ایک گھر ایک کہانی



ایک گھر ایک کہانی
میرے والد کا نام سردار اسلم ہے اور میری والدہ کا نام پروین ہے۔ میرے والد کی عمرکافی ہے یعنی میری والدہ ان سے بیس سال چھوتی ہیں۔ہم دو بہن بھائی ہیں،فرح میری بڑی بہن ہے جس کی عمر
١٨ سال ہے اور فرح سے چھوٹا میں ہوں اور میری عمر ١٦ سال ہے۔اور میری والدہ کی عمر ٣٧ سال ہے۔

والد صاحب کا اپنا ذاتی کاروبار ہے۔ان کی دو دوکانیں ہیں ایک راولپنڈی میں اور ایک مظفرآباد میں۔اور ابا شادی کے فورن بعد راولپنڈی میں شفٹ ہو گیے تھے۔راولپنڈی میں ابا کے ایک رشتے کے بھائیی جمال کا گھر تھا اور ابا ،امی ان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔کچھ عرصہ قبل انکل جمال کراچی رہتے تھے اور وو ہماری پیدائیش کے بعد کراچی سے واپس آکر اپنے گھر میں رہنے لگے

انکل جمال بوہت زندہ دل انسان تھے گو وو ابا سے چھوٹے تھے لیکن ابا ان سے بوہت پیار کرتے تھے۔ایک اور بات جو میں بتانا بھول گیا کے انکل جمال نے شادی نہیں کی تھی۔

میں اور فرح ان سے بوہت خوش رہتے تھے ، وو ہم کو اکثر شام کو اسلام آباد سیر کروانے لیجاتے تھے۔

جب ابا مظفرآباد جاتے تھے تو امی بھی ہمارے ساتھ جاتیں تھیں۔

انکل جمال کا گھرکوئیی زیادہ برا نہیں تھا، دو کمرے نیچے ،ایک کچن،غسلخانہ ، اور ایک بڑا صحن اور دوسری منزل پر ایک کمرہ جس میں انکل رہتے تھے،دوسری منزل کو ایک راستہ گھر کے اندر سے اور ایک گھر کے بھر سے جاتا تھا ،بھر والا راستہ انکل کے دوستوں کے لیا تھا جو اکثر شام کو گھر اتے تھے اور رات کو دیر تک رہتے تھے۔ان کے دوستوں میں زیادہ تر ان سے کم عمر کے دوست ہوتے تھے

ان کا گھر راولپنڈی کی ایک پرانی آبادی میں تھے جہاں لوگ کم رہتے تھے ۔ میں اور میری بہن ایک ہی اسکول میں پرتھے تھے، ہمارا اسکول مٹرک تک تھااور ہمارے گھر اور اسکول کے بیچ لوکاٹ کے باغات تھے۔۔

مرے والد صاحب ایک مہینے کے زیادہ دن مظفرآباد میں گذرتے تھے اور صرف ایک ہفتہ ہمارے پاس اتے تھے

اور جب ابا مظفرآباد ہوتے تھے تو جب ہم بوہت مزے کرتے تھے۔رات کو دیر تک جاگنا ،فلمے دیکھنا ، سیر کرنا ، واغرہ واغرہ۔۔۔ اور امی بھی ہمارے ساتھ ہوتیں تھیں۔ہماری امی انکل جمال کا بوہت خیال رکھتی تھیں۔

انکل جمال کے گھر ایک لڑکا جس کی عمر ١٨ سال تھی اور نام جواد تھا روز اتا تھا اور جب وو اتا تھا تو انکل ہم کو نیچے بھیجہ دیتے تھے۔جواد ہمارے گھر کے پاس ہی رہتا تھا اور وہ کافی بدنام تھا اپنے علاقے میں۔جواد کے کچھ دوست اور بھی تھے جو انکل جمال کے گھر جواد کے ساتھ اتے تھے اور ان میں ایک لڑکا فیضان تھا۔ جو فرح کی سہیلی کا بھائیی تھا۔

 

دوستوں میں یا داستان اپنی عمر کے ٢٥ سال گزارنے کے بعد سنا رہا ہوں۔اور جو واقعیات میں آپ کو بتاؤں گا وہ اس وقت کے ہیں جب میری عمر ١٥ یا ١٦ سال کی تھی۔

ایک ہفتے کی رات تھی اور شہر میں بارش ہو رہی تھی،انکل جمال اسلام آباد گئیے ہووے تھے۔ جب وہ دیر تک واپس نہیں اے تو امی بوہت پریشان ہو گیئیں پھر انکل جمال کا فون آگیا

اور انھوں نے بتایا کے جب بارش روکے گی وہ تب گھر ییں گے۔ بارش اور تیز ہو گی تھی۔ میں اور فرح امی کو بتا کر اوپرانکل کے روم میں چلے گیے اور ووہان ٹی۔وی دیکھنے لگے۔ امی اپنے روم میں چلی گیئیں اور انکل جمال کا انتظار کرنے لگیں

فرح اور مجھ میں دو سال کا فرق تھا ،وہ مجھ سے بڑی تھیں لیکن وو مجھ سے کافی بڑی لگتیں تھیں،ان کا اونچا قد،گورا رنگ، بھرا بھرا جسم ، اور کلے لمبے بال ان کی عمر زیادہ بتاتے تھے۔ مختصر یا کے وو بوہت خوبصورت تھیں اور لوگ ان کو امی کی چھوتی بہن لگتیں تھیں۔خیر ہم تی وی دیکھ رہے تھے کے باہر والے راستے کی گھنٹی بجی، میں سمجھا کے جمال انکل آییں ہیںاور میں نے دروازہ کھول دیا لیکن ووہان فیضان کھڑا تھا میں اسے اندر لے آیا۔ وہ بارش کے پانی سے بھیگ چکا تھا۔

فرح بولی؛؛فیضان تمارا دماغ خراب ہے جو اس بارش میں تم ادھر یے ہو۔

فیضان بولا؛؛؛ فرح مجھے انکل سے کام تھا ۔۔کہاں ہیں وہ؟

میں بولا؛؛ وہ تو اسلام آباد میں ہیں اور جب بارش روکے گی تو واپس آیینگے

تو اس نے کہا کے کیا میں انتظار کر لوں

فرح نے کہا کر لو لیکن اپنے کپڑے تو بدل لو بلکل بھیگ چکے ہیں اور مجھے کہا کے اپنا کوئیی لباس فیضان کو دے دوں اور یا کہ کر وہ امی کے پاس نیچے چلیں گیئیں اور جاتے جاتے یا بھی کہ گیئیں کے جب انکل جمال آییں تو میں ان کو بتا دوں۔میں نے فیضان کو اپنے کپڑے لا کر دیے جو اس کے جسم کے لیا تنگ تھے

رات کے نو بج چکے تھے اور ابھی تک انکل جمال کا کوئیی پتا نہیں تھا۔ہم دونوں ٹی وی دیکھنے لگے اور ساتھ ساتھ باتیں کرتے رہے

میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کے جواد،فیضان اور شارق

کی دوستی انکل جمال سے کیوں ہے لیکن اس کا جواب مجھے نہیں پتا تھا۔لیکن دل میں خواہش تھی کے اس کی وجہ معلوم کروں۔

خیر فیضان مجھے گھورکر دیکھ رہا تھا۔ میں اس کے گھورنے سے کچھ گھبرا سا گیا،اور اس سے نظریں چرانے لگا۔میں نے شلوار اور قمیض پہنی هوئی تھی جب کے فیضان نے پنٹ اور ٹی شیٹ اور وہ مجھ سے زیادہ صحت مند تھا اور اسی لیا مرے کپڑے اس کو تنگ تھے۔اس کمر پر بیلٹ نہیں بندھی تھی کیونکے اس کے چوتربھی موٹے موٹے تھے۔

فیضان نے مجھے کہا کے آو باہر بارش کا مزہ لیتے ہیں تو میں اور وہ چھتہ پے آگیا،ہم دونوں بارش میں جلد ہی بھیگ گیے۔میں چھتہ کی دیوار کے ساتھ کھڑا سڑک کو دیکھ رہا تھا اور تیز بارش بوندوں سے اپنے اپ کو بچا رہا تھا۔ہم دونوں کے کپڑے گلے ہو کر جسم سے چپکے ہووے تھے۔ اتنے میں زوردار بجلی چمکی اور میں ڈرکے پیچھے ہوا تو فیضان سے ٹکرا گیا۔ اور اس کا دھڑمرے جسم سے چپک گیا اور کوئیی سخت چیز مرے چوتروں میں گھس گی،میں ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ چیز فیضان کا للا تھا۔ میں نے غصّے سے فیضان کو دھکھا دیا لیکن اس نے مجھے پیار سے بھنج لیا۔ پھر اس نے میری للی کو پکڑ لیا اور اس کو ہلانا شروع کردیا

۔اس کا لنڈ ابھی تک مرے چوتروں کی درمیان گھسا ہوا تھا، مجھے بھی یا سب اچھا لگنے لگا اور میں نے مدافعت کرنا ترک کر دی ۔ میری شلوار پوری طرھ بھیگ کر میری ٹاگوںسے چپک گیئی تھی۔

فیضان متواتراپنے لنڈ کو میری گانڈمیں گھسا رہا تھا لیکن شلوار کے اوپر سے۔ اس کا لنڈ بھوحت لمبا اور موٹا تھا۔خاص طور پر اس کے لنڈ کا ٹوپا کافی بڑا تھا۔

مجھے اس کام کا زیادہ پتا نہیں تھا ،لیکن اتنا معلوم تھا کے لڑکے لڑکے آپسمیں یا کرتے ہیں اور مجھ بھی کافی لوگوں نے اس طرف راغب کرنے کی کوشش کی تھی، ہمارے گھر کے پاس ایک سبزی والے کی دوکان ہے اور اس نے کی دفع مجھے پیار وغیرہ کیا تھا اور اپنی دوکان کے ساتھ والے کمرے میں لی جا کر میری گانڈ مرنے کی کوشش بھی کی تھی مگر میں وہاں سے بھگ آیا تھا ، اس کے علاوہ اور کافی لوگوں نے مرے ساتھ اوپر اوپر سے پیار کیا تھا۔، بس جواد سے میرا دل لگتا تھا کیوں کے وہ مجھے اچھا لگتا تھا۔ فیضان نے مجھے کہا کے میں نیچے کا دروازہ بند کر دوں

میں نے جا کر دروازہ بند کر دیا تو فیضان میرا ہاتھ پکڑ کر انکل کے کمرے میں آگیا اور مجھے پیار کرنا لگا ،اس نے مرے ھوٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیا اور چوسنے لگا،اور اپنا ایک ہاتھ میری شلوار کے اندر دل کر مرے چوتروں کو ملنے لگا جس کی وجہ سے مجھے بھوحت مزہ آرہا تھا۔پھر فیضان نے اپنا لنڈ پنٹ سے باہر نکالا اور مجھے پکڑا دیا۔میں نے اک کا لنڈ پکڑ کر اوپر نیچے ہلانے لگا۔

تھوڑی دیر گزارنے کے بعد فیضان نے انکل جمال کی الماری کھولی اور وہاں سے ایک کریم کی ٹیوب نکالا اور مجھے کپڑے اتارنے کو کہا جو میں نے اتار دیے۔اور اپنی انگلی سے میری گانڈ کے جھید پر کریم لگی۔

میں بولا۔ فیضان بھائیی آپ یہ کیا کر رہے ہو

فیضان بولا؛؛خالد اس کریم سے تمہاری گانڈ کا ہولے ہول نرم ہو جائیے گا۔

فیضان نے کافی کریم میری گانڈ پر ملی اور اپنی انگلی بھی اندر کرنے لگا جس سے مجھے بےانتہا درد ہوا اور مرے مو

سے چیخ نکل گی، تو فیضان نے انگلی کرنا بند کردی لیکن مرے لنڈ کو ہلانا بند نہیں کیا جس کی وجہ سے میں گرم ہوتا رہا اور جب دوبارہ فیضان نے میری گانڈ میں انگلی کی تو میں اس درد کو برداشت کرتا رہا۔جب فیضان نے یہ محسوس کیا کے میری گانڈ نرم ہو گی ہے تو اس نے مجھے کھڑکی کے پاس لیجا کرمیز کے کونے پر الٹا لیتا دیا۔ میرے پاؤں فرش پر تھے اور کمر میز پر ٹکی هوئی تھی۔فیضان نے اپن لنڈ پر تھوک لگائی اور اپنا موٹا لنڈ میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر آہستہ سے اندر کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ هوئی۔مجھے بھی درد ہو رہا تھا اور میری گانڈ بھی بھوحت ٹائیٹ/ تنگ تھی

پھر فیضان نے اپنے اپنے لنڈ اور میری گانڈ پر تیل لگایا اور اپنے لنڈ کو دوبارہ میری گانڈ میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔

اس نے مجھے مرے کندھوں سے پکڑ لیا اور اپنا لنڈ میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیا۔پھر اس نے ہلکے ہلکے اندر کیا لیکن مجھے درد ہوا اور مرے آنسو نکل پڑے پر میں سوچ لیا تھا کے میں یہ سب برداشت کر لوں گا۔ میری گانڈ کا سوراخ اب کچھ کھل گیا تھا اور جب فیضان نے دیکھا کے میں تیار ہوں تو اس نے اپنے لنڈ کا ٹوپا میری گانڈ میں داخل کردیا۔میری تو سانس رک گیی اور آنکھیں باہر کو آگیئیں اور میں نے اپنی گانڈ بینچ لی تاکے فیضان اپنا لنڈ اور اندر نہ کر سکے، پر میں فیضان نے مجھے پوری ترہان اپنی گرفت میں جکڑا ہوا تھا اور میں ہل بھی نہیں سکتا تھا۔فیضان نے اب اپنا ٹوپا میری گانڈ میں ایک جھٹکے کے ساتھ اندر کر دیا ،میں درد سے بےحال ہو گیا لیکن فیضان نے اپنا لنڈ میری گانڈ میں پورا گھسا دیا اور پہلے ہلکے اور پھر پوری طاقت سے میری گانڈ مارنے لگا، وقت کے ساتھ مرے درد میں بھی کمی ہوتی جا رہی تھی اور میں بھی مزے لے رہا تھا

اور میں نے اپنی گانڈ کو ڈھلا چھوڑ دیا تا کے

فیضان کا لنڈ پورا اندر جا سکے۔

مرے اندر کچھ ہو رہا تھا ،میرا لنڈ بھی میز سے ٹکرا ٹکرا کر پورا تن گیا تھا اور اوپر سے فیضان کے طاقت وار جھٹکے مجھے اور پاگل بنا رہے تھے،، مجھے لگا کے مرے لنڈ سے کچھ نکلنے والا ہے اور پھر سفید رنگ کا گھڑا پانی مرے لنڈ سے نکلا تو مجھے سکون ملا ۔۔ فیضان اب بھی اسی رفتار سے میری گانڈ مر رہا تھا ،، میں نے اس کو کہا ؛؛ اب بس کرو فیضان بھائیی ، لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور میری گانڈ مارتا رہا جب تک اک کے لنڈ نے پوری پانی میری گانڈ میں نہ ڈال دیا۔

مجھے پہلی دفع گانڈ مرنے کا جو مزہ آیا میں اس کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔

اتنے میں باہر کی گھنٹی بیجی تو ہم نے اپنے اپنے کپڑے ٹھیکہ کیا ، پھر میں نے دروازہ کھولا تو انکل جمال تھے۔ ان کے ساتھ جواد بھائیی بھی تھے ،وو دونوں جلدی سے کمرے کے اندر آگے، بارش ابھی تک نہیں رکی تھی۔

 

انکل جمال نے مجھے کہا کے جا کر امی کو بتا دو کے میں آگیا ہوں۔ میں نے نیچے اکر امی اور فرح کو بتا دیا کے انکل آگےا ہیں تو امی اور فرح دونوں نے اطمینان کا سانس لیا اور امی انکل کے لیا کھانا بنانے لگ گیئیں

مرے پیٹ میں بوہت درد ہو رہا تھا میں بیت روم چلا گیا ۔۔ جب واپس سہن میں آیا تو امی نے کہا کے کیا بات ہے ،تمہاری چال کیوں بگاڑ گیے ہے تو میں نے بہانہ بنایا کے میں بارش میں پیسل گیا تھا،

پھر امی نے انکل جمال اور جواد بھائیی اور فیضان بھی کو نیچے بلوایا اور انھوں نے ہمارے ساتھ کھانا کھایا اور کھانا کے بعد وو تینوں اوپر چلے گیا۔

میں اپنے کمرے میں اکر لیت گیا کیوں کے میری گانڈ بوہت بری ترہان دکھ رہی تھی اور جھید بھی سوجھ ہوا تھا اور میں الٹا لیٹا ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کے انکل کے کمرے میں گانڈ کے سوراخ کو ڈھلا کرنے والی کریم اور پھر فیضان بھائیی کو اس کا پتا ہونا ۔ مری عقل کام نہیں کر رہی تھی ۔۔۔ کیا انکل جمال کا جواد بھائیی اور فیضان بھائیی کے ساتھ کوئیی گلط رشتہ ہے ،، کیوں کے فیضان اور جواد بھائیی بوہت خوبصورت تھے لیکن دونوں کافی بدنام تھے ، پھر میں نے سوچ لیا کے میں معلوم کر کے رہوں گا کے ان تینوں کے درمیان کیا رشتہ ہے۔

کوئیی ١٠ بجے کے قریب انکل نے آواز دی کے ابو کا ٹیلیفون آیا ہے تو امی،فرح اور میں اوپر چلے گیے ۔

وہاں پر انکل جمال تھے اور ان کے ساتھ جواد بھائیی تھے اور فیضان بھائیی اپنے گھر چلے گئیے تھے

پہلے میں نے ابا سے باتھ کی اور نیند کی وجہ سے نیچے آگیا ۔ امی اور فرح وہیں تھیں اور ابا سے بات کر رہیں تھیں

تھوڑی دیر کے بعد فرح غصّے سے بھری کمرے میں واپس آییں اور اپنے سنڈل اتار کر دیوار پر میرے اور بستر پر گر پڑیں۔اور بولیں میں سب کو دیکھ لوں گی

میں نے حیران ہو کر پوچھا ؛؛؛ فرح کس کو دیکھ لو گی،، کسی نے کچھ کہا تم کو۔

میں اور فرح آپس میں فری تھے اور دوستوں کی ترہان باتیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے باتیں شیر کر لیتے تھے

فرح بولی ؛؛ یار تم ہر بات میں کیوں بولتے ہو

مجھے فرح کا رویہ کچھ عجیب لگا مگر میں کچھ نہیں بولا۔

میری بہن فرح کی سخصیت میں اتنی کشش تھی کے جو بھی اسے ایک بار دیکھ لیتا تھا اسے بار بار گھورتا تھا ۔خاص طور پر اسکول کے لڑکے سب کے سب فرح کے گرد پروانوں کی ترہان مڈلاتے تھے اور جو چیز اسے ممتاز کرتی تھی وو اس کے چوتر یعنی گانڈ تھی۔گول گول اور ابھری هوئی ، خمدار کمر ، مناسب مگر ذرا بڑے بریسٹ، لمبا قد امی کے برابر،،

ان سب کے ہوتے ہووے کیا کوئیی ان کو نظر انداز کر سکتا ہے۔

 

پھر میں نے فرح سے کچھ نہیں پوچھا کے وہ کس کو دیکھنے کا کہ رہی ہے۔

فرح کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا تو اس نے مجھ سے کہا کے کیا میں نے کمپوٹر استعمال کرنا ہے ،تو میں نے اس کو کمپوٹر چلا کر دے دیا۔ (یہ کمپوٹر انکل جمال نے فرح کو اس کی ضد پر لیکر دیا تھا اور ساتھ میں مائیک اور کیمرہ بھی دیا تھا) فرح کسی سے باتیں کرنے لگی ۔اور جب فیضان کا ذکر آیا تو پتا چلا کے وہ فیضان کی چھوتی بہن فائیزہ سے باتیں کر رہی ہے۔ وہ اپنے اسکول کی باتیں کر رہی تھی اس لیا میں نے کوئیی خاص خیال نہیں کیا۔

میری امی ابھی تک انکل کے کمرے میں تھیں اور میں ان کا انتظار کر رہا تھا۔بارش ابھی تک رکی نہیں تھی بلکے اس کی شدّت میں اور اضافہ ہو رہا تھا۔تھوڑی دیر کے بعد انکل جمال نیچے ایے اور میرے پاس بیٹھ گیے۔ میں نے ان سے امی کا پوچھا تو انہوں نے کہا کے تو ابا سے بات کر رہیں ہیں اور تم فکر نہ کرو میں خود ان کو چھوڑ جاؤں گا ۔ اور پھر وو ایک تکیہ اور کمبل لیکر ے کہتے ہووے چلے گیے کے آج جواد بارش کی وجہ سے ان کے کمرے میں سویہ گا۔انہوں نے کجھے اور فرح کو پانچ پانچ سو روپے بھی دیا۔

فرح کو نیند آ رہی تھی اس لیا وو جلد سو گیئی

میں بھی سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن ناکام رہا۔پھر میں اٹھ کر باہر صحن میں چلا آیا اور تیز ہوتی هوئی بارش کو دیکھنے لگا۔اوپر جانے والی سیڑیوں کی لائیٹ جل رہی تھی اور انکل جمال کا کمرہ بھی روشن تھا۔ میں یہ سوچ کر کے امی کو سیڑیوں کی چابی دے دوں ،میں اوپر چلا گیا ۔۔ اوپر کی چھت کا صحن کافی بڑا تھا اور کمرہ دو طرف سے کھڑکیاں تھیں جو عام طور کھلی رہتی تھیں۔ میں دروازے کی طرف گیا تو وو بند تھا۔ کمرے میں امی اور انکل جمال کے ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔میں نے امی کو آواز دی لیکن کوئیی جواب نہیں آیا ، کیونکے بارش کی تیزی اور ہوا کی آواز کا شور کافی تھا۔میں اس کھڑکی کی طرف گیا جو کھلی هوئی تھی۔اندر امی اور انکل جمال لوڈو کھل رہے تھے اور دونوں مسہری کے کنارے پر گھوٹنوں کے بل بیٹھے ہووے تھے اور دونوں کے گھوٹنوں پر کمبل ڈالا ہوا تھا اور اس کے اوپر لوڈو کی بساط رکھی هوئی تھی۔امی کے پیچھے جواد بھائیی مسہری کے نیچے قالین پر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔

امی کی پشت یعنی کہولے مسہری سے باہر نکلے ہووے تھے امی کا سینہ ان کی رانوں پر تھا اور وو جھک کر کھیل رہیں تھیں

ان کے اس اسٹائیل کو دیکھ کر میں حیرتزدہ رہ گیا کے چلو انکل جمال کی بات تو ٹھیک ہے لیکن جواد بھائیی تو غیر ہیں۔ امی بوہت موڈرن تھیں وو زمانے کے مطابقچلتی تھیں ۔ ان کے کپڑے بھی موڈرن ہوتے تھے ۔ آج انہوں نے ہرے رنگ چھوتی اور تنگ قمیض اور پیلے رنگ کی اونچی شلوار زیب تن کی هوئی تھی

امی اور انکل جمال کے سر تقرباں ملے ہووے تھے اس ترہان امی کا گردن سے نیچے کا حصہ یعنی سینہ عریاں تھا۔اور وو اس عریانیت سے لاپرواہ ہو کر کھیل میں مصروف تھیں۔

کچھ دیر کے بعد انکل جمال بولے ؛؛؛ جواد تم کہاں مصروف ہو

جواد بھائیی ؛؛؛ انکل میں ٹی وی دیکھ رہا ہوں ، بوہت اچھی فلم چل رہی ہے

انکل جمال؛؛ تم بور تو نہیں ہو رہے ہو ، تم بھی آجاؤ ،ہم تینوں مل کر کھیلتے ہیں اور امی سے بولے کیوں پارو،

امی بولیں ؛؛ مجھے کوئیی اعتراض نہیں

جواد بھائیی بولے ؛؛ نہیں آنٹی ، آپ کھیلیںمیں اپ کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں ۔

اور جواد بھائیی امی کی چوتروں کے قریب ہو کر زمیں پر بیٹھ گیےاور اس ترہان بیٹھے کے ان کا ایک کندھا امی کے چوتروں میں گھس رہا تھا۔

امی نے اس بات کا کوئیی نوتکےنوٹس نہیں لیا بس وو اپنے کھیل میں مصروف رہیں۔ کوئیی دس منت کے بعد جواد بھائیی نے اپنے کندھے پر ہاتھ سے خارش کی تو امی نے مڑھ کر جواد بھائیی کی طرف دیکھا تو جواد بھائیی نے اپنا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹا لیا۔

جواد بھائیی نے اس حرکت کو کی دفع دوہرایا تو پھر امی نے کوئیی حرکت نا کی۔ جب امی نے جواد بھائیی کو کچھ نہیں کہا تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے امی کے چوتروں کو سہلانا شروع کردیا۔

انکل جمال نے امی سے کہا کے میں واش روم سے ہو کر اتا ہوں بس یہی کوئیی دس منت میں۔ اور وہ یہ کہ کر کمرے سے باہر آگیا

جس وقت جواد بھائیی امی کے چوتروں پر ہاتھ پھر رہے تھے تو ان کا جسم مرے سامنے آگیا تھے اس لیا مجھے سب کچھ جو انہوں نے کیا تھا نظر نہیں آیا۔جیسے ہی انکل جمال باہر گیے تو جواد بھائیی نے تھوڑی سا ہلے تو میں نے دیکھا کے ان کا کندھا میری امی کی گانڈ میں گھسا ہوا ہے۔ امی بولیں ؛؛ جواد یہ کیا کر رہے ہو تم۔

جواد بھائیی بولے ؛؛ سوری آنٹی مجھے خیال نہیں رہا۔اپ لوگوں کے کھیل دیکھنے میں مشغول تھا۔

امی اور جواد بھائیی دونوں انجاں بنے رہے اور اسی ترہان بیٹھے رہے ،خاص طور پر امی اسی ترہان گھوٹنوں کے سہارے بیٹھی رہیں

امی بولیں؛ جمال ابھی تک نہیں آیا

جواد بھائیی بولے؛؛ آنٹی میں دیکھ کر اتا ہوں

امی؛ نہیں نہیں وو خود آجاے گا، اور تم کجھ کو آنٹی مت کہا کرو

جواد بھائیی بولے ؛؛؛ پھر آپ کو کس نام سے موخاطب کیا کروں

امی بولیں پروین یہ باجی کہا کرو

جواب بھائیی بولے ؛؛ مجھے پروین اچھا لگتا ہے

امی ہنستے ہووے بولیں ؛؛ جواد تم مجھے جس نام سے پوکرو مجھ کو اچھا لگے گا۔ کیا تم اسکول نہیں جاتے

جواد بھائیی ؛؛ نہیں پروین، میں گھر ہوتا ہوں یہ پھر جب انکل جمال اتے ہیں تو ادھر آجاتا ہوں

امی بولیں ؛؛ میں بھی اکیلی ہوتیں ہوں گھر میں شام تک، اور اگر تم فری ہوتے ہو تو مورننگ میں آجایا کرو

جواد بھائیی خوشی سے بولے ؛؛؛ میں آجاؤں گا پروین

 

امی ؛ جو ذرا جمال کو دیکھ کر آو

جواد بھائیی اٹھے تو میں نے دیکھا ،ان کا لنڈ تنا ہوا تھا، امی نے بھی اس کے لنڈ کی طرف ایک نظر ڈالی اور بولیں ؛؛ جواد کل تم جلدی آجانا ۔

انکل جمال بھی واپس کمرے میں آگے، تو امی بولیں ؛؛ جمال اب میں جاتی ہوں رات کے ١٢ بج گیئیں ہیں۔انکل جمال امی کو چھوڑنے نیچے سیڑیوں تک آگے۔ میں ووہان پر چپ کر کھڑا تھا کے جب امی نیچے اور انکل اپنے روم میں واپس آییں تو میں اپنے کمرے میں واپس جاؤں۔

لیکن میری آنکھیں اس وقت حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گیئیں جب امی نے انکل جمال کو پیار کیا اور کہا کے میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں جب جواد سو جاے تو تم مرے کمرے میں آجانا ،میں دروازہ کھلا رکھوں گی۔

انکل جمال بولے؛؛؛ پارو ، جواد جیسے ہی سوتا ہے میں اسی وقت آجاؤں گا۔

پھر امی نیچے چلیں گیں اور انکل جمال اپنے روم میں آگے، اور میں اپنے روم میں جانے لگا تو انکل جمال اور جواد بھائیی ایک دوسرے سے لپٹ کر پیار کرنے لگے۔اور جواد بھائیی نے انکل جمال کی گانڈ کو دبانا شروع کر دیا ،، مجھے اب یقین ہوا کے انکل یا تو گانڈو ہیں یا لونڈے باز ہیں

پھر میں وہاں سے چلا آیا اور اپنے بستر پر لیٹ گیا،اور مرے ماضی کے سین ایک فلم کی ترہان مرے سامنے چلنے لگے۔

انکل جمال کا اپنی چھوتی عمر کے لڑکوں سے دوستی ،امی کا روز رات کو ان کے کمرے میں جانا جب ابا مظفرآباد ہوتے تھے،امی کے پاس روپیوں کا ہونا،فرح کا ان کے ساتھ دوستانہ اور اس کو جیب خرچ دینا وو بھی ٥٠٠٠ ہزار روپے ماہانہ ۔۔۔

ے سب باتیں مرے ذھن میں سوار تھیں اور میں ان سب باتوں کا جواب چاہتا تھا۔

میری آنکھوں میں نیند غیب تھی اور میں بیچنی سے انکل جمال کے انے کا انتظار کر رہا تھا،۔ایک بجے سیڑیوں کا دروازہ کھلا اور انکل اور جواد غسل خانے میں گئیے اور تھوڑی دیر کے بعد جواد بھائیی انکل کے روم میں چلے گئیے ۔ میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا اور میں نے اپنا کمرہ بند کر کے لائیٹ بھی بھجھائیی هوئی تھی۔ امی کے کمرے کی بتی روشن هوئی اور امی باہر آییں اور غسل خانے کا دروازہ کھٹکایا۔انکل نے دروازہ اوپن کیا اور امی کو اندر کھینچ لیا ، میں فورن صحن کے راستے امی کے روم میں گیا اور وہ دروازہ جو مرے کمرے میں کھلتا تھا وہ کھول کر اس میں سے اپنے روم میں آگیا

اب میں رات کو کسی وقت بھی امی کے کمرے میں دیکھ سکتا تھا۔غسل خانے سے امی اور انکل جمال کی ہنسنے کی ہلکی ہلکی آوازیں آرہیں تھیں، وو دونوں باہر آے اور امی انکل کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیئیں

انکل جمال بلکل ننگے تھے اور امی کے کپڑے بھی پانی سے بھیگے ہووے تھے

جب انکل اندر کمرے میں داخل ہووے تو امی نے صحن کا دروازہ بند کر دیا اور ایک دم انکل سے لپٹ گیئیں۔اور انکل کے ہونٹ چومنے لگیں ، پھر امی نے انکل کو دھکا دے کر بستر پر گرایا اور اپنے کپڑے اتار کر انکل کے اوپر بیٹھ گیئیں

اور انکل کے دونوں بازووں کو پہلا کر ان کے ہونٹوں کو چومنے لگیں، وہ انکل کے لنڈ پر بیٹھی تھیں اور اپنی چھوٹ کو انکل جمال کے لنڈ پر رگڑ رہیں تھیں۔

میں سکتے میں یہ سب دیکھ رہا تھا،اور یہ سوچ رہا تھا کے کب سے ہو رہا ہے۔یہ حرام کاریاں کب سے ہو رہی ہیں,

میرے کمرے میں میری بڑی بہن فرح سوی هوئی تھی اور امی اپنے کمرے سے اپنے شوہر کے بھائیی سے کھودے چودآیی کروا رہی تین۔ خیر امی اوپر سے انکل کے لنڈ کو اپنی چھوٹ پر رگڑھ

رہیں تھیں اور انکل جمال امی کی مست گانڈ میں ہاتھ پھر رہے تھے۔ پھر امی اوپر سے ہٹ گیئیں اور انکل جمال کے ساتھ بیٹھ گیئیں ،اور ان کے لنڈ کو ہاتھوں میں پکڑکر چوسنے لگیں ،یوں لگتا تھا کے وو اس کام میں بوہت ماہر ہیں وہ انکل کا لنڈ اور انکل جمال امی کی گانڈ میں انگلی کر رہے تھے۔امی کی گانڈ مرے دروازے کے بلکل قریب تھی اور جہاں سے میں دیکھ رہا تھا ووہان سے کوئیی تین فیٹ دور تھی اور جب انکل جمال امی کی گانڈ میں انگلی کرتے تھے تو امی اپنی گانڈ اور کھول دیتی تھیں

اور پھر انکل جمال کی پوری انگلی امی کی گانڈ کر اندر تک جاتی تھی ،انکل جمال بھی کبھی ایک اور کبھی دو انگلیاں ڈالتے تھے۔

امی مزے سے انکل جمال کا لنڈ اور ٹتے کو دیوانہ وار چوس رہی تھیں اور ساتھ ساتھ انکل جمال کی گانڈ تک کو چوم رہی تھیں۔

میرا لنڈ یہ چودائیی کا منظر دیکھ کر تن گیا تھا اور میں نے بھی اپنے پاجامے کا ایلسٹک نیچے کر کے اپنی مٹہ مارنے لگا۔

امی بولیں؛؛ جمال جان، اب تم بھی میری چھوٹ کو چاٹو

یہ کہ کر امی بسٹر پر لائیٹ گیئیں اور انکل جمال کو اوپر انے کو کہا

انکل جمال بسٹر پر کھڑے ہووے تو مجھے ان کا لنڈ نظر آیا ، ان کا لنڈ کوئیی زیادہ بڑا نہیں تھا یہی کوئیی چھ انچ کا ہو گا لیکن موٹا بوہت تھا ۔

انکل جمال میری امی کے اوپر لیت کے امی کے موممے چوسنے لگے اور اپنا لنڈ امی کی چوٹ پر رگھرنے لگے امی کی حالت قبل یہ دید تھی، ان کا بس نہیں چل رہا تھا کے انکل جمال ان کی پھددی میں اپنا لنڈ جلدی سے ڈال کر ان کو چود دے۔لیکن جمال انکل تو امی کے مممے چوسنے میں مصروف تھے۔ امی نے انکل جمال کو کہا ؛جانو اب مجھ سے صابر نہیں ہوتا ،تم اپنے لنڈ کو میری چوٹ میں ڈال دو اور میری آگ ٹھنڈی کر دو۔

انکل جمال نے جب دیکھا کے میری امی بوہت گرم ہو گیئیں ہیں تو انھوں نے اپنا لنڈ میری امی کی چوٹ میں ڈال دیا اور اندر باہر کرنے لگے۔

جیسے جیسے انکل نے اپنی رفتار بڑھای امی کی آوازیں نکلنے لگیں

اور امی نے اپنی ٹاگوں کو انکل جمال کی کمر کے گرد لپٹا لیے

انکل جمال بولے''' پارو

اپنی گانڈ کے نیچے تکیہ رکھ لو تو پھر میرا لنڈ تمہاری چوٹ میں اندر تک جائیے گا،

امی نے اپنے سر کا تکیہ اپنی گانڈ کے نیچا رکھ کر جمال کو کہا ؛؛ اب تم ڈال دو اپنا لنڈ

انکل جمال نے اپنا چھوٹا سا لنڈ امی کی سے نکالا اور پھر پوری طاقت سے اندر گھسسہ دیا ۔اور دھکے لگانے لگے ۔ امی بھی پورا پورا انکل جمال کا ساتھ دے رہیں تھیں اور وہ نیچے سے اوپر کی طرف اپنی گانڈ کو ہلا رہیں تھیں

امی کی ٹانگیں آسمان کی طرف تھیں اور تکیہ نیچے ہونے کی وجہ سے انکل جمال کا لنڈ امی چوٹ کے اندر تک آ اور جا رہا تھا،اور امی بھی پوری ترہان لفت اندوز ہو رہی تھیں۔ تھوڑی دیر اسی طریقے سے چدوانے کے بعد امی نے انکل کو کہا کے میں گھوڑی بن جاتی ہوں تم پیچھے سے میری چوُت مارو،

پھر امی گھوڑی بن گیئیں اور انکل جمال نے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر امی کے چتروں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے کھول لیا اور ان کی چوت میں اپنا لنڈ ڈال کر چودنے لگے

جب انکل کا جسم امی موٹے چتروں سے ٹکراتا تھا تو تھب تھب کی آوازیں اتی تھیں اور انکل پوری قوت سے امی کی چوت ماررہے تھے؛؛انکل جمال نے امی کو بولا کے میں نکلنے کے قریب ہوں

اور انہوں نے اپنے دھکوں کی شدّت میں اضافہ کر دیا ،ادھر امی نے اپنی چوت کے دانے کو زور زور سے مسلنا کیا تاکے وہ انکل جمال کے ساتھ ہی اپنا پانی نکال لین،اور ایک زوردار جھٹکے کے انکل جمال نے اپنی منی امی کی چوت میں اگل دی اور کچھ ہی سیکنڈ کر بعد امی کی چوت کا پانی بھی نکال گیا،

دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے سے لپٹ کر خاموش لیٹے رہے

مرے برا حال تھا اور میں برابر مہت مارنے میں لگا ہو تھا۔تھوڑی دیر میں میں بھی فارغ ہو گیا اور کمرے کے پردوں سے اپنا لنڈ صاف کیا اور پھر امی اور انکل جمال کا تماشا دیکھنے واپس آگیا

انکل جمال ابھی تک امی کے اوپر تھے اور امی الٹی لیتی ہویں تھیں،جب انکل جمال نے امی کی چوت میں سے اپنا لنڈ نکالا تو وو امی کی منی اور ان کی منی سے لت پٹ تھا۔ جیسے امی نے اپنے ہونٹوں سے صاف کیا۔

 

رات کے دو بج چکے تھے۔امی اور انکل جمال ننگےھی لیٹے ہووے تھے۔امی کا سر انکل جمال گود میں تھے اور انکل جمال کے ہاتھ امی کے سینے پر رکھے ہووے تھے اور وہ امی کی چوچیوں کو دبا رہے تھے۔مجھے یوں لگ رہا تھا کے امی اور انکل جمال ایک دفع اور چدوائیی کرنے کے موڈ میں ہیں،امی اب سمٹ کر انکل کے سینے تک آگیئیں تھیں اور انھوں نے انکل جمال کا ایک ہاتھ پکڑ اپنی گندی چوت پر رکھ لیا اور ان کے ہاتھ کی ایک انگلی کو اپنی چوت کے اندر اور باہر کر رہی تھیں،اور اپنے دوسرے ہاتھ سے انکل جمال کا لنڈ ہلا رہی تھیں۔

انکل جمال بولے؛؛؛؛ جانی ایسا مت کرو ، اب یہ کھڑا نہیں ہوگا

امی بولیں؛؛؛ جمال میرا دل ایک دفع اور کرنے کو دل چاہ رہا ہے

انکل جمال ؛؛؛ یار اب نہیں کھڑا ہو گا میرا لنڈ ،میں نے مورننگ میں کورٹ جانا ہے ، اب مت کرو

یہ کہ کر انکل جمال اٹھ گیے اور امی کو پیار کیا اور اپنے کپڑے بدلے اور اپنے روم میں اوپر چلے گیے۔امی کچھ دیر تک یوہیں

لیتی رہیں پھر اٹھ کر نہایا اور اکے بستر پر سو گیئیں۔

میں نے گھڑی کی طرف دیکھا تو تین بجنے والے تھے اور پھر میں بھی بستر پر جا کر سو گیا۔

صوبھ میری آنکہ فرح کے جگانے سے کھلی ،اور سامنے گھڑی پر نظر پڑی تو نو بج رہے تھے اور فرح اسکول جانے کے لیا تیار تھی۔ میں نے ابھی ناشتہ بھی کرنا تھا اور انکل جمال کو کورٹ جانے کے لیا دیر ہو رہی تھی، اوپر سے امی ابھی تک سو رہیں تھیں۔سو میں نے فرح کو کہا کے آج میں اسکول نہیں جاؤں گا۔

فرح بولی؛ خالد امی ابھی تک سو رہیں ہیں اور انکل جمال میرا انتظار کر رہے ہیں۔مجھے آج اسکول میں دیر تک روکنا ہے ۔ میری دو کلاسس ہیں ، اور تم امی کو بتا دناکے انکل جمال مجھے کورٹ سے واپس اتے ہووے اسکول سے لے لیں گے۔

میں بولا ؛؛؛ فرح تم فکر نا کرو

پھر فرح انکل جمال کے ساتھ اسکول چلی گیئی

میں نے ناشتہ کیا اور امی کے کمرے میں آیا تو امی بیسوده سو رہیں تھیں

میں نہانے چلا گیا ۔ جب میں نہ رہا تھا تو مجھے گھنٹی کی آواز آی، میں نے دروازہ سے جھانکا تو مجھے جواد نظر آیا ، میں نے اس کو کہا کے وہ روکے ،میں کپڑے بدل کر اتا ہوں

جب میں غسل خانے سے باہر آیا تو جواد بھائیی صحن میں تھے اور امی کے روم کا دروازہ کھٹکا رہے تھے ، مجھے دیکھ کر وہ کچھ گھبرا سے گےا اور بولا ۔؛؛ خالد تم آج اسکول نہیں جو گے کیا

میں بولا ؛؛؛ جواد بھائیی اجج میں دیر سے اٹھا ہوں اس لیہ اسکول نا جا سکا

میری بات سن کر وہ کچھ پریشاں سے ہو گیے

اتنے میں امی بھی اٹھ کر باہر صحن میں آگیئیں

جواد بھائیی نے امی کو سلام کیا ؛؛ کیا حال ہے آنٹی

امی بولیں؛؛ جواد میں ٹھیکہ ہوں بیٹا

پھر امی نے مجھ سے پوچھا؛؛تم اسکول کیوں نہیں گیے

میں نے ان کو وجہ بتادی

وو غصّے سے بولیں ۔ تم رات دیر تک جاگتے ہو اور پھر اسکول نہیں جاتے

جواد بھائیی جلدی سے بولے ؛؛؛ کوئیی بات نہیں آنٹی ، آپ فکر نا کریں میں خالد کو سمجھا لوں گا۔

پھر امی نہانے چلی گیئیں اور میں غصّے سے اوپر انکل جمال کے روم میں چلا گیا۔

مرے پیچھے پیچھے جواد بھائیی بھی اوپر آگے اور بولے؛؛؛

خالد کیا تم نے فیضان سے کل گانڈ ماروی تھی

میں یہ سن کر ہکہ بکہ رہ گیا ،،

جواد بھائیی بولے؛؛ تم تو پکّے گانڈو ہو ،مجھے فیضان سب بتا دیا ہے اور میں یہ سب تمھارے ابا کو،امی کو اور انکل جمال کو اور اسکول میں سب کو بتا دوں گا۔

میں نادامی سے رونے لگا تو جواد بھائیی مرے پاس اکر بولے؛؛ گانڈو پہلے گانڈ مرواتا ہے پھر روتا ہے

پھر بولے ؛؛ ایک شرط اگر تم پوری کرو تو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔

میں بولا ؛؛ آپ جو بھی کہیں میں مان لوں گا ، مگر اپ کسی کو یہ بات نہیں بتانا

جواد بھائیی نے مجھے گندی گندی گالیاں دیں اور بولے؛مادر چود، تیری بہن کی چوُت میں لنڈ ماروں۔۔تو خاموشی سے انکل جمال کے روم میں رہنا ،، مجھے تیری رنڈی امی سے کام ہے۔ تم نیچے مت انا جب میں نا کہوں

میں بولا ؛؛ اچھا جواد بھائیی

میں انکل کے روم میں چلا گیا اور جواد بھائیی نیچے چلے گیے

سیڑیوں پر ایک روشندان تھا جو بیک وقت صحن اور امی کے روم میں کھلتا تھا

جواد بھائیی کے جانے کے بعد میں سوچنے لگا کے امی اور جواد بھائیی اب کیا کریں گے ۔ میں جواد بھائیی سے بوہت ڈرتا تھا میں کے سارا موحلہ کی ہی ان سے گانڈ پھٹتی تھی۔ میں نے حوصلہ کیا اور روشندان کے پاس چلا گیا ۔ امی اور جواد بھائیی صحن میں بھیٹھے ہووے باتیں کر رہے تھے۔

جواد بھائیی ایک مظبوط جسم اور اونچا قد کے ملک تھے اور بوڈی بلڈر بھی تھے۔اس وقت جواد بھائیی نے پتلوں/جینس اور بغیر آستینوں کی

ٹی قمیض پہنی هوئی تھی، امی ٹیبل پر ناشتہ کر رہیں تھیں اور ساتھ والی کرسی جواد بھائیی تگین پھیلا کر بیٹھے ہووے تھے۔

امی نے سفید رنگ کا ململ کا کرتا اور ململ کا اسی رنگ کا چست پاجامہ زیب تن کیا ہوا تھا۔اور اپنے گیلے بالوں کو تولیہ میں لپٹایا ہوا تھا ۔ میں نے ایک اور چیز نوٹ کی کے امی نے بریزیر نہیں پہنا ہوا تھا اور کے گلے کے بٹن بھی کہولے ہووے تھے

ناستا کرنے کے بعد امی نے جواد بھائیی کو کہا کے یہاں تو بوہت گرمی ہے چلو اندر چل کر بیٹھتے ہیں۔دونوں اندراگیعے

امی جب اٹھیں تب میں نے دیکھا کے ان کی قمیض چھوٹی اور بڑے چک والی تھی اور ان کا پاجامہ بھی بوہت ٹائیٹ تھا۔

جب وو اندر کمرے میں گیے تو میں بھاگ کر اپنے کمرے میں آگیا اور امی کر کمرے کی ساتھ والی کھڑکی پر کھڑا ہو گیا ، جہاں سے میں امی کے روم میں دیکھ سکتا تھا۔ امی قالین پے صوفے کے سہارے بیٹھ گیئیں اور جواد بھائیی بھی ان کے پاس ہی بیٹھ گیے

امی بولیں؛؛ جواد خالد کہاں ہے

جواد بھائیی بولے؛؛؛ وو فیضان کے گھر گیا ہے

امی اطمنان سے بولیں ؛؛ یہ تو اچھا کیا اس نے ،، جواد میں خالد کی طرف سے بوہت پریشان ہوں۔، اس کے دوست اچھے نہیں ہیں

جواد بھائیی بولے ؛؛؛ پروین ، میں دیکھ لوں گا اس کے دوستوں کو ،آپ فکر نا کریں ،، تم یہ بتاؤ کے تم نے مجھے کیوں بولیا ہے۔

امی بولیں ؛؛ ہاں لیکن تم پہلے باہر کا اور سیڑیوں کا دروازہ بند کر کے او،وگرنہ بللی آجاتی ہے۔

جواد بھائیی دروازہ بند کرنے گیے تو امی صحن مین میں کھلنے والی کھڑکی پر جا کر کھڑی ہو گیئیں۔کھڑکی تھوڑا سا نیچے بنی هوئی تھی اور ایمی اس کے چوکھٹ پر کھونیاں ٹیک کر اور کافی جھک کر کھڑی تھیں اور اس ترہان ان کے چوتر باہر کی طرف نکل گیے۔ امی کے ٹائیٹ پاجامہ میں سے ان کی گانڈ صاف نومیان ہو گی تھی۔ اب امی کی پشت میری طرف تھی۔

جب جواد بھائیی کمرے میں واپس ایے تو امی کو کھڑکی کے کھڑا دیکھ کر وہ بھی ان کے پاس ہی کھڑے ہو گیے اور امی سے پوچھے لگے کے ان کو کیوں بولوایا ہے ۔

امی بولیں ؛؛ تم قمر کو جانتے ہو ، وہ جو ہمارے پڑوس میں رہتا ہے

جواد بھائیی؛؛؛ہاں جانتا ہوں

امی بولیں ؛؛ وہ فرح کو تنگ کرتا ہے

جواد بھائیی ؛؛؛ میں اس کے سرے خاندان کو جانتا ہوں ؛؛ خاص طور پر اس کی بہن ریحانہ کو ، جس کا سرے موحلے سے چکّر ہے اور اس کی ماں بلقیس کو بھی جانتا ہوں ، اور تم پرواہ نا کرو میں سب ٹھیکہ کر دوں گا ، بس تم اتنا کرنا کے فرح کو کہنا کے جب قمر اس کو تنگ کرے تو وو مجھے فون کر دے ۔۔

امی بولیں ؛؛ نہیں جواد میں فرح کو کچھ نہیں کہوں گی سارا کام تم ہی نے کرنا ہے۔

میں نے اندازہ لگایا کے جواد بھائیی کی نظریں امی کے گریبان پر تھیں جس کے بٹن کھلے ہووے تھے۔ امی نے پھر اپنی گانڈ پر ہاتھ پہرا اور کھاج کی جواد کو دکھاتے ہووے۔جواد بھائیی نے اپنے لنڈ پر ہاتھ پہرا اور امی کی طرف اپنا رخ کر لیہ ۔ امی بدستور اپنی اپنی گانڈ کھجانے میں مصروف تھیں۔

آج مورننگ سے ہی مطلع ابرآلود تھا۔ آسمان پر گہرے بادل چاھے ہووے تھے ۔پھر ایک دم بارش شروع ہو گیی۔

امی بولیں ؛؛ جواد دیکھو بارش شروع ہو گیی

جواد بھائیی امی کے پیچھے آکر اور امی کے ساتھ اپنا جسم لگا کر کھڑے ہو گیے ۔ ان کا لنڈ امی کی گانڈ پر اور ان کے ہاتھ امی کی کمر پر تھے۔ امی کی خاموشی ان کی زبان بن گیی اور جواد بھی نے اس خاموشی کو امی کا اقرار سمجھ لیہ

پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے امی کی کرتا ہٹایا اور اپنی انگلی سے امی کے چوتروں میں انگلی کرنے لگے ، شاید امی یہی چھتیں تھیں اسلئیے انہوں نے جواد بھائیی کو روکنے کی کوئیی کوشش نہیں کی بلکے اپنی کمر میں اور خم کر لیہ۔

جواد بھائیی کی ہمّت اور بڑھ گیی اور انہوں نے اپنا لنڈ اپنی پتلون سے نکالا اور امی کے پاجامے کے اوپر سے ان کی گانڈ کے جھید پر رکھ کے کافی زوردار دھکے لگاے۔ اور امی کو بالوں سے پکڑ لیہ۔جواد بھائیی بڑے ہی بےغیرت اور بدتمیز لڑکے تھے ،ان کی زبان بوہت گندی تھی اور کسی کا خیال نہیں کرتے تھے۔ اور اس لیہ سب کی ان سے گانڈ پہتی تھی۔

جواد بھائیی نے امی کو سیدھا کیا اور اپنے سینے سے لپٹا لیہ ،امی بھی بیتاب ہو کر ان سے لپٹ گیئیں اور جواد بھائیی نے امی کے ہونٹ چوسنے اور کاٹنے شروع کر دیے۔ امی نے مست ہو جواد بھائیی کے لنڈ کو پکڑ لیہ جو بلا موغلبہ دس انچ کا تھا۔

میں نے آج تک اتنا لمبا لنڈ نہیں دیکھا تھا ۔ میرا دل دھڑکنے لگا اور میں حیران ہو گیا کے میری اپنی امی اس ترہان کی حرکتیں کرتی ہیں جب ابا گھر پر نہیں ہوتے۔ اور یا سب کچھ نجانے کب سے ہو رہا ہے۔

اور مرے ذهن میں امی کی حرکتوں کی ایک ریل سی میری آنکھوں میں گھومنے لگی اور وہ ساری باتیں یاد انے لگیں جو اس وقت میں سمجھ نا سکا تھا۔وہ امی کا بازار جانا ، اور مختلف دوکانداروں سے ادھارگھر کا سامان خریدنا اور ان کے پیسے واپس نا کرنا ۔اور بوہت سی باتیں جن کا ذکر اگر اپ لوگ چاہو گے تو پھر کسی کہانی اور میں کروں گا، اس وقت تو جواد بھائیی امی کی چوُت کے مزے لے رہے تھے؛

امی ابھی تک جواد بھائیی سے لپٹی هوئی تھیں ایر جواد بھائیی ممی کے مممے چوس رہے تھے اور ان کا ایک امی کی گانڈ میں گھسا ہوا تھا ۔

کبھی کبھی جواد بھائیی امی کی چھوت میں بھی اپنی انگلی ڈالتے تھے اور امی ان کی اس حرکت سے بوہت لطف اندوز ہوتی تھیں۔ اس ترہان کرتے کرتے جواد بھائیی نے امی کا پاجامہ ان کی گانڈ سے نیچے اتار دیا اور امی کی گانڈ اپنی طرف کر لی؛ اب انہوں نے امی کی ننگی گانڈ کے سوراخ پر اپنی زبان رکھ کر امی کی گانڈ چاٹنا شروع کر دی ،

امی کا برا حال ہو گیا ،ان کے مؤ سے سسکاریاں نکال رہی تھیں اور جب ان کو اس گانڈ چاٹنے میں زیادہ مزہ انے لگا تو انہوں نے اپنے دونوں چوتر اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر ان کو اور کھول دیا تاکے جواد بھائیی کی زبان امی کے گانڈ کے سوراخ کے اندر تک چلی جایے۔یہ عمل کوئیی دس منت تک جاری رہا ،پھر امی سے مزید ضبط نا ہو سکا اور انہوں نے کہا ؛؛؛

امی ؛؛ جواد تم مجھے زیادہ مت ترپاؤ، اپنی لنڈ میری گانڈ میں ڈال دو

جواد بھائیی جو شاید نشے میں تھے امی کی بیقراری دیکھ کر بولے؛

جواد بھائیی ؛؛ ماں کی لوڑی، تم سرے جہاں سے چدواتی ہے ، کٹیا ،رانڈ رنڈی ابھی جلدی کس بات کی ہے

اور جواد بھائیی نے امی کی گانڈ میں اپنی زبان ڈالنا جاری رکھی،

اور انہوں نے اپنی دو انگلیاں امی کی چھوت میں گسهردین۔ امی کا اب تو اور بھی برا حال ہو گیا ، انہوں نے کچھ اور برداشت کیا پھر جواد بھائیی سے التجا بھرے لہجے میں ان سے کہا

امی؛ جواد میری گانڈ میں اپنا لنڈ ڈال دو نا ، مجھ سے اب برداشت نہیں ہوتا۔

جود بھائیی نے دیکھا کے امی کی گانڈ کا چھید سوکڑنے اور کھلنے لگا ہے تو وو کھڑے ہو گیے اور اپنا لنڈ امی کی تھوکوں بھری گانڈ پر رکھ دیا اور امی کو کندھوں سے پکڑ لیہ۔

اور امی سے کہا ؛؛ پروین مرے لنڈ کو ٹھیک اپنی گانڈ کے چھید پر رکھ لے اور اچھی ترہان اپنی گانڈ پر تھوک لگا ۔

انمی نے اپنی تھوک سے اپنی گانڈ گیلی کی اور اپنی گانڈ کو اور جھکا لیہ۔اور جواد بھائیی کے لنڈ کو اپنی گانڈ کے چھید پر ٹیک دیا

جواد بھائیی نے جب دیکھا کے امی اب بلکل گرم اور سیٹ ہیں تو انہوں نے ایک زوردار جھٹکے سے اپنا لنڈ امی کی گانڈ میں گھسا دیا۔

درد کے میرے امی کی چیخ نکل گیی اور انہوں نے جواد بھائیی کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی لیکن جواد بھائیی نے امی کو اچھی ترہان قابو کیا ہوا تھا۔اور وہ پوری رفتار سے امی کی گانڈ مارنے میں مصروف رہے ،امی کی چیخیں اب ہلکی ہونے لگیں تھیں لیکن جواد بھائیی کے زوردار جھٹکے کام نہیں ہووے تھے ۔

پہلے دس منت تو جواد بھائیی نے اپنا لنڈ امی کی گانڈ میں سے نکالا نہیں اور یونہی اپنے لنڈ کو باہر نکلے بغیر اندر ہی اندر دھکے لگاتے رہے۔پر جب امی کی گانڈ رواں ہو گیی تو جواد بھائیی اپنا لنڈ امی کی گانڈ میں پورا باہر نکال کر اندر گھسنے لگے ،جواد بھائیی امی کے مممے دبا رہے تھے اور امی اب اپنی ہی چھوت میں انگلی کر رہیں تھیں،

میں نے بھی اپنا لنڈ شلوار میں سے باہر نکال لیہ تھا۔ اور مٹہ مارنے لگا ، یہ سب دیکھ کر میرا دل یہی کرنا چاہ رہا تھا۔

ادھار جواد بھائیی امی کی گانڈ مارنے میں مصروف تھے اور جہاں تک میرا اندازہ تھا کے امی کی چھوت نے پانی چھوڑ دیا تھا ،وہ اس لیہ کے امی اب جواد بھائیی کے جھٹکوں کے جواب میں وہ گرمجوشی سے نہیں دے رہی تھیں۔ مگر جواد بھائیی تو بس کچھ کھہ کر امی کی گانڈ مار رہے تھے تقریباں ایک گھنٹے سے اور وہ چھوٹنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔بلآخر جواد بھائیی نے اپنی منی میری امی کی گانڈ میں چھوڑ دی اور کرسی پر بیٹھ گیے ۔ امی کی گانڈ منی اور غلاظت سے بھری هوئی تھی ، وہ اٹھیں اور جواد بھائیی کا ہاتھ پکڑ کر غسل خانے میں لے گیئیں اور کوئیی دس منت کے بعد وہ دونوں ننگے واپس کمرے میں اگیعے اور مسہری پر لیٹ گیے۔

جواد بھائیی بولے ؛؛ پارو تیری گانڈ بوہت ٹائیٹ ہے ۔ کیا جمال تیری گانڈ نہیں مارتا

امی بولیں ؛؛؛ پہلی دفع تم نے کیا ہے ، جمال نے کبھی نہیں ماری۔

جواد بھائیی بولے؛؛؛ جھوٹ تو کیا قمر کے باپ سے تیرا آنکڑا فٹ نہیں ہے۔وہ تو پٹھان ہے اس کے تو مذہب میں لکھا ہوا ہے گانڈ مارنا اور مروانا ۔۔۔

امی بولیں ؛؛ نہیں اس نے ایسا کچھ نہیں کیا مرے ساتھ تم تو شک کرتے ہو

جواد بھائیی ہنستے ہووے بولے ؛؛؛ ہاں ہاں تو تو بڑی معصوم ہے کٹیا تیرے تو جمال بھائیی ، قمر کا باپ ،بیکری والے بابا فضل اور وہ تمھارے بیٹے کے دوست کا بھائیی اور ابا وہ سب تو تجھے سلام کرنے اتے ہیں۔

امی کچھ نہیں بولیں ۔۔۔ لیکن اندر اندر سے بوہت غصّے میں لگ رہیں تھیں، مگر جواد بھائیی سے سب کی گانڈ پہتی تھی اس لیہ ان کی بھی بولتی بند تھی

جواد بھائیی نے امی کے پیت پر پیار اور چوسنا شروع کیا ، وہ کبھی کبھی امی کی چھوت کی اوپر والی جگہ پر اپنے دانت گھڑدیتے تھے کے امی کی چیخ نکل جاتی تھی۔ امی سیدھی لیتی ہویں تھیں اور ان کی تگین کھلی ہوئیی تھیں ۔ ان کے اوپر پیت پر جواد بھائیی کا موُن تھے اور جواد بھائیی امی سے خرمسٹیں کر رہے تھے۔امی کی چھوت میں انگلی کرنا ، ان کے مممو کو کاٹنا اورامی کی بڑی بڑی کالی چوچیوں کو اپنے دانتوں سے کاٹنا ،، یہ سب امی کو گرم کر دینے کے لیہ کافی تھا۔امی نے جواد بھائیی کا لنڈ پکڑ لیہ اور اسے ہاتھ سے ہلانے لگیں تو وہ ایک دم تن گیا۔

امی پیار بھرے لہجے بولیں؛جواد تمہارا لنڈ پھر کھڑا ہو گیا ہے۔

جواد بھائیی جو امی کی چھوت چاٹ رہے تھے بولے؛؛؛ جان یہ پھر تمحے چوودنے کے لیہ تیار ہے۔

امی بولیں ؛؛ پھر انتظار کس بات کا ہے چود لو ورنہ کوئیی نا کوئیی آ جایے گا۔

جواد بھائیی بولے؛؛؛ پارو آج تم مجھ کو یہ بتانا کے تم کو کس کس نے چودہ ہے۔

امی مزے سے شرشار لہجے میں بولیں ؛؛؛ ہاں بتا دوں گی لیکن پہلے میری آگ تو ٹھنڈی کر دو ، میں تو بیتاب ہوں تمہارا لنڈ اپنی چھوت میں لینے کے لیہ۔

جواد بھائیی ؛؛تو یہ لو ابھی تمہاری چھوت میں ڈال دیتے ہیں

یہ کہ کر جواد بھائیی امی کی ٹاگوں کے درمیان آ گیے اور اپنا لنڈ امی کی گیلی گیلی چھوت میں گھسسہ دیا ۔۔

امی کی آہ نکل گیی اور انہوں نے اپنی ٹاگوں کو جواد بھائیی کی کمر کے لپیٹ لیہ اور اپنی باہوں سے جواد بھائیی کی گردن کو کس کر پکڑ لیہ ۔ پھر انہوں نے جواد بھائیی کے گھسسوں کا جواب اپنے زوردار گھسسوں سے دیا۔دونوں ایک دوسرے کو پوری طاقت سے گھسصے لگا رہے تھے اور امی جواد بھائیی کے ہونٹوں کو چوس رہیں تھیں ۔

پھر جواد بھائیی نے امی کی ٹاگین اپنے کندھوں پر رکھ لیں اور امی کے چوتروں کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا اور امی کے اوپر آکر امی کو چودنے لگے ،اس ترہان چودائیی سے امی کے گھوٹنے امی کی گردن کے پاس تک گیے۔ اور جواد بھائیی کا لنڈ امی کی چھوت میں پورا آ جا رہا تھا ۔۔ کوئیی دس منت کی چودائیی میں امی تو فارغ ہو گیئیں لیکن جواد بھائیی کا مست لنڈ امی کی پھددی کو پڑھتا رہا ۔۔ پھر جواد بھی نکلنے کے قریب ہو گیے ،تو انہوں نے اپنا اپنا لنڈ امی کی چھوت سے نکل لیہ اور امی کے مون میں ڈال دیا اور امی کے مون میں چوٹ گیے ۔ اپنی اک کی منی کا ایک ایک قطرہ پی گیئیں ۔

جواد بھائیی تھک کر امی کے ساتھ ہی لیت گیے اور امی بھی ان کے ساتھ لیت گیئیں۔

فرح کے اسکول سے واپس انے کا ٹائیم ہو گیا تھا ۔ امی نے اٹھ کر ووہی لباس پہن لیہ اور جواد بھائیی نے بھی کپڑے پہن لیہ ۔دونوں باہر صحن میں اکر بیٹھ گیے۔

آسمان پر پھر گہرے بادلوں سے بھر گیا تھا،

امی بولیں ؛؛؛ جواد اگر بارش ہو گی تو فرح کیسے گھر یہی گی۔وہ تو چھتری بھی نہیں لے کر گیی ہے۔

جواد بولے ؛؛ انکل جمال تو ہیں اس کے لیہ وہ اس کو چھوڑ جائییں گے؛

اتنے میں تیز بارش شروع ہو گیی ۔ وہ دونوں اندر اگیعے۔

جواد بھائیی نے امی کو پھر پکڑ لیہ ،

امی؛؛ جواد اب نا تنگ کرو، فرح انے والی ہو گی

جواد؛؛ تو کیا ہوا ، کیا تم سمجھتی ہو کے فرح کو تمھارے کرتوت کا علم نہیں ہو گا۔

امی؛؛ پھر بھی میں اس کے سامنے کچھ نہیں کرتی۔

جواد ؛؛ ہاں وہ بھی تمھارے سامنے کچھ نہیں کرتی ہو گی۔

امی؛ کیا بکواس کر رہے ہو تم ، وہ میری بیتی ہے؛

جواد بھائیی بولے ؛؛ کیا پتا کس کی ہے وہ

امی غصّے سے بولیں ؛؛ تم نے کیا سمجھ رکھا ہے مجھے

جواد بھائیی ہنستے ہووے بولے؛؛؛رنڈی

امی بولیں؛؛ اپنے گھر کی بھی تم کو کوئیی خبر ہے ؛؛

اب جواد بھائیی بھی غصّے میں بولے؛؛کٹیا تو اپنے گھر میں کیا کیا کرتی ہے مجھ کو سب معلوم ہے۔قمے کے باپ ، بابا فضل ، خالد کے دوست کا بھائیی اور اس کے ابا ،رمضان دودھ والا ، اور پتا نہیں کون کون ہیں انکل جمال کے علاوہ جو تجھ کو چود چکے ہیں۔اوپر سے فرح بھی کوئیی کم رنڈی نہیں ہے ،محلے کے دسیوں مردوں سے مزے لیتی ہے۔

امی نے اب کوئیی جواب نہیں دیا اور خاموش رہیں۔

میں یہ سب سن کے حیران ہو گیا ۔ فرح بھی ایسی ہے یہ مجھ کو آج پتا چلا ۔۔جواد بھائیی جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

بارش تیز ہو گیی تھی، اتنے میں گھنٹی بجی ، جواد بھائیی نے دروازہ کھولا تو فرح بھاگتی هوئی اندر آگیی۔ وہ پوری ترہان بھیگی هوئی تھی ۔

فرح ؛؛ جواد بھائیی سلام

جواد بھائیی نے جواب دیا مگر ان کی نظریں فرح کے جسم کا تعف کر رہیں تھیں

فرح نے اپنا دوپٹتا اتار کر امی کے بستر پر پھینک دیا تو اسکے سفید رنگ کے چست لباس میں سے اس کا سارا بدن نظر انے لگا۔

امی بولیں ؛؛ فرح تم باورچی خانے میں جا کر کھانا گرم کر کے کھا لو اور خالد کو بھی بولالینا۔

پھر امی نے جواد بھائیی سے کہا؛ جواد ہم اوپر جمال کے کمرے میں چلتے ہیں

میں ڈر گیا کے اوپر اگر جواد بھائیی نے مجھے نا پایا تو مجھ کو مارین

گے۔ میں نے دیکھا کے جب فرح آی تھی تو جواد بھائیی نے باہر کا دروازہ بند نہیں کیا تھا ، میں موقعہ دیکھ کر باہر آیا اور پھر واپس گھر میں آگیا ۔ اور پھر امی کے کمرے میں آگیا

جواد بھائیی مجھ کے دیکھ کر بولے ؛؛ لو خالد بھی آگیا ہے اور میں اب اوپر جا رہا ہوں اور انٹی آپ فرح کو که دو کے مرے لیہ بھی کھانا بنا لے۔

امی نے فرح کو کہا ؛؛ فرح آج خالد کا دوست بھی کھانا یہیں کھاۓ گا

ہمارا کچن برآمدے میں تھا ایک باہر کی دیوار تھی،دوسری طرف غسل خانے کی دیوار اور تیسری طرف میرا اور فرح کے کمرے کی دیوار تھی ۔ اور ایک طرف کوئیی دیوار نہیں تھی اس لیہ جو بھی کچن میں ہوتا تھا سب کو نظر اتا تھا۔

فرح کچن میں جا کر روٹیاں پکانے لگی موھڑے پر بیٹھ کر ،انہوں نے اپنی آستینوں کو چڑھا لیہ تھا اور اپنی شلوار کے پوہچوں کو بھی گھوٹنوں تک چڑھا لیہ تھا۔۔ کم گھیرکی شلوار ،چھوٹی قمیض ،کھلا دامن میں فرح کے مممے اور چوتر بوہت نومیان ہو رہے تھے ،اس کے جسم کا ہر حصّہ کسی کو بھی پاگل کر دینے کے لیہ کافی تھا۔

امی غسل خانے میں چلیں گیئیں ،امی کے جانے کے بعد جواد بھائیی برآمدے میں اکر کھڑے ہو گیے اور فرح سے ہلکی آواز میں باتیں کرنے لگے۔۔ میں صرف اتنا ہی سن سکا جو فرح نے جواد بھائیی کو کہا کے آپ جب امی سے بات کرلیں تو مجھے اشارہ کر دینا ۔۔ یہ موبائیل پر بل دیدینا ۔پھر جب میری امی نیچے اجایں گی تو میں اوپر آجاؤں گی۔

امی نہانے کے بعد غسل خانے سے نکلیں تو جواد بھائیی نے ان کو اوپر چلنے کا اشارہ کیا جس پر امی نے سر ہلا دیا تو جواد بھائیی اوپر جمال انکل کے کمرے میں چلے گیے

پھر امی بولیں ؛؛ خالد جب فرح کھانا بنا لے تو تم اوپر اکر دیدینا

اور خود اوپر چلی گیں۔ میں فرح کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا۔

میں بولا؛؛ فرح تم کو جواد بھائیی کیسے لگتے ہیں

فرح بولی؛؛ مجھے تو ٹھیکہ لگتے ہیں اور تم یہ کیوں پوچ رہے ہو؛

میں گڑبڑا گیا اور بولا؛؛ کچھ نہیں میں تو ویسے ہی پوچھ رہا ہوں، کیوں کے یہ تو انکل جمال کے دوست ہیں پھر جب انکل گھر پر نہیں ہوتے تو وہ کیوں اتے ہیں ، اور امی ان کا اتنا خیال کیوں رکھتی ہیں

اور دیکھو کے اب امی نے اپنے بالوں پر تولیہ لپیٹا ہوا تھا اور دریسسنگ گوں پہنا ہوا تھا اور وو اسی لباس میں اوپر چلیں گیئیں۔

فرح بولی ؛؛ تم تو پاگل ہو ، کچھ نہیں ہوتا امی کے اوپر جانے میں ، جواد بھائیی امی سے بوہت چھوٹے ہیں۔ اور تم اپنے کام سے کام رکھا کرو ۔

 

میں چپ چاپ فرح کی باتیں سنتا رہا

فرح بولی؛؛ تم دو منت یہاں بیٹھو میں کپڑے بادل کر اتی ہوں ، پھر تم کھانا اوپر دے انا۔

جب وو واپس آی تو اس نے باریک لوں کی قمیض اور کپری پہنی هوئی تھی ،جس میں سے اس کی کالی برا اور لال جانگیا صاف نظر آرہا تھا۔

فرح نے مجھے کھانا دے انے کو کہا اور ساتھ یہ بھی کہا کے امی کو جلدی نیچے لے انا

میں جلدی سے اوپر چلا گیا اور انکل جمال کے روم میں جا کر جواد بھائیی کا کھانا ان کے دے دیا۔امی اور جواد بھائیی باتیں کر رہے تھے ؛ امی صوفے پربیٹھی تھیں اور جواد بھائیی ان کے ساتھ قالین پر نیچے بیٹھے تھے، امی کے پاؤں میز پر تہے اور جواد بھائیی اس میز کے ساتھ تھے ۔

میں نے امی کو کہا کے فرح اپ کو بولا رہی ہے ، امی نے کہا ٹھیکہ ہے تم چلو میں اتی ہوں

جواد بھائیی بولے ؛؛ انٹی تم نے جانا ہے تو جاؤ، میں اب سونے لگا ہوں ،بس کھانا کہ کر آرام کر لوں گا

امی اٹھیں اور مرے ساتھ نیچے آگیئیں اور اپنے بستر لیت گیئیں ،وہ رات کو بھی اچھی ترہان نہیں سوی تھیں اور دن کو بھی آرام نہیں کیا تھا،بسترپر لیتے ہی ان کو نیند آگیی

فرح بار بار اپنے موبایل کی طرف دیکھ رہی تھی۔ پھر ایک گھنٹی بجی

فرح نے میری طرف دیکھا اور کہا ؛؛ خالد میں نے انکل جمال کے کومپوترپر اسکول کا کام کرنا ہے۔تم ادھر ہی رہنا

میں سمجھ رہا تھا کے اب میری بہن کی باری ہے

فرح کے اوپر جانے کے کچھ ہی دیر کے بعد جواد بھائیی نیچے ایے

اور مجھ سے کہا ؛؛ خالد تم اوپر مت انا

میں بولا ؛؛ اچھا

پھر وہ اوپر چلے گیے

میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر میں بھی اوپر چلا گیا اور دیکھا کے

فرح انکل کے کمپیوٹر پر کام کر رہی تھی۔ جواد بھائیی اس کے پاس کھڑے تھے

پھر فرح کھڑی ہو گیی اور جواد بھائیی سے بولی؛؛ جواد تم میرا ایک کم کر دو گے؛؛

جواد بھائیی نے پوچھا کیا ؛؛

فرح ؛؛ قمر مجھے تنگ کرتا ہے ۔ میرا باہر جانا مشکل ہو گیا ہے

جواد بھائیی نے شیخی ماری اور بولے ؛؛ فرح جی اس مادر چود کو میں تمھارے سامنے ماروں گا ، اسکی بہن ماریہ کی سب سے سامنے بے عزتی کر دوں گا ۔ تم فکر نا کرو ، بس تم ایک دفع میرا اس سے ٹاکرا کروا دو پھر دیکھو میں تمھارے لیہ کیا کیا کر سکتا ہوں

فرح بولی؛؛ مجھے معلوم ہے کے تم نڈر ہو

جواد بھائیی بولے؛؛ تم مرے ساتھ رہو میں سب ٹھیک کر دوں گا

فرح ؛؛ جواد میں تمھارے ساتھ ہوں ، بس تم میرا یہ کم کر دو ، ہم دونوں اچھے دوست ثابت ہوں گے

جواد بھائیی بولے ؛؛ قسم سے ،، اور فرح کا ہاتھ پکڑ کر سہلانے لگے

فرح نے کسی قسم کے غصّے کا اظہار نہیں کیا بلکے جواد بھائیی کو بڑھاوا دیتی رہیں ۔

فرح نے جواد بھائیی کو بولا ؛؛ جواد تمہاری باڈی بوہت ورزشی ہے ، کیا تم باڈی بلڈنگ کرتے ہو

جواد بھائیی بولے ؛؛ ہاں میں نے جم جوئییں کیا ہوا ہے

جواد بھائیی بولے؛؛ فرح تم بھی بوہت خوبصورت جسم کی مالک ہو

اور تماری باڈی کسی موڈل سے کم اچھی نہیں ہے

فرح ؛؛ مجھے موڈل بنے کا بوہت شوق ہے اور میں روز اپنےآپ کو شیشے میں دیکھتی ہوں اور اداکاری کرتی ہوں جیسے کوئیی موڈل کرتی ہے

جواد بھائیی بولے ؛؛ فرح میرا ایک فوٹوگرافر جاننے والا ہے ، اور اس کا ایک سٹوڈیو بھی ہے۔ اگر تو چاہو تو میں اس سے بات کر لیتا ہوں ،وہ تمہارا فوٹو سیشن کر لے گا ۔

فرح ؛؛ پر امی نہیں مانے گیں

جواد بھائیی ؛؛ ان کو پتا بھی نہیں چلے گا

فرح بولی ؛؛ وہ کیسے

جواد بھائیی ؛؛ تم اسکول سے واپس اتے ہووے ،ہر روز ایک گھنٹہ اس کے سٹوڈیو میں آجایا کرو۔ اور امی کو کہ دینا کے اسکول میں زیادہ کلاسس ہوتیں ہیں

فرح بولی ؛؛ اسکول میں خالد بھی ہوتا ہے ،وہ امی کو بتا دے گا

جواد بھائیی بولے؛؛ خالد کی تم فکر نا کرو میں اس کو دیکھ لوں گا

اور اگر وہ نا مانہ تو ایک اور راستہ ہے مرے پاس مگر اس کے لیہ تم کو تھوڑا بہادر بانہ ہو گا

فرح بولی ؛؛ وہ کیا راستہ ہے جواد

جواد بھائیی تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولے ؛؛؛ تم سن نہیں سکو گی ،تمہری امی کے مطالق ہے ، اور تم شاید اسے جھوٹ سمجھو۔

اگر تم ہمت کرو تو تمہاری امی ایک سکنڈ میں ماں جیئیں گی

فرح بولی ؛؛ جواد صاف صاف بات کرو ، میں موڈل بننے کے لیہ کچھ بھی کر سکتی ہوں

جواد بھائیی فرح کو پکّا کر رہے تھے ۔ان کی خواہشوں کو ہوا دے رہے تھے

جواد بولے ؛؛ یار تم ایک موکمّل موڈل ہو اور تم میں ہر وو بات ہے جو ایک اچھی موڈل میں ہو سکتی ہے

فرح بوہت خوش هوئی جواد بھائیی کی باتیں سن کر اور وہ کھڑی ہو گیی

اور بولی ؛؛ جواد تم کتنے اچھے ہو ، گھر میں تو سب مجھ کو پاگل سمجھتے ہیں۔لیکن ان کیا پتا میں اس دنیا میں کیا حاصل کرنا چاہتی ہوں۔

فرح اور جواد بھائیی کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اور فرح اس دوران جواد بھائیی سے بڑی پیار سے باتیں اور ان کے ساتھ چپٹی رہی جواد بھائیی بولے ؛؛ کل تمہاری امی نے بازار جانا ہے ، وہ انکل جمال کے ساتھ جایں گیں ، کیا تم بھی جاؤ گی

فرح بولی ؛؛ نہیں وہ جب بازار جاتیں ہیں تو مجھ کو نہیں لیکر جاتیں

جواد بھی بولے ؛ پھر کل دوپہر کو میں آجاؤں گا۔ میرا دوست ہے ایک جس کے پاس کیمرہ ہے ۔ اس سے تمہاری فوٹو کھچوں گا

فرح بولی ؛؛ ٹھیک ہے ۔اب میں نیچے جا رہی ہوں

جواد بھائیی کھڑے ہو کر بولے ۔۔اچھا

اور فرح کی کمر پر ہاتھ رکھ دیا ،فرح نے بھی ان کے ہاتھ کو دبا دیا

جواد بھائیی بولے ؛؛ فرح تم بوہت خوبصورت ہو اور تمہارا جسم بھی

فرح مسکراتے ہووے بولی ؛؛؛ کل جب تم میری تصویریں بناؤ گے تو میں دیکھون گی کے میں کیسی ہوں

مجھے یوں لگتا تھا کے فرح نے جواد بھائیی کو قابو کر لیہ ہے اور وہ ان سے کوئیی خاص کم لینا چھتیں ہیں،اور جواد بھائیی یہ تو الو بن رہے ہیں یا وہ امی کی ترہان فرح کی چھوت کے مزے لینا چاہتے ہیں ۔

میں نیچے چلا آیا اور امی کے روم جھانکا تو امی الٹی لیتے ہووے اپنے چوتر دبا رہیں تھیں

میں نے امی سے پوچھا؛؛ امی جان اپ کو کیا ہوا ہے

امی بولیں ؛؛خالد میری کمر میں درد ہو رہا ہے۔ میں غسل خانے میں پسل گیی تھی۔

میں بولا؛؛ کیا میں دبا دوں

امی بولیں ؛؛ نہیں ، بس تو مجھے کھڑا ہونے میں مدد کر دے

میں نے فورن امی کو ان کے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور اس عمل میں میرا بیٹھا ہوا امی کے چوتروں کو لگا تو مرے بدن میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا ۔ امی اٹھ کر چلیں تو وہ اپنی ٹاگین کھول کر چل رہیں تھیں، اتنے میں فرح بھی خوش خوش کمرے میں آگیی

امی فرح کو بولیں ؛؛ تو کہاں سے آرہی ہے بن ٹھن کے

فرح غصّے سے بولی ؛؛ امی میں نے کبھی آپکو پوچھا ہے کے اپ کیا کیا کرتیں ہیں

امی بولیں ؛؛ کیا بول رہی ہے تو ، تیری زبان بوہت چلنے لگی ہے ، مجھ کو سب معلوم ہیں تیرے کرتوت

فرح بولی ؛؛ میں بھی جانتیں ہوں سب کچھ اپ کے بارے میں ، میرا مونہ مت کھولویں تو اچھا ہے۔

امی غصّے سے بولیں ؛؛ الینے دے تیرے باپ کو ، میں ان سے تیری تھوکائیی کرواتی ہوں اور تیرے یاروں کی بھی

فرح بولی؛؛ ہاں ہاں آپ بھی بتانا اور میں بھی بتاؤں گی آپکے لچھن اور اپ کے کرتوت جو اپ کرتی ہو

امی اب ٹھنڈی آواز میں بولیں؛؛ فرح شرم کرو کوئیی بیٹی اپنی ماں سے ایسے بولتی ہے۔ اچھا مجھے معاف کر دے ،تو تو بوہت سونی لڑکی ہے ۔

پھر امی نے مجھے باہر جانے کو کہا اور میں کمرے سے نکل گیا

امی مرے نکلتے ہی فرح پر برس پڑیں اور اسے کہا کے خالد کے سامنے ایسی باتیں مت کیا کرو

فرح غصّے میں اپنے کمرے آگیی ۔

شام ہو چکی تھی امی بھی کپڑے بدل کر باہر صحن میں اکر بیٹھ گیئیں۔

امی نے صحن کا دروازہ کھلا رکھا تھا اور وو کسی کا انتظار کر رہی تھیں ۔ اتنے میں ماریہ باجی جن کی عمر کوئیی تیس سال کی ہو گی ہمارے گھر میں آگیئیں۔ ماریہ باجی امی کی خاص دوست تھیں۔ اور امی سے کافی بے تکلّف تھیں۔ وہ اپنے بھائیی نظام اور اپنی بھابی شانی کے ساتھ ہمارے محلے میں ہی رہتیں ہیں۔ان کا کردار کوئیی اچھا نا تھا۔ ان کی شادی نہیں هوئی تھی مگر ان کے چرچے اسلام آباد میں بھی مشور تھے ۔کو ایک سرکاری دفتر میں ملازم تھیں۔ اور وہ ہزارہ کی رہنے ولین تھیں۔

خیر وہ امی کے پاس اکر بیٹھ گیئیں اور بولیں ؛؛ پروین کیا بات ہے بڑی خوش نظر آرہی ہو کیا بھائیی صاحب اگائییں ہیں۔

امی بولیں ؛؛ نہیں ماریہ ایسی کوئیی بات نہیں

ماریہ باجی بولیں ؛؛یا کھلے کھلے سے گیسو یہ اڑی اڑی سی رنگت

امی بولیں ؛؛ کچھ نیا نہیں ہوا ہے۔ تم بتاؤ تمھارے عاشق الطاف کا کیا حال ہے۔

ماریہ باجی بولیں ؛؛ وہیں سے آرہی ہوں ، مجھے پیسوں کی ضرورت تھی اور میں نے اس سے لیں ہیں۔

امی نے کہا ؛؛ کتنے لئیے

ماریہ باجی بولیں ؛؛ پانچ ہزار، اچھا تم نے فلم دیکھنے چلنا ہے

 

امی بولیں ؛؛ ہاں چلو میں تیار ہوں

میرا دل بھی چاہ رہا تھا فلم دیکھنے کو ۔میں نے امی کو کہا کے مجھے بھی ساتھ لے چلیں ۔امی نے منہا کر دیا مگر ماریہ باجی نے کہا ۔پروین لے لو خالد کو بھی اپنے ساتھ ،وو بھی دیکھ لے گا۔

پھر ہم رکشا پکڑ کر صدر اگیعے ۔ ماریہ باجی نے ٹکٹ لیہ ۔ہال تقریباں خالی تھا۔ہم گلیری میں جا کر بیٹھ گیے ،ابھی فلم شروع نہیں هوئی تھی۔ہال میں بوہت سیٹ خالی تین ۔ہماری والی لین تو بلکل خالی تھی۔امی پہلے پھر ماریہ باجی اور پھر میں بیٹھا تھا۔ ہم ایک کونے میں بیٹھے تھے ۔

ماریہ باجی نے ٹکٹ خریدے نہیں تھے ان ایک بڑی بڑی موچھوں والے ایک آدمی نے ٹکٹ دیے تھے ۔

امی نے ماریہ باجی سے پوچھا ؛؛ ماریہ یہ آدمی کون تھا جس نے تم کو ٹکٹ دییں ہیں۔

ماریہ باجی بولیں ؛؛ پروین یہ میرا ایک دوست ہیں جو میری موحبّت

میں پاگل ہے ۔اور یہ مرے بھائیی کا دوست بھی ہے اور ہمارے گھر اس کا انا جانا ہے۔ ایک شادی شدہ آدمی ہے لیکن اپنی بیوی سے نفرت کرتا ہے۔اس لیہ میں اس کا بوہت خیال کرتی ہوں اور یہ میرا بھی اتنا ہی خیال رکھتا ہے۔(اور پھر امی کے کان کے پاس ،ہلکی آواز میں بولیں کے یہ بھی ہمارے ساتھ فلم دیکھے گا۔)

امی بولیں ؛؛ ٹھیکہ ہے ، کیا یہ مال دار آدمی ہے

ماریہ باجی بولیں ؛؛؛ ہاں بوہت مال دار ہے ۔ اس کی ایک مارکٹ ، اور چار گھر ہیں اور یہ سینما بھی اس کا ہے ۔ تم کو ابھی پتا چل جایے گا جب وہ ہماری خاطر اور مدارات کرے گا۔

سنیما ہال میں بوہت کم لوگ تھے ،ہمارے آگے اور پیچھے کی دو دو لینن خالی تھیں۔

اتنے میں ایک آدمی اکر ہممے کھانے پینے کی چیزیں دے گیا۔

پھر فلم شروع ہو گیی اور ہم سب کھاتے ہووے فلم دیکھنے لگے

مجھے فلم نظر نہیں آرہی تھی اس لیہ میں امی اور ماریہ باجی کے درمیان والی سیٹ پر آگیا

امی اور ماریہ باجی نے اپنی ٹانگیں اگلی سیٹوں کی بیک پر رکھ لیں تھیں

پھر وو آدمی جس نے ماریہ باجی کو ٹکٹ دیے تھے آیا اور امی اور ماریہ باجی کو سلام کیا اور مجھ سے ہاتھ ملایا۔

ماریہ باجی نے ہمارا تعارف کروایا ۔ اس کا نام شاہ صاحب تھا اور ماریہ ان کو شاہ جی که کر موخاطب کر رہیں تھیں

ماریا اور شاہ جی باتیں کرتے رہے اور ان کی باتوں سے میں ڈسٹرب ہو رہا تھا۔ میں نے ماریہ باجی سے کہا کے اپ امی کے ساتھ بیٹھ جائییں اور انہوں نے فورن اٹھ کر اپنی سیٹ بدل لی ،اب میں امی کے ساتھ اور شاہ جی امی اور ماریہ باجی کے درمیان میں تھے ۔ امی اور ماریہ باجی نے بدستور اپنی ٹانگیں اگلی سیٹوں کی بیک پر رکھیں هوئی تھیں اور شلواروں کے پونچھے ان کے گھوٹنوں تک ننگے تھے ۔

تھوڑی سے فلم دیکھنے کے بعد میں نے ماریہ باجی کی طرف چھوڑ نظروں سے دیکھا تو وہ شاہ جی کو پیار کر رہیں تھیں

اور امی کن انکھیوں سے ان کو دیکھ رہیں تھیں

امی بولیں ؛؛ ماریہ ذرا خیال سے خالد ساتھ ہے

ماریہ باجی بولیں ؛؛ پروین تم ذرا اپنی کمر ہماری طرف کر لو تاکے خالد کو کچھ نظر نا ایے

امی نے اپنا مونہ میری طرف موڑ لیہ اور اپنی پشت شاہ جی کی طرف کرلی اور سیٹوں کے درمیان جو ہاتھ رکھنے والی جگہ (ہنڈہولڈر ) اس کو بھی ہٹا دیا اور اس طرح امی کی سیٹ اور شاہ جی کی سیٹ ایک ہی ہو گیی۔ ادھار شاہ جی نے بھی ماریہ باجی والی سیٹ کا ہنڈ ہولڈر ہٹا دیا ۔ ماریہ باجی اور شاہ جی دونوں اپنی اپنی ٹانگیں سیٹ کر اوپر کر کے بیٹھ گیے۔

میں اور امی فلم دیکھنے میں مگن تھے ۔ شاہ جی اور ماریہ باجی اندھیرے کا فائیدہ اٹھاتے رہے۔

میں اب ان کو صاف نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکے امی بیچ میں تھیں اور میں کوشش کے باوجود ان دونوں کو دیکھنے میں ناکام رہا۔ بس ان کے باتیں کرنے ،ہسنے کی یہ پھر ماریہ باجی کی ہلکی ہلکی سسکاریاں اور چوما چاٹی کی آوازیں آرہیں تھیں۔

میرے پاس چپس ختم ہو گیے تو میں نے امی سے کو کہا

امی بولیں تم میرے چپس میں سے لےلو

امی نے چپس کا بڑا لفافہ اپنی گود میں رکھا ہوا تھا۔ میں نے بیٹھے بھیٹھے اپنا ہاتھ بڑھا کر چپس لیتا رہا۔اندھیرے کی وجہ سے میرا ہاتھ ہر دفع امی کے پیٹ یہ رانوں سے ٹکراتا رہا

اور لفافے میں سے چپس لے کر کھاتا رہا۔

پھر فلم اتنی اچھی تھی کے میرا پورا دایھاں فلم پر ہی مذکور رہا ۔

پھر انٹرول ہوا تو روشنی میں میں نے سب کو دیکھا ، ماریہ باجی ،شاہ جی اور امی ٹھیکہ طرح بیٹھے ہوا نظر ایے

شاہ جی نے بیرے کو آواز دی تو اس کھانے کی کچھ اور چیزیں ہم کو لا کر دین۔ امی شاہ جی سے بوہت متاثر نظر آتیں تھیں۔

انٹرول ختم ہو اور میں دیکھا امی نے اپنی ٹانگیں اگلی سیٹ پر رکھ لیں اور اپنے چوتر سیٹ سے آگے کر لیہ۔ وہ اب فلم کم دیکھ رہیں تھیں بس ان کی نظریں شاہ جی اور ماریہ باجی پر گھڑی ہوئییں تھیں۔ میں نے بھی ان کو دیکھنے کی کوشش کی مگر اندھیرے کی وجہ سے کچھ دکھائیی نا دیا ۔

میں مایوس ہو کر فلم دیکھنے لگا ۔ فلم میں اب مار دھاڑشروع ہو گیی جو مجھے پسند نہیں تھی ۔ یوں لگتا تھا کے فلم اب ختم ہونے والی ہے ۔

میرا دل چپس کھانے کو چاہا تو میں امی کی گود میں پرے ہووے لفافے میں ہلکے سے ہاتھ ڈالا تو وہاں کسی اور کا ہاتھ تھا۔میں نے فورن اپنا ہاتھ کنچ لیہ ۔اور امی کی طرف آگے ہو کر دیکھا تو امی کی آنکھیں بند تھیں اور شاہ جی اپنے ہاتھ سے امی کی چھوت میں انگلی کر رہے تھے ۔میں نے غور سے دیکھا تو شاہ کا لنڈ ماریہ باجی چوس رہیں تھیں اور شاہ جی ان سے چھپا کر امی سے مستیاں کر رہے تھے۔ میرے اندازے میں شاہ جی کی منی نکل گیی ، کیوں کے اب وہ پورجوشی کا اظھار نہیں کر رہے تھے۔امی کی شلوار گھوٹنوں تک اتری هوئی تھی اور وہ ابھی فارغ نہیں ہوئییں تھیں اس لیہ انہوں نے شاہ جی کا ہاتھ زور سے پکڑا ہوا تھا۔جب ماریہ باجی سیدھی ہویں تو شاہ جی نے اپنا ہاتھ امی کی چھوت پر سے اٹھا لیہ۔ تو میں نے جان کر اپنا ہاتھ امی کی گود میں ڈالا اور ظاہر یہ کیا کے میں چپس لے رہا ہوں۔ میرا ہاتھ سیدھا امی کی ننگے جسم سے ہوتا ہوا ان کی چھوت پر چلا گیا۔

امی نے گھبرا کر میرا ہاتھ ہٹایا اور اپنی شلوار اوپر کر لی۔

میں بولا؛؛ امی چپس کہاں ہیں

امی نے چپ چاپ چپس کا لفافہ مجھے دے دیا ۔

پھر گھنٹی بجی اور فلم ختم هوئی

ہم باہر نکلے تو دس بج چکے تھے ، شاہ جی نے پہلے ماریہ باجی کو ان کے گھر چھوڑا پھر ہممے گھر اتارا۔

گاڑی سے اترتے ہووے شاہ جی بولے ؛؛ کیا اپ کو فلم اچھی لگی

امی ؛؛ ہاں شاہ جی بوحت مزہ آیا

شاہ جی بولے ؛؛ اپ سے پھر کب ملاقات ہو گی

امی مجھے دیکھتے ہووے بولیں ؛؛ کیوں کیا ماریہ آپ کے لیہ کافی نہیں ہے۔

شاہ جی ۔ سوری ، آپ کو برا لگ کیا

امی نے مجھے کہا ؛؛ خالد تم اندر جاؤ

میرے جانے کے بعد امی نے شاہ جی سے کچھ کہا جو مجھے سونائیی نہیں دیا ۔ بس میں نے یہ دیکھا کے شا جی نے امی سے ہاتھ ملایا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے چلے گیے۔

میں نے چابی سے دروازہ کھولا اور میں اور امی گھر میں داخل ہووے تو فرح اور ہمارے ساتھ والے گھر کی پڑوسن کرن جو عمر میں فرح کے برابر تھی دونوں لوڈو کھیل رہے تھے۔

فرح بولی ؛؛ آپ لوگوں نے بوحت دیر کر دی

امی بولیں؛ فلم لمبی تھی ،سدس بجے تو ختم هوئی تھی

فرح ؛؛ امی انکل جمال گوجر خان گیے ہیں ،وو آج گھر نہیں آییں گے ۔

امی کے چہرے پر اداسی چاہ گیی۔۔ اچھا ، تم نے کھانا کھایا کیا ۔

فرح ؛؛ جی

میں بولا ؛؛ مجھے تو بھوک نہیں ہے

امی بولیں ؛؛ میں نے بھی کھانا نہیں کھانا ہے۔

فرح بولی ؛؛ امی کرن کے گھر آج اس کی امی اکیلی ہیں ، اور انہوں نے مجھے بولایا ہے کرن کے ساتھ سونے کو ۔ میں آج رات کو اس کے گھر جاؤں گی۔ اور یہ کہ کر فرح اور کرن چلیں گیئیں۔

امی میرے ساتھ اپنے کمرے میں آگیئیں

امی مجھ سے نظریں نہیں ملا رہی تھیں ۔ اور ان کا چہرہ بھی پیلا ہوگیا تھا۔ میں سمجھ گیا تھا کے ایسا کیوں ہے ، میں نے ان کی چوری پکڑ لی تھی اور وہ میری طرف سے پریشاں تھیں

میں اپنے کمرے چلا گیا اور کپڑے تبدیل کیے ۔ گرمیوں کے دن تھے اور حبس بھی ہو گیا تھا ۔ میں نے نیکر اور بنیان پہن لی اور برآمدے میں آگیا ۔ امی نے بھی کالے رنگ کی کوٹن کی باریک نائیٹی پہن لی تھی اور ٹی وی دیکھ رہیں تھیں۔ اتنے میں امی کے موبائیل کی بل بجی۔

امی نے فون اٹھایا اور بولیں ؛؛اسسلام علیکم

پھر بولیں ؛؛ شاہ جی کیا ہال ہیں-- اچھا آپ پونچھ گیے ہیں -- کیوں دل نہیں لگتا --- مجھ میں ایسا کیا ہے--- کیا ماریہ سے بھی زیادہ --- تو میں کیا کروں---- میں شادی شدہ ہوں اور میرے دو بچے ہیں---- تو پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کے میں صرف ایک دوست بناتی ہوں اور شراکت مجھے پسند نہیں ہے۔----- شاہ جی آپ مرہ بات کا برا نہیں ماننا --- میرے دیور میرے ساتھ رہتے ہیں ۔۔۔۔ جی---- آپ مجھے مجبور نا کریں------شاہ جی ابھی تو میں تھک گیی ہوں ،ہم کل بات کریں گے ۔۔۔ جی مورننگ میں میں گھر پر ہوتیں ہوں --- جی کل کر لیں کسی وقت بھی -- اوکے الله حافظ۔اور پیسوں کا شکریہ ۔

( یہ امی کی باتیں تھیں ، مجھے شاہ جی کی آواز نہیں آرہی تھی)

پھر میں امی کے روم میں اکر ٹی وی دیکھنے لگا۔

امی نے مجھے اپنے پاس بولایا اور کہا ؛؛ خالد تمہاری اسٹڈی کیسی چل رہی ہے۔

میں بولا ؛؛ امی جان ٹھیک چل رہی ہے۔

امی بولیں ؛؛ تم کو اب جیب خرچ کم پڑتا ہو گا

میں بولا ؛؛ ہاں کم تو پڑتا ہے

امی بولیں ؛؛؛ جا میرا الماری سے میرا پرس نکل لا

میں امی کی الماری سے ان کا پرس کو نکل کر ان کو دیا ۔تو انہوں نے مجھے ایک ہزار روپے دئییے۔ میں نے خوسی سے وہ ان سے لے لیے۔

پھر امی نے مجھے پیار کیا اور کہا ؛؛ تو میرا چاند بیٹا ہے ؛

اور مجھے تجھ پر بڑا مان ہے۔ تو اپنی امی کا بوحت خیال رکھتا ہے۔ اور تجھے جب پیسوں کی ضرورت پڑے تو مجھ سے پوچھے بھغیر میرے پرس سے لے سکتا ہے۔

 

میں نے امی کو کہا ؛؛ امی آپ بوحت اچھی ہیں ۔

امی کے دل کو اب ذرا اطمنان ہو تھا ۔اور اب وہ آرام سے باتیں کر رہیں تھیں

ختم شُد

romantic urdu bold novels

new urdu bold novels

urdu bold novels list

urdu bold novels pdf

most romantic and bold urdu novels list

husband wife bold urdu novels

hot and bold urdu novels pdf

urdu bold novels and stories

urdu bold novels and short stories

most romantic and bold urdu novels

باجی کا ریپ

باجی کا ریپ

 ان دنوں میں اپنی گریجویشن سے فارغ ہوا تھا اور باجی بھی ماسٹرز کے بعد کی پلاننگ میں مصروف تھیں۔

اسی اثنا میں میرے دادا کے سگے بھائی، جو ہندوستان میں تھے، ان کے شدید بیمار ہونے کی اطلاع ملی۔ دادا نے بھارت جانے کا ارادہ کیا تو اباجان (جو ایک سرکاری افسر ہیں) نے مجھے ساتھ جانے کا حکم دیا۔ اور میرے ساتھ ساتھ باجی بھی تیار ہو گئیں۔ قصہ مختصر ہم جنوری 2002 میں بھارت پہنچ گئے۔ دادا کو احمد آباد چھوڑ کر ہم نئی دہلی اور اتر پردیش کے علاقے گھومتے رہے اور فروری 2002 کے اوائل میں واپس احمد آباد آ گئے۔ احمد آباد واپس آکر بھی ہم نے گھومنا پھرنا نہیں چھوڑا، بلکہ روزانہ میں اور باجی لوکل ٹرین پر اردگرد کے علاقوں میں گھوم پھر کر شام تک واپس آ جاتے۔

ایسے ہی ایک روز ہم لوکل ٹرین میں شہر کے مضافات میں تھے کہ باہر کچھ عجیب قسم کے مناظر دکھائی دینے لگے، جگہ جگہ آبادیوں میں سے دھواں اٹھ رہا تھا، لوگ افراتفری میں ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ ٹرین میں موجود مسافروں کے چہروں پر بھی عجیب قسم کے تاثرات تھے۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ کشمیر میں ہندو یاتریوں پر ہونے والے حملے کی وجہ سے گجرات میں ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں ٹرین ایک جھٹکے سے رک گئی، شاید بلوائیوں نے پٹری اکھاڑ دی تھی۔ ٹرین کا رکنا تھا کہ ہر طرف بھاگ دوڑ مچ گئی، ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں، تبھی کمپارٹمنٹ میں موجود ایک ہندو عورت نے، جو جانتی تھی کہ ہم پاکستانی مسلمان ہیں، باجی کو ایک ساڑھی دی اور متنبہ کیا کہ اپنی شلوار قمیض بدل لو، ورنہ بلوائی نا صرف ریپ کریں گے بلکہ مار بھی دیں گے۔

کمپارٹمنٹ میں میرے اور باجی کے علاوہ ایک اسفند یار نامی مسلمان لڑکا بھی موجود تھا، جس نے ہنگامہ آرائی میں ہمارے ساتھ رہنا بہتر سمجھا ہوگا۔

ہم ابھی اسی شش و پنج میں تھے، کہ ٹرین کے اگلے کمپارٹمنٹس سے ہنگامے کی آوازیں آنے لگیں۔

ہماری کیفیت اس وقت قربان خانے میں موجود جانور جیسی تھی، جو موت کو سامنے دیکھ کر بھی بھاگ نہیں سکتا۔

اس وقت میرے ذہن میں ایک ایسا خیال آیا کہ جس کو عام حالات میں سوچ کر ہی انسان مرنے کو ترجیح دے۔ مگر اس وقت حالات عام نہیں تھے، اور نا ہی ہم میں سے کوئی اس طرح کی موت مرنے کو تیار تھا۔

موت کے اس ننگے ناچ کے دوران میں نے ایک رول پلے کا سین سوچا تھا، جس میں میں اور اسفند یار ہندو بلوائی بن کر ایک مسلمان لڑکی (باجی) کی عزت لوٹ رہے ہوں گے۔

آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ کس قدر خبیث سوچ ہے، مگر اس وقت جان بچانے کی کوشش ہی ہمارے دماغ پر سوار تھی۔

اس خیال کی ایک اور وجہ بھی تھی، اگر ہم کچھ نا بھی کرتے تب بھی بلوائیوں نے ہم لڑکوں کو تو فوراً قتل کر دینا تھا، مگر باجی کی عزت لوٹ کر اسکو ذلیل کر کے قتل کرنا تھا۔ سو عزت تو دونوں صورتوں میں لٹنی تھی، مگر پہلی صورت میں اگر پلان کامیاب ہوتا تو جان بچنے کا بہت امکان تھا۔

میں نے باجی کو ڈرتے ڈرتے یہ بات کی تو وہ فوراً مان گئیں، شاید دوسری صورت کا تصور ان کے ذہن میں بھی موجود تھا۔ میں اسفندیار کو بھی پلان سے آگاہ کیا، اور ہم تیار ہو گئے،

پھر جب آٹھ دس بلوائی ہمارے کمپارٹمنٹ میں داخل ہوئے، تو منظر یہ تھا کہ دو ہندو نوجوان ایک مسلمان لڑکی کی عزت لوٹنے میں مصروف تھے۔

ان میں سے کچھ ہندو تو وقت ضائع کئے بغیر کسی اگلے شکار کی تلاش میں نکل گئے، مگر تین چار وہیں رک کر تماشہ دیکھنے لگے۔

اور اسی لمحے میں نے اپنے پلان پر عملدرآمد شروع کر دیا۔

———————-

باجی نے کالے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی، جسے میں نے ایک جھٹکے سے اتار کر پھینک دیا۔ اب باجی کی سڈول چھاتیاں ان کی تیز سانسوں کے ساتھ اوپر نیچے ہوتی محسوس ہو رہی تھیں۔

چادر اتارتے وقت باجی نے کچھ مزاحمت کی، جس پر میں نے خباثت سے بھرپور لہجے میں کہا: ” حرامزادی لونڈیا، ابھی تو صرف دوپٹا اترا ہے تو یہ سب کر رہی ہے، جب ہم سب کے سامنے ننگا مجرا کرے گی تب یہ شرم کدھر جائے گی۔

یہ سن کر باجی کا چہرہ شرم اور غصے سے لال ہو گیا اور وہ میری طرف دیکھنے لگی۔ شاید وہ یہ جاننا چاہ رہی تھیں کہ یہ سب کرنا اس اداکاری کا حصہ تھا جو ہم کررہے تھے یا پھر کچھ اور۔۔

خیر، اب وقت تھا باجی کے باقی ماندہ جسم کو ننگا کرنےکا۔

اس کام کے لئے میں نے کمپارٹمنٹ میں موجود ہندو لڑکوں میں سے ایک نسبتاً کمزور لڑکے کو اشارہ کیا اور بولا:”ادھر آکر ننگا کرو سالی کو، کیا کبھی لونڈیا کی عجت نہیں لوٹی تم نے

یہ بات سن کر اس لڑکے میں گویا بجلی بھر گئی، اور وہ جھٹ باجی کے ایک جانب آبیٹھا۔ وہ لڑکا دھان پان ہی سہی پر تھا تو لڑکا ہی، اور اس وقت ہوس کی اونچائیوں پر تھا، سو اس نے ایک جھٹکے سے باجی کی قمیض پھاڑ کر پھینک دی۔ باجی کے گلابی رنگ کے بریزئر سے انکے دودھیا سفید سڈول ممے ادھ ننگے دعوت نظارہ دے رہے تھے۔

ایسی سیکسی خوبصورت لڑکی کو ادھ ننگا دیکھ کر باقی ہندو بھی باجی پر پل پڑے، ایک لمحے میں باجی کے ممے بریزئر سے آزاد تھے، وہ ہندو باجی کی چھاتیوں اور نپلز کو وحشیوں کی طرح چوم چاٹ رہے تھے۔ اس سب کے دوران میری نظر باجی کے مموں پر پڑی, کم از کم 34سائز کے ان شفاف مموں پر گلابی رنگ کے نپلز دیکھ کر نا چاہتے ہوئے بھی میرے لن میں اکڑاؤ پیدا ہونے لگا۔

———

لبنیٰ باجی ہمارے خاندان کی سب سے باوقار اور باحیا لڑکی مانی جاتی تھیں۔ گھر میں رہتے ہوئے بھی، کبھی انہوں نے لباس میں لاپرواہی نہیں برتی تھی، ہمیشہ چادر یا دوپٹے میں ملبوس اور جسم چھپانا انکی عادت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت انکی ننگی چھاتیاں دیکھ کر میں ششدر رہ گیا تھا کیونکہ کہ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ باجی اس قدر سیکسی جسم کی مالکہ ہیں۔

گھر میں باقی دونوں بہنوں کے کلیویج پر انجانے میں کئی بار نظر پڑ جاتی تھی، مگر باجی کے باحیا اندازواطوار کی وجہ سے کبھی ان پر اس قسم کی نظر تک نہیں پڑی۔ مگر المیہ کہ ایسی باکردار اور باحیا لڑکی آج درجن بھر ہندوؤں کے درمیان اپنے بھائی کے سامنے ننگی لیٹی اپنی عزت لٹنے کے انتظار میں تھی۔

————

اس وقت ہمارے اردگر کم و بیش بارہ کے قریب ہندو جمع ہو چکے تھے، جن میں سے چار باجی کی چھاتیوں اور پیٹ کو چوم چاٹ رہے تھے، ایک باجی کے سر کی طرف بیٹھ کر انکی چہرے پر جھکا ان کے منہ میں زبان ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا، جبکہ وہ دھان پان ہندو جس کو میں نے باجی کو بے لباس کرنے کو منتخب کیا تھا، وہ اپنی پینٹ اتار رہا تھا، جبکہ باقی سب اردگرد کھڑے اپنے اپنے لنڈ باہر نکال کر سہلا رہے تھے۔

—————–

عام طور پر یہ بلوائی یہ سب کرنے کے بجائے پھدی یا گانڈ مار کر لڑکی کو قتل کرکے جلد از جلد اگلے شکار کی طرف نکل جاتے ہیں، مگر اس وقت باجی کے حسن اور انکے گرم ترین جسم نے ان سب کو مقناطیسی انداز میں روک رکھا تھا۔ ان میں سے اکثر ہندوؤں کو ساری عمر ایسی دوشیزہ کی چدائی تو دور اس سے بات کرنا بھی نصیب نا ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی فطری خباثت کے باوجود صبر سے اپنی باری کے انتظار میں تھے، اور جو باجی کے ساتھ “مصروف” تھے وہ بھی ایک ایک لمحے کا فائدہ لے رہے تھے۔

اب جو ہندو لڑکا پینٹ اتار رہا تھا، وہ پینٹ سے آزاد ہو کر باجی کے چہرے کی طرف بڑھا، ایک لمحے میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ اپنا گندا غیر ختنہ شدہ لن باجی کو چسوانا چاہتا ہے، اس پر میں نے اداکاری کرتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا: “یہ لنڈ اس کے ہاتھ میں چھڑواؤ گے کیا؟ شلوار اتارو سالی کی

وہ۔ میری بات کو اگنور کرتا ہوا آگے بڑھا اور اپنا لنڈ باجی کے ہونٹوں پر رکھ کر رگڑنے لگا۔

اس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہاں ہر کام میرے کنٹرول میں نہیں ہوگا، اور مجھے اس حساب سے چال چلنی ہوگی کہ ان ہندوؤں کو سب مل بھی جائے اور ہماری جان بھی بچ جائے۔ اس صورتحال میں ان وحشیوں کو کسی کام سے روکنا بے کار تھا، اور اس سے ہم نے بلاوجہ مشکوک ہی بننا تھا۔ تو اسی لمحے میں نے فیصلہ کیا کہ اب یہ لوگ جو بھی کریں ان کو کرنے دیا جائے، اور کوشش صرف یہ ہو کہ باجی کو کم سے کم درد ہو اور ہماری جان بچ جائے

———

اس لڑکے کا لن بدستور باجی کے ہونٹوں پر رگڑ کھا رھا تھا مگر باجی نے ہونٹ مضبوطی سے بھینچ رکھے تھے مگر انکی مزاحمت نا ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔

شاید انہوں نے بھی میری طرح سب تسلیم کر لیا تھا۔

اس وقت باجی کی ٹانگوں والی سائیڈ خالی ہو چکی تھی جس پر ایک لمبا تڑنگا کسرتی جسم والا ادھیڑ عمر ہندو انکی ٹانگوں کے بیچ آبیٹھا۔

اس ہندو کا لنڈ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا اور آنے والے لمحات میں باجی کا حال سوچنے لگا۔

اس کا لن کم از کم آٹھ انچ لمبا اور دو اڑھائی انچ چوڑا ہوگا۔ اس نے باجی کی کمر کے نیچے ہاتھ ڈال کر اوپر اٹھایا اور باجی کی شلوار اتار دی۔ اب باجی کی سفید ملائم ٹانگیں اور دودھیا رانیں بالکل ننگی تھیں۔ اگلے ہی لمحے اس پہلوان نے باجی کی پینٹی بھی پھاڑ کر علیحدہ کر دی۔

باجی کی چوت پر بالوں کی ہلکی سے تہہ تھی، شاید آٹھ دس دن پہلے شیو کی گئی تھی۔

اس ہندو نے باجی کی ٹانگوں کو ایک جھٹکے سے کھولا اور تھوڑا اوپر اٹھا دیا، اب باجی کی پھدی اور گانڈ کے سوراخ بالکل واضح تھے، وہ بندہ شاید گانڈ کا شوقین تھا، اس لئے اس نے باجی کی گانڈ میں انگلی کرنا شروع کر دیا، باجی تکلیف سے کراہ اٹھی، کراہتے وقت باجی کے منہ کا کھلنا تھا کہ جو ہندو انکے ہونٹوں پر لن رگڑ رہا تھا اس نے سیدھا اندر گھسا دیا، اب باجی ہچکچاہٹ میں اسکا لن چوس رہی تھیں جب کہ انکے ہاتھوں میں دو لڑکوں نے اپنے لن تھما دیے تھے جنکو وہ آہستہ آہستہ سہلا رہی تھیں۔ دو لڑکے باجی کی چھاتیوں پر منی نکال کر جا چکے تھے جبکہ باقی ہندو دوسرے کمپارٹمنٹ کی طرف چلے گئے تھے جہاں سے چیخوں اور قہقہوں کی ملی جلی آوازیں آ رہی تھیں، شاید وہاں بھی کسی کی عزت لوٹی جا رہی تھی۔ کل ملا۔ کر ہمارے کمپارٹمنٹ میں اب سات ہندو موجود تھے۔

ادھر باجی کی گانڈ میں انگلی کرنے کے بعد وہ گانڈ کا شوقین مرد اب اپنا لن باجی کی گانڈ کے سوراخ پر سیٹ کر رہا تھا،

ایسے میں، میں نے اسے روک کر ارد گرد نظر دوڑائی تو مجھے ایک مرتبان نظر آیا، جس میں ہمارے یہاں لوگ دیسی گھی یا اچار جیسی سوغات لے کر جاتے ہیں۔ میں نے ایک مٹھی بھر کر دیسی گھی باجی کی گانڈ پر انڈیل دیا، جو انکے جسم کی گرمی سے فوراً پگھلنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس ہندو نے دو انگلیاں ایک ساتھ باجی کی گانڈ میں گھسا کر اندر باہر دیسی گھی اچھے سے مل دیا اور اس سے پہلے کہ باجی کو کچھ سمجھ آتا اپنے لن کی ٹوپی باجی کی کنواری اور تنگ گانڈ میں گھسا دی، باجی کے منہ میں لن ہونے کی وجہ سے انکی چیخوں کی صرف “غوں غاں” ہی سنائی دی اور اس ہندو نے اپنا باقی لن بھی دو تین جھٹکوں کے ساتھ باجی کی گانڈ میں اتار دیا۔ درد کی شدت سے باجی کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اور ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے مگر وہ حوصلے سے گانڈ مرواتی رہیں۔ اب باجی گانڈ میں ہر جھٹکے کے ساتھ اوپر کو اچھل رہی تھیں اور باجی کے ممے بھی ایک لہر کے ساتھ اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ اس منظر کو دیکھتے جب میری نظر اسفندیار پر پڑی تو وہ بھی اپنا لن پینٹ کے اوپر سے سہلا رہا تھا،

ایسے وقت میں، جب ایک ہندو کا لن باجی کے منہ میں اور ایک گانڈ میں تھا، اور وہ دونوں ہاتھوں سے دو ہندوؤں کی مٹھ لگا رہی تھیں جبکہ تین لڑکے انکے مموں کو کاٹ اور چاٹ رہے تھے، اسفندیار کا لن کھڑا ہونا فطری بات تھی۔ اور صرف اسی کا نہیں میرا اپنا لن اکڑ کر اپنے جوبن پر تھا اور لاشعوری طور پر، اس سب کو دیکھ کر مجھے ایک عجیب سی لذت مل رہی تھی اور ایک ایسی خواہش سر اٹھا رہی تھی جس کو سوچ کر ہر انسان کانپ اٹھے

———–

، اس وقت کمپارٹمنٹ میں صرف میں اور اسفندیار کپڑوں میں تھے، اور یہ چیز ہمیں مشکوک بنا سکتی تھی، اور اس وقت اتنا کچھ گنوا دینے کے بعد یہ شک کا رِسک لینے کی کوئی تُک نا تھی۔ مگر اس سب کے باوجود، باجی کے بارے میں ایسا سوچنا بھی لرزہ خیر تھا۔

خیالات کے اس بے تحاشہ سیلاب میں، آخرکار میں نے ایک فیصلہ کیا ۔ اسی لمحے میرا “گواہ” بھی اس فیصلے کی تائید میں کھڑا تھا۔

———–

قریباً بارہ منٹ مسلسل باجی کی گانڈ چودنے کے بعد اس ہندو جوان نے آخری جھٹکے اس شدت سے مارے کہ باجی بلبلا اٹھی اور ان کے ہاتھوں میں تھامے لن نکل گئے، جن کو باجی نے ماہرانہ انداز میں پھر سے پکڑ کر سہلانا شروع کردیا۔

یہ دیکھ کر مجھے حیرانی ضرور ہوئی مگر ساتھ ہی سکون بھی کہ باجی بھی اب شاید انجوائے کر رہی ہیں، جیسے ایک مقولہ بھی ہے،

If rape is inevitable, enjoy it۔

اب جو ہندو باجی کی گانڈ مار کر اندر ہی ڈسچارج ہو چکا تھا وہ علیحدہ ہوا تو باجی کے منہ میں لن گھسانے والا ہندو جلدی سے باجی کی ٹانگوں کی طرف بڑھا، موقع دیکھ کر میں نے اسفند یار کو اشارہ کیا اور وہ فوراً انکے سر کی جانب آگیا، اور اپنی شلوار اتار کر ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنا لن باجی کے منہ میں ڈال دیا، اور باجی بغیر کسی رکاوٹ کے اسکا لن چوسنے لگیں۔

دوسری طرف جو لڑکا ٹانگوں کی طرف آیا تھا اس کا لن۔ چو‌کہ باجی کے تھوک سے پہلے ہی تر تھا تو وہ زیادہ مشقت کے بغیر ہی باجی کی گانڈ میں اتر گیا۔ اب باجی کی دوسری چدائی شروع تھی۔ یہ لڑکا چونکہ پہلے باجی کو چوپے لگوا کر آیا تھا تو یہ زیادہ دیر ٹھہر نا سکا اور ایک ڈیڑھ منٹ میں ہی جھڑ گیا۔ اس کے بعد دو اور لڑکوں نے باری باری باجی کی جم کر گانڈ ماری اور نکل گئے۔ اب باقی ہم دونوں کے علاوہ تین اور ہندو بچے تھے۔

——-

اب تک باجی کی چوت بچی ہوئی تھی، مگر ایسی امید کرنا ہی بےوقوفی تھی کہ باجی کی چوت بچ جاتی، تو اب وہ لمحہ آچکا تھا کہ اس کمپارٹمنٹ میں موجود لڑکوں میں سے ایک میری بہن کی سیل توڑنے کا مزہ لیتا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود یہ تمغہ لینا چاہتا تھا مگر اس ڈر سے کہ باجی کچھ اور نا سوچیں مجھے اسفندیار اس کام کے لیے موزوں لگا۔ اس وقت یہ قدم اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ ہم اپنے ختنہ شدہ لن ان ہندوؤں کے سامنے لاتے تو مشکل میں پڑ جاتے، اور اگر کچھ نا کرتے تب بھی مشکوک بنتے، اس لئے ضروری تھا کہ ہم جتنا ہو سکے اپنے لن باجی کے کسی سوراخ کے اندر رکھتے اسی لئے میں نے اسفند یار کو باجی کے منہ میں لن ڈالنے کا کہا تھا۔ اسفندیار میری نسبت پتلا اور چھوٹے قد کا تھا تو میرا اندازہ تھا کہ اسکا لن چھوٹا ہوگا، اور باجی کو چوٹ پھٹنے کا کم سے کم درد ہو گا۔ (مگر یہ میرا خیال ہی تھا کیونکہ اسفندیار کا لن میری نسبت زیادہ بڑا اور موٹا تھا جسکا اندازہ مجھے بعد میں ہوا)

باجی کی ٹانگوں کے درمیان کی جگہ خالی ہوتے ہی میں نے اسفندیار کو اشارہ کیا اور خود لپک کر باجی کے منہ کی طرف آگیا، اسفندیار نے لن کو ہاتھ سے چھپاتے ہوئے باجی کی چوت پر رکھا اور ایک زوردار دھکے کے ساتھ اندر دھکیل دیا، باجی کی ایک زوردار آہ کے ساتھ ہی انکی چوت کی پہلی چدائی شروع ہو گئی تھی۔ ادھر میں نے بھی اپنا لن نکال کر ٹوپی پر ہاتھ جماتے ہوئے باجی کے ہونٹوں پر رکھا جسے باجی نے فوراً ہی منہ میں لے لیا مگر سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھا، باجی کی نظریں ایک لمحے میری نظروں سے ملیں، مجھے لگا باجی پوچھ رہی ہیں کہ جس لڑکے کی بہن یوں سرعام چد رہی ہو اسکا لن اس قدر سخت کیسے ہو سکتا ہے ہے، مگر میں نے ان کے منہ میں ایک ہلکا سا جھٹکا دے کر نظر پھیر لی۔

دوسری جانب اسفندیار کا لن باجی کی چوت میں جڑ تک اتر رہا تھا اور باجی کی آہیں ماحول کو اور گرما رہی تھیں۔ اسفند یار نے باجی کی دونوں ٹانگیں جوڑ کر انکے گھٹنوں کو انکے پیٹ سے لگایا اور ان کے دونوں پیر اپنی بغلوں میں لے لیے اور انکی نازک کمر پر ہاتھ رکھ کر نیچے سے ہلتے ہوئے تیزی سے انکی چوت چودنے لگا۔

اس سب کے دوران باقی تین ہندوؤں میں سے دو باجی سے مٹھ مرواتے انکی چھاتی پر منی نکال کر جا چکے تھے اور آخری ہندو باجی کی ایک بغل کے اندر لن رکھ کر رگڑ رہا تھا، یہ عجیب عمل شاید اسکا fetish تھا، مگر باجی کی بغلیں بھی دودھ کی طرح سفید اور ملائم تھیں، اس ہندو کا کالا لن باجی کی سفید شفاف بغل سے رگڑ کھاتا ہوا ان کے سڈول ممے پر انکے نپل تک جارہا تھا، اس منظر سے اس ہندو پر ایک عجیب سی شہوت طاری تھی، ایسا لگتا تھا کہ وہ بھی چھوٹنے کے قریب ہے۔

ادھر میرا لن اب باجی کے منہ میں فل تن چکا تھا اور اس میں ایک عجیب میٹھی سے درد ہو رہی تھی، باجی کے چہرے پر اب ایک خمار سا طاری تھا اور انکی آہوں میں درد سے زیادہ اب مزہ محسوس ہو رہا تھا۔

اسفند یار کے جھٹکوں کی شدت زیادہ ہو رہی تھی اس نے باجی کی ٹانگوں کو مکمل کھول کر پاؤں سے پکڑ کر انکو اوپر تک اٹھا دیا، اس طرح اسکا لن آسانی سے باجی کی چوت میں اتر رہا تھا۔ اس پوزیشن میں مجھے یہ منظر کلئیر نظر آرہا تھا اور اسفند یار کے لن پر لگا خون باجی کے کنوارے پن کو الوداع کہہ رہا تھا۔ باجی کا چہرہ اور انکی زوردار آہیں اسفندیار کے لن کی سختی کی گواہی اور چدائی کی شدت کی گواہی دے رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی دونوں مٹھیاں شدت سے بھینچی ہوئی تھیں اور بڑے بڑے حوصلے سے پہلی چدائی سہہ رہی تھیں۔

اسفندیار نے دس منٹ نان سٹاپ چدائی کے بعد ایک آخری جھٹکے کے ساتھ باجی کی چوت کے اندر ہی اپنا لن چھڑوا دیا۔

اس کے ساتھ ہی میں باجی کے منہ سے لن نکال کر ٹانگوں کی جانب بڑھا تو باجی کی بغل میں لن رگڑنے والا ہندو بھی آگے آیا مگر میں نے اسے روکتے ہوئے کہا ” گرو، لڑکی میں نے ڈھونڈی ہے، اب مجھے چودنے دو

اس پر وہ برا سا منہ بناتے ہوئے باجی کی چھاتی پر چڑھ کر دونوں ہاتھوں سے ان ممے پکڑ کر ان کے بیچ لن رگڑنے لگا، اس بندے کے عجیب شوق تھے، مگر اس وقت ان پر توجہ دینے سے زیادہ میں ‘رول پلے’ میں مصروف تھا۔

میں نے لن باجی کی سرخ ہوئی چوت پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے سے باجی کی پھدی میں اتار دیا۔ انکی چھاتی پر انکے مموں کو چودتے ہندو کی وجہ سے اس لمحے ان کے چہرے کے تاثرات نا دیکھ سکا، اور سچ بات تو یہ ہے کہ۔ میں دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔

باجی کی تنگ چوت میں لن ڈالتے ساتھ ہی میں نے سب خیالات اور جذبات کو ایک طرف کر دیا اور ساری توجہ اس چوت کی چدائی پر لگا دی۔ باجی کی چدائی شروع ہونے سے لے کر اب تک یہ پہلا موقع تھا جب انکا منہ خالی تھا، تو انکی خمار زدہ آہیں اب کھل کر گونج رہی تھیں۔ انکی ہر آہ میرے تن بدن میں بجلیاں بھر رہی تھی اور میں لن کو جڑ تک باجی کی چوت میں گھسا رہا تھا۔ اسی اثناء میں باجی کے مموں کو چودنے والے ہندو نے اپنا لن باجی کے منہ میں ڈال کر زور زور سے جھٹکے لگانے شروع کر دیے۔ اس کا لن سامنے ہونے کی وجہ سے باجی کے حلق تک اتر رہا تھا سو باجی کے منہ سے گھٹی ہوئی غوں غاں کی آواز نکل رہی تھی۔ اس کے جھٹکوں کی تیزی پر باجی کو شک ہوا اور انہوں اچانک اس کا لن منہ سے نکال دیا، اسی لمحے میں اس ہندو کی منی کی پچکاریاں باجی کے چہرے پر گر رہی تھیں۔ باجی نے کراہت سے آنکھیں اور منہ زور سے بند کیے ہوئے تھے۔ باجی کے منہ پر چھڑوانے کے بعد وہ ہندو کمپارٹمنٹ سے نکل گیا مگر اس کے نکلنے سے پہلے ہی پسٹل سے مسلح ایک اور نوجوان ہمارے سر پے آگیا، اور صورتحال دیکھ کر بغیر کوئی بات کئے کپڑے اتار کر اپنا لن باجی کے ہونٹوں ہر ٹکا دیا، باجی نے سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھا، اور مجھے اپنی چوت کی چدائی میں مگن دیکھ کر چپ چاپ منہ کھول دیا۔ شاید اس آخری ہندو کے جانے کے بعد ان کو لگا ہوگا کہ امتحان ختم ہے، مگر ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا افتاد آنے والی ہے۔

اس وقت اس نوجوان کے آنے سے مجھے بھی پریشانی ہوئی تھی مگر جلد باجی کی چوت کی گرمی نے واپس اپنی طرف متوجہ کر لیا،

اس وقت میں باجی کی ٹانگیں کھول کر انکی چوت چود رہا تھا جبکہ نیا آنے والا جوان باجی کے ایک سائیڈ پر گھٹنوں کے کھڑا ہو کر باجی کو گردن سے پکڑ کر چوپے لگوا رہا تھا اور باجی کہنیوں کے بل اٹھ کر اسکا لن چوس رہی تھیں۔ اس پوزیشن سے باجی کے ممے پہلی بار مجھے صاف نظر آرہے تھے، باجی کے ان انمول رتنوں پر جابجا ان ہندوؤں کا غلیظ نطفہ گرا ہوا تھا جبکہ باجی نے اپنا چہرہ صاف کر لیا تھا،

میرے اور اس ہندو جوان کے جھٹکے باجی کے انگ انگ کو ہلا رہے تھے، اور باجی کی آہیں اور سسکیاں مجھے اور زیادہ اکسا رہی تھیں۔ اچانک سے باجی کی نظریں میری طرف اٹھیں اور انکی خمار زدہ نشیلی آنکھوں کو دیکھتے ہی میری برداشت جواب دے گئی اور میرے لن سے منی کا لاوا ابل ابل کر انکی چوت بھرنے لگا۔

اس وقت باجی کی چوت میں چھڑوانا میرے اور اس اسفندیار کے لیے اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ بلوائی دوسری صورت ہم۔ پر شک کرتے کہ جب لڑکی کو چود کر مار ہی دینا ہے تو یہ سب کیوں! اس وجہ سے یہ کام بھی ضروری تھا۔

———–

میرے فارغ ہوتے ہی اس ہندو نے باجی کے منہ سے لن نکالا اور ٹانگوں کی طرف آ گیا۔

اس وقت میرے ذہن میں خیال آیا کہ وہ اکیلا ہے اور ہم دو، ہم آسانی سے اس پر قابو پا سکتے ہیں، مگر اسکا پستول دیکھ کر میرا حوصلہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور میں کپڑے پہن کر سائیڈ پر اسفندیار کے ساتھ بیٹھ گیا،

اُدھر اس ہندو نے باجی کو گھوڑی بنا دیا، اب باجی کہنیوں کے بل جھکی ہوئی تھیں اور پیچھے سے گھٹنوں کے بل ان کی گانڈ اوپر کو اٹھی ہوئی تھی، اس ہندو نے دونوں ٹانگیں کھول کر باجی کی گانڈ کو اوپر کی طرف اٹھایا اور باجی کے چوتڑوں کو کھول کر لن انکی چوت پر سیٹ کر دیا، اور ساتھ ہی ایک جھٹکا مار کر انکی چوت میں گھسا دیا۔ اب باجی کی سڈول گانڈ ہر جھٹکے پر ہلتی اور وہ ہندو مزید زور سے جھٹکے لگاتا۔ باجی کی سسکیاں اب مزے والی آہیں محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ ہندو تقریباً دس منٹ باجی کو اس پوزیشن میں چودتا رہا، پھر اس نے پوزیشن بدلی اور پہلے کی طرح باجی کو لٹا کر انکی ٹانگیں اٹھا لیں، اس نے باجی کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور لن ان کی چوت میں گھسا دیا، اب وہ باجی کے ممو کو پکڑ کر زوردار جھٹکے لگا رہا تھا، اور باجی ہر جھٹکے پر اچھل اچھل کر آہیں بھر رہی تھیں، ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے باجی خود مزے کی انتہا پر ہیں، اس ہندو کی سپیڈ تیز ہوتی جا رہی تھی کہ اچانک باجی نے اپنی ٹانگیں اس کی کمر کے گرد لپیٹ لیں اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر اپنی بانہیں اس ہندو کے گلے میں ڈال کر اس کو زور سے بھینچ لیا، اس وقت باجی کا پورا جسم ایک بے پانی مچھلی کی طرح تڑپ کر جھٹکے کھا رہا تھا، اور وہ ہندو باجی کے چوتڑ پکڑ کر اور زور زور سے چود رہا تھا۔ باجی کے اس طرح چھوٹنے کے کچھ لمحوں بعد وہ لڑکا بھی باجی کے اندر ہی چھوٹ گیا۔

یہ اب تک کی سب سے بھرپور چدائی تھی، اور سچ تو یہ ہے کہ اس دوران ہم اس نوجوان پر اور اس کے پستول پر آسانی سے قابو پا سکتے تھے، مگر باجی کا اس کی چدائی پر رسپانس دیکھ کر میں چپ رہا، اب اس کے ختم ہوتے ساتھ ہی میں نے قریب پڑا ہوا ایک لوہے کا راڈ اٹھایا اور اس کی پشت سے اس کے سر پر وار کرنے ہی والا تھا کہ باہر سے کچھ لوگوں کی آوازیں آنے لگیں،

اس وقت شام کے تین بج رہے تھے اور بلوہ شروع ہوئے تقریباً اڑھائی گھنٹے ہو چکے تھے اور پچھلے دو گھنٹوں سے باجی کی نان سٹاپ چدائی جاری تھی،

ہمارے علاوہ تمام لوگ اور بلوائی وہاں سے جا چکے تھے اور اس ویرانے میں لٹی ہوئی ٹرین پر کسی کے آنے کا امکان نہیں تھا، اس لئے میں نے وہ راڈ واپس رکھ دیا کیونکہ جو بھی آرہا تھا وہ میری اس حرکت کو پکڑ سکتا تھا اور یہ وہ خطرہ تھا جس سے بچنے کو ہم نے یہ سب کیا تھا۔

اب وہ ہندو جوان اپنے کپڑے سنبھالتے ہوئے بولا کہ ‘اس لونڈیا کا کیا کرنا ہے’ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا چار ادھیڑ عمر کے بڑے ڈیل ڈول والے غنڈہ ٹائپ ہندو آ دھمکے۔

ان کو دیکھ کر میرے حلق سے لے کر میری گانڈ تک سب خشک ہو گیا۔ مگر میں نے اداکاری کرتے ہوئے کہا کہ ‘گرو اس کو ساتھ لے جا کر کچھ دن پاس رکھ کر مزہ لوں گا پھر مار کر شمشان میں آگ لگا دوں گا

اس پر وہ نوجوان تو سر ہلا کر چلا گیا مگر جب میں باجی کی جانب بڑھا تو ساتھ ہی ان غنڈہ نما بندوں میں سے دو آگے آئے اور مجھے روک دیا اور کہا کہ” اب ہماری باری ہے تم بعد میں جی بھرتے رہنا اس لونڈیا سے

یہ سن کر میں پیچھے ہو گیا مگر باجی ان کی ہئیت سے ڈر کر ایک جانب کسمسا گئی، اس ساری چدائی میں پہلی بار باجی کی آنکھوں میں فریاد، لاچاری اور بےبسی نظر آرہی تھی، جیسے وہ کہہ رہی ہوں کہ ان بدصورت وحشیوں کے نیچے آنے سے اچھا ہے مجھے مار دو یا شاید وہ اگلے چند گھنٹوں کی چدائی کے درد کے احساس سے گھبرا رہی تھیں

جو بھی تھا، اب بات ہمارے ہاتھ سے نکل چکی تھی اور باجی ان درندوں کے رحم و کرم پر تھیں جنہوں نے ساری زندگی ایسی خوبصورت اپسرا کے بس خواب ہی دیکھے ہوں گے۔

یہ سب شاید دوست تھے کیونکہ انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کیے اور باجی کو کھڑی کر دیا، اب باجی کے جسم کا ایک ایک انگ ہمارے سامنے واضع ہو گیا تھا

باجی ایک تیکھے نین نقوش والی انتہائی دلکش دوشیزہ تھیں، کالے سیاہ نرم و ملائم بال، سرمئی رنگ کی خوبصورت آنکھیں، سرخی مائل گورے گال، تیکھا ناک اور خوبصورت گلابی ہونٹ انکو سادگی میں بھی انتہائی دلکش بناتے تھے۔ اور اس وقت یہ پریوں جیسا چہرہ ہندو بلوائیوں کی ہوس کا نشانہ بن رہا تھا۔

انکا جسم بھرپور صحتمند اور انتہائی متوازن تھا، ہاتھوں کی انگلیاں تیکھی اور لمبی ، ہتھیلیاں نازک اور گلابی، بھرے بھرے بازو، متوازن کندھے اور انکے ساتھ

باجی کے ممے درمیانے سائز میں پرفیکٹ جسامت کے تھے جن پر گلابی رنگ کے کھڑے نپل سویا ہوا لن جگا کر گھوڑے جیسا کر دیں، اور ان پر پڑے گند کو شاید باجی نے اس دوران صاف کر لیا تھا، تو وہ صاف شفاف ہلکے گیلے ممے غضب ڈھا رہے تھے جب کہ انکی کمر ایک خوبصورت لہری curve کی طرح تھی اور چاندی کی طرح چمکتا سفید متوازن پیٹ جس پر کہیں کہیں تِل تھے،

انکی گانڈ شاید 36 سائز کی ہوگی اور ان کے نرم و گداز چوتڑ بالکل بے داغ تھے اور باجی کی ہر حرکت پر ایسے ہلتے جیسے ناچ رہے ہوں، باجی کا جسم کسی بکنی ماڈل کے جسم سے کم نا تھا جبکہ ان کے گہرے سیاہ نرم بال اس ننگی حالت میں انکی گانڈ تک جا رہے تھے۔ انکی گلابی چوت اس ساری چدائی کی وجہ سے تھوڑی سی سوج گئی تھی اور اس وقت انکی بند رانوں کے بیچ سے ادھ چھپی پانی ٹپکاتی دعوتِ چدائی دے رہی تھی۔ باجی کا رنگ گلابی مائل سفید اور انکے جسم پر کہیں کہیں گہرے تِل انکے حسن کو چار چاند لگا رہے تھے۔ اس ایک لمحے میں اس نظارے نے شاید ان وحشیوں کو بھی مبہوت کر دیا تھا۔

مگر ساتھ ہی ان میں سے آگے بڑھا اور باجی کے بھیگے ہونٹوں کو چوم کر اپنی زبان باجی کے منہ میں ڈال دی۔ جبکہ باقی سب نے اپنے کپڑے اتار دیے ان سب کے لن کم و بیش 8 7 انچ کے ہوں گے اور موٹائی بھی اچھی خاصی تھی، شاید وہ سب پہلوان تھے کیونکہ ان کے جسم اچھے خاصے کسرتی تھے۔ اسی اثنا میں ایک اور شخص کمپارٹمنٹ میں داخل ہوا جسے دیکھتے ہی میں سارا ماجرا سمجھ گیا، یہ وہی پہلوان تھا جس نے سب سے پہلے باجی کی گانڈ ماری تھی، اب یہ اپنے ساتھیوں کو اسی امید پر لایا ہوگا کہ شاید کوئی اور حسینہ چودنے کو مل جائے، اور اسکی قسمت کہ وہی حسینہ دوبارہ مل گئی

اندر داخل ہوتے ہے باجی پر نظر پڑی تو اس کی آنکھوں میں چمک آگئی، اور اس نے اپنے دوستوں سے گجراتی میں کچھ کہا جس پر وہ سب ہنسنے لگے، پھر اسنے آگے بڑھ کر باجی کی گانڈ پر ہاتھ مارتے ہوئے مجھے کہا “گرو کمال کی لونڈیا پکڑ کر لائے ہو، اس کو تو میں ساتھ گھر لے جاؤوں گا یہ بار بار چودنے کی چیج ہے

میں ہواس باختہ تو ہو ہی چکا تھا پھر بھی ہمت کر لے ہنستے ہوئے کہا کہ “موٹا بھائی یہیں چود لو جتنا چودنا ہے، لے کر اسکو میں نے جانا ہے، ہاں جب میرا جی بھر جائے تب تم لے جانا

اس پر وہ خبیث سی ہنسی کے ساتھ بولا”چلو لے جانا اگر یہ ہم سب سے چدوا کر بچ گئی تو” اس پر وہ سب قہقہے لگانے لگے۔

اب وہ سب کپڑے اتار چکے تھے، تو جو باجی کے ساتھ کسنگ کر رہا تھا اس نے باجی کو چھوڑا اور بولا چلو اب ہم سب کا لنڈ چوسو، چار و ناچار باجی نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ان میں سے ایک کا لنڈ منہ میں لے لیا۔

اس پر ان میں سے ایک بھدے پہلوان نے باجی کے منہ پر تھپڑ مار کر کہا ” سالی کتیا ہاتھ گانڈ میں لیے ہیں کیا، چل ہاتھ بھی چلا ساتھ

اس پر باجی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے مگر انہوں نے دونوں ہاتھوں سے دو اور لن پکڑ کر ان کی بھی مٹھ مارنا شروع کر دی۔ اب وہ پانچوں باری باری باجی کے منہ میں لن چلانے لگے اور کچھ گندی گالیاں بکتے رہے۔ وہ ہندو باری باری باجی کے منہ میں لن ڈالتے اور انکو سر سے پکڑ کر دھکے لگاتے، جس سے لن باجی کے حلق تک جالگتا اور باجی کے منہ غوں غاں کی آوازیں نکلتیں۔ اس سب کو دیکھتے میں نے اردگرد غور کیا تو اسفندیار وہاں سے کھسک چکا تھا۔

اب ان پانچ ہندوؤں سے اپنی بہن کی چدائی دیکھنے کو صرف میں وہاں موجود تھا۔

کچھ دیر باجی کو اس طرح چوپے لگوانے کے بعد ان میں سے ایک پہلوان نیچے لیٹ گیا اور اس نے باجی کو اپنے لن پر اپنی طرف منہ کروا کے اپنے لن پر بٹھا لیا اور نیچے سے باجی کی چوت میں جھٹکے مارنے لگا، اس کے ہر جھٹکے پر باجی اوپر کو اچھلتی اور باجی کے ممے فٹ بال کی طرح ہلتے، اس دوران ایک ہندو باجی کے سامنے کی طرف آگیا اور باجی کو آگے کی طرف جھکا کر اپنا لن باجی کے منہ میں ڈال دیا باجی نے لن منہ میں لینے کے بجائے چاٹنا شروع کر دیا، شاید ان کے حلق میں درد ہوگا۔

آگے کی طرف جھکنے کی وجہ سے باجی کی گانڈ اوپر کو اٹھ گئی تھی اور انکے چوتڑ ہلکے سے کھل گئے تھے، یہ دیکھ کر وہی گانڈ کا شوقین باجی کے پیچھے کی طرف آگیا۔

اس کے انداز سے مجھے سمجھ آگیا کہ یہ باجی کے سب سوراخ ایک ساتھ چودنے کے موڈ میں ہیں۔ مگر اس وقت لاچاری سے دیکھنے کے سوا میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

اس ہندو نے باجی کی گانڈ پر تھوک ڈالا پھر اپنا لن تھوک سے گیلا کر ایک جھٹکے سے باجی کی گانڈ میں گھسا دیا، اسکا آدھا لن باجی کی گانڈ میں اتر گیا اور ساتھ ہی باجی لی فلک شگاف چیخ نکلی جس پر پیچھے سے اس نے باجی کے چوتڑوں پر زوردار تھپڑ مارا اور پورا لن اندر گھسا دیا۔ مگر اس بار چیخ کے بجائے غوں غاں کی آواز نکلی کیونکہ سامنے والے ہندو نے پورا لن باجی کے منہ میں گھسا دیا تھا۔ اب تین ہندوؤں کے لن باجی کے اندر تھے اور باقی دونوں سائیڈ والی سیٹوں میں باجی کے ہاتھ میں اپنے لن تھمائے بیٹھے تھے۔ باجی اپنی چوت اور گانڈ میں ان ہندوؤں کے تابڑتوڑ دھکوں کی وجہ سے بار بار نیچے گر رہی تھیں اور ہر بار کوئی نا کوئی ہندو باجی کو تھپڑ یا گالی دے کر سیدھا کرتا اور پھر سے چودنا شروع کر دیتا۔ تقریباً بیس منٹ اسی حالت میں چدائی کے بعد وہ لوگ رک گئے، مگر یہ دیکھ کر میری پریشانی بڑھ گئی کہ ان میں سے کوئی ایک بھی چھوٹنے کے قریب بھی نہیں تھا۔

اب جو ہندو سیٹ پر بیٹھا تھا اس نے باجی کی کمر اپنی طرف کر کی ان کو اپنی گود میں بٹھا کر باجی کی دونوں ٹانگیں کھول دیں، پھر باجی لے چوتڑوں کو ہلکا سا اوپر کر کے اپنا لن باجی کی گانڈ میں گھسا دیا، ابھی باجی اس سے سنبھلنے نا پائی تھیں کہ دوسری سیٹ والے ہندو نے باجی کی ٹانگیں اٹھائیں اور انکی چوت میں لن ڈال دیا، اب باجی کی چیخوں میں تیزی آرہی تھیں اور وہ درد اور ذلت کے احساس سے مسلسل رو رہی تھیں۔ اس سب کے ساتھ ان ہندوؤں کے ہر جھٹکے کے ساتھ باجی کا پورا جسم ہل رہا تھا۔ اس پوزیشن میں وہ ہندو باجی کی زوردار چدائی کر رہے تھے۔ چدائی کے بیچ سامنے والا ہندو مسلسل نے باجی کے منہ زبان ڈال کر چوستا رہا جبکہ پیچھے والے ہندو باجی کی رانوں سے ہاتھ ہٹا کر انکے ممے پکڑ کر بھینچے ہوئے تھا، بیچ میں وہ دونوں کبھی کبھار ہاتھ چھوڑ کر باجی کی رانوں یا مموں پر زوردار تھپڑ رسید کردیتے جس سے باجی درد سے تڑپ اٹھتیں۔ تقریباً بیس بائیس منٹ بعد سامنے والا ہندو باجی کی چوت میں زور زور سے جھٹکے مار کر جھڑ گیا، جبکہ پیچھے والا ابھی بھی مسلسل گانڈ چود رہا تھا۔

باجی کی چوت کی جگہ خالی ہونے پر باقیوں میں سے ایک اٹھا اور اسی انداز میں باجی پر اپنی باری لگانے لگا اسی بندے نے پہلے باجی کی گانڈ چودی تھی تو میرا اندازہ تھا یہ جلدی جھڑ جائے گا، مگر یہ میری خام خیالی ہی تھی۔

تقریباً پانچ منٹ بعد پچھلا ہندو باجی کی گانڈ میں جھڑ گیا اور پوزیشن بدل کر یہ سامنے والا سیٹ پر اس انداز میں بیٹھ گیا کہ باجی اس کی گود میں اس کی طرف چہرہ کر کے بیٹھی تھیں اور باجی کے ممے اس ہندو کی چھاتی سے لگے ہوئے تھے۔ اس پوزیشن میں اس ہندو کا لن بغیر کسی محنت کے باجی کی چوت میں چلا گیا اور باقی رہ جانے والے دو میں سے ایک نے باجی کی گانڈ سنبھال لی۔ اس بندے کا لن ان سب سے بڑا اور موٹا تھا اور اب تک اس نے صرف باجی کے منہ میں ڈالا تھا۔ تو جیسے ہی اس نے باجی کی گانڈ میں لن ڈالا تو باجی جو بے سدھ ہونے کو تھیں، ایک مرتبہ پھر بلبلا اٹھیں اور تکلیف سے کراہنے لگیں۔

اب حال یہ تھا کہ ایک ہندو باجی کو گود میں بٹھا کر انکی چوت مار رہا تھا اور ساتھ ساتھ باجی کے ہونٹوں اور منہ کے اندر زبان گھسا رہا تھا جبکہ اس کے ہاتھ باجی کے پستانوں کو مسلسل مسل رہے تھے، دوسری طرف ایک ہندو پیچھے سے باجی کے کندھوں پر ہاتھ ٹکائے انکی گانڈ میں اپنا جہازی سائز کا لن گھسا کر گھسے مار رہا تھا اور باجی کی چیخیں ان زوردار جھٹکوں کی آواز میں دب چکی تھیں۔ اس دوران پیچھے والا ہندو باجی کے چوتڑوں پر مسلسل تھپڑ مار رہا تھا، جس سے باجی کی سفید گانڈ لال سرخ ہو چکی تھی۔

اس زبردست چدائی کو دیکھتے مجھے وقت کا کوئی اندازہ نہیں رہا تھا اور میرا لن جو پہلے اپنی بہن کی تکلیف کی وجہ سے بیٹھ گیا تھا اب پھر انگڑائیاں لے رہا تھا۔

کافی دیر باجی کی گانڈ مارنے کے بعد آخر کار اس ہندو کا لن بھی جھڑ گیا اور باقیوں کی طرح اس نے بھی باجی کی گانڈ اپنی منی سے بھردی۔

اس کے فارغ ہونے کے باوجود جو آخری پہلوان بچا تھا وہ اپنی جگہ بیٹھا رہا اور وہیں بیٹھے اس نے مجھے اشارہ کیا کہ اسکی گانڈ مارو،

اب میں چاہتا تو منع کر سکتا تھا مگر میرے دل میں بھی چور تھا اور اس سب حیوانیت کے بعد، کہیں نا کہیں میرا دل بھی کر رہا تھا کہ باجی کی گانڈ چودوں،اور آج اس موقع کے علاوہ شاید کبھی یہ موقع نا مل پاتا، تو میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا لن نکالا اور ان کی نظروں سے چھپاتے ہوئے اپنی بہن کی گانڈ میں گھسا دیا، باجی کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہوا کہ یہ کوئی ہندو نہیں بلکہ انکا اپنا بھائی ہے۔

اب باجی کی چوت چودنے والا ہندو بھی قریب تھا تو اس نے اپنے جھٹکے تیز کر دیے، اس کے ہر جھٹکے پر باجی کی گانڈ ہلتی اور مجھے مزا آتا

باجی کے بالکل پیچھے کھڑے ہو کر باجی کے جسم کی بھینی بھینی خوشبو نے مجھے بے تاب کر دیا تھا اور میں نے اور تیزی سے باجی کی گانڈ مارنا شروع کردی تھی۔ اس لمحے میں مجھے ان سب لوگوں پر رشک آرہا تھا جنہوں نے کھل کر اس حسینہ کے جسم کے انگ انگ کو چوما اور چاٹا تھا، باجی کے جسم سے اٹھتی نشیلی مہک سونگھ کر مجھے اس ہندو پر بھی رشک آرہا تھا جو اپنی Armpit fetish باجی کی دودھیا ملائم بغلوں میں پوری کر کے گیا تھا، اور اس ہندو پر بھی جس کی گود میں بیٹھی باجی کے رسیلے ہونٹ اس وقت اس کے ہونٹوں پر لگے ہوئے تھے۔ یہ سب سوچتے ہوئے میرے انگ انگ میں بجلیاں بھرنے لگیں اور کچھ ہی لمحوں میں میں نے ڈھیروں منی باجی کی گانڈ میں انڈیل دی۔

میں فارغ ہو کر پھر سے سائیڈ پر بیٹھ گیا اور اپنی باجی کو اس وحشی پہلوان کے لن پر سواری کرتے دیکھنے لگا۔

جیسے جیسے اس ہندو کی منزل قریب آرہی تھی اس کے جھٹکوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے ہر جھٹکے پر باجی کا جسم لرز رہا تھا اور انکی چیخیں اب سسکیوں میں بدل چکی تھیں۔ اب باجی نے سہارے کے لیے اپنے بازو اس ہندو کی گردن میں ڈالے ہوئے تھے اور وہ باجی کو گانڈ کو پکڑ کر مسلسل باجی کی چدائی کر رہا تھا، اس دوران اس نے باجی کو ہونٹوں کو ایک لمحے لے لئیے بھی نا چھوڑا اور مسلسل انکے منہ میں زبان ڈالے چوستا رہا۔ آخرکار اس سخت جان ہندو کے لن کا بھی زور ٹوٹااور اس کا لن جڑ تک باجی کی چوت میں اتر کر اسکو سیراب کر گیا۔

اس سخت ترین چدائی کے بعد باجی قریباً بے سدھ ہو کر سیٹ پر گر گئیں جبکہ وہ سب ہندو کپڑے پہن کر ہنستے ہوئے کمپارٹمنٹ سے باہر جا کھڑے ہوئے۔

اب وہ آخری پہلوان جس نے مجھے باجی کی گانڈ چودنے کی دعوت دی تھی، وہ اٹھا اور باجی کا چہرا تھپتپا کر بولا ” چل اٹھ اب میرا مال نکال” یہ کہہ کر اس نے باجی کو سیٹ سے کھینچ کر کھڑا کر دیا، باجی ذرا لڑکھڑاتے ہوئے سنبھلی تو اس نے باجی کی گانڈ پر ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے باجی کا منہ کھڑکی کی طرف کرکے باجی کو کمپارٹمنٹ کے چھوٹے ٹیبل پر جھکا دیا، اب باجی کمپارٹمنٹ کی سیٹوں کے درمیان کھڑکی کی طرف منہ کیے ٹیبل پر کہنیاں رکھے جھکی ہوئی تھیں۔

اس ہندو نے باجی کی ٹانگیں نیچے سے کھولیں اور لن انکی چوت میں گھسا کر گھسے مارنے لگا، اب باجی ٹیبل پر جھکی اس ہندو کا لن اپنی چوت میں سہ رہی تھیں کچھ دیر اس طرح چوت مارنے کے بعد اس نے باجی کو اسی انداز میں سیٹ پر شفٹ کیا اور باجی کے گھٹنے سیٹ پر رکھ کر خود پیچھے کھڑا ہو کر پھر سے گھسے مارنے لگا۔ اس بندے نے اب تک باجی کو مارا یا گالی وغیرہ نہیں دی تھی، اور اسکی چدائی بھی باقیوں کی نسبت آہستہ تھی، اس کا ایک ہاتھ باجی کے ممے مسل رہا تھا جبکہ دوسرا مسلسل انکی چوت کے دانے پر تھا۔ ا

شاید اسی وجہ سے باجی اس قدر شدید دردناک چدائی کے باوجود اب پھر آہیں بھر رہی تھیں۔

اس پوزیشن میں قریباً دس منٹ چودنے کے بعد وہ بندہ وہاں سے ہٹا اور کچھ ٹٹولنے لگا تبھی مجھے اندازہ ہوا کہ باہر سورج غروب ہو چکا اور کمپارٹمنٹ میں کافی اندھیرا ہو چکا تھا۔ وہ ہندو بھی کمپارٹمنٹ کے بلب کا سوئچ ڈھونڈ رہا تھا جو کچھ تگ و دو کے بعد اسے مل گیا۔ اب زیرو بلب کی زرد روشنی میں باجی کا دودھیا جسم ان ہندووں کے تھوک اور اپنے شفاف رنگ کی وجہ سے چمک رہا تھا۔ اب اس ہندو نے باجی کو سیٹ سے اتار کر فرش پر ایک کروٹ پر لٹا دیا اور خود باجی کی ایک ٹانگ پر بیٹھ کر دوسری اٹھا دی اور چوت مارنے لگا،اب باجی درد اور مزے سے کراہ رہی تھیں مگر اس کے جھٹکے ایک ہی سپیڈ سے جاری تھے۔ باجی نے دونوں ہاتھوں سے سیٹ کے راڈ کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا اور اس ہندو کے ہر جھٹکے پر باجی کے ممے ہل رہے تھے۔ اس پہلوان نے اس طرح کوئی سات آٹھ منٹ باجی کی چدائی کی اور لن نکال کر باجی کے منہ میں ڈال دیا اور چند جھٹکوں کے ساتھ باجی کے منہ میں ہی جھڑ گیا۔ جب وہ ہندو وہاں سے ہٹا تو میں نے دیکھا کہ باجی بالکل بے سدھ پڑی ہیں اور اس ہندو کی منی انکے ہونٹوں سے نکل کر ایک سائڈ پر بہہ رہی ہے۔

مجھے اس سب کو دیکھ کر کراہت اور رونا آیا مگر خوشی بھی اس بات پر کہ آخرکار ہماری جان بچ گئی۔

وہ سب ہندو وہاں سے جا چکے تھے، اب میں نے اٹھ کر باجی کو سہارا دے کر سیٹ پر بٹھایا اور منہ صاف کرنے کو قریب پڑی پانی کی بوتل اٹھا کر دی، پھر میرے کہنے پر باجی نے اس ہندو عورت کی دی ہوئی ساڑھی پہن لی اور اپنا حلیہ درست کیا۔ مگر باجی سے بالکل بھی چلا نہیں جا رہا تھا۔ جسے تیسے کرکے ہم ٹرین سے باہر نکلے اور کچھ دور ہی ہمیں ایک سکھ ٹرک ڈرائیور سے لفٹ مل گئی۔ وہ ڈرائیور بہت رحمدل انسان تھا، وہ ہمیں دادا کے بھائی کے گھر تک چھوڑ کر گیا۔ خوش قسمتی سے باجی نے اس دوران ہمت کی اور خود کو سنبھالا، اور باجی نے ہی گھر والوں کو بتایا کہ دنگوں کے دوران ہمیں اس سکھ ڈرائیور نے اپنے ٹرک میں چھپا لیا تھا اور یہ کہ یہ ساڑھی بھی اسی نے احتیاطی طور پر لاکر دی تھی۔

اس واقعے کے ایک ہفتے بعد ہم لوگ پاکستان واپس آ گئے اور زندگی اپنی ڈگر پر چلنے لگی۔ مگر کیا واقعی ایسا تھا۔

شاید یہ سوال ان سوالوں میں سے ہے جن کا جواب جانتے ہوئے بھی ہم دینا نہیں چاہتے۔

(The End)

 romantic urdu bold novels

new urdu bold novels

urdu bold novels list

urdu bold novels pdf

most romantic and bold urdu novels list

husband wife bold urdu novels

hot and bold urdu novels pdf

urdu bold novels and stories

urdu bold novels and short stories

most romantic and bold urdu novels