بھی دوچند ھو جایا کرتی تھی، جب محلّے کی کوئی بھی جوان لڑکی مجھے لفٹ کرواتی تھی۔ میری اتنے دن کی احتیاط کے باوجود، اس دن میں نے رابعہ کو پہلی بار ایک جوان مرد کی نظر سے دیکھا۔رابعہ ایک سلجھی ھوئی جوان لڑکی تھی، جس کی عمر اندازاْ اٹھارہ سے بیس سال کے درمیان تک رھی ھو گی۔ اس کا قد مجھ سے دو تین انچ کم ھی ھو گا۔ وہ ایک انتہائی خوب صورت اور تیکھے نقوش والی لڑکی تھی۔اس دن اس نے گلابی رنگ کے پھولوں والا سوٹ پہن رکھّا تھا، جس میں وہ کافی پر کشش لگ رھی تھی۔ میں نے محلّے میں دو تین لڑکوں کو اس کے پیچھے چکّر لگاتے دیکھا تھا۔ لیکن ابھی تک رابعہ کا کسی کے ساتھ کوئی چکّر میرے علم میں نہیں آ سکا تھا۔ اور آج رابعہ بھی میرے اتنے نزدیک پہلی بار آ کر کھڑی ھوئی تھی۔ اس سے پہلے تو میں نے اس کو دور دور سے ھی دیکھا تھا۔ اس دیکھنے میں اور آج کے دیکھنے میں ایک فرق بھی موجود تھا۔ اس سے پہلے میں نے اس کو اس انداز میں دیکھا تھا، کہ اس کے ھونے یا نہ ھونے سے مجھے کوئے فرق نہیں پڑتا۔ مگر، آج تو وہ اتنے پاس کھڑی تھی، اور آج تو میرے اندر کا تھوڑا بہت پرہیز بھی دم توڑ رھا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی، کہ ھم ایسی جگہ کھڑے تھے، جہاں سے کسی بھی محلّے والے کی نظر ھم پر نہیں پڑ سکتی تھی، لہٰذا کوئی ھم کو چیک نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ حسن آج اتنے خاص انداز سے سجا ھوا میرے سامنے موجود تھا، تو اگر میں اس پر خصوصی توجّہ نہ دیتا،تو میرے حسن پرست ھونے میں شک آ جاتا۔ اور میری کسی بھی قابلیّت پر شک کی گنجائش بھی موجود نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! میں نے اس دن پہلی دفعہ اس کی مسکراھٹ کا جواب مثبت انداز میں دیا تھا۔ اس کے چہرے پر آنے والی مسکراھٹ ایک دم سے گہری ھو گئی۔ میں نے محسوس کیا، کہ اس کی مسکراھٹ نے سیدھا میرے دل پر اثر کیا ھے۔ اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ میں نے ادھر ادھر دیکھے بغیر، اسے اندر کھینچ لیا۔ وہ اس کے لئے تیّار نہ تھی۔ میرے اس طرح سے کھینچ لینے پر اس کے تو ھوش اڑ گئے۔ اب وہ گریز کا مظاھرہ کر رھی تھی، اور اپنے آپ کو میری گرفت سے چھڑانے کی مکمّل کوشش کر رھی تھی، مگر وہ مرد ھی کیا، جو ایک بار گرفت میں آئی ھوئی جوان لڑکی کو ، اور کچھ نہیں تو، کم از کم، بنا ھلکا سا کسّ اور ٹچ کئے، چھوڑ دے۔ سو میں نے بھی اب موقع غنیمت جانا، اور اس کو اپنے ساتھ لٹا لیا۔ لٹانے سے پہلے میں نے ایک ھاتھ پیچھے کو کر کے کمرے کی کنڈی لگا دی تھی۔ باھر والی کنڈی تو پہلے ھی لگی ھوئی تھی۔ اب میں نے رابعہ کی ایک نہ چلنے دی، اور اس پر ٹوٹ پڑا۔ اس کے منہ سے عجیب قسم کی آوازیں نکل رھی تھیں، جو کہ میرے منہ میں ھی کہیں گم ھو رھی تھیں، وجہ صاف تھی، کہ اس کا منہ میرے منہ میں تھا۔ میں انتہائی شدید ترین انداز میں اس کی کسّنگ کر رھا تھا۔ وہ بیچاری ففٹی ففٹی ھو رھی تھی۔ ایک طرف تو اس کے اندر بھی میری طلب موجود تھی، جو کہ کسی نہ کسی طرح سے وہ ظاھر بھی کر رھی تھی، مگر دوسری طرف، وہ اس اچانک کارروائی کے لئے قطعی تیّار نہ تھی۔ اس کے وھم و گمان میں بھی نہ ھو گا، کہ صرف ایک ھی مسکراھٹ سے وہ اس طرح سے پھنس جائے گی۔ اس کے سامنے یقیناْ میرا ایک امیج بنا ھوا تھا۔ وہ سمجھتی تھی، کہ آج تک کسی بھی مسکراھٹ کا جواب نہ دینے والا، اوّل تو ایک نگاہ التفات تک نہیں ڈالے گا، اور اگر ایسا ممکن ھو بھی گیا، تو بھی وہ آج زیادہ سے زیادہ ھنس کر ھاتھ وغیرہ تھامنے تک ھی رھے گا۔ وہ بھی اگر اس کے اندر کوئی گرمیٴ جذبات نے سر اٹھایا، تب ، ، ، ، ! اسے کیا معلوم تھا، کہ اس کی آج کی ایک ھی مسکراھٹ، اس کو سیدھا میرے نیچے پہنچا دے گی۔ میرے ھاتھ بہت تیزی سے اس کے جوانی سے بھر پور وجود کی پیمائش کر رھے تھے۔ جب میں نے اس کی چھاتی پر ھاتھ رکھّے، تو میرے اندر سرور کی ایک خاص قسم کی لہر دوڑ گئی۔ اس کی چھاتی بے حد نرم و نازک محسوس ھو رھی تھی۔ میں نے اس کی قمیض کو اوپر کرنا چاھا، تو اس نے مزاحمت تیز کر دی۔ میں نے محسوس کیا، کہ میری گرفت اس پر ھلکی ھو رھی ھے۔ چنانچہ میں نے اس کو قابو کرنے کے لئے اپنا وجود اس پر ڈال دیا۔ اب وہ میرے نیچے دب گئی۔ اس سے وہ بجائے مزاحمت کرنے کے، میری طرف رحم طلب نظروں سے دیکھنے لگی۔ میں نے ھلکی سرگوشی میں اس سے کہا، " اگر تو میرے ساتھ تعاون کرو گی، تو میرے ساتھ تم بھی مزہ اٹھا سکتی ھو، لیکن اگر مجھے روکو گی، تو بھی میں زبردستی سب کچھ کر گزروں گا، مگر اس صورت میں تمھیں بے حد اذیّت اٹھانا ھو گی۔ اور یہ تو تم بھی جانتی ھو، کہ اس کمرے میں ، میں نے تمھیں نہیں بلایا، بلکہ تم خود چل کر میرے کمرے تک آئی ھو۔ میں جانتا ھوں، کہ تم ھمیشہ سے میری قربت چاھتی ھو ۔تمھاری آج کی مسکراھٹ بھی اسی لئے تھی، کہ میں تمھارے قریب آؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوراب اگر میں راضی ھو ھی گیا ھوں، تو تم کیوں اس طرح کر رھی ھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟ " میری باتوں کے جواب میں اس کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزر گئے۔ شائد اس نے تصوّر میں مجھے اپنے ساتھ زبر دستی کرتے ھوئے دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ میری باتوں نے اس پر اثر ڈالا، اور جواب میں اس کی مزاحمت ختم ھو گئی۔ اب وہ میرے ساتھ تعاون پر آمادہ نظر آ رتھی تھی۔ اس کو آمادہ دیکھ کر میرے اندر مستی کی تحریک تیز ھو گئی۔ اب میں اس کے جسم کی جوانی سے کھل کر کھیل سکتا تھا۔ میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی، " تھینکس رابی، (اس کے گھر والے اسے مختصراْ رابی کے نام سے ھی پکارتے تھے۔ ویسے اس کا اصل نام رابعہ تھا۔) اب دیکھنا، آج میں تم کو کتنا مزہ دیتا ھوں۔ میرے ساتھ گزارے گئے یہ لمحات تمہیں ساری عمر یاد نہ رھیں، تو کہنا۔ " میری اس بات سے اس کا چہرہ سرخ ھو گیا، اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے بعد میں اس کے وجود سے ھٹ گیا، اور اس کے برابر میں لیٹ گیا۔ میں جان چکا تھا، کہ ھمارے پاس وقت اتنا زیادہ نہیں ھے۔ اس لئے میں نے سب سے پہلے اس کو دوبارہ سے گرم کرنا شروع کر دیا۔ مجھے معلوم تھا، کہ اگر میں نے ابھی سے اس سے کپڑوں کا مطالبہ کر دیا، تو وہ فطری شرم و حیا کے باعث انکار کر سکتی ھے۔ میں پہلے اس کے جذبات کو مکمّل گرم کر دینا چاھتا تھا، تا کہ جب کپڑوں کا مطالبہ کروں، تو وہ بلا چون و چرا مان جائے، یا کم سے کم دیر لگائے۔ رابعہ کے تعاون کا یہ نتیجہ نکلا، کہ میرا کام آسان ھو گیا۔ کیونکہ اب رابعہ بھی میرا ساتھ دے رھی تھی۔ میں نے اس کی کسّنگ سٹارٹ کی، تو اس نے بھی جواب دیا، اور اپنا ھاتھ میرے بازو کے اوپر سے میری کمر پر ٹکا لیا۔ اس کی آنکھیں بند ھونا شروع ھو رھی تھیں۔ میں نے کم و بیش تین چار منٹ تک مسلسل اس کی کسّنگ کی۔ اس دوران میرا ایک ھاتھ اسکی کمر پر حرکت کرتا رھا، جبکہ دوسرا ھاتھ میں نے اس کے سر کے نیچے دے رکھّا تھا۔ چند منٹ کی کسّنگ نے رابی کے جذبات کو اچھّی خاصی تحریک دے ڈالی تھی۔ اس کی سانسوں کی آوازیں بتا رھی تھیں، کہ اس وقت وہ اپنے کنٹرول سے آؤٹ ھو چکی ھے۔ اوپر سے میرا ھاتھ اس کی کمر سے ھوتا ھوا اب اس کے سینے پر مصروف عمل تھا۔ میری ٹانگیں بھی اس کے وجود سے رگڑ کھا رھی تھیں۔ اگر مجھے ٹانگوں کے رستے اس کے جسم کی گرمی اپنے اندر منتقل ھوتی محسوس ھو رھی تھی، تو یقیناْ میرے بدن کی حرارت بھی اس کے اندر لازمی طور پر اتررھی ھو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرا ھتھیار تو لگاتار رابی کی ٹانگوں کے ساتھ ٹچ ھو ھو کر، اس کی پھدّی کو دعوت مبارزت ( جنگ میں اپنے مدّ مقابل کو مقابلے کے لئے للکارنا۔ جنگ کے لئے دعوت دینا۔ ) دے رھا تھا۔ اب میں نے اس کے سینے کے اندر ھاتھ ڈالا، اور اندر سے اس کی چھاتیوں کو انتہائی نرمی سے دبانا شروع کیا ۔ جب میرا ھاتھ اس کی چھاتی سے ٹچ ھوا تھا، تو اس کے منہ سے ایک خاص آواز بر آمد ھوئی تھی، جو اس کی اندرونی کیفیّت کو ظاھر کر رھی تھی۔ یقیناْ وہ بھی میری حرکتوں سے سرور میں ڈوبی جا رھی تھی۔ ورنہ اس کا تنفّس اتنا تیز نہ ھوتا۔ میں نے کچھ دیر مزید اس کے کپڑوں کو برداشت کرتے ھوئے اس کے جسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری رکھّی۔ رابی بار بار اپنے سر کو دائیں بائیں حرکت دے رھی تھی۔ میری محنت رنگ لا رھی تھی، اور رابی اب اس مرحلے پر آ رھی تھی، جب جلد ھی وہ میرے ایک اشارے پر کپڑے بھی اتار دیتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے ھاتھ مسلسل اپنے کام میں مصروف تھے۔ رابی کے ھونٹ سرخ ھو چکے تھے۔ میں نے اپنے ھاتھ سے رابی کے ایک ممّے کو نپل سے پکڑ کر ھلکا سامسلا، تو رابی کے منہ سے سسکاری نکل گئی، مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ میں بھی بس یہی دیکھنا چاھتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! جس ھاتھ سے میں رابی کے ممّوں کو مسل رھا تھا، اسی ھاتھ کو میں اندر سے ھی رابی کی کمر تک لے گیا۔ اس کام کے لئےمجھے رابی کی کسّنگ تیز کرنا پڑی تھی، مگر فائدہ یہ ھوا، کہ میں بنا کسی اعتراض کا سامنا کیے، رابی کا برا کھولنے میں کامیاب ھو گیا۔ برا کی ھک کھولنے کے بعد، میرا ھاتھ رابی کے ممّوں کے لمس سے صحیح معنوں میں آشنا ھوا۔ اس کے بدن کا لمس واقعی کمال کا مزہ رکھتا تھا۔ میرے اندر کرنٹ دوڑ گیا۔ میں نے اس کے ممّوں کو دبایا، تو رابی کی آنکھیں کھل گئیں، مگر میرے ساتھ بات کرنا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔، ، ، اس کے ھونٹوں پر ابھی تک میرے ھونٹوں کا قبضہ تھا۔ میں کم و بیش، دو منٹ تک اس کے ممّوں کو دباتا رھا، کبھی میں اس کے ممّوں کو نرمی سے مسلتا، تو کبھی میں اس کے نپلز کو پکڑ کر اوپر سے رگڑنا شروع کر دیتا۔ حتّیٰ کہ مجھے محسوس ھو گیا، کہ اب رابی کے کپڑے اتروائے جا سکتے ھیں۔ چنانچہ میں نے رابی کے کان میں سرگوشی کی۔ "رابی ، میری ایک بات مانو گی؟" جواب میں، رابی نے مجھے دیکھا، تو مجھے اندازہ ھوا، کہ اس کی آنکھیں از حد سرخ ھو چکی تھیں۔ ، ، ، ، تب مجھے معلوم ھوا، کہ رابی بھی اس قبیل سے تعلّق رکھتی تھی، کہ جو لوگ جب بھی سیکس کے لئے تیّار ھوتے ھیں، تو ان کی آنکھیں سرخ ھو جاتی ھیں۔ (میری زندگی میں میرا ایسی چند ایک ایسی لڑکیوں سے واسطہ پڑا ھے، جن کی آنکھیں سیکس کے دوران، یا سیکس کے شروع میں ھی، مکمّل طور پر سرخ ھو جاتی تھیں۔ ، ،یہ سرخی ، آنکھوں کے عام سرخ ھونے سے سے کافی حد تک زیادہ ھوتی تھی۔ شائد آپ میں سے بھی کسی دوست کے ساتھ ایسا اتّفاق ھوا ھو۔ ) میں جان چکا تھا، کہ اب رابی تیّار ھے۔ چنانچہ میرے کہنے پر اس نے ذرا سے تردّد کے بعد، اپنے کپڑے اتاردئے۔بھی اپنے آپ کو کپڑوں سے آزاد کر چکا تھا۔ رابی نے اپنی شلوار تو اتار دی تھی، مگر اس نے ابھی تک اپنا انڈر ویئر نہیں اتارا تھا۔ میں نے اس کو اپنے ساتھ لٹایا، اور اپنے ھاتھ اس کے ممّوں پر رکھ دئے۔ اس نے شرم سے آنکھیں بند کر لیں۔ میں نے اس کی کسّنگ کرنی چاھی، تو اس نے آگے سے اپنے ھونٹ کھولنے میں بھی دیر لگائی۔ میں نے محسوس کیا، کہ کپڑے اتارنے کے بعد، ایک دم سے رابی کا موڈ تبدیل ھو گیا ھے، اور وہ اب میرا ساتھ دینے کی بجائے، کافی گھبرائی گھبرائی سی لگ رھی ھے۔ ،،،،،،،،،، یقیناْ رابی ٹینشن محسوس کر رھی تھی، مگر میں بھی کیا کرتا، مجھے رابی نے ھی شروع میں اکسایا تھا۔ اب جبکہ میں اس حالت تک آ گیا تھا، تو میرے لئے ھر گز ھر گز ممکن نہیں تھا، کہ میں رابی کو ایسے ھی جانے دیتا۔ اب تو جب تک میرے فوجی کی گرمی نہ نکل جاتی، وہ چین نہ پاتا، اور اس کا چین، رابی کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں موجود تھا۔ ، ، ، ، اپنے لن کی گرمی کا خیال اس وقت سب خیالات پر حاوی تھا۔ میں نے رابی کی کسّنگ شروع کر دی، چنانچہ کچھ ھی دیر میں رابی پھر سے گرم ھو کر میرا ساتھ دینے لگی۔ اب وہ چدنے کے لئے مکمّل طور پر تیّار تھی۔ میں نے اس کا انڈر ویئر کھینچ کر نیچے کیا، اور اتار دیا۔ اب وہ ٹوٹل برھنہ حالت میں میرے سامنے موجود تھی۔ اس کے سینے پر موجود ابھار دودھیہ رنگت کے حامل تھے جن پر گلابی رنگ کے نپل موجود تھے۔اس حسینہ کا بدن بالکل بے داغ تھا۔ (مطلب حسین جسم پر کوئی داغ نہیں تھا۔ ورنہ تو وہ پہلے سے چدی ھوئی تھی ۔ ) اس کی گول مٹول رانوں کا نظّارہ بھی مجھے پاگل کئے دے رھا تھا۔ اس کے پیٹ میں بھی وہ کشش موجود تھی، جو ایک لڑکی کے پیٹ میں اس وقت تک موجود رھتی ھے، جب تک کہ وہ ماں نہیں بن جاتی۔ اس کا پیٹ بے حد کشش رکھتا تھا۔ اس کے پیٹ کے نیچے وہ مقام موجود تھا، جس کی خاطر اتنی محنت ھوئی تھی۔ ، ، ، ، اس کی پھدّی ۔ ۔ ! اس کی پھدّی بھی بالوں سے صاف تھی۔ شائد اس نے آج یا کل ھی صفائی کی تھی۔ میں نے مزید وقت ضائع کئے بغیر، اس کے بدن پر ھاتھ پھیرتے ھوئے، اس کی ٹانگوں کی طرف آ گیا۔ ( قارئین کی وضاحت کے لئے عرض کرتا چلوں، کہ یہ سب کارروائی تیس منٹ سے بھی کم وقت میں انجام پائی تھی۔ کہانی میں ایک ایک بات کی وضاحت کرنی ضروری ھے، تا کہ آپ سب کو ایسے محسوس ھو، کہ یہ سب آپ کے سامنے ھی ھو رھا ھے، اور آپ سب یہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رھے ھیں۔) اب میں نے اس کی رانوں پر ایک دو بار ھاتھ پھیرا، یہ اس کے جذبات کو چھیڑنے کے لئے تھا، اور رابی اس پر اچھّی خاصی مچل گئی۔ میں مسکرایا، اور اس کے دیکھنے پر گویا ھوا۔ " پلیز، گیٹ ریڈی ٹو بی فکڈ، مائی ڈئر سویٹ ھارٹ، Please Get Ready To Be) Fucked, My Dear Sweet Heart.) میری اس بات کے جواب میں رابی شرم سے سرخ ھو گئی۔ میں نے اس کی ٹانگیں اٹھائیں، اور اپنے دائیں بائیں پھیلا دیں۔ اس کی پھدّی سے اس وقت ایک خاص قسم کا لیس دار مادّہ نکل رھا تھا۔ میرے لن کے سوراخ پر بھی چند قطرے پانی جمع ھو کر نکل رھا تھا۔ رابی نے کہا، " پلیز، میرے پاس زیادہ وقت نہیں ھے۔ میری ماں جاگ گئی ھو گی۔ ، ، ، میں مسکرا دیا۔ یقیناْ وہ یہ چاھتی تھی، کہ میں جلد سے جلد اس کی پھدّی میں اپنا لن اتاردوں۔ ، ، ، میں نےپوچھا، "اگر تم کنواری ھو، تو تمھیں درد ھو گا۔ برداشت کر لو گی ؟ " ، ، ، جواب میں اس نے کہا، کہ وہ برداشت کر لے گی۔ ۔ ۔ (بعد میں پتا چلا، کہ وہ تو اس درد کے مرحلے سے چھے ماہ پہلے ھی گزر چکی ھے۔ )میں نے اس کی ٹانگیں پکڑیں، اور اپنے لن کا ٹوپہ اس کی پھدّی پر سیٹ کیا۔ ایک نظر اس کی طرف دیکھا، اور ایک دھکّا لگایا۔ میرے لن کی ٹوپی اس کی پھدّی میں گھس گئی۔ اس کے چہرے پر تکلیف محسوس ھو رھی تھی۔ میں نے آگے کو ھوتے ھوئے، اس کے ھونٹ اپنے ھونٹوں میں لے لئے، نیچے سے میں نے اپنی پوزیشن کا خاص خیال رکھّا تھا، کہ میرا لن اس انداز میں اس کی پھدّی پر سیٹ رھے، کہ میرے ایک ھی دھکّے سے اس کی پھدّی میں گھس جائے۔ اس کی کسّنگ کے دوران ھی، میں نے اچانک ایک جاندار دھکّا لگایا، اور اس کی پھدّی کی گہرایئوں میں اپنا لن اتار دیا۔ اس کے منہ سے نکلنے والی چیخ میرے منہ میں ھی کہیں دب گئی۔ ، ، ، ! (میں سوچ رھا تھا، کہ آج کنواری لڑکی کی سیل توڑنے کا موقع ملا ھے، مگر بعد میں پتہ چلا تھا، کہ وہ درد اسے اس وجہ سے ھو رھا تھا، کہ اس نے کافی دنوں کے بعد سیکس کیا تھا، اور یہ اس کے لئے صرف تیسری بار ھی تھا۔ اس لئے ابھی اس کی پھدّی اتنی رواں نہیں تھی۔ ) چند سیکنڈ کے توقّف کے بعد، میں نے چپّو چلانا شروع کر دئے۔ (ایک بات کا تو میں اندازہ لگا چکا تھا، کہ رابی کنواری نہیں تھی۔ وہ اس سے پہلے بھی کسی نہ کسی مرد سے چدوا چکی تھی، مگر یہ سوال بعد میں بھی ھو سکتے تھے۔ ابھی تو بہت کام باقی تھا۔) میں نے اس کے منہ سے اپنا منہ ھٹا لیا تھا، کیونکہ اب وہ میرا لن برداشت کر چکی تھی۔ لہٰذا کسی قسم کی چیخ کا کوئی امکان نہیں تھا۔ویسے بھی باہر بارش شروع ھو گئی تھی، اور اب اس کےباپ اور اس کے بھائیوں کے آنے کا موھوم سا امکان بھی نہیں رہ گیا تھا۔( میں تو پچھلے آدھے گھنٹے سے بند کمرے میں رابی کے ساتھ مصروف تھا، اسی وجہ سے مجھے پتہ ھی نہیں چل سکا تھا، کہ باھر کب بادل آئے، اور بارش بھی برسنے لگ گئی۔ ) میں بے فکری سے اس کی پھدّی مار رھا تھا۔ اس نے بھی اب انجوائے کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں چاھتا تھا، کہ وہ میرے ستاھ فارغ نہ ھو، بلکہ اس کے فارغ ھونے کے بعد بھی، کم از کم، پانچ سات منٹ تک میں اس کی چدائی کرتا رھوں، تا کہ بعد میں وہ اس چدائی کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے یاد رکھّے۔ اس کی سیکسی آوازیں بھی نکل رھی تھیں، مگر میں اس کے منہ پر کبھی کبھی ھاتھ بھی رکھ دیتا تھا، مبادا اس کی آواز باھر چلی جائے، اور کوئی سن لے۔ حالانکہ باھر بارش میں کسی کے آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ کچھ دیر میں نے آھستگی سے جھٹکے لگائے، پھر میں نے اپنی سپیڈ تیز کر دی۔ ساتھ ساتھ میں اس کو چھیڑ بھی رھا تھا۔ اس سے وہ جلد ھی فارغ ھو گئی۔ میں نے اس پوزیشن میں پانچ منٹ تک اس کو چودا۔ پھر میں نے اس کو اٹھ کر ڈوگی سٹائل بنانے کو کہا۔ وہ مان نہیں رھی تھی، تب میں نے کہا، اگر وہ مجھ سے جلد جان چھڑانا چاھتی ھے، تو اس کو اٹھ کر ڈوگی سٹائل میں آنا ھی ھو گا۔ وہ اٹھی، اور جھک گئی۔ اس سے اس کی پھدّی بالکل واضح ھو گئی۔ یہ میرے لئے بے حد دلفریب نظّارہ تھا۔ اس کی گیلی پھدّی، گول مٹول رانیں۔ (لمبی، گوری اور گول مٹول رانیں ھمیشہ سے میری کمزوری رھی ھیں۔) میں نے اس کے پیچھے سے آ کر اس کی پھدّی پر اپنا لن سیٹ کیا، اور ایک ھی جھٹکے سے اپنا لن اس کی پھدّی میں ڈال دیا۔ میں نے اس کی کمر سے اس کو پکڑ لیا تھا، ورنہ وہ لازمی طور پر آگے کو گر جاتی۔ اس انداز میں ، کم از کم پانچ منٹ مزید میں نے اس کی جم کر چدائی کی۔ اب میں نے سوچا، کہ بس کر دینی چھاھئے۔ ، ، چنانچہ میں نے اس کو سیدھا لٹا کر اس کی ٹانگیں اٹھا کر شروع ھو گیا۔ دو منٹ کے جاندار سٹروکس سے میں اس کی پھدّی میں ھی فارغ ھو گیا۔ اس نے کوشش کی تھی، کہ میں اپنا پانی باھر نکالوں، مگر میں نے اس کو ھلنے بھی نہیں دیا۔ ( وہ کیا ھے ناں، کہ جب تک میں اپنا پانی عورت کی پھدّی میں نہ نکالوں، مجھے سیکس کا مزہ ھی نہیں آتا۔) ا اس کے بعد میں نے واش روم کا رخ کیا۔ کپڑے وغیرہ پہن کر میں فارغ ھوا، تو وہ بھی اپنے کپڑے پہن چکی تھی۔ کافی دیر تک تو وہ مجھ سے نظریں ھی نہیں ملا سکی تھی۔ آخر اس نے مجھ سے گلہ کیا، کہ میں نے پانی نکالتے وقت کوئی بھی احتیاط نہیں کی۔ اس پر میں نے اس کو ایک خاص قسم کی ورزش کروائی۔ تکلیف کے باوجود اس نے وہ ورزش کی، کیونکہ وہ ماں بننے کی بدنامی سے بچنا چاھتی تھی۔اس کے بعد میں نے اس کو مزید تسلّی دیتے ھوئے کہا، کہ آج شام کو میں اس کو ایک خاص چیز لا دوں گا۔ اس کے استعمال سے وہ حاملہ ھونے سے محفوظ رھے گی۔ اس کے بعد میں نے اس سے سوال کیا، کہ کیا اس نے مزہ محسوس کیا، یا کہ وہ ناراض ھے؟ ، جواب میں وہ مسکرائی، اور میرے سینے پر ایک مکّا مارتے ھوئے میرے ساتھ لگ گئی۔ میں بھی خوشی سے جھوم اٹھّا۔ یقیناْ میری مردانہ کارکردگی حوصلہ افزاء تھی۔ اس کے بعد, میرے گال پر ایک کس کرتے ھوئے وہ جانے لگی، تو میں نے اس کو پکڑ کر پوچھا۔ " ایک بات تو بتاؤ، تم کنواری نہیں ھو۔ سچّ سچّ بتانا۔کس کے ساتھ کیا ھے؟ " میری اس بات پر اس نے شرماتے ھوئے بتایا، کہ پہلی اور دوسری دفعہ اس نے اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ اسی کمرے میں کیا تھا، جب اسی طرح اس کا باپ کسی کام سے باھر گیا ھوا تھا، اور اس کی والدہ سوئی ھوئی تھی۔ یہ آج سے چھے ماہ پہلے کی بات ھے۔ اس کے بعد اس کا کزن دوبئی چلا گیا۔ میں نے اس سے کہا، کہ آج کے کام میں جلد بازی موجود تھی۔ آئندہ اگر وہ موقع دے، تو میں اس کو اس سے بھی زیادہ مزہ دے سکتا ھوں۔ میری بات کے جواب میں اس نے مصنوعی ناراضگی سے مجھے دیکھا، اور مکّا لہراتی ھوئی چلی گئی

 

نازک لڑکا

 




نازک لڑکا
میرا نام سعد ھے۔میں ایک خوبصورت اور اسمارٹ لڑکا ھوں۔میرا کلر تیکھا گندمی ھے اور میری ھاٰئٹ 5 فٹ اٌٹھ انچ ھے۔۔میری اٌنکھیں گہری براؤن ھے اور مجھ میں سب سے زیادہ لبھانے والی بات میرا بھولا بھالا اور معصوم سا چہرہ ھے۔مجھے دیکھتے ھی ھر شخص متاثر ھوجاتا ھے۔ایک بات جو میں نے بہت پہلے نوٹ کرلی تھی کہ مجھے خوبصورت لڑکے اٹریکٹ کرتے ھیں اور انھیں دیکھتے ھی میرے دل میں عجیب سا احساس جاگ جاتا ھے۔پہلے تو میں اس بات کو نھیں سمجھ پایا لیکن اٌہستہ اٌہستہ مجھے اندازہ ھو گیا کہ میں لڑکوں میں سیکس اٹریکشن محسوس ھوتی ھے اور حقیقت میں میں لڑکوں کو پیار کرنا چاہتا ھوں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میں حد سے زیادہ شرمیلا تھااور کسی کے ساتھ سیکس کرنا تو دور کی بات اگر کسی کی طرف سے ایسا اشارہ بھی ملتا تو چاہنے کے باوجود میں اپنے سخت روءیے سے ان کی حوصلہ شکنی کردیتا۔کسی کو ہمت ھی نھیں ھوئ کے مجھ سے اس حوالے سے کوئ بات کرپاتا
ایک طرف میں چاہتا تھا کہ کسی بھی لڑکے کو لپٹا کر اسے پیار کروں دوسری طرف مجھے اتنی شرم اٌتی تھی کہ کوئ شرارت سے مجھے اٌنکھ بھی مارتا تھا تو میں گبھرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا تھا۔میرے بہت سارے دوست ایسے تھے کہ جن کے ساتھ میرا دل سیکس کرنے کو تڑپٹا تھا مگر شرم کی وجہ سے میں صرف تصور میں ھی ان سے دل بہلاسکتا تھا۔
جب میں کالج میں اٌیا تو سب سے پہلے جو لڑکا مجھ سے ٹکرایا وہ راحیل تھا۔میرے اب تک کے دوستوں میں سب سے خوبصورت اور اسمارٹ لڑکا ۔اسے دیکھتے ھی جیسے میرا دل ُاچھل گیا۔اس کا قد میرے برابر تھا لیکن چہرہ پنکش وائٹ تھا۔وہ جب ہنستا تھاتو اس کے گالوں میں گڑھے پڑتے تھے۔ھونٹ ترشے ھوئے سیب کی قاشوں جیسے اور دانت موتی کی طرح چمکتے ھوئے۔پہلی ھی نظر میں میں اس پر اپنا دل ھار گیا۔
میں اس کے ساتھ ھی بیٹھتا تھا اور زیادہ تر وقت میں اسے کن انکھیوں سے اسے تکتا رہتا تھا۔اکثر میری نظریں اس کی پینٹ کی زپ والی جگھ کو ٹٹولتی رہتی تھی۔کئی بار مجھے اس کے ابھار کی انڈرلائن مخسوس ھوئی جس کا اخساس کرکے میرا بھی لمحوں میں کھڑا ھوجاتا تھا۔اب میرے خوابوں میں صرف راحیل ھی تھا۔ کچھ دن بعد کالج میں چھٹیاں پڑگئیں۔تب تک میں اور راحیل بہت گہرے دوست بن چکے تھے۔کبھی کبھی تو مجھے لگتا تھا کہ وہ بھی مجھ میں دلچسپی لیتا ھےاور بعض اوقات میری لاعلمی میں تکتکی باندھ کر مجھے دیکھتا ھے۔میں سوچتا کہ اگر وہ مجھ سے کوئی ایسی بات کرے گا یا اشارہ بھی دیگا تہ میں ہمیشہ کی طرح بےوقوفی نھیں کرونگا اور اپنے دل کی بات کھل کر اس سے کہہ دونگا لیکن ایسا ھوناسکا۔
کالج بند ھوگیا اور ھم روز ملنے سے رہ گئے۔مجھے اس کی یاد ستاتی اور میں کالج کھلنے کی دعا کرنے لگا۔یونہی 15 دن گزرگئے۔وہ اتوار کا دن تھا جب امی نے اْکر مجھ سے کہا کہ تمہارے کسی دوست کا فون ھے۔فون پر راحیل تھا
ْھیپی برتھ ڈے ٹو یو ٌ راحیل کی اواز اٌئی اور میں حیران رہ گیا۔اْج میری سالگرہ تھی اور یہ اسے یاد تھا۔میں نے اسے تھینکس کہا اور اسے بتایا کہ مجھے اس کی بہت یاد اْرھی ھے۔
ْتو ملنے کیوں نھی اٰجاتے ?ٌاس نے کہا ْاج سب گھر والے انکل کے یہاں جا رہے ھیں، اگر تم اتے ھو تو میں رک جاتا ھوں؛
میری تو جیسے دلی مراد پوری ھوگئ۔میں نے فوراٌ حامی بھر لی کہ میں 5 بجے تک اس کے گھر پہنچ جاؤنگا۔اس خیال سے کہ وہ شام کے وقت اپنے گھر اکیلا ھوگا میرے دل میں گدگدی ھونے لگی۔نہ جانے کیوں مجھے شدت سے یہ فیل ھونے لگا کہوہ بھی اکیلے میں مجھ سے ملنا چاہتا ھے۔فون بھی اس نے اسی وجہ سے کیا ھوگا۔میں نے پکی ٹھان لی کہ اگر اس نے زرا سا بھی اشارہ دیا تو میں شرمائے بغیر اسے فوراً اسے اپنی باھوں میں بھر لونگا۔ اس کے گلابی نرم و نازک ھونٹوں کو اپنے ھونٹوں سے چوم لونگا۔اس کے گلابی گالوں کو جی بھر کے چومونگا۔
ا ایسے ھی حالات کے ساتھ میں اس کے نارتھ ناظم اباد بلاک جے کے 240 گز والے شاندار مکان کے سامنے وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ایف بی ایریا سے اس کے گھر تک کوئ بس ڈائریکٹ نھیں جاتی تھی اس لیے مجھے کافی پیدل چلنا پڑا لیکن میں راحیل کے خیالوں میں کھویا ارام سے وہاں پہنچ گیا۔
بیل دبانے پر جس نے دروازہ کھولا اسے دیکھ کر میرا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔وہ کوئ 26،27 سال کا انتہائ خوبصورت لڑکا تھا۔اس کی بڑی بڑی نیلی انکھیں تھی۔کلر ایسا جیسے کسی نے دودھ کی کڑاھی میں بہت ساری روح افزا کی بوتل انڈیل دی ھو۔ھونٹ لال سرخ ھورھے تھے۔اس کا قد 6 فٹ سے نکلتا ھوا تھا اور جسم کسرتی تھا۔چوڑا چکلا سینہ کمر تک اتے اتے وی کی شکل اختیار کر گیا تھا۔اس نے بلیک کلر کی ٹائٹ ٹی شرٹ اور نیکر پہنی ھوئ تھی۔نیکر بہت ٹائٹ اور چھوٹی تھی جس میں سے اس کی بھری بھری رانیں پھوٹی پڑ رہی تھی۔ان گلابی رانوں کو دیکھتے ھی میرا میٹر شورٹ کر گیا تھا۔
اس نے اوپر سے لیکر نیچے تک میرا جائزہ لیا۔اس کے ھونٹوں پر ایک دلاویز مسکراھٹ ابھری
ْجی فرمائیے ،اٌپ کس سے ملنا چاہتے ھیں?ٌ اس نے جلترنگ جیسی اواز میں پوچھا۔
وہ جی وہ راحیل۔ ۔ ۔ ٌ میری پھنسی پھنسی اواز نکلی۔اس کی شخصیت کے اگے میرا دم نکل گیا تھا۔
ْاچھا تم سعد ھو ٌوہ مسکرایا ْاجاؤ، راحیل واش روم میں ھےٌوہ اگے چلا میں اس کے ہیچھے۔ پیچھے سے اس کی گاند کی بھری بھری گولائیاں بلکل چپکی ھوئ نیکر کی وجہ سے قیامت ڈھا رھی تھی۔چلتے چلتے وہ اچانک مڑا۔میں بری طرح بوکھلا گیا۔مجھے یوں لگا جیسے اسے پتہ چل چکا ھے کہ میں اس کے کولہوں کو گھور رہا تھا۔
وہ پھر بغور مجھے دیکھنے لگا۔مسکرایا اور دوبارا پلٹ کر چلنے لگا اور ھم ڈرائنگ روم میں اٌگئے۔ٹھیک اسی وقت اندرونی دروازے سے راحیل بھی اْیا اور گرمجوشی سی مجھ سے اْکر لپٹ گیا۔پھر اس نے کہا ْسعد یہ میرے بڑے بھائ ثاقب ھیںٌ واقعی اس کے نقوش راحیل سے بےحد ملتے تھے لیکن حقیقت میں ثاقب راحیل سے بہت زیادہ خوبصورت تھا۔ثاقب شرارت سے مسکرایا۔
ْاصل میں ان کے بھی ایک دوست اْنے والے تھے اس لئے یہ رک گئے ھیںٌ راحیل نے بتایا۔میں اور راحیل بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔کچھ دیر بعد ثاقب اٹھ کر اندر چلاگیا۔میری عجیب سی کیفیت تھی۔بار بار مجھے ثاقب کی ننگی رانوں کا خیال اْرہا تھا۔میرے بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد ثاقب اندر سے بہت سارے لوازمات لیکر اگیا اور راحیل زبردستی مجھے کھانے پر مجبور کرتا رہا۔ثاقب بھی برابر والے صوفے پر اْکر بیٹھ گیا۔میرے بدن میں پھر سرد سی لہریں دوڑنے لگیں میری نظ کھاتے ھوئے پھر ثاقب کی رانیں ٹٹولنے لگیں۔
اسی وقت گھنٹی بجی اور ثاقب اٹھ کر باہر گیا اور جب واپس اْیا تو اس کے ساتھ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔اس میں اورثاقب میں کوئ چیز مشترکہ تھی تو وہ صرف قد کاٹھ تھا۔وہ کافی کالا تھا۔اور ثاقب کے ساتھ تو بلکل حبشی لگتا تھا۔مجھے وہ بلکل اچھا نہیں لگا۔ثاقب نے اس کا مجھ سے تعارف کروایا۔اس کا نام امجد تھا اور وہ بھی ثاقب کے ساتھ انجنئرنگ کالج میں تھا۔وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گیا۔اب ثاقب بلکل میرے برابر اْکر بیٹھ گیا۔اس کی ننگی گلابی ران میری ران سے ٹچ ھورہی تھی۔میں جھکی ھوئ نگاھوں سے اس کی نیکر کا ابھرا ھوا حصہ دیکھ رہا تھا۔نیکر کے اندر سے ہی محسوس ھورہا تھا کہ اس کا ٹول کتنا بڑا ھے۔ایسا لگتا تھا کہ ابھی وہ ابھرا ھوا حصہ نیکر پھاڑ کر نکل اْئے گا۔
اچانک مجھے محسوس ھوا کہ امجد مجھے دیکھ رہا ھے۔میں نے بوکھلا کر اپنی نظریں دوسری طرف گھمالی۔مجھے یوں لگا جیسے امجد مسکرا رہا ھے۔مجھے سخت گھبراہٹ ھونے لگی۔میں نے اپنا دھیان باتوں کی طرف لگایا۔تھوڑی دیر بعد ثاقب اٹھ کر اندر گیا اور نہ چاہتے ھوئے بھی میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔اس کے جسم کا ھر زاوئیہ میرے اندر اْگ لگا رہا تھا۔میں اپنے دل میں راحیل کے لئے کچھ خواب بسا کر اْیا تھا اور میرے دل میں اس کا بھائ اْبسا تھا۔
5منٹ کے بعد امجد بھی اٹھ کر اندر چلا گیا۔راحیل مجھے اپنی کچھ پرانی تصویریں دکھانے لگا۔15 منٹ بعد ثاقب کوک لیکر اٌگیا۔امجد اس کے ساتھ تھا۔کوک پینے کے بعد میں اٹھ کھڑا ھوا کہ اب میں چلونگا۔میں نے انھیں بتایا کہ بس کے لئے مجھے کافی پیدل چلنا پڑے گا تو ثاقب ایک دم بولا کہ امجد حیدری جارہا ھے تمھیں بس تک چھوڑدہگا۔منع کرنے کے باوجود مجھے امجد کے ساتھ اس کی بائیک پر بیٹھنا پڑا۔
بائیک پر امجد کے پیچھے بیٹھ کر مجھے احساس ھوا کہ امجد کا بدن کتنا چوڑا ھے۔اس کی پیٹھ کے پیچھے سے مجھے کچھ بھی نظر نہ ارہا تھا۔امجد مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں کہاں رہتا ھوں۔میں نے بتایا کہ ایف بی ایریا میں تو وہ بولا کہ اسے گھر سے کچھ لیکر گلشن جانا ھے تو میں اس کے ساتھ چلوں وہ مجھے چھوڑ دیگا۔میرے منع کرنے کے باوجود وہ نہ مانا۔چلتی ھوئی بائیک پر اس سے بات کرنے کے لئے مجھے اپنا اٌپ تھوڑا سا اٹھا کر اس کے کان کے قریب جانا پڑرہا تھا جس کی وجہ سے میرا سینہ اس کی پیٹھ سے ٹکرارہا تھا۔اسی دوران مجھے ایک مست کردینے والی خوشبو اس کی شرٹ سے اٹھتی فیل ھوئی اور مجھے احساس ھوا کہ میرا بدن اس کے بدن سے ٹکرا کر ایک سنسنی سی میرے اندر دوڑارہا ھے۔
کچھ ھی دیر میں ھم حیدری کے ایک اپارٹمنٹ میں داخل ھوگئے۔میرے منع کرنے کے باوجود اس نے میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے سیکنڈ فلور کے ایک فلیٹ کا چابی سے دروازہ کھول کر اندر لے گیا۔وہ دو کمروں کا فلیٹ تھا۔اس نے مجھے صوفے پر بٹھایا اور مجھ سے کہا کہ صرف دو منٹ میں ھم چلتے ھیں۔فرج کی طرف جاتے جاتے اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد سے یہاں اکیلا رہتا ھے اور ثاقب جس کمپنی میں چیف انجنئر ھے وھیں ثاقب نے اسے ایک مناسب جاب دلوائی ھوئی ھے۔وہ دو گلاس اور کوک لے ایا اور نہ چاہتے ھوئے بھی میں کوک پینے لگا۔اس دوران اس نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے انجنئرنگ پوری نہ کر سکا اور یہ ثاقب کا احسان تھا کے بعد میں اس نے اپنی کمپنی میں ایک اچھی جاب دلوادی۔
وہ اپنے بارے میں بتارہا تھا اور میں کوک پیتے ھوئے غور سئ اسے دیکھ رہا تھا۔وہ اتنا کالا نہیں تھا جتنا وہ مجھے ثاقب کے ساتھ کھڑا ھوا لگا تھا۔اس کا رنگ گہرا سانولا تھا اور ھونٹ قدرے بھاری تھے۔گہری اٌنکھیں تھیں۔وہ بلکل میرے قریب بیٹھا ھوا تھا۔مجھے پھر اس کے اندر سے خوشبو فیل ھوئی۔مجھے پھر نیکر میں ملبوس ثاقب یاد اٌنے لگا اور میرے دل میں اس کے خیال سے خماری چھانے لگی۔میں تصور میں ثاقب کی نیکر اتار کر اس کے ٹول کو ھاتھ میں لیکر مسلنے لگا۔اچانک امجد نے میری ران پر ھاتھ مارا۔میں بوکھلا گی
ْکہاں کھوگئےْ اس نے پوچھا اور میں نے گڑبڑا کر بتایا کہ میں اس کی بات سن رہا ھوں۔اچانک اس نے مجھ سے پوچھاْکیا ثاقب تمھیں اچھا لگتا ھےٌ میں ششدر رہ گیا۔سمجھ میں نہیں اٌیا کہ کیا جواب دوں۔ا
جب اس نے میری ران پر ھاتھ مارا تھا تو دوبارہ نہیں ہٹایا تھا۔ ْمیں جانتا ھوں کہ تمہیں ثاقب اچھا لگتا ھے۔ویسے وہ واقعی چیز ھے۔ْامجد کہے جارہا تھا اور مجھے چپکی لگ گئی تھی ۔ْمیرا خیال ھے کہ تم بھی اسے اچھے لگے ھوْ ًٰمیں نظریں جھکائے سن رہا تھا۔مجھ میں کچھ بھی کہنے کی ھمت نہیں تھی۔میرے بدن میں سنسنی سی پھیل گئی تھی اور میرا پورا وجود کسی اٌگ میں جلنے لگا تھا۔ایسی اٌگ جس میں مزاہ تھا۔
ْکیا تم ثاقب سے اکیلے میں ملنا چاہوگے?ْ اب میں نے حیران ھو کر اپنی نظریں اٹھائی۔عین اسی وقت اس نے اپنے ھاتھ سے میری ران کو دبایا جس سے اس کے سوال کا اصل مقصد اور بھی واضح ھوگیا۔ ‘‘ھاں وہ تمہیں پسند کرتا ھے اور تم بھی اسے پسند کرتے ھو، لیکن اسے دڑ ھے کہ تم اس کے چھوٹے بھائی کے دوست ھو کہیں اسے بتانہ دو ‘‘
میرے پاس اس کے کسی بات کا جواب نہ تھا۔لیکن یہ خیال کہ ثاقب مجھے پسند کرتا ھے میرے وجود کو شرشار کر گیا۔لیکن ابھی بھی میں امجد سے کچھ نہ کہہ سکا۔
‘‘ایک بات بتاؤ کبھی تم نے پہلے کسی کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘امجد نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑدیا اور میں شرم سے پانی پانی ھوگیا۔اسی وقت اس نے میری ران پر اپنا دباؤ اور بڑھادیا۔ ‘‘میں تم کو ثاقب سے اکیلے میں ملواسکتا ھوں۔کیا تم اس سے ملنا چاھوگے?‘‘
میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ میں سختی سے منع کردوں مگر میرا دل مجھے روک رہا تھا۔میرے بدن میں سویئاں سی دوڑ رہی تھی۔
‘‘کیا ۔ ۔ کک کیا یہ ممکن ‘‘ میرے منھ سے بس اتنا ھی نکلا۔
‘‘ھاں ۔تمہاری خواہش پوری ھوسکتی ھے لیکن تمہیں اس گبھراھٹ کو اپنے اندر سے نکالنا ھوگا‘‘
‘‘کک۔ ۔ ۔ کیسے۔ ۔ ‘‘ میرے منھ سے نکلا اور وہ شرارت سے مسکرایا۔اس وقت وہ میرے دل کی بات کررہا تھا اور مجھے دنیا میں اپنے سب سے قریب محسوس ھورہا تھا
‘‘بتادوں کیسے ‘‘اس نے میری اٌنکھوں میں اپنی اٌنکھیں ڈال دیں ۔میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ ایک دم جھکا اور میرے گالوں کو چوم لیا۔اس کا میری ران پر رکھا ھوا ھاتھ کھسکتا ھوا میرے پیٹ پر اٌگیا۔
یہ زندگی میں پہلی بار میرے ساتھ ھوا تھا۔میں ھکا بکا امجد کو دیکھتا رہ گیا۔
‘‘تمہیں برا تو نہیں لگا ‘‘ اس نے تشویش سے پوچھا اور مین حسب عادت چپ رہا۔وہ سمجھ گیا کہ مجھے برا نہیں لگا۔اس کا ھاتھ جہ اب بھی میرے پیٹ پر تھا تھوڑا سا نیچے اٌیا اور میری پینٹ کی زپ والی جگہہ پر اٌکے ٹھہر گیا۔ایک لمحے بعد وہ دوبارا جھکا اور اپنے ھونٹ میرے ھونٹوں پر رکھ دیئے اور میری زپ والی جگہہ پر اس کے ھاتھ کا دباؤ ایک دم بڑھ گیا۔میرا پورا بدن اٌہستہ اٌہستہ کپکپانے لگا۔اس بار اس نے بغیر رکے میرے ھونٹوں کی کسنگ جاری رکھی۔
میری اٌنکھیں خودبخود بند ھوگیئ۔اس نے دانتوں سے میرے ھونٹ کاٹنا شروع کردئے۔میں نے اپنے ھونٹ دبائے ھوئے تھے۔پھر اس نے میرے ھونٹوں پر اپنی زبان پھیرنا شروع کردی۔اس کی زبان کی گیلاہٹ میں نے اپنے ھونٹوں پر فیل کی اور پھر اس کی زبان کا دباؤ میرے دبے ھوئے ھونٹوں پر پڑا اور نہ چاہتے ھوئے بھی میرے دونوں ھونٹ کھل گئے اور اس کی گرم زبان میرے منھ میں دوڑ گئی۔میرا پورا وجود طوفانوں کی لپیٹ میں تھا۔بند اٌنکھوں سے میرے تصور میں ثاقب در اٌیا۔مجھے لگا جیسے ثاقب کے سرخ ھونٹ میری زبان کو چوس رھے ھیں اور اس کی رسیلی زبان میرے منھ میں دوڑ رہی ھے۔لذّت اور انبساط سے میری روح تک شرشار ھوگئی۔وہ دیوانوں کی طرح میرے ھونٹ اور زبان چوس رہا تھا۔ساتھ ھی اس کے گرم ھاتھ میری پیٹھ پر دوڑ رہے تھے۔میں نے اس کےتھوک کو امرت سمجھ کر اپنے حلق سے نیچے اتارا اور پھر اس کا حسین گلابی چہرہ دیکھنے کے لئے اپنی اٌنکھیں کھولدیں اور اپنے سامنے امجد کا چہرہ دیکھ کر میرے اندر مایوسی پھیل گئی اور میں نے غیر اردی طور پر اپنا سر پیچھے ہٹایا۔
‘‘کیا ھوا ‘‘اس نے بڑے پیار سے مسکرا کر پوچھا
‘‘کک۔ ۔ کچھ نہیں ‘‘میں اتنا ہی کہہ پایا۔اس نے میری کمر پر ھاتھ رکھ کر مجھے اپنی طرف گھسیٹا۔ثاقب کی جگہہ امجد کو دیکھ کر میرے اندر مایوسی پھیل گئی تھی۔
‘‘کیا ثاقب میرے ساتھ واقعی یہ سب۔ ۔ ۔ کرنا ۔ ۔ مطلب مجھے پسند کرتا ھے ‘‘ میرے اس اچانک سوال سے سے اس کی مجھ پر نہ صرف گرفت کمزور ھوگئی بلکہ اس کے چہرے سے لمحہ بھر کے لئے مسکراہٹ بھی غائب ھوگئی لیکن دوسرے لمحے میں وہ مسکرایا۔یقینّا اسے ثاقب کے لئے میری بے چینی بری لگی تھی۔
‘‘تم بھول رہے ھو میرے ساتھ تمہیں زبردستی بائیک پر اسی نے بٹھایا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ میں تمہیں کسی طرح کریدوں کہ تم اسے چاہتے ھو کہ نہیں۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی ایسی گڑبڑ ھو کہ جس سے راحیل یا گھر کے کسی اور فرد کو پتہ چل جائے۔میں وعدہ کرتا ھوں کہ کچھ دنوں میں حالات سازگار کرکے تمہیں اس سے ملوادونگا ‘یہ کہہ کر وہ دوبارا جھکا اور میرے منھ میں اپنی زبان گھسیڑ دی۔میں امجد کو ناراض کرنا نہیں چاہتا تھا۔وہی تھا جو مجھ جیسے ڈرپوک لڑکے کو ثاقب سے ملواسکتا تھا اور دوسری بات یہ کہ میرا اپنا گرم وجود اس وقت چاہ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنے اندر سمالے۔
اس نے مجھے دونوں ھاتھوں سے پکڑ کر مجھے اپنے سینے سے بھینچ لیا اور دیوانہ وار میرے منھ میں اپنی زبان دوڑانے لگا۔میری سانسیں اتھل پتھل ھورہی تھیں اور زندگی کا وہ لطف جس کا میں صرف خواب دیکھا کرتا تھا کہ کسی کے سینے سے لگ کر اپنے جنم جنم کی پیاس بجھالوں وہ اٌج میں نے پالیا تھا۔کتنی عجیب بات تھی کہ اٌج میں گھر سے راحیل کے ساتھ کچھ کرنے کی خواہش لیکر نکلا تھا اور اس کے گھر پہنچنے کی بعد میرے خوابوں مینں مجھ سے دس سال بڑا اس کا بھائی اٌبسا تھا لیکن میرا وہ خواب ایک تیسرے ھی فرد کے ساتھ پورا ھوا تھا جو پہلی نظر میں مجھے بہت برا لگا تھا۔ امجد مجھے سینے سے بھینچے میرے ھونٹ چوس رہا تھا اور پھر اس نے اپنی زبان سے میرے گال چاٹنا شروع کردیئے۔وہ پاگلوں کی طرح میرے پورے منھ کو چوس رہا تھا۔کبھی گال تو کبھی اٌنکھیں اور کبھی میری گردن۔یونہی چومتے چوستے وہ میرے کان تک اٌیا اور اپنے دانتوں سے کان کا سرا اٌہستہ اہستہ کترنے لگا۔شدت لزت سے میری اٌھ نکل گئی۔
کانوں پر اپنی زبان پھیرتے ھوئے وہ بڑی مدھ بھری اٌواز میں بولا ‘‘سعد یو اٌر گریٹ! تم بہت کیوٹ اور بھولے ھو۔میرا دل کررہا ھے کہ میں تمہیں اپنے اندر کہیں چھپالوں ۔تمہارے اندر ایک نشہ ھے ‘‘یہ کہتے ھوئے اس نے مجھے سینے سے لگائے ھوئے اٹھالیا اور مسلسل کسنگ کرتے ھوئے مجھے بیڈروم میں لے اٌیا اور بڑے پیار سے مجھے بستر پر لٹادیا۔پھر وہ خود میرے اوپر چھاگیا۔اس کے چوڑے چکلے وجود کے اٌگے میری مثال کبوتر جیسی تھی لیکن پورا مجھ پر اجانے کے باوجود اس نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ میں اس کے نیچے اٌکر پس نہ جاؤں ۔جانے مجھے کیا ھوا کی میں نے اپنی شرم طیاق کر اپنے دونوں ھاتھ اس کی گردن کے گرد گھمائے اور اس کے منھ کو اپنی طرف کھینچ کر اس کے ھونٹوں پر کس کی۔امجد ششدر ھوکے مجھے دیکھنے لگا۔شاید اسے میری طرف سے کسی پیشقدمی کی امید نہ تھی۔دوسرے لمحے میں میری اس ادا پر فدا ھوکے اس نے دوبارا مجھے چومنا شروع کردیا۔
میں اٌنکھیں بند کرکے جیسے ھواؤں میں اڑرہا تھا۔میرا پورا وجود لرز رہا تھا ۔میرا لند میری پینٹ میں اتنا کھڑا ھوگیا تھا کہ پھنس رہا تھا۔دیکھتے دیکھتے امجد نے میری شرٹ کے سارے بٹن کھول ڈالے۔میرا نازک سا جسم اب اس کے سامنے کھلا تھا۔اس سے پہلے کے میں سوچتا کہ وہ اب کیا کرے گا اس نے اپنی زبان میرے ایک نپل پر رکھی اور اسے باقاعدہ چوسنے لگا۔اف۔ ۔ میری تو کراہ نکل گئی ۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے چوسنے سے میرے بدن میں اس طرح کرنٹ دوڑ جائے گا۔میرے منھ سے مسلسل اٌھیں نکل رھی تھیں اور وہ ایک کے بعد ایک نپل چوسے جارہا تھا۔او گوڈ اتنا مزاہ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔اور اس وقت تو غضب ھی ھوگیا جب چوستے چوستے وہ میرے پیٹ سے ھوتا ھوا میری ناف تک اٌیا۔مجھے ایسا لگا جیسے ایک اٌگ سینے سے رینگتی ھوئی میرے ناف تک اٌگئی ھو۔اور پھر امجد نے اپنی دہکتی زبان میری ناف میں گھسیڑدی۔میں جیسے اچھل پڑا۔ایک اٌہ سی میرے منھ سی نکلی اور میں نے شدت جزبات سے امجد کے سر کے بال پکڑلئے۔امجد ان باتوں سے بے پرواہ میری ناف کے گرد اپنی زبان گھما رہا تھا اور میں مسلسل سسکاریان بھر رہا تھا۔
میں ساتویں اٌسمان پر اڑرہا تھا اور امجد میرے پیٹ کا ایک ایک حصہ چوم رہا تھا اور چوس رہا تھا۔اس کا ایک ھاتھ میری پینٹ کے ابھرے ھوئے حصے پر تھا جس کے دباؤ سے میرا لند اکڑنے لگا تھا۔پھر اس کے دوسرے ھاتھ کی ایک انگلی میری پینٹ کے اوپر سے اندر سرائیت کر گئی۔مانو میری تو جیسے سانس رک گئی۔اس کی انگلی شاید میری انڈروئیر سے ٹکرائی اور اس نے تھوڑی سی اسے باہر کھینچ لی۔میں نے سرخ رنگ کی انڈروئیر پہنی ھوئی تھی جس کا تھوڑا سا سرا باہر اٌگیا تھا۔وہ میری انڈروئیر دیکھ کے مسکرایا۔‘‘لال کلر سیکس کا کلر ھوتا ھے اور میں سمجھ سکتا ھوں کہ تم عرصے سے اپنی خواہش دبائے بیٹھے ھو اپنا من مار کر شرم اور بدنامی کے خوف سے صرف تصورات میں جی بہلارھے تھے۔اور میں یہ بھی جانتا ھوں کہ اٌج تم زندگی میں پہلی بار ایسا کر رھے ھو۔اٌج تم بےخوف ھوکر اپنے دل کی بھراس نکال سکتے ھو۔یقین کرو میں دل سے تمہارے ساتھ ھوں۔اٌج صرف اور صرف تمہارا دن ھے ‘‘ اس کے بعد وہ دوبارا جھکا اور میرے ھونٹ بڑی نرمی سے چوم لئے۔
اس کا انداز میرے ساتھ بہت ھی والہانہ تھا حالانکہ اگر وہ چاہتا تو مجھے نوچ کھسوٹ سکتا تھا میں کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔لیکن وہ مجھے تکلیف پہنچائے بغیر مجھے مزاہ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔کسنگ کرتےکرتےاس کا ھاتھ پھسلتا ھوا میری پینٹ کے بیلٹ تک پہنچا اور اس نے میرا بیلٹ کھول دیا۔اس کی زبان دوبارا میرے منھ میں دوڑ گئیاور اسی کے ساتھ اس نے پینٹ کا بٹن کھول کے میری زپ نیچے کردی۔زپ کی اٌواز کے ساتھ میرا دل اچھل کر حلق میں اٌگیا۔اتنا ٹینس میں زندگی میں کبھی نہیں ھوا تھا ۔عین اسی وقت اس نے دانتوں سے میری زبان پکڑلی اور اسے چوسنے لگا۔ساتھ ساتھ اس کا ھاتھ پینٹ کے اندر کھسک گیا۔انڈروئیر پر ھونے کے باوجود اس کے ھاتھوں کی ھیٹ میں نے اپنے فل ٹینشن میں اٌئے ھوئے لند پر محسوس کی۔میں ایک جھرجھری لیکر رہ گیا۔
میری سانسیں اتھل پتھل ھوچکی تھیں ۔اس نے انڈروئیر کے اوپر سے میرا لند پکڑ لیا۔میری ایک طویل اٌہ نکل گئی۔اس نے بیتاب ھو کر میری زبان چوسنے کی رفتار بڑھادی۔ پھر وہ میرے ھونٹوں پر اپنی زبان پھیرتا ھوا میری گردن تک اٌیا اور پھر وھاں سے پھسلتا ھوا میری نپل تک اٌیا اور چند لمحیں اسے چوسنے کے بعد سینے سے ھوتا ھوا پیٹ پر اٌیا ۔اس کی زبان کی گرمی اور گیلاہٹ سے میرا تن بدن جل رہا تھا۔ناف پر پہنچ کے اس نے ناف کے اندر تک زبان گھسیڑدی۔ساتھ ساتھ وہ خود بھی پھسلتا ھوا نیچے ھوگیا تھا۔اس کے دونوں ھاتھ میری پینٹ پر تھے۔ناف چوستے ھوئے اس نے اپنے ھاتھوں کے زور سے میری رانوں کو اوپر اٹھایا اور زبان ناف سے نیچے لے جاتے ھوئے میری پینٹ نیچے کردی اور اپنا منھ میری سرخ انڈروئیر کے اوپر رکھ کے میرے ابھرے ھوئے حصے کو اپنے دانتوں میں دبالیا۔یہ کام اس نے اتنی تیزی اور مہارت سے کیا کہ سرور اور کیف کی کیفیت میں میری ہلکی سی چیخ نکل گئی۔
میں زلزلوں کی لپیٹ میں تھا اور وہ میرا لند انڈروئیر کے اوپر سے اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا۔میری سسکیاں لزت و انبساط سے اٌھوں میں اور پھر کراھوں میں بدل گئی تھیں۔سرور کا ایک سلسلہ تھا جو رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔امجد بھی رکا نہیں تھا۔گہری گہری سانسوں کے ساتھ اس کا بھی کام جاری تھا۔اب وہ انڈروئیر کے اوپر سے ھی میرا لند چوس رہا تھا۔اس کے والہانہ انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ اسے بھی بیحد مزاہ اٌرہا ھے۔اس کے تھوک سے میراے انڈروئیر کا وہ پورا حصہ گیلا ھوچکا تھا اور میرے لند کی پوری اٌؤٹ لائین لند کے وائٹش کلر کے ساتھ صاف نظر اٌنے لگی۔اس نے چمکتی اٌنکھوں سے لمحہ بھر رک کر میرے ابھرے ھوئے لند کا جائزہ لیا اور پھر بیخود ھوکر دوبارہ انڈروئیر کے اوپر سے میرے لند کو منھ میں لیکر چوسنے لگا۔مستی میں اٌکر میں نے اس کے ڈولتے ھوئے سر پر ھاتھ رکھ کر اس کے بالوں کو پکڑ لیا۔
دیر تک وہ انڈروئیر کے اوپر سے میرا لند چوستا رہا۔میرے انڈرویئیر کا اوپری حصہ پورا گیلا ھوگیا تھا۔ساتھ ساتھ وہ میری انڈروئیر سے نکلتی ھوئی چکنی اور گوری رانوں پر بھی اپنی زبان پھیرتا رہا۔اس کی زبان کی حدت سے میرا پورا وجود پھنک رہا تھا۔اس کی بیخودی کا یہ عالم تھا کہ کبھی چومتا تھا کبھی چوستا تھا کبھی کاٹتا تھا۔میرا لند تن کر پوری طرح میری انڈروئیر میں کھڑا ھوچکا تھا۔اایک وقت اٌیا کہ میرے لئے یہ ناقابل برداشت ھوگیا۔میں ایک جھٹکے سے پلنگ پر بیٹھا اور بالوں ھی سے پکڑ کر اس کا سر اٹھایا اور اس کے سلگتے ھوئے ھونٹوں پر اپنے ھونٹ رکھ دئیے اور باقاعدہ سسکاریاں لیتے ھوئے اس کے ھونٹ بیدردی سے کاٹنے لگا۔اس نے گھٹنوں کے بل بیٹھے ھوئے میرے لئے اپنے اٌپ کو ڈھیلا چھڑدیا۔اب میری زبان اس کے سیاھی مائل منھ کو چوم رھی تھی۔اس کے ھونٹ چوس رھی تھی۔اس کے منھ میں گھوم رھی تھی۔اس وقت مجھے اپنے جسم کی بھوک یاد تھی صرف۔نہ مجھے راحیل یاد تھا اور نہ ثاقب۔نہ مجھے یہ یاد تھا کہ جس کے ھونٹوں کو میں چاٹ رہا ھوں پہلی نظر میں وہ مجھے سخت برا لگا تھا۔
میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کے گال چاٹنے لگا۔پھر چاٹتے چاٹتے اس کی گردن پر زبان پھیرنے لگا۔میں نے اپنے لرزتے ھاتھوں سے اس کی شرٹ کا بٹن کھولنا شروع کردیا ۔اس نے مسکرا کر نیچے سائیڈ سے اپنے بٹن کھول دیئے۔اب اس کا چوڑا چکلا سینہ میرےسامنے تھا۔
اس کے سینے پر معمولی بال تھے۔نپل بڑے اور ابھرے ھوئے تھے اور پیٹ تو جیسے تھا ھی نہیں۔بلاشبہ اس کا جسم کافی سیکسی تھا۔ میں نے اس کی بڑی سی کمر پر اپنا ھاتھ رکھا اور جھک کر اس کے نپل کو اپنے منھ میں لے لیا۔ اس نے ایک طویل سسکاری بھری۔اس کا بدن جھرجھرایا۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کتنوں کہ ساتھ سیکس کرچکا ھے لیکن مجھے یہ اندازا ضرور ھو گیا تھا کہ میرے ساتھ اسے بہت مزاہ اٌرہا ھے اور میری طرح وہ وجد کی کیفیت میں ھے حالانکہ میرا تو یہ پہلا تجربہ تھا۔اسی کی طرح نپل چوستے چوستے میں زبان پھیرتا ھوا نیچے ھوتا چلاگیا اور اس کی سسکاریوں میں اضافہ ھوتا چلاگیا اور جب میں ناف تک پہنچا تو وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔جب میں نے اس کی ناف پر اپنی ننگی زبان پھیری تو وہ تڑپ اٹھا۔میں اس کے اندر دبے ھوئے پیٹ پر اپنی زبان پھیرتا رہا اور وہ اٌنکھیں بند کئے مزے لیتا رہا۔اس کے بعد جب مجھ میں مزید برداشت نہ رہی تو میں نے اس کی پینٹ کی بیلٹ پر اپنا ھاتھ مارا۔اٌنے والے لمحات کے تصور سے اس کا پورا جسم کانپ کر رہ گیا۔خود میری سانسیں اکھڑ گیئں تھین۔ اور پھر جب میں نے بیلٹ کھول کر اس کی پینٹ نیچے کی تو وائیٹ اندڑویئر میں اس کا وہ حصہ میرے سامنے تھا جس کو دیکھنے کے تصور سے مجھے کپکپی طاری ھوگئی تھی۔
انڈروئیر کے پیچھے چھپے مال کو دیکھ کر میری اٌنکھیں پھیل گئیں ۔اس کے لند کی اٌؤٹ لائین اتنی بڑی تھی کہ مجھے خوف لاحق ھوگیا لیکن سیکس کے بڑھتے ھوئے ٹینشن نے مجھے زیادہ سوچنے کا موقع نہیں دیااور میں نے بے صبری سے اس کی انڈروئیر کے ابھرے ھوئے حصے پر اپنے ھونٹ رکھ دئے۔وہ بری طرح تڑپا۔میں نے اس کی گاند پر دونوں ھاتھ رکھ کے اپنا پورا منھ اس کی جانگھوں میں گھسا دیا۔اس کے ابھرے ھوئے بڑے سے لند کو میں نے انڈروئیر کے اوپر سے اپنے منھ میں لیا اور اٌہستہ سے اس پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔میں وہی کررہا تھا جو اس نے میرے ساتھ کیا تھا کیونکہ میرے خیال میں یہ اس کا حق تھا۔زندگی میں پہلی بار اس نے مجھے اس لزت سے روشناس کروایا تھا جس کی تمنا میں میں عرصے سے مراجا رہا تھا۔میں نے اس کی کالی رانوں پراپنی زبان پھیری۔اس کی رانیں بالوں سے صاف تھیں ۔رانوں سے کافی نیچے جا کر اس کی ٹانگوں پر بال تھے۔اس کی جلتی ھوئی رانوں پر زبان پھیرنے سےمجھے بڑا مزاہ اٌرہا تھا۔ اس کی پھنسی ھوئی انڈروئیر سے نکلتی رانیں میرے لئے وجد اٌور ھوگئی تھیں۔میں نےران کی اسی طرف سے انڈرویئر کو اور اوپر اٹھایا یہاں تک کہ اس کے ٹٹے کا ایک حصہ نظر اٌنے لگا اور وہیں اپنی زبان گھسیڑدی،
‘‘اف ۔ ۔ اٌہ۔ ۔ میں گیا۔‘‘ وہ تڑپ اٹھا۔میں نے مزید انڈرویئر کو اٹھایا اور ساتھ ساتھ میری زبان نے اندر کی طرف پیشقدمی جاری رکھیْْاو سعد ۔۔ ۔ اٌئی لو یو مائی بوائے۔ ۔ اٹس امیزنگ ۔ ۔ او گوڈ۔۔‘‘ وہ مسلسل سسکاریاں بھرتے ھوئے کچھ نہ کچھ کہہ تہا تھا اور میں مسلسل اس کی ران کی طرف سے اپنی زبان اس کی انڈروئیر کے اندر تک لیتا چلاگیا۔
میری زبان ران کے اٌخری حصے پر کونے سے ٹکرارہی تھی اور اس کے ایک ٹٹے کا کچھ حصہ بھی میری زبان کی زد میں اٌرہا تھا۔میں اپنی زبان دبا دبا کر اس کی ران کے اٌخری کونے پر پھیرتا رہا اور وہ سسک سسک کر میری حوصلہ افضائی کرتا رہا۔اس کے ابھار کا سائز بڑھتا رھا اور وہ وقت اٌیا جب اس کے لند کا اینگل پھسل کر کچھ کم ھوا تو مجھے وہ ہپناٹائز کردینے والا منظر نظر اٌیا۔اس کے بڑے سے لند کا ٹوپا انڈروئیر سے باہر چھلک اٌیا تھا۔میں سب کچھ بھول کر مسحور ھوکے انڈروئیر سے باہر نکل اٌنے والے اس کے کالے لیکن چکنے لند کے بڑے سے ٹوپے کو دیکھنے لگا۔میرے لئے یہ ایک جادوئی منظر تھا۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی اور کے لند کو نہیں دیکا تھا۔پھر جیسے میں سلوموشن میں بلکل ہپناٹائز ھوکے انڈروئیر کے اوپر سے اس کے لند کو اپنے منھ سے رگڑتا ھوا اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھا اور اس کے جلتے ھوئے لند کے نظر اٌنے والے حصے پر اپنی زبان پھیری اور دوسرے لمحے میں پورا ٹوپا اہنے منھ میں لی لیا۔اس کا پورا لند لزت کی شدت سے تھرا گیا اور انڈروئیر تھوڑا اور نیچے ھوگیا ۔وہ لند اٌہستا اٌہستہ مجھے تڑپا تڑپا کر سامنے اٌرہا تھا اور میں صبر کئے بغیر اسے اور اپنے منھ میں لیتا جارہا تھا ۔
اس کے منھ سے لایعنی اٌوازوں کا سلسلہ جاری تھا جو مجھے یہ احساس دلا رہا تھا کہ اسے کتنا مزاہ اٌرہا ھے اور میں بھی بغیر رکے اس کے لند کے اوپری حصے کو چوسے جارہا تھا۔اس کے لند کی موٹائی سے میرا منھ تھک سا گیا اور میں نے اپنی زبان اور منھ کے تلے اس کے لند کو پوری قوت سے دبا کر اپنے منھ کو باہر کھینچا۔وہ شدت لزت سے چیخ پڑا۔میرے بھی صبر کا پیمانہ چھلک پڑا اور میں نے دونوں طرف سے پکڑ کر اس کی انڈروئیر نیچے کھینچ لی۔اس کا اکڑا ھوا لند کسی راڈ کی طرح میرے گال سے ٹکرایا اور میں لند کا سائز دیکھ کر بوکھلا گیا۔اس کا لند اٌٹھ انچ سے بھے بڑآ اور دو انچ سے زیادہ موٹا تھا۔میں یک تک لند دیکھے جارہا تھا۔
اس کو دیکھ کر میری اٌنکھوں میں تشویش کی پرچھائی لہرائی جو مجھے ایسا لگا کہ اس نے بھانپ لی ‘‘ثاقب کو میرا لند بہت پسند ھے۔وہ کئی کئی منٹوں تک اسے چوستا رہتا ھے ‘‘ مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس جملے سے اس کا مقصد کیا ھےلیکن اس کا یہ جملہ سن کر میرا دل کٹ کر رہ گیا۔نہ جانے کیوںمجھے یہ سن کر بلکل اچھا نہیں لگا کہ ثاقب اس کا لند چوستا ھے۔چشم تصور سے میں نے دیکھا کہ ثاقب کہ خوبصورت منھ میں امجد کا کالا لند ھے۔اور وہ اسے مزے لی لیکر چوس رہا ھے۔اس کے گلابی امجد کے لند کو چوم رھے ھیں اور اس کی ھموار زبان امجد کے پورے لند کو چاٹ رہی ھے۔کبھی وہ اپنے منھ میں میں امجد کے کالے ٹٹے لیکر چوس رہا ھے۔میرے لیئے یہ تصور روح فرسا تھا کہ جا سے مجھے پہلی نظر میں محبت ھوگیئ تھی وہ کسی اور کا اور وہ بھی اتنا کالا لند اپنے منھ میں لیتا ۔میرے نزدیک یہ ثاقب کے منھ کی توہین تھی۔پھر مجھے خیال اٌیا کہ میں بھی تو ھوس کے ھاتھوں مجبور ھوکر امجد کا کالا لند چوس رہا تھا۔میں نے ایک گہری سانس لی اور امجد کا بڑا سا لند اپنے دونوں ھاتھوں سے پکڑا ۔اس کے بوجود اس کے لند کا ٹوپا پورا ھاتھوں کی گرفت سے باہر تھا اور ایک اور تصور اپنے دماغ میں لایا کہ اس لند پر ثاقب کے خوبصورت ھونٹوں کا لمس ھے۔اسے اس کے سرخ لبوں نے چوسا ھے۔ایک بار پھر اس خیال نے مجھے بی حال کردیا اور مٰیں نے بی تاب ھوکر اس کے لند کا ٹوپا اہنے منھ میں لی لیا اور جہاں تک میرے ھاتھ تھے وہاں تک میں نے امجد کا لند منھ میں لیکر چوسا اور اس کے لند کی نوک پر گیلی زبان پھیری۔اپنے تیئں میں امجد کا لند نہیں چوس رہا تھا بلکہ ثاقب کے لبوں کو چوس اس تھوک کی مہک فیل کررہا تھا جو امجد کے لند کو چوستے ھوئے ثاقب کے منھ سے نکل کر امجد کےلند کو گیلا کر گئی تھی۔میں نے اپنا ایک ھاتھ ہٹادیا اور امجد کے لند کو اپنے منھ میں اور اندر تک لے گیا اور پوری دلجمعی سے اسے چوسنے لگا۔حقیقت تو یہ ھے کہ اس کا اٌدھا لند بھی پوری طرح میرے منھ میں نہیں اٌسکا تھا۔
امجد کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ھوگئا اور اس نے مجھے اٹھایا اور میرے گیلے ھوتے ھوئے منھ میں پھر اپنی زبان گھسیڑدی اور بےتابانہ اسے چوسنے لگا۔اس کے ھاتھ پھسلتا ھوا میرے کمر تک اٌیا اور پھر اس نے بھی میری سرخ انڈروئیر کھینچ لی۔میرا تھراتا ھوا لند اس کے لند سے ٹکرایا اور مانو چنگاریاں پھوٹ پڑی اور میں نے اس کے جسم سے اپنا جسم بھینچ لیا۔میرا نچلا نازک سا حصہ اس کے بھرے ھوئے نچلے حصے سے ٹکرارہا تھا ۔میرا لند اس کے لند سے باتیں کررہا تھا۔دیر تک وہ میرے منھ کی کسنگ کرتا رہا۔
‘‘ او سعد ۔۔ ۔ میں جھوٹ نہیں بولونگا۔تم سے پہلے تم سے بھی خوبصورت لڑکوں کے ساتھ میں نے ایسا کیا ھے لیکن میری جان جو مزاہ مجھے تمہارے ساتھ اٌیا ھے وہ کسی کے ساتھ پہلے نہیں اٌیا۔تمہارے اندر کوئے ایسی کشش ھے کہ میں بھی پاگل ھوگیا ھون۔ اٌئی لو یو مائی ڈارلنگ۔ ۔ ‘‘ان جملوں کے ساتھ اس نے میری کسنگ بھی جاری رکھی اور پھر بڑی نرمی سے اس نے مجھے ہلکا سا پیچھے ہٹا کر میرے لند پر نظر ڈالی ۔میرا لند تقریباْ ساڑھے پانچ انچ لمبا تھا اور اس کے اپنے لند کے مقابلے میں کافی پتلا تھا لیکن بلکل سیدھا اور تنا ھوا تھا۔ میرا لند بلکل سفید دودھ جیسا اور بے داغ تھا۔میرے لند کو دیکھ کر اس کی اٌنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔اس نے بڑی ملائمت سے میرے تنے ھوئے لند کو پکڑا اور اہستہ اٌہستہ اسے سہلانے لگا ۔اس کے ھاتھوں میں میرا لند ھچکولے کھا رہا تھا۔پھر وہ گھٹنے کے بل بیٹھ گیا اور کئی لمحوں تک میرے لند پر نظر جمائے رہا۔اٌنے والے وقت کے تصور سے میرے اندر ہیجانی سی کیفیت طاری ھوگیئ اور پھر وھی ھوا جو میں سوچ رہا تھا۔اس نے اپنے بڑے سے منھ میں میرا پورا لند لے لیا۔
اس کے گرم گرم منھ میں جا کر میرا لند جیسے سلگ اٹھا اور میری ایک ہیجانی سی چیخ نکل گئی۔مین نے پھر اس کے بال جکڑلیے جیسے لزت اگر ناقابل برداشت ھو گیئی تو میں اسے بالوں سے جکڑ کر روک دونگا۔لیکن یہ لزت تو جتنی بڑھتی ھے اتنا ھی مزاہ اٌتا ھے۔وہ باقاعدہ اواز کے ساتھ میرا لند چوس رہا تھا اور اندر باہر کررہا تھا۔میرے لند کا سرا اس کے حلق سے جا کر ٹکرارہا تھا اور اس کا تھوک میرے پورے لند کو نہ صرف گیلا کر گیا تھا بلکہ باقاعدہ باہر رس رہا تھا۔اس کے وحشیانہ تابڑ توڑ چوسے نے میرا لند اکڑا دیا تھا اور اب مزید برداشت کرنا مشکل ھوا جا رہا تھا۔اٌخر میں چلایا بس امجد بس۔ ۔
امجد نے میرا لند چوسنا چھوڑدیا ۔میرا لند بری طرح جھٹکے کھا رہا تھا۔وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنے دونوں ھاتھوں سے میری گاند دبانے لگا۔اس کا ھاتھ میری گاند کی لکیر کے گرد گھوم رہا تھا۔میں اپنی اتھل پتھل سانسوں کو کنٹرول کررہا تھا۔اس دوران اس کی انگلی میری گاند کی لکیر کو اٌہستہ اٌہستہ چیررہی تھی۔اور پھر مین نے محسوس کیا کہ اس کی انگلی کا سرا میریے سوراخ کے گرد ٹھرگیا ھے اور پھر مجھے اپنی گاند کے سوراخ پر اس کی انگلی چکراتی محسوس ھویئ۔یہ ایک نیا مزاہ تھا جس کا مجھے زرا اٌئیڈیا نہ تھا۔سنسنی کے مارے میری گاند کا سوراخ پھڑپھڑانے لگا۔
پھر اس کی انگلی کا دباؤ میرے سوراخ پر بڑھ گیا۔میں نے ایک سسکاری لی۔اس نے پیشقدمی جاری رکھی۔اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ سخت خواری کے عالم میں ھے۔اس نے انگلی کو اور اندر کی طرف پش کیا اورشاید اس کی انگلی ناخن تک اندر گھس گئی لیکن میں خود تکلیف سے ہلکے سے چیخا تو اس نے فوراً انگلی کھینچ لی اور میرے لند والی جگہہ میں پھر اپنا منھ رکھ کر میرے لند سے رگڑنے لگا اور پھر اَہستہ اَہستہ اٹھ کھڑا ھوا۔اس کی اٌنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ سخت بےخودی کے عالم میں ھے۔‘‘سعد۔ ۔ او مائی بوائے۔ ۔میں کیا کہوں تم کک۔ ۔ ۔ کیا چیز ھو? میں تمہیں بہت چاہتا ھون۔مم ۔ میں نے اٌج تک کبھی کک۔ ۔ کسی سے گاند نہیں مروائی۔ ۔ کک ۔ ۔ کیا تم ہاں میرے دوست تم مم ۔ ۔ میری گاند مارنا پپ ۔ ۔ پسند کروگے?”
میرا دل ان لفظوں کی ایکسائٹمنٹ سے اچھل پڑا۔میرے لند نے اوپر نیچے دوچار جھٹکے لئے۔مجھے اس سے اس پروپوزل کی امید نہ تھی۔یا تو میرا جادو اس پر پوری طرح چل گیا تھا یا پھر وہ میرا چھوٹا سا لند اپنی گاند میں لیکر بدلے میں اپنا بڑا سا لند میری گاند میں ڈالنا چاہتا تھا۔لیکن ایک اور خیال نے میرا دل بٹھادیا۔اگر امجد نے اٌج تک گاند نہیں مروائی تھی تو پھر ثاقب۔ ۔
۔ ‘‘کیا ثاقب نے بھی نہیں?”سوچ کے ساتھ ساتھ میرے منھ سے نکل گیا۔امجد نے چونک کر مجھے دیکھا ۔اس کے چہرے پر ایک سایہ سا لہراگیا۔
‘‘نہیں۔ ۔ ” وہ گہری سنجیدگی سے بولا۔‘‘ثاقب کو چکنے اور کم عمر لونڈے پسند ھے۔تمہارے جیسے۔اس کا دل ایک سے دوچار ملاقاتوں میں اکتاجاتا ھے”اٌخری جملہ مجھے اضافی لگا۔شایدمجھے ثاقب سے بدزن کرنے لئے۔
لیکن میرا دماغ تو ایک اور مسئلے میں ہھنس گیا تھا۔اگر ثاقب امجد سے گاند نہیں مرواتا تھا تو اس کا لند تو چوستا تھا ۔تعلق تو تھا۔تو کیا۔ ۔
‘‘تو کک۔ ۔ کیا تم اس کی۔ ۔ گاند۔ ۔ ۔ ”میں جملہ پورا نہ کرسکا۔وہی چشم تصور سے پھر میں نے دیکھا کہ ثاقب الٹا ننگا ھوکر لیٹا ھوا ھے اور امجد اپنا موٹا کالا لند ثاقب کی گدرائی ھوئی گاند کے سوراخ پر رکھ کر دھکا لگا رہا ھے اور چند لمحوں میں ایک طویل چیخ کے ساتھ ثاقب نے اس کا پورا لند اپنی گاند میں لے لیا۔
‘‘نہیں ” امجد کا جواب کافی دیر بعد اٌیا۔جانے کیوں میرے دل میں اطمینان کی ایک لہر ڈور گئی۔‘‘ثاقب نے شاید کبھی کسی سے گاند نہیں مروائی۔میرا صرف لند چوسنا اسے اچھا لگتا ھے۔
اسی دوران وہ دراز میں سے کریم کی ایک ٹیوب اٹھالایا اور بہت ساری کریم نکال کر میرے لند پر بکھیر دی۔اس نے میرا لند لینے کا پورا ارادہ کرلیا تھا۔میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ میں اسے روک دوں پر میری ھوس میرے دماغ پر غالب اٌگئی اور میں خاموشی سے اسے کریم میرے لند پر مسلتے دیکھتا رہا۔اس نے دوبارہ کریم نکالی اور میرے دیکھتے دیکھتے اس نے ٹیوب ایک سمت پھینکی اور خود بستر کے کنارے پر بیٹھا۔ٹانگیں نیچے کئے ھوئے وہ پیٹھ کے بل لیٹا۔اپنی دونوں ٹانگیں مخالف سمت میں چیریں اور پھر اپنے ھاتھ کی کریم ساری اپنی گاند کے سوراخ کے گرد بکھیردی اور میرے دیکھتے دیکھتے اپنی موٹی سی درمیانی کریم اٌلود انگلی اپنے سوراخ پر رکھی اور اسے دبایا ۔اس کی پوری انگلی گاند مین گھس گئی۔
اس دوران اس نے اپنا نچلا ھونٹ دانتوں تلے دبا لیا تھا ۔اس کی بھری بھری گاند پوری طرح میرے سامنے تھی اور اس کا کالا گول سوراخ پوری طرح کھل کر سامنے اٌگیا تھا۔اس منظر نے میرے دل میں ایک اٌگ سی لگادی۔میرا سر جلنے لگا۔پھر اس نے لیٹے لیٹے اپنے دونوں ھاتھوں سے اپنی دونوں ٹانگیں اٹھادی۔او مائی گوڈ میں ٹرپ اٹھا ۔اس نے میری طرف دیکھا اور ایک ہسکاری بھری اٌواز میں بولا ‘‘اٌؤ جان۔ ۔ میری گاند تمہارے لند کا انتطار کررہی ھے
‘‘مم ۔ ۔ میں نہیں کر۔ ۔ پاؤنگا۔ ۔”میرے منھ سے پھنسی پھنسی اٌواز نکلی
‘‘نو پروبلم ۔ ۔ تم کوشش تو کرو”وہ فل موڈ مین تھا۔میں اٌگے بڑھا اور اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان میں اٌگیا۔میرے ہیجان کا یہ عالم تھا کہ لگتا تھا ابھی میرا لند پھٹ پڑےگا۔ھمت مجتمع کرکے میں نے اپنا تیر کی طرح سیدھا لند اس کے کالے سے سوراخ پر رکھا۔اس نے ایک سسکاری بھری۔میرا لند تھر تھرایا۔مجھے لگا کہ میں ٹچ کرتے ھی چھوٹ جاؤنگا۔میں نے پیشقدمی روک کے اپنی سانس روک لی۔لند بری طرح اچھلا ۔کچھ توقف سے ہیجان کم ھوا تو میں نے سوراخ پر اپنا لند دبایااور پھر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔اس کی گاند پر اور میرے لند پر لگی کریم نے دونوں کو اتنا سلپری کردیا تھا کہ ایک ہلکے سے دباؤ کے ساتھ میرا لند پھسلتا ھوا اس کی گاند میں گھستا چلا گیا۔
اس کی تیز کراہ پر میں وھیں ساکت ھوگیا۔میرا پورا لند اس کی گاند میں تھا اور اس کی کراہ خاصی طویل تھی۔اس نے شدت درد سے اپنے ھونٹ بھینچ رکھے تھے۔مجھے تعجب ھوا۔ جتنی اٌرام سے لند اس کی گاند میں گھسا تھا اس سے تکلیف تو ھونی ھی نہ چاہئے تھی۔وہ شاید ایکٹنگ کررہا تھا تاکہ اس کی باری پر میں بھی برداشت کروں۔ میں تھوڑا سا پریشان ھوگیا تھا۔دل چاہا کہ اپنا لند اس کی گاند سے نکال لوں اور شاید وہ یہ بات بھانپ گیا کہ میں شش و پنج میں مبتلا ھوگیا ھوں اور اس نے تکلیف دہ اٌواز میں کہا کہ میں رکوں نہ۔ میرا دل پھر میرے دماغ پر حاوی اٌگیا۔رکنے کا ایک فائدہ بھی ھوا کہ میں اس پیک پر تھا کہ اگر میں اپنا لند اسی وقت باہر کھینچ لیتا تو میری منی فوراً نکل جاتی ۔
وہ پورا منظر مجھے بے چین کئے ھوئے تھا ۔وہ بستر پر اوندھا لیٹا تھا ، اپنے ھی ھاتھوں سے اس نے اپنی دونوں ٹانگیں چیری ھوئی تھیں اور اس کی دونوں بھری بھری رانوں کے درمیاں میں خود تھا۔میرے سامنے اس کا ھچکولے کھاتا بڑا سا لند تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ میرا اہنا لند اس کی گاند میں تھا جو اس وقت فل ھوٹ ھورہی تھی۔اس گاند کی دیواروں نے میرا لند جکڑ رکھا تھا۔میں ھواؤں میں اڑرہا تھا ۔جوش اور جنون کے اٌخری عالم میں میں نے سب کچھ بھلا کر اپنا لند اس کی گاند میں اندر باہر کرنا شروع کردیا۔وہ کراہ رہا تھا ۔مزے سے یا تکلیف سے مجھے نہیں پتہ لیکن میں باقاعدہ مزے کے عالم میں چلارہا تھا۔میرے جسم کی تمام رگیں تن کر میرے لند کےساتھ شریک ھوگئیں تھیں۔میری ٹانگیں اس کی گاند سے ٹکرا کر اٌوازیں پیدا کررہی تھیں۔
میرے دوبوں ھاتھ اس کی کمر پر تھے جس سے اس کی گرمی کا احساس ھورہا تھا۔اس کی گاند میں تو جیسے ھیٹر چل رھے تھے جس کی تپش سے میرا لند سلگ رہا تھا۔وہ بری طرح کراہ رہا تھا۔اب جو ھونا تھا وہ بھگتنا تھا پھر مزے کو کیوں پس پشت ڈالا جاتا۔میں نے محسوس کیا کہ جب میرا لند اس کی گاند کی گہرائیوں میں اترتا تھا تو وہ اپنا سوراخ ڈھیلا چھوڑدیتا تھا اور جب میں اپنا لند واپس کھینچتا تھا تو وہ اپنے سوراخ کو بھینچتا تھا جس سے میرا لند اور اکڑجاتا تھا اور میرا مزاہ دوبالا ھوجاتا تھا۔میرا لند مسلسل اس کی گاند کے سوراخ کو رگڑرہا تھا ۔اندر باہر ھورہا تھا ۔مستی کا ناقابل بیان عالم تھا کہ جس کے ھاتھون میرا اپنا وجود میرے بس میں نہ تھا۔
بیان کرنے کو تو یہ ایک لمبا وقفہ ھے لیکن حقیقت میں یہ چند لمحوں کا کھیل تھا ۔خواری میرے سر پر کطھ اس طرح سے چڑھی ھوئی تھی کہ میں زیادہ دیر ھولڈ کرھی نہیں سکتا تھا۔مجھے یوں لگا جیسے میری پوری جان میرے لند کے راستے اس کی گاند میں ٹرانسفر ھوجائے گی۔میں پسینے میں تر بتر ھورہا تھا۔جیسے ھی مجھے لگا کہ اب رکنا ممکن نہیں میں نے اپنی رفتار بڑھادی اور پوری قوت سے اندر باہر کرنے لگا اور پھر مجھے لگا کہ ایک گرم لاوا مییرے ٹٹوں سے چھوٹ پڑا ھو۔میں شدت لزت سے چلایا اور شاید امجد کو بھی احساس ھو گیا کہ میں چھوٹنے والا ھون۔وہ ساکت ھوگیا اور پھر جزبات کا ایک طوفان میرے لند کے راستے منی کی صورت میں اس کی گاند کی گہرائیوں میں اترتا چلاگیا۔
پہلی چیخ پہلا فوارہ،دوسری چیخ دوسرا فوارہ ،تیسری چیخ تیسرا فوارہ۔میری جان فواروں کی شکل میں اس کی گاند میں اترتی جارہی تھی۔میں بری طرح ھانپ رہا تھا اور وہ اٌہستہ اٌہستہ میرے لند کی طرف اپنی گاند ہلا رہا تھا۔میں بری طرح تھک کر رک گیا تھا لیکن اس کی حرکت جاری تھی ۔وہ مسلسل اٌگے پیچھے ھورہا تھا۔اس کی طلب بجھی نہیں تھی۔اس کا اپنا لند بری طرح ھوا میں لہرارہا تھا۔ میں بہت جلد فارغ ھوگیاتھا۔اس احساس نے مجھے تھوڑا سا ڈسٹرب کردیا۔اپنی کمزوری کا اھساس کرکے مجھے شرمندگی فیل ھوئی اور شاید اس نے اس بات کو نوٹ کرلیا۔وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا
اس نے اپنا ھاتھ بڑھا کر میرا ھاتھ پکڑااور ایک جھٹکے سے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔میرا لند جو کہ بلکل سکڑچکا تھا اس کی گاند سے نکل گیا اور میں اس کے سینے پر اٌکے گرا۔اس کا لوھے کی طرح تنا ھوا لند میرے پیٹ کے نیچے دب گیا تھا اور وہ ابھی تک اٌگ کی طرح تپ رہا تھا۔میرا منھ بلکل اس کے منھ کے اوپر تھا۔
‘‘ڈونٹ وری یار۔`وہ خمار اٌلود نظروں سے مجھے دیکھتا ھوا بولا‘‘شروع شروع میں ایسا ھی ھوتا ھے۔اٌدمی اتنا ٹینس اور ایکسایئٹد ھوجاتا ھے کہ چند لمحوں میں فیصلہ ھوجاتا ھے`یہ کہہ کر اس نے مجھے اپنی طرف بھینچ لیا اور اس کے ھاتھ میری پیٹھ پر رینگنے لگے۔میری خواری ختم ھوچکی تھی اور میں بلکل ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔اب وہ پھر مجھے برا لگنے لگا تھا۔اس کا سیدھا ھاتھ رینگتا ھوا میری گاند کی لکیر پر اٌیا اور پھر دھیرے دھیرے لکیر کو چیرتا ھوا اٌگے بڑھا اور پھر میری گانگد کے سوراخ پر اس کی وھی انگلی ٹھہر گئی جس پر کریم لگا کر اس نے اپنی گاند میں ڈالی تھی۔
میری تو جیسے سانس رک گئی۔مجھے سخت تشویش ھونے لگی۔دل چاہا اسے روک دوں لیکن پھر ثاقب کا خوبصورت چہرہ میری اٌنکھوں میں اتر اٌیا۔امجد کے بغیر ثاقب سے ملاقات میرے جیسے شرمیلے اور بوکھلائے ھوئے لڑکے سے ناممکن تھی اور ثاقب تو جیسے میرے لئے زندگی کی شکل اختیار کرگیا تھا۔میں امجد کو ناراض نہیں کرسکتا تھا۔میں نے اپنے ھونٹ بھینچ لئے اور اپنی سانسیں بھی روک لیں ۔امجد نے میری گاند کے سوراخ پر اپنی سلپری انگلی کا دباؤ بڑھایااور اس کی اٌدھی انگلی سلپ ھوکر میری گاند میں گھس گئی۔میری نہ چاھتے ھوئے بھی تکلیف سے کراہ نکل گئی۔اس نے میرے ھونٹوں پر اپنے ھونٹ رکھ دئے اور ساتھ ھی انگلی پر دباؤ بڑھا کر پوری انگلی میری گاند میں گھسیڑدی۔میں اس کے جسم پر ھی ھلکا سا اچھلا۔اس نے دوسرے ھاتھ سے مجھے خود پر سنبھالا۔ساتھ ھی میرے ھونٹ چوسنے لگا۔اس کے اور میرے درمیاں اس کا بڑا سا لوھے کی طرح سخت لند دبا ھوا تھا جس کے ھولناک سائیز نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا۔
انگلی پوری اندر گھس چکی تھی ہلکے سے درد کے ساتھ مجھے ایک انجانا سا کیف بھی محسوس ھوا۔وہ اٌہستہ اٌہستہ اپنی انگلی اندر باہر کررہا تھا۔ایک ھلکا سا وجد مجھ پر طاری ھوا اور میرے اپنے بیٹھے ھوئے لند میں ھلکی سی جھرجھراہٹ پیدا ھوئی۔کاش اس کا لند بھی اتنا ھی ھوتا جتنی اس کی انگلی تھی تو کتنا مزاہ اٌتا لیکن اس کا لند کئی گنا بڑا تھا۔مجھے یقین تھا کہ وہ لند میری گاند پھاڑدیگا۔
وہ دیر تک اپنی انگلی میری گاند میں گھماتا رہا ۔ساتھ ساتھ وہ مجھے دوسرے ھاتھ سے اپنے سینے پر دبائے ھوئے تھا۔اس کے لند کا گرم دباؤ سے میرا پیٹ دب گیا تھا۔ساتھ ھی وہ میرے ھونٹ چوس رہا تھا۔پھر اس کی زبان میرے منھ میں دوڑنے لگی۔اس کی سانسیں اکھڑ گئیں تھیں اور وہ بہت بے صبرا ھورھا تھا۔جب اس کی برداشت سے باہر ھوگیا تو اس نے مجھے اپنے سینے پر سے اتارا اور کھڑا ھوگیا۔اس نے پاس پڑی کریم کی ٹیوب اٹھائی اور بہت ساری کریم نکال کر کر اپنے لند پر ملدی۔خوف کے مارے میری جان نکل گئی تھی مگر میں خاموشی سے دیکھنے پر مجبور تھا۔مین اپنی باری کا مزاہ لے چکا تھا۔اب اس کو کس منھ سے منع کرتا۔اب کی بار اس نے مجھے دیکھے بغیر میرا ھاتھ پکڑا اور مجھے الٹا پلنگ پر لٹادیا۔میں الٹا لیٹا خوف سے اٌہستہ اٌہستہ لرز رہا تھا۔
پھر مجھے اس کا ھاتھ دوبارا اپنی گاند پر محسوس ھوا اور پھر کریم میں لتھری ھوئی اس کی انگلی بڑے پیار سے میری گاند میں اتر گئی اور وہ اس کو سرکل کی شکل میں گھمانے لگا۔صاف لگ رہا تھا کہ وہ میرے سوراخ کو اپنا لند لینے کے لئے ھموار کررہا تھا۔پھر مجھے اچانک اس کی دوسری انگلی بھی اپنی گاند کے سوراخ پر فیل ھوئی اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا اس نے دوسری انگلی بھی میری گاند میں گھسیڑدی۔درد اتنا تھا کہ میں کراہنے لگا۔اس نے دونوں انگلیاں ایک ساتھ اندر باہر کرنا شروع کردی۔میں کراہتا رہا اور اس نے اپنا کام جاری رکھا۔ایک عجیب سا احساس تھا جو درد کو مزے میں تبدیل کررہا تھا۔وہ انگلیاں گھما گھما کر میرے سوراخ کو بڑا کررہاتھا تاکہ میں اس کا لند کم سے کم تکلیف کے ساتھ اپنی گاند میں لے سکوں ۔اور پھر وہ لمحہ بھی اٌگیا۔اس نے انگلیاں میری گاند سے نکال لیں اور اپنے دونوں ھاتھ میرے کندھوں پر رکھے اور اسی کے ساتھ میں نے اس کا کھولتا ھوا لند اپنی گاند کی لکیر پر محسوس کیا۔
میں ایک دم ساکت ھوگیا۔اس کا لند پھسلتا ھوا ٹارگٹ کی طرف بڑھا اور پھر میرے سوراخ پر اٌکے ٹھہر گیا۔میرا سارا بدن ایک جھرجھری لیکر رہ گیا۔اس کے گرم لند کے ٹوپے کا دباؤ میرے سوراخ پر بڑھا ۔میں نے اپنے دانت بھیچ لئے۔اس نے زور لگایا۔میں نے اور زور سے اپنے دانت بھینچے۔ایک جھٹکا لگا اور اس کا صرف ٹوپا میری گاند میں گھس گیا اور برداشت کے باوجود میری بھیانک چیخ نکل گئی۔اپنی زندگی میں میں کسی ایسے درد سے نہ گزرا تھا۔اس نے بوکھلا کر اپنا ٹوپا باہر نکال لیا۔
میں پلٹ کر بیٹھ گیا۔شدتِ تکلیف سے میں ابھی تک کراہ رہا تھا۔میری اٌنکھیں اٌنسؤں سے لبریز ھوگی تھیں۔میں نے دیکھا کہ وہ مایوس کن نظروں سے مجھے دیکھ رہا ھے۔اس کا لند ھوا میں بری طرح بل کھا رہا تھا۔یہ یقیناً ناانسافی تھی کہ اسے یوں خوار چھڑدیا جائے۔
‘‘ سوری۔ ۔ ` میں نے سبکیاں لیتے ھوئے کہا اور پھر دل پر جبر کرکے دوبارا الٹا ھوکر اپنی گاند اس کے لند کی طرف کردی اور انتظار کرنے لگا کہ وہ دوبارہ اپنا لند میری گاند میں ڈالنے کے لئے اپنے لند کا ٹوپا میری گاند کی لکیر پر رکھے۔انتظار کچھ لمحہ طویل ھوگیا اور پھر اس کے لند کے بجائے اس کا ھاتھ میرے کندھوں پر اٌیا اور اس نے مجھے کھینچ کر اپنے مقابل کھڑا کردیا۔میں حیران ھو کر اس کی شکل دیکھنے لگا۔وہ بڑے پیار سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
‘‘چلو کوئی بات نہیں ضروری نہیں کہ یہ ابھی کیا جائے۔پھر سہی۔`وہ بڑے پیار سے مجھے دیکھتا ھوا بولا
‘‘لیکن۔ ۔ ۔ `میں نے اس کے کھڑے لند کو دیکھتے ھوئے کچھ کہنا چاہا۔
‘‘سعد اٌئی لو یو۔پیار میں کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی جاتی۔`وہ بڑے خمار اٌلود لہجے میں بولا‘‘ایسے مزے پر لعنت ھے جس سے تمہیں تکلیف ھو۔` اس کی اس بات نے مجھے بڑا متاثر کیا۔میں نے شکرگزار اٌنکھوں سے اسے دیکھا۔یقیناً وہ مجھے شکل سے اچھا نہیں لگا تھا مگر وہ دل کا اچھا تھا۔اس کی محبت کا اظہار البتہ مجھے ڈسٹرب کررہا تھا کیونکہ مجھے تو ثاقب سے محبت تھی لیکن اطمینان طلب بات یہ تھی کہ اس بات کا اندازہ اسے بھی تھا۔
‘‘پھر۔ ۔ `میں نے پھر اس کا لند دیکھا جس کے ساتھ بہرحال انصاف نہیں ھوا تھا۔وہ مسکرایا اور مجھ پر جھک کر مجھے پھر کسنگ کرنے لگا اور پھر اس نے مجھے پلنگ پر سیدھا لٹادیا اور میرے اوپر اٌکر اپنی زبان میرے منھ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا۔وہ پورا میرے اوپر تھا لیکن اس نے اس طرح اپنے اٌپ کو سنبھالا ھوا تھا کہ مجھے اس کا بوجھ فیل نہین ھورہا تھا۔اس کا لند میرے پیٹ سے لیکر میرے سینے تک اٌیا ھواتھا اور وہ اٌہستہ اٌہستہ اپنا لند اٌگے پیچھے ھوکر ھم دونوں کے درمیان رگڑرہا تھا۔ اس کے سلگتے لند کی ھیٹ سے میرا سینہ جل رہا تھا۔وہ جوش اور جنون میں میری زبان اور منھ شوس رہا تھا اور تیزی سے اپنے اٌپ کو میرے اوپر رگڑرہا تھا۔میں تو فارغ ھوچکا تھا اس لئے میرا احساس کچھ زیادہ نہ تھا لیکن وہ بری طرح اٌہیں بھر رہا تھا ۔
‘‘پھر۔ ۔ `میں نے پھر اس کا لند دیکھا جس کے ساتھ بہرحال انصاف نہیں ھوا تھا۔وہ مسکرایا اور مجھ پر جھک کر مجھے پھر کسنگ کرنے لگا اور پھر اس نے مجھے پلنگ پر سیدھا لٹادیا اور میرے اوپر اٌکر اپنی زبان میرے منھ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا۔وہ پورا میرے اوپر تھا لیکن اس نے اس طرح اپنے اٌپ کو سنبھالا ھوا تھا کہ مجھے اس کا بوجھ فیل نہین ھورہا تھا۔اس کا لند میرے پیٹ سے لیکر میرے سینے تک اٌیا ھواتھا اور وہ اٌہستہ اٌہستہ اپنا لند اٌگے پیچھے ھوکر ھم دونوں کے درمیان رگڑرہا تھا۔ اس کے سلگتے لند کی ھیٹ سے میرا سینہ جل رہا تھا۔وہ جوش اور جنون میں میری زبان اور منھ شوس رہا تھا اور تیزی سے اپنے اٌپ کو میرے اوپر رگڑرہا تھا۔میں تو فارغ ھوچکا تھا اس لئے میرا احساس کچھ زیادہ نہ تھا لیکن وہ بری طرح اٌہیں بھر رہا تھا ۔ طوفان تھمنے کے بھی کئی دیر تک وہ مجھے میرے منھ میری زبان چوستا رہا۔اس کا سارا وجود میرے اوپر کانپ رہا تھا۔ اس کا لند تھا کہ ٹھنڈا ھونے کا نام نہ لے رہا تھا۔نہ ھی اس کے سائیز میں کوئی فرق اٌرہا تھا۔اس کی دھیڑ ساری منی سے دونوں کا جسم لتھڑ گیاتھا۔تھوڑی دیر بعد وہ پلٹ کر برابر میں سیدھا لیٹ گیا اور پھر ھاتھ بڑھا کر مجھے خود پر کھینچ لیا۔وہ مسکرایا
‘‘اٌج تو مجھے مزاہ اٌگیا۔تم کو اچھا لگا` میں نے اثبات میں گردن ہلادی۔‘‘تم سے مل کر مجھے لگا ھے جیسے کوئی ادھورا پن ختم ھوگیا ھے۔میں اٌج بہت خوش ھوں`
مجھے پھر ثاقب یاد اٌیا اور پھر مجھے وقت کا احساس ھوا۔میں نے اس سے کہا کہ بہت دیر ھوگئی ھے گھر والے پریشان ھورھے ھونگے تو اس نے مجھ سے کہا کہ مین جلدی سے اپنا بدن دھولوں۔میرے بدن ہر پھیلی ھوئی اس کی منی سے مجھے بھی کراہت سی محسوس ھوئی۔مین نے جلدی سے اپنا بدن دھکر کپڑے پہن لئے۔اس نے بھی یہی کیا۔
اس نے مجھے اپنا نمبر لکھوایا اور نہ چاہتے ھوئے بھی میں نے اس سے پوچھ لیا
‘‘کیا ثاقب مجھ سے واقعی ملے گا`وہ اس سوال پر چونکا۔اسےشاید ابھی مجھ سے اس سوال کی توقع نہ تھی۔
وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر پھیکے انداز میں مسکرایا‘‘کیوں نہیں تم بس تھوڑا سا انتظار کرو۔میں تمہیں چند دنوں میں فون کرونگا۔`پھر اس نے مجھے اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر ڈراپ کیا۔دیر تک کھڑا مجھے دیکھتا رہا پھر ھاتھ ملا کر بائے کرکے چلاگیا اور میں ثاقب سے ملاقات کا تصور کرتے ھوئے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔مجھے امید تھی بھی اور نہیں بھی تھی۔ایک دن میں ثاقب میرے دل و دماغ پر چھاگیا تھا۔
اب مجھے بےچینی سے اٌنے والے حالات کا انتظار کرنا تھا