New Novels Store(Buy New Big Novels)

 New Novels Store(Buy New Big Novels)

یہ ناول خریدنے کے لئے 

03494344438

پر وٹس اپ کریں

یا

khankitaab@gmail.com

پر میل کریں

(نوٹ : کم سے کم 2000 کی بکس خریدی جا سکتی ہیں)




































یہ ناول خریدنے کے لئے 

03494344438

پر وٹس اپ کریں

یا

khankitaab@gmail.com

پر میل کریں

(نوٹ : کم سے کم 2000 کی بکس خریدی جا سکتی ہیں)

آنکھ مچولی

 

 

آنکھ مچولی

چائے کی بھینی بھینی خوشبو نے مجھے مہکا دیا۔۔۔بھابھی نے چائے کا کپ میری طرف بڑھایا تو میں نے کہ اٹھاتے ہوئے کہا۔قسم سے بھابھی اس کی بہت ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ویسے آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں یہاں ہوں تو بھابھی میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولیں۔۔۔سمیر،،میں نے تم دونوں کی ساری باتیں سن لی ہیں۔میں کسی کام سے نیچے گئی تھی واپس آ رہی تھی تو دروازہ کھلا دیکھ کر جیسے ہی اندر داخل ہونے لگی تو مجھے تمہاری آواز سنائی دی تم آفتاب کو مومو کے بارے میں بتا رہے تھے۔۔۔تو میں نے ساری باتیں سن لیں۔۔۔میں بھابھی کی بات سن کر ہکا بکا رہ گیا۔۔۔پہلے آفتاب میری بات سن کر حیران ہوا تھا اب بھابھی کی باتیں سن کر میں پشیماں ہو گیا۔۔۔اسی تذبذب کی کیفیت میں کھڑا تھا کہ بھابھی پھر گویا ہوئیں۔۔۔سمیر،،میں تم دونوں کو ملوانے کی کوشش کرو گی۔۔۔پتہ کروں گی کہ مومو کی کہیں بات پکی ہوئی ہے یا نہیں۔یا اسے کوئی اور مجبوری تو نہیں ہے۔۔۔ بھابھی کی بات سن کر میں چند لمحے خاموش رہا۔پھر میں نے بھابھی سے پوچھا کہ بھابھی میری بپتا سننے کے بعد آپ کو میری مدد کرنے کی کیا سوجھی۔۔۔اس سے آپ کو کیا ملے گا۔۔۔یہ کہہ کر میں استجائیہ نظروں سے بھابھی کو دیکھنے لگا۔۔۔بھابھی نے گرم چائے کی ایک چسکی بھری اور ایک ٹھنڈی سانس لیکر بولیں۔۔۔سمیر،،میں اور ارمغان سکول لیول سے یونیورسٹی لیول تک ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔۔۔سکول سے یونیورسٹی تک ساتھ رہنے سے پہلے دوستی اور پھر یہ دوستی محبت میں تبدیل ہو گئی۔۔۔ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ہم شادی کریں گے لیکن شادی تک ایک دوسرے کے درمیان فاصلے کو کم نہیں کریں گے۔۔۔اتنا کہہ کر بھابھی چپ ہو گئیں اور پاؤں کے انگوٹھے سے زمین کو کریدنے لگیں۔۔۔میں چائے کا کپ ختم کر چکا تھا۔۔۔میں نے بھابھی سے پوچھا اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو آگے بتائیں پھر کیا ہوا۔۔۔بھابھی چند لمحے اور خاموش رہنے کے بعد بولیں۔۔۔پھر ہم لوگوں نے اپنے گھر والوں کو مطلع کیا اور ان کی مرضی سے ہماری شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی۔جب سہاگ رات کو میں ارمغان کی دلہن بنی سہاگ کی سیج پر بیٹھی تھی۔تب ارمغان نے میرے تمام ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔۔۔***** نے ان کو وجاہت اور خوبصورتی تو بے تحاشا دی ہے لیکن ان کی مردانگی میرے آگے چند لمحے بھی ٹِک نہ پائی اور وہ ٹھس ہو گئے۔۔۔ جب ایک جگہ پر مرد اور عورت تنہائی میں ہوں تو ان کے درمیان شیطان آ ہی جاتا ہے۔ بھابھی کی باتیں سن کر میں کافی حیران تو ہوا لیکن ساتھ ساتھ ہی میرا لن بھی کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔۔۔میں نے ہاتھ نیچے کر کے لن کے ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی اور میری یہ حرکت بھابھی سے چھپی نہ رہ سکی۔۔۔میں نے بھابھی کی آنکھوں میں نظریں گاڑھتے ہوئے پوچھا کہ اب آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں۔۔۔بھابھی میری طرف دیکھنے کے بعد دوسری طرف مڑ گئیں اور بولیں۔۔۔ ایک رات کا ساتھی۔ ایک رات کا ہمسفر۔ مضبوط طاقتور ہمسفر۔ میں ایک دم لڑکھڑا گیا۔بھابھی نے بات ہی ایسی کی تھی۔۔۔اتنے ڈائریکٹ انداز میں کھلی ڈھلی بات سن کر مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔۔۔میں نے کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا۔۔۔لیکن بھابھی میں۔۔۔ابھی یہ الفاظ میرے منہ میں ہی تھے کہ بھابھی نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور دو قدم بڑھ کر میرے پاس سے گزر کر نچلی سیڑھیوں کی طرف چل دی۔۔۔پھر جاتے جاتے مڑ کر بولیں۔میں انتظار کروں گی۔اتنا کہہ کر بھابھی سیڑھیاں اترتی چلی گئیں۔اور میں وہیں کھڑا منہ پھاڑے دیکھتا رہا۔۔۔بھابھی جا چکی تھیں اور میں وہیں کھڑا اس نئی افتاد کے بارے میں غور و فکر کرنے لگا۔۔۔کافی دیر سوچ بچار کرنے اور سگریٹ پھونکنے کے بعد میں نے دل میں یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ آج رات آفتاب نے تو آنا نہیں اس لیے رات چھت پر ہی گزاری جائے۔۔۔میں ادھر ادھر ٹہلتا رہا لیکن اگلے چالیس منٹ میں ہی سمجھ میں آ گیا کہ چھت پر رات گزارنا بہت مشکل ہے۔۔۔ہر طرف مچھر بھنبھنا رہے تھے۔۔۔مچھروں کی بھوں بھوں سے تنگ آ کر میں نے نیچے جانے کا سوچا اور پھر میں چھت سے نیچے اترنے لگا۔۔۔جیسے ہی میں تیسرے فلور پر مطلب سدرہ بھابھی والے فلور پر پہنچا۔تو دیکھا کہ پورے پورشن کی تمام لائٹس بند تھیں۔۔۔تمام کمرے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔۔۔میرے دل میں بہت سے خدشات جنم لے رہے تھے۔۔۔بھابھی کے کمرے کی دھیمی سی لائٹ یہ ظاہر کر رہی تھی کہ کمرے میں زیرو کا بلب چل رہا ہے۔۔۔میں نے سوچا کہ چلو ایک دفعہ بھابھی کا کمرہ دیکھتا ہوں پھر جا کر سو جاؤں گا کیونکہ کافی دیر ہو چکی ہے۔۔۔اور ہو سکتا ہے کہ اب تک بھابھی بھی سو چکی ہوں۔۔میں نے بھابھی کے کمرے کے پاس جا کر کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا۔ہلکا سا دبانے پر ہی دروازہ کھلتا چلا گیا۔۔۔جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ اے سی آن ہے۔۔۔بھابھی دلہن بنی سیج پر لیٹی ہوئی سو رہی تھیں۔۔۔میں بھابھی کے پاس چلا گیا۔بھابھی نے ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا۔اور اپنے تمام زیورات پہنے ہوئے تھے۔۔۔بھابھی کے چہرے پر پھیلی ہوئی پیاس دیکھ کر میرے دل میں نفس نے چوٹ لگائی۔۔۔ارے تو کیسا مرد ہے رے۔۔۔ایک پرائی عورت اپنی خود کی عزت جو کہ کسی دوسرے کی امانت ہے خود اپنے ہاتھوں تجھے سونپنے کیلئے۔دلہن بنی اپنی چوت میں تمہارا لن لینے کیلئے تیار ہے اور تم نامردوں کی طرح رات گزارتے چلے جا رہے ہو۔۔۔میں بیڈ کے اور پاس ہو گیا۔۔۔میرا دل کیا کہ ہاتھ بڑھا کر بھابھی کے گال چھو لوں۔۔۔میں نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بھابھی کے گالوں کو چھو لیا۔۔۔سیکس کی پیاس سے گال تپ رہے تھے۔۔۔جیسے ہی میں نے گال کو چھوا تو گال پر ہاتھ کا لمس محسوس کرتے ہی بھابھی کی آنکھ کھل گئی اور بھابھی نے ہاتھ بڑھا کر میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ میرا ہاتھ پکڑ کر بھابھی بولی۔۔۔سمیر میرا دل کہتا تھا تم ضرور آؤ گے۔۔۔میری برسوں کی پیاس بجھانے،میری روح کو سیراب کرنے ضرور آؤ گے۔۔۔یہ کہتے ہوئے بھابھی اٹھ کر بیڈ سے نیچے اتر کر میرے روبرو کھڑی ہو گئی۔۔۔میں ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔۔۔آخر جو بھی تھا یہ غلط تھا۔۔۔دل میں کہیں ایک کونے میں تھوڑی سی پشیمانگی تھی جو مجھے بھابھی کی طرف بڑھنے سے روک رہی تھی۔۔۔بھابھی نے جب یہ دیکھا کہ میں خیالوں کے بھنور میں غوطے لگا رہا ہوں تو آگے بڑھ کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔۔۔اففففف بھابی کے ہونٹ تھے کہ جیسے گلاب کی پنکھڑیاں۔۔۔جیسے ہی بھابھی کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر ٹچ ہوئے میں سب صحیح غلط بھول گیا۔۔۔میری شہوت۔۔۔لن کو ہلا شیری دیتے ہوئے بولی۔۔۔قدم بڑھاؤ لن صاحب۔۔۔میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔لن نے جیسے سرگوشی کی۔۔۔اگر بھابھی کی مست پھدی لینی ہے تو آگے بڑھ۔۔۔ایک مست پھدی ایک قدم کی دوری پر۔۔۔ابھی یہ پھدی تیرے نیچے ہو گی۔۔۔لن کی سرگوشی سن کر میں نے اپنے اور بھابھی کے درمیان فاصلہ ختم کر دیا اور بھابھی کو اپنے بازوؤں میں کس لیا۔۔۔میری رضامندی دیکھ کر بھابھی نے پوری گرم جوشی کے ساتھ میرے ہونٹوں کو چومتے ہوئے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی۔۔۔اور میں نے بھابھی کی زبان کو ویلکم کہتے ہوتے زبان چوسنا شروع کر دی۔۔۔مجھے لگا کہ میں شہد بھری کوئی میٹھی گولی چوس رہا ہوں۔۔۔ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ہونٹ چوس رہے تھے۔۔۔ایک دوسرے سے زبانیں لڑا رہے تھے۔۔۔ایک دوسرے کے نشے میں چور ہو رہے تھے۔۔۔اففففف کیا ہاٹ اور گیلا منہ تھا بھابھی کا۔۔۔میں ساتھ ساتھ بھابھی کی گانڈ اور کمر پر ہاتھ پھیری جا رہا تھا۔۔۔بھابھی نے اپنے دونوں بازو کس کر میری کمر پر باندھ رکھے تھے اور ایڑھیاں اٹھا کر مجھے کس کر رہی تھی۔۔۔ اب جب بھابھی مجھ سے چدنے ہی والی تھی تو میں نے دل میں سوچا کہ اب بھابھی کہنا ٹھیک نہیں۔۔۔اب میں اسے اس کے نام سے ہی پکاروں گا۔۔۔کافی دیر کسنگ کرنے کے بعد میں نے سدرہ کو کندھوں سے پکڑ کر پیچھے ہٹایا تو وہ الٹتی پتھلتی ہوئی سانسوں کے ساتھ مجھے دیکھنے لگی۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر سدرہ کے کپڑے اتارنے شروع کر دیے۔۔۔چند سیکنڈ بعد سدرہ میرے سامنے مادر زاد ننگی کھڑی تھی۔۔۔سدرہ ایک بہت ہی سیکسی اور خوبصورت فگر والی لڑکی ثابت ہوئی۔۔۔اس کا فگر 37۔27۔36bتھا۔۔۔آنکھوں کا رنگ سیاہ۔بال بھی گھنے لمبے سیاہ۔اوپر سے سیکس کی بھوک نے اس کے چہرے پر ایسا نکھار ڈالا کہ میرا لن پورا اکڑ گیا۔اور ٹراؤزر میں ایک تمبو بن گیا۔۔۔جسے دیکھ کر سدرہ کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔۔۔اس نے آگے بڑھ کر ٹراؤزر کے اوپر سے ہی میرا لن اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور میرے ہونٹ کو چوم کر بولی اٹھ گیا میرا شیر۔۔۔آج زندگی میں پہلی بار مزہ آئے گا۔۔۔ارمغان کا تو اتنا موٹا اور لمبا نہیں ہے۔۔۔مجھے لگ رہا ہے کہ جیسے آج میری پہلی چدائی ہو گی۔۔۔پھر کچھ دیر تک میرے لن کو مٹھیوں میں دباتے ہوئے بولی سمیر تمہارا لن تو بہت جاندار ہے جانو۔۔۔ایسے لن تو فلموں میں ہوتے ہیں بس۔۔۔میں نے حیرانگی سے کہا کہ سدرہ تم نے وہ فلمیں کہاں دیکھ لیں۔۔۔تو سدرہ سارے تکلفات کو بالائے تاک رکھ کر بولی۔۔۔وہ ارمغان ہے نا کنجری کا بچہ۔۔۔روزانہ تین چار سیکسی فلمیں مجھے دکھاتا ہے۔پھر اپنا لن چسوا کر مزہ لیتا ہے اور میری پھدی میں ڈال کر دس منٹ میں ہی گشتی کا بچہ فارغ ہو جاتا ہے۔۔۔اس کے منہ سے ایسی گالیاں سن کر میں اور حیران ہوا۔۔۔تو میں نے کہا کہ یار تم تو کہتی تھی کہ ارمغان سے بہت محبت ہے۔۔۔اب اتنی گندی گندی گالیاں دے رہی ہو۔۔۔تو وہ میری شرٹ اتارتے ہوئے بولی۔۔۔جانو یہ ساری عادتیں مجھے ارمغان نے ہی ڈالی ہیں۔۔۔اب جب تک سیکس کے ساتھ ساتھ گندی باتیں یا گالیاں نہیں نکالتے۔ہم لوگوں کو مزہ نہیں آتا۔۔۔ سدرہ کے منہ سے یہ باتیں سن کر مجھے ایک عجیب سا مزہ آ رہا تھا۔۔۔اسی دوران سدرہ میری شرٹ اتار کر ایک طرف پھینک چکی تھی۔۔۔پھر اس نے اپنے ہاتھ میرے دونوں کولہوں کے پاس سے ٹراؤزر پر رکھے اور میری ٹانگوں کے درمیان زمین پر بیٹھتے ہوئے اس نے میرا ٹراؤزر اتار دیا۔۔۔انڈروئیر تو میں نے پہنا نہیں تھا۔۔۔اس لیے ٹراؤزر اترتے ہی لن ایک جھٹکا کھا کر سیدھا ہوا اور اس کے منہ کے سامنے جھومنے لگا۔۔۔یہ دیکھ کر سدرہ ایک دم اٹھی اور سوئچ بورڈ کے پاس جا کر اس نے ساری لائٹس آن کر دیں اور کمرے کے دروازے کو لاک لگا دیا۔۔۔بلا شبہ سدرہ جنسی لحاظ سے بڑے ہی پرکشش جسم کی مالک تھی۔۔۔اور ساتھ ساتھ اس کے پورے جسم میں شہوانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔۔۔اففف کیا ممے تھے۔کیا گانڈ تھی۔۔۔نرم نرم چوتڑوں پر دل کرتا تھا دندی کاٹ لوں۔۔۔سدرہ چلتی ہوئی سامنے الماری کی طرف گئی اور وہاں سے ایک چھوٹی سی عجیب قسم کی شیشی اٹھا کر میرے پاس آئی اور میرے اکڑے ہوئے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر شیشی کا ڈھکن اتارا تو میں نے آخر پوچھ ہی لیا۔۔۔جانم کیا کرنے لگی ہو۔۔۔تو وہ بولی کہ اپنے ٹھوکو کے ساتھ اس سہاگ رات کو یادگار بنانے کیلئے اسپرے لگانے لگی ہوں۔۔۔اس سے تمہاری ٹائمنگ بڑھ جائے گی۔۔۔ہم لوگ خوب مزہ کریں گے۔۔۔میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ تم نے ارمغان پر آزمایا ہے تو وہ بولی نہیں جانو ابھی آج ہی تو ایک سہیلی دے کر گئی ہے۔۔۔اس کا عاشق اسے یہ اسپرے لگا کر چودتا ہے اور وہ بتا رہی تھی کہ کم از کم بھی آدھا گھنٹہ تو وہ صرف پھدی کی بینڈ بجاتا ہے۔۔۔یہ سن کر ایکسائٹمنٹ سے میری آنکھیں چمک اٹھیں۔۔۔سدرہ نے میرے لن کو ٹوپی سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اور لن کی نچلی جانب ٹوپی کے پاس دو بار اسپرے کیا اور انگلی کی مدد سے ہلکا ہلکا مساج کر دیا۔۔۔اسی طرح اس نے لن کی چاروں سائیڈوں پر ہلکا ہلکا اسپرے مار کے مساج کر دیا۔۔۔اور بولی اب اگلے بیس منٹ تک لن کی طرف دیکھنا بھی نہیں اس کا اثر بیس منٹ بعد شروع ہو گا۔۔۔اور وہ اسپرے کی شیشی ایک طرف سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے خود بیڈ پر لیٹ گئی اور اپنے دونوں بازو کھول کر مجھے اشارہ کیا۔۔۔مجھے لن پر ہلکی ہلکی جلن ہو رہی تھی۔۔۔جس کا ذکر میں نے اس سے کیا تو اس نے بتایا کہ یہ نارمل ہے ایسا میری سہیلی نے بتایا تھا کہ یہ ہوتا ہے لیکن صرف تھوڑی دیر۔۔۔اس کے بعد لن ہلکا سا سن ہو جائے گا۔۔۔اور پھر بے شک جب تک دل کرے چدائی کرو۔۔۔اتنا کہہ کر پھر اس نے اپنے بازو کھول دیے اور میں اس کے اوپر لیٹ کر بازؤوں میں سما گیا۔۔۔جیسے ہی سدرہ کے اکڑے ہوئے نپلز میرے بالوں بھرے سینے سے لگے۔میرے اندر بجلی سی کوند گئی۔۔۔میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور سدرہ کی گردن کو ایک ایک ملی میٹر سے چاٹنے لگا۔۔۔سدرہ نے میری زبان کا ٹچ اپنی گردن پر محسوس کرتے ہی اپنے دونوں ہاتھوں کو میری کمر پر رکھتے ہوئے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر پھیرتے ہوئے اپنے مموں کو دائیں بائیں ہلاتے ہوئے میرے سینے پر رگڑنے لگی۔۔۔ میرا لن پورے جوش میں آ کر سدرہ کی رانوں میں دبا ہوا تھا۔۔۔میں اس کی گردن کو چاٹتا ہوا نیچے اس کے کندھوں تک آیا اور وہاں سے اس کے مموں کی گولائیوں تک آ گیا۔۔۔پہلے میں دائیں ممے کو چاٹنے لگا۔۔۔پھر میں نے باری باری اس کے دونوں ممے چاٹ لیے لیکن نپلز کو بلکل نہیں چھیڑا۔۔۔میں جیسے ہی ممے کو چاٹتا ہوا نپلز تک پہنچتا۔تو اسے ٹچ کیے بنا دوسرے ممے کی گولائی کو چاٹنا شروع کر دیتا۔۔۔جب چار پانچ بار میں ایسی ہی کرنے کے بعد ممے کو چاٹتا ہوا نپل تک پہنچا تو سدرہ نے غصے سے میرے سر کے بالوں کو اپنی مٹھی میں جھکڑا اور نیچے اپنے نپل کی طرف دبایا۔۔۔میرے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔میں جان چکا تھا کہ اب سدرہ مزے اور لذت میں پوری طرح سے خوار ہو چکی ہے۔۔۔
 میں نے سدرہ کا ایک نپل منہ میں لے لیا۔۔۔۔۔واؤ۔۔۔۔۔اوووو۔۔۔۔نپل منہ میں لیتے ہی میرا لن پھنکاریں مارنے لگا۔۔۔میں باری باری دونوں نپل منہ میں لیکر چوسنے لگا۔۔۔اب سدرہ کے بدن میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔میری کوشش تھی کہ سدرہ کا پورا مما منہ میں لے لوں۔۔۔پر یہ ممکن نہیں تھا۔۔۔کیونکہ میرا منہ بہت چھوٹا اور سدرہ کا مما منہ کی مناسبت کافی بڑا تھا۔اور اس ٹائم تو ویسے بھی سخت ہو رہا تھا۔۔۔میں نے نپل کو دانتوں سے ہلکا سا کاٹا تو وہ کراہ اٹھی۔۔۔۔آہ۔ہ۔آہہہ۔۔۔سمیر۔۔۔۔ررر۔۔۔۔آرام سے۔۔۔۔میری جان۔۔۔۔آرام سے۔میں نے سدرہ کے ممے چوستے ہوئے ہی اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے تنے ہوئے لن پر رکھ دیا۔۔۔اس نے فوراً ہی میرے لن کو مٹھی میں دبا لیا۔۔۔میں نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لیجا کر سدرہ کی پھدی پر رکھ دیا۔۔۔پھدی فل گیلی ہو رہی تھی۔۔۔میں زور زور سے مموں کو چوسنے اور نپلز کو کاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ سے اس کی پھدی کو مسلنے لگا۔۔۔سدرہ یہ مزہ برداشت نہ کر سکی اور سسکنے لگی۔۔۔آہ۔ہ۔آہہہ۔۔۔سمیر۔۔۔ایسے ہی۔۔۔افففف۔۔۔میں نے اپنی دو انگلیاں پھدی کے اندر گھسا دیں اور زور زور سے پھدی کے دانے کو اپنے انگوٹھے سے مسلنے لگا۔۔۔سدرہ کیلئے برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔شاید یہ کسی پرائے مرد سے سیکس کی شہوت تھی جو وہ اتنی جلدی منزل تک پہنچ گئی اور اس نے ایک جھٹکے سے اپنی دونوں ٹانگوں کو بھینچ لیا اور زور زور سے جھٹکے کھاتے ہوئے چھوٹ گئی اور اس کی پھدی سے پانی بہنے لگا۔۔۔چونکہ سدرہ کا کمرہ ساؤنڈ پروف تھا تو اس بات کا کوئی ڈر نہیں تھا کہ آواز کہیں باہر سنی جا سکتی ہے۔۔۔ سدرہ اب فارغ ہو چکی تھی۔۔۔جبکہ میرا لن اب فل جان پکڑ چکا تھا۔۔۔سدرہ اٹھی اور مجھے لٹاتے ہوئے خود میرے اوپر آ گئی۔اور چٹا چٹ میرے گالوں کے کئی بوسے لے ڈالے۔۔۔پھر بولی سمیر میری جان میں بہت خوش ہوں کہ تم نے مجھے اتنا مزہ دیا۔۔۔اب میری باری ہے کہ میں تمہیں مزہ دوں۔۔۔یہ کہہ کر وہ میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کے میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر سہلاتے ہوئے بولی۔۔۔مجھے تمہارا لن بہت پسند آیا ہے۔۔۔کچھ دیر تو وہ میرے لن کو ایسے ہی سہلاتی رہی۔



۔۔پھر جب مجھ سے برداشت نہ ہوا تو میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے آگے لن کی طرف دبایا تو وہ سمجھ گئی کہ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔مجھے دیکھتے ہوئے وہ بولی کہ لگتا ہے جانو کو اپنا لن چسوانا ہے۔۔۔میں نے مخمور نگاہوں سے اسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔پھر اس نے اپنا پورا منہ کھولا اور میرے لن کی ٹوپی کو اپنے منہ کے اندر لے لیا۔۔۔میرے منہ سے مزے کی شدت سے ایک سسکی نکل گئی۔۔۔سدرہ نے میرا لن منہ سے باہر نکالا اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے اپنی لمبی زبان باہر نکالی اور اس کی نوک سے میرے لن کے سوراخ کے اندرونی حصے کو چھیڑنے لگی۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی چھڑنے کے بعد سدرہ نے دوبارہ میرا لن منہ میں ڈال لیا اور بڑے پیار سے چوسنے لگی۔۔۔اس کے منہ کی گرمی کو اپنے لن پر محسوس کر کے میری حالت خراب ہو گئی۔۔۔اس نے میرے لن کی صرف ٹوپی اپنے منہ میں رکھی اور اپنے ہونٹوں کو بند کر کے منہ کے اندر سے ہی لن کے سوراخ اور ٹوپی پر اپنی زبان گھمانے لگی۔۔۔میں لذت کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔۔۔اس کے منہ کی گرمی سے اتنا مزہ مل رہا تھا کہ میں نے ایسا مزہ پہلے کبھی محسوس نہیں کیا۔۔۔حالانکہ اس سے پہلے خانم اور نازنین اور اپنے محلے میں بھی رنڈیوں سے چوپے لگوائے تھے۔۔۔پر اس رنڈی کے چوپے میں جو چاہت تھی۔۔۔جو مزہ تھا۔۔۔وہ کہیں نہیں ملا۔۔۔اس کے علاوہ اصل مزہ ان فیلنگز کا تھا کہ سدرہ بھابھی ارمغان کی بیوی تھی اور اس کو اپنے نیچے لٹانے کے صرف خواب ہی دیکھ سکتا تھا۔۔۔اور آج وہ رنڈی کی طرح سچ مچ پوری ننگی میرے سامنے موجود میرے لن کے چوپے لگا رہی تھی۔۔۔ اصل چیز یہ احساس تھا جو میرے مزے کو بڑھا رہا تھا۔۔۔سدرہ کچھ دیر اسی طرح میرے لن کی ٹوپی کو چوستی رہی۔۔۔پھر آہستہ سے اپنا تھوڑا منہ اور کھولا اور میرے لن کو اپنے منہ کے اندر اتارنا شروع کر دیا۔۔۔جتنا لن منہ میں جا سکتا تھا اتنا لینے کے بعد اس نے تھوڑا زور لگایا تو لن کی ٹوپی اس کے حلق کو جا لگی جس کیوجہ سے اسے ابکائی سی آئی اور اس نے فوراً ہی میرا لن باہر نکال دیا۔۔۔پھر میری طرف دیکھ کر بولی سوری جانو وہ دراصل آج تک چھوٹا لن چوسنے کی عادت تھی نا تو وہ حلق تک کبھی پہنچ ہی نہیں پایا۔۔۔پر تمہارا شاندار لن تو لگتا ہے آج میرے سارے کس بل ادھیڑ ڈالے گا۔۔۔پھر اس نے دوبارہ لن کی ٹوپی کو منہ میں لے کر چوسا اور اوپر سے لے کر جڑ تک لن کو چاٹا۔۔۔اسی طرح چاٹنے کے بعد اس نے جتنا لن منہ میں جا سکتا تھا لے لیا اور باقی لن کو ہاتھ کی گرفت میں رکھتے ہوئے پوری شدت سے چوسنے لگی۔۔۔اس انداز میں چوسنے سے اس کا گال پِچک کر اندر ہو جاتے۔اور اس کا چہرہ لال ہو جاتا تھا۔۔۔وہ اب اتنی طاقت سے چوپا لگا رہی تھی کہ مجھے صاف محسوس ہوا کہ میرے لن سے مزی کا ایک قطرہ پوری شدت سے رگڑ کھاتا ہوا باہر جا رہا ہے۔۔۔جیسے ہی وہ قطرہ باہر آیا تو سدرہ نے اپنی زبان سے اس قطرے کو لپیٹا اور منہ میں لیکر ایسے چسکے لینے لگی جیسے کسی چیز کی مٹھاس یا کھٹاس چیک کی جاتی ہے۔۔۔کچھ دیر لن چوسنے کے بعد سدرہ اٹھی اور میرے سینے کے اوپر بیٹھ گئی۔۔۔چند لمحے وہ میری آنکھوں میں دیکھتی رہی اور پھر اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر اپنی ہاتھ کی دو انگلیاں اپنی پھدی میں ڈال کر بولی دیکھو کیسے لیک کر رہی ہے۔۔۔میں نے سدرہ کی گانڈ کے نیچے دونوں ہاتھ رکھے اور اسے آہستہ سے اپنی طرف کھینچا تو وہ میرے اتنے قریب آ گئی کہ اس کی پھدی میرے منہ سے صرف دو انچ کے فاصلے پر تھی۔۔۔میں نے اسے اور آگے کھینچا اور اس کی پھدی پر ناک لگا کر اس کی مہک لینے لگا۔۔۔سدرہ میری حرکتوں کو غور سے دیکھ رہی تھی۔۔۔وہ بولی سمیر کبھی پہلے پھدی ماری ہے سچ سچ بتانا تو میں نے کہا ہاں ماری ہے۔۔۔تو لازمی تم نے پھدی چاٹی بھی ہو گی تو میں نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ وہ پھدیاں چاٹنے والے نہیں تھیں۔۔۔تو سدرہ اپنی پھدی کے لبوں کو کھینچ کر بولی میری چوت کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔شہوت کے ڈورے اس کی آنکھوں کو لال کر رہے تھے۔۔۔سدرہ کی پھدی کے اوپری حصے پر چھوٹے چھوٹے بال تھے۔۔۔ایسا لگتا تھا کہ جیسے ایک دن پہلے ہی شیو کی گئی ہو۔۔۔بال جہاں ختم ہوتے تھے وہاں سے ہی پھدی سٹارٹ ہو رہی تھی۔۔۔پھدی کے ہونٹ کافی پھولے ہوئے تھے۔۔۔پھدی کے شروع میں ہلکا سا گوشت ابھرا ہوا تھا جہاں پھدی کا دانہ صاف پھولا ہوا نظر آ رہا تھا۔۔۔میرے ہاتھ نے سدرہ کی پھدی کے دانے کو ٹچ کیا تو اس کا جسم ایک دم مچلا اور اس نے بے اختیار اپنا ہاتھ پیچھے کر کے میرے لن کو پکڑا اور سہلاتے ہوئے بولی۔۔۔سمیر۔۔۔۔۔۔جانو۔۔۔۔میری پھدی چاٹو اور مجھے پوری طرح سے مزہ دو۔۔۔۔میں نے سدرہ کو اپنے اوپر سے اٹھایا اور بیڈ پر سیدھا لٹاتے ہوئے اس کے اوپر لیٹ کر ایک دفعہ اس کے ہونٹوں کو چوما اور سیدھا اس کے مموں پر حملہ آور ہوا۔۔۔اب میں اس کے دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں سے مسل رہا تھا اور ایک ممے کے نپل کو منہ میں لیکر چوس رہا تھا۔۔۔میرے زور زور سے نپل چوسنے پر اس کے حلق سے سسکیاں برآمد ہو رہی تھیں۔اور وہ اپنے دونوں ممے باری باری اٹھا کر ایسے میرے منہ میں دے رہی تھی کہ جیسے اس کا دل کر رہا ہو کہ اپنا پورا مما میرے منہ میں ڈال دے۔۔۔تھوڑی دیر ایسے ہی ممے چوسنے کے بعد میں نے اس کے مموں کو چھوڑا اور تھوڑا نیچے ہوتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگیں اٹھا کر اوپر کرتے ہوئے مخالف سمتوں میں کھول دیں۔۔۔سدرہ نے میری مدد کرتے ہوئے اپنی دونوں ٹانگوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے پکڑ لیا۔اس طرح اس کی پھدی میرے منہ کے بلکل سامنے آ گئی۔۔۔ میں اس کی بالوں سے صاف اور چھوٹی سی پھدی کو دیکھنے لگا۔اس کی پھدی پانی نکلنے کی وجہ سے کافی گیلی ہو رہی تھی۔اور تھوڑا سا پانی نیچے اس کی گانڈ کی طرف بھی گیا ہوا تھا۔۔۔میں نے آہستہ سے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کی پھدی کو چاٹ لیا جس سے سدرہ پوری کی پوری کانپ گئی۔۔۔اس کے پانی کا ذائقہ ہلکا سا ترش تھا لیکن مجھے بہت اچھا لگا۔۔۔میں نے اس کی پھدی کا ایک لب اپنے ہونٹوں میں لیکر چوس لیا۔سدرہ کے جسم کو ایک اور جھٹکا لگا اور اس کی پھدی نے تھوڑا سا پانی اور چھوڑ دیا۔۔۔میں نے دوسرے لب کو بھی ایسے ہی چوسا اور پھر اس کے اندر والے لبوں پہ زبان پھیرنے لگا۔۔۔سدرہ تو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے مزے سے پاگل ہونے والی ہے۔۔۔ایک دفعہ تو مجھے ایسا لگا کہ وہ چھوٹنے والی ہے تو اسی وقت میں نے اپنا منہ اس کی پھدی سے ہٹا لیا اور زور سے ایک تھپڑ اس کی پھدی پر رسید کیا۔۔۔تکلیف کی وجہ سے اس کا مزہ کچھ کم ہوا اور وہ چیخ پڑی۔۔۔آ۔۔۔آؤچ۔۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو سمیر۔۔میرا پانی نکلنے دو۔۔۔یہ کہہ کر اس نے میرے سر کو اپنے ہاتھ سے پھدی کی طرف دبا دیا۔۔۔میں نے دوبارہ سے اس کی پھدی کے باہر والے لبوں پر زبان پھیرنی شروع کر دی۔۔۔جب مجھے لگا کہ اس کا مزہ تھوڑا کم ہو گیا ہے۔۔۔تو میں نے دوبارہ سے اس کی پھدی کے اندرونی لبوں کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔سدرہ کو دوبارہ مزہ آنا شروع ہو گیا اور اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر پھدی چٹوانے لگی۔۔۔میں نے اٹھ کر سدرہ کے اوپر لیٹتے ہوئے اپنا اکڑا ہوا لن اس کے منہ میں دیا اور 69 پوزیشن میں خود اس کی پھدی چاٹنے لگا۔۔۔وہ میرے لن کو ایسے چوس رہی تھی کہ جیسے کھا ہی جائے گی۔۔۔جب مجھے دوبارہ لگا کہ اب وہ پھر چھوٹنے کے قریب ہے تو میں اٹھ کر اس کی ٹانگوں کے درمیان آ گیا اور لن کو پکڑ کر پوری طرح گیلی پھدی پر رگڑنے لگا۔۔۔ پھر اس کی پھدی کے دانے کو رگڑتے ہوئے محسوس ہوا کہ جیسے ب وہ منزل کے بلکل پاس ہے تو میں نے آخری دفعہ اس کی پھدی کے دانے کو رگڑا اور لن کو پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا۔۔۔سدرہ کی آنکھیں مزے سے بند تھیں اور وہ اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر ایسے ہلا رہی تھی کہ کسی بھی طرح لن پھدی کے اندر چلا جائے۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں تھوڑا اور اوپر اٹھائی اور لن کو پھدی پر سیٹ کرتے ہوئے ایک زور کا جھٹکا مارا۔اور لن اس کی پھدی میں گھسا دیا۔۔۔سدرہ کیلئے بھی یہ جھٹکا آخری ثابت ہوا اور اس کی پھدی نے لرزتے ہوئے فوارے کی طرح پانی چھوڑ دیا۔۔۔سدرہ اتنی زور سے چھوٹی تھی کہ اس کی آنکھیں اوپر چڑھ گئیں اور پاؤں کی انگلیاں اکڑ گئی تھیں۔۔۔ سدرہ کے اس طرح چھوٹنے سے اتنا پانی نکلا کہ میرے ٹٹوں تک کو بھگو گیا۔۔۔اس کی اپنی پھدی کا بھی برا حال تھا۔۔۔میں نے ٹشو لیکر اس کی پھدی اور اپنے لن کو صاف کیا۔کیونکہ مجھے گیلی پھدی کا مزہ نہیں آتا۔۔۔بلکہ اس کے برعکس اگر لن رگڑ کھا کر اندر اور باہر آئے تب مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔۔۔پھدی کو صاف کرتے ہوئے جیسے ہی میرے ہاتھ نے اس کے دانے کو چھوا تو سدرہ کے منہ سے سسکاری نکل گئی۔۔۔کیونکہ دو دفعہ اور اتنا زیادہ چھوٹنے کے بعد اس کا دانہ بہت نازک ہو چلا تھا۔۔۔میں نے لن کو صاف کر کے دوبارہ اس کی پھدی میں ڈال دیا۔۔۔ابھی تھوڑا لن باہر ہی تھا کہ مجھے لگا کہ جیسے لن کسی نرم دیوار سے ٹکرا گیا ہے۔۔۔ساتھ ہی سدرہ کے منہ سے دوبارہ سسکیاں جاری ہو گئیں۔۔۔اففففف۔آہہہ۔آہہہ۔۔۔میرا اندازہ تھا کہ یہ ضرور سدرہ کی بچہ دانی ہو گی۔جس سے میرا لن ٹکرا کر رک رہا ہے۔۔۔ میں نے وہیں پہ رہ کر لن اندر باہر کرتے ہوئےسدرہ سے پوچھا۔۔۔کیا ہوا جان۔تکلیف ذیادہ ہو رہی ہے۔۔۔تو وہ بولی۔۔۔پین چود۔۔۔درد ہووے یا نہ ہووے۔توں اج رکنا نئیں۔اج اس پھدی دا پھدا بنا دے۔۔۔او ارمغان گشتی دا بچہ چھوٹی للی آلا۔۔۔کچھ وی نئیں کر پاوے گا۔۔۔میں ہمیشہ تڑپدی رہ جاندی آں۔۔۔اج پہلی واری تیرے تگڑے لن نے میری پھدی نوں سلامی دتی اے۔۔۔تے ہن توں بنڈ آلا زور لا کے لن اندر پا دے۔۔۔میری فکر نا کرِیں۔۔آج مینوں ایداں چود کہ میری پھدی پھاٹ جاوے۔۔۔میری پھدی دا شوربہ بنا دے۔۔۔۔ہن دیر نا کر۔۔۔کتے دیا پترا۔۔۔میری پھدی مار۔۔۔مینوں چود۔۔۔کس کس کے گھسے مار۔۔۔یہہ کہ تہہ لا دے۔۔۔ اسی طرح وہ شہوت کے زیرِ اثر بے ربط گندی زبان استعمال کرتی رہی۔۔۔



لیکن حیرت کی بات تھی کہ اس کی گالیاں سن کر بھی میں بدمزہ نہیں ہوا۔۔۔بلکہ مجھے اپنے لن میں اکڑاہٹ بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔اور میں پورے جوش کے ساتھ اس کے گھسے مارنے لگا۔۔۔میرے ہر جھٹکے کے جواب میں وہ صرف ایک بات ہی کہتی۔۔۔چود مینوں۔۔۔میری پھدی مار۔۔۔مینوں چود۔۔۔اس کی یہ بات سن سن کر میرے کان پک گئے اور مجھے بھی تاؤ آ گیا۔۔۔میں نے اپنا لن باہر نکالا۔۔۔پاس پڑا ہوا ایک چھوٹا تکیہ کھینچ کر اس کی گانڈ کے نیچے رکھ کر اس کی ٹانگیں اس شدت کے ساتھ اٹھائیں کہ سدرہ کے گھٹنے اس کے کندھوں کے ساتھ جا لگے۔۔۔میں نے پھر سے لن اندر ڈالا اور سٹارٹ سے ہی فل سپیڈ میں دھکے مارنے شروع کر دیے۔۔۔میرے طاقتور گھسوں کی وجہ سے میرے ٹوپے کی نوک بار بار سدرہ کی بچہ دانی کے ساتھ ٹکرا رہی تھی۔۔۔اور پھر جیسے ہی میرا لن سدرہ بھابھی کی بچہ دانی پر ٹھوکر مارتا۔۔۔نیچے سے وہ تڑپ سی جاتی اور پھر پہلے سے بھی ذیادہ سیکسی انداز میں وہی لذت آمیز راگ الاپتی کہ جسے سن کر میرا جوش مزید بڑھ جاتا۔۔۔اب مجھے سدرہ کو چودتے ہوئے چھ،سات منٹ گزر چکے تھے۔۔۔ہر گھسے پر ایسا لگتا کہ جیسے سدرہ کی پھدی میرے لن کو اندر سے جھکڑ رہی ہے۔۔۔اور ایک بار پھر اس کا جسم اکڑنا شروع ہو گیا۔۔۔میں نے اس کے کندھوں کو مضبوطی سے پکڑا اور ساتھ ہی اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جھکڑ کر پوری جان سے ایک گھسہ مارا۔۔۔اس گھسے سے یہ ہوا کہ میرا لن پوری طاقت کے ساتھ جڑ تک اندر گیا اور لن کی ٹوپی سدرہ کی بچہ دانی کے اندر جا گھسی۔۔۔سدرہ کے منہ سے ایک لرزہ خیز چیخ نکلی جو کہ ہونٹ دبے ہونے کیوجہ سے میرے منہ کے اندر ہی دم توڑ گئی۔۔۔سدرہ کا جسم فل اکڑ چکا تھا۔۔۔میں چند سیکنڈ وہیں پر رک کر اس کے مموں کو مسلتا اور چوستا رہا جس سے اس کی سانس میں دوبارہ تھوڑی بحالی ہوئی اور اس نے زور سے مجھ اپنی بانہوں میں کس لیا۔۔۔سدرہ اب اتنی چودائی کے بعد کافی تھک چکی تھی۔۔۔میں نے خود کو اس کی بانہوں سے آزاد کروایا اور اپنا لن باہر نکال کر اس کو ڈوگی سٹائل میں ہونے کو کہا۔۔۔وہ کافی تھک چکی تھی اور درد بھی محسوس کر رہی تھی اس لیئے فوراً اٹھ کر ڈوگی سٹائل میں آ گئی اور اپنے گھٹنے تھوڑے سے آگے کر کے اپنی گانڈ کو باہر نکال دیا۔۔۔واہ۔ہ۔ہ۔۔۔کیا نظارہ میرے سامنے تھا۔۔۔سدرہ کی موٹی سیکسی گانڈ بلکل میرے سامنے تھی۔۔۔اس کے گول مٹول گورے گورے چوتڑ مجھے اپنی طرف بلا رہے تھے۔۔۔اس کی گانڈ کا چھوٹا سا سوراخ اتنا سیکسی اور پیارا لگ رہا تھا کہ میں نے بے اختیار اس پہ اپنا انگوٹھا پھیرنا شروع کر دیا۔۔۔سدرہ کی گانڈ اور پھدی اب دونوں میرے سامنے تھیں اور مجھے اپنی طرف بلا رہی تھیں۔کہ آ جاؤ ہمیں چود ڈالو۔۔۔میں نے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کے چوتڑوں کو کھول لیا اور اپنا لن اس کی پھدی میں ڈال دیا۔سدرہ کے منہ سے مزے اور درد سے ملی سسکی نکل گئی۔۔۔آہ۔آہہہ۔۔۔میں نے پہلے سدرہ کو آہستہ آہستہ چودنا شروع کیا پھر اپنی سپیڈ بڑھاتا گیا۔۔۔مجھے اب اس کی پھدی میں اپنا لن جاتا بھی نظر آ رہا تھا اور اس کی گانڈ کا سوراخ بھی نظروں کے سامنے تھا۔اب سدرہ بھی فل مزے میں آ گئی تھی اور میرے ہر گھسے کے جواب میں اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکیلتی تھی۔۔۔لن جب پھدی سے باہر آتا تو اس کے پانی سے لتھڑا ہوتا تھا۔۔۔ایک دفعہ پھر مجھے محسوس ہوا کہ جیسے اس کی پھدی میرے لن کو اندر سے پکڑ رہی ہے۔لیکن لن اس میں سے پھسلتا ہوا بچہ دانی سے ٹکرا جاتا اور ٹوپی بچہ دانی کے اندر تک چلی جاتی۔۔۔ سدرہ کی گانڈ کا کھلتا،بند ہوتا ہوا سوراخ مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔۔۔میرا دل چاہا اور کچھ نہیں تو اس میں اپنی ایک انگلی ہی ڈال کر دیکھوں کہ کتنی ٹائٹ ہے۔۔۔سدرہ اب فل تھک چکی تھی اس لیے اس نے اپنا سر آگے بیڈ پر ڈال دیا جس سے اس کی گانڈ اور باہر کو نکل آئی اور اس کا سوراخ میرے جی کو للچا گیا۔۔۔مجھ سے اب برداشت نہیں ہوا تو میں نے اپنی انگلی کو تھوڑا سا تھوک لگا کر اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر انگلی تھوڑی اندر کر دی۔۔۔پہلے تو اسے تھوڑا سا شاک لگا اور اس نے مڑ کر میری آنکھوں میں دیکھا لیکن پھر وہ اپنا سر آگے کر کے دوبارہ پیچھے کو دھکے مارنے لگی۔۔۔اب وہ مزے کی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اور پتہ نہیں کیا اول فول بک رہی تھی۔۔۔اہسا لگ رہا تھا کہ جیسے دارو کے نشے میں بول رہی ہے۔۔۔ہاں سمیر۔۔۔ایداں ای۔۔۔پورا پا دے اندر۔۔۔ویکھ لے کوئی شے باہر نہ رہ جاوے۔۔۔پھاڑ دے میری پھدی۔۔۔بنڈ اچ زور نال انگل مار۔۔۔آہ۔۔۔آہہہ۔آہہہ۔۔۔اپنا موٹا،جبرو،لن زور نال اندر پا۔۔۔ہر واری ایداں ای مینوں ٹھوکیں۔۔۔اپنی رنڈی بنا،گشتی بنا،پر ایداں ای مینوں چودی جاویں۔۔۔اففففف۔۔۔میں مر گئی۔۔۔صواد آ گیا۔۔۔ اب مجھے بھی لگ رہا تھا کہ میں چھوٹنے کے قریب ہوں۔اور سدرہ کی یہ باتیں میرے لیے سونے پر سہاگا ثابت ہوئیں۔۔۔میں نے طوفانی رفتار سے گھسے مارتے ہوئے ایک دفعہ اپنا لن باہر نکالا اور حقیقتاً بنڈ والا زور لگا کر پورا لن اندر گھسا دیا۔اور ساتھ ہی سدرہ کے کندھوں کو پکڑ کر اپنی طرف دبایا جس سے لن اس کی بچہ دانی میں گھس گیا۔۔۔سدرہ کیلئے بھی یہ آخری جھٹکا ثابت ہوا اور اس نے پانی چھوڑ دیا۔۔۔ساتھ ہی میرے لن نے منی کی پہلی پچکاری ماری اور پھر مارتا ہی گیا۔۔۔سدرہ کی بچہ دانی منی سے بھرنا شروع ہو گئی۔مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے منی کا دریا بہہ رہا ہو۔۔۔جیسے ہی لن سے منی کا آخری قطرہ نکلا۔میں نے سدرہ کے کندھوں کو چھوڑ دیا اور وہ بے سدھ ہو کر آگے گر گئی۔۔۔میں اس کے اوپر ہی لیٹ گیا۔۔۔تھوڑی دیر بعد میں اٹھا اور ٹشو سے اس کی پھدی اور اپنے لن کو صاف کیا۔۔۔پھر میں نے سدرہ کو ہلایا تو وہ جیسے نشے میں بولی۔۔۔ہوں۔اوں۔۔۔میں نے کہا سدرہ میں جا رہا ہوں کافی دیر ہو گئی ہے ارمغان لوگ کسی بھی ٹائم واپس آتے ہوں گے۔۔۔تو سدرہ نے آنکھیں کھولیں اور مجھے پکڑ کر اپنے اوپر گراتے ہوئے بولی۔۔۔نہیں جان وہ نہیں آئیں گے۔۔۔تمہارے آنے سے پہلے میری ارمغان سے بات ہو چکی ہے وہ لوگ اب کل شام میں واپس آئیں گے۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں تم یہاں ہی میرے ساتھ سو سکتے ہو۔۔۔ویسے بھی گھر والے تو سب دس بجے کے بعد ہی اٹھیں گے اور اس لیے بے فکر رہو۔۔۔میں نے ٹائم دیکھا تو دو بج رہے تھے۔۔۔مطلب اس چدائی کھیل میں ٹائم کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔میں سدرہ کو ایک طرف کھسکا کر اس کی سائیڈ میں ہی لیٹ گیا۔۔۔مجھے لیٹتا دیکھ کر سدرہ نے کروٹ بدلی اور اپنا سر میرے بازو پہ رکھتے ہوئے مجھ سے لپٹ کر سو گئی۔۔۔میں بھی کافی تھک گیا تھا۔اس لئیے کب آنکھ لگی پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔ دوبارہ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ سدرہ دوسری طرف منہ کیے سو رہی ہے۔۔۔اور اس کی سیکسی گانڈ میری طرف تھی۔۔۔اس کی گانڈ کو دیکھتے ہی میرا لن پھر سے سر اٹھانے لگا۔۔۔میں نے اپنے لن کو تھوک لگایا اور اس کی ایک ٹانگ اٹھا کر تھوڑی آگے کو کی اور لن کو اس کی پھدی کی لکیر میں پھیرنے لگا۔۔۔ساتھ ساتھ اس کے مموں اور گانڈ پر بھی ہاتھ پھیرتا رہا۔۔۔سدرہ شاید کوئی سیکسی خواب دیکھ رہی تھی یا پھر میری حرکتوں کو ہی خواب سمجھ رہی تھی۔۔۔اس لیے اس کی پھدی کافی گیلی ہو رہی تھی۔۔۔میں نے سدرہ کی اوپر والی ٹانگ کو تھوڑا اور آگے کیا اور اپنے لن کو اچھی طرح سے تھوک لگا کر ایک ہاتھ سے اس کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے نپل کو مسلتے ہوئے ایک زور کا گھسہ مارا تو نیند میں ہی اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔۔۔اور ساتھ ہی اس کی آنکھ کھل گئی پہلے تو اس نے بجلی کی سی تیزی سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن میرے ہاتھ کی گرفت نے اسے اٹھنے سے روک دیا۔۔۔اتنی دیر میں وہ بھی ساری سچویشن کو سمجھ چکی تھی تو سی سی کرتے ہوئے مجھے لن باہر نکالنے کو بولا۔۔۔جیسے ہی میں نے لن باہر نکالا تو وہ میری طرف مڑی اور کھٹکنی بلی کی طرح دانت نکوستے ہوئے مجھے دونوں ہاتھوں سے مارنے لگی۔۔۔کمینے،پین چود،گانڈو،۔۔۔یہ کیا حرکت تھی۔۔۔کیا میں نے منع کیا تھا جو ایسے حملہ کیا۔۔۔میں نے اس کے ہاتھوں کی ضربوں سے خود کو بچاتے ہوئے کہا۔۔۔جانو کیا کرتا۔۔۔سوتے ہوئے تیری گانڈ میں طرف ہو گئی تھی تو میرے لن نے مجھے جگا دیا۔۔۔اور اتنی چکنی اور خوبصورت گانڈ دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا۔۔۔ لڑکی کی تعریف جس چیز کی بھی کرو وہ خوش ہی ہوتی ہے۔چاہے گانڈ کی ہی تعریف کرو۔۔۔ سدرہ اپنی تعریف سن کر تھوڑا ٹھنڈی ہوئی لیکن پھر بھی آنکھیں نکالتے ہوئے بولی۔۔۔گانڈو لن تو تم نے پھدی میں ڈالا ہے۔۔۔تعریف گانڈ کی کر رہے ہو۔مطلب جھوٹی تعریف کر کے بچنا چاہتے ہو۔۔۔تو میں نے اسے اپنے گلے سے لگاتے ہوئے کہا جانو میں سچ کہہ رہا ہوں آج تک اتنی پیاری گانڈ نہیں دیکھی۔۔۔میرا بہت دل کیا تیری گانڈ مارنے کو پر دماغ نے سمجھایا کہ نہیں پہلے اپنی جان کی پھدی کی پیاس بجھا دو۔۔۔اپنا شوق پھر پورا کر لینا۔اس لیے دماغ کی سنی اور لن کو پھدی میں پیل دیا۔۔۔سدرہ نے میری بات سنی تو خوشی سے پھول گئی اور ہاتھ نیچے کر کے میرے لن کو سہلاتے ہوئے بولی سمیر صاحب آپ ہوا کے جھونکے کی طرح آئے ہیں اور واپس چلے جائیں گے۔۔۔میں تمہیں تمہاری مرضی ضرور کرنے دیتی پر مجھے میرا انعام چاہیے۔۔۔یاد ہے نا رات کو ذکر ہوا تھا۔۔۔تو وہ انعام یہی ہے کہ میں اپنا پہلا بچہ تم سے چاہتی ہوں۔۔۔تو جتنے دن بھی تم یہاں ہو مجھے روزانہ کم از کم ایک دفعہ ضرور چودو۔۔۔میری پھدی میں روزانہ اپنا پانی نکالو۔۔۔مجھے تمہارے بچے کی ماں بننا ہے۔۔۔پہلا حمل تم سے کروانا چاہتی ہوں۔۔۔ یہ کہہ کر سدرہ اٹھی اور میری ٹانگوں کے بیچ لیٹتے ہوئے میرے لن کو منہ میں لے کر قلفی کی طرح چوسنے لگی۔۔۔اور میں دل میں سوچ رہا تھا کہ بچے وچے کا تو مجھے نہیں پتہ پر بھابھی تجھے چودوں گا تو ایسے کہ مدتوں یاد رکھو گی۔۔۔کچھ دو منٹ تک میرے لن کو مسلسل چوسنے کے بعد سدرہ اٹھی اور میری سائیڈ پر لیٹ گئی اور مجھے اوپر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔میں نے اس کے اوپر آتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگیں اوپر اٹھائیں اور سائیڈوں پر کھولتے ہوئے اپنا لن اس کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے میں پورا لن اندر ڈال دیا۔۔۔لن کی ٹوپی اس کی پھدی کو چیرتی ہوئی اس کی بچہ دانی میں گھس گئی۔اور سدرہ کے منہ سے مزے کی وجہ سے اففففففففف نکل گیا۔۔۔ میں نے گھسے مارنے شروع کیے تو اس نے بھی نیچے سے اپنی گانڈ ہلا ہلا کر پھدی کی تال میرے لن کے ساتھ ملانا شروع کر دی۔۔۔اس کی پھدی کافی گیلی ہو چکی تھی جس کیوجہ سے اسے مزہ آنا شروع ہو گیا تھا۔۔۔تھوڑی دیر ایسے ہی چودنے کے بعد میں نے سدرہ کی دونوں ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھ کر لن اندر ڈالا اور دوبار گھسوں کی پمپ ایکشن چلا دی۔۔۔سدرہ کی پھدی کے ہونٹ اتنی چدائی کی وجہ سے تھوڑا سوج چکے تھے۔۔۔اب تو میں جیسے ہی گھسہ مارتا اس کے منہ سے بے اختیار نکل جاتا۔۔۔افففففففف۔ظا۔۔۔۔ظالم۔۔م۔م۔م۔۔۔۔پھاڑ دتی میری پھدی۔۔۔ہائے نی ماں میں لوڑے لگ گئی۔۔۔میری پھدی دا پھدا بنا چھڈیا۔۔۔افففففف۔۔۔سمیر جانو۔۔۔تیرا تگڑا لن میری پھدی دا حشر خراب کیتی جاندا۔۔۔ٹھوک اس پین چود نوں۔۔۔وجا۔۔۔وجا۔۔۔ہور۔۔۔۔وجا۔۔۔۔اپنے سوٹے ورگے لن نال سٹاں مار مار۔۔۔پھدی پولی کر دے۔۔۔ ہائےماں۔۔۔۔مر گئی۔۔۔۔۔ سدرہ کی یہ سیکسی باتیں مجھے اور بڑھاوا دے رہی تھیں اور میرے گھسے مارنے کی سپیڈ نوے تک پہنچ گئی۔۔۔دو منٹ بعد ہی سدرہ کہنے لگی۔۔۔سمیر زور دی۔۔۔میں چھٹن لگی۔۔۔۔آں۔۔۔۔مجھے بھی لگ رہا تھا کہ اب میرا بھی پانی نکلنے لگا ہے۔اوپر سے سدرہ کی سیکسی باتیں سنتے ہی میرا لن ہار مان گیا اور اس کی بچہ دانی کو منی سے بھرنے لگا۔۔۔ کچھ دیر بعد ہی میں سدرہ کے کمرے سے باہر نکل رہا تھا۔۔۔اس وقت صبح کے چھ بج رہے تھے۔تو آفتاب کے کمرے میں جا کر میں سو گیا۔۔۔دوبارہ میری آنکھ 9 بجے کھلی۔۔۔نہا دھو کر میں نیچے آیا تو سب لوگ ناشتہ کر رہے تھے۔۔۔میں بھی ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ گیا اور گھر والوں کے ساتھ ہی ناشتہ کیا۔۔۔ناشتے کے بعد آفتاب کے پاپا مجھ سے گھر کے متعلق اور دادی امی کے بارے میں خیر و عافیت پوچھنے لگے۔۔۔اس کے بعد خاندان کے متعلق باتیں ہوتی رہیں تو ٹائم کا پتہ ہی نہیں چلا اور ٹھیک بارہ بجے جب ہم لوگ چائے پی رہے تھے۔۔۔آفتاب اور ارمغان گھر میں داخل ہوئے۔۔۔اس وقت آفتاب کے پاپا ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور میں نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی اور اٹھ کر اوپر آفتاب کے کمرے میں چلا گیا۔کیونکہ میں جانتا تھا کہ آفتاب سیدھا اوپر ہی آئے گا۔۔۔اور وہی ہوا تھوڑی دیر بعد ہی آفتاب کمرے میں داخل ہوا اور تھکا ماندا میرے ساتھ ہی لیٹ گیا۔۔۔چند سیکنڈز کی خاموشی کے بعد آفتاب بولا سوری جگر کام کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ مجھے جانا پڑا لیکن تم بے فکر رہو آج ہی میں کچھ جگاڑ لگاتا ہوا اور تیری مومو کی خبر نکالے دیتا ہوں۔۔۔میں اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔۔۔چونکہ وہ سفر سے آیا تھا تو جلد ہی سو گیا اور میں کمپیوٹر آن کر کے موویز دیکھنے لگا۔۔۔اسی طرح موویز دیکھتے ہوئے میں نے کافی ٹائم گزار لیا۔۔۔شام پانچ بجے آفتاب نیند سے جاگا اور نہا دھو کر فریش ہوا۔۔۔تو بولا کہ چل جانی بھوک بہت لگی ہے۔۔۔صبح سے ناشتہ کیا ہوا ہے۔۔۔

 

یوں ہی۔راہ چلتے

 

 


یوں ہی۔راہ چلتے

نعیم بہت تیزی سے گاڑی بھگا رہا تھا ، سو کے قریب سپیڈ والی سوئی چلی گئی تھی ، نعیم اکیلا ہی تھا وہ گاڑی کو چیک کر رہا تھا کہ اب انجن کیسا کام کر رہا ھے پہلے گاڑی پچاس تک بڑی مشکل سے پہنچتی تھی لیکن اب گاڑی ایسے تھی جیسے زیرو میٹر ، میٹر کی سوئی ایک سو بیس تک جا رہی تھی -نعیم پنجاب پولیس میں ایک ڈرائیور تھا ، آج صبح وہ ڈیوٹی پہ واپس آیا تھا تو اسے پتا چلا تھا کہ کل گاڑی کا کام کروایا گیا ھے اس لئے وہ چیکنگ کے لئے نکلا تھا باقی ملازم ابھی ناشتہ کر رہے تھے اس لئے وہ اکیلا ہی تھا – نعیم چیکنگ کے بعد نارمل سپیڈ سے واپس پولیس سٹیشن آ رہا تھا کہ نہر کے پاس اسے کچھ لوگوں نے رکنے کا اشارہ کیا ، نعیم نے گاڑی روکی تو لوگوں نے اسے بتایا کہ ایک لڑکی خودکشی کرنے لگی تھی اور ہم نے اسے پکڑ رکھا ھے لیکن ہمیں وہ گالیاں دے رہی ھے ، نعیم نے لڑکی کا پوچھا تو وہ ایک طرف کھڑی تھی اور دو تین مرد اس کے اردگرد کھڑے تھے ، نعیم نے لڑکی کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا تو وہ گاڑی کے دروازے کے پاس آ گئی – نعیم نے پوچھا کیوں خودکشی کرنے لگی تھیں ؟ وہ آگے سے خاموش رہی نعیم نے لوگوں سے پوچھا کہ اسے روکا کس نے تھا ؟ تو ایک آدمی آگے آیا ،بقول اس کے “کہ لڑکی نے جوتا اتارا اور اپنا دوپٹا اتار کر پل کی دیوار پر رکھا اور دیوار پر چڑھنے لگی تو میں نے اسے پکڑ لیا “-نعیم نے پوچھا تم اس وقت اس کے پاس کیسے پہنچے ؟میں وہاں سے گزر رہا تھا میری نگاہ اس پر تب پڑی جب یہ پل پر کھڑی ہوئی ، میرے سامنے اس نے دوپٹا اتارا اور جب جوتا اتار کر اوپر دیوار پر چڑھنے لگی میں اس وقت قریب پہنچ گیا تھا اور اسے پکڑ لیا، اس آدمی نے تفصیل بتائی –نعیم نے لڑکی سے دوبارہ پوچھا کہ کس وجہ سے مرنے لگی تھیں لیکن وہ خاموش رہی -نعیم نے لڑکی کا جائزہ لیا اس کے اندازہ کے مطابق لڑکی کی عمر لگ بھگ بائیس سال تھی اور وہ ایک قبول صورت لڑکی تھی ، سانولہ رنگ ، پتلے پتلے ہونٹ ، اور بھاری چھاتی مطلب کہ نسوانی حسن سے مالا مال تھی اور قد بھی عام عورتوں سے تھوڑا نکلتا ہوا تھا اسے کسی حد تک خوبصورت سمجھا جا سکتا تھا جب نعیم نے دیکھا کہ وہ خاموش ھے اور اس کے سوالوں کا جواب نہیں دے رہی تو اس نے لوگوں سے پوچھا کہ کوئی اس کو جانتا ھے ؟ تو سب نے نفی میں جواب دیا نعیم نے اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا تو وہ پیچھے بیٹھ گئی ، نعیم نے لوگوں سے پوچھا ساتھ میں کون جائے گا بطور گواہ ؟کسی نے بھی ساتھ جانے کی حامی نہ بھری ،لوگ پولیس سے ایسے ڈرتے ہیں جیسے بواسیر والا بندہ سالن میں تیز مرچوں سے ،نعیم نے جب دیکھا کہ ساتھ کوئی بھی نہیں جائے گا تو اس نے لڑکی کو آگے افسر والی سیٹ پہ بلا لیا مبادہ پیچھے سے کہیں کود ہی نہ جائے –لڑکی نعیم کے ساتھ بیٹھ گئی اور نعیم نے گاڑی آگے بڑھا دی ، نعیم نے اس کی طرف دیکھا وہ خاموشی سے ہونٹ کاٹ رہی تھی ، نعیم کی نگاہ اس کی چھاتی پر پڑی جس پر دوپٹا ہٹا ہوا تھا ، لڑکی کی تگڑی چھاتی دیکھ کر نعیم کی پینٹ میں تھوڑی ہلچل ہوئی اور اس کے سات انچ لمبے موٹے لن میں اکڑاہت پیدا ہونا شروع ہو گئی ، نعیم نے اپنا ہاتھ گئیر سے اٹھا کر اپنے لن پہ رکھا اور اسے مسلنے لگا ، لڑکی نے کن آنکھیوں سے نعیم کے ہاتھ کی طرف دیکھا جس سے اس نے اپنا لن پکڑا ہوا تھا اور اسے مسل رہا تھانعیم نے جب دیکھا کہ لڑکی نے اسے لن مسلتے دیکھ لیا ھے تو اس نے اپنا ہاتھ وہاں سے اٹھا کر سٹئیرنگ پر رکھ لیا –اس نے لڑکی سے اس کا نام پوچھاسونیا لڑکی نے آہستہ سے جواب دیانعیم نے اس سے پوچھا کیوں مرنا چاہتی ہو ؟سونیا نے کوئی جواب نہیں دیا سونیا خاموش تھی لیکن نعیم کے ذہن پر سیکس سوار ہو چکا تھا اور اس کے ذہن پر شیطانیت چھا چکی تھیاس نے سونیا کی طرف دیکھا اس کی جاندار چھاتی اب بھی علیحدہ ہی نظر آ رہی تھی دوپٹا ہٹا ہوا تھا ، نعیم نے دوبارہ سے پوچھا سونیا کیوں خودکشی کرنے لگی تھیں ؟امی سے لڑائی ہوئی تھی اسلئے مرنا چاہتی تھی سونیا نے اھستگی سے جواب دیا،ابھی تمہاری عمر ہی کیا ھے ، تم نے ابھی دیکھا ہی کیا ھے اس دنیا میں ؟(نعیم کا ہاتھ سٹیئرنگ سے گئیر پر ) یہ دنیا بہت خوبصورت ھے تمہیں شاید ابھی اس کا احساس نہیں ھے – یہ کہتے ہوئے اس کا ہاتھ سونیا کے ران پر رینگ گیاسونیا کی نرم ران پر نعیم کا ہاتھ آھستگی سے حرکت کرنے لگا ، سونیا ایسے تھی جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو ، اس کی طرف سے کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں تھی کوئی روک نہیں تھی لیکن چہرے پہ اقرار کا بھی کوئی شائبہ تک نہیں تھا ایسے لگتا تھا جیسے اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس قسم کا ردعمل ظاہر کرے گھر سے وہ خودکشی کرنے نکلی تھی اور پھر پولیس کی گاڑی میں پولیس والا اپنی حد سے بڑھ رہا تھا لیکن دماغ پہ بےحسی چھائی ہوئی تھی لیکن اس کی بے حسی اسوقت ختم ہو گئی جب نعیم کا ہاتھ اھستگی سے اس کی رانوں کے درمیان اس کے سوراخ کی طرف بڑھا اور اس کے سوراخ کے دیواروں کو نعیم کی انگلیوں نے چھوا تو اس کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور کرنٹ کی ایک لہر اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی اور سونیا نے بے اختیار نعیم کا ہاتھ پرے دھکیل دیا سونیا ہوش کی دنیا میں واپس آ چکی تھی -‏ نعیم نے اس کی طرف سے مزاحمت محسوس کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کی رانوں کی طرف دوبارہ نہ بڑھایا –نعیم پہلے اسے باتوں سے رام کرنا چاہتا تھا اسے پتا تھا کہ یہ ابھی جذباتی ھے اور خودکشی کرنے آئی تھی ایسے میں کوئی مسلئہ ہی کھڑا نہ کر دے اور اسے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں –نعیم نے صدیوں پرانا عورتوں کے لئے بنا ہتھیار استمال کرنے کا فیصلہ کیا جس سے عورت عام طور پر چت ہو جاتی ھے جی ہاں آپ صحیح سمجھے اس ہتھیار کا نام ھے تعریف –سونیا تم بہت حسین ہو ، تمہارا حسن ہی ایسا ھے کہ زاہد بھی گناہ پر آمادہ ہو جائے ، سوری sorry میں بہک گیا تھا نعیم نے سونیا پر تعریف کا جال پھینکتے ہوئے کہا –سونیا بالکل خاموش رہی اس نے کوئی جواب نہیں دیا –نعیم نے لاگ بک سے پنسل اور ورک لیا اور اس پر اپنا نمبر لکھ کر سونیا کی طرف بڑھایا ، یہ کہتے ہوئے کہ کسی قسم کا کوئی مسلئہ ہو تو تم اس نمبر پر رابطہ کر لینا میں آپ کی ہر طرح کی مدد کروں گا سونیا تم بہت پیاری ہو ، وہ زندگی جسے تم ختم کرنے جا رہی تھیں اسے میرے نام کر دو سونیا نے کوئی جواب نہیں دیا وہ خاموش بیٹھی رہی ، سونیا نے نعیم کے موبائل نمبر والا کاغذ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا ، نعیم نے سوچا سونیا سے پولیس سٹیشن میں کوئی اس کاغذ کے بارے میں ہی نہ پوچھ لے اور اس کا نمبر دیکھ کر اس کے ساتھی اس کا مذاق ہی نہ اڑائیں – نعیم نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے لیا – سونیا نے اس پر بھی کوئی ری ایکشن نہیں دیا اس دفعہ بھی خاموش تھی –نعیم نے اسے اپنا نمبر زبانی بتایااور دو تین دفعہ دوہرایا ، اس دوران پولیس اسٹیشن آ گیا اور نعیم سونیا کو لے کر انچارج کے کمرے میں چلا گیا – انچارج ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا اور شوگر کا مریض تھا اسلئے وہ عورتوں کو شہوت بھری نظروں سے دیکھنے کے قابل نہیں رہا تھا اس نے سونیا کو سرسری نظروں سے دیکھا اور نعیم سے پوچھا کہ یہ کون ھے ؟یہ خودکشی کرنے لگی تھی اور بس چند لمحے دیر ہو جاتی تو اس وقت یہ آپ کے سامنے کھڑی نہ ہوتی باجوہ صاحب نعیم نے انچارج کو بتایا – یہ نہر والے پل پر سے کودنے لگی تھی کہ ایک آدمی نے پیچھے سے پکڑ لیا اور میرے حوالے کر دیا میں اسے آپ کے پاس لے آیا ھوں باقی کی قانونی کاروائی آپ کی بوریت کا سبب بن سکتی ھے اسلئے حذف کر رہا ھوں لیکن ایک دلچسپ بات آپ کو بتاتا چلوں کہ خودکشی واحد جرم ھے جس کی تکمیل پر مجرم کو سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ کہ سزا زندہ افراد کے لئے ھے –لڑکی کا معاملہ تھا اسلئے اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں کی گئی اور اسے اس کے والدین کے حوالے کر دیا گیا – ایک دو دن تک سونیا نعیم کے حواس پر چھائی رہی اور پھر ایک نائکہ کے پاس نئی آئی لڑکی کے ساتھ رات گزارنے کے بعد سونیا نعیم کے ذہن سے نکل گئی –اس واقعہ کے تقریبا دس سے پندرہ دن بعد رات دو بجے کے قریب نعیم کے موبائل پر ایک انجان نمبر سے کال آئی ، آواز لڑکی کی تھی –


آپ کون ؟ لڑکی نے نعیم سے پوچھا سونیا کی اپنی امی سے کسی بات پر تکرار ہوئی تھی اس کی امی نے سونیا کو گاؤں کی جاہل عورتوں کی طرح گالیاں دینا شروع کر دی ایک گالی نے سونیا کو جذباتی کر دیا کیونکہ اس کے دل میں چور تھا وہ اپنے کزن سے چدوا چکی تھی جب اس کی ماں نے اسے گشتی کہا تو نہ جانے کیوں سونیا کے دل پہ یہ گالی تازیانے کی طرح لگی اور وہ جذباتی ہو کر مرنے کے لئے گھر سے نکل آئی ماں نے سمجھا پاس پڑوس کے کسی گھر میں گئی ھے – سونیا نے نہر میں ڈوب کر مرنے کا سوچا اور نہر پہ چلی گئی اس کی زندگی ابھی باقی تھی عین اسوقت جب وہ چھلانگ لگانے کے لئے پل کی دیوار پر چڑھی تو اسے کسی نے پکڑ لیا اور وہ چاہنے کے باوجود بھی مر نہ سکی – لوگوں نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا – گاڑی میں پولیس والے نے پہلے اپنے لن کو ہاتھ میں لے کر مسلا تھا سونیا نے کن آنکھیوں سے اس کی ساری کاروائی دیکھی تھی اس کا موٹا لمبا لن پینٹ میں پھڑپھڑا رہا تھا اور اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا سونیا اس وقت گبھرائی ہوئی تھی وہ پولیس کی حراست میں تھی اور جو لڑکی ایک دفعہ تھانے کا چکر لگا لے تو اسے معاشرہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا وہ بہت پریشان تھی کیونکہ اب بدنامی اس کے ماتھے کا ٹیکہ بننے والی تھی وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ اسے اپنی رانوں پر پولیس والے کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا ، پریشانی نے اس کے ہوش اڑائے ہوئے تھے اس سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کیا کرےاس دوران پولیس والے کا ہاتھ اس کی چوت کے دانے سے ٹکرایا تو اس کے جسم نے ایک جھرجھری لی اور اس نے اس کا ہاتھ بے اختیار جھٹک دیا لیکن چوت کے دانے پر پولیس والے کے ہاتھ نے اس کے اندر کی عورت کو جگا دیا تھا وہ ساری پریشانی بھول چکی تھی اور دوبارہ سے پولیس والے کی طرف سے جسمانی چھیڑ چھاڑ کی منتظر تھی لیکن اس نے دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہ کی اور باقاعدہ اس سے معذرت کی ، جب اس نے سونیا کے حسن کی تعریف کی تو سونیا کی چوت میں کچھ کچھ ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن بات تعریف سے آگے نہیں بڑھی ، جب پولیس والے نے اسے نمبر والی پرچی دی تو سونیا خاموش رہی اور واپس لینے پر دل میں حیران بھی ہوئی تھی لیکن جب پولیس والے نے اپنا نمبر زبانی دہرایا تو اس کے ذہن میں یہ نمبر فکس ہو گیا تھا – اس وقت اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کا کسی قسم کا پولیس والے سے تعلق بنے گا تھانے سے جب اس کے ابو اسے گھر لائے تو گھر والوں نے بہت لعنت ملامت کی اور سونیا نے گھر والوں سے ایسے دوبارہ نہ کرنے کا وعدہ کر لیا –اسی رات سونیا سوئی تو خواب میں اس پولیس والے کو دیکھا – سونیا اور وہ سیکس کر رہے تھے اس کا موٹا تازہ لن جب اس کی چوت میں ایک جھٹکے سے داخل ہوا تو ایک چیخ سونیا کے منہ سے نکلی اور اس کی آنکھ کھل گئی سونیا کی چوت گیلی ہو چکی تھی اس کی ماں نے پوچھا کیا ہوا سونیا ؟خواب میں ڈر گئی تھی سونیا نے اپنی امی سے کہا – کمرے کی لائٹ آن on تھی اور سونیا اپنے بستر میں تھی، کوئی مشکوک بات نہ تھی اسلئے اس کی ماں نے کہا بیٹی کچھ پڑھ کر سویا کرو ، یہ کہہ کر اس کی ماں نے دوسری طرف کروٹ لے لی –لیکن سونیا کی نیند اڑ چکی تھی ، یہ نہیں تھا کہ سونیا نے پہلے کبھی سیکس نہیں کیا تھا، سونیا پہلے اپنے کزن کے ساتھ سیکس کر چکی تھی ،ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک دن سونیا کا کزن ان کے گھر آیا گھر میں کوئی نہیں تھا سوائے سونیا کے – سونیا کے کزن نے اس دن سونیا سے زومعنی مذاق کئے تھے لیکن عملی طور پر کوئی حرکت نہیں کی تھی ، سونیا جوان تھی تنہائی میں جب اس کا کزن آیا تو اس کا ذہن پراگندہ ہو گیا تھا اور وہ سیکس پر بھی آمادہ تھی لیکن کزن کی بدقسمتی کہ وہ نہ سمجھ سکا اور اس کے جانے کے بعد تھوڑی ہں دیر بعد اس کا دوسرا کزن آ دھمکا تھا اس نے تنہائی اور موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سونیا کے ممے پیچھے سے آ کر پکڑ لئے جب وہ کچن میں اس کے لئے چائے بنا رہی تھی سونیا نے معمولی سی مزاحمت کی اور پھر اس کی بانہوں میں سما گئی ، وہ سونیا کو کمرے میں لے گیا وہاں اس نے سونیا کے مموں کو اتنا چوسا تھا کہ اگلے دن تک بھی لالگی نہیں گئی تھی پھر جب اس نے سونیا کی شلوار اتار کر اس کی چوت پہ اپنا لن رکھا تھا تو سونیا کے جسم میں مزے کی لہریں گردش کرنا شروع ہو گئی تھیں اور مزے کی یہ لہریں اس وقت تھم گئیں جب سونیا کے کزن نے اس کی چوت کے سوراخ کو ایک جھٹکے سے کھول دیا اور اس کے کنوارے پن کی جھلی کو بیدردی سے پھاڑ دیا جس سے سونیا کو ایسے لگا تھا جیسے اس کی پھدی میں کسی نے کوئی تیر چھوڑ دیا تھا بے اختیار اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی اور پھدی سے خون تیز جھٹکوں سے سونیا کی بیدردی سے چدائی کی تھی جس میں مزا بالکل بھی نہیں اور صرف درد ہی درد تھا ، اس چدائی کے بعد سونیا نے سیکس سے توبہ کر لی تھی اور دوبارہ اپنے اس کزن کو موقع نہیں دیا تھا – پولیس والے نے دو سالوں کے بعد دوبارہ سے اسے کے جسم کی آگ پر تیل پھینک دیا تھا اور وہ دوبارہ سے سیکس کے لئے آمادہ ہو گئی تھی ، اس کے پاس پولیس والے کا نمبر تھا لیکن بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی لیکن پھر ایک رات اس نے پولیس والے کا نمبر ڈائل کر ہی دیا ، پولیس والے سے سونیا نے پوچھا آپ کون؟نعیم لڑکی کی آواز وہ بھی رات میں سن کر حیران رہ گیا ، اس نے کہا میں نعیم ھوں –آپ ؟سونیا نے کہا میں بتاتی ھوں پہلے آپ بتاؤ آپ جاب کیا کرتے ہیں ؟میں پولیس میں ہوتا ھوں –میں سونیا جس کو آپ نہر والے پل سے پولیس سٹیشن لے کر گئے تھے –اچھا وہی خودکشی والی ؟جی میں وہی ھوں ؟ سونیا نے کہا –نعیم آپ کیسی ہیں ، آپ تو جا کر بھول ہی گئیں ؟اگر بھولی ہوتی تو کال کیسے کرتی آپ کو ؟ آپ سنائیں پولیس والے کیسے ہیں آپ ؟میں ٹھیک ھوں آپ سناؤ ؟میں بھی ٹھیک ھوں ، ویسے آپ بہت شرارتی ہیں پولیس والے ، سونیا نے کہا – اسطرح نعیم اور سونیا میں دوستی ہو گئی ، یہ دوستی بے تکلفی میں بدل گئی اور پھر نعیم نے سونیا سے پوچھا ،جان و نعیم آپ کا نمبر کیا ھے ؟سونیا ہنستے ہوئے جوتے کا ؟نعیم نے بھی ایک قہقہ لگایا اور کہا نہیں جی آپ کی نرم و گداذ چھاتی کا –سونیا : آپ نے کب اس کا گداذ دیکھا؟ دیکھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور دور سے ہی پہچان لیتے ہیں آپ تو بالکل میرے ساتھ بیٹھیں تھیں گاڑی میں اور دوپٹہ بھی ہٹا ہوا تھا ، سچ پوچھو تو اس دن آپ کی چھاتی دیکھ کر ہی میرے بدن میں گرمی چڑھ آئی تھی نعیم نے کہا –سونیا نے کہا جی مجھے پتا ھے آپ بہت بدتمیز ہو ، ویسے آپ کی نوکری بہت مزے کی ھے –جی ہاں بہت مزے کی ھے – بیس ہزار تنخواہ ھے گھر کا ماہانہ خرچ بچوں کی فیس، بجلی گیس کا بل بھی ان بیس ہزار میں ، بیوی بچے بیمار ہو جائیں تو ان بیس ہزار میں سے ہی علاج کروانا پڑتا ھے ، والدین میں سے کوئی بیمار ہو تو بھی ان بیس ہزار میں علاج کروانا پڑتا ھےحکومت نے کوئی سہولت نہیں دی ایک تنخواہ کے علاوہ اور تنخواہ بھی اتنی زیادہ کہ دس دن نہیں چلتی ، مزے کی بات یہ ھے کہ بنک والے بھی پولیس کو لون loan نہیں دیتے بہت سارے پولیس والوں کے گھر والے اس لئے مر جاتے ہیں کہ ان کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں ہوتے اور حکومت کی طرف سے ایسی کوئی سہولت بھی نہیں ھے کہ اپنا یا گھر والوں کا علاج کروا سکیں ، نعیم کی تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ درمیان میں سونیا بول پڑیپولیس والے تم تو سرئیس ہی ہو گئے میں نے تو ایسے ہی بات کی تھی میں بھی آپ کو ایسے ہی بتا رہا ھوں تاکہ تمہیں پتا چل سکے کہ ہم کتنے مزے میں ہیںنعیم نے سونیا سے کہا اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے : بس سونیا مجبوری میں نوکری کر رہے ہیں ورنہ کوئی حال نہیں پولیس والوں کا ، ہم سے تو ریڑھی والے اچھے ہیں جو اپنی مرضی تو کر سکتے ہیں ہم عید والے دن بھی ڈیوٹی پہ ہوتے ہیں گھر والوں کے ساتھ عید بھی نہیں منا سکتے ،پولیس والے اب بس بھی کرو سونیا نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ،نعیم ذرا پھر سے کہناکیا ؟ سونیا نے پوچھا –پولیس والےآپ کے منہ سے بہت اچھا لگتا ھے ایک دم سٹائلس نعیم نے کہا ،پولیس والے ،پولیس والے ،پولیس والے ،پولیس والے ،پولیس والے ، سونیا نے ایک ہی سانس میں چار پانچ دفعہ بول دیا –نعیم ایسے نہیں ، تو پھر کیسے سونیا نے کہا ؟ نعیم چھوڑو ان باتوں کو – میں نے تم سے تمہارا نمبر پوچھا تھا ؟ چھتیس کا برا پہنتی ھوں سونیا نے کہا،وڈے وڈے ممے پتا نہیں کب ہاتھ میں آئیں گے ؟ نعیم نے اسکی چدائی کے عزائم ظاہر کرتے ہوئے کہاسونیا اور نعیم بے تکلفی سے آگے نکل چکے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کرنا چاہتے تھے اسلئے وہ دونوں بہت بولڈ ہو چکے تھے – سیکس جذبات کا اظہار فون پر اور سیکس کی خواہش پوری کرنے کے ایکدوسرے سے ملنے کے لئے انہیں بے چین کیے ہوئے تھی نعیم نے اس کے ممے پکڑنے کی خواہش کا اظہار سونیا سے اسلئے کیا تھا تاکہ واضح ہو سکے کہ سونیا کی چوت سے لطف اٹھانے کے لئے اسے کتنا انتظار کرنا پڑے گا – میرے ممے تمہارے ہاتھ میں کیوں پولیس والے ؟ سونیا نے مسکراتے ہوئے کہا –سونیا ہاتھوں میں نہیں تو پھر منہ میں سہی ، اب تو کوئی اعتراض نہیں ؟ نعیم نے بے تکا سا جواب دیا –سونیا نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا پولیس والے بہت جلد میں تم سے ملنے آؤں گی ،ایسے ہی باتوں سے نعیم اور سونیا کا وقت گزرتا رہا اور پھر ایک دن سونیا نے نعیم سے کہا ،میں کل بازار آ رہی ھوں اپنی سہیلی کے ساتھ ، اس نے بھی اپنے یار سے ملنا ھے ، ہم کل صبح دس بجے گھر سے نکلیں گی اور رکشہ سے صدر چوک اتریں گی ، تم سوا دس بجے صدر چوک میرا انتظار کرنا – نعیم نے اسے دس بجے صدر چوک ملنے کا وعدہ کیا نعیم کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے سونیا نے بالاخر ملنے کا ٹائم دے دیا تھا ، نعیم نے اپنے دوست کو فون کیا کہ یار مجھے کل اپنے فلیٹ کی چابی دیتے جانا – فراز نعیم کا دوست تھا جو ایک کچی آبادی میں کرائے کے کمرے میں رہتا تھا اور بس کنڈکٹر تھا وہ صبح چھ بجے نکلتا تھا اور شام آٹھ بجے واپس آتا تھا ، نعیم کی اس سے دوستی ایک ایکسیڈنٹ کے دوران ہوئی تھی جب فراز کی بس سے ایک موٹر سائیکل سوار ٹکرا کر زخمی ہوا تھا اور بات پولیس تک پہنچ گئی تھی – وہاں نعیم کو پتا چلا کہ فراز اکیلا رہتا ھے نعیم خود ایک رنگین مزاج اور عیاش انسان تھا اسلئے اس نے بس والوں کی فیور کی اور اسطرح فراز سے دوستی کر لی ، بعد میں کافی دفعہ نعیم نے اس کے فلیٹ میں رنگ رلیاں منائی تھیں اور سونیا کی چدائی بھی فراز کے فلیٹ میں کرنے والا تھا رات سونیا اور نعیم کی باتیں صبح کی ملاقات سے متعلق رہیں ، سونیا تھوڑا بہت ڈر رہی تھی جبکہ نعیم اس کا ڈر ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا ،یہ لن پھدی کا کھیل ایسا ھے جس میں بہت زیادہ رسک ہوتا ھے لیکن کوئی پروا نہیں کرتا ، یہ لڑکی کی قسمت ہے کہ اس کے ساتھ دھوکہ نہ ہو ورنہ تو لڑکی ملنے ایک سے جاتی ھے اور آگے چار لڑکے ہاتھ میں لن لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں اور پھر کئی دن چوت کی ٹکور کرتی رہتی ھے ، کبھی ایسا ہوتا ھے کہ چدائی کے دوران اوپر سے کوئی آ گیا اور لڑکی بدنام – آج تک کسی کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ایک لڑکی دن کو کاکروچ سے ڈر جاتی ھے لیکن رات میں اکیلی دو میل پیدل لڑکے سے ملنے چلی جاتی ھے ، یہ پھدی عورت کا ڈر کیسے ختم کر دیتی ھے ؟اگلے دن دس بجے سے پہلے ہی نعیم صدر چوک پہنچ گیا ، تھوڑی دیر بعد سونیا اپنی سہیلی کے ساتھ رکشہ سے اتری تو نعیم اس کی طرف چل دیا ، سونیا نے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور بہت تازہ دم لگ رہی تھی ، نعیم نے سونیا کو ساتھ لیا اور بائیک پر پیچھے بٹھا کر چل پڑا – سونیا پولیس والے کیا حال چال ہیں ؟نعیم نے کہا میں بالکل ٹھیک ٹھاک ھوں تم سناؤ ؟پولیس والے میں بھی ٹپ ٹاپ ھوں ، تم کب پہنچے صدر چوک ؟ سونیا نے پوچھا –نعیم دس بجے سے چند منٹ پہلے –واہ ! کیا بات ھے پولیس وقت سے پہلے پہنچ گئی یہ تو معجزہ ہو گیا ورنہ تو پولیس تو ہمیشہ لیٹ پہنچتی ھے سونیا نے ہنستے ہوئے کہا-پولیس وقت پہ پہنچ جائے تو مصیبت اگر لیٹ پہنچے تو بھی مصیبت نعیم نے کہا –سونیا وہ کیسے ؟ اگر کسی ڈاکو کو مار دیں بیشک وہ اشتہاری ہو تو عدالت نے یہ نہیں دیکھنا کہ اس پر پہلے سے پچاس پرچے تھے اس نے پولیس سے یہی کہنا ھے کہ ڈاکو نے فائرنگ کی تو کوئی پولیس والا نہیں مرا اور پولیس کی فائرنگ سے ڈاکو مر گیا یہ جعلی مقابلہ ھے – پھر انکوائریاں بھگتو اور عدالت میں خجل علیحدہ سے اور بہت کم افسر ساتھ دیتے ہیں –اگر پولیس والا مر گیا تو اس کے بیوی بچے رل جاتے ہیں محکمہ دوبارہ اس کے گھر والوں کو پوچھتا تک نہیں ، اس سے بہتر ھے کہ بندہ لیٹ پہنچے ، ڈاکو کبھی نہ کبھی ہاتھ لگ ہی جانے ہیں لیکن یہ زندگی نہیں – نعیم کی تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ سونیا نے اپنی چھاتیاں نعیم کے جسم سے لگاتے ہوئے کہا پولیس والے ایک تو تم سٹارٹ ہو جاؤ تو رکنے کا نام نہیں لیتے اب یہ فضول گفتگو ختم کرو کوئی اور بات کرو –سونیا کے نرم و گداذ چھاتیاں جیسے ہی نعیم کے جسم سے ٹکرائیں تو اس کے جسم میں لذت آمیز لہریں حرکت کرنے لگیں اور وہ لیکچر بھول گیا نعیم نے اپنا جسم پیچھے کر کے اس کی چھاتیاں دبائیں تو سونیا اس سے مزید چپک گئی ، ایسے ہی ایکدوسرے کو اپنے جسموں کا احساس دلاتے ہوئے وہ فراز کے کمرے میں پہنچ گئے –کمرے میں ایک سنگل بیڈ ، ایک پرانا سا صوفہ سیٹ اور کچھ گھریلو استمال کی چیزیں تھیں –سونیا صوفہ پر بیٹھ گئی اور نعیم نے اندر سے کمرے کی چٹخنی لگا دی ، چٹخنی لگاتے ہوئے نعیم کے ہاتھ اندرونی جوش سے ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے ، چٹخنی لگانے کے بعد نعیم بھی صوفہ پر سونیا کے ساتھ بیٹھ گیا – آنے والے لمحات کا سوچ کر سونیا کا جسم بھی ہولے ہولے کانپ رہا تھا –


 نعیم سونیا کے قریب ہوتے ہوئے سونیا سے رومانٹک لہجے میں کیسی ہو میری جان ؟سونیا جذبات کی شدت سے لرزتی آواز میں “میں ٹھیک ھوں نعیم نے اپنا ایک ہاتھ اس کی ران پر رکھتے ہوئے سونیا سے کہا ” آج تم سے میری ملاقات والا سپنا پورا ہو رہا ھے (اس دوران اس کی ران پر آہستہ آہستہ انگلیاں پھیرنا شروع کر دیں) مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم میرے ساتھ ہو ، آج کا دن میری زندگی کا حسین ترین دن ھے کہ دنیا کی خوبصورت لڑکی مجھ سے ملنے آئی ھے ،“آئی لو یو سونیا “ نعیم نے یہ کہتے ہوئے سونیا کو سر کے پیچھے گردن پر ہاتھ ڈالتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دئیے ، نعیم نے سونیا کے ہونٹوں کو آہستہ آہستہ چومنا شروع کر دیا اس کا اوپر والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا ، نعیم نے اپنی زبان سونیا کے منہ میں کرنے کی کوشش کی تو سونیا نے اپنے دانت جوڑ لئے اور منہ بند کر لیا ، سونیا کو شاید لپس کسنگ پسند نہیں تھی نعیم نے سونیا کے رویہ سے اندازہ لگا لیا اسلئے اس نے سونیا کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کر لئے اور اسے اپنے بازؤں میں اٹھا کر بیڈ پر لے آیا – بیڈ پر سونیا کو لٹا کر خود اس کے اوپر لیٹ گیا ، سونیا کی چھاتیاں نعیم کے سینے میں دب گئیں اور نعیم سونیا کے چہرے کو چومنے لگا ، نعیم نے اس کی گالوں پر زبان کی نوک پھیرنی شروع کر دی جس سے سونیا کے جسم میں سرور پیدا ہونا شروع ہو گیا اور اس نے اپنا ہاتھ نعیم کے بالوں میں پھیرنا شروع کر دیا ، نعیم نے جب سونیا کی گردن پر اپنے ہونٹ لگائے اور اس کی گرم سانسیں سونیا نے اپنی گردن پر محسوس کیں تو سونیا کو ایسے لگا جیسے مزا اس کی رگ رگ میں سرایت کر گیا ھے نشے کی طرح اور جب نعیم نے اس کے کان کی لو کو ہونٹوں میں لیا اور دانتوں سے ھلکے سے دبایا تو اب کی بار سونیا یہ برداشت نہ کر سکی اور بالوں کو کھینچ کر اسے اپنی گردن اور کان سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن نعیم بھی پرانا پاپی تھا اور جان گیا تھا کہ سونیا سے اب مزا برداشت نہیں ہو رہا اور بہت زیادہ لطف محسوس کر رہی ھے تو اس نے سونیا کا ہاتھ بالوں سے نکالا اور اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں اس کی انگلیوں میں پھنسا کر اس کے دونوں ہاتھوں کو جکڑ لیا اور پھر سے اس کی گردن اور کانوں چومنے لگا اور ان پر زبان پھیرنے لگا ، اب کی بار سونیا کی سانسیں تیز اور بھاری ہو گئیں اور ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کا سانس پھول گیا ہو ، سونیا کے منہ سے مزے سے بھرپور ھلکی ھلکی کراہیں نکلنا شروع ہو گئیں اور نعیم اور جوش سے سونیا کی گردن کو چومنے لگا ، نعیم کا چھ سات انچ کا لمبا اور موٹا لن مکمل تناؤ کی حالت میں آ چکا تھا اور سونیا کی رانوں پر چب رہا تھا ، سونیا نعیم کا تگڑا لن اپنی پھدی کے اردگرد محسوس کر رہی تھی جس کی چبن سے اس کی چوت مزید گیلی ہو رہی تھی نعیم سونیا کی گردن سے نیچے چوما چاٹی کرتے ہوئے آیا تو سونیا کے جسم پر ابھی بھی قمیض تھی اس نے سونیا کی قمیض اتارنے کا سوچا لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گیا ، اس نے سونیا کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس کی برا میں سے اس کی لیفٹ چھاتی باہر نکال لی ، اور اس کی براؤن نپل پر زبان کو ٹچ کرنے لگا جس پر سونیا مزے سے تڑپ اٹھی ، نعیم نے اس کی نپل ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا جس سونیا کے منہ سے آہ ، آہ ، او ، اں جیسی جنسی آوازیں خودبخود نکلنا شروع ہو گئیں اور سونیا نعیم کا سر اپنی چھاتی کی طرف دبانے لگی ، سونیا اس وقت مزے کی دنیا کی سیر کر رہی تھی ، نعیم کا لن تو کافی دیر سے کھڑا ہو چکا تھا اب اس سے مزید برداشت نہیں ہو پا رہا تھا اسلئے اس نے سونیا کی چدائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ، نعیم نے اس کی چھاتی چوسنے کے بعد اس کی شلوار کھینچی اور اسکی شلوار گھٹنوں تک نیچے آگئی نعیم نے سونیا کی شلوار کھینچی تو وہ گھٹنوں تک اتر گئی ، نعیم نے اس کی قمیض اس کی رانوں سے اٹھائی تو نیچے سونیا کی پھولی ہوئی چوت پر نعیم کی نظر پڑی جس کے لب آپس میں ملے ہوئے تھے تو نعیم کا لن ایک جھٹکا کھا کر مزید تناؤ میں آ گیا اور سونیا کی چوت کو سلامی دینے کی لئے تیار تھا ، نعیم نے تازہ شیوڈ چوت دیکھی تو اس کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے اپنے لب سونیا کی چوت کے لبوں سے ملا دئیے اور اسکی چکنی چوت میں زبان ڈال دی ، سونیا ایک دم تڑپ اٹھی اور لطف و سرور کی بلندیوں پر پہنچ گئی ، نعیم نے اس کی گیلی چوت کا ذائقہ محسوس کیا اور اس کی چوت کے اندر زبان کرنا شروع کر دی ، نعیم کبھی تو اس کی چوت پر زبان پھیرتا اور کبھی زبان اندر کرتا جس سے سونیا کے منہ سے مزے سے بھرپور جنسی آوازیں نکلنا شروع ہو گئی – نعیم چھپر چھپر اس کی چوت چاٹ رہا تھا اور سونیا مزے سے بھرپور آوازیں نکال رہی تھیں ، چند منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ سونیا کی آواز میں تیزی اور جسم میں اکڑاہت آ گئی ، نعیم کو اندازہ ہو گیا کہ سونیا اب فارغ ہونے والی ھے تو اس نے سونیا کی چوت کے دانے کو دانتوں میں لے کر آہستہ سے کاٹا اور ایک دم زبان سونیا کی چوت میں ڈال دی سونیا کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی اور پھدی سے پانی – نعیم نے اپنا چہرہ پیچھے کر لیا – سونیا آنکھیں بند کئے لیٹی مزے میں تھی ، نعیم اپنے کھڑے لن کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور وہاں پڑے ہوئے ایک کپڑے سے اپنا منہ صاف کیا اور سونیا کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا – سونیا بہت خوش لگ رہی تھی یہ اس کی زندگی کا پہلا خوشگوار سیکسی تجربہ تھا – تھوڑی دیر بعد نعیم نے اس کی چھاتی پر ہاتھ رکھا اور اس کی نپل پر انگلی گھمانے لگا ساتھ ہی اس کی چھاتی کو مٹھی میں لے کر دبانے لگا سونیا مدہوش ہونے لگی نعیم نے سونیا کی قمیض اتار دی ، سونیا کا برا اس کی چوچیوں سے نیچے تھا اور اس کی چوچیاں تنی ہوئی تھیں اور براؤن رنگ تھا ان کا – نعیم نے سونیا سے مزید تھوڑی جنسی چھیڑ چھاڑ کی اور جب دیکھا کہ سونیا کی چوت گیلی ہو چکی ھے اور وہ خود بھی چدنے کے لئے تیار ھے تو نعیم نے خود کو بھی کپڑوں سے آزاد کیا اور سونیا کی ٹانگوں کے درمیان آ کر اس پر لیٹ گیا – سونیا کی چوت کو سلامی دینے کے لئے نعیم کا جاندار لن تیار تھا نعیم نے سونیا کی ٹانگوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں اوپر کیا اور اپنا لن سونیا کی پھدی کے لبوں کے درمیان اس کے سوراخ پر ایڈجسٹ کیا – سونیا آنے والے لمحات سے ڈری ہوئی تھی اس کے ذہن میں پہلا تجربہ تھا جو انتہائی تکلیف دہ تھا – نعیم نے لن اس کی پھدی پر ایڈجسٹ کرنے کے بعد سونیا سے کہا ، سونیا اندر جانے پر تمہیں درد ہو گا لیکن تم اگر تھوڑی دیر یہ برداشت کر گئیں تو پھر مزا ہی مزا ہو گا- سونیا نے اثبات میں سر ہلایا تو نعیم نے ایک ہلکا سا جھٹکا دیا تو سونیا کے منہ سے ایک درد بھری کراہ نکلی – نعیم کے لن کی ٹوپی سونیا کی گیلی چوت میں داخل ہو چکی تھی نعیم نے چند لمحے رک کر تھوڑا سا جھٹکا مارا تو اس کا آدھا لن سونیا کی چوت میں چلا گیا اور سونیا درد سے بلبلا اٹھی – سونیا نے نعیم سے کہا پلیز اسے باہر نکالو بہت درد ہو رہی ھے – نعیم جانتا تھا کہ ایک دفعہ باہر نکال لیا تو اس نے دوبارہ سے نہیں کرنے دینا – نعیم نے سونیا سے کہا جان ! بس یہی چند لمحات تکلیف دہ ہیں بس تھوڑا برداشت کر لو اپنے اس پولیس والے کی خاطر درد کے بعد مزا آئے گا ، نعیم نے نیچے سے حرکت روک دی اور اس کے مموں کو آہستہ آہستہ دبانے لگا اور ساتھ ساتھ اس کے گالوں ، آنکھوں اور ہونٹوں پر کس کرنے لگا ، اس دوران بیچ میں وہ سونیا سے آئی لو یو ، آئی لو یو بھی سونیا کے کانوں میں کہہ رہا تھا ، نعیم کے رکنے سے سونیا کے درد میں بھی کمی آ گئی تھی اس کے چومنے سے اور کانوں میں آئی لو یو کی تکرار سے اسے پھر سے مزا آنا شروع ہو گیا تھا حالانکہ نعیم کا شاندار طاقت سے بھرپور لن ابھی بھی آدھے سے زیادہ اس کی چوت میں تھا اور اس کی حرکت سے سونیا کی گانڈ پھٹ رہی تھی مطلب اسے درد ہو رہا تھا- نعیم نے خاص طور پر نیچے اپنے لن پر نظر ڈالی کہ اس پر خون ھے یا نہیں ؟ وہاں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا نعیم کو پتا چل گیا کہ سونیا کی پہلے سے ہی چدائی ہو چکی ھے اور اسے سونیا کی چوت کی تنگی سے یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ سونیا بہت زیادہ چدی ہوئی نہیں ھے – نعیم نے آہستہ آہستہ اپنا لن باہر کرنا شروع کر دیا اور پھر جب ٹوپہ اس کی پھدی کے لبوں تک آیا تو نعیم نے اپنا تھوک اپنے لن پر گرایا اور پھر آہستہ آہستہ واپس چوت میں کرنا شروع کر دیا اس دفعہ لن بہت ہی اھستگی سے سونیا کی چوت میں جا رہا تھا اور سونیا کو بہت کم درد ہو رہا تھا، آہستہ آہستہ لن سونیا کی پھدی کی گہرائیوں میں اتر رہا تھا اور بالآخر سارے کا سارا لن سونیا کی چوت میں چلا گیا، اس بار اتنا بڑا لن لینے کے باوجود بھی سونیا کے منہ سے کسی قسم کی آواز نہیں نکلی جو تھوڑا بہت درد تھا وہ برداشت کر گئی تھی – اسلئے تو کہتے ہیں کہ اگر عورت برداشت کرنے پہ آئے تو بہت کچھ برداشت کر لیتی ھے ورنہ تو چھوٹی چھوٹی بات پہ اس کی گانڈ پھٹ جاتی ھے – نعیم نے اب دھیرے دھیرے اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا ، سلو سپیڈ سے لن چوت میں اندر باہر والا سفر طے کر رہا تھا اور بتدریج اس کی سپیڈ میں اضافہ ہو رہا تھا ، سپیڈ بڑھنے سے سونیا کی چوت میں تکلیف ہونا شروع ہو گئی تھی ، اس کا بند منہ اب کھل گیا تھا اس کے منہ سے ھلکی ھلکی درد بھری کراہیں نکلنا شروع ہو گئی اور یہ کراہیں سپیڈ بڑھنے کے ساتھ ساتھ بلند ہو رہی تھیں – ابھی تک درد ہی درد تھا مزا کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا – نعیم بھی سات آٹھ دن بعد کسی لڑکی کو چود رہا تھا اور لڑکی بھی ایسی جس کی چوت بہت زیادہ ٹائیٹ تھی ،اسلئے نعیم اپنی اصلی ٹائمنگ سے پہلے ہی ڈسچادج ہونے کے قریب پہنچنے لگا تھا ، اس نے اپنی سپیڈ بڑھا دی – اب لن ایک دفعہ پورے کا پورا باہر آتا اور رگڑ مارتا ہوا چوت کی گہرائی میں غائب ہو جاتا ، آہ ، اں ، اف. . . آہ . . . . آہ : .. جیسی درد بھری آوازیں سونیا کے منہ سے نکل رہی تھیں – نعیم کا لن بڑی روانی سے سونیا کی چوت کی سیر کر رہا تھا ، نعیم ایسے ہی سپیڈ سے آگے پیچھے کر رہا تھا اور اس کی منی اس کے ٹٹوں سے لن کی ٹوپی کی طرف سفر کرنا شروع ہو گئی ، اور چند سیکنڈ بعد لن کی ٹوپی سے نکل کر سونیا کی پھدی میں جا گری ، جس سے سونیا کی تکلیف میں کمی آ گئی منی سے لتھڑا ہوئے لن نے تھوڑی دیر ہں حرکت کی اور پھر سونیا کی چوت کی گہرائیوں کی سیر کرنے اور اسے اپنے پانی سے سیراب کرنے کے بعد باہر نکل آیا – سونیا نے فورپلے فل انجوائے کیا تھا لیکن چدائی میں اسے بالکل مزا نہیں آیا تھا یہ عمل تکلیف دہ تھا لیکن پہلی چدائی سے کم – آہستہ آہستہ یہ تکلیف بھی ختم ہو جانی ھے لیکن چدائی والا سلسلہ ختم نہیں ہونا

 


سوتیلے بھائی

 

 



سوتیلے بھائی

میرا نام رضیہ ہےمیری آنکھ ایک یتیم خانے میں کھلی تھی اور بچوں کی طرح مجھے نہیں پتا میرے ماں باپ کون تھے۔بعقول ہمارے یتیم خانے کے منیجر کے مجھے کوئی دروازے پر چھوڑ گیا تھا ۔تب سے لے کر آج تک میں کبھی اپنے ماں باپ کا پتا نہیں چلا سکی۔میری عمر 14 سال ہو چکی تھی۔جوانی میں قدم رکھ دیا تھا۔ایک دن مجھے منیجر نے اپنے آفس میں بلایا،بلانے کا مقصد مجھے جانے کے بعد پتا لگا کہ مجھے کوئی فیملی اڈاپٹ کرنا چاہ رہی تھی جو ان کے آفس میں بیٹھی ہوئی تھی وہ دو میاں بیوی مجھ سے بہت پیار سے پیش آئے اور مجھ سے کافی باتیں کی مجھے بھی ان سے باتیں کر کے اچھا لگا ،میں نے ان کے ساتھ جانے کی حامی بھر لی ۔یتیم خانے کو چھوڑنے کا دکھ بھی ہو رہا تھا یہاں میں نے زندگی کے 14 سال گزارے تھے،کافی دوست بنائے تھے پر جانے کی خوشی بھی تھی۔میں نے اپنا سامان پیک کیا اور ان کی کار میں بیٹھ کر ان کے ساتھ گھر کی طرف چل دی۔رستے میں انہوں نے اپنا تعارف کروایا میاں کا نام الطاف تھا اور ان کی بیوی کا نام آسیہ تھا ان کے 2 بیٹے تھے ان کو بیٹی کی خواہش تھی اس لیئے انہوں نے مجھے گود لیا تھا۔ گھر پہنچے کر انہوں نے اپنے بیٹوں سے میرا تعارف کروایا بڑا بیٹا 18 کی عمر کا تھا اس کا نام سلیم تھا اور چھوٹا بیٹا 16 سال کا تھا اس کا نام نعیم تھا۔انہوں نے روکھے منھ سے مجھ سے ہاتھ ملایا ان کی ناراضگی کا پتا بعد میں چلا کہ مجھے نعیم کا کمرا دیا گیا تھا رہنے کے لیئے اور نعیم کو سلیم کے کمرے میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ان دونوں نے مجھے کبھی بہن تسلیم نہیں کیا تھا ہمیشہ میں کوشش کرتی تھی ان کے ساتھ گھل ملنے کی پر ان کی سرد مہری دیکھ کر میں پیچھے ہٹھ جاتی تھی۔میرے سوتیلے ماں باپ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے میرا خیال رکھتے تھے انہوں نے مجھے اپنی بیٹی ہی سمجھا تھا ہمیشہ ، ایک دن میرے امی ابو گھر سے باہر دوسرے شہر گئے تھے اور میں گھر اکیلی تھی ۔میں نے دوپہر کا کھانا بنایا اور اپنے بھائیوں کو بلانے ان کے کمرے میں گئی میں نے دیکھا دروازہ بند تھا میں نے دھکا لگایا تو دروازہ کھل گیا اندر کا منظر دیکھ کر میرے پیروں سے زمین کھسک گئی۔ سلیم اور نعیم دونوں ایک بلیو فلم دیکھ رہے تھے اور ان کے ہاتھ اپنے ٹراؤزر میں ڈالے ہوئے تھےکمرے میں سگریٹ کی سمیل پھیلی ہوئی تھی۔مجھ کو دیکھ کر دونوں گھبرا گئے نعیم نے مجھے غصے سے ڈانٹا اور کہا دفع ہو جاؤ میرے کمرے سے۔ میں ڈر کر سہم گئی اورجلدی سے ان کے کمرے سے نکل آئی اور اپنے کمرے میں آ گئ تھوڑی دیر بعد کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو سامنے سلیم کھڑا تھا۔میں نے پوچھا جی بھائی سلیم :سوری نعیم نے تم سے بد تمیزی کی تم میرے کمرے کی صفائی کر دو گی میں:جی بھائی میں ابھی کر دیتی ہوں میں سلیم کے ساتھ چل دی کمرے میں داخل ہوئی تو مجھے نعیم نے دبوچ لیا اور مجھے بیڈ پر گرا دیا میں گھبرا گئی میں نے غصے سے کہا مجھے چھوڑو نعیم :بہن چود تم ہماری شکایت ابو کو لگا دو گی آج کل تم ان کی بہت چہیتی ہو میں:نہیں میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی مجھے جانے دو میں بیڈ پر اس طرح لیٹی تھی میرے پاؤں زمین پر تھے مجھے بازؤں سے نعیم نے پکڑا ہو ا تھا پاؤں کی سائیڈ پر سلیم آ گیا تھا میرا سر بیڈ سے پیچھے کی جانب تھا میں نعیم کو تو دیکھ سکتی تھی سلیم کو نہیں مجھے نہیں پتا وہ کیا کر رہا تھا۔اچانک اس نے میری شلوار کو نیچے اتار دیا میں سمجھ گئی سلیم کیا کرنا چاہ رہا ہے میں نے اس کو واسطے دینا شروع کر دئےاس نے اب میری شلوار کو پورا اتار دیا میں نے ٹانگیں چلانا چاہی پر اس نے میری ٹانگوں کو دبوچ لیا اور میں دیکھ نہیں پا رہی تھی وہ کیا کر رہا ہے اچانک اس نے اپنا منھ میری چوت پر رکھ دیا اور اس کو چاٹنے لگ پڑا کچھ دیر چاٹنے کے بعد اس نے منھ ہٹایا اور نعیم سے کہا بھائی اسکی چوت تو بہت مزے کی ہے سالی سیل پیک ہے آج تو لا ٹری نکل آئی نعیم:میں بھی چکھنا چاہوں گا زرا تم اس کے ہاتھ پکڑو انہوں نے اتنی پھرتی سے اپنی جگہ بدلی میں اٹھ ہی نہیں پائی اب نعیم میری چوت کو مزے سے چاٹ رہا تھا اور سلیم میرے ہونٹوں پر زبردستی کس کر رہا تھا سلیم :بہن چود اب بس بھی کر میرا لنڈ پھٹنے پر آیا ہوا ہے پیچھے ہٹ جا نعیم :بھائی مجھے اسکی اوپننگ کرنے دو سلیم:میں تم سے بڑا ہوں میں ہی اوپننگ بیٹنگ کروں گا میں پچ کو تمھارے کھیلنے کے لائق تو بنا دوں دونوں ہنس پڑے۔انہوں نے دوبارا اپنی جگہ بدلی میں نے آخری کوشش کے طور پر اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی پر کچھ فائدہ نہیں ہوا اس نے اپنے لنڈ کو میری چوت پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے سے پورا لنڈ اندر ڈال دیا مجھے درد تو ہوئی پر اتنی نہیں جتنی پہلی بار ہوئی تھی اب چیخوں کی جگہ سسکاریوں نے لے لی تھی،اب وہ مجھے چود رہا تھا جم کر جھٹکے مار رہا تھا ۔میرے جسم نے اچانک اکڑنا شروع ہو گیا مجھے لگا میرے جسم کا سارا خون میری چوت کی جانب منتقل ہو گیا ہو میری آنکھیں جیسے اوپر چڑھ گئی تھیں۔نعیم :سالی چوت تیری ویسی ہی اتنی تنگ ہے اس کو اور کیوں بھینچ لیا ہے میں اس طرح جلدی چھوٹ جاؤں گا سلیم:ارے پگلے وہ فارغ ہونے والی ہے جم کر چدائی کر ایک دو جھٹکوں کے بعد ہی میجھے ایسے لگا میری چوت نے پانی چھوڑ دیا ہو اور اس کے بعد نعیم نے اپنا لنڈباہر نکالا اور میرے منھ کی جانب آ کر ساری منی میرے منھ پر گرا دی اسکی منی میرے منھ اور بالوں پر گری جسکو اس نے اپنی انگلی سے میرے منھ میں ڈالنے کی کوشش کی میں نے سر کو پیچھے ہٹانا چاہا پر اس نے مجھے بالوں سے پکڑا اور زبردستی اپنی انگلی کو میرے منھ میں ڈال دیا عجیب نمکین سا زائقہ تھا اس نے مجھے نگلنے کو کہا میں نے ناچار نگل لی اس کے بعد اس نے جتنی منی میرے منھ پر لگی تھی اسکو انگلی سے اکھٹی کر کر کے مجھے کھلایا۔میں نے روتے ہوئے اپنے کپڑے اٹھانے چاہےپر انہوں نے کہا سالی ابھی ایک ایک راؤنڈ اور باقی ہے۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا اور بلیو فلم چلا دی میں نے زندگی میں کبھی سیکسی فلم نہیں دیکھی تھی اس میں ایک لڑکی 5 بندوں سے سیکس کر رہی تھی اور انجوائے کر رہی تھی۔میں نے نطریں جھکائی ہوئی تھیں پر اس لڑکی کی آوازیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں،وہ دونوں فریج سے کوک کے کین اٹھا لائے تھے ایک مجھے بھی دیا میرا گلا خشک ہو چکا تھا میں نے خاموشی سے کین پینا شروع کر دیا۔ وہ دونوں ساتھ ساتھ مووی دیکھ رہے تھے ساتھ ساتھ میرے جسم سے کھیل رہے تھے۔تھوڑی دیر میں ان کے لنڈ دوبارا تیا ر ہوچکے تھے انہوں نے کہا چلو ساتھ میں شاور لیتے ہیں آخری راونڈ وہاں پر ہی ہوگا میں خاموشی سے ان کے ساتھ چل دی، چلنے میں تھوڑی تکلیف ہو رہی تھی واش روم میں جا کر انہوں نے مجھے بیٹھنے کو کہا اور مجھے اپنا لںڈ چوسنے کو کہا۔ میں چپ چاپ ان کی باتیں مان رہی تھی میرے سامنے 2 موٹے تازے لنڈ میرے منھ میں جانے کے لئے بے تاب تھے۔میں نے نعیم کا لنڈ منھ میں لیا اور بلیو فلم میں جس طرح لڑکی چوس رہی تھی اس طرح اس کے لنڈ کو چوسنا شروع کر دیا۔ نعیم نے کہا اپنے دانتوں کو نہیں اپنے ہونٹوں کو استعمال کرو اس نے میری انگلی کو اپنے منھ میں لے کر مجھے چوس کر دکھائی اور اپنے منھ کو میری اانگلی پر اوپر نیچے کیا کبھی زبان نکال کر میری انگلی کو چاٹ کر مجھے سمجھایا کہ کیسے لنڈ کو چوستے ہیں۔ میں نے اس کی ہدایت پر عمل کیا تو وہ بہت خوش ہو گیا۔کوئی 5 منٹ چوسنے کے بعد وہ سامنے کموڈ پر بیٹھ گیا اور مجھے اپنے لنڈ پر بیٹھنے کا کہا میں اسکے لنڈ کو اپنی چوت پر سیٹ کیا اور اس کے لنڈ کو آہستہ اہستہ اندر لے لیا اب میں اس کے لنڈ پر اوپر نیچے ہو رہی تھی کچھ دیر کے بعد میری ٹانگیں تھک گئی تو اس نے مجھے زمین پر گھوڑی بننے کو کہا اور خود میری چوت کو جم کر چودنے لگا سلیم اب میرے منھ کی جانب آیا اور مجھے اپنا لنڈ چوسنے کو کہا ایک بھائی میری چوت کو چود رہا تھا اور ایک بھائی میرے منھ کو۔ اس بار کوئی 20 منٹ کے بعد نعیم نے اپنے لنڈ کو باہر نکالا اور اپنی گرم گرم منی میری پیٹھ پر گرا دی اب سلیم نے میرے منھ کو چھوڑا اور میری چوت کی طرف آیا،اس نے تیل کی شیشی اٹھائی اور اس نے کچھ تیل میری گانڈ پر گرایا کچھ اپنے لنڈ پرمیں سمجھی نہیں تھی وہ کیا کرنا چاہا رہا ہے اس نے میرے چوتڑ کھولے اور اپنے لنڈ کی ٹوپی کو میری گانڈ پر رکھ کر جھٹکا مارا مجھے ایسا لگا میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچ رہے ہوں درد کی شدید لہر میری گانڈ میں دوڑ گئی۔میں نے اتنی زور سے چیخ ماری میرا گلا بیٹھ گیا میں نے اس کو رو رو کر واسطے دینا شروع کر دیے




 سلیم:سالی تیری گانڈ بہیت ٹائیٹ ہے مجھے لگ رہا ہے میرے لنڈ کی کھال اتر رہی ہو ابھی صرف ٹوپی اند گئی ہے پورا لنڈ باقی ہے یہ سن کر ہی میرے اوسان خطا ہو گئے اس نے کہا میں پورا نہیں ڈالوں گا پر تیرے اس سوراخ کو تو رواں کرنا ہے نا آگے چل کر تو بہت کام آئے گی ہم دو بھائیوں کے،ابھی تو صرف آدھا بھی نہیں گیا تیرے اندر اس نے ایک دو جھٹکے مارے تو میں جیسے درد کے مارے بیہوش ہونے کے قریب ہو گئی تھی میں مسلسل رو رہی تھی ان دو جانوروں نے میری حالت خراب کر دی تھی شائید میری گانڈ کی سختی کی وجہ سے وہ جلدی فارغ ہو گیا مجھے لگا میری گانڈ میں کوئی گرم پگھلا ہوا لوہا گرا دیا ہو۔اس نے کچھ جھٹکے کھانے کے بعد اپنا لنڈ باہے نکال لیا۔مجھے ایسا لگ رہا تھا میری گانڈ میں کسی نے مرچیں بھر دی ہوں جلن اور درد بہت ہو رہا تھا ۔اس کے بعد ہم نے شاور لیا میں نے اپنے کپڑے پہنے ۔انہوں نے مجھے بیڈ کی چادر تبدیل کرنے کو کہا میں نے چادر تبدیل کی اور پرانی چادر کو جا کر دھویا بھی تاکہ اس پر لگے ہوئے میرے کنوارپن کے خون کے داغ دھل جائیں۔چادر بدلنے کے بعدمیں اپنے کمرے میں آگئی پورے جسم میں درد تھا میں بیڈ پر لیٹ کر اپنی قسمت پر رو رہی تھی۔ روتے روتے شام ہو گئی شام کو اٹھی تو فون کی گھنٹی بجی میں نے فون اٹھانا چاہا تو سلیم جلدی سے آیا اور مجھے دھمکاتے ہوئے کہا یہ یقینا ابو کا فون ہوگا تم نے ان کو کچھ بھی بتایا تو ہم تو ان کی اپنی اولاد ہیں ہم کو وہ کچھ نہیں کہیں گے تم کو گھر سے نکال دیں گے۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ فون اٹھانے کے بعد ابو نے مجھ سے حال احوال پوچھا میرا دل کیا میں زور زور سے چیخ کر ان کو انکے بیٹوں کے کرتوت بتا دوں پر مجھے سلیم کی دھمکی یاد آگئی تھی۔ میں نے ان کو کہا سب ٹھیک ہے آپ کب واپس آ رہے ہو انہوں نے دل دہلا دینے والی خبر سنا ئی کہ ہم آج نہیں آ سکتے کل دوپہر تک ہم پہنچ جائیں گے میں نے فون رکھ دیا سلیم نے دوسرے کمرے میں رکھے ہوئے ایکسٹینشن سے ساری باتیں سن لی تھیں اور وہ خوش ہو کر اپنے بھائی کو بتا رہا تھا دونوں بھائیوں کی خوشی کی وجہ میں سمجھ رہی تھی وہ آج کی رات مجھ سے اپنی گندی خواہشوں کواوراچھے طریقے سے سر انجام دینے والے تھے۔ شام کو سلیم باہر نکل گیا میں خاموشی سے گھر کے کام کرتی رہی کوئی گھنٹے کے بعد واپس آیا تو ساتھ میں کھانا لے آیا جو ہم نے مل کر کھایا میں خاموش رہی۔کھانے کے بعد میں نے برتن اٹھائے اور دھونے لگ پڑی کچھ دیر بعد سلیم نے مجھے آواز دی اور دو گلاس دودھ لانے کو کہا میں نے دودھ کو گرم کیا اور گلاسوں میں ڈال کر ان کے کمرے کے باہر آ کر دستک دی مجھے اندر جاتے ڈر لگ رہا تھا۔سلیم نے کہا اندر آ جاؤ میں:بھائی آپ دودھ پکڑ لیں مجھے گھر کا کام ہے سلیم:کام کی بچی میں نے کہا نا اندر آؤ ورنہ تجھے تیرے کمرے میں بھی آ کر چود سکتے ہیں۔ میں ججھک کر دروازہ کھول کر اندر چلی گئی ۔کمرے میں دونوں بھائی بیڈ پر بیٹھے تھے،میں نے ان کو دودھ پکڑایا سلیم نے جیب سے دو ٹیبلیٹ نکالی اور ایک خود کھائی اور دوسری نعیم کو دی جو اس نے بھی کھا کر خالی گلاس میرے حوالے کر دیا۔میں خالی گلاس لے کر واپس مڑنے لگی تو سلیم نے میری گانڈ پر زوردار تھپڑ مارا اور کہا ۔ جان تیار رہنا یہ گولی تیرے لئیے کھائی ہے آج تجھے مزے کی بلندیوں پر پہنچائیں گے۔ میں کچھ سمجھ نہیں پائی اور سر جھکا کر ان کے کمرے سے نکل آئی۔ میں کچن میں گلاس رکھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دی ابھی کمرے تک نہیں پہنچی تھی تو مجھے سلیم نے آواز دی اور کہا آ جاؤ میرے کمرے میں ۔ میں نے سر ہلا کر انکار کیا اور کہا نہیں میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے مجھے سونے دو۔ سلیم:بہن چود سالی رانڈ ہم نے گولی کھائی ہے ٹائمنگ والی کچھ دیر میں اس کا اثر شروع ہو جائے گا ۔ میں:نہیں مجھ کو دوپہر والا درد ابھی تک ہو رہا ہے سلیم نے غصے سے آ کر میرے بال پکڑ لئیے اورکہا تم کو پیار کی زبان سمجھ نہیں آتی شائید میں:اچھا بال چھوڑو میں آتی ہوں اس نے جیسے بال چھوڑے میں نے بھاگ کر اپنے کمرے میں جانا چاہا پر اس نے مجھے پکڑ لیا اور اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آیا۔ کمرے میں ٹی وی پر بلیو فلم چل رہی تھی ۔دونوں مل کرفلم دیکھنے لگ پڑ ے اور مجھ کو بیچ میں بٹھا لیا دونوں نے اپنے لنڈ ٹراؤزر سے باہر نکال لیئے اور مجھ کو پکڑنے کو کہا میں نے دونوں مل کرفلم دیکھنے لگ پڑ ے اور مجھ کو بیچ میں بٹھا لیا دونوں نے اپنے لنڈ ٹراؤزر سے باہر نکال لیئے اور مجھ کو پکڑنے کو کہا میں نے دونوں ہاتھوں سے ان کے لنڈ کو پکڑ لیا۔میں دونوں کے لنڈ کو پکڑ کر بیٹھی بلیو فلم دیکھ رہی تھی۔اب نعیم نے اپنا ہاتھ میری شلوار میں ڈال دیا اور سلیم میرے مموں کو پکڑ کر دبانے لگ پڑا ۔نعیم نے اپنی انگلی میری چوت میں ڈال دی اور سلیم سے کہا سالی کی چوت گیلی ہو رہی ہے یہ بھی انجوائے کر رہی ہے اب دونوں مجھ پر ٹوٹ پڑے ایک میری چوت کو مسل رہا تھا اوردوسرا میرے بوبس کونوچ رہا تھا ۔کبھی نعیم مجھے کس کرنے لگ پڑتاتو کبھی سلیم، اب دونوں فل تیا ر ہو چکے تھے ہم بیڈ پر آ گئےان دونوں نے اپنے کپڑے اتار دیئے تھےمجھے بھی کپڑے اتارنے کو کہا مجھے پتا تھا اب کوئی اور چارہ نہیں ہے اس لئے ان کی بات مان کر میں نے اپنے کپڑے اتار دئے اور بیڈ پر لیٹ گئی نعیم میری چوت کی طرف آ گیا اور اپنے منھ کو میری چوت پر رکھ کر اپنی زبان سے چاٹنے لگ پڑا اس کی زبان کبھی میری چوت کے اندر جاتی کبھی میری چوت کے اوپر بنے ہوئے دانے کو چاٹتتی ۔مجھے اب مزہ آ رہا تھا میرے منھ سے مزے سے سسکاریا ں نکل رہی تھیں۔سلیم نے اپنے لنڈ کو میرے منھ کے پاس لا کر مجھے اس کو چوسنے کا کہا




میں نے خاموشی سے اس کے لنڈ کو منھ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا میرے چوسنے کی وجہ سے اس کا لنڈ اکڑنا شروع ہو گیا کافی دیر تک چوسنے کے بعد سلیم نے مجھے اپنے اوپر آنے کو کہا اور خود لیٹ گیا میں نے اس کے لنڈ کو اپنی چوت کے اوپرسیٹ کیا اور آہستہ آہستہ اندر لینا شروع کر دیا آدھے سے زیادہ اندر جانے کے بعد مجھے ہلکی ہلکی درد شروع ہوگئی میں نے اس کو رکنے کا کہا پر اس نے نیچے سے زوردار جھٹکا مارا اور پورا لنڈ میری چوت کی گہرائیوں میں اتار دیا۔میرے منھ سے ہلکی چیخ نکلی اب اس نے مجھے اوپر نیچے ہونے کا کہا نعیم اٹھ کر واش روم چلا گیا اور میں سلیم کے لنڈ پر اوپر نیچے ہونا شروع ہو گئ کچھ دیر بعد نعیم واپس آیا تو اسکے ہاتھ میں تیل کی شیشی دیکھ کر میں سمجھ گئی وہ کیا کرنا چاہ رہا ہے ۔میں نے سلیم کے اوپر سے اٹھنے کی کوشش کی پر اس نے مجھ دبوچ لیا اور پیچھ سے نعیم نے تیل میری گانڈ کے اوپر انڈیل دیا اور کچھ تیل انگلی کی مدد سے میری گانڈ کے سوراخ کے اندر تک ڈال دیاباقی تیل اس نے اپنے لنڈ پر مل لیا اور بیڈ پر چڑ ھ کر اپنے لنڈ کو میری گانڈ کے سوراخ پر سیٹ کر نے لگا میں نے کہا پلیز مجھے پیچھے سے نا کرو مجھے بہت درد ہوتا ہے اس نے کہا میں صرف ٹوپی ڈالوں گا تم کو زیادہ درد نہیں ہوگا۔ میں چپ ہو گئی اس نے تھوڑا زور لگاکر اپنی ٹوپی کو میری گانڈ میں گھسا دیا میں نے درد کے مارے تکیے پر دانت گاڑ دئیے درد تو تھا پر برداشت ہو رہا تھا اب نیچے سے سلیم نے دوبا رہ دھکے مارنے شروع کر دئیے ایک دم نعیم نے پورا زور لگایا اوراپنا لنڈ پورا میری گانڈ میں گھسا دیاتیل کی وجہ سے اسکا لنڈ میری گانڈ کو چیرتا ہوا اندر چلا گیا۔میں نے چیخ ماری اور زبح کی ہوئی مرغی کی طرح تڑپنے لگ پڑ ی میری آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے خود کو کوس رہی تھی کہ میں کن جانوروں میں پھنس گئی ہوں۔کچھ درد تھما تو ان دونوں نے دھکے مارنے شروع کر دئیے دونوں کسی مشین کی طرح مجھے چود رہے تھے آج تو فارغ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے میں دعا مانگ رہی تھی کہ جلدی فارغ ہوں پر شائید یہ اس گولی کا کمال تھا جو انہوں نے کھائی تھی۔30 منٹ کی دھواں دار چدائی کے بعد اب انہوں نے پوزیشن چینج کر لی تھی اب چوت کا محا ز نعیم نے سنبھالا تھا اور گانڈ کا سلیم نے ہم تینوں پسینے سےشرابور ہو چکے تھے میں 2 بار فارغ ہو چکی تھی 30 منٹ کی اور چدائی کے بعد سلیم نے میری گانڈ کے اندر ہی اپنی گرم منی کوانڈیل دیا تھا۔نعیم نے کچھ دیر اور چودنے کے بعد اپنے لنڈ کو میری چوت سے نکالا اور میرے منھ میں دے دیا میں نے اس کو چوسنے لگ پڑ ی اس کے لنڈ پر میری چوت کا رس لگا ہواتھا اب ایک دو بار ہی اپنے منھ کو اسکے لنڈ پر اوپر نیچے کیا تھا کہ اس نے گرم گرم منی ایک زوردار جھٹکے سے میرے منھ میں انڈیل دی میں نے اس کے لنڈ کو باہر نکالنا چاہا پر اس نے میرے منھ کو اوپر دبا دیا کچھ منی میرے حلق سے اتر گئی اور کچھ میرے منھ سے باہر نکل گئی مجھے ابکائی آنے لگی تو مجھے چھوڑا اس کا لنڈ میرے منھ سے نکل گیا اسکا لنڈ ابھی بھی جھٹکے کھا رہا تھا اور ہر جھٹکے سے اس کے لنڈ سے منی نکل کر میرے گریبان پر گر رہی تھی میں بڑی مشکل سے ابکا ئی کو روکا ۔دونوں بے حال ہو کر گر گئے تھے نعیم نے سلیم سے کہا آج تو مزہ آ گیا پہلے لگ رہا تھا ڈیڈی نے اس کو گھر لا کر غلطی کر دی ہے پر یہ تو ہم دونوں کے کھیلنے کے لئیے مست چیز ہے دونوں ہنس دئیے اس رات دونوں نے 3 ،3 بار مجھ کو چودا ان کا ارادہ تو اور بھی تھا میں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی اور اپنے کمرے میں آ گئی۔ صبح اٹھی تو جسم میں درد تھا اور رات کی تھکاوٹ کی وجہ سے مجھے بخار ہو گیا تھا۔ دوپہر کو شکر ہے امی ابو واپس آ گئے مجھے بخار میں دیکھ کر امی گھبرا گئیں اور مجھے دوائی کھلائی ان کا ایثار دیکھ کر مجھے رونا آ گیا ان کے بیٹے میری عزت کو تار تار کر چکے تھے ۔شام تک میرا بخا ر بھی اتر گیا زندگی معمول پر آ گئی اب وہ دونوں اپنی امی ابو کو دکھا نے کے لئیے ان کے سامنے مجھے اپنی بہن تسلیم کر چکے تھے پر ان کو جب بھی موقع ملتا وہ دونوں میرے جسم سے کھیلتے اور میں نے بھی اب ان کے کھیل کو تسلیم کر لیا تھا اور ان کا ساتھ دیتی تھی ۔اور اب تو میں نے خود اس کھیل میں مزہ لینا شروع کر دیا تھا ۔ہم جب بھی اکیلے ہوتے بلیو فلمز دیکھتے ایک دوسرے کی جسم کی آ گ بجھاتے ۔ابو کے جانے کے بعد ایک بھائی کمرے سے باہر پہرا دیتا کہ امی نا آ جائے دوسرا بھائی مجھے چودتا ۔اگر امی ان کے کمرے کی طرف آنے لگتی تو پہرے پر کھڑ ا بھائی ہم کو اشارہ کر دیتا ہم جلدی سے ویڈیو گیم کھیلنا شروع کر دیتے اس طرح کسی کو شک بھی نہیں ہوتا۔ بس یہی کچھ ہی زندگی کا حصہ تھا۔گھر والوں اور دنیا کی نظر میں ہم بہن بھائی تھے پر اصل میں ہم ایک دوسرے کے سیکس پارٹنر۔