باجی کا ریپ
ان دنوں میں اپنی گریجویشن
سے فارغ ہوا تھا اور باجی بھی ماسٹرز کے بعد کی پلاننگ میں مصروف تھیں۔
اسی اثنا میں میرے دادا کے سگے بھائی، جو ہندوستان میں تھے، ان کے
شدید بیمار ہونے کی اطلاع ملی۔ دادا نے بھارت جانے کا ارادہ کیا تو اباجان (جو ایک
سرکاری افسر ہیں) نے مجھے ساتھ جانے کا حکم دیا۔ اور میرے ساتھ ساتھ باجی بھی تیار
ہو گئیں۔ قصہ مختصر ہم جنوری 2002 میں بھارت پہنچ گئے۔ دادا کو احمد آباد چھوڑ کر
ہم نئی دہلی اور اتر پردیش کے علاقے گھومتے رہے اور فروری 2002 کے اوائل میں واپس
احمد آباد آ گئے۔ احمد آباد واپس آکر بھی ہم نے گھومنا پھرنا نہیں چھوڑا، بلکہ
روزانہ میں اور باجی لوکل ٹرین پر اردگرد کے علاقوں میں گھوم پھر کر شام تک واپس آ
جاتے۔
ایسے ہی ایک روز ہم لوکل ٹرین میں شہر کے مضافات میں تھے کہ باہر
کچھ عجیب قسم کے مناظر دکھائی دینے لگے، جگہ جگہ آبادیوں میں سے دھواں اٹھ رہا
تھا، لوگ افراتفری میں ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ ٹرین میں موجود مسافروں کے چہروں
پر بھی عجیب قسم کے تاثرات تھے۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ کشمیر میں ہندو یاتریوں پر
ہونے والے حملے کی وجہ سے گجرات میں ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے ہیں۔ کچھ ہی دیر
میں ٹرین ایک جھٹکے سے رک گئی، شاید بلوائیوں نے پٹری اکھاڑ دی تھی۔ ٹرین کا رکنا
تھا کہ ہر طرف بھاگ دوڑ مچ گئی، ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں، تبھی
کمپارٹمنٹ میں موجود ایک ہندو عورت نے، جو جانتی تھی کہ ہم پاکستانی مسلمان ہیں،
باجی کو ایک ساڑھی دی اور متنبہ کیا کہ اپنی شلوار قمیض بدل لو، ورنہ بلوائی نا
صرف ریپ کریں گے بلکہ مار بھی دیں گے۔
کمپارٹمنٹ میں میرے اور باجی کے علاوہ ایک اسفند یار نامی مسلمان
لڑکا بھی موجود تھا، جس نے ہنگامہ آرائی میں ہمارے ساتھ رہنا بہتر سمجھا ہوگا۔
ہم ابھی اسی شش و پنج میں تھے، کہ ٹرین کے اگلے کمپارٹمنٹس سے
ہنگامے کی آوازیں آنے لگیں۔
ہماری کیفیت اس وقت قربان خانے میں موجود جانور جیسی تھی، جو موت
کو سامنے دیکھ کر بھی بھاگ نہیں سکتا۔
اس وقت میرے ذہن میں ایک ایسا خیال آیا کہ جس کو عام حالات میں سوچ
کر ہی انسان مرنے کو ترجیح دے۔ مگر اس وقت حالات عام نہیں تھے، اور نا ہی ہم میں
سے کوئی اس طرح کی موت مرنے کو تیار تھا۔
موت کے اس ننگے ناچ کے دوران میں نے ایک رول پلے کا سین سوچا تھا،
جس میں میں اور اسفند یار ہندو بلوائی بن کر ایک مسلمان لڑکی (باجی) کی عزت لوٹ
رہے ہوں گے۔
آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ کس قدر خبیث سوچ ہے، مگر اس وقت جان بچانے
کی کوشش ہی ہمارے دماغ پر سوار تھی۔
اس خیال کی ایک اور وجہ بھی تھی، اگر ہم کچھ نا بھی کرتے تب بھی
بلوائیوں نے ہم لڑکوں کو تو فوراً قتل کر دینا تھا، مگر باجی کی عزت لوٹ کر اسکو
ذلیل کر کے قتل کرنا تھا۔ سو عزت تو دونوں صورتوں میں لٹنی تھی، مگر پہلی صورت میں
اگر پلان کامیاب ہوتا تو جان بچنے کا بہت امکان تھا۔
میں نے باجی کو ڈرتے ڈرتے یہ بات کی تو وہ فوراً مان گئیں، شاید
دوسری صورت کا تصور ان کے ذہن میں بھی موجود تھا۔ میں اسفندیار کو بھی پلان سے
آگاہ کیا، اور ہم تیار ہو گئے،
پھر جب آٹھ دس بلوائی ہمارے کمپارٹمنٹ میں داخل ہوئے، تو منظر یہ
تھا کہ دو ہندو نوجوان ایک مسلمان لڑکی کی عزت لوٹنے میں مصروف تھے۔
ان میں سے کچھ ہندو تو وقت ضائع کئے بغیر کسی اگلے شکار کی تلاش
میں نکل گئے، مگر تین چار وہیں رک کر تماشہ دیکھنے لگے۔
اور اسی لمحے میں نے اپنے پلان پر عملدرآمد شروع کر دیا۔
———————-
باجی نے کالے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی، جسے میں نے ایک جھٹکے سے
اتار کر پھینک دیا۔ اب باجی کی سڈول چھاتیاں ان کی تیز سانسوں کے ساتھ اوپر نیچے
ہوتی محسوس ہو رہی تھیں۔
چادر اتارتے وقت باجی نے کچھ مزاحمت کی، جس پر میں نے خباثت سے
بھرپور لہجے میں کہا: ” حرامزادی لونڈیا، ابھی تو صرف دوپٹا اترا ہے تو یہ سب کر
رہی ہے، جب ہم سب کے سامنے ننگا مجرا کرے گی تب یہ شرم کدھر جائے گی۔
یہ سن کر باجی کا چہرہ شرم اور غصے سے لال ہو گیا اور وہ میری طرف
دیکھنے لگی۔ شاید وہ یہ جاننا چاہ رہی تھیں کہ یہ سب کرنا اس اداکاری کا حصہ تھا
جو ہم کررہے تھے یا پھر کچھ اور۔۔
خیر، اب وقت تھا باجی کے باقی ماندہ جسم کو ننگا کرنےکا۔
اس کام کے لئے میں نے کمپارٹمنٹ میں موجود ہندو لڑکوں میں سے ایک
نسبتاً کمزور لڑکے کو اشارہ کیا اور بولا:”ادھر آکر ننگا کرو سالی کو، کیا کبھی
لونڈیا کی عجت نہیں لوٹی تم نے”
یہ بات سن کر اس لڑکے میں گویا بجلی بھر گئی، اور وہ جھٹ باجی کے
ایک جانب آبیٹھا۔ وہ لڑکا دھان پان ہی سہی پر تھا تو لڑکا ہی، اور اس وقت ہوس کی
اونچائیوں پر تھا، سو اس نے ایک جھٹکے سے باجی کی قمیض پھاڑ کر پھینک دی۔ باجی کے
گلابی رنگ کے بریزئر سے انکے دودھیا سفید سڈول ممے ادھ ننگے دعوت نظارہ دے رہے تھے۔
ایسی سیکسی خوبصورت لڑکی کو ادھ ننگا دیکھ کر باقی ہندو بھی باجی
پر پل پڑے، ایک لمحے میں باجی کے ممے بریزئر سے آزاد تھے، وہ ہندو باجی کی چھاتیوں
اور نپلز کو وحشیوں کی طرح چوم چاٹ رہے تھے۔ اس سب کے دوران میری نظر باجی کے مموں
پر پڑی, کم از کم 34سائز کے ان شفاف مموں پر گلابی رنگ کے نپلز دیکھ کر نا چاہتے
ہوئے بھی میرے لن میں اکڑاؤ پیدا ہونے لگا۔
———
لبنیٰ باجی ہمارے خاندان کی سب سے باوقار اور باحیا لڑکی مانی جاتی
تھیں۔ گھر میں رہتے ہوئے بھی، کبھی انہوں نے لباس میں لاپرواہی نہیں برتی تھی،
ہمیشہ چادر یا دوپٹے میں ملبوس اور جسم چھپانا انکی عادت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس
وقت انکی ننگی چھاتیاں دیکھ کر میں ششدر رہ گیا تھا کیونکہ کہ مجھے بالکل اندازہ
نہیں تھا کہ باجی اس قدر سیکسی جسم کی مالکہ ہیں۔
گھر میں باقی دونوں بہنوں کے کلیویج پر انجانے میں کئی بار نظر پڑ
جاتی تھی، مگر باجی کے باحیا اندازواطوار کی وجہ سے کبھی ان پر اس قسم کی نظر تک
نہیں پڑی۔ مگر المیہ کہ ایسی باکردار اور باحیا لڑکی آج درجن بھر ہندوؤں کے درمیان
اپنے بھائی کے سامنے ننگی لیٹی اپنی عزت لٹنے کے انتظار میں تھی۔
————
اس وقت ہمارے اردگر کم و بیش بارہ کے قریب ہندو جمع ہو چکے تھے، جن
میں سے چار باجی کی چھاتیوں اور پیٹ کو چوم چاٹ رہے تھے، ایک باجی کے سر کی طرف
بیٹھ کر انکی چہرے پر جھکا ان کے منہ میں زبان ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا، جبکہ وہ
دھان پان ہندو جس کو میں نے باجی کو بے لباس کرنے کو منتخب کیا تھا، وہ اپنی پینٹ
اتار رہا تھا، جبکہ باقی سب اردگرد کھڑے اپنے اپنے لنڈ باہر نکال کر سہلا رہے تھے۔
—————–
عام طور پر یہ بلوائی یہ سب کرنے کے بجائے پھدی یا گانڈ مار کر
لڑکی کو قتل کرکے جلد از جلد اگلے شکار کی طرف نکل جاتے ہیں، مگر اس وقت باجی کے
حسن اور انکے گرم ترین جسم نے ان سب کو مقناطیسی انداز میں روک رکھا تھا۔ ان میں
سے اکثر ہندوؤں کو ساری عمر ایسی دوشیزہ کی چدائی تو دور اس سے بات کرنا بھی نصیب
نا ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی فطری خباثت کے باوجود صبر سے اپنی باری کے انتظار
میں تھے، اور جو باجی کے ساتھ “مصروف” تھے وہ بھی ایک ایک لمحے کا فائدہ لے رہے
تھے۔
اب جو ہندو لڑکا پینٹ اتار رہا تھا، وہ پینٹ سے آزاد ہو کر باجی کے
چہرے کی طرف بڑھا، ایک لمحے میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ اپنا گندا غیر ختنہ شدہ
لن باجی کو چسوانا چاہتا ہے، اس پر میں نے اداکاری کرتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ
مارتے ہوئے کہا: “یہ لنڈ اس کے ہاتھ میں چھڑواؤ گے کیا؟ شلوار اتارو سالی کی”
وہ۔ میری بات کو اگنور کرتا ہوا آگے بڑھا اور اپنا لنڈ باجی کے
ہونٹوں پر رکھ کر رگڑنے لگا۔
اس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہاں ہر کام میرے کنٹرول میں نہیں
ہوگا، اور مجھے اس حساب سے چال چلنی ہوگی کہ ان ہندوؤں کو سب مل بھی جائے اور
ہماری جان بھی بچ جائے۔ اس صورتحال میں ان وحشیوں کو کسی کام سے روکنا بے کار تھا،
اور اس سے ہم نے بلاوجہ مشکوک ہی بننا تھا۔ تو اسی لمحے میں نے فیصلہ کیا کہ اب یہ
لوگ جو بھی کریں ان کو کرنے دیا جائے، اور کوشش صرف یہ ہو کہ باجی کو کم سے کم درد
ہو اور ہماری جان بچ جائے
———
اس لڑکے کا لن بدستور باجی کے ہونٹوں پر رگڑ کھا رھا تھا مگر باجی
نے ہونٹ مضبوطی سے بھینچ رکھے تھے مگر انکی مزاحمت نا ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔
شاید انہوں نے بھی میری طرح سب تسلیم کر لیا تھا۔
اس وقت باجی کی ٹانگوں والی سائیڈ خالی ہو چکی تھی جس پر ایک لمبا
تڑنگا کسرتی جسم والا ادھیڑ عمر ہندو انکی ٹانگوں کے بیچ آبیٹھا۔
اس ہندو کا لنڈ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا اور آنے والے لمحات میں
باجی کا حال سوچنے لگا۔
اس کا لن کم از کم آٹھ انچ لمبا اور دو اڑھائی انچ چوڑا ہوگا۔ اس
نے باجی کی کمر کے نیچے ہاتھ ڈال کر اوپر اٹھایا اور باجی کی شلوار اتار دی۔ اب
باجی کی سفید ملائم ٹانگیں اور دودھیا رانیں بالکل ننگی تھیں۔ اگلے ہی لمحے اس
پہلوان نے باجی کی پینٹی بھی پھاڑ کر علیحدہ کر دی۔
باجی کی چوت پر بالوں کی ہلکی سے تہہ تھی، شاید آٹھ دس دن پہلے شیو
کی گئی تھی۔
اس ہندو نے باجی کی ٹانگوں کو ایک جھٹکے سے کھولا اور تھوڑا اوپر
اٹھا دیا، اب باجی کی پھدی اور گانڈ کے سوراخ بالکل واضح تھے، وہ بندہ شاید گانڈ
کا شوقین تھا، اس لئے اس نے باجی کی گانڈ میں انگلی کرنا شروع کر دیا، باجی تکلیف
سے کراہ اٹھی، کراہتے وقت باجی کے منہ کا کھلنا تھا کہ جو ہندو انکے ہونٹوں پر لن
رگڑ رہا تھا اس نے سیدھا اندر گھسا دیا، اب باجی ہچکچاہٹ میں اسکا لن چوس رہی تھیں
جب کہ انکے ہاتھوں میں دو لڑکوں نے اپنے لن تھما دیے تھے جنکو وہ آہستہ آہستہ سہلا
رہی تھیں۔ دو لڑکے باجی کی چھاتیوں پر منی نکال کر جا چکے تھے جبکہ باقی ہندو
دوسرے کمپارٹمنٹ کی طرف چلے گئے تھے جہاں سے چیخوں اور قہقہوں کی ملی جلی آوازیں آ
رہی تھیں، شاید وہاں بھی کسی کی عزت لوٹی جا رہی تھی۔ کل ملا۔ کر ہمارے کمپارٹمنٹ
میں اب سات ہندو موجود تھے۔
ادھر باجی کی گانڈ میں انگلی کرنے کے بعد وہ گانڈ کا شوقین مرد اب
اپنا لن باجی کی گانڈ کے سوراخ پر سیٹ کر رہا تھا،
ایسے میں، میں نے اسے روک کر ارد گرد نظر دوڑائی تو مجھے ایک
مرتبان نظر آیا، جس میں ہمارے یہاں لوگ دیسی گھی یا اچار جیسی سوغات لے کر جاتے
ہیں۔ میں نے ایک مٹھی بھر کر دیسی گھی باجی کی گانڈ پر انڈیل دیا، جو انکے جسم کی
گرمی سے فوراً پگھلنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس ہندو نے دو انگلیاں ایک ساتھ باجی کی
گانڈ میں گھسا کر اندر باہر دیسی گھی اچھے سے مل دیا اور اس سے پہلے کہ باجی کو
کچھ سمجھ آتا اپنے لن کی ٹوپی باجی کی کنواری اور تنگ گانڈ میں گھسا دی، باجی کے
منہ میں لن ہونے کی وجہ سے انکی چیخوں کی صرف “غوں غاں” ہی سنائی دی اور اس ہندو
نے اپنا باقی لن بھی دو تین جھٹکوں کے ساتھ باجی کی گانڈ میں اتار دیا۔ درد کی شدت
سے باجی کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اور ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے مگر وہ حوصلے سے
گانڈ مرواتی رہیں۔ اب باجی گانڈ میں ہر جھٹکے کے ساتھ اوپر کو اچھل رہی تھیں اور
باجی کے ممے بھی ایک لہر کے ساتھ اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ اس منظر کو دیکھتے جب میری
نظر اسفندیار پر پڑی تو وہ بھی اپنا لن پینٹ کے اوپر سے سہلا رہا تھا،
ایسے وقت میں، جب ایک ہندو کا لن باجی کے منہ میں اور ایک گانڈ میں
تھا، اور وہ دونوں ہاتھوں سے دو ہندوؤں کی مٹھ لگا رہی تھیں جبکہ تین لڑکے انکے
مموں کو کاٹ اور چاٹ رہے تھے، اسفندیار کا لن کھڑا ہونا فطری بات تھی۔ اور صرف اسی
کا نہیں میرا اپنا لن اکڑ کر اپنے جوبن پر تھا اور لاشعوری طور پر، اس سب کو دیکھ
کر مجھے ایک عجیب سی لذت مل رہی تھی اور ایک ایسی خواہش سر اٹھا رہی تھی جس کو سوچ
کر ہر انسان کانپ اٹھے…
———–
،
اس وقت کمپارٹمنٹ میں صرف میں اور اسفندیار کپڑوں میں تھے، اور یہ چیز ہمیں مشکوک
بنا سکتی تھی، اور اس وقت اتنا کچھ گنوا دینے کے بعد یہ شک کا رِسک لینے کی کوئی
تُک نا تھی۔ مگر اس سب کے باوجود، باجی کے بارے میں ایسا سوچنا بھی لرزہ خیر تھا۔
خیالات کے اس بے تحاشہ سیلاب میں، آخرکار میں نے ایک فیصلہ کیا ۔
اسی لمحے میرا “گواہ” بھی اس فیصلے کی تائید میں کھڑا تھا۔
———–
قریباً بارہ منٹ مسلسل باجی کی گانڈ چودنے کے بعد اس ہندو جوان نے
آخری جھٹکے اس شدت سے مارے کہ باجی بلبلا اٹھی اور ان کے ہاتھوں میں تھامے لن نکل
گئے، جن کو باجی نے ماہرانہ انداز میں پھر سے پکڑ کر سہلانا شروع کردیا۔
یہ دیکھ کر مجھے حیرانی ضرور ہوئی مگر ساتھ ہی سکون بھی کہ باجی
بھی اب شاید انجوائے کر رہی ہیں، جیسے ایک مقولہ بھی ہے،
If rape is inevitable, enjoy it۔
اب جو ہندو باجی کی گانڈ مار کر اندر ہی ڈسچارج ہو چکا تھا وہ
علیحدہ ہوا تو باجی کے منہ میں لن گھسانے والا ہندو جلدی سے باجی کی ٹانگوں کی طرف
بڑھا، موقع دیکھ کر میں نے اسفند یار کو اشارہ کیا اور وہ فوراً انکے سر کی جانب
آگیا، اور اپنی شلوار اتار کر ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنا لن باجی کے منہ میں ڈال
دیا، اور باجی بغیر کسی رکاوٹ کے اسکا لن چوسنے لگیں۔
دوسری طرف جو لڑکا ٹانگوں کی طرف آیا تھا اس کا لن۔ چوکہ باجی کے
تھوک سے پہلے ہی تر تھا تو وہ زیادہ مشقت کے بغیر ہی باجی کی گانڈ میں اتر گیا۔ اب
باجی کی دوسری چدائی شروع تھی۔ یہ لڑکا چونکہ پہلے باجی کو چوپے لگوا کر آیا تھا
تو یہ زیادہ دیر ٹھہر نا سکا اور ایک ڈیڑھ منٹ میں ہی جھڑ گیا۔ اس کے بعد دو اور
لڑکوں نے باری باری باجی کی جم کر گانڈ ماری اور نکل گئے۔ اب باقی ہم دونوں کے
علاوہ تین اور ہندو بچے تھے۔
——-
اب تک باجی کی چوت بچی ہوئی تھی، مگر ایسی امید کرنا ہی بےوقوفی
تھی کہ باجی کی چوت بچ جاتی، تو اب وہ لمحہ آچکا تھا کہ اس کمپارٹمنٹ میں موجود
لڑکوں میں سے ایک میری بہن کی سیل توڑنے کا مزہ لیتا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود یہ
تمغہ لینا چاہتا تھا مگر اس ڈر سے کہ باجی کچھ اور نا سوچیں مجھے اسفندیار اس کام
کے لیے موزوں لگا۔ اس وقت یہ قدم اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ ہم اپنے ختنہ شدہ لن
ان ہندوؤں کے سامنے لاتے تو مشکل میں پڑ جاتے، اور اگر کچھ نا کرتے تب بھی مشکوک
بنتے، اس لئے ضروری تھا کہ ہم جتنا ہو سکے اپنے لن باجی کے کسی سوراخ کے اندر
رکھتے اسی لئے میں نے اسفند یار کو باجی کے منہ میں لن ڈالنے کا کہا تھا۔ اسفندیار
میری نسبت پتلا اور چھوٹے قد کا تھا تو میرا اندازہ تھا کہ اسکا لن چھوٹا ہوگا،
اور باجی کو چوٹ پھٹنے کا کم سے کم درد ہو گا۔ (مگر یہ میرا خیال ہی تھا کیونکہ
اسفندیار کا لن میری نسبت زیادہ بڑا اور موٹا تھا جسکا اندازہ مجھے بعد میں ہوا)
باجی کی ٹانگوں کے درمیان کی جگہ خالی ہوتے ہی میں نے اسفندیار کو
اشارہ کیا اور خود لپک کر باجی کے منہ کی طرف آگیا، اسفندیار نے لن کو ہاتھ سے
چھپاتے ہوئے باجی کی چوت پر رکھا اور ایک زوردار دھکے کے ساتھ اندر دھکیل دیا،
باجی کی ایک زوردار آہ کے ساتھ ہی انکی چوت کی پہلی چدائی شروع ہو گئی تھی۔ ادھر
میں نے بھی اپنا لن نکال کر ٹوپی پر ہاتھ جماتے ہوئے باجی کے ہونٹوں پر رکھا جسے
باجی نے فوراً ہی منہ میں لے لیا مگر سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھا، باجی کی
نظریں ایک لمحے میری نظروں سے ملیں، مجھے لگا باجی پوچھ رہی ہیں کہ جس لڑکے کی بہن
یوں سرعام چد رہی ہو اسکا لن اس قدر سخت کیسے ہو سکتا ہے ہے، مگر میں نے ان کے منہ
میں ایک ہلکا سا جھٹکا دے کر نظر پھیر لی۔
دوسری جانب اسفندیار کا لن باجی کی چوت میں جڑ تک اتر رہا تھا اور
باجی کی آہیں ماحول کو اور گرما رہی تھیں۔ اسفند یار نے باجی کی دونوں ٹانگیں جوڑ
کر انکے گھٹنوں کو انکے پیٹ سے لگایا اور ان کے دونوں پیر اپنی بغلوں میں لے لیے
اور انکی نازک کمر پر ہاتھ رکھ کر نیچے سے ہلتے ہوئے تیزی سے انکی چوت چودنے لگا۔
اس سب کے دوران باقی تین ہندوؤں میں سے دو باجی سے مٹھ مرواتے انکی
چھاتی پر منی نکال کر جا چکے تھے اور آخری ہندو باجی کی ایک بغل کے اندر لن رکھ کر
رگڑ رہا تھا، یہ عجیب عمل شاید اسکا fetish تھا، مگر
باجی کی بغلیں بھی دودھ کی طرح سفید اور ملائم تھیں، اس ہندو کا کالا لن باجی کی
سفید شفاف بغل سے رگڑ کھاتا ہوا ان کے سڈول ممے پر انکے نپل تک جارہا تھا، اس منظر
سے اس ہندو پر ایک عجیب سی شہوت طاری تھی، ایسا لگتا تھا کہ وہ بھی چھوٹنے کے قریب
ہے۔
ادھر میرا لن اب باجی کے منہ میں فل تن چکا تھا اور اس میں ایک
عجیب میٹھی سے درد ہو رہی تھی، باجی کے چہرے پر اب ایک خمار سا طاری تھا اور انکی
آہوں میں درد سے زیادہ اب مزہ محسوس ہو رہا تھا۔
اسفند یار کے جھٹکوں کی شدت زیادہ ہو رہی تھی اس نے باجی کی ٹانگوں
کو مکمل کھول کر پاؤں سے پکڑ کر انکو اوپر تک اٹھا دیا، اس طرح اسکا لن آسانی سے
باجی کی چوت میں اتر رہا تھا۔ اس پوزیشن میں مجھے یہ منظر کلئیر نظر آرہا تھا اور
اسفند یار کے لن پر لگا خون باجی کے کنوارے پن کو الوداع کہہ رہا تھا۔ باجی کا
چہرہ اور انکی زوردار آہیں اسفندیار کے لن کی سختی کی گواہی اور چدائی کی شدت کی
گواہی دے رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی دونوں مٹھیاں شدت سے بھینچی ہوئی تھیں اور بڑے
بڑے حوصلے سے پہلی چدائی سہہ رہی تھیں۔
اسفندیار نے دس منٹ نان سٹاپ چدائی کے بعد ایک آخری جھٹکے کے ساتھ
باجی کی چوت کے اندر ہی اپنا لن چھڑوا دیا۔
اس کے ساتھ ہی میں باجی کے منہ سے لن نکال کر ٹانگوں کی جانب بڑھا
تو باجی کی بغل میں لن رگڑنے والا ہندو بھی آگے آیا مگر میں نے اسے روکتے ہوئے کہا
” گرو، لڑکی میں نے ڈھونڈی ہے، اب مجھے چودنے دو”
اس پر وہ برا سا منہ بناتے ہوئے باجی کی چھاتی پر چڑھ کر دونوں
ہاتھوں سے ان ممے پکڑ کر ان کے بیچ لن رگڑنے لگا، اس بندے کے عجیب شوق تھے، مگر اس
وقت ان پر توجہ دینے سے زیادہ میں ‘رول پلے’ میں مصروف تھا۔
میں نے لن باجی کی سرخ ہوئی چوت پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے سے باجی
کی پھدی میں اتار دیا۔ انکی چھاتی پر انکے مموں کو چودتے ہندو کی وجہ سے اس لمحے
ان کے چہرے کے تاثرات نا دیکھ سکا، اور سچ بات تو یہ ہے کہ۔ میں دیکھنا بھی نہیں
چاہتا تھا۔
باجی کی تنگ چوت میں لن ڈالتے ساتھ ہی میں نے سب خیالات اور جذبات
کو ایک طرف کر دیا اور ساری توجہ اس چوت کی چدائی پر لگا دی۔ باجی کی چدائی شروع
ہونے سے لے کر اب تک یہ پہلا موقع تھا جب انکا منہ خالی تھا، تو انکی خمار زدہ
آہیں اب کھل کر گونج رہی تھیں۔ انکی ہر آہ میرے تن بدن میں بجلیاں بھر رہی تھی اور
میں لن کو جڑ تک باجی کی چوت میں گھسا رہا تھا۔ اسی اثناء میں باجی کے مموں کو
چودنے والے ہندو نے اپنا لن باجی کے منہ میں ڈال کر زور زور سے جھٹکے لگانے شروع
کر دیے۔ اس کا لن سامنے ہونے کی وجہ سے باجی کے حلق تک اتر رہا تھا سو باجی کے منہ
سے گھٹی ہوئی غوں غاں کی آواز نکل رہی تھی۔ اس کے جھٹکوں کی تیزی پر باجی کو شک
ہوا اور انہوں اچانک اس کا لن منہ سے نکال دیا، اسی لمحے میں اس ہندو کی منی کی
پچکاریاں باجی کے چہرے پر گر رہی تھیں۔ باجی نے کراہت سے آنکھیں اور منہ زور سے
بند کیے ہوئے تھے۔ باجی کے منہ پر چھڑوانے کے بعد وہ ہندو کمپارٹمنٹ سے نکل گیا
مگر اس کے نکلنے سے پہلے ہی پسٹل سے مسلح ایک اور نوجوان ہمارے سر پے آگیا، اور
صورتحال دیکھ کر بغیر کوئی بات کئے کپڑے اتار کر اپنا لن باجی کے ہونٹوں ہر ٹکا
دیا، باجی نے سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھا، اور مجھے اپنی چوت کی چدائی میں
مگن دیکھ کر چپ چاپ منہ کھول دیا۔ شاید اس آخری ہندو کے جانے کے بعد ان کو لگا
ہوگا کہ امتحان ختم ہے، مگر ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا افتاد آنے
والی ہے۔
اس وقت اس نوجوان کے آنے سے مجھے بھی پریشانی ہوئی تھی مگر جلد
باجی کی چوت کی گرمی نے واپس اپنی طرف متوجہ کر لیا،
اس وقت میں باجی کی ٹانگیں کھول کر انکی چوت چود رہا تھا جبکہ نیا
آنے والا جوان باجی کے ایک سائیڈ پر گھٹنوں کے کھڑا ہو کر باجی کو گردن سے پکڑ کر
چوپے لگوا رہا تھا اور باجی کہنیوں کے بل اٹھ کر اسکا لن چوس رہی تھیں۔ اس پوزیشن
سے باجی کے ممے پہلی بار مجھے صاف نظر آرہے تھے، باجی کے ان انمول رتنوں پر جابجا
ان ہندوؤں کا غلیظ نطفہ گرا ہوا تھا جبکہ باجی نے اپنا چہرہ صاف کر لیا تھا،
میرے اور اس ہندو جوان کے جھٹکے باجی کے انگ انگ کو ہلا رہے تھے،
اور باجی کی آہیں اور سسکیاں مجھے اور زیادہ اکسا رہی تھیں۔ اچانک سے باجی کی
نظریں میری طرف اٹھیں اور انکی خمار زدہ نشیلی آنکھوں کو دیکھتے ہی میری برداشت
جواب دے گئی اور میرے لن سے منی کا لاوا ابل ابل کر انکی چوت بھرنے لگا۔
اس وقت باجی کی چوت میں چھڑوانا میرے اور اس اسفندیار کے لیے اس
لیے بھی ضروری تھا کہ وہ بلوائی دوسری صورت ہم۔ پر شک کرتے کہ جب لڑکی کو چود کر
مار ہی دینا ہے تو یہ سب کیوں! اس وجہ سے یہ کام بھی ضروری تھا۔
———–
میرے فارغ ہوتے ہی اس ہندو نے باجی کے منہ سے لن نکالا اور ٹانگوں
کی طرف آ گیا۔
اس وقت میرے ذہن میں خیال آیا کہ وہ اکیلا ہے اور ہم دو، ہم آسانی
سے اس پر قابو پا سکتے ہیں، مگر اسکا پستول دیکھ کر میرا حوصلہ جھاگ کی طرح بیٹھ
گیا اور میں کپڑے پہن کر سائیڈ پر اسفندیار کے ساتھ بیٹھ گیا،
اُدھر اس ہندو نے باجی کو گھوڑی بنا دیا، اب باجی کہنیوں کے بل
جھکی ہوئی تھیں اور پیچھے سے گھٹنوں کے بل ان کی گانڈ اوپر کو اٹھی ہوئی تھی، اس
ہندو نے دونوں ٹانگیں کھول کر باجی کی گانڈ کو اوپر کی طرف اٹھایا اور باجی کے
چوتڑوں کو کھول کر لن انکی چوت پر سیٹ کر دیا، اور ساتھ ہی ایک جھٹکا مار کر انکی
چوت میں گھسا دیا۔ اب باجی کی سڈول گانڈ ہر جھٹکے پر ہلتی اور وہ ہندو مزید زور سے
جھٹکے لگاتا۔ باجی کی سسکیاں اب مزے والی آہیں محسوس ہو رہی تھیں۔ وہ ہندو تقریباً
دس منٹ باجی کو اس پوزیشن میں چودتا رہا، پھر اس نے پوزیشن بدلی اور پہلے کی طرح
باجی کو لٹا کر انکی ٹانگیں اٹھا لیں، اس نے باجی کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں
اور لن ان کی چوت میں گھسا دیا، اب وہ باجی کے ممو کو پکڑ کر زوردار جھٹکے لگا رہا
تھا، اور باجی ہر جھٹکے پر اچھل اچھل کر آہیں بھر رہی تھیں، ایسا محسوس ہو رہا تھا
جیسے باجی خود مزے کی انتہا پر ہیں، اس ہندو کی سپیڈ تیز ہوتی جا رہی تھی کہ اچانک
باجی نے اپنی ٹانگیں اس کی کمر کے گرد لپیٹ لیں اور ایک جھٹکے سے اٹھ کر اپنی
بانہیں اس ہندو کے گلے میں ڈال کر اس کو زور سے بھینچ لیا، اس وقت باجی کا پورا
جسم ایک بے پانی مچھلی کی طرح تڑپ کر جھٹکے کھا رہا تھا، اور وہ ہندو باجی کے چوتڑ
پکڑ کر اور زور زور سے چود رہا تھا۔ باجی کے اس طرح چھوٹنے کے کچھ لمحوں بعد وہ
لڑکا بھی باجی کے اندر ہی چھوٹ گیا۔
یہ اب تک کی سب سے بھرپور چدائی تھی، اور سچ تو یہ ہے کہ اس دوران
ہم اس نوجوان پر اور اس کے پستول پر آسانی سے قابو پا سکتے تھے، مگر باجی کا اس کی
چدائی پر رسپانس دیکھ کر میں چپ رہا، اب اس کے ختم ہوتے ساتھ ہی میں نے قریب پڑا
ہوا ایک لوہے کا راڈ اٹھایا اور اس کی پشت سے اس کے سر پر وار کرنے ہی والا تھا کہ
باہر سے کچھ لوگوں کی آوازیں آنے لگیں،
اس وقت شام کے تین بج رہے تھے اور بلوہ شروع ہوئے تقریباً اڑھائی
گھنٹے ہو چکے تھے اور پچھلے دو گھنٹوں سے باجی کی نان سٹاپ چدائی جاری تھی،
ہمارے علاوہ تمام لوگ اور بلوائی وہاں سے جا چکے تھے اور اس ویرانے
میں لٹی ہوئی ٹرین پر کسی کے آنے کا امکان نہیں تھا، اس لئے میں نے وہ راڈ واپس
رکھ دیا کیونکہ جو بھی آرہا تھا وہ میری اس حرکت کو پکڑ سکتا تھا اور یہ وہ خطرہ
تھا جس سے بچنے کو ہم نے یہ سب کیا تھا۔
اب وہ ہندو جوان اپنے کپڑے سنبھالتے ہوئے بولا کہ ‘اس لونڈیا کا
کیا کرنا ہے’ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا چار ادھیڑ عمر کے بڑے ڈیل ڈول والے غنڈہ
ٹائپ ہندو آ دھمکے۔
ان کو دیکھ کر میرے حلق سے لے کر میری گانڈ تک سب خشک ہو گیا۔ مگر
میں نے اداکاری کرتے ہوئے کہا کہ ‘گرو اس کو ساتھ لے جا کر کچھ دن پاس رکھ کر مزہ
لوں گا پھر مار کر شمشان میں آگ لگا دوں گا”
اس پر وہ نوجوان تو سر ہلا کر چلا گیا مگر جب میں باجی کی جانب
بڑھا تو ساتھ ہی ان غنڈہ نما بندوں میں سے دو آگے آئے اور مجھے روک دیا اور کہا
کہ” اب ہماری باری ہے تم بعد میں جی بھرتے رہنا اس لونڈیا سے”
یہ سن کر میں پیچھے ہو گیا مگر باجی ان کی ہئیت سے ڈر کر ایک جانب
کسمسا گئی، اس ساری چدائی میں پہلی بار باجی کی آنکھوں میں فریاد، لاچاری اور
بےبسی نظر آرہی تھی، جیسے وہ کہہ رہی ہوں کہ ان بدصورت وحشیوں کے نیچے آنے سے اچھا
ہے مجھے مار دو یا شاید وہ اگلے چند گھنٹوں کی چدائی کے درد کے احساس سے گھبرا رہی
تھیں
–
جو بھی تھا، اب بات ہمارے ہاتھ سے نکل چکی تھی اور باجی ان درندوں
کے رحم و کرم پر تھیں جنہوں نے ساری زندگی ایسی خوبصورت اپسرا کے بس خواب ہی دیکھے
ہوں گے۔
یہ سب شاید دوست تھے کیونکہ انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے
کیے اور باجی کو کھڑی کر دیا، اب باجی کے جسم کا ایک ایک انگ ہمارے سامنے واضع ہو
گیا تھا
باجی ایک تیکھے نین نقوش والی انتہائی دلکش دوشیزہ تھیں، کالے سیاہ
نرم و ملائم بال، سرمئی رنگ کی خوبصورت آنکھیں، سرخی مائل گورے گال، تیکھا ناک اور
خوبصورت گلابی ہونٹ انکو سادگی میں بھی انتہائی دلکش بناتے تھے۔ اور اس وقت یہ
پریوں جیسا چہرہ ہندو بلوائیوں کی ہوس کا نشانہ بن رہا تھا۔
انکا جسم بھرپور صحتمند اور انتہائی متوازن تھا، ہاتھوں کی انگلیاں
تیکھی اور لمبی ، ہتھیلیاں نازک اور گلابی، بھرے بھرے بازو، متوازن کندھے اور انکے
ساتھ
باجی کے ممے درمیانے سائز میں پرفیکٹ جسامت کے تھے جن پر گلابی رنگ
کے کھڑے نپل سویا ہوا لن جگا کر گھوڑے جیسا کر دیں، اور ان پر پڑے گند کو شاید باجی
نے اس دوران صاف کر لیا تھا، تو وہ صاف شفاف ہلکے گیلے ممے غضب ڈھا رہے تھے جب کہ
انکی کمر ایک خوبصورت لہری curve کی طرح تھی
اور چاندی کی طرح چمکتا سفید متوازن پیٹ جس پر کہیں کہیں تِل تھے،
انکی گانڈ شاید 36 سائز کی ہوگی اور ان کے نرم و گداز چوتڑ بالکل
بے داغ تھے اور باجی کی ہر حرکت پر ایسے ہلتے جیسے ناچ رہے ہوں، باجی کا جسم کسی
بکنی ماڈل کے جسم سے کم نا تھا جبکہ ان کے گہرے سیاہ نرم بال اس ننگی حالت میں
انکی گانڈ تک جا رہے تھے۔ انکی گلابی چوت اس ساری چدائی کی وجہ سے تھوڑی سی سوج
گئی تھی اور اس وقت انکی بند رانوں کے بیچ سے ادھ چھپی پانی ٹپکاتی دعوتِ چدائی دے
رہی تھی۔ باجی کا رنگ گلابی مائل سفید اور انکے جسم پر کہیں کہیں گہرے تِل انکے
حسن کو چار چاند لگا رہے تھے۔ اس ایک لمحے میں اس نظارے نے شاید ان وحشیوں کو بھی
مبہوت کر دیا تھا۔
مگر ساتھ ہی ان میں سے آگے بڑھا اور باجی کے بھیگے ہونٹوں کو چوم
کر اپنی زبان باجی کے منہ میں ڈال دی۔ جبکہ باقی سب نے اپنے کپڑے اتار دیے ان سب
کے لن کم و بیش 8 7 انچ کے ہوں گے اور موٹائی بھی اچھی خاصی تھی، شاید وہ سب
پہلوان تھے کیونکہ ان کے جسم اچھے خاصے کسرتی تھے۔ اسی اثنا میں ایک اور شخص
کمپارٹمنٹ میں داخل ہوا جسے دیکھتے ہی میں سارا ماجرا سمجھ گیا، یہ وہی پہلوان تھا
جس نے سب سے پہلے باجی کی گانڈ ماری تھی، اب یہ اپنے ساتھیوں کو اسی امید پر لایا
ہوگا کہ شاید کوئی اور حسینہ چودنے کو مل جائے، اور اسکی قسمت کہ وہی حسینہ دوبارہ
مل گئی
اندر داخل ہوتے ہے باجی پر نظر پڑی تو اس کی آنکھوں میں چمک آگئی،
اور اس نے اپنے دوستوں سے گجراتی میں کچھ کہا جس پر وہ سب ہنسنے لگے، پھر اسنے آگے
بڑھ کر باجی کی گانڈ پر ہاتھ مارتے ہوئے مجھے کہا “گرو کمال کی لونڈیا پکڑ کر لائے
ہو، اس کو تو میں ساتھ گھر لے جاؤوں گا یہ بار بار چودنے کی چیج ہے”
میں ہواس باختہ تو ہو ہی چکا تھا پھر بھی ہمت کر لے ہنستے ہوئے کہا
کہ “موٹا بھائی یہیں چود لو جتنا چودنا ہے، لے کر اسکو میں نے جانا ہے، ہاں جب
میرا جی بھر جائے تب تم لے جانا”
اس پر وہ خبیث سی ہنسی کے ساتھ بولا”چلو لے جانا اگر یہ ہم سب سے
چدوا کر بچ گئی تو” اس پر وہ سب قہقہے لگانے لگے۔
اب وہ سب کپڑے اتار چکے تھے، تو جو باجی کے ساتھ کسنگ کر رہا تھا
اس نے باجی کو چھوڑا اور بولا چلو اب ہم سب کا لنڈ چوسو، چار و ناچار باجی نے
گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ان میں سے ایک کا لنڈ منہ میں لے لیا۔
اس پر ان میں سے ایک بھدے پہلوان نے باجی کے منہ پر تھپڑ مار کر
کہا ” سالی کتیا ہاتھ گانڈ میں لیے ہیں کیا، چل ہاتھ بھی چلا ساتھ”
اس پر باجی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے مگر انہوں نے دونوں ہاتھوں
سے دو اور لن پکڑ کر ان کی بھی مٹھ مارنا شروع کر دی۔ اب وہ پانچوں باری باری باجی
کے منہ میں لن چلانے لگے اور کچھ گندی گالیاں بکتے رہے۔ وہ ہندو باری باری باجی کے
منہ میں لن ڈالتے اور انکو سر سے پکڑ کر دھکے لگاتے، جس سے لن باجی کے حلق تک
جالگتا اور باجی کے منہ غوں غاں کی آوازیں نکلتیں۔ اس سب کو دیکھتے میں نے اردگرد
غور کیا تو اسفندیار وہاں سے کھسک چکا تھا۔
اب ان پانچ ہندوؤں سے اپنی بہن کی چدائی دیکھنے کو صرف میں وہاں
موجود تھا۔
کچھ دیر باجی کو اس طرح چوپے لگوانے کے بعد ان میں سے ایک پہلوان
نیچے لیٹ گیا اور اس نے باجی کو اپنے لن پر اپنی طرف منہ کروا کے اپنے لن پر بٹھا
لیا اور نیچے سے باجی کی چوت میں جھٹکے مارنے لگا، اس کے ہر جھٹکے پر باجی اوپر کو
اچھلتی اور باجی کے ممے فٹ بال کی طرح ہلتے، اس دوران ایک ہندو باجی کے سامنے کی
طرف آگیا اور باجی کو آگے کی طرف جھکا کر اپنا لن باجی کے منہ میں ڈال دیا باجی نے
لن منہ میں لینے کے بجائے چاٹنا شروع کر دیا، شاید ان کے حلق میں درد ہوگا۔
آگے کی طرف جھکنے کی وجہ سے باجی کی گانڈ اوپر کو اٹھ گئی تھی اور
انکے چوتڑ ہلکے سے کھل گئے تھے، یہ دیکھ کر وہی گانڈ کا شوقین باجی کے پیچھے کی
طرف آگیا۔
اس کے انداز سے مجھے سمجھ آگیا کہ یہ باجی کے سب سوراخ ایک ساتھ
چودنے کے موڈ میں ہیں۔ مگر اس وقت لاچاری سے دیکھنے کے سوا میں کچھ نہیں کر سکتا
تھا۔
اس ہندو نے باجی کی گانڈ پر تھوک ڈالا پھر اپنا لن تھوک سے گیلا کر
ایک جھٹکے سے باجی کی گانڈ میں گھسا دیا، اسکا آدھا لن باجی کی گانڈ میں اتر گیا
اور ساتھ ہی باجی لی فلک شگاف چیخ نکلی جس پر پیچھے سے اس نے باجی کے چوتڑوں پر
زوردار تھپڑ مارا اور پورا لن اندر گھسا دیا۔ مگر اس بار چیخ کے بجائے غوں غاں کی
آواز نکلی کیونکہ سامنے والے ہندو نے پورا لن باجی کے منہ میں گھسا دیا تھا۔ اب
تین ہندوؤں کے لن باجی کے اندر تھے اور باقی دونوں سائیڈ والی سیٹوں میں باجی کے
ہاتھ میں اپنے لن تھمائے بیٹھے تھے۔ باجی اپنی چوت اور گانڈ میں ان ہندوؤں کے
تابڑتوڑ دھکوں کی وجہ سے بار بار نیچے گر رہی تھیں اور ہر بار کوئی نا کوئی ہندو
باجی کو تھپڑ یا گالی دے کر سیدھا کرتا اور پھر سے چودنا شروع کر دیتا۔ تقریباً
بیس منٹ اسی حالت میں چدائی کے بعد وہ لوگ رک گئے، مگر یہ دیکھ کر میری پریشانی
بڑھ گئی کہ ان میں سے کوئی ایک بھی چھوٹنے کے قریب بھی نہیں تھا۔
اب جو ہندو سیٹ پر بیٹھا تھا اس نے باجی کی کمر اپنی طرف کر کی ان
کو اپنی گود میں بٹھا کر باجی کی دونوں ٹانگیں کھول دیں، پھر باجی لے چوتڑوں کو
ہلکا سا اوپر کر کے اپنا لن باجی کی گانڈ میں گھسا دیا، ابھی باجی اس سے سنبھلنے
نا پائی تھیں کہ دوسری سیٹ والے ہندو نے باجی کی ٹانگیں اٹھائیں اور انکی چوت میں
لن ڈال دیا، اب باجی کی چیخوں میں تیزی آرہی تھیں اور وہ درد اور ذلت کے احساس سے
مسلسل رو رہی تھیں۔ اس سب کے ساتھ ان ہندوؤں کے ہر جھٹکے کے ساتھ باجی کا پورا جسم
ہل رہا تھا۔ اس پوزیشن میں وہ ہندو باجی کی زوردار چدائی کر رہے تھے۔ چدائی کے بیچ
سامنے والا ہندو مسلسل نے باجی کے منہ زبان ڈال کر چوستا رہا جبکہ پیچھے والے ہندو
باجی کی رانوں سے ہاتھ ہٹا کر انکے ممے پکڑ کر بھینچے ہوئے تھا، بیچ میں وہ دونوں
کبھی کبھار ہاتھ چھوڑ کر باجی کی رانوں یا مموں پر زوردار تھپڑ رسید کردیتے جس سے
باجی درد سے تڑپ اٹھتیں۔ تقریباً بیس بائیس منٹ بعد سامنے والا ہندو باجی کی چوت
میں زور زور سے جھٹکے مار کر جھڑ گیا، جبکہ پیچھے والا ابھی بھی مسلسل گانڈ چود
رہا تھا۔
باجی کی چوت کی جگہ خالی ہونے پر باقیوں میں سے ایک اٹھا اور اسی
انداز میں باجی پر اپنی باری لگانے لگا اسی بندے نے پہلے باجی کی گانڈ چودی تھی تو
میرا اندازہ تھا یہ جلدی جھڑ جائے گا، مگر یہ میری خام خیالی ہی تھی۔
تقریباً پانچ منٹ بعد پچھلا ہندو باجی کی گانڈ میں جھڑ گیا اور
پوزیشن بدل کر یہ سامنے والا سیٹ پر اس انداز میں بیٹھ گیا کہ باجی اس کی گود میں
اس کی طرف چہرہ کر کے بیٹھی تھیں اور باجی کے ممے اس ہندو کی چھاتی سے لگے ہوئے
تھے۔ اس پوزیشن میں اس ہندو کا لن بغیر کسی محنت کے باجی کی چوت میں چلا گیا اور
باقی رہ جانے والے دو میں سے ایک نے باجی کی گانڈ سنبھال لی۔ اس بندے کا لن ان سب
سے بڑا اور موٹا تھا اور اب تک اس نے صرف باجی کے منہ میں ڈالا تھا۔ تو جیسے ہی اس
نے باجی کی گانڈ میں لن ڈالا تو باجی جو بے سدھ ہونے کو تھیں، ایک مرتبہ پھر بلبلا
اٹھیں اور تکلیف سے کراہنے لگیں۔
اب حال یہ تھا کہ ایک ہندو باجی کو گود میں بٹھا کر انکی چوت مار
رہا تھا اور ساتھ ساتھ باجی کے ہونٹوں اور منہ کے اندر زبان گھسا رہا تھا جبکہ اس
کے ہاتھ باجی کے پستانوں کو مسلسل مسل رہے تھے، دوسری طرف ایک ہندو پیچھے سے باجی
کے کندھوں پر ہاتھ ٹکائے انکی گانڈ میں اپنا جہازی سائز کا لن گھسا کر گھسے مار
رہا تھا اور باجی کی چیخیں ان زوردار جھٹکوں کی آواز میں دب چکی تھیں۔ اس دوران
پیچھے والا ہندو باجی کے چوتڑوں پر مسلسل تھپڑ مار رہا تھا، جس سے باجی کی سفید
گانڈ لال سرخ ہو چکی تھی۔
اس زبردست چدائی کو دیکھتے مجھے وقت کا کوئی اندازہ نہیں رہا تھا
اور میرا لن جو پہلے اپنی بہن کی تکلیف کی وجہ سے بیٹھ گیا تھا اب پھر انگڑائیاں
لے رہا تھا۔
کافی دیر باجی کی گانڈ مارنے کے بعد آخر کار اس ہندو کا لن بھی جھڑ
گیا اور باقیوں کی طرح اس نے بھی باجی کی گانڈ اپنی منی سے بھردی۔
اس کے فارغ ہونے کے باوجود جو آخری پہلوان بچا تھا وہ اپنی جگہ
بیٹھا رہا اور وہیں بیٹھے اس نے مجھے اشارہ کیا کہ اسکی گانڈ مارو،
اب میں چاہتا تو منع کر سکتا تھا مگر میرے دل میں بھی چور تھا اور
اس سب حیوانیت کے بعد، کہیں نا کہیں میرا دل بھی کر رہا تھا کہ باجی کی گانڈ
چودوں،اور آج اس موقع کے علاوہ شاید کبھی یہ موقع نا مل پاتا، تو میں نے موقع کا
فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا لن نکالا اور ان کی نظروں سے چھپاتے ہوئے اپنی بہن کی گانڈ
میں گھسا دیا، باجی کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہوا کہ یہ کوئی ہندو نہیں بلکہ انکا
اپنا بھائی ہے۔
اب باجی کی چوت چودنے والا ہندو بھی قریب تھا تو اس نے اپنے جھٹکے
تیز کر دیے، اس کے ہر جھٹکے پر باجی کی گانڈ ہلتی اور مجھے مزا آتا
باجی کے بالکل پیچھے کھڑے ہو کر باجی کے جسم کی بھینی بھینی خوشبو
نے مجھے بے تاب کر دیا تھا اور میں نے اور تیزی سے باجی کی گانڈ مارنا شروع کردی
تھی۔ اس لمحے میں مجھے ان سب لوگوں پر رشک آرہا تھا جنہوں نے کھل کر اس حسینہ کے
جسم کے انگ انگ کو چوما اور چاٹا تھا، باجی کے جسم سے اٹھتی نشیلی مہک سونگھ کر
مجھے اس ہندو پر بھی رشک آرہا تھا جو اپنی Armpit fetish باجی
کی دودھیا ملائم بغلوں میں پوری کر کے گیا تھا، اور اس ہندو پر بھی جس کی گود میں
بیٹھی باجی کے رسیلے ہونٹ اس وقت اس کے ہونٹوں پر لگے ہوئے تھے۔ یہ سب سوچتے ہوئے
میرے انگ انگ میں بجلیاں بھرنے لگیں اور کچھ ہی لمحوں میں میں نے ڈھیروں منی باجی
کی گانڈ میں انڈیل دی۔
میں فارغ ہو کر پھر سے سائیڈ پر بیٹھ گیا اور اپنی باجی کو اس وحشی
پہلوان کے لن پر سواری کرتے دیکھنے لگا۔
جیسے جیسے اس ہندو کی منزل قریب آرہی تھی اس کے جھٹکوں کی شدت میں
اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے ہر جھٹکے پر باجی کا جسم لرز رہا تھا اور انکی چیخیں
اب سسکیوں میں بدل چکی تھیں۔ اب باجی نے سہارے کے لیے اپنے بازو اس ہندو کی گردن
میں ڈالے ہوئے تھے اور وہ باجی کو گانڈ کو پکڑ کر مسلسل باجی کی چدائی کر رہا تھا،
اس دوران اس نے باجی کو ہونٹوں کو ایک لمحے لے لئیے بھی نا چھوڑا اور مسلسل انکے
منہ میں زبان ڈالے چوستا رہا۔ آخرکار اس سخت جان ہندو کے لن کا بھی زور ٹوٹااور اس
کا لن جڑ تک باجی کی چوت میں اتر کر اسکو سیراب کر گیا۔
اس سخت ترین چدائی کے بعد باجی قریباً بے سدھ ہو کر سیٹ پر گر گئیں
جبکہ وہ سب ہندو کپڑے پہن کر ہنستے ہوئے کمپارٹمنٹ سے باہر جا کھڑے ہوئے۔
اب وہ آخری پہلوان جس نے مجھے باجی کی گانڈ چودنے کی دعوت دی تھی،
وہ اٹھا اور باجی کا چہرا تھپتپا کر بولا ” چل اٹھ اب میرا مال نکال” یہ کہہ کر اس
نے باجی کو سیٹ سے کھینچ کر کھڑا کر دیا، باجی ذرا لڑکھڑاتے ہوئے سنبھلی تو اس نے
باجی کی گانڈ پر ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے باجی کا منہ کھڑکی کی طرف کرکے باجی کو
کمپارٹمنٹ کے چھوٹے ٹیبل پر جھکا دیا، اب باجی کمپارٹمنٹ کی سیٹوں کے درمیان کھڑکی
کی طرف منہ کیے ٹیبل پر کہنیاں رکھے جھکی ہوئی تھیں۔
اس ہندو نے باجی کی ٹانگیں نیچے سے کھولیں اور لن انکی چوت میں
گھسا کر گھسے مارنے لگا، اب باجی ٹیبل پر جھکی اس ہندو کا لن اپنی چوت میں سہ رہی
تھیں کچھ دیر اس طرح چوت مارنے کے بعد اس نے باجی کو اسی انداز میں سیٹ پر شفٹ کیا
اور باجی کے گھٹنے سیٹ پر رکھ کر خود پیچھے کھڑا ہو کر پھر سے گھسے مارنے لگا۔ اس
بندے نے اب تک باجی کو مارا یا گالی وغیرہ نہیں دی تھی، اور اسکی چدائی بھی باقیوں
کی نسبت آہستہ تھی، اس کا ایک ہاتھ باجی کے ممے مسل رہا تھا جبکہ دوسرا مسلسل انکی
چوت کے دانے پر تھا۔ ا
شاید اسی وجہ سے باجی اس قدر شدید دردناک چدائی کے باوجود اب پھر
آہیں بھر رہی تھیں۔
اس پوزیشن میں قریباً دس منٹ چودنے کے بعد وہ بندہ وہاں سے ہٹا اور
کچھ ٹٹولنے لگا تبھی مجھے اندازہ ہوا کہ باہر سورج غروب ہو چکا اور کمپارٹمنٹ میں
کافی اندھیرا ہو چکا تھا۔ وہ ہندو بھی کمپارٹمنٹ کے بلب کا سوئچ ڈھونڈ رہا تھا جو
کچھ تگ و دو کے بعد اسے مل گیا۔ اب زیرو بلب کی زرد روشنی میں باجی کا دودھیا جسم
ان ہندووں کے تھوک اور اپنے شفاف رنگ کی وجہ سے چمک رہا تھا۔ اب اس ہندو نے باجی
کو سیٹ سے اتار کر فرش پر ایک کروٹ پر لٹا دیا اور خود باجی کی ایک ٹانگ پر بیٹھ
کر دوسری اٹھا دی اور چوت مارنے لگا،اب باجی درد اور مزے سے کراہ رہی تھیں مگر اس
کے جھٹکے ایک ہی سپیڈ سے جاری تھے۔ باجی نے دونوں ہاتھوں سے سیٹ کے راڈ کو مضبوطی
سے پکڑ رکھا تھا اور اس ہندو کے ہر جھٹکے پر باجی کے ممے ہل رہے تھے۔ اس پہلوان نے
اس طرح کوئی سات آٹھ منٹ باجی کی چدائی کی اور لن نکال کر باجی کے منہ میں ڈال دیا
اور چند جھٹکوں کے ساتھ باجی کے منہ میں ہی جھڑ گیا۔ جب وہ ہندو وہاں سے ہٹا تو
میں نے دیکھا کہ باجی بالکل بے سدھ پڑی ہیں اور اس ہندو کی منی انکے ہونٹوں سے نکل
کر ایک سائڈ پر بہہ رہی ہے۔
مجھے اس سب کو دیکھ کر کراہت اور رونا آیا مگر خوشی بھی اس بات پر
کہ آخرکار ہماری جان بچ گئی۔
وہ سب ہندو وہاں سے جا چکے تھے، اب میں نے اٹھ کر باجی کو سہارا دے
کر سیٹ پر بٹھایا اور منہ صاف کرنے کو قریب پڑی پانی کی بوتل اٹھا کر دی، پھر میرے
کہنے پر باجی نے اس ہندو عورت کی دی ہوئی ساڑھی پہن لی اور اپنا حلیہ درست کیا۔
مگر باجی سے بالکل بھی چلا نہیں جا رہا تھا۔ جسے تیسے کرکے ہم ٹرین سے باہر نکلے
اور کچھ دور ہی ہمیں ایک سکھ ٹرک ڈرائیور سے لفٹ مل گئی۔ وہ ڈرائیور بہت رحمدل
انسان تھا، وہ ہمیں دادا کے بھائی کے گھر تک چھوڑ کر گیا۔ خوش قسمتی سے باجی نے اس
دوران ہمت کی اور خود کو سنبھالا، اور باجی نے ہی گھر والوں کو بتایا کہ دنگوں کے
دوران ہمیں اس سکھ ڈرائیور نے اپنے ٹرک میں چھپا لیا تھا اور یہ کہ یہ ساڑھی بھی
اسی نے احتیاطی طور پر لاکر دی تھی۔
اس واقعے کے ایک ہفتے بعد ہم لوگ پاکستان واپس آ گئے اور زندگی
اپنی ڈگر پر چلنے لگی۔ مگر کیا واقعی ایسا تھا…۔
شاید یہ سوال ان سوالوں میں سے ہے جن کا جواب جانتے ہوئے بھی ہم
دینا نہیں چاہتے…۔
(The End)
most romantic and bold urdu novels list
No comments:
Post a Comment
Thanks