منحوس سے معصوم تک
قسط
نمبر 007
شیرو
:
میں
آپ کو کیسے جانے دے سکتا ہوں ان آنکھوں میں ۔ ۔ ۔ میں نے ہمیشہ ہنسی دیکھی ہے مستی
دیکھی ہے ۔ ۔ ۔ ان آنکھوں میں ۔ ۔ میں آنسو نہیں دیکھ سکتا
۔ ۔ ۔
یہ
کہہ کر شیرو ماہرہ کے آنسوں صاف کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
آپ
کو میں اتنا پیار دوں گا کہ ۔ ۔ ۔ آپ ہر غم بھول جائیں گی ۔ ۔ ۔ ،
میں
آپ کو کہیں نہیں جانے دوں گا ۔ ۔ ۔ مگر ایک مشکل ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ
چونک جاتی ہے کہ آخر شیرو کو کیا پریشانی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
ماہرہ کی آنکھوں میں سوال دیکھ کر کہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
میں
اِس بارے میں کچھ نہیں جانتا جو کرنا ہوگا وہ آپ کو ہی کرنا ہوگا ۔
۔ ۔
ماہرہ
شیرو کی بات سن کر شرما جاتی ہے اور چہرہ جھکا لیتی ہے ۔ ۔ ۔
دونوں
خاموش ہو جاتے ہیں مگر کسی کو تو شروعات کرنی تھی ۔ ۔ ۔ اور شیرو نے صاف کہہ دیا تھا کہ ۔ ۔ ۔ اسے کچھ نہیں
آتا جو کرنا ہے ماہرہ کو ہی کرنا ہے
۔ ۔ ۔ ۔
تب
ماہرہ من میں ہمت پیدا کرتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور چہرہ اوپر اُٹھا کر شیرو
کی آنکھوں میں دیکھنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
سمجھ نہیں پا رہا تھا ماہرہ کی نظروں میں ایک تبدیلی آ گئی تھی ۔
۔ ۔ جو پہلے اس نے کبھی نہیں
دیکھی تھی ۔
۔ ۔
پھر
ماہرہ آگے بڑھتی ہے اور شیرو کے سر کے پیچھے ہاتھ رکھا کر اس کے سر کو جھکاتی ہے ۔
۔ ۔ اور اپنے لرزتے ہوئے ہونٹوں کو شیرو کے ہونٹوں سے ملا دیتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
ووم
م م ۔ ۔ ۔ ہم م م ۔ ۔ ۔ ۔
دونوں
ایک دوسرے کے ہونٹ چومنا شروع ہو جاتے ہے ۔ ۔ ۔ ۔ شیرو الگ ہی دنیا کے نشے میں
ڈوبا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ کے نازک ملائم ہونٹوں کا احساس اسے دیوانہ کر رہا
تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا مزہ تو مہوش کے ساتھ بھی نہیں آیا تھا ۔ ۔
۔ ۔
دونوں
ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چوس رہے تھے اِس ہونٹوں کے رسپان کی کمانڈ ماہرہ کے ہاتھوں
میں تھی ۔ ۔ ۔ ۔ مگر شیرو بھی برابر ساتھ دے رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے ہونہار شاگرد
جلدی سے استاد کی ہر بات کو سمجھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے ہی شیرو بھی کر رہا تھا ۔
۔ ۔
تھوڑی
دیر کس کرنے کے بَعْد ماہرہ نے سانس لینے کے لیے چہرہ پیچھے کیا ۔ ۔ ۔ تو اس نے
محسوس کیا کہ ۔ ۔ ۔ اس کے ہونٹ پوری طرح دونوں کے تھوک سے بھیگ گئے تھے
۔ ۔ ۔ شیرو تو پُورا مدھوش ہو چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ کی نظریں شیرو کی نظروں سے
پھر ملی ۔ ۔ ۔ ۔ اور بنا ایک پل گنوائیں دونوں کے ہونٹ پھر جوڑ گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ
شیرو کا کبھی نیچلا ہونٹ چوس رہی تھی۔
۔ ۔ ۔ کبھی اوپر والا اور پھر اس نے اپنی زبان شیرو کے منہ میں ڈال دی ۔ ۔ ۔
ماضی
میں ماہرہ کالج میں پڑھی لکھی تھی ۔ ۔ ۔ اس نے شہر کی دنیا دیکھی تھی انڈین فلموں
کی طرح وہ بھی کھل کر رومینس کرنا چاہتی تھی ۔ ۔ ۔ مگر اپنی عزت کی خاطر اس نے
کوئی بواے فرینڈ نہیں بنایا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور بختیار سے کبھی وہ کھل کر
رومینس کر نہیں پائی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ مگر شیرو کے ساتھ اس کا دِل کہہ رہا تھا کہ وہ
اپنے ہر خواب کو پورا کرے ۔ ۔ ۔ ۔ کیوںکہ شیرو کی آنکھوں میں اس نے سچا پیار دیکھا
تھا ۔
۔ ۔
ماہرہ
شیرو کی زبان کو چوس رہی تھی ۔ ۔ ۔ اور شیرو ماہرہ کی پیروی کر رہا تھا پھر شیرو نے
بھی ماہرہ کی زبان کو چوسنا شروع کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
صرف ماہرہ کی پیروی کر رہا تھا پھر ماہرہ نے شیرو کا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنی چھاتی
پر رکھ دیا ۔ ۔ ۔ اور ہلکا سا دبا کر اسے اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
بھی ماہرہ کا اشارہ سمجھ گیا اور اس نے ماہرہ کی ٹھوس چھاتیوں کو دبانا شروع کر
دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ،
ماہرہ
کے ممے اب بھی کٹھور تھے کیوںکہ نہ تو وہ ابھی تک ماں بنی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اور نہ ہی
بختیار اس کے ساتھ زیادہ خوش تبعائی (فورپلے) کرتا تھا ۔ ۔ ۔
شیرو
پہلے دھیرے دھیرے پھر زور سے مموں کو دبانے لگا ۔ ۔ ۔ جس کی وجہ سے ماہرہ کو تھوڑا
دَرْد بھی ہوا اور اس کے منہ سے سسکیاں نکلنے لگی ۔ ۔ ۔ مگر اس نے روکا نہیں شیرو
کو بلکہ وہ اِس میٹھے میٹھے دَرْد کو انجوئے کرنے لگی ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
“
آہ ۔ ۔ ۔ اوں ۔ ۔ ۔ ایسے ہی دباؤ انہیں ۔ ۔ ۔آہ ۔
۔ ۔ دوسرا بھی دباؤ ۔ ۔ ہم م م ۔ ۔
۔زور دباؤ ۔ ۔ ۔ س س س ۔ ۔ ۔ اوئی ماں" ۔
۔ ۔ ۔
شیرو
دونوں ہاتھوں سے ممے دبانے لگا اور زور سے مسلنے لگا جیسے ماہرہ کی چھاتیوں کو آج
ہی ڈھیلی کر دینا چاہتا ہو ۔ ۔ ۔
ماہرہ
کی پھدی میں پانی آ گیا تھا اور اس کی ہوس کی آگ اب تیزی سے بڑھ رہی تھی ۔
۔ ۔ ۔
پھر
ماہرہ نے جلدی سے شیرو کی قمیض اُتَار دی ۔ ۔ ۔ پھر بنیان اُتَار کر شیرو کے چوڑے
سینے پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔ ۔ ۔ اور اس کی چھاتی کو چومنے لگی ۔
۔ ۔ ،
شیرو
تو اِس نئے احساس میں کھوتا چلا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے یہ سب برداشت نہیں ہو
رہا تھا
۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
چومتے ہوئے نیچے بڑھنے لگی ۔ ۔ ۔ اور شیرو کے پجامے کے ناڑے کو کھول دیا ۔ ۔ ۔ جس سے شیرو کا پجامہ نیچے گر
گیا اس کے انڈرویئر سے ہی اس کے لنڈ کا اُبھار صاف جھلک رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جو اِس
بات کا گواہ تھا کہ شیرو اِس وقت مزے کے سمندر میں ڈوبا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
کے منہ سے سسکیاں نکل رہی تھی اگلے ہی لمحے ماہرہ نے شیرو کا انڈرویئر بھی نیچے
کھینچ دیا
۔ ۔ ۔ اور شیرو کا لنڈ اچھلتا ہوا باہر آ گیا ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
: (من میں)
"ہاے ۔ ۔ ، یہ کیا ہے ؟
اتنا
بڑا بھی ہوتا ہے کسی کا ؟
ہائے
یہ تو مجھے مار ہی ڈالے گا" ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
ایک بار تو ڈر ہی گئی تھی شیرو کا لنڈ دیکھ کر۔ ۔ ۔ ، ڈرے بھی کیوں نہ شیرو کا لنڈ
کوئی معمولی لنڈ نہیں تھا ۔ ۔ ۔ بلکہ آٹھ انچ لمبا اور چار انچ موٹا لوڑا تھا ۔ ۔ ۔
جو بختیار کے پانچ انچ لمبے اور دو انچ موٹے لنڈ سے تقریباً دگنا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
کے من میں ڈر بیٹھ گیا تھا مگر دوسرے ہی لمحے وہ سوچنے لگی کہ ۔
۔ ۔ ۔ اگر وہ اِس لنڈ کو برداشت کر گئی تو یہ مزہ بھی بہت دے گا ۔ ۔ ۔ اس نے
اپنی سہیلیوں سے کئی بار سنا تھا کالج کے دنوں میں کے لنڈ جتنا تگڑا ہو اتنا ہی
مزہ دیتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
شیرو
تو چُپ چاپ ماہرہ کو دیکھ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ کیوںکہ اسے تو چدائی کا کوئی پتہ نہیں
تھا جو بھی کرنا تھا ماہرہ نے کرنا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
کیا
ہوا مامی کوئی گڑبڑ ہے کیا کچھ کمی ہے مجھ میں کیا ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
نہیں
نہیں کچھ بھی تو نہیں تم میں کوئی کمی نہیں ہے ۔ ۔ دراصل تمھارے لنڈ کی لمبائی بہت بڑی ہے ۔ ۔ ۔ تمھارے ماما کا تو اس سے آدھا ہے میں سوچ رہی تھی
کہ میں کیسے اسے برداشت کروں گی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پھر
ماہرہ ہمت کر کے لنڈ کو پکڑ لیتی ہے اور مسلنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ جس سے لنڈ کا تناو
اور بڑھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اور اس پر نسوں کا ابھار شروع ہو جاتا ہے ۔
۔ ۔
شیرو
کا لنڈ بہت گرم تھا جس کا احساس ماہرہ کو اچھے سے ہو رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ شیرو کے لنڈ
میں ایک سب سے خاص بات تھی اور وہ تھی اس کا رنگ ۔ ۔ ۔ ۔ ،
شیرو
کا لنڈ گورا چٹا تھا اور اس کے لنڈ کا اگلا حصہ مشروم کے جیسے بڑا چھتری کی طرح
پھیلا ہوا تھا ۔ ۔ ۔
ماہرہ
کی پھدی بہت زیادہ پانی چھوڑنے لگی تھی ۔ ۔ ۔ وہ لنڈ کو منہ میں لینا تو چاہتی تھی
مگر وہ شرما رہی تھی کہیں شیرو اس کے بارے میں غلط نہ سوچے ۔
۔ ۔
پھر
ماہرہ اپنے کپڑے اتارنے لگتی ہے اور پھر کمرے کی لائٹ کو بند کر کے چھوٹا بلب آن
کر دیتی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ تھوڑا بہت نظر آ سکے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
شیرو کے سامنے ننگا ہونے میں شرما رہی تھی مگر اسے آگے بڑھنا تھا ۔
۔ ۔ ۔
پھر
چپکے سے اپنی قمیض اور شلوار اُتَار کر بیڈ پر صرف براہ پینٹی میں لیٹ جاتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
کو بہت شرم آ رہی تھی اس لئے اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی ۔
۔ ۔
شیرو
ماہرہ کے سنگ مرمر سے سفید تراشے ہوئے بدن کو دیکھ کر مجنوں کی طرح بےتاب ہو گیا
تھا ۔ ۔ ۔ اس کا منہ اپنے آپ کھل جاتا ہے اور حلق خشک ہونے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کتنی
حَسِین تھی ماہرہ کوئی بھی دیکھے تو پاگل ہو جائے ۔ ۔ ۔ ۔ پتہ نہیں بختیار کس مٹی
کا بنا تھا جو ایسی حور پری کو چھوڑ کر باہر گھوم رہا تھا ۔
۔ ۔ ۔
جب
شیرو کچھ دیر ماہرہ کے پاس نہیں آتا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ آنکھیں کھول کر دیکھتی ہے ۔ ۔
۔ ۔ تو شیرو بس آنکھیں پھاڑے اس
کے بدن کو دیکھے جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ،
ماہرہ
کو اپنے آپ پر فخر محسوس ہونے لگتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ شیرو جیسا گھبرو جوان اِس عمر میں بھی اس کے جسم کی
خوبصورتی میں کھو گیا ہے ۔ ۔ ۔
پھر
وہ شیرو کو پاس بلاتی ہے ۔ ۔ ۔
شیرو
اس کی آواز سے جیسے نیند سے جاگتا ہے اور بیڈ پر چلا جاتا ہے ۔
۔ ۔
اب
شیرو پُورا ننگا تھا جبکہ ماہرہ صرف پینٹی براہ میں تھی ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
اب
تم میرے یہ آخری کپڑے اپنے ہاتھوں سے اتارو ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
ماہرہ کا حکم مان کر ماہرہ کے براہ کو کھولنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس کے
ہاتھ کانپ رہے تھے اور اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کیسے اِس کو کھولے خیر
ماہرہ اس کی مدد کرتی ہے اور براہ کھل جاتا ہے
براہ
کھولتے ہی ممے اچھل کر باہر آ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کیا حَسِین نظارہ تھا دودھ سے سفید
اور پرفیکٹ شیپ کے ٹھوس سیڈول ممے ۔ ۔ ۔ ۔ جن پر برائون کلر کے چھوٹے
چھوٹے نپل تھے ۔ ۔ ۔ ۔ جو اِس بات کے گواہ تھے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کو زیادہ چھیڑا نہیں گیا
ہے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
"آہ ۔ ۔ ۔ شیرو اب انہیں مسلو پیار سے انہیں دباؤ انہیں منہ
میں لے کر چوسو" ۔ ۔
۔ ۔
شیرو
فرمابردار غلام کی طرح حکم سن کر دونوں ہاتھوں سے دودھ کو دبانے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اور پھر ایک دودھ کا نپل منہ میں لے کر چُوسنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ پھر تھوڑی دیر
بَعْد دوسرے نپل کو منہ میں لیتا ہے پہلے والے کو دبانے لگتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
تو مزے کے سمندر میں ڈوبتی جا رہی تھی اتنا مزہ اسے کبھی نہیں آیا تھا ۔
۔ ۔ ۔
"آہ ۔ ۔ ۔ اوئی ۔ ۔ ۔ ہاں ایسے ہی ۔ ۔ آں ۔ ۔ شاباش ۔ ۔ ۔ ایسے
کرو ۔ ۔ آہ ۔ ۔ س س س " ۔ ۔
۔
ماہرہ :
اب
میری پینٹی بھی اتارو جلدی سے ۔ ۔ ۔
شیرو
مموں کو چھوڑ کر ماہرہ کی پینٹی کھینچ کر اتارنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ جس میں ماہرہ کمر
اُٹھا کر اس کی مدد کرتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
کی پینٹی پوری پھدی کے پانی سے بھیگی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ جسے شیرو ایک بار غور سے
دیکھتا ہے اور سونگھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،
ایک
الگ ہی خوشبو اسے محسوس ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ماہرہ یہ دیکھ کر شرما جاتی ہے مگر اب اسے
اپنی پھدی کی آگ برداشت نہیں ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
اب
تمہیں دھیرے دھیرے اپنا لنڈ اس میں گھسانا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
اپنی پھدی شیرو کو دیکھاتی ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
دیکھو
شیرو تمہارا لنڈ بہت بڑا ہے میں اسے آسانی سے برداشت کر نہیں پاؤں گی ۔
۔ ۔ اِس لیے ذرا آرام سے ڈالنا
اگر میں کہوں روک جاؤ تو روک جانا
۔ ۔ ۔ ۔ اور جب پُورا چلا جائے تو پھر آگے پیچھے کرنا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
ہاں میں سر ہلا دیتا ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
اب
تم میری ٹانگوں کے بیچ میں آ جاؤ ۔ ۔ ۔
مہرہ
اپنی ٹانگیں اٹھا کر کھول دیتی ہے اور شیرو اس کی ٹانگوں کے درمیان گھٹنوں پر بیٹھ
جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر شیرو کی پوزیشن سہی نہیں تھی ۔ ۔ ۔ اسے سمجھ نہیں آتا کہ آخر کیسے گھسائے ۔ ۔ ۔ کیوںکہ ماہرہ کی چوت سے اس کے
لنڈ کی سطح (لیول) نہیں بن رہی تھی۔
۔ ۔ ،
ماہرہ
سمجھ جاتی ہے کہ اسے کچھ بھی نہیں پتہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
لو
یہ تکیہ میری کمر کے نیچے رکھو اور خود تھوڑا نیچے ہو جاؤ گھٹنے پھیلا کر ۔
۔ ۔
شیرو
ماہرہ کی کمر کے نیچے تکیہ رکھتا ہے اور خود بھی گھٹنے پھیلا کر نیچے ہو جاتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
اب
لنڈ کا ٹوپا چوت کے سامنے تھا ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
اپنے منہ سے تھوڑا تھوک لگا کر لنڈ پر اپنے ہاتھ سے لگاتی ہے اور لنڈ کو پکڑ کر
پھدی پر سیٹ کرتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
اب
گھساؤ آرام سے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
اپنے لنڈ پر زور دیتا ہوا لنڈ کو اندر گھسانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر شیرو کے
لنڈ کی ٹوپی کے مقابلے میں چوت کا منہ چھوٹا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ کو تکلیف محسوس
ہونے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
لگاتار زور بڑھا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
پچک
کی آواز سے لنڈ کا اگلا حصہ چوت میں گھس جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
"آہ ۔ ۔ ۔ اوں ۔ ۔ ۔ ماں ۔ ۔ مر گئی" ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
کو دَرْد ہونے لگتا ہے اس کی چوت اچانک کس گئی تھی اور ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی
خنجر ڈال کر اس کی چوت کو پھاڑ رہا ہو ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
ماہرہ کے چہرے کو دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے بہت تکلیف ہو رہی ہے اس لئے
وہ روک جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
"آہ ۔ ۔ تم روک کیوں گئے ۔ ۔ ۔ آگے بڑھو دھیرے دھیرے ۔ ۔ ۔ ہم م
م" ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
پھر سے لنڈ پر زور دینے لگتا ہے اور ایک انچ اور لنڈ اندر گھس جاتا ہے ۔
۔ ۔
اب
تک تین انچ ہی لنڈ اندر گیا تھا مگر ماہرہ کی تو جیسے جان ہی نکل رہی تھی ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
"شیرو ۔ ۔ ۔ آں ۔ ۔ ۔ساتھ میں میرے دودھ بھی دباؤ ۔
۔ اف ف ف ۔ ۔ ۔ ایسے مجھے تھوڑا آرام ملے گا" ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
جھٹ سے دودھ دبانے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ تھوڑی مطمئن ہوتی ہے تو شیرو کو جھٹکے سے
لنڈ اندر کرنے کو کہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،
شیرو
اس کی بات مان کر ایک ہلکا جھٹکا مار دیتا ہے ۔ ۔ ۔ اور لنڈ دو انچ اور اندر گھس
جاتا ہے۔
۔ ۔ ۔ مگر ماہرہ کی جان حلق میں آ جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
یہاں
تک تو وہ پہلے بھی لنڈ لے چکی تھی مگر شیرو کا لنڈ اسے دگنا موٹا تھا ۔
۔ ۔
ماہرہ :
اوں
۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ مر گئی ۔ ۔ آں ۔ ۔ ۔
تھوڑی
دیر شیرو ماہرہ کے دودھ دباتا رہتا ہے ۔ ۔ ۔ جس سے کچھ لمحوں بعد ماہرہ تھوڑا
نارمل ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور شیرو کو اتنے ہی لنڈ کو اندر باہر کرنے کو کہتی ہے ۔
۔ ۔
شیرو
اتنے ہی لنڈ کو دھیرے دھیرے اندر باہر کرنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ پہلے تو ماہرہ کو تکلیف ہوتی ہے مگر پھر ۔ ۔ ۔ دھیرے دھیرے لنڈ اپنی جگہ بنا
لیتا ہے ۔
۔ ۔ اور اسے اچھا لگنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
تو آنکھیں بند کر کے مزے لے رہا تھا اور ساتھ میں دودھ دبا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ
بھی اب رنگ میں آنے لگی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
آہ
۔ ۔ م م م ۔ ۔ س س ۔ ۔ ۔ ایسے ہی کرو ۔ ۔ ۔ س س س ۔ ۔ اور دھکے مارو ۔ ۔ آہاں ۔
۔ ۔
شیرو
ماہرہ کی آوازیں سن کر اپنی رفتار بڑھا دیتا ہے اور تیز دھکے مارنے لگتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
ایسے
ہی ۔ ۔ آہ ۔ ۔ اور زور سے مارو ۔ ۔ س س س ۔ ۔ ۔ پورا گھسا دو ۔ ۔ ۔ اف ف ۔ ۔ میری
پروا ۔ ۔ آں ۔ ۔ ۔ مت کرو ۔ ۔ ۔ گھسا دو پورا ۔ ۔ ۔ اوں ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
ماہرہ کی آواز سن کر ایک تیز دھکا مارتا ہے اور اس کا لنڈ دو انچ اور اندر گھس
جاتا ہے
۔ ۔ ۔
ماہرہ
کے منہ سے چیخ نکل جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
اوئی
ماں ۔ ۔ ۔اں ۔ ۔ ۔
شیرو
جلدی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
کیا
کر رہی ہو مامی کوئی جاگ جائے گا آواز سن کر ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے تھے ۔ ۔ ۔ جسے دیکھ کر شیرو روک جاتا ہے اور اس کے منہ سے
ہاتھ ہٹاتا ہے۔ ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
کیا
کروں تمہارا لنڈ میری جان لے لے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا لگ رہا ہے کسی نے خنجر
گھسا دیا ہے پیٹ میں ۔ ۔ ۔ ۔ آں ۔ ۔ ۔ ماں ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
پھر سے ماہرہ کے دودھ دبانے لگتا ہے اور چند سیکنڈ میں ہلکے دھکوں سے اور دودھ
دبانے سے اب وہ نارمل ہو گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
اب
شیرو اتنے ہی لنڈ سے ماہرہ کی چوت میں دھکے مارنے لگتا ہے اور ماہرہ بھی مزے میں
ڈوب جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
آں
۔ ۔ آں ۔ ۔ او ۔ ۔ ایسے ہی ۔ ۔ آہا ۔ ۔ زور سے کرو ۔ ۔ آہ ۔ شاباش ۔ ۔ ۔ زور لگاؤ ۔
۔ ۔ ام م م
۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
نے اپنی رفتار اور بڑھا دی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
سے اور برداشت نہیں ہوتا اور اس کی چوت سوکرنے لگتی ہے چند لمحوں بعد ہی اس کا
پانی نکلنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
آہ
۔ ۔ میں آ رہی ہوں ں ۔ ۔ ۔ آہ میں ں ں ۔ ۔ ۔ گئی ۔ ۔ ۔اوئی ماں ۔
۔ ۔ ۔
شیرو
دیکھتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ماہرہ تیزی سے کمر اٹھانے لگی ہے تو موقع دیکھ کر آخری بچا ہوا
لنڈ بھی تیز دھکے سے چوت میں گھسا دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور ساتھ ہی ماہرہ کے منہ کو
دبا دیتا ہے ۔ ۔ ۔ جس سے اس کی چیخ منہ میں ہی دب جاتی ہے ۔ ۔ ۔
دیپیکا
کی آنکھیں پلٹتے لگتی ہے یہ آخری دھکا اسے برداشت نہیں ہوا تھا ۔
۔ ۔ ۔ ۔
مزے
کی لذت میں شیرو نے آخری حملہ کر کے چوت کی دھجیاں اڑا دی تھی۔ ۔
۔۔ ۔
شیرو
کا لنڈ ماہرہ کی بچہ دانی میں گھس گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
اور
لنڈ کی سختی کی وجہ سے اس پر غندوگی چھانے لگی تھی ۔ ۔ اسے لگ رہا تھا وہ نہیں بچ
پاۓ
گی ۔ ۔ ۔ پھدی سے بھی خون بہنے لگا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
کا جسم سر کٹی مرغی کی طرح پھرپھرانے لگا تھا ۔ ۔ ۔ماہرہ بے سدھ ہو گئی تھی ۔
۔ ۔ ۔
شیرو
ماہرہ کی ایسی حالت دیکھ کر بیڈ کے سرہانے پڑے گلاس سے پانی جلدی سے ماہرہ کے چہرے
پر ڈالتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور ماہرہ کو ہوش آتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
"اوئی ماں ۔ ۔ ۔ نکالو باہر ۔ ۔ ماں آئی ۔ ۔ ۔ میں مر جاؤں گی ۔
۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ پلیز نکالو باہر ۔ ۔ ۔ آ ۔ ۔ پھٹ گئی میری پھدی ۔ ۔ ۔ ۔ اں ۔ ۔ ۔
نکالو اسے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
چپ چاپ بس ماہرہ کے دودھ دبائے جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ اسے اور کچھ نہیں پتہ تھا کہ وہ کیا کرے کچھ دیر
بَعْد ماہرہ کا دَرْد کچھ کم ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر وہ ابھی بھی سیسکار رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
اوہ
۔ ۔ ۔ اور کتنا باقی ہے ؟ ۔ ۔ ۔ ہاۓ
ماں ۔ ۔ ۔ میں اور نہیں لے پاؤں گی ۔ ۔ ۔ اف ف ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
پُورا
چلا گیا ہے مامی جی اب اور باقی نہیں ہے آپ کہو تو نکال لوں باہر ؟ ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
کیا
۔ ۔ ۔ پورا چلا گیا ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ کیا سچ میں ۔ ۔ ۔ اں ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
خود
ہی دیکھ لو
۔ ۔ ۔
ماہرہ
ہاتھ لگا کر دیکھتی ہے واقعی پُورا چلا گیا تھا ۔ ۔ ۔
پھر
ماہرہ شیرو کو دھکے مارنے کو بولتی ہے ۔ ۔ ۔
شیرو
دھکے مارنے شروع کر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
کی چوت ایک بار پانی چھوڑ چکی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
جس
کی وجہ سے اب لنڈ آرام سے اندر باہر ہونے لگا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ لنڈ نے چوت کو اپنے حساب
سے کھول دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
آہ
۔ ۔ م م م ۔ ۔ ۔ شاباش ۔ ۔ ایسی ہی ۔ ۔ اں ۔ ۔ زور سے مارو ۔
۔ ۔ ۔
شیرو :
یہ
لو مامی اور لو اور زور سے یہ لو اب تو کہیں نہیں جاو گی نہ مجھے چھوڑ کر ؟ ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
آہ
۔ ۔ ۔ م م م ایسے ہی ۔ ۔ ۔ نہیں کہی نہیں ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ کہی نہیں جاؤں گی ۔ ۔ ۔ س س
س ۔ ۔ اب تو میں لنڈ کی غلام ہوگئی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ اور زور سے مارو ۔ ۔ اب
تو میں اسی لنڈ سے چدوں گی ہر روز ۔ ۔ ۔ ۔ اں ۔ ۔ ۔ بول چودے گا نہ مجھے ۔ ۔ ۔ ۔ س
س س ۔ ۔ ۔ بول چودے گا نہ ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
تم
جو کہو گی وہ کروں گا مامی ۔ ۔ ۔ ۔ بس مجھے چھوڑ کر کہیں مت جانا ۔
۔ ۔
ماہرہ :
کہیں
نہیں جاؤں گی ۔ ۔ ۔ س س ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ اور تیز کرو ۔ ۔ ۔ م م م ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ اب تو
میں تیری غلام ہوگئی ہوں آج سے اس پھدی میں صرف تیرا لنڈ جاۓ
گا ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ ۔
چند
لمحوں کے بعد پھر سے ماہرہ جھڑنے پر پہنچ گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ مگر شیرو ابھی بھی لگا
ہوا تھا
۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
آہ
ہ ہ ۔ ۔ ۔ اور تیز ۔ ۔ ۔ کرو ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ ماں ۔ ۔ اور تیز ۔ ۔ اں ۔ ۔ میں آ رہی
ہوں ۔ ۔ آہ
۔ ۔ ۔
ماہرہ
جھٹکے لیتے ہوئی پانی چھوڑ دیتی ہے ۔ ۔ ۔ مگر شیرو ابھی لگا ہوا تھا دونوں ہسینے
میں نہائے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ اب شیرو کے بھی برداشت سے باہر ہو رہا تھا ۔
۔ ۔ ۔
شیرو
اور تیز تیز جھٹکے مارنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ شیرو کی بے چینی بڑھنے لگتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
شیرو
ماہرہ کی ٹانگوں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ کے مموں پر اس کے گھٹنے
لگا دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ کے پاؤں اس کے سر کے پاس آ گئے تھے ۔
۔ ۔ ۔
اس
کی پاؤں کی پائل اس کے چہرے کے پاس چھن چھن کا مدہوش سر بجا رہی تھی ۔
۔ ۔ ۔
جو
شیرو کی جھڑنے کے قریب لے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
پُورا زور لگا کر دھکے مارنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ سے اتنی تابڑتوڑ چدائی
برداشت نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ ۔
اور
ایک بار پھر سے اس کی چوت پانی چھوڑنے کے لیے پھرپھرانے لگتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
آہ
۔ ۔ م م م ۔ ۔ ۔ میری کمر ۔ ۔ آہ ۔ ۔ میں گئی ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
میرا
پیشاب نکلنے والا ہے مامی جی ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
وہ
پیشاب نہیں ہے اسے نکلنے دے میرے اندر ہی نکال اسے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
نکلنے
والا ہے مامی جی آں ۔ ۔ ۔ اُوں ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
آنے
دے ۔ ۔ اں ۔ ۔ ۔ جلدی کر میں اور جھیل نہیں پاؤں گی ۔ ۔ ۔ جلدی کر آہ ۔
۔ ۔ ۔
اسی
کی ساتھ شیرو کا لنڈ دم توڑ دیتا ہے ۔ ۔ ۔ اور اس کے لنڈ سے الٹیاں ہونے لگتی ہیں ۔ ۔ ۔
شیرو
کا لنڈ پُورا چوت میں گھسا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ شیرو کا جسم اکڑ گیا تھا اور اس کے لنڈ
کا رس سیدھا ماہرہ کی بچہ دانی میں گر رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
بچہ
دانی میں رس کے گرتے ہی ماہرہ نے بھی پھر سے پانی چھوڑ دیا تھا ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
اِس چدائی سے پوری بےحال ہو گئی تھی ۔ ۔ ۔
شیرو
ماہرہ کے اوپر ہی لیٹ گیا تھا اور دونوں اپنی سانسوں کو درست کر رہے تھے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
سے شیرو کے جسم کا وزن برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ شیرو کو دائیں طرف پلٹا
دیتی ہے
۔ ۔ ۔ ۔
اور
اپنی ٹانگیں سیدھی کر کے شیرو کو بانہوں میں کس لیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رات
کے پونے تین بج گئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
چدائی
کی تھکاوٹ کی وجہ سے دونوں کی آنکھ کب لگ گئی پتہ ہی نہیں چلا ۔
۔ ۔ ۔
دامدار
طوفانی چدائی کے بعد ماہرہ اور شیرو دونوں تھکاوٹ میں چور سوئے پڑے تھے۔ ۔
۔ ۔
صبح
سویرے ماہرہ کی آنکھ کھل جاتی ہے اسے بہت تیز پیشاب لگا تھا ۔
۔ ۔ ،
ماہرہ
جلدی سے بیڈ سے اٹھ کر جیسے ہی باتھ روم جانے کے لیے کھڑی ہونے لگتی ہے ۔
۔ ۔ ۔ تو اسے تیز درد محسوس ہوتا ہے اور وہ جھٹکے سے بیڈ پر واپس بیٹھ جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
رات
شیرو کی دامدار چدائی نے ماہرہ کا انگ انگ ڈھیلا کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اب اسے اپنی
پھدی میں تیز درد محسوس ہو رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر پیشاب کو روکنا مشکل تھا ۔ ۔ ۔ اس
لئے ہمت کر کے اُٹھ کر دھیرے دھیرے لنگڑاتے ہوئے باتھ روم میں گھس جاتی ہے ۔
۔ ۔ ۔ اور جب بیٹھ کر پیشاب کرنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پیشاب
سیٹی کی آواز سے نکل رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ماہرہ کو اندر درد محسوس ہونے لگتا ہے ۔ ۔
۔ ۔ اس کی پھدی میں ٹِیس اٹھ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ،
پیشاب
کرنے کے بعد ماہرہ کمرے میں آتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تو اس کی نظر بیڈ پر سو رہے شیرو پر
پڑتی ہے جو بالکل ننگا سو رہا تھا ۔ ۔ ۔ ،
سوتے
ہوئے کتنا معصوم لگ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ،
ماہرہ
کو رات کی چدائی یاد آ جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
(من میں )
"
اُف پُورا سانڈ ہے ۔ ۔ ۔ ، کتنا تگڑا لنڈ ہے میرے جیسی چودی ہوئی عورت کی پھدی سے بھی خون
نکل دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کسی کنواری پر چڑھ جائے تو اس کا بچنا مشکل ہے" ۔ ۔ ۔ ۔
پھر
اس کی نظر بیڈ پر اس کی چوت سے نکلے خون کے دھبے پر جاتی ہے ۔
۔ ۔ ۔ جسے دیکھ کر اسے ایسا محسوس ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ جیسے کل رات ہی اس کی سہاگ رات
تھی ۔
۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
آگے بڑھ کر بیڈ سے اپنی براہ پینٹی اُٹھا کر پہن لیتی ہے ۔ ۔ ۔ اور پھر اپنے باقی
کپڑے پہن کر شیرو کو چادر سے ڈھانپ دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور ایک کس اس کے ماتھے پر دے
کر چپکے سے اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں بختیار بے سدھ سویا پڑا تھا ۔
۔ ۔ ۔
بختیار
کو دیکھ کر ماہرہ کو پہلے غصہ آتا ہے ۔ ۔ ۔ مگر پھر وہ خود کو سمجھا کر چپ چاپ بیڈ
پر لیٹ کر سو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
صبح
نائلہ اور دیبا کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ماہرہ ابھی تک نظر نہیں آئی
تھی ۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ :
ابھی
تک چھوٹی نظر نہیں آئی روز تو مجھ سے بھی پہلے کچن میں آ جاتی ہے آج کیا بات ہے ۔ ۔
۔ ، جا
دیبا زرا دیکھ تو کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ ۔
دیبا :
جی
باجی ابھی دیکھتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
دیبا
کچن سے نکل کر ماہرہ کے کمرے میں جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تو دیکھتی ہے کہ ماہرہ ابھی بھی
سو رہا تھی
۔ ۔ ۔ جبکہ بختیار اُٹھ کر باہر جا چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
دیبا :
شہزادی
جی اٹھ جائیں سورج سر پر آ گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور آپ ابھی تک بیڈ سے نہیں اٹھی ۔
۔ ۔ ۔
دیبا
کے جگانے سے ماہرہ نیند سے جاگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور انگڑائی لیتی ہے مگر ابھی بھی اس
کے جسم میں رات کی چدائی کا میٹھا میٹھا درد محسوس ہو رہا تھا ۔
۔ ۔ ۔ ،
آنكھوں
میں لال ریشے نظر آ رہے تھے ۔ ۔ ۔
دیبا :
لگتا
ہے رات دیوار جی نے سونے نہیں دیا اس لیے ابھی تک سو رہی تھی۔ ۔
۔ ۔
ماہرہ :
کیا
باجی آپ بھی کیسی باتیں کرتی ہے ۔ ۔ ۔
دیبا :
اچھا
! میں باتیں کر رہی ہوں زرا آئینے میں خود کو دیکھو ابھی تک آنکھیں لال ہے ۔ ۔ ۔ ۔
چلو اب اٹھ جاؤ باجی کب سے پوچھ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ، مجھے دیکھنے بھیجا ہے ۔
۔ ۔
ماہرہ :
باجی
میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ لگتا ہے بخار ہے پُورا جسم درد کر رہا ہے ۔
۔ ۔
دیبا :
توبہ
ایسا کیا کر دیا دیوار جی نے رات کو ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
نہیں
باجی ایسا کچھ نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ،
سچ
میں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔
دیبا
:
(فکرمندی سے
)
اچھا
تو نے دوا لی یا نہیں ۔ ۔ ۔ ،
تو
آرام کر میں تیرے لیے چائے ناشتہ لاتی ہوں پھر تو لے لینا ۔
۔ ۔ ۔
دیبا
کچن میں جا کر نائلہ کو بتا دیتی ہے ۔ ۔ ۔ اور ماہرہ کے لیے ناشتہ برتن میں ڈالتی ہے جسے
نائلہ لے کر جاتی ہے ماہرہ کے پاس
۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ :
ماہرہ
کیا بات ہے کیا ہوا تجھے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
کچھ
نہیں باجی بس ہلکا سا بخار ہے اور جسم درد کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ :
تو
یہ ناشتہ کر لے اور پھر دوا کھا لینا ۔ ۔ ۔
اور
خبردار جو کوئی کام کیا تو ۔ ۔ ۔ ، آج تو
بس آرام کرے گی ۔
۔ ۔ ۔
تھوڑی
دیر باتیں کرنے کے بعد نائلہ دوبارہ کچن میں آ جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اسی
دوران شیرو بھی اٹھ گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ باتھ روم سے فریش ہو کر نہا دھو کر جب بیڈ کو
دیکھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تو چادر پر خون کے دھبے دیکھ کر اس کے من میں تشویش ہونے لگتی
ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
(من میں )
"خون ! ! لگتا ہے مامی کو رات کو چوٹ لگ گئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اسی لیے
مجھ سے ناراض ہو کر بنا بات کئے چلی گئی ہے ۔ ۔ ۔ ،
مجھے
ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا" ۔
۔ ۔
شیرو
کو تشویش ہونے لگی تھی کہ مامی کو کتنا درد ہو رہا ہوگا ۔ ۔ ۔ کہیں وہ ناراض ہوگئی تو ؟
کہیں
وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی تو ۔ ۔ ۔ ۔
اسی
فکر میں ڈوبا شیرو جلدی سے کمرے سے نکلنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اسے چادر پر لگے خون
کے دھبے یاد آ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ پہلے چادر کو اٹھا کر باتھ روم میں جا کر پانی
میں بھگو دیتا ہے ۔ ۔ ۔ اور جلدی سے کچن میں جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ :
آ
گیا میرا لال ۔ ۔ ۔ ، آج
دیر کر دی ۔
۔ ۔
شیرو :
(
گلے لگتے ہوئے )
وہ
کیا ہے نہ اما آج سنڈے ہے تو کالج تو جانا نہیں ہے اس لئے آرام سے تیار ہوا ۔
۔ ۔
پھر
شیرو دیبا کو آداب کہتا ہے مگر دیبا بددلی سے جواب دے کر نکل جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ
نائلہ کے سامنے کچھ بولتی نہیں تھی شیرو کو ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
ماہرہ کو موجود نہ پا کر من ہی من گھبرانے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
اما
آج چھوٹی مامی کہاں ہے دکھائی نہیں دے رہی ؟
نائلہ :
بیٹا
اسے بخار ہے میں نے اسے آرام کرنے کا کہا ہے ۔ ۔ ۔
شیرو
ماہرہ کی طبیعت کا سن کر اور زیادہ فکرمند ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اور جلدی سے ماہرہ کو دیکھنے اس کے کمرے میں چلا
جاتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
جہاں
ماہرہ ابھی دوا کھا کر آنکھیں بند کئے لیٹی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔
شیرو
سمجھتا ہے شاید وہ سو رہی ہے اس لئے بنا ڈسٹرب کئے واپس لوٹ جاتا ہے۔ ۔
۔ ۔
شیرو
کچن میں بیٹھ کر ہی ناشتہ کرتا ہے اور اما کو بول کر راجو کے پاس چلا جاتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
دونوں
دوست مل کر نہر کے کنارے چلے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
راجو :
بول
کیا بات ہے صبح صبح یہاں لے آیا ؟
شیرو :
تجھے
تو سب پتہ ہے یار وہی مینا اور ماما کا چکر ۔ ۔ ۔ ،
کچھ
تو کرنا پڑے گا ماما تو اب مامی سے جھگڑا کرنے لگا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور مینا کی باتوں سے بھی
لگتا ہے کہ ماما سب کچھ اسی پر لوٹا دے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
راجو :
بات
تو تیری سہی ہے مگر یار ہم کریں بھی تو کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ایک کام کر تو بڑے ماما کو سب
سچ سچ بتا دے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
کیسی
باتیں کرتا ہے یار ۔ ۔ ۔ اگر ایسا کیا تو جھگڑا ہو جائے گا بھائیوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ اُلٹا بات بڑھ گئی تو بدنامی ہو جائے گی۔ ۔ ۔ اور اِس سب میں مامی کا کیا ہوگا اگر ماما نے انہیں چھوڑ دیا تو۔ ۔ ۔ ۔
راجو :
تو
پھر تو مامی کو ہی بتا دے شاید وہ ہی سیدھا کر دے ماما کو ۔
۔ ۔
شیرو :
مامی
بےچاری کچھ نہیں کہہ سکتی ماما کو ۔ ۔ ۔ اُلٹا ماما ان کو گھر سے نکل دیں گے ۔
۔ ۔
راجو :
تو ۔
۔ تو ہی سوچ کہ کیا کریں۔ ۔ ۔
شیرو :
کچھ
ایسا کرنا ہوگا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ مینا کی اصلیت ماما کے سامنے
آ جائے ۔
۔ ۔ تبھی وہ مینا کا پیچھا چھوڑیں
گے ۔
۔ ۔ ۔
راجو :
مگر
ایسا کیسے ہوگا ؟
ماما
تو ہماری بات نہیں مانیں گے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
یہی
تو سوچنا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے مینا کا سچ سامنے لائیں ۔ ۔ ۔ ۔
تو
ایک کام کر اپنے اس دوست کو بول کہ ۔ ۔ ۔ وہ مینا پر نظر رکھے اور پھر جب وہ آدمی
آئے تو ہمیں بتا دے ۔ ۔ ۔ ۔
راجو :
اس
کی پروا نہ کر کام ہو جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔
پھر
ایسے ہی دونوں دوست باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور دوپہر کے وقت شیرو گھر لوٹ آتا
ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
ابھی بھی کمرے سے نہیں نکلی تھی ۔ ۔ ۔ اما اور دیبا مامی کچن میں دوپہر کا كھانا
بنا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔سرور اور دلدار كھانا کھانے گھر آئے ہوئے تھے ۔
۔ ۔ ۔
سرور :
اور
بیٹا کیا چل رہا ہے ؟
پڑھائی
تو دل لگا کر کر رہا ہے نہ؟
شیرو :
جی
بابا ۔ ۔ ۔
سرور :
تو
نے ابھی تک بتایا نہیں کہ تجھے کیا چاہیے سالگرہ کے تحفے میں ۔
۔ ۔ ۔
شیرو :
بابا
مجھے کیا چاہیے سب تو ہے پہلے سے ہی بس آپ کا ساتھ ہی بہت ہے ۔
۔ ۔ ۔
سرور :
جیتو
رہو بیٹا ہم تو ہمیشہ تیرے ساتھ ہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر تجھے میں سالگرہ کا تحفہ ضرور
دوں گا
۔ ۔ ۔ ۔
دلدار
:
ہاں
بڑے بھئیا یہ تو منع کرتا ہی رہے گا ۔ ۔ ۔ مگر آپ نے جو سوچا ہے وہ اسے لینا ہی
پڑے گا ۔ ۔ ۔ آپ اس کی بات مت سنو ۔ ۔ ۔ ۔
دونوں
ماما شیرو کے ساتھ مل کر كھانا کھاتے ہے ۔ ۔ ۔ اور کھیتوں میں چلے جاتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔
کچھ
دیر شیرو سے باتیں کرنے کے بعد نائلہ بھی اپنے کمرے میں آرام کرنے چلی جاتی ہے ۔ ۔
۔ ۔ دیبا بھی ماہرہ کو كھانا کھیلا کر اپنے روم میں جا چکی تھی ۔
۔ ۔
شیرو
سب کے جانے کے بعد ماہرہ کے کمرے میں چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اس کا حال جاننے اور بات
کرنے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
مامی
مجھے معاف کر دو میری وجہ سے آپ کو چوٹ لگ گئی ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
یہ
تم کیا کہہ رہے ہو کس بات کی معافی کون سی چوٹ لگی ہے مجھے ؟ ۔
۔ ۔
شیرو
:
میں
جانتا ہوں کل رات آپ کو چوٹ لگ گئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے دیکھا ہے بیڈ پر خون تھا ۔ ۔ ۔
ماہرہ
شیرو کی بات سن کر شرما جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
بالکل
بدھو ہے تو بھی ۔ ۔ ۔ تجھے کس نے کہا مجھے چوٹ لگی ہے وہ تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
پھر سے شرما جاتی ہے آخر کیا جواب دے وہ شیرو کو۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
بتاؤ
نہ مامی تمہیں کیا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ آخر وہ خون کیسے نکلا کہاں چوٹ لگی ہے آپ کو ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
تجھے
نہیں پتہ وہ خون کہاں سے آیا ہے ؟
شیرو :
وہی
تو پوچھ رہا ہوں آپ بتائیں نہ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
ارے
تو سانڈ کی طرح کسی عورت پر چڑھ کر اپنے نیچے والے ہتھیار سے اس کی کٹائی کرے گا ۔
۔ ۔ ۔ تو خون نہیں نکلے گا کیا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ میں ہوں جو برداشت کر گئی ۔ ۔ ۔ ۔ مہوش
ہوتی تو رات میں ہی گئی تھی وہ ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
ماہرہ کی بات کا مطلب سمجھ کر شرما جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
مگر
آپ کی طبیعت تو خراب ہو گئی نہ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ مجھ سے ناراض تو نہیں پلیز
مجھے معاف کر دیجیئے ۔ ۔ ۔ آپ مجھے چھوڑ کر کہیں مت جانا ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
ارے
پگلے یہ تکلیف تو ہر عورت ہر لڑکی کو پہلی بار برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ۔
۔۔ میں تو خوش نصیب ہوں کہ۔ ۔ ۔ مجھے تم نے پھر سے اِس درد کا احساس کروا دیا ۔ ۔ ۔
میں
اب تجھے کہیں چھوڑ کر نہیں جاوں گی ۔ ۔ ۔ ۔ شیرو آج سے میں صرف تیرے لیے
اِس گھر میں رہوں گی ۔ ۔ ۔ ۔ اور تیری داسی بن کر رہوں گی ۔ ۔ ۔ تو مجھ سے وعدہ کر
کے تو کبھی مجھے چھوڑے گا نہیں اور ہمیشہ مجھے پیار دے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
مامی
جی یہ آپ کیا کہہ رہی ہے ۔ ۔ ۔ آپ میری ماں جیسی ہے ۔ ۔ ۔ آپ میری داسی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ اور میں ہمیشہ سے آپ کو پیار کرتا ہوں اور ہمیشہ
کرتا رہوں گا ۔
۔ ۔
ماہرہ :
میں
ماں بیٹے والا پیار نہیں کہہ رہی ۔ ۔ ۔ ، میں
تو کل رات والے پیار کی بات کر رہی ہوں۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
(حیرانگی سے
)
کیا
؟ ۔ ۔ ۔ نہیں مامی یہ سب غلط ہے آپ کو ماں بنانے کے لیے میں نے کل رات آپ کی بات
مان لی تھی مگر ۔ ۔ ۔ ۔ اور نہیں ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
اس
کا مطلب تو مجھ سے پیار نہیں کرتا ؟
تو
بھی اپنے ماما کے جیسے مجھے ٹھکرا رہا ہے ۔ ۔ ۔
میں
کس کے آسرے رہوں گی اِس گھر میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اتنا
کہہ کر ماہرہ رونے لگتی ہے ۔ ۔ ۔
شیرو :
نہیں
مامی ایسا مت کہو میں آپ کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ ایسے آنسو مت بہاؤ
۔ ۔ ۔ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر میں آپ کو ماں بنا دوں تو آپ کہیں نہیں جائیں گی ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
تبھی
تو کہہ رہی ہوں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے تیرا کل رات والا پیار
چاہیے ۔
۔ ۔
شیرو :
مگر
کل ہو تو گیا نہ ۔ ۔ ۔ اب آپ ماں بن جائیں گی ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
ایسے
ایک بار میں کوئی ماں تھوڑی بن جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ،
یہ
تو بار بار کرنا پڑتا ہے جب تک عورت کے پیٹ میں حمل نہ ٹھہر جائے۔ ۔
۔ ۔
اور
تجھے میری قسم سچ سچ بتا کیا رات کو تجھے مزا نہیں آیا تھا ؟ ۔
۔ ۔
شیرو
شرماتے ہوئے ہاں میں گردن ہلا دیتا ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
اب
شرماتا کیوں ہے رات کو تو میرا انگ انگ ڈھیلا کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے بھی کوئی کرتا
ہے ۔ ۔ ۔
سچ
ہی کہا ہے کسی نے ۔ ۔ ۔
"اناڑی کا کھیلنا ۔ ۔ ، کھیل کا ستیاناس "
ماہرہ
شیرو کو شرماتا دیکھ کر اب اس سے مزے لینے لگی تھی ۔ ۔ ۔
شیروکو
بھی پتہ چل جاتا ہے کہ ماہرہ اس سے مزے لے رہی ہے۔ ۔ ۔
شیرو :
اگر
ایسی بات ہے تو ہو جائے ایک اور مقابلہ دیکھتے ہیں کھلاڑی کون ہے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
نہ
بابا نہ
۔ ۔ ۔ ۔ ابھی تو بستر سے اٹھنے کی ہمت نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ابھی
مجھے معاف کرو مگر جلد ہی میں تجھے دکھاوں گی کھلاڑی کون ہے ۔ ۔ ۔
دونوں
کچھ دیر یونہی باتیں کرتے ہیں اور پھر شیرو گھر سے کھیتوں کی طرف نکل جاتا ہے۔ ۔
۔ ۔
ماہرہ
شیرو کے جانے کے بعد سوچنے لگتی ہے کہ ۔ ۔ ۔ شیرو کو اپنے حُسْن کا جلوہ دیکھانا ہوگا ۔ ۔ ۔ تاکہ وہ خود اسے چودنے کے لیے
تیار رہے۔ ۔
۔ اور مسکرانے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
کھیتوں میں جاتا ہے تو وہاں دلدار ماما بیٹھے تھے چارپائی پر ۔
۔ ۔ ۔
دلدار :
آؤ
شیرو بیٹھو
۔ ۔ ۔ ، اور بتا کہاں سے آ رہا ہے
شیرو :
کچھ
نہیں ماما جی ۔ ۔ ۔ بس سوچا آپ کے پاس بیٹھ کر حساب کتاب کا کام ہی کر
لیتا ہوں ۔
۔ ۔ ۔
دلدار :
ہاں
یہ ٹھیک کیا تم نے ۔ ۔ ۔ ،
اُس
دن تم نے وہ جو حساب میں فرق نکالا تھا ۔ ۔ ۔ تو میں نے بڑے بھئیا کو بتایا تھا وہ
کل جائیں گے منشی کے پاس ۔ ۔ ۔ ۔
ایک
کام کر تو بھی کھاتے میں دیکھ کر مزدوروں کا بھی حساب دیکھ ڈال ۔ ۔ ۔ کس کی طرف
کتنا پیسہ نکلتا ہے اور کسے کتنا دینا ہے ۔ ۔ ۔
شیرو
بھی کھاتا دیکھتا ہے ۔ ۔ ۔ تو ایک مزدور کی طرف تیس ہزار جمع تھا ۔ ۔ ۔ مگر
پچھلے ایک سال سے اس نے کوئی پیسہ لوٹایا نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
ماما
جی یہ عزیز کون ہے ۔ ۔ ۔ اس نے تیس ہزار روپے لیے تھے ۔ ۔ ۔ مگر ابھی تک ایک بھی
پیسہ واپس نہیں کیا ۔ ۔ ۔ ۔
دلدار :
کیا
؟ ایک سال سے پیسہ نہیں دیا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر بختیار تو کہہ رہا تھا وہ
خود لے رہا ہے ۔
۔ ۔ اب تو اِس بات کو بھی چھے ماہ
۔ ۔ ۔ بہت وقت ہوگیا ہے ۔ ۔ ۔
شیرو :
ماما
جی یہ ابھی کام کر رہا ہے ہمارے پاس ؟
دلدار :
ہاں
یہیں ہے کھیتوں میں ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
بولائیں
اسے زرا اور پوچھئے کہاں ہے پیسے ۔ ۔ ۔ تنخواہ تو ٹائم پر لے رہا ہے ۔
۔ ۔
دلدار
عزیز کو بلاتا ہے ۔ ۔ ۔
دلدار
:
کیوں
بھئی عزیز کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ تو پیسے نہیں لوٹا رہا ۔ ۔ ۔ تم نے تو بولا تھا دو
ہزار روپے ہر مہینے کٹواے گا ۔ ۔ ۔
عزیز
:
ارے
صاحب کیا بتاؤں مینا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی ۔ ۔ ۔ اوپر سے اب وہ پیٹ سے ہوگئی ہے ۔
۔ ۔ اب میں اکیلا پیسہ کمانے والا
ہوں بس جیسے ہی مینا کھیتوں میں مزدوری پر آنے لگے گی ۔ ۔ ۔ ۔ تو میں پیسے کٹوا
دوں گا ۔
۔ ۔ ۔
چھوٹے
مالک نے کہا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔
جب
تک مینا کو بچہ نہیں ہو جاتا اسے کھیتوں میں نہیں لانا ۔ ۔ ۔
شیرو
ساری بات سمجھ گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
ٹھیک
ہے ٹھیک ہے اگر چھوٹے ماما نے کہا ہے تو ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ مگر یاد رکھنا یہ پیسے تم
پر قرض ہیں
۔ ۔ ۔ ،
اب
تم جاؤ
۔ ۔ ۔
شیرو
سوچنے لگتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔
بختیار
ماما تو ہر جگہ گڑبڑ کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ایسے تو سب کچھ بگڑ جائے گا ۔
۔ ۔ ، کچھ دیر کھیتوں میں بیٹھ کر شام کو دونوں ماما بھانجے گھر آ جاتے
ہیں ۔
۔ ۔ ۔ سرور بھی آ گیا تھا مگر بختیار نہیں آیا تھا۔ ۔ ۔
سب
مل کر كھانا کھاتے ہیں۔ ۔ ۔ اور اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ
سونے ہی جا رہی تھی کہ ۔ ۔ ۔ باہر کے دروازے کی آواز آتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ نائلہ دیکھنے
جاتی ہے کہ
۔ ۔ ۔ اِس وقت کون آ گیا ۔ ۔ ۔ ، اس کی نظر بختیار پر پڑتی ہے جو جھومتا ہوا
اپنے کمرے میں گھس جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ
سمجھ جاتی ہے کہ ۔ ۔ ۔ نشے میں ہے پھر وہ سوچتی ہے کہ ماہرہ تو ٹھیک نہیں
ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلاوجہ کھانے کے لیے یہ اب اسے تنگ کرے گا ۔ ۔ ۔ ۔ میں ہی پوچھ لیتی
ہوں اور وہ ماہرہ کے کمرے کی طرف جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ،
اچانک
اندر کی آوازیں سن کر وہ ٹھٹھک جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
بختیار :
چل
اٹھ ایسے کیا بیڈ پر لیٹی آرام کر رہی ہے۔ ۔ ۔ چل اُٹھ کر مجھے كھانا دے۔
۔ ۔ بچے تو پیدا کر نہیں سکتی
رانی بن کر بیٹھی ہے بانجھ کہیں کی ۔ ۔ ۔ ۔ چل اٹھ میرے جوتے نکال ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
(روتے ہوئے )
کیوں
بار بار مجھے بانجھ کہتے ہو ۔ ۔ ۔ قدرت نے چاہا تو میں بھی ماں بن جاوں گی ۔
۔ ۔ ۔
بختیار :
ہا
ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔ خواب دیکھنا چھوڑ دے کمینی تو ایک بانْجھ ہے ۔
۔ ۔ اور بانجھ ہی رہے گی ۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
میں
بانجھ نہیں
۔ ۔ ۔ ، مرد اپنی کمزوری پر پردہ
ڈالنے کے لیے عورت پر بانجھ کا الزام لگاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔
اتنا
سنتے ہی بختیار ماہرہ کے منہ پر تِین چار تھپڑ مار دیتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
بختیار :
کمینی
تو مجھے نامرد بول رہی ہے ۔ ۔ ۔ تو دیکھ اِس گھر میں میں بچوں کی لائن لگا دوں گا ۔
۔ ۔ اور تجھے گھسیٹ کر باہر نکالوں گا ۔ ۔ ۔ ۔
اتنا
کہہ کر وہ ماہرہ کو لات مار کر بیڈ سے نیچے پھینک دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور خود آرام سے
بیڈ پر لیٹ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
باہر
کھڑی نائلہ ماہرہ کے حال پر آنسو بہا رہی تھی ۔ ۔ ۔ مگر اِس وقت بختیار نشے میں
تھا ۔ ۔ ۔ اور ایسے میں اس سے بات نہیں کی جا سکتی۔ ۔ ۔ اپنے دِل پر پتھر رکھا کر نائلہ اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور
ساری رات ماہرہ کے بارے میں سوچتے ہوئے سو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
جاری
ہے۔۔۔۔۔۔
new urdu bold novels
urdu bold novels list
most romantic and bold urdu novels list
husband wife bold urdu novels
bold romantic urdu novels kitab nagri
hot and bold urdu novels pdf
most romantic and bold urdu novels
most romantic and bold urdu novels list pdf
No comments:
Post a Comment
Thanks