آنکھ
مچولی
چائے کی
بھینی بھینی خوشبو نے مجھے مہکا دیا۔۔۔بھابھی نے چائے کا کپ میری طرف بڑھایا تو
میں نے کہ اٹھاتے ہوئے کہا۔قسم سے بھابھی اس کی بہت ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ویسے
آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں یہاں ہوں تو بھابھی میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی
بولیں۔۔۔سمیر،،میں نے تم دونوں کی ساری باتیں سن لی ہیں۔میں کسی کام سے نیچے گئی
تھی واپس آ رہی تھی تو دروازہ کھلا دیکھ کر جیسے ہی اندر داخل ہونے لگی تو مجھے
تمہاری آواز سنائی دی تم آفتاب کو مومو کے بارے میں بتا رہے تھے۔۔۔تو میں نے ساری
باتیں سن لیں۔۔۔میں بھابھی کی بات سن کر ہکا بکا رہ گیا۔۔۔پہلے آفتاب میری بات سن
کر حیران ہوا تھا اب بھابھی کی باتیں سن کر میں پشیماں ہو گیا۔۔۔اسی تذبذب کی
کیفیت میں کھڑا تھا کہ بھابھی پھر گویا ہوئیں۔۔۔سمیر،،میں تم دونوں کو ملوانے کی
کوشش کرو گی۔۔۔پتہ کروں گی کہ مومو کی کہیں بات پکی ہوئی ہے یا نہیں۔یا اسے کوئی
اور مجبوری تو نہیں ہے۔۔۔ بھابھی کی بات سن کر میں چند لمحے خاموش رہا۔پھر میں نے
بھابھی سے پوچھا کہ بھابھی میری بپتا سننے کے بعد آپ کو میری مدد کرنے کی کیا
سوجھی۔۔۔اس سے آپ کو کیا ملے گا۔۔۔یہ کہہ کر میں استجائیہ نظروں سے بھابھی کو
دیکھنے لگا۔۔۔بھابھی نے گرم چائے کی ایک چسکی بھری اور ایک ٹھنڈی سانس لیکر
بولیں۔۔۔سمیر،،میں اور ارمغان سکول لیول سے یونیورسٹی لیول تک ایک دوسرے کے ساتھ
رہے۔۔۔سکول سے یونیورسٹی تک ساتھ رہنے سے پہلے دوستی اور پھر یہ دوستی محبت میں
تبدیل ہو گئی۔۔۔ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ہم شادی کریں گے لیکن شادی تک ایک دوسرے
کے درمیان فاصلے کو کم نہیں کریں گے۔۔۔اتنا کہہ کر بھابھی چپ ہو گئیں اور پاؤں کے
انگوٹھے سے زمین کو کریدنے لگیں۔۔۔میں چائے کا کپ ختم کر چکا تھا۔۔۔میں نے بھابھی
سے پوچھا اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو آگے بتائیں پھر کیا ہوا۔۔۔بھابھی چند لمحے اور
خاموش رہنے کے بعد بولیں۔۔۔پھر ہم لوگوں نے اپنے گھر والوں کو مطلع کیا اور ان کی
مرضی سے ہماری شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی۔جب سہاگ رات کو میں ارمغان کی دلہن بنی سہاگ
کی سیج پر بیٹھی تھی۔تب ارمغان نے میرے تمام ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔۔۔***** نے
ان کو وجاہت اور خوبصورتی تو بے تحاشا دی ہے لیکن ان کی مردانگی میرے آگے چند لمحے
بھی ٹِک نہ پائی اور وہ ٹھس ہو گئے۔۔۔ جب ایک جگہ پر مرد اور عورت تنہائی میں ہوں
تو ان کے درمیان شیطان آ ہی جاتا ہے۔ بھابھی کی باتیں سن کر میں کافی حیران تو ہوا
لیکن ساتھ ساتھ ہی میرا لن بھی کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔۔۔میں نے ہاتھ نیچے کر کے لن
کے ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی اور میری یہ حرکت بھابھی سے چھپی نہ رہ سکی۔۔۔میں نے
بھابھی کی آنکھوں میں نظریں گاڑھتے ہوئے پوچھا کہ اب آپ مجھ سے کیا چاہتی
ہیں۔۔۔بھابھی میری طرف دیکھنے کے بعد دوسری طرف مڑ گئیں اور بولیں۔۔۔ ایک رات کا
ساتھی۔ ایک رات کا ہمسفر۔ مضبوط طاقتور ہمسفر۔ میں ایک دم لڑکھڑا گیا۔بھابھی نے
بات ہی ایسی کی تھی۔۔۔اتنے ڈائریکٹ انداز میں کھلی ڈھلی بات سن کر مجھے اپنے کانوں
پر یقین نہیں آیا۔۔۔میں نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا۔۔۔لیکن بھابھی میں۔۔۔ابھی یہ
الفاظ میرے منہ میں ہی تھے کہ بھابھی نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور دو قدم بڑھ کر
میرے پاس سے گزر کر نچلی سیڑھیوں کی طرف چل دی۔۔۔پھر جاتے جاتے مڑ کر بولیں۔میں
انتظار کروں گی۔اتنا کہہ کر بھابھی سیڑھیاں اترتی چلی گئیں۔اور میں وہیں کھڑا منہ
پھاڑے دیکھتا رہا۔۔۔بھابھی جا چکی تھیں اور میں وہیں کھڑا اس نئی افتاد کے بارے
میں غور و فکر کرنے لگا۔۔۔کافی دیر سوچ بچار کرنے اور سگریٹ پھونکنے کے بعد میں نے
دل میں یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ آج رات آفتاب نے تو آنا نہیں اس لیے رات چھت پر ہی
گزاری جائے۔۔۔میں ادھر ادھر ٹہلتا رہا لیکن اگلے چالیس منٹ میں ہی سمجھ میں آ گیا
کہ چھت پر رات گزارنا بہت مشکل ہے۔۔۔ہر طرف مچھر بھنبھنا رہے تھے۔۔۔مچھروں کی بھوں
بھوں سے تنگ آ کر میں نے نیچے جانے کا سوچا اور پھر میں چھت سے نیچے اترنے
لگا۔۔۔جیسے ہی میں تیسرے فلور پر مطلب سدرہ بھابھی والے فلور پر پہنچا۔تو دیکھا کہ
پورے پورشن کی تمام لائٹس بند تھیں۔۔۔تمام کمرے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔۔۔میرے
دل میں بہت سے خدشات جنم لے رہے تھے۔۔۔بھابھی کے کمرے کی دھیمی سی لائٹ یہ ظاہر کر
رہی تھی کہ کمرے میں زیرو کا بلب چل رہا ہے۔۔۔میں نے سوچا کہ چلو ایک دفعہ بھابھی
کا کمرہ دیکھتا ہوں پھر جا کر سو جاؤں گا کیونکہ کافی دیر ہو چکی ہے۔۔۔اور ہو سکتا
ہے کہ اب تک بھابھی بھی سو چکی ہوں۔۔میں نے بھابھی کے کمرے کے پاس جا کر کمرے کے
دروازے پر ہاتھ رکھا۔ہلکا سا دبانے پر ہی دروازہ کھلتا چلا گیا۔۔۔جیسے ہی کمرے میں
داخل ہوا تو دیکھا کہ اے سی آن ہے۔۔۔بھابھی دلہن بنی سیج پر لیٹی ہوئی سو رہی
تھیں۔۔۔میں بھابھی کے پاس چلا گیا۔بھابھی نے ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا۔اور اپنے
تمام زیورات پہنے ہوئے تھے۔۔۔بھابھی کے چہرے پر پھیلی ہوئی پیاس دیکھ کر میرے دل
میں نفس نے چوٹ لگائی۔۔۔ارے تو کیسا مرد ہے رے۔۔۔ایک پرائی عورت اپنی خود کی عزت
جو کہ کسی دوسرے کی امانت ہے خود اپنے ہاتھوں تجھے سونپنے کیلئے۔دلہن بنی اپنی چوت
میں تمہارا لن لینے کیلئے تیار ہے اور تم نامردوں کی طرح رات گزارتے چلے جا رہے
ہو۔۔۔میں بیڈ کے اور پاس ہو گیا۔۔۔میرا دل کیا کہ ہاتھ بڑھا کر بھابھی کے گال چھو
لوں۔۔۔میں نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بھابھی کے گالوں کو چھو لیا۔۔۔سیکس کی پیاس سے
گال تپ رہے تھے۔۔۔جیسے ہی میں نے گال کو چھوا تو گال پر ہاتھ کا لمس محسوس کرتے ہی
بھابھی کی آنکھ کھل گئی اور بھابھی نے ہاتھ بڑھا کر میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ میرا
ہاتھ پکڑ کر بھابھی بولی۔۔۔سمیر میرا دل کہتا تھا تم ضرور آؤ گے۔۔۔میری برسوں کی
پیاس بجھانے،میری روح کو سیراب کرنے ضرور آؤ گے۔۔۔یہ کہتے ہوئے بھابھی اٹھ کر بیڈ
سے نیچے اتر کر میرے روبرو کھڑی ہو گئی۔۔۔میں ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔۔۔آخر جو بھی
تھا یہ غلط تھا۔۔۔دل میں کہیں ایک کونے میں تھوڑی سی پشیمانگی تھی جو مجھے بھابھی
کی طرف بڑھنے سے روک رہی تھی۔۔۔بھابھی نے جب یہ دیکھا کہ میں خیالوں کے بھنور میں
غوطے لگا رہا ہوں تو آگے بڑھ کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔۔۔اففففف بھابی
کے ہونٹ تھے کہ جیسے گلاب کی پنکھڑیاں۔۔۔جیسے ہی بھابھی کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر ٹچ
ہوئے میں سب صحیح غلط بھول گیا۔۔۔میری شہوت۔۔۔لن کو ہلا شیری دیتے ہوئے بولی۔۔۔قدم
بڑھاؤ لن صاحب۔۔۔میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔لن نے جیسے سرگوشی کی۔۔۔اگر بھابھی کی مست
پھدی لینی ہے تو آگے بڑھ۔۔۔ایک مست پھدی ایک قدم کی دوری پر۔۔۔ابھی یہ پھدی تیرے
نیچے ہو گی۔۔۔لن کی سرگوشی سن کر میں نے اپنے اور بھابھی کے درمیان فاصلہ ختم کر
دیا اور بھابھی کو اپنے بازوؤں میں کس لیا۔۔۔میری رضامندی دیکھ کر بھابھی نے پوری
گرم جوشی کے ساتھ میرے ہونٹوں کو چومتے ہوئے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی۔۔۔اور
میں نے بھابھی کی زبان کو ویلکم کہتے ہوتے زبان چوسنا شروع کر دی۔۔۔مجھے لگا کہ
میں شہد بھری کوئی میٹھی گولی چوس رہا ہوں۔۔۔ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ہونٹ چوس
رہے تھے۔۔۔ایک دوسرے سے زبانیں لڑا رہے تھے۔۔۔ایک دوسرے کے نشے میں چور ہو رہے
تھے۔۔۔اففففف کیا ہاٹ اور گیلا منہ تھا بھابھی کا۔۔۔میں ساتھ ساتھ بھابھی کی گانڈ
اور کمر پر ہاتھ پھیری جا رہا تھا۔۔۔بھابھی نے اپنے دونوں بازو کس کر میری کمر پر
باندھ رکھے تھے اور ایڑھیاں اٹھا کر مجھے کس کر رہی تھی۔۔۔ اب جب بھابھی مجھ سے
چدنے ہی والی تھی تو میں نے دل میں سوچا کہ اب بھابھی کہنا ٹھیک نہیں۔۔۔اب میں اسے
اس کے نام سے ہی پکاروں گا۔۔۔کافی دیر کسنگ کرنے کے بعد میں نے سدرہ کو کندھوں سے
پکڑ کر پیچھے ہٹایا تو وہ الٹتی پتھلتی ہوئی سانسوں کے ساتھ مجھے دیکھنے لگی۔۔۔میں
نے ہاتھ بڑھا کر سدرہ کے کپڑے اتارنے شروع کر دیے۔۔۔چند سیکنڈ بعد سدرہ میرے سامنے
مادر زاد ننگی کھڑی تھی۔۔۔سدرہ ایک بہت ہی سیکسی اور خوبصورت فگر والی لڑکی ثابت
ہوئی۔۔۔اس کا فگر 37۔27۔36bتھا۔۔۔آنکھوں کا رنگ سیاہ۔بال بھی گھنے لمبے سیاہ۔اوپر سے سیکس
کی بھوک نے اس کے چہرے پر ایسا نکھار ڈالا کہ میرا لن پورا اکڑ گیا۔اور ٹراؤزر میں
ایک تمبو بن گیا۔۔۔جسے دیکھ کر سدرہ کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔۔۔اس نے آگے بڑھ
کر ٹراؤزر کے اوپر سے ہی میرا لن اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور میرے ہونٹ کو چوم کر
بولی اٹھ گیا میرا شیر۔۔۔آج زندگی میں پہلی بار مزہ آئے گا۔۔۔ارمغان کا تو اتنا
موٹا اور لمبا نہیں ہے۔۔۔مجھے لگ رہا ہے کہ جیسے آج میری پہلی چدائی ہو گی۔۔۔پھر
کچھ دیر تک میرے لن کو مٹھیوں میں دباتے ہوئے بولی سمیر تمہارا لن تو بہت جاندار
ہے جانو۔۔۔ایسے لن تو فلموں میں ہوتے ہیں بس۔۔۔میں نے حیرانگی سے کہا کہ سدرہ تم
نے وہ فلمیں کہاں دیکھ لیں۔۔۔تو سدرہ سارے تکلفات کو بالائے تاک رکھ کر بولی۔۔۔وہ
ارمغان ہے نا کنجری کا بچہ۔۔۔روزانہ تین چار سیکسی فلمیں مجھے دکھاتا ہے۔پھر اپنا
لن چسوا کر مزہ لیتا ہے اور میری پھدی میں ڈال کر دس منٹ میں ہی گشتی کا بچہ فارغ
ہو جاتا ہے۔۔۔اس کے منہ سے ایسی گالیاں سن کر میں اور حیران ہوا۔۔۔تو میں نے کہا
کہ یار تم تو کہتی تھی کہ ارمغان سے بہت محبت ہے۔۔۔اب اتنی گندی گندی گالیاں دے
رہی ہو۔۔۔تو وہ میری شرٹ اتارتے ہوئے بولی۔۔۔جانو یہ ساری عادتیں مجھے ارمغان نے
ہی ڈالی ہیں۔۔۔اب جب تک سیکس کے ساتھ ساتھ گندی باتیں یا گالیاں نہیں نکالتے۔ہم
لوگوں کو مزہ نہیں آتا۔۔۔ سدرہ کے منہ سے یہ باتیں سن کر مجھے ایک عجیب سا مزہ آ
رہا تھا۔۔۔اسی دوران سدرہ میری شرٹ اتار کر ایک طرف پھینک چکی تھی۔۔۔پھر اس نے
اپنے ہاتھ میرے دونوں کولہوں کے پاس سے ٹراؤزر پر رکھے اور میری ٹانگوں کے درمیان
زمین پر بیٹھتے ہوئے اس نے میرا ٹراؤزر اتار دیا۔۔۔انڈروئیر تو میں نے پہنا نہیں
تھا۔۔۔اس لیے ٹراؤزر اترتے ہی لن ایک جھٹکا کھا کر سیدھا ہوا اور اس کے منہ کے
سامنے جھومنے لگا۔۔۔یہ دیکھ کر سدرہ ایک دم اٹھی اور سوئچ بورڈ کے پاس جا کر اس نے
ساری لائٹس آن کر دیں اور کمرے کے دروازے کو لاک لگا دیا۔۔۔بلا شبہ سدرہ جنسی لحاظ
سے بڑے ہی پرکشش جسم کی مالک تھی۔۔۔اور ساتھ ساتھ اس کے پورے جسم میں شہوانیت کوٹ
کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔۔۔اففف کیا ممے تھے۔کیا گانڈ تھی۔۔۔نرم نرم چوتڑوں پر دل
کرتا تھا دندی کاٹ لوں۔۔۔سدرہ چلتی ہوئی سامنے الماری کی طرف گئی اور وہاں سے ایک
چھوٹی سی عجیب قسم کی شیشی اٹھا کر میرے پاس آئی اور میرے اکڑے ہوئے لن کو ہاتھ
میں پکڑ کر شیشی کا ڈھکن اتارا تو میں نے آخر پوچھ ہی لیا۔۔۔جانم کیا کرنے لگی
ہو۔۔۔تو وہ بولی کہ اپنے ٹھوکو کے ساتھ اس سہاگ رات کو یادگار بنانے کیلئے اسپرے
لگانے لگی ہوں۔۔۔اس سے تمہاری ٹائمنگ بڑھ جائے گی۔۔۔ہم لوگ خوب مزہ کریں گے۔۔۔میں
نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ تم نے ارمغان پر آزمایا ہے تو
وہ بولی نہیں جانو ابھی آج ہی تو ایک سہیلی دے کر گئی ہے۔۔۔اس کا عاشق اسے یہ
اسپرے لگا کر چودتا ہے اور وہ بتا رہی تھی کہ کم از کم بھی آدھا گھنٹہ تو وہ صرف
پھدی کی بینڈ بجاتا ہے۔۔۔یہ سن کر ایکسائٹمنٹ سے میری آنکھیں چمک اٹھیں۔۔۔سدرہ نے
میرے لن کو ٹوپی سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور لن کی نچلی جانب ٹوپی کے پاس دو بار
اسپرے کیا اور انگلی کی مدد سے ہلکا ہلکا مساج کر دیا۔۔۔اسی طرح اس نے لن کی چاروں
سائیڈوں پر ہلکا ہلکا اسپرے مار کے مساج کر دیا۔۔۔اور بولی اب اگلے بیس منٹ تک لن
کی طرف دیکھنا بھی نہیں اس کا اثر بیس منٹ بعد شروع ہو گا۔۔۔اور وہ اسپرے کی شیشی
ایک طرف سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے خود بیڈ پر لیٹ گئی اور اپنے دونوں بازو کھول کر
مجھے اشارہ کیا۔۔۔مجھے لن پر ہلکی ہلکی جلن ہو رہی تھی۔۔۔جس کا ذکر میں نے اس سے
کیا تو اس نے بتایا کہ یہ نارمل ہے ایسا میری سہیلی نے بتایا تھا کہ یہ ہوتا ہے
لیکن صرف تھوڑی دیر۔۔۔اس کے بعد لن ہلکا سا سن ہو جائے گا۔۔۔اور پھر بے شک جب تک
دل کرے چدائی کرو۔۔۔اتنا کہہ کر پھر اس نے اپنے بازو کھول دیے اور میں اس کے اوپر
لیٹ کر بازؤوں میں سما گیا۔۔۔جیسے ہی سدرہ کے اکڑے ہوئے نپلز میرے بالوں بھرے سینے
سے لگے۔میرے اندر بجلی سی کوند گئی۔۔۔میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور سدرہ کی
گردن کو ایک ایک ملی میٹر سے چاٹنے لگا۔۔۔سدرہ نے میری زبان کا ٹچ اپنی گردن پر
محسوس کرتے ہی اپنے دونوں ہاتھوں کو میری کمر پر رکھتے ہوئے اوپر سے نیچے اور نیچے
سے اوپر پھیرتے ہوئے اپنے مموں کو دائیں بائیں ہلاتے ہوئے میرے سینے پر رگڑنے
لگی۔۔۔ میرا لن پورے جوش میں آ کر سدرہ کی رانوں میں دبا ہوا تھا۔۔۔میں اس کی گردن
کو چاٹتا ہوا نیچے اس کے کندھوں تک آیا اور وہاں سے اس کے مموں کی گولائیوں تک آ
گیا۔۔۔پہلے میں دائیں ممے کو چاٹنے لگا۔۔۔پھر میں نے باری باری اس کے دونوں ممے
چاٹ لیے لیکن نپلز کو بلکل نہیں چھیڑا۔۔۔میں جیسے ہی ممے کو چاٹتا ہوا نپلز تک پہنچتا۔تو
اسے ٹچ کیے بنا دوسرے ممے کی گولائی کو چاٹنا شروع کر دیتا۔۔۔جب چار پانچ بار میں
ایسی ہی کرنے کے بعد ممے کو چاٹتا ہوا نپل تک پہنچا تو سدرہ نے غصے سے میرے سر کے
بالوں کو اپنی مٹھی میں جھکڑا اور نیچے اپنے نپل کی طرف دبایا۔۔۔میرے چہرے پر ایک
شیطانی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔میں جان چکا تھا کہ اب سدرہ مزے اور لذت میں پوری
طرح سے خوار ہو چکی ہے۔۔۔
میں نے سدرہ کا ایک نپل منہ میں لے
لیا۔۔۔۔۔واؤ۔۔۔۔۔اوووو۔۔۔۔نپل منہ میں لیتے ہی میرا لن پھنکاریں مارنے لگا۔۔۔میں
باری باری دونوں نپل منہ میں لیکر چوسنے لگا۔۔۔اب سدرہ کے بدن میں بے چینی بڑھتی
جا رہی تھی۔۔۔میری کوشش تھی کہ سدرہ کا پورا مما منہ میں لے لوں۔۔۔پر یہ ممکن نہیں
تھا۔۔۔کیونکہ میرا منہ بہت چھوٹا اور سدرہ کا مما منہ کی مناسبت کافی بڑا تھا۔اور
اس ٹائم تو ویسے بھی سخت ہو رہا تھا۔۔۔میں نے نپل کو دانتوں سے ہلکا سا کاٹا تو وہ
کراہ اٹھی۔۔۔۔آہ۔ہ۔آہہہ۔۔۔سمیر۔۔۔۔ررر۔۔۔۔آرام سے۔۔۔۔میری جان۔۔۔۔آرام سے۔میں نے
سدرہ کے ممے چوستے ہوئے ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے تنے ہوئے لن پر رکھ دیا۔۔۔اس نے
فوراً ہی میرے لن کو مٹھی میں دبا لیا۔۔۔میں نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لیجا کر سدرہ
کی پھدی پر رکھ دیا۔۔۔پھدی فل گیلی ہو رہی تھی۔۔۔میں زور زور سے مموں کو چوسنے اور
نپلز کو کاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے اس کی پھدی کو مسلنے لگا۔۔۔سدرہ یہ مزہ
برداشت نہ کر سکی اور سسکنے لگی۔۔۔آہ۔ہ۔آہہہ۔۔۔سمیر۔۔۔ایسے ہی۔۔۔افففف۔۔۔میں نے
اپنی دو انگلیاں پھدی کے اندر گھسا دیں اور زور زور سے پھدی کے دانے کو اپنے
انگوٹھے سے مسلنے لگا۔۔۔سدرہ کیلئے برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔شاید یہ کسی
پرائے مرد سے سیکس کی شہوت تھی جو وہ اتنی جلدی منزل تک پہنچ گئی اور اس نے ایک
جھٹکے سے اپنی دونوں ٹانگوں کو بھینچ لیا اور زور زور سے جھٹکے کھاتے ہوئے چھوٹ
گئی اور اس کی پھدی سے پانی بہنے لگا۔۔۔چونکہ سدرہ کا کمرہ ساؤنڈ پروف تھا تو اس
بات کا کوئی ڈر نہیں تھا کہ آواز کہیں باہر سنی جا سکتی ہے۔۔۔ سدرہ اب فارغ ہو چکی
تھی۔۔۔جبکہ میرا لن اب فل جان پکڑ چکا تھا۔۔۔سدرہ اٹھی اور مجھے لٹاتے ہوئے خود
میرے اوپر آ گئی۔اور چٹا چٹ میرے گالوں کے کئی بوسے لے ڈالے۔۔۔پھر بولی سمیر میری
جان میں بہت خوش ہوں کہ تم نے مجھے اتنا مزہ دیا۔۔۔اب میری باری ہے کہ میں تمہیں
مزہ دوں۔۔۔یہ کہہ کر وہ میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کے میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر
سہلاتے ہوئے بولی۔۔۔مجھے تمہارا لن بہت پسند آیا ہے۔۔۔کچھ دیر تو وہ میرے لن کو
ایسے ہی سہلاتی رہی۔
۔۔پھر جب مجھ سے برداشت نہ ہوا تو میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ
کر اسے آگے لن کی طرف دبایا تو وہ سمجھ گئی کہ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔مجھے دیکھتے
ہوئے وہ بولی کہ لگتا ہے جانو کو اپنا لن چسوانا ہے۔۔۔میں نے مخمور نگاہوں سے اسے
دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔پھر اس نے اپنا پورا منہ کھولا اور میرے لن کی
ٹوپی کو اپنے منہ کے اندر لے لیا۔۔۔میرے منہ سے مزے کی شدت سے ایک سسکی نکل
گئی۔۔۔سدرہ نے میرا لن منہ سے باہر نکالا اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے
اپنی لمبی زبان باہر نکالی اور اس کی نوک سے میرے لن کے سوراخ کے اندرونی حصے کو
چھیڑنے لگی۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی چھڑنے کے بعد سدرہ نے دوبارہ میرا لن منہ میں ڈال
لیا اور بڑے پیار سے چوسنے لگی۔۔۔اس کے منہ کی گرمی کو اپنے لن پر محسوس کر کے
میری حالت خراب ہو گئی۔۔۔اس نے میرے لن کی صرف ٹوپی اپنے منہ میں رکھی اور اپنے
ہونٹوں کو بند کر کے منہ کے اندر سے ہی لن کے سوراخ اور ٹوپی پر اپنی زبان گھمانے
لگی۔۔۔میں لذت کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔۔۔اس کے منہ کی گرمی سے اتنا مزہ مل رہا
تھا کہ میں نے ایسا مزہ پہلے کبھی محسوس نہیں کیا۔۔۔حالانکہ اس سے پہلے خانم اور
نازنین اور اپنے محلے میں بھی رنڈیوں سے چوپے لگوائے تھے۔۔۔پر اس رنڈی کے چوپے میں
جو چاہت تھی۔۔۔جو مزہ تھا۔۔۔وہ کہیں نہیں ملا۔۔۔اس کے علاوہ اصل مزہ ان فیلنگز کا
تھا کہ سدرہ بھابھی ارمغان کی بیوی تھی اور اس کو اپنے نیچے لٹانے کے صرف خواب ہی
دیکھ سکتا تھا۔۔۔اور آج وہ رنڈی کی طرح سچ مچ پوری ننگی میرے سامنے موجود میرے لن
کے چوپے لگا رہی تھی۔۔۔ اصل چیز یہ احساس تھا جو میرے مزے کو بڑھا رہا تھا۔۔۔سدرہ
کچھ دیر اسی طرح میرے لن کی ٹوپی کو چوستی رہی۔۔۔پھر آہستہ سے اپنا تھوڑا منہ اور
کھولا اور میرے لن کو اپنے منہ کے اندر اتارنا شروع کر دیا۔۔۔جتنا لن منہ میں جا
سکتا تھا اتنا لینے کے بعد اس نے تھوڑا زور لگایا تو لن کی ٹوپی اس کے حلق کو جا
لگی جس کیوجہ سے اسے ابکائی سی آئی اور اس نے فوراً ہی میرا لن باہر نکال
دیا۔۔۔پھر میری طرف دیکھ کر بولی سوری جانو وہ دراصل آج تک چھوٹا لن چوسنے کی عادت
تھی نا تو وہ حلق تک کبھی پہنچ ہی نہیں پایا۔۔۔پر تمہارا شاندار لن تو لگتا ہے آج
میرے سارے کس بل ادھیڑ ڈالے گا۔۔۔پھر اس نے دوبارہ لن کی ٹوپی کو منہ میں لے کر
چوسا اور اوپر سے لے کر جڑ تک لن کو چاٹا۔۔۔اسی طرح چاٹنے کے بعد اس نے جتنا لن
منہ میں جا سکتا تھا لے لیا اور باقی لن کو ہاتھ کی گرفت میں رکھتے ہوئے پوری شدت
سے چوسنے لگی۔۔۔اس انداز میں چوسنے سے اس کا گال پِچک کر اندر ہو جاتے۔اور اس کا
چہرہ لال ہو جاتا تھا۔۔۔وہ اب اتنی طاقت سے چوپا لگا رہی تھی کہ مجھے صاف محسوس
ہوا کہ میرے لن سے مزی کا ایک قطرہ پوری شدت سے رگڑ کھاتا ہوا باہر جا رہا
ہے۔۔۔جیسے ہی وہ قطرہ باہر آیا تو سدرہ نے اپنی زبان سے اس قطرے کو لپیٹا اور منہ
میں لیکر ایسے چسکے لینے لگی جیسے کسی چیز کی مٹھاس یا کھٹاس چیک کی جاتی ہے۔۔۔کچھ
دیر لن چوسنے کے بعد سدرہ اٹھی اور میرے سینے کے اوپر بیٹھ گئی۔۔۔چند لمحے وہ میری
آنکھوں میں دیکھتی رہی اور پھر اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر اپنی ہاتھ کی دو انگلیاں
اپنی پھدی میں ڈال کر بولی دیکھو کیسے لیک کر رہی ہے۔۔۔میں نے سدرہ کی گانڈ کے
نیچے دونوں ہاتھ رکھے اور اسے آہستہ سے اپنی طرف کھینچا تو وہ میرے اتنے قریب آ
گئی کہ اس کی پھدی میرے منہ سے صرف دو انچ کے فاصلے پر تھی۔۔۔میں نے اسے اور آگے
کھینچا اور اس کی پھدی پر ناک لگا کر اس کی مہک لینے لگا۔۔۔سدرہ میری حرکتوں کو
غور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔وہ بولی سمیر کبھی پہلے پھدی ماری ہے سچ سچ بتانا تو میں نے
کہا ہاں ماری ہے۔۔۔تو لازمی تم نے پھدی چاٹی بھی ہو گی تو میں نے انکار میں سر
ہلاتے ہوئے کہا کہ وہ پھدیاں چاٹنے والے نہیں تھیں۔۔۔تو سدرہ اپنی پھدی کے لبوں کو
کھینچ کر بولی میری چوت کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔شہوت کے ڈورے اس کی آنکھوں کو
لال کر رہے تھے۔۔۔سدرہ کی پھدی کے اوپری حصے پر چھوٹے چھوٹے بال تھے۔۔۔ایسا لگتا
تھا کہ جیسے ایک دن پہلے ہی شیو کی گئی ہو۔۔۔بال جہاں ختم ہوتے تھے وہاں سے ہی
پھدی سٹارٹ ہو رہی تھی۔۔۔پھدی کے ہونٹ کافی پھولے ہوئے تھے۔۔۔پھدی کے شروع میں
ہلکا سا گوشت ابھرا ہوا تھا جہاں پھدی کا دانہ صاف پھولا ہوا نظر آ رہا تھا۔۔۔میرے
ہاتھ نے سدرہ کی پھدی کے دانے کو ٹچ کیا تو اس کا جسم ایک دم مچلا اور اس نے بے
اختیار اپنا ہاتھ پیچھے کر کے میرے لن کو پکڑا اور سہلاتے ہوئے
بولی۔۔۔سمیر۔۔۔۔۔۔جانو۔۔۔۔میری پھدی چاٹو اور مجھے پوری طرح سے مزہ دو۔۔۔۔میں نے
سدرہ کو اپنے اوپر سے اٹھایا اور بیڈ پر سیدھا لٹاتے ہوئے اس کے اوپر لیٹ کر ایک
دفعہ اس کے ہونٹوں کو چوما اور سیدھا اس کے مموں پر حملہ آور ہوا۔۔۔اب میں اس کے
دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں سے مسل رہا تھا اور ایک ممے کے نپل کو منہ میں لیکر چوس
رہا تھا۔۔۔میرے زور زور سے نپل چوسنے پر اس کے حلق سے سسکیاں برآمد ہو رہی
تھیں۔اور وہ اپنے دونوں ممے باری باری اٹھا کر ایسے میرے منہ میں دے رہی تھی کہ
جیسے اس کا دل کر رہا ہو کہ اپنا پورا مما میرے منہ میں ڈال دے۔۔۔تھوڑی دیر ایسے
ہی ممے چوسنے کے بعد میں نے اس کے مموں کو چھوڑا اور تھوڑا نیچے ہوتے ہوئے اس کی
دونوں ٹانگیں اٹھا کر اوپر کرتے ہوئے مخالف سمتوں میں کھول دیں۔۔۔سدرہ نے میری مدد
کرتے ہوئے اپنی دونوں ٹانگوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے پکڑ لیا۔اس طرح اس کی پھدی میرے
منہ کے بلکل سامنے آ گئی۔۔۔ میں اس کی بالوں سے صاف اور چھوٹی سی پھدی کو دیکھنے
لگا۔اس کی پھدی پانی نکلنے کی وجہ سے کافی گیلی ہو رہی تھی۔اور تھوڑا سا پانی نیچے
اس کی گانڈ کی طرف بھی گیا ہوا تھا۔۔۔میں نے آہستہ سے اپنی زبان باہر نکالی اور اس
کی پھدی کو چاٹ لیا جس سے سدرہ پوری کی پوری کانپ گئی۔۔۔اس کے پانی کا ذائقہ ہلکا
سا ترش تھا لیکن مجھے بہت اچھا لگا۔۔۔میں نے اس کی پھدی کا ایک لب اپنے ہونٹوں میں
لیکر چوس لیا۔سدرہ کے جسم کو ایک اور جھٹکا لگا اور اس کی پھدی نے تھوڑا سا پانی
اور چھوڑ دیا۔۔۔میں نے دوسرے لب کو بھی ایسے ہی چوسا اور پھر اس کے اندر والے لبوں
پہ زبان پھیرنے لگا۔۔۔سدرہ تو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے مزے سے پاگل ہونے والی
ہے۔۔۔ایک دفعہ تو مجھے ایسا لگا کہ وہ چھوٹنے والی ہے تو اسی وقت میں نے اپنا منہ
اس کی پھدی سے ہٹا لیا اور زور سے ایک تھپڑ اس کی پھدی پر رسید کیا۔۔۔تکلیف کی وجہ
سے اس کا مزہ کچھ کم ہوا اور وہ چیخ پڑی۔۔۔آ۔۔۔آؤچ۔۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو سمیر۔۔میرا
پانی نکلنے دو۔۔۔یہ کہہ کر اس نے میرے سر کو اپنے ہاتھ سے پھدی کی طرف دبا
دیا۔۔۔میں نے دوبارہ سے اس کی پھدی کے باہر والے لبوں پر زبان پھیرنی شروع کر
دی۔۔۔جب مجھے لگا کہ اس کا مزہ تھوڑا کم ہو گیا ہے۔۔۔تو میں نے دوبارہ سے اس کی
پھدی کے اندرونی لبوں کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔سدرہ کو دوبارہ مزہ آنا شروع ہو گیا
اور اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر پھدی چٹوانے لگی۔۔۔میں نے اٹھ کر سدرہ کے اوپر لیٹتے
ہوئے اپنا اکڑا ہوا لن اس کے منہ میں دیا اور 69 پوزیشن میں خود اس کی پھدی چاٹنے
لگا۔۔۔وہ میرے لن کو ایسے چوس رہی تھی کہ جیسے کھا ہی جائے گی۔۔۔جب مجھے دوبارہ
لگا کہ اب وہ پھر چھوٹنے کے قریب ہے تو میں اٹھ کر اس کی ٹانگوں کے درمیان آ گیا
اور لن کو پکڑ کر پوری طرح گیلی پھدی پر رگڑنے لگا۔۔۔ پھر اس کی پھدی کے دانے کو
رگڑتے ہوئے محسوس ہوا کہ جیسے ب وہ منزل کے بلکل پاس ہے تو میں نے آخری دفعہ اس کی
پھدی کے دانے کو رگڑا اور لن کو پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا۔۔۔سدرہ کی آنکھیں مزے سے
بند تھیں اور وہ اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر ایسے ہلا رہی تھی کہ کسی بھی طرح لن پھدی
کے اندر چلا جائے۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں تھوڑا اور اوپر اٹھائی اور لن کو پھدی پر
سیٹ کرتے ہوئے ایک زور کا جھٹکا مارا۔اور لن اس کی پھدی میں گھسا دیا۔۔۔سدرہ کیلئے
بھی یہ جھٹکا آخری ثابت ہوا اور اس کی پھدی نے لرزتے ہوئے فوارے کی طرح پانی چھوڑ
دیا۔۔۔سدرہ اتنی زور سے چھوٹی تھی کہ اس کی آنکھیں اوپر چڑھ گئیں اور پاؤں کی
انگلیاں اکڑ گئی تھیں۔۔۔ سدرہ کے اس طرح چھوٹنے سے اتنا پانی نکلا کہ میرے ٹٹوں تک
کو بھگو گیا۔۔۔اس کی اپنی پھدی کا بھی برا حال تھا۔۔۔میں نے ٹشو لیکر اس کی پھدی
اور اپنے لن کو صاف کیا۔کیونکہ مجھے گیلی پھدی کا مزہ نہیں آتا۔۔۔بلکہ اس کے برعکس
اگر لن رگڑ کھا کر اندر اور باہر آئے تب مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔۔۔پھدی کو صاف کرتے
ہوئے جیسے ہی میرے ہاتھ نے اس کے دانے کو چھوا تو سدرہ کے منہ سے سسکاری نکل
گئی۔۔۔کیونکہ دو دفعہ اور اتنا زیادہ چھوٹنے کے بعد اس کا دانہ بہت نازک ہو چلا
تھا۔۔۔میں نے لن کو صاف کر کے دوبارہ اس کی پھدی میں ڈال دیا۔۔۔ابھی تھوڑا لن باہر
ہی تھا کہ مجھے لگا کہ جیسے لن کسی نرم دیوار سے ٹکرا گیا ہے۔۔۔ساتھ ہی سدرہ کے
منہ سے دوبارہ سسکیاں جاری ہو گئیں۔۔۔اففففف۔آہہہ۔آہہہ۔۔۔میرا اندازہ تھا کہ یہ
ضرور سدرہ کی بچہ دانی ہو گی۔جس سے میرا لن ٹکرا کر رک رہا ہے۔۔۔ میں نے وہیں پہ
رہ کر لن اندر باہر کرتے ہوئےسدرہ سے پوچھا۔۔۔کیا ہوا جان۔تکلیف ذیادہ ہو رہی
ہے۔۔۔تو وہ بولی۔۔۔پین چود۔۔۔درد ہووے یا نہ ہووے۔توں اج رکنا نئیں۔اج اس پھدی دا
پھدا بنا دے۔۔۔او ارمغان گشتی دا بچہ چھوٹی للی آلا۔۔۔کچھ وی نئیں کر پاوے
گا۔۔۔میں ہمیشہ تڑپدی رہ جاندی آں۔۔۔اج پہلی واری تیرے تگڑے لن نے میری پھدی نوں
سلامی دتی اے۔۔۔تے ہن توں بنڈ آلا زور لا کے لن اندر پا دے۔۔۔میری فکر نا
کرِیں۔۔آج مینوں ایداں چود کہ میری پھدی پھاٹ جاوے۔۔۔میری پھدی دا شوربہ بنا
دے۔۔۔۔ہن دیر نا کر۔۔۔کتے دیا پترا۔۔۔میری پھدی مار۔۔۔مینوں چود۔۔۔کس کس کے گھسے
مار۔۔۔یہہ کہ تہہ لا دے۔۔۔ اسی طرح وہ شہوت کے زیرِ اثر بے ربط گندی زبان استعمال
کرتی رہی۔۔۔
لیکن حیرت کی بات تھی کہ اس کی گالیاں سن کر بھی میں بدمزہ نہیں
ہوا۔۔۔بلکہ مجھے اپنے لن میں اکڑاہٹ بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔اور میں پورے جوش کے
ساتھ اس کے گھسے مارنے لگا۔۔۔میرے ہر جھٹکے کے جواب میں وہ صرف ایک بات ہی
کہتی۔۔۔چود مینوں۔۔۔میری پھدی مار۔۔۔مینوں چود۔۔۔اس کی یہ بات سن سن کر میرے کان
پک گئے اور مجھے بھی تاؤ آ گیا۔۔۔میں نے اپنا لن باہر نکالا۔۔۔پاس پڑا ہوا ایک
چھوٹا تکیہ کھینچ کر اس کی گانڈ کے نیچے رکھ کر اس کی ٹانگیں اس شدت کے ساتھ
اٹھائیں کہ سدرہ کے گھٹنے اس کے کندھوں کے ساتھ جا لگے۔۔۔میں نے پھر سے لن اندر
ڈالا اور سٹارٹ سے ہی فل سپیڈ میں دھکے مارنے شروع کر دیے۔۔۔میرے طاقتور گھسوں کی
وجہ سے میرے ٹوپے کی نوک بار بار سدرہ کی بچہ دانی کے ساتھ ٹکرا رہی تھی۔۔۔اور پھر
جیسے ہی میرا لن سدرہ بھابھی کی بچہ دانی پر ٹھوکر مارتا۔۔۔نیچے سے وہ تڑپ سی جاتی
اور پھر پہلے سے بھی ذیادہ سیکسی انداز میں وہی لذت آمیز راگ الاپتی کہ جسے سن کر
میرا جوش مزید بڑھ جاتا۔۔۔اب مجھے سدرہ کو چودتے ہوئے چھ،سات منٹ گزر چکے تھے۔۔۔ہر
گھسے پر ایسا لگتا کہ جیسے سدرہ کی پھدی میرے لن کو اندر سے جھکڑ رہی ہے۔۔۔اور ایک
بار پھر اس کا جسم اکڑنا شروع ہو گیا۔۔۔میں نے اس کے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا اور
ساتھ ہی اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جھکڑ کر پوری جان سے ایک گھسہ مارا۔۔۔اس گھسے
سے یہ ہوا کہ میرا لن پوری طاقت کے ساتھ جڑ تک اندر گیا اور لن کی ٹوپی سدرہ کی
بچہ دانی کے اندر جا گھسی۔۔۔سدرہ کے منہ سے ایک لرزہ خیز چیخ نکلی جو کہ ہونٹ دبے
ہونے کیوجہ سے میرے منہ کے اندر ہی دم توڑ گئی۔۔۔سدرہ کا جسم فل اکڑ چکا تھا۔۔۔میں
چند سیکنڈ وہیں پر رک کر اس کے مموں کو مسلتا اور چوستا رہا جس سے اس کی سانس میں
دوبارہ تھوڑی بحالی ہوئی اور اس نے زور سے مجھ اپنی بانہوں میں کس لیا۔۔۔سدرہ اب
اتنی چودائی کے بعد کافی تھک چکی تھی۔۔۔میں نے خود کو اس کی بانہوں سے آزاد کروایا
اور اپنا لن باہر نکال کر اس کو ڈوگی سٹائل میں ہونے کو کہا۔۔۔وہ کافی تھک چکی تھی
اور درد بھی محسوس کر رہی تھی اس لیئے فوراً اٹھ کر ڈوگی سٹائل میں آ گئی اور اپنے
گھٹنے تھوڑے سے آگے کر کے اپنی گانڈ کو باہر نکال دیا۔۔۔واہ۔ہ۔ہ۔۔۔کیا نظارہ میرے
سامنے تھا۔۔۔سدرہ کی موٹی سیکسی گانڈ بلکل میرے سامنے تھی۔۔۔اس کے گول مٹول گورے
گورے چوتڑ مجھے اپنی طرف بلا رہے تھے۔۔۔اس کی گانڈ کا چھوٹا سا سوراخ اتنا سیکسی
اور پیارا لگ رہا تھا کہ میں نے بے اختیار اس پہ اپنا انگوٹھا پھیرنا شروع کر
دیا۔۔۔سدرہ کی گانڈ اور پھدی اب دونوں میرے سامنے تھیں اور مجھے اپنی طرف بلا رہی
تھیں۔کہ آ جاؤ ہمیں چود ڈالو۔۔۔میں نے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کے چوتڑوں کو
کھول لیا اور اپنا لن اس کی پھدی میں ڈال دیا۔سدرہ کے منہ سے مزے اور درد سے ملی
سسکی نکل گئی۔۔۔آہ۔آہہہ۔۔۔میں نے پہلے سدرہ کو آہستہ آہستہ چودنا شروع کیا پھر
اپنی سپیڈ بڑھاتا گیا۔۔۔مجھے اب اس کی پھدی میں اپنا لن جاتا بھی نظر آ رہا تھا
اور اس کی گانڈ کا سوراخ بھی نظروں کے سامنے تھا۔اب سدرہ بھی فل مزے میں آ گئی تھی
اور میرے ہر گھسے کے جواب میں اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکیلتی تھی۔۔۔لن جب پھدی
سے باہر آتا تو اس کے پانی سے لتھڑا ہوتا تھا۔۔۔ایک دفعہ پھر مجھے محسوس ہوا کہ
جیسے اس کی پھدی میرے لن کو اندر سے پکڑ رہی ہے۔لیکن لن اس میں سے پھسلتا ہوا بچہ
دانی سے ٹکرا جاتا اور ٹوپی بچہ دانی کے اندر تک چلی جاتی۔۔۔ سدرہ کی گانڈ کا
کھلتا،بند ہوتا ہوا سوراخ مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔۔۔میرا دل چاہا اور کچھ
نہیں تو اس میں اپنی ایک انگلی ہی ڈال کر دیکھوں کہ کتنی ٹائٹ ہے۔۔۔سدرہ اب فل تھک
چکی تھی اس لیے اس نے اپنا سر آگے بیڈ پر ڈال دیا جس سے اس کی گانڈ اور باہر کو
نکل آئی اور اس کا سوراخ میرے جی کو للچا گیا۔۔۔مجھ سے اب برداشت نہیں ہوا تو میں
نے اپنی انگلی کو تھوڑا سا تھوک لگا کر اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر انگلی تھوڑی
اندر کر دی۔۔۔پہلے تو اسے تھوڑا سا شاک لگا اور اس نے مڑ کر میری آنکھوں میں دیکھا
لیکن پھر وہ اپنا سر آگے کر کے دوبارہ پیچھے کو دھکے مارنے لگی۔۔۔اب وہ مزے کی
انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اور پتہ نہیں کیا اول فول بک رہی تھی۔۔۔اہسا لگ رہا تھا
کہ جیسے دارو کے نشے میں بول رہی ہے۔۔۔ہاں سمیر۔۔۔ایداں ای۔۔۔پورا پا دے
اندر۔۔۔ویکھ لے کوئی شے باہر نہ رہ جاوے۔۔۔پھاڑ دے میری پھدی۔۔۔بنڈ اچ زور نال
انگل مار۔۔۔آہ۔۔۔آہہہ۔آہہہ۔۔۔اپنا موٹا،جبرو،لن زور نال اندر پا۔۔۔ہر واری ایداں
ای مینوں ٹھوکیں۔۔۔اپنی رنڈی بنا،گشتی بنا،پر ایداں ای مینوں چودی
جاویں۔۔۔اففففف۔۔۔میں مر گئی۔۔۔صواد آ گیا۔۔۔ اب مجھے بھی لگ رہا تھا کہ میں
چھوٹنے کے قریب ہوں۔اور سدرہ کی یہ باتیں میرے لیے سونے پر سہاگا ثابت ہوئیں۔۔۔میں
نے طوفانی رفتار سے گھسے مارتے ہوئے ایک دفعہ اپنا لن باہر نکالا اور حقیقتاً بنڈ
والا زور لگا کر پورا لن اندر گھسا دیا۔اور ساتھ ہی سدرہ کے کندھوں کو پکڑ کر اپنی
طرف دبایا جس سے لن اس کی بچہ دانی میں گھس گیا۔۔۔سدرہ کیلئے بھی یہ آخری جھٹکا
ثابت ہوا اور اس نے پانی چھوڑ دیا۔۔۔ساتھ ہی میرے لن نے منی کی پہلی پچکاری ماری
اور پھر مارتا ہی گیا۔۔۔سدرہ کی بچہ دانی منی سے بھرنا شروع ہو گئی۔مجھے یوں لگ
رہا تھا کہ جیسے منی کا دریا بہہ رہا ہو۔۔۔جیسے ہی لن سے منی کا آخری قطرہ
نکلا۔میں نے سدرہ کے کندھوں کو چھوڑ دیا اور وہ بے سدھ ہو کر آگے گر گئی۔۔۔میں اس
کے اوپر ہی لیٹ گیا۔۔۔تھوڑی دیر بعد میں اٹھا اور ٹشو سے اس کی پھدی اور اپنے لن
کو صاف کیا۔۔۔پھر میں نے سدرہ کو ہلایا تو وہ جیسے نشے میں بولی۔۔۔ہوں۔اوں۔۔۔میں
نے کہا سدرہ میں جا رہا ہوں کافی دیر ہو گئی ہے ارمغان لوگ کسی بھی ٹائم واپس آتے
ہوں گے۔۔۔تو سدرہ نے آنکھیں کھولیں اور مجھے پکڑ کر اپنے اوپر گراتے ہوئے
بولی۔۔۔نہیں جان وہ نہیں آئیں گے۔۔۔تمہارے آنے سے پہلے میری ارمغان سے بات ہو چکی
ہے وہ لوگ اب کل شام میں واپس آئیں گے۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں تم یہاں
ہی میرے ساتھ سو سکتے ہو۔۔۔ویسے بھی گھر والے تو سب دس بجے کے بعد ہی اٹھیں گے اور
اس لیے بے فکر رہو۔۔۔میں نے ٹائم دیکھا تو دو بج رہے تھے۔۔۔مطلب اس چدائی کھیل میں
ٹائم کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔میں سدرہ کو ایک طرف کھسکا کر اس کی سائیڈ میں ہی لیٹ
گیا۔۔۔مجھے لیٹتا دیکھ کر سدرہ نے کروٹ بدلی اور اپنا سر میرے بازو پہ رکھتے ہوئے
مجھ سے لپٹ کر سو گئی۔۔۔میں بھی کافی تھک گیا تھا۔اس لئیے کب آنکھ لگی پتہ ہی نہیں
چلا۔۔۔ دوبارہ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ سدرہ دوسری طرف منہ کیے سو رہی ہے۔۔۔اور اس
کی سیکسی گانڈ میری طرف تھی۔۔۔اس کی گانڈ کو دیکھتے ہی میرا لن پھر سے سر اٹھانے
لگا۔۔۔میں نے اپنے لن کو تھوک لگایا اور اس کی ایک ٹانگ اٹھا کر تھوڑی آگے کو کی
اور لن کو اس کی پھدی کی لکیر میں پھیرنے لگا۔۔۔ساتھ ساتھ اس کے مموں اور گانڈ پر
بھی ہاتھ پھیرتا رہا۔۔۔سدرہ شاید کوئی سیکسی خواب دیکھ رہی تھی یا پھر میری حرکتوں
کو ہی خواب سمجھ رہی تھی۔۔۔اس لیے اس کی پھدی کافی گیلی ہو رہی تھی۔۔۔میں نے سدرہ
کی اوپر والی ٹانگ کو تھوڑا اور آگے کیا اور اپنے لن کو اچھی طرح سے تھوک لگا کر
ایک ہاتھ سے اس کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے نپل کو مسلتے
ہوئے ایک زور کا گھسہ مارا تو نیند میں ہی اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔۔۔اور ساتھ ہی
اس کی آنکھ کھل گئی پہلے تو اس نے بجلی کی سی تیزی سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن میرے
ہاتھ کی گرفت نے اسے اٹھنے سے روک دیا۔۔۔اتنی دیر میں وہ بھی ساری سچویشن کو سمجھ
چکی تھی تو سی سی کرتے ہوئے مجھے لن باہر نکالنے کو بولا۔۔۔جیسے ہی میں نے لن باہر
نکالا تو وہ میری طرف مڑی اور کھٹکنی بلی کی طرح دانت نکوستے ہوئے مجھے دونوں
ہاتھوں سے مارنے لگی۔۔۔کمینے،پین چود،گانڈو،۔۔۔یہ کیا حرکت تھی۔۔۔کیا میں نے منع
کیا تھا جو ایسے حملہ کیا۔۔۔میں نے اس کے ہاتھوں کی ضربوں سے خود کو بچاتے ہوئے کہا۔۔۔جانو
کیا کرتا۔۔۔سوتے ہوئے تیری گانڈ میں طرف ہو گئی تھی تو میرے لن نے مجھے جگا
دیا۔۔۔اور اتنی چکنی اور خوبصورت گانڈ دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا۔۔۔ لڑکی کی
تعریف جس چیز کی بھی کرو وہ خوش ہی ہوتی ہے۔چاہے گانڈ کی ہی تعریف کرو۔۔۔ سدرہ
اپنی تعریف سن کر تھوڑا ٹھنڈی ہوئی لیکن پھر بھی آنکھیں نکالتے ہوئے بولی۔۔۔گانڈو
لن تو تم نے پھدی میں ڈالا ہے۔۔۔تعریف گانڈ کی کر رہے ہو۔مطلب جھوٹی تعریف کر کے
بچنا چاہتے ہو۔۔۔تو میں نے اسے اپنے گلے سے لگاتے ہوئے کہا جانو میں سچ کہہ رہا
ہوں آج تک اتنی پیاری گانڈ نہیں دیکھی۔۔۔میرا بہت دل کیا تیری گانڈ مارنے کو پر
دماغ نے سمجھایا کہ نہیں پہلے اپنی جان کی پھدی کی پیاس بجھا دو۔۔۔اپنا شوق پھر
پورا کر لینا۔اس لیے دماغ کی سنی اور لن کو پھدی میں پیل دیا۔۔۔سدرہ نے میری بات
سنی تو خوشی سے پھول گئی اور ہاتھ نیچے کر کے میرے لن کو سہلاتے ہوئے بولی سمیر
صاحب آپ ہوا کے جھونکے کی طرح آئے ہیں اور واپس چلے جائیں گے۔۔۔میں تمہیں تمہاری
مرضی ضرور کرنے دیتی پر مجھے میرا انعام چاہیے۔۔۔یاد ہے نا رات کو ذکر ہوا
تھا۔۔۔تو وہ انعام یہی ہے کہ میں اپنا پہلا بچہ تم سے چاہتی ہوں۔۔۔تو جتنے دن بھی
تم یہاں ہو مجھے روزانہ کم از کم ایک دفعہ ضرور چودو۔۔۔میری پھدی میں روزانہ اپنا
پانی نکالو۔۔۔مجھے تمہارے بچے کی ماں بننا ہے۔۔۔پہلا حمل تم سے کروانا چاہتی
ہوں۔۔۔ یہ کہہ کر سدرہ اٹھی اور میری ٹانگوں کے بیچ لیٹتے ہوئے میرے لن کو منہ میں
لے کر قلفی کی طرح چوسنے لگی۔۔۔اور میں دل میں سوچ رہا تھا کہ بچے وچے کا تو مجھے
نہیں پتہ پر بھابھی تجھے چودوں گا تو ایسے کہ مدتوں یاد رکھو گی۔۔۔کچھ دو منٹ تک
میرے لن کو مسلسل چوسنے کے بعد سدرہ اٹھی اور میری سائیڈ پر لیٹ گئی اور مجھے اوپر
آنے کا اشارہ کیا۔۔۔میں نے اس کے اوپر آتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگیں اوپر اٹھائیں
اور سائیڈوں پر کھولتے ہوئے اپنا لن اس کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے
میں پورا لن اندر ڈال دیا۔۔۔لن کی ٹوپی اس کی پھدی کو چیرتی ہوئی اس کی بچہ دانی
میں گھس گئی۔اور سدرہ کے منہ سے مزے کی وجہ سے اففففففففف نکل گیا۔۔۔ میں نے گھسے
مارنے شروع کیے تو اس نے بھی نیچے سے اپنی گانڈ ہلا ہلا کر پھدی کی تال میرے لن کے
ساتھ ملانا شروع کر دی۔۔۔اس کی پھدی کافی گیلی ہو چکی تھی جس کیوجہ سے اسے مزہ آنا
شروع ہو گیا تھا۔۔۔تھوڑی دیر ایسے ہی چودنے کے بعد میں نے سدرہ کی دونوں ٹانگیں
اپنے کندھوں پر رکھ کر لن اندر ڈالا اور دوبار گھسوں کی پمپ ایکشن چلا دی۔۔۔سدرہ
کی پھدی کے ہونٹ اتنی چدائی کی وجہ سے تھوڑا سوج چکے تھے۔۔۔اب تو میں جیسے ہی گھسہ
مارتا اس کے منہ سے بے اختیار نکل جاتا۔۔۔افففففففف۔ظا۔۔۔۔ظالم۔۔م۔م۔م۔۔۔۔پھاڑ دتی
میری پھدی۔۔۔ہائے نی ماں میں لوڑے لگ گئی۔۔۔میری پھدی دا پھدا بنا
چھڈیا۔۔۔افففففف۔۔۔سمیر جانو۔۔۔تیرا تگڑا لن میری پھدی دا حشر خراب کیتی
جاندا۔۔۔ٹھوک اس پین چود نوں۔۔۔وجا۔۔۔وجا۔۔۔ہور۔۔۔۔وجا۔۔۔۔اپنے سوٹے ورگے لن نال
سٹاں مار مار۔۔۔پھدی پولی کر دے۔۔۔ ہائےماں۔۔۔۔مر گئی۔۔۔۔۔ سدرہ کی یہ سیکسی باتیں
مجھے اور بڑھاوا دے رہی تھیں اور میرے گھسے مارنے کی سپیڈ نوے تک پہنچ گئی۔۔۔دو
منٹ بعد ہی سدرہ کہنے لگی۔۔۔سمیر زور دی۔۔۔میں چھٹن لگی۔۔۔۔آں۔۔۔۔مجھے بھی لگ رہا
تھا کہ اب میرا بھی پانی نکلنے لگا ہے۔اوپر سے سدرہ کی سیکسی باتیں سنتے ہی میرا
لن ہار مان گیا اور اس کی بچہ دانی کو منی سے بھرنے لگا۔۔۔ کچھ دیر بعد ہی میں
سدرہ کے کمرے سے باہر نکل رہا تھا۔۔۔اس وقت صبح کے چھ بج رہے تھے۔تو آفتاب کے کمرے
میں جا کر میں سو گیا۔۔۔دوبارہ میری آنکھ 9 بجے کھلی۔۔۔نہا دھو کر میں نیچے آیا تو
سب لوگ ناشتہ کر رہے تھے۔۔۔میں بھی ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ گیا اور گھر والوں کے
ساتھ ہی ناشتہ کیا۔۔۔ناشتے کے بعد آفتاب کے پاپا مجھ سے گھر کے متعلق اور دادی امی
کے بارے میں خیر و عافیت پوچھنے لگے۔۔۔اس کے بعد خاندان کے متعلق باتیں ہوتی رہیں
تو ٹائم کا پتہ ہی نہیں چلا اور ٹھیک بارہ بجے جب ہم لوگ چائے پی رہے تھے۔۔۔آفتاب
اور ارمغان گھر میں داخل ہوئے۔۔۔اس وقت آفتاب کے پاپا ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور
میں نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی اور اٹھ کر اوپر آفتاب کے کمرے میں چلا
گیا۔کیونکہ میں جانتا تھا کہ آفتاب سیدھا اوپر ہی آئے گا۔۔۔اور وہی ہوا تھوڑی دیر
بعد ہی آفتاب کمرے میں داخل ہوا اور تھکا ماندا میرے ساتھ ہی لیٹ گیا۔۔۔چند سیکنڈز
کی خاموشی کے بعد آفتاب بولا سوری جگر کام کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ مجھے جانا پڑا
لیکن تم بے فکر رہو آج ہی میں کچھ جگاڑ لگاتا ہوا اور تیری مومو کی خبر نکالے دیتا
ہوں۔۔۔میں اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔۔۔چونکہ وہ سفر سے آیا تھا تو جلد ہی سو گیا
اور میں کمپیوٹر آن کر کے موویز دیکھنے لگا۔۔۔اسی طرح موویز دیکھتے ہوئے میں نے
کافی ٹائم گزار لیا۔۔۔شام پانچ بجے آفتاب نیند سے جاگا اور نہا دھو کر فریش
ہوا۔۔۔تو بولا کہ چل جانی بھوک بہت لگی ہے۔۔۔صبح سے ناشتہ کیا ہوا ہے۔۔۔