منہ بولی بھابھی۔ ایک نئی کہانی

 

منہ بولی بھابھی

، یہ میرے ایک دوست کی کہانی ہے اُس کی زبانی سنیں

۔ میں ہاسٹل میں پڑھتا تھا ۔ ہاسٹل میں اپنے گروپ میں ہم جنسی سے متعلق بہت سی باتیں ایک دوسرے سے شیئر کرتے رہتے تھے، کافی اچھا لگتا تھا ، میرا مطلب اب بھی لگتا ہے ۔

ایک بار گرمی کی چھٹیوں میں میں اپنے گھر آیا تھا ، کافی خوش تھا ، گھر آکر جیسا تمام هسٹلر ہوتے ہیں ۔

تبھی مجھے پتہ چلا کہ میری ماں نے ایک نئے شادی شدہ جوڑے کو گھر کرایہ پر دیا ہے ۔

میں اپنی چھٹیاں اپنے فرےنڈس وغیرہ کے ساتھ مزے کرنے لگا ۔ تو جب میرے کچھ فرےنڈس کو پتہ چلا کہ میرے گھر پر ایک كپل رےنٹ پر رہ رہے ہیں ۔ تو

فرےنڈس - آئے آشو سنا ہے تیرے یہاں ایک مال رہنے آیا ہے ۔۔۔ ! ؟ !

میں - جی ہاں یار ۔۔۔ آیا ہے ، پر شادی شدہ ہے ۔۔۔ ! !

فرےنڈس - تو کیا ہوا پٹا سالی کو اور مزے کر ۔۔ !

میں - پر یار ، کچھ خاص نہیں ہے ۔۔ !

فرےنڈس - ابے تجھے کون سا گرلفرےنڈ بنانی ہے ۔۔۔ کام چلا ۔۔۔ اور چھٹیوں کے مزے لے ۔۔ !

میں - یار پھر بھی اس میں وہ بات نہیں ہے ۔۔۔ ! وہ چنگاری نہیں ہے جو مجھے چاہئے ۔۔۔

فرےنڈس - جو چاہئے وہ تو ہے نہ بس ۔۔ اور تجھے کون سا سگریٹ جلاني ہے ۔۔۔ اور سن جب آپ کے دل میں کامدیو ہو تو سالی ہر عورت مال لگتی ہے ۔

میں - سوچتا ہوں ۔

فرےنڈس - سوچتا نہیں چودتا ہوں دھن ۔۔۔ اور ہو سکے تو ہمیں بھی ٹیسٹ کرا ۔۔۔ !

میں - سالوں ، اب سمجھا کیوں اتنا مچ - مچ کر رہے ہو ۔۔۔ ! !

تمام ہنسنے لگے ۔۔

فرےنڈس سے ملنے کے بعد میں اپنے گھر آیا ، گھر پر کوئی نہیں تھا ، تمام کام پر گئے تھے ، میں اپنے روم میں آکر وہی باتیں سوچنے لگا ۔

پھر اچانک میں اوپر والی منزل پر گیا جہاں بھابھی اکیلی کچھ کام کر رہی تھی ، ان کے شوہر بھی کام پر گئے تھے ، پورے گھر میں صرف ہم دو لوگ تھے ، میں ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا ۔

تبھی میری نظر ان کے اوپر گئی ، میں انہیں شہوت انگیز نظروں سے دیکھ رہا تھا ، وہ مجھے آج سیکسی لگ رہی تھی میرا مطلب سپاركي لگ رہی تھیں ، تھی تو وہ پہلے بھی پر شاید میں نے انہیں کبھی ان نظروں سے دیکھا نہیں تھا ۔ کیا فگر تھا یار ۔۔۔ ! !

تبھی ' کیا مال ہے یار ' میں نے کہا ۔

بھابھی - تم نے کچھ کہا ؟

میں - نني ۔۔ نہیں کچھ نہیں بھابھی !

بھابھی - کیا ہوا ؟

میں - کچھ نہیں ، بھابھی بس ایسے ہی ۔

میں وہاں سے فورا نکل آیا ۔۔۔ ہم دونوں کے درمیان ایسے ہی باتیں کافی دنوں تک چلتی رہیں ۔ میرے فرےنڈس بھی اس بارے میں ڈیلی طرف لیتے رہتے تھے ۔

میری کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے ؟ کہاں سے شروع کی جائے ؟ تبھی ایک دن میرا ایک دوست نے مجھ سے بات کی -

خاندان - آئے آشو ، اور کیا چل رہا ہے آج کل ؟

میں - یار کچھ نہیں بس ایسے ہی ٹايم پاس ہو رہا ہے ۔

خاندان - اچھا تو یہ بتا اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان پٹتی کیسی ہے ؟

میں - کچھ نہیں یار لڑتے بہت ہیں ، تھوڑا کم پٹتی ہے ۔

خاندان - تو تو انتظار کس کا کر رہا ہے میدان بالکل صاف ہے ، موقع پہ چوکا مار ، وہ 100 ٪ تیرے سے قائم ہو جائے گی ۔

میں - مگر یار فٹتي بہت ہے میری ۔

خاندان - یار کس کی نہیں فٹتي ایسے ٹايم ، اچچھو - اچچھو کی فٹتي ہے ۔ تو بس اپنا کام کر ۔

فرےنڈس سے ملنے کے بعد ، میں سوچتا ہوں اب چاہے جو ہو جائے سالی کو پٹا کے ہی رہوں گا ۔ آخر دوسرے دن سب لوگوں کے جانے کے بعد میں بھابھی کے کمرے میں اوپر جاتا ہوں ۔ وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی ۔

میں - میں اندر آ سکتا ہوں ؟

بھابھی ( هسكر ) - ارے آو نہ ! کیوں مذاق کرتے ہو !

میں - اور بھابھی کیا ہو رہا ہے ؟

بھابھی - کچھ نہیں ٹی وی دیکھ رہی ہوں ۔

میں - کیا دیکھ رہی ہو ؟

بھابھی - هوليوڈ تصویر ۔۔۔ وہ بھی خاموش کرکے ۔

میں - ریلی ! ! کون سی ؟

بھابھی - ارے میں مذاق کر رہی ہوں ۔۔۔ نیوز دیکھ رہی ہوں ۔

میں - بھابھی دوگی ۔۔۔ !

بھابھی - کیا ؟

میں - ریموٹ !

پر مانگنا تو کچھ اور چاہ رہا تھا ۔

ان سب کے درمیان میرے دماغ میں بس ایک ہی بات چل رہی تھی کہ بھابھی کو کیسے پٹايا جائے ، پر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اور فٹ کے ہاتھ میں آ رہی تھی ، وہ الگ ۔

تبھی میں نے دیکھا ان کے ہاتھ کچھ پانی سا گیا تھا ۔ میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور پوچھا - یہ کیسے ہوا بھابھی ؟

بھابھی - کچھ نہیں کھانا بناتے وقت جل گیا ۔

میں - آپ اپنا خیال رکھا کرو ۔

میں نے دیکھا ان کے ہاتھ کتنے خوبصورت ہیں ۔۔۔ تبھی میرے ذہن میں ایک خیال آیا ، میں بولا - بھابھی ، آپ کے ہاتھوں کی ریکھا تو کمال کی ہیں ۔

بھابھی - کیوں کیا ہوا ؟

میں - ہوا تو کچھ نہیں پر شاید کچھ ہونے والا ہے ۔

بھابھی - کیا مذاق کر رہے ہو ۔۔۔ اور ویسے بھی تمہیں آتا ہے یہ سب دیکھ کر ؟

میں - جی ہاں پر زیادہ نہیں ۔ وہ ایک کتاب پڑھی تھی ، بہت پہلے ۔

بھابھی - اچھا تو بتاؤ اور کیا - کیا لکھا ہے ؟

میں - آپ کی زندگی میں بہت جلد کچھ اچھا ہونے والا ہے ۔

بھابھی هسكر - کیوں ؟ میرے شوہر مجھے طلاق دینے والے ہیں ؟

بھابھی اور ان کے شوہر کے درمیان اکثر لڑائی - جھگڑے ہوتے تھے ۔

میں - کیا بھابھی آپ بھی ۔۔ !

پھر ہم لوگ آپس میں ایسے ہی باتیں کرنے لگے ۔ اس دوران ہم لوگوں میں کافی مذاق ہوا اور ایک دوسرے کو چھو لیا بھی ۔ ایسا ہم دونوں میں کافی دنوں تک چلتا رہا ، پر وہ نہیں ہو پا رہا تھا جس کا مجھے انتظار تھا ۔

پھر ایک دن میں اپنی ماں سے کسی بات کو لے کر تھوڑا ناراض ہو گیا تو اس دن میں اپنے ہی روم میں بیٹھا لیپ ٹاپ چلا رہا تھا ۔ آج میں بھابھی کے پاس بھی نہیں گیا ، اسی وقت ایک آواز آئی۔

بھابھی - کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟

میں ( مسکرا ) - بھابھی آپ ؟ آو ۔۔۔ نہ !

وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔

بھابھی - کیوں آ نہیں سکتی ؟

میں - کیوں نہیں !

بھابھی - اب تم نہیں آئے ، تو میں نے سوچا کہ میں ہی چلی جاؤں ۔ ویسے کیا کر رہے ہو ؟

میں - کچھ نہیں نیٹ چلا رہا ہوں ۔

تھوڑے ٹايم بعد میرا روم بالکل پرسکون ۔۔۔ کوئی آواز نہیں تبھی ۔۔۔

میں - بھابھی میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔

بھابھی - جی ہاں کہو ۔

میں نے بھابھی کے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھا اور کہا - بھابھی ۔۔۔ میں پسند کرتا ہوں ۔

میری سانس اور دھڑکن دونوں بہت تیز چلنے لگی ۔

بھابھی - ۔۔۔ اممم ۔۔۔ مم ۔۔۔ میں بھی ۔۔

میں نے بغیر ٹايم برباد کی انہیں کس کرنے لگا ۔۔۔ اب میرے دونوں ہاتھ ان کبوتروں پر تھے ۔ میں انہیں دبانے لگا ، وہ بھی مجھے کس کرنے لگی ۔

اس درمیان ہم دونوں ایک - دوسرے کے کپڑے اتارنے لگتے ہیں ۔ اب وہ میرے سامنے سرف برا - پیںٹی میں تھیں ۔

قسم سے مال لگ رہی تھی ۔۔۔ كرےكر جو مجھے چاہیے تھی ۔ پھر میں نے وہ بھی اتار دئے اب وو نںگی تھیں میرے سامنے ۔ میں بس ان کے اور ان کے فگر کو دیکھے جا رہا تھا ۔

میں - کیا مال ہے یار !

بھابھی ( مسکرا ) - یہ آپ کو پہلے بھی کہہ چکے ہو ۔

میں - کیسے پتہ ؟

بھابھی - میں نے سن لیا تھا ۔۔

میں مسکرایا اور انہیں کس کرنے لگا ۔ میرے ہاتھ ان کے جسم پر گھوم رہے تھے ، جس سے ان کے سارے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ بالکل ایسا لگ رہا تھا ، جیسے ان کے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا ہو ۔

وہ چیز میں خود محسوس کر رہا تھا ، وہ شادی شدہ تھیں ، تو ظاہر سی بات ہے کہ مجھ سے دو قدم آگے ہوگئیں ۔

وہ میرے نیچے آکر میرا لنڈ منہ میں لے کر چوسنے لگیں ۔ میرا پہلی بار تھا ، تو سب کچھ مجھے بڑا عجیب لگ رہا تھا ۔

پر میں نے سب کچھ اپنے دوستوں سے سن رکھا تھا ۔ خیر تھوڑی دیر بعد مجھے مزے آنے لگا ، تو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کا سر پکڑ کر ان کا ساتھ دینے لگا ۔

پھر کچھ دیر بعد میں نے نیچے آ کر بھابھی کی ٹانگوں کو فےلايا ۔ اب مجھے ان کی چوت صاف دکھ رہی تھی ۔ بالکل گلاب کی پكھڈي کی طرح ایک دم گلابی لگ رہی تھی ۔ جیسے کہ وہ اب تک كاري ہو ۔

میں نے آو دیکھا نہ تاو ، ان کی چوت پر ایک کس کیا اور ان کی چوت کے مزے لینے لگا ۔ کبھی - کبھی درمیان میں دانتوں سے کاٹ بھی لیتا تو بھابھی چیخ اٹھتي ۔

کچھ دیر میں بھابھی آواجیں نکالنے لگی ، بھابھی بولی - آشو اب تم جلدی کرو ۔

مجھے لگنے لگا کہ اب بالکل صحیح ٹايم ہے تو میں اٹھا اور اپنا لنڈ انکی چوت پر رگڑنے لگا ، پر میں نہیں ڈال رہا تھا ، صرف ان کو تڑپا رہا تھا ۔

بھابھی - اب جلدی کرو ، کیوں تڑپا رہے ہو ؟

مجھے لگا اب بھابھی بالکل لاسٹ اسٹیج پر ہیں ، تو میں نے بغیر ٹايم بیسٹ کئے اپنا لنڈ انکی چوت میں پیل دیا ۔ جس سے بھابھی کے منہ سے آواز نکل گئی ۔

میں - کیا ہوا بھابھی ؟

بھابھی - کچھ نہیں ، آپ کو صرف مزے دو اور لو ۔

اور میں ان کو چودنے لگا ۔

بھابھی - آشو اور تیز چلاو اور تیز ۔

مجھے لگنے لگا کہ اب بھابھی کا بس ہونے والا ہے ، میں انہیں اور تیز چودنے لگا ، پھر بھابھی نے مجھے کس کے پکڑ لیا ، یعنی بھابھی جھڑ چکی !

پھر کچھ دیر بعد مجھے لگا کہ میں بھی جھڑنے والا ہوں ، میں اور تیز چودنے لگا ۔

۔۔۔ تھوڑے وقت کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر بستر پر گر گئے اور مسکرا ایک دوسرے کو چومنے لگے ۔

پھر ہم دونوں باتھ روم میں گئے ، وہاں ہم دونوں نہاتے ہوئے کافی مزے کرتے رہے ۔ پھر آکر کپڑے پہن کر ایک - دوسرے کو گلے لگا کر ، کافی ٹايم تک ایک - دوسرے کے ساتھ لیٹے رہے ۔

پھر جب گھر والوں کو گھر آنے کا وقت ہوا تو بھابھی مسکرا ایک چمبن دے کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔

ہم دونوں نے بعد میں بھی کئی بار سیکس کیا اور بھی مزہ طریقے کے ساتھ ۔۔۔

آپ کو میری آپ - بیتی کیسی لگی ۔ ۔

ختم شدہ

 hot urdu novel ek lafz ishq

urdu book novel

urdu novels to read

hot urdu novel house

urdu novel in which heroine is teacher

hot and bold urdu novels list pdf

urdu longest novel

hot urdu novel menu

شادی کی پہلی رات۔ ایک نئی کہانی

 

شادی کی پہلی رات

شادی کی پہلی رات تھی اور میں بہت گھبرا رہی تھی، جسم کانپ رہا تھا، یہ سوچ کر ہی میری جان نکل رہی تھی کہ اگر سلمان کو پتہ چل گیا کہ میں کنواری نہیں رہی،تو شاید وہ مجھے جان سے ہی مار دے گا۔کیونکہ میرے پیٹ میں طارق کا بچہ تھا۔،سردیوں کے وہ رات میں کبھی نہیں بھول سکتی تھی،جب میں اور طارق اک غلطی کر بیٹھے تھے۔ آخر سلمان رات بارہ بجے کمرے میں د ا خل ہوا، میرا دل دھک دھک کرنے لگا، کیونکہ میرا راز کھل جانا تھا، پھر سہاگ رات کا آغاز ہوا تو اچانک میرا شوہر میرا جسم دیکھ کر آگ بگولہ ہو گیا اور میری؟؟؟

------------------

کرن میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی کیونکہ اسے ڈ اکٹر بننے کا بہت شوق تھا اس لیے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لیا اور دل لگا کر پڑھنے لگی، کرن کی کلاس میں ایک بہن بھائی بھی پڑھتے تھے، کرن کی ان سے دوستی ہو گئی۔طارق اور اس کی بہن کا زیادہ وقت کرن کےساتھ گزرتا تھا، وہ دونوں بہت آزاد خیال تھے۔

کرن اور طا رق ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور میڈیکل کی تعلیم کے بعد شادی کا پلان بھی بنا لیا، لیکن زندگی میں جو سوچا جائے ویسا نہیں بھی ہوتا۔کرن ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، ایک رات نے اس لڑکی کا سب کچھ برباد کر دیا،اس کی زندگی میں ایسی بھیانک رات آئی کہ سب کچھ برباد ہو گیا۔

طارق بہت جذباتی لڑکا تھا، وہ شادی سے پہلے کے جنسی تعلق کو وقت کی ضرورت سمجھتا تھا، لیکن کرن نے اس کا ایسے کسی بھی معاملے میں ساتھ نہ دیا، جب بھی وہ ایسی بات کرتا کرن شرم محسوس ہونے لگتی،اور اسے اک حد میں رکھتی تھی، لیکن پھر بھی اسے جب بھی موقع ملتا وہ کوئی نہ کوئی شرارت ضرور کر لیتا تھا۔اس کا صبر جواب دے رہا تھا اور کرن ، طارق کو خود سے دور بھی نہیں کرنا چاہتی تھی اور پاس بھی نہیں آنے دے رہی تھی۔ کبھی کبھی وہ خود اس کشمکش میں مبتلا ہو جاتی کہ کیا اسے طارق کی بات مان لینی چاہیے؟

ایک سال بیت گیا، اور ایک ہفتہ کی چھٹی آئی تو سب نے باہر گھومنے کا پروگرام بنا لیا،اس طرح کرن، طارق، اسکی بہن نبیلہ اور ایک ان کا کزن حاشر کاغان کے لیے روانہ ہوئے، انہوں نے خوب انجوائے کرنے کا سوچ رکھا تھا، لیکن نہ جانے کیوں اک انجانہ سا خوف کرن کو گھیرے ہوئے تھا۔اسے لگتا تھا جیسے کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔


ہوٹل میں ایک ہی کمرہ لیا گیا ، کرن نے اعتراض کیا کہ ہم لڑکیوں کے لیے الگ کمرہ ہونا چاہئے، لیکن طارق نے ہنس کر ٹال دیا۔

خیر سب تھکے ہوئے تھے اس لیے کچھ دیر کے لیے آرام کرنے لگے، پھر طارق نے کرن کو ساتھ لیا اور کچھ ضروری ارینج منٹ کے لیے باہر آ گئے، انہیں ایک گاڑی چاہئیے تھی اور کچھ کیمپنگ کا سامان بھی، ہوٹل کے کمرے میں نبیلہ اور حاشر اکیلے تھے، ایک گھنٹے بعد دونوں واپس آئے تو ہوٹل کے پاس پہنچ کر طارق کو کچھ یاد آیا اور کرن کو کمرے میں جانے کا کہ کر واپس بازار چلا گیا، کرن ہوٹل میں د اخل ہوئی اور اپنے کمرے کی جانب بڑھی،لیکن جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا، اچانک رک گئی، کمرے میں نبیلہ اور حاشر ایک شرم ناک کھیل میں مصروف تھے، ایسی آوازیں آ رہی تھیں کہ کرن سمجھ گئی کہ پچھلے ایک گھنٹے سے کمرے میں کیا چل رہا تھا۔

کرن کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ اب کیا کرے اس لیے ہوٹل کے لاؤنج میں بیٹھ کر طارق کا انتظار کرنے لگی۔آدھا گھنٹہ بعد طارق آیا تو اس نے پوچھا کہ باہر کیوں بیٹھی ہو؟ کرن کہنے لگی: کچھ نہیں، میں تو آپ کا انتظار کر رہی تھی، لیکن اب کرن گھبرا بھی رہی تھی کہ کہیں ابھی تک کمرے میں وہی چکر نہ چل رہا ہو، کیونکہ کچھ پتہ نہیں تھا کہ طارق کا ردِعمل کیا ہوتا۔

طارق نے کرن سے چابی لی اور کمرے کا دروازہ کھولا تو کرن کا دل دھک دھک کر رہا تھا، لیکن اندر کا منظر دیکھ کر کرن کو سکون ملا، نبیلہ نہا رہی تھی اور حاشر بیڈ پر لیٹا سو رہا تھا، طارق بھی شرارت کے موڑ میں تھا، اور کرن کو باہوں میں بھر لیا، وہ بچاری گھبرا گئی کہ کہیں حاشر نے دیکھ لیا تو ؟

طارق نے حاشر کو جگایا اور تیاری کرنے کا کہا، نبیلہ نہا کر باہر آ گئی اور حاشر کر دیکھ کر مسکرا رہی تھی، حاشر بھی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا، کرن دونوں کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ دونوں اک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور ان کو حد میں رہنا چاہئے۔

سب نے ناشتہ کیا، اور گاڑی میں بلند و بالا پہاڑی علاقوں کی سیر کو نکل گئے، موسم بھی اچھا تھا، بارش ہو سکتی تھی، سردی بھی کافی تھی۔حاشر نے طارق سے پوچھا کہ کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ طارق نے کوئی جواب نہ دیا اورمسکرا رہ گیا، پھر بولا: سب کے لیے سرپرائز ہے۔طارق بہت دور نکل آیا تھا، چند لوگ موجود تھے جو اب واپس جا رہے تھے، حاشر اور طارق نے گاڑی سے سامان نکالا اور دو خیمے نصب کرنے لگے، ان کا ارادہ یہاں رات گزارنے کا تھا۔

کرن کچھ اپ سیٹ سی تھی، وہ نبیلہ کے ساتھ کچھ دور بیٹھی خوبصورت نظاروں میں کھوئی ہوئی تھی، اچانک کرن نے نبیلہ سے کہا: تم حاشر کو کچھ زیادہ ہی ڈھیل دے رہی ہو، مجھے سب پتہ ہے ہمارے جانے کے بعد تم دونوں کمرے میں جس کام میں مصروف تھے نا اس کا انجام اچھا نہیں ہونا۔نبیلہ نے بے شرمی کی انتہا کرتے ہوئے کہا: کیا بتاؤں یار،۔۔۔تم لوگ ایک گھنٹہ اور لیٹ آ جاتے تو؟؟

پھر دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑی اور نبیلہ نے کہا: ڈونٹ وری ، حاشر نے پروٹیک شن یوز کیا تھا۔طارق کو اپنے پاس آتا دیکھ کر دونوں خاموش ہو گئیں، پھر سب خیموں میں اپنا اپنا ساماں سیٹ کر رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔وہ لوگ خیموں میں دبک کر بیٹھ گئے۔

سب نے دوپہر کا کھانا کھایا، تب تک بارش بھی رک چکی تھی۔پھر اپنا اپنا مختصر سا مان لیا اور اک پہاڑی کی طرف بڑھے، حاشر اور نبیلہ آگے تھے، اور تھوڑے فاصلہ پر کرن اور طارق آ رہے تھے، درختوں اور پودوں کہ بہتات تھی، نبیلہ اور حاشر بہت آ گے نکل گئے، کرن تھک گئی اور طارق سے کہا کہ کچھ دیر سانس لے لیں۔ دونوں ایک جگہ بیٹھ گئے، طارق اسے دیکھے جا رہا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی کو حاصل کرنے کا یہی موقع ہے، وہ سرک کر کرن کے پاس ہو گیا، دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ اک دوسرے کی سانسیں بھی محسوس کر رہے تھے، پھر تو صبر کا سارے بندٹوٹ گئے اور دونوں دیوانہ وار ایک دوسرے کو پیار کرنے لگے، پھر پہلی بار کرن کو محسوس ہوا کہ وہ ساری حدیں پار کر چکی ہے، دونوں تھک گئے اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگے۔

اچانک کرن کی نظر حاشر پر پڑی جو اسے گھور رہا تھا، کرن نے جلدی جلدی اپنا لباس درست کیا، نبیلہ نے کہا: بھائی آپ کہاں رہ گئےتھے؟ ہم نے سوچا کہ کہیں آپ لوگ ہم سے بچھڑ ہی نا جائیں اس لیے ہم واپس آ گئے، سفر ایک بار پھر شروع ہوا، کچھ دور جا کر کرن نے طارق سے کہا کہ واپس چلتے ہیں شام بھی ہو رہی ہے، بارش پھر آ گئی تو مشکل ہو گئی۔


سب نے واپسی کا ارادہ کر لیا، اب کی بار حاشر اور نبیلہ کہیں دور رہ گئے، شام کا اندھیر ا پھیل چکا تھا، اچانک نبیلہ کی چیخ سن کر طارق واپس دوڑا، کرن اور طارق نے جو منظر دیکھا ان کے تو ہوش اڑ گئے، حاشر نیچے کھائی میں گر کر بے ہوش ہو چکا تھا، اور نبیلہ رو رہی تھی، طارق نے حاشر کو آوازیں دی لیکن کوئی جواب نہ آیا تو طارق نے نیچے جانے کا فیصلہ کر لیا۔

کرن اور نبیلہ ڈ ر رہی تھیں، انہوں نے طارق کو روک لیا ، کرن کے پاس اک ٹارچ تھی، جب اس کے روشنی نیچے کھائی میں ڈ الی گئی تو اس کے اوسان خطا ہو گئے، حاشر کا سر پھٹ چکا تھا، اور وہ اس دنیا سے جا چکا تھا۔اس وقت کسی کی مدد لینا بھی مشکل تھا ، کیونکہ وہ بہت دور آ چکے تھے، آخر وہ خیمے والی جگہ واپس آئے تو ان کی گاڑی اور خیمے غائب تھے، اب تو ان کا خون خشک ہو گیا۔

اچانک تین آدمیوں نے انہیں گھیر لیا اور اپنے ساتھ لے گئے، وہ ڈ اکو تھے اور لوگوں کو لوٹتے تھے، پھر تو ان کے ساتھ کچھ بہت بھیانک ہونے والا تھا، رات ہو چکی تھی ، سردی بڑھ رہی تھی، وہ لوگ ان کو لے کر ایک پرانے سے گھر پہنچے جہاں ایک خوفناک صورت والا موٹا آدمی بیٹھا تھا، حسین اور جوان لڑکیوں کو دیکھ کر اس کی رال ٹپکنے لگی، اس نے آگے بڑ ھ کر طارق کی بہن کو کھنچ کر باہوں میں کس لیا، طارق کا جوان خون جوش مارنے لگا، اس کے آگے بڑھ کر اس موٹے انسان کو ایک مکا رسید کر دیا، جس سے اس کے جبڑے سے خون کا فوارہ چھوٹ پڑا۔

دوسرے ہی لمحے دونوں لڑکیوں کی چیخ نکل گئی، ایک ڈ اکو نے طارق کے سینے میں دو گولیاں اتار دیں اور طارق بھی مر گیا۔

موٹے سردار نےنبیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس لڑکی کو آج رات کے لیے میرے حوالے کر دو، اور دوسری کو کمرے میں بند کر دو۔نبیلہ تھر تھر کانپ رہی تھی، جبکہ کرن بے ہوش ہو چکی تھی۔

جب کرن کو ہوش آیا تو اک کمرے میں تھی، اس نے کمرے کا جائزہ لیا تو اس کی نظر اک ادھ کھلی کھڑکی پر پڑی۔اب کرن کے پاس دو راستے تھے ۔اک اگر وہ بھاگ جاتی تو جان بچ سکتی تھی، دوسرا ان کے رحم و کرم پر رہتی تو وہ درندے اس کا جو حشر کرتے ، وہ سوچ کر ہی کانپ گئی۔

جلدی سے اٹھی اور کھڑکی سے باہر جھانکا تو چاند کی ہلکی روشنی میں اک راستہ نیچے جاتا نظر آیا، کرن کھڑکی سے نکلنا چاہتی تھی کہ نبیلہ کی درد بھر ی چیخوں کے آواز سن کر اس پر سکتہ طاری ہو گیا، وہ ظالم نبیلہ کی عزت سے کھیل رہے تھے، کرن نے جلدی سے باہر چھلانگ لگا دی۔

وہ تیزی سے اس تنگ سے راستے پر چلی جا رہی تھی، اس کا جسم ابھی تک کانپ رہا تھا، اور سردی بھی بڑھ رہی تھی۔وہ رکے بغیر چلتی رہی، آخر اک سڑک تک پہنچ گئی،دور اک گاڑی کی ہیڈ لائٹس نظر آ ریہ تھیں۔ لیکن سنسان سڑک پرپہنچتے ہی لڑ کھٹرا کر گر پڑی۔اور بے ہوش ہوگئی۔

جب اسے ہوش آیا تو صبح ہو چکی تھی اور ایک گھر میں تھی، وہ ذہنی طور اپ سیٹ ہو چکی تھی اس کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا، اچانک ایک عورت اندر آئی اور اس سے پوچھنے لگی، تو کرن نے جو بیتی سب بتا دی۔حاشر اور طارق جان سے جا چکے تھے، نبیلہ کا کیا بنا ہو گا کوئی کچھ نہیں کہ سکتا تھا، اس عورت نے مجھے ایک آدمی ساتھ شہر روانہ کیا، یوں میں لٹی پھٹی اپنے گھر پہنچ گئی۔

حاشر، طارق اور نبیلہ کی تلاش میں پولیس گئی لیکن کچھ ہاتھ نہ لگا۔ایک مہینہ گزر گیا، کرن کی طبیعت خراب رہنے لگی، اس کا علاج ہوا اور وہ کافی بہتر ہو گئی، اس ساری بات کو کرن نے راز میں رکھا کہ کیسے وہ طارق کے ہاتھوں اپنی جوانی لٹا چکی تھی، اور کیسے ان کو اغوا کیا گیا، اس نے بس اتنا بتا دیا کہ وہ ان سے بچھڑ گئی تھی۔

سلمان اس کا کزن تھا اور اسے چاہتا بھی تھا، اس نے کرن کے رشتے کے لیے اپنے والدین کو بھیجا تو کرن کے ماں باپ نے اس کا رشتہ طے کر دیا، کرن طارق کی موت کو بھلا نہ پائی تھی، کیونکہ طارق اس کی پہلی محبت تھا۔شادی کے دن قریب آ رہے تھے، لیکن کرن گم سم تھی، اچانک اسے آبکائیاں آنا شروع ہوئیں تو اسے ہوش آیا اور وہ واش روم دوڑی، اس کا دل دھک کر رہ گیا، وہ میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی لیکن پڑھنا چھوڑ دیا تھا، وہ سمجھ گئی کہ اب وہ کنواری نہیں رہی تھی۔ وہ حاملہ ہو چکی ہے، اس کے پیٹ میں طارق کا بچہ تھا۔

شادی کی رات وہ کمرے میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ اب کیا ہو گا، تھوڑی دیر بعد سلمان سہاگ کی سیج پر آنے والا تھا، کرن کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، کیونکہ اس کا راز کھلنے والا تھا، سلمان بچہ نہیں تھا کہ اسے پتہ نہ چلتا۔اچانک کمرے کا دورازہ کھلا اور سلمان اندر داخل ہوا، کرن سہاگ رات کے خوف سے پسینے میں بھیگ چکی تھی، اک قیامت آنے والی تھی۔

سلمان اس کے قریب آ گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا، وہ صرف سر ہلا کر جواب دے رہی تھی۔آخر وہ لمحہ بھی آ گیا جس کا ڈر تھا، سلمان نے اسے باہوں میں بھر لیا اور اس سے پیار کرنے لگا، وہ کرن کا دیوانہ تھا، اب اس کی دلی مراد پوری ہو رہی تھی۔پھر وہ ہوا جس کا ڈ ر تھا، اچانک سلمان نے محسوس کیا کہ اس کی بیوی کنواری نہیں ہے ،وہ پریشان ہو گیا کہ یہ سب کیا ہے، اس نے سوالیہ نظروں سے کرن کی طرف دیکھا تو وہ سر جھکا کر بیٹھ گئی، سلمان نے لباس پہنا اور جانے لگا تو کرن اس کے سامنے کھڑی ہو گئی،کرن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

سلمان نے کہا: کرن اب کیا رہ گیا ہے، تم نے میرا دل ہی توڑ دیا ہے۔ لیکن کرن نے کہا: پہلے آپ میری بات سن لیں پھر جو فیصلہ کریں مجھے منظور ہو گا۔کرن نے اس پر جو بیتی سب کہ سنائی اور سسکیاں بھرنے لگی، سلمان اسے حیرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا، وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اس لڑکی نے کتنی درد بھرے لمحے گزارے ہیں، محبت میں انسان اندھا ہو جاتا ہے اور بہت سی غلطیاں کر لیتا ہے، ایسے ہی کرن بھی اک غلطی کر چکی تھی جو اس کے پیٹ میں پل رہی تھی۔

وہ رات ایسے ہی گزر گئی، اگلی صبح کرن کا سلمان سے سامنہ ہوا تو وہ سر جھکائے پریشان کھڑی تھی، سلمان اس کے پاس آیا اور بولا:کرن رات والی بات کی معذرت چاہتا ہوں، تم میری زندگی ہو، میں ہر مشکل وقت میں تمہارے ساتھ ہوں۔ کرن کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ سلمان سے لپٹ گئی اور ایک بہت بڑا بوجھ اس کے دل سے اتر گیا۔

 hot urdu novel ek lafz ishq

urdu book novel

urdu novels to read

hot urdu novel house

urdu novel in which heroine is teacher

hot and bold urdu novels list pdf

urdu longest novel

hot urdu novel menu

BUY NEW HOT NOVELS ON WHATSAPP

 


 

 اس نے مسکرا کر کہا، "میرے پاس کپڑے اتارنے کا وقت نہیں ہے" اس نے اپنی بیلٹ اور پتلون کا بٹن کھولا۔ اس کی پتلون گر گئی اور اب وہ اپنے زیر جامہ میں تھا۔ وہ قریب آئی اور انڈرویئر کے اندر اس کے لنڈ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس نے بھی اس کی چھاتی پر ہاتھ رکھا اور اس کے نپلوں کو نچوڑ ا۔ وہ کراہ کر بولی، "آہ آہ آہ آہ آہ آہ"

وہ اس کے سامنے بیٹھ گئی اس کا انڈرویئر نیچے کر دیا۔ اس کا بڑا لنڈ ایک سپرنگ کی طرح باہر نکلا، اس نے اپنا ہاتھ لنڈ کے اوپر نیچے کیا اور کہا، "واہ، تمہارا لنڈ بڑا ہے، میرے شوہر اور میرے بوائے فرینڈ دونوں سے بڑا"

 وہ مسکرایا۔ وہ پہلی نہیں تھی جس نے اس کے لنڈ کی تعریف کی تھی اور وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے لنڈ کی تعریف کرنے والی آخری بھی نہیں تھی۔ اس نے لنڈ کو منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگی۔ اس کے چوسنے سے ام یم ام کی آوازیں آرہی تھیں۔ لنڈ بڑا تھا اور اس کے لیے پورا لنڈ اپنے منہ میں لینا آسان نہیں تھا۔ وہ ایک سیکس فرینڈلی شخص تھا اور اسے کبھی سیکس میں زبردستی پسند نہیں تھی اسی وجہ سے وہ اس کے چوسنے سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور اسے خود سے لنڈ چوسنے دے رہا تھا، اس نے اپنا لنڈ اس کے منہ کے اندر نہیں دھکیلا تھا۔

 وہ پانچ منٹ تک اس کا لنڈ چوستی رہی، اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا منہ تھک رہا ہے۔ اس نے اپنے دماغ میں سوچا تھا کہ وہ لنڈ کو چوس کر اس کی منی انزال کرائے گی کیونکہ لنڈ بڑا تھا اور وہ جانتی تھی کہ یہ اس کی چوت کی دھجیاں اڑا دے گا۔ لیکن وہ بھول گئی کہ جن کے پاس بڑا لنڈ ہوتا ہے ان میں دوسروں سے بہتر سٹیمینا بھی ہوتا ہے۔ اس نے لنڈ کو منہ سے نکالا پھر اٹھ کر بستر پر کمر کے بل لیٹ گئی۔ وہ مسکرایا اور بیڈ کے قریب آیا۔

 اس نے کہا، "کیا تمہارے پاس میرے لنڈ اور اپنی چوت کو چکنا کرنے کے لیے کوئی چکنا کرنے والا مادہ ہے" وہ حیران ہوئی اور بولی، "کیا، تم میری چوت نہیں چوسو گے؟
Click Here To

Pages: 692
Price: 600


urdu bold novels
urdu bold novels list
urdu bold novels download
husband wife bold urdu novels
hot and bold urdu novels online
urdu bold novel pdf
urdu bold novel about a woman
most bold novel in urdu
urdu novels in which hero is bold
urdu bold novel book pdf


 




 نازو نے اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کیا اور اس نے اپنی انگلیاں تیل میں ڈبو کر اپنی پھدی کے اردگرد اور اندر کرنا شروع کردیا۔ باقی دو نے اس کی ٹانگیں پکڑی ہوئی تھیں جبکہ نازو نے شکیل کا انڈرویئر اتار کر شکیل کا سخت لن چوسنا شروع کر دیا۔ چوسنے کے بعد اس نے اس کے لن پر تیل لگایا۔ شکیل اب بیڈ پر چڑھ کر اس کی کھلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان آ گیا۔ خواتین ابھی تک اس کی ٹانگیں پکڑے ہوئے تھیں۔ شکیل نے اپنے 7 انچ لمبے اور تین انچ موٹے لن کی ٹوپی پھدی پررکھ دی۔ اس نے چیخ کر خود کو چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بری طرح پھنس گئی تھی اور اس میں ہلنے کی بھی طاقت نہیں تھی۔ شکیل نے اب اس کی طرف دیکھا اور آہستہ آہستہ لن اس کی پھدی کے اندر گھس گیا۔ اس کا لن اس کی پھدی کی دیواروں کو پھیلا کر کنوار پن کی جھلی تک پہنچ گیا۔ شکیل اس کی چھاتی بھی چوستا اور جسم کے دوسرے حصوں کو بھی چومتا لیکن وہ جلدی میں تھا کیونکہ اسے کہیں جلدی پہنچنا تھا

 

Click Here To

Pages: 817
Price: 600


urdu bold novels
urdu bold novels list
urdu bold novels download
husband wife bold urdu novels
hot and bold urdu novels online
urdu bold novel pdf
urdu bold novel about a woman
most bold novel in urdu
urdu novels in which hero is bold
urdu bold novel book pdf


 





مَیں بے دم ہو کر بھابھی کے پہلو میں بیٹھ گیا اور اُن کے ہونٹوں پر لگی ہوئی اپنی منی چاٹنے لگا۔ بھابھی نے بھی میری انگلیوں پر لگا ہوا اپنی چوت کا پانی اپنی زبان سے چاٹ چاٹ کر صاف کیا ۔ ہم دونوں دیور اور بھابھی پسینے میں نہا چکے تھے ۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور ہنس دئے ۔

" خالد آج تو مزا ہی آ گیا ہے ۔ تمہاری منی بہت لذیز تھی ۔ مجھے منی کی خوشبو سے پیار ہے۔ اب مجھے کولڈ ڈرنک دو تاکہ میں دوبارہ فریش ہو جاؤں ۔" میں نے کولڈ ڈرنک کی بوتل سےدو گلاس بھرے ایک

 بھابھی کو دیا اور دوسرا اپنے ہاتھ میں تھام لیا ۔

بھابھی ایک گھونٹ اپنے گلاس سے لے کر اُسے میرے منہ میں ڈالتیں اور مَیں اپنے گلاس سے ایک گھونٹ بھر کے اُسے بھابھی کے منہ میں ڈال دیتا ۔ 

 

Click Here To

Pages: 633
Price: 600


urdu bold novels
urdu bold novels list
urdu bold novels download
husband wife bold urdu novels
hot and bold urdu novels online
urdu bold novel pdf
urdu bold novel about a woman
most bold novel in urdu
urdu novels in which hero is bold
urdu bold novel book pdf


 








اپنے خیالوں میں مگن پانی سے کھیلتے کھیلتے اچانک میری نظر کاجل پر پڑی۔۔ ایک پتھر پر بیٹھ کرجھک کر کپڑے دھوتے ہوے اسکا گریبان کافی اندر تک کے نظارے دکھا رہا تھا۔۔ مجھے جیسے کرنٹ سا لگا۔اسکا سانولا چنگھاڑتا جسم جیسے مجھے کھینچ رہا تھا۔۔ ایک بیخودی کے عالم میں میں نے چلو میں پانی بھرا اور اس پر پھینکا وہ

 چونکی اور ہنس کر بولی۔

 ٹھہرو بالی کے بچے تمہیں بتاتی میں۔۔ اس نے کپڑے چھوڑے اور میرے پیچھے بھاگی ۔۔میں تالاب کے اوپر اوپر سے چکر کاٹ کر بھاگا۔ لیکن وہ جنگلی مٹیارن قلانچیں بھرتی میرے بالکل عقب میں آ گئی جیسے ہی مجھے لگا میں اسکی گرفت میں آنے لگا ہوں میں نے سکول زمانے میں ہاکی والا تجربہ آزمایا اور اسے جھکائی دی وہ اپنی جھونک میں سیدھا تالاب کے اندر جا گری وہ تڑپ کر تالاب سے جیسے ہی نکلی مجھے لگا جیسے پانی سے جل پری نکل آئی ہو۔ کاجل کے بھیگے کپڑوں سے نچڑتا پانی اور اسکا سانولا شباب میرا دل دھڑکا گیا 
Click Here To

Pages: 1800
Price: 1200


urdu bold novels
urdu bold novels list
urdu bold novels download
husband wife bold urdu novels
hot and bold urdu novels online
urdu bold novel pdf
urdu bold novel about a woman
most bold novel in urdu
urdu novels in which hero is bold
urdu bold novel book pdf