Munhoos Se Masoom Tuk(6th)منحوس سے معصوم تک (چھٹی قسط)

 



منحوس سے معصوم تک

قسط نمبر 006

سامنے چھوٹی مامی بیڈ پر بیٹھی شیرو کا ہی انتظار کر رہی تھی جسے دیکھ کر شیرو ہڑبڑا گیا ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اب مامی کے سوالوں کا کیا جواب دے گا ۔ ۔ ۔ ،

وہیں ماہرہ من میں یہ سوچ رہی تھی کہ اتنی رات کو گھر سے باہر چوروں کی طرح جانے کا کیا وجہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں شیرو کچھ غلط تو نہیں کر رہا جو بھی ہو آج پوچھنا ہی پڑے گا ۔ ۔ ۔ ۔ کیا پتہ ایسا کب سے چل رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اتنی رات کو کہاں گیا تھا ؟

تو کب سے راتوں کو باہر جانے لگ گیا ہے ؟ ایسا کون سا کام ہے جو تو رات کے اندھیرے میں کرنے لگ گیا ہے ؟ ۔ ۔ ۔

شیرو :

وہ میں ۔ ۔ ۔ وہ ۔ وہ باہر گھومنے گیا تھا میرے پیٹ میں گیس ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اچھا گیس ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔ ، ، اب مجھ سے جھوٹ بولے گا کیا اتنی ہی عزت رہ گئی ہے میری اب ؟

سچ سچ بتا کہاں تھا کس کے ساتھ تھا ؟

شیرو :

مامی ایسا نہ کہو میں آپ کی کتنی عزت کرتا ہوں میرے دِل سے پوچھو ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

تو سچ کیوں نہیں بتاتا ۔ ۔ ۔ ۔ ، بول کہاں گیا تھا ؟

شیرو : (سنجیدہ ہوتے ہوئے )

مامی پلیز ایسا مت کہیں میں آپ کو سب سچ سچ بتاوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ابھی نہیں بتا سکتا آپ کو میری قسم ابھی کوئی سوال مت پوچھیں میں وقت آنے پر خود بتا دوں گا وعدہ کرتا ہوں بس اتنا سن لیجیے میں کچھ بھی غلط نہیں کر رہا ہوں جو کر رہا ہوں اِس گھر کی بھلائی کے لیے کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔

ماہرہ شیرو کی آنکھوں میں سچائی اور سنجیدگی دیکھ کر چُپ کر جاتی ہے ۔ ۔ ۔ اور کمرے سے بنا کوئی بات کرے نکل جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ، شیرو سوچنے لگتا ہے کہ مامی پتہ نہیں کیا کیا سوچے گی میرے بارے میں لیکن انہیں سچائی بھی تو نہیں بتا سکتا ۔ ۔ ۔ اگر انہیں سچائی پتہ لگی تو ان کا دِل ٹوٹ جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔

مگر اس مینا کا مجھے جلد ہی کچھ کرنا پڑے گا کیسے چھوٹے ماما کو بےوقوف بنا کر انہیں لوٹ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

یونہی سوچتے سوچتے شیرو کی آنکھ لگ جاتی ہے ۔ ۔ ۔

دوسری طرف ماہرہ بھی پریشان تھی مگر اسے اِس بات کی تسلّی تھی کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیرو کچھ غلط نہیں کر رہا ہے مگر بات ضرور کوئی بڑی ہے جو اس نے اپنی قسم دے دی سوال نہ پوچھنے کے لیے ۔ ۔ ۔ ۔

صبح صبح شیرو اپنی روٹین سے اکھاڑے چلا جاتا ہے گھر میں ماہرہ تیار ہو کر نائلہ کے کمرے میں جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

باجی آپ تیار ہیں ؟ جلدی کیجیے ہم کہیں لیٹ نہ ہو جائیں ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ اپنے بیڈ پر چادر تان کر لیٹی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ کی آواز سن کر ماہرہ کی طرف موڑتی ہے۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

ارے چھوٹی مجھے معاف کرنا میں نہیں جا سکوں گی تیرے ساتھ ۔ ۔ ۔ آج نہاتے وقت پاؤں پھسل گیا تھا زرا پاؤں میں موچ آ گئی ہے ۔ ۔ ۔ تو دیبا کو لے جا ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ نائلہ کی آواز سے اندازہ لگا لیتی ہے واقعی وہ تکلیف میں تھی ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

باجی یہ کیسے ہوگیا آپ نے مجھے آواز کیوں نہیں دی ۔ ۔ ۔

نائلہ :

بس اچانک پاؤں پھسل گیا تھا اور آواز کیا دیتی تب تمھارے جیٹھ جی یہیں تھے وہی مجھے یہاں تک لے آئے ۔ ۔ ۔ ، تو میری فکر نہ کر میں نے گولی کھا لی ہے تو دیبا کے ساتھ چلی جا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

نہیں باجی آپ کو دیکھ بھال کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ کو ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی ہم پھر چلے جائیں گے جب آپ ٹھیک ہو جائیں گی ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

نہیں چھوٹی تو جا ایسے کاموں میں دیر نہیں کرتے میں اپنا دھیان رکھ لوں گی تو جا یہ میرا حکم ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اگر دیبا باجی بھی میرے ساتھ چلے گی تو گھر کا كھانا کون دیکھے گا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

آپ کا دھیان کون رکھے گا ؟

نہیں نہیں آپ رہنے دیجیئے ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

نہیں چھوٹی تیرا جانا ضروری ہے تو ایک کام کر تو شیرو کو ساتھ لے جا اس کو بول آج کالج سے چھٹی کر لے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

لیکن باجی ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

لیکن ویکن کچھ نہیں تو ابھی اسے جا کر بول دے دیکھ آ گیا ہوگا وہ بھی ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اچھا باجی میں دیکھتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ شیرو کے کمرے میں جاتی ہے جہاں شیرو یونیفارم پہن کر تیار ہو رہا تھا کالج کے لیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ اسے جا کر بتا دیتی ہے کہ کپڑے بَدَل لے ۔ ۔ ۔ ۔

آج کالج سے چھٹی کر آج تجھے میرے ساتھ شہر جانا ہے ۔ ۔ ۔ ،

اتنا کہہ کر ماہرہ کچن میں شیرو کو ناشتہ بنا کر دینے چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو : ( من میں )

لگتا ہے چھوٹی مامی کل رات کی بات کے لیے غصہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھ سے آج اسی کے بارے میں بات کرے گی اب کیسے سمجھاؤں ان کو جو میں کر رہا ہوں انہی کے لیے کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

تھوڑی دیر میں شیرو کپڑے بَدَل کر کچن میں ناشتہ کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور ماہرہ اسے جلدی کرنے کو کہتی ہے ۔ ۔ ۔ ،

دونوں جلدی سے بس اسٹاپ جاتے ہیں اور شہر کے لیے بس پکڑ لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ بس میں ابھی ہجوم نہیں تھا سو دونوں کو سیٹ مل جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور دونوں شہر کو نکل جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

راستے میں دونوں میں سے کوئی بات نہیں کر رہا تھا پھر اِس خاموشی کو شیرو ہی ٹورتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

ہم ایسے اچانک کہاں جا رہے ہیں مامی ؟

سب ٹھیک تو ہے ؟

ماہرہ :

ہاں ہاں سب ٹھیک ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ،

اصل میں آج باجی جانے والی تھی میرے ساتھ مگر ان کے پاؤں میں موچ آ گئی صبح صبح اِس لیے ان کی جگہ تمہیں لے جا رہی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

اتنا سن کر شیرو سکون کی سانس لیتا ہے پھر اچانک اس کا دھیان موچ پر جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہڑبڑا کر پوچھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

کیا اما کو موچ آ گئی مگر کیسے ؟

کسی نے مجھے بتایا کیوں نہیں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

مجھے بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی بتایا انہوں نے ۔ ۔ ۔ ، وقت نہیں تھا اِس لیے نہیں بتا پائی ۔ ۔ ۔ ، ویسے گھبرانے والی بات نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تو فکر مت کر گھر پر دیبا باجی ہیں ان کے پاس ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

ویسے ہم شہر کس لیے جا رہے ہیں اگر اما کو موچ آ گئی تھی رہنے دیتے شہر جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

میں نے تو کہا تھا مگر باجی نہیں مانی ۔ ۔ ۔ ،

اصل میں پچھلی بار ہم دونوں جب شہر آئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر نے میرا چیک اپ کرنے کے لیے ٹیسٹ کئے تھے۔ ۔ ۔ آج ان کی رپورٹس دینی تھی انہوں نے اس لئے جانا ضروری تھا۔ ۔ ۔ ، اس لیے باجی نے تجھے ساتھ لے جانے کو کہہ دیا ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو : (فکر مندی سے پوچھتا ہے )

آپ کو کیا ہوا ہے کس چیز کا ٹیسٹ کروایا تھا آپ نے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ارے کچھ نہیں ہوا مجھے بس ہے کوئی ٹیسٹ وہ میں نہیں بتا سکتی تجھے اب بس کوئی اور بات کرو ۔ ۔ ۔ ۔

دونوں ایسے ہی ادھر اُدھر کی باتیں کرتے شہر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے رکشہ کر کے دونوں ڈاکٹر کے کلینک پہنچ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد ماہرہ کو ڈاکٹر کیبن میں بلاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک لیڈی ڈاکٹر تھی جو بےاولاد لوگوں کا علاج کرتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ شیرو کو باہر ہی روکنے کا بول کر اندر چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر ۔ :

آئیں ماہرہ بیٹھیں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

گڈ مارننگ ڈاکٹر پلیز بتائیں میری رپورٹس کیسی ہیں ؟

میں ماں تو بن سکتی ہوں نہ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر :

ارے بیٹھیں تو سہی ۔ ۔ ۔ ۔

دیکھیں میں نے آپ کی ساری رپورٹس چیک کرلی ہیں آپ بالکل پرفیکٹ ہیں آپ میں کوئی کمی نہیں ہے آپ پوری طرح سے صحت مند ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے لگتا ہے کہ کمی آپ کے شوہر میں ہے آپ ایک بار انہیں میرے کلینک لے آئیں ہم ان کو چیک کرلیں گے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اپنی رپورٹس کے بارے میں سن کر خوش ہو جاتی ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ماں بن سکتی ہے مگر ڈاکٹر کی دوسری بات سن کر اس کا چہرہ اُتَر جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

"نہیں ڈاکٹر وہ کبھی نہیں مانے گے بھلا کون مرد اپنی کمزوری مانے گا ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرے شوہر تو ویسے بھی بہت ضدی ہے" ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر :

دیکھیں میڈم آپ کی رپورٹس کے مطابق مجھے سو فیصد یقین ہے کمی آپ میں نہیں آپ کے شوہر میں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے میں ماں بننے کے دو ہی راستے ہیں آپ کے پاس ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

بتائیں ڈاکٹر میں کچھ بھی کروں گی پلیز آپ مجھے ماں بنا دیجیئے ۔ ۔ ۔ ۔ بتائیں کتنے پیسے لگیں گے ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر :

دیکھیں یہ تو ظاہر ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کے شوہر کے اسپرم میں جراثیم کی کمی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے آپ ماں نہیں بن پا رہی ایسے میں سیکنڈ اوپشن یہی ہوتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی دوسرے کے اسپرم کو آپ کی بچہ دانی میں شامل کر کے آپ کو ماں بنایا جائے ۔ ۔ ۔ ۔ اور اِس کام کے لیے میڈیکل سائنس نے آج کل بہت ترقی کر لی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایک چھوٹے سے آپْریشَن کے ذریعے آپ کی بچہ دانی میں اسپرم ڈالا جائے گا اور آپ کو پریگننٹ کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ڈاکٹر اس میں کوئی رسک تو نہیں ہوتا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر :

نہیں رسک والی کوئی بات نہیں ۔ ۔ ۔ ،

ہاں کئی بار ایک بار کی کوشش سے کچھ عورتیں مس بھی ہو جاتی ہیں تو انہیں پھر سے ایک موقع دیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ڈاکٹر اس سے بچہ تو سہی ہوتا ہے نہ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر :

میں سمجھ گئی ۔ ۔ ۔ دیکھیں بچے میں فطرت تو اس کے ماں باپ سے ہی آتی ہے ۔ ۔ ۔ ، جیسی فطرت اس کے ماں باپ کی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے ہی بچے میں ہوگی ۔ ۔ ۔ اب ہم اس کے بارے میں تو گارنٹی نہیں دے سکتے نہ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ڈاکٹر اس میں کتنا خرچ آئے گا ؟ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر :

یہی کوئی دو لاکھ سے چار لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ ڈاکٹر سے آپْریشَن کی فیس سن کر حیران ہو جاتی ہے اور اسے سوچ کر بتانے کا کہہ کر باہر نکل آتی ہے ۔ ۔ ۔ ، ،

باہر شیرو مامی کاانتظار کر رہا تھا جب وہ باہر آتی ہے تو شیرو چپ چاپ اس کے ساتھ چل پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ خاموشی سے فکرمندی میں ڈوبی چلی جا رہی تھی ساتھ میں شیرو بھی چلا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ،

شیرو نے ڈاکٹر کی کیبن کے باہر کھڑے ہو کر ڈاکٹر کی باتیں سن لی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ مگر وہ ظاہر نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی سوال کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جانتا تھا مامی ٹینشن میں ہے اس لئے وہ مامی کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

کیا مامی آپ بھی بس بھاگے جا رہی ہیں آئیں کچھ کھا لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

نہیں شیرو میرا موڈ نہیں ہے تجھے بھوک لگی ہے تو تو کھا لے ۔ ۔ ۔

شیرو :

ایسے کیسے موڈ نہیں ہے آپ کو بھی میرے ساتھ چلنا ہوگا ۔ ۔ ۔ ،

بھول گئی آپ اُس دن آپ نے کیا کہا تھا ؟

ماہرہ :

کب ؟ کیا کہا تھا ؟

شیرو :

ارے میری سالگرہ پر آپ نے کہا تھا نہ کہ آپ کو پارٹی چاہیے !

آج تو موقع ہے چلیں آج میں پارٹی دیتا ہوں اپنے خاص دوست کو ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

نہیں شیرو پھر کبھی آج ہم گھر چلتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو نہیں مانتا اور اپنی قسم دے کر ماہرہ کو ساتھ لے جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ایک ریسٹورانٹ میں ماہرہ بھی اس کا من رکھنے کے لیے چل پڑتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

جہاں دونوں ہلکا پھلکا کھا لیتے ہیں پھر شیرو ماہرہ کو لے کر مارکیٹ میں چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں اسے اپنی پسند کی خوبصورت سی چپل لے کر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جب دونوں شاپ پر چپل لینے جاتے ہیں تو دوکاندار شیرو سے کہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

آئیں بھائی صاحب اپنے لیے لیں گے یا بھابھی کی لیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو شرما جاتا ہے مگر ماہرہ بات سنبھل لیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اصل میں شیرو پہلوانی کرنے کی وجہ سے اپنی عمر سے بڑا لگتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جسم سے بڑی عمر کا نظر آتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور ماہرہ ابھی چوبیس پچیس سال کی دکھتی تھی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ۔ ۔ ۔

اس کے بعد دونوں بس اسٹاپ بس پکڑنے چلے آتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ،

ماہرہ اپنے من میں شیرو کی وجہ سے بہت خوش تھی کہ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ کتنا اچھا کتنا کیئرنگ ہے کیسے اپنی باتوں میں لگا کر اس نے ساری ٹینشن ہی بھلا دی ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسے پتہ ہے کہ اپنے ساتھی کو کیسے خوش رکھنا ہے کتنی انڈر اسٹیڈنگ نیچر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کاش بختیار بھی ایسا ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔

کچھ دیر بعد دونوں بس میں سوار ہو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ بس میں بہت بھیڑ تھی دونوں کو سیٹ نہیں ملتی مجبوری میں کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

دیکھا میں نے کہا تھا نہ واپس چلتے ہیں اب دیکھ کتنی رش ہے اگر اس وقت آتے تو رش نہ ہوتی ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

مامی جی یہ رش تو ہر بس میں ملے گی ہی ۔ ۔ ۔ ،

زرا سوچیں ہم نے آج کیا کیا ۔ ۔ ۔كھانا پینا بھی ہوگیا شاپنگ بھی اور باتیں بھی ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

رہنے دے رہنے دے مجھے مت سمجھا ویسے تھینکس میں بہت خوش ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ تو نے مجھے شاپنگ کروائی اور كھانا بھی کھلایا ریسٹورانٹ میں ۔ ۔ ۔

شیرو :

ارے کیا مامی ہم تو دوست بھی ہیں نہ تو اس میں تھینکس کیسا ۔ ۔ ۔ آپ کو پارٹی تو دینی ہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

دونوں ایسے باتیں کرتے رہتے ہیں پھر اگلے اسٹاپ سے اور لوگ بس میں گھس آتے ہیں ۔ ۔ ۔ رش بڑھ جاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی شیرو پیچھے سے ماہرہ کے ساتھ چپک جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

ماہرہ بھی سمجھتی ہے کہ رش ہی اتنی ہے تو کوئی کیا کرے ۔ ۔ ۔ ۔

ایسے بس چلتی رہتی ہے بس کو جھٹکا لگتا ہے جس کی وجہ سے شیرو ماہرہ کے اوپر گرنے کو ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

ماہرہ شیرو کے وزن سے تھوڑا آگے جھک جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور شیرو کا لنڈ ماہرہ کے چوتڑوں کے درمیان پہنچ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں جب سیدھے ہوتے ہیں تو شیرو کا لنڈ ماہرہ کو اپنی گانڈ کے دراڑ میں محسوس ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

گانڈ کی گرمی سے شیرو کا لنڈ اٹھ گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر شیرو کا ابھی اِس طرف دھیان نہیں گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ من میں سوچنے لگتی ہے کہ اب کیا کرے ۔ ۔ ۔ اسے شرم آنے لگتی ہے شیرو کو کیسے کہے ۔ ۔ ۔ ۔ دھیرے دھیرے شیرو کے لنڈ میں سختی بڑھتی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ اور وہ پُورا لوہے کی روڈ جیسا سخت سیدھا ماہرہ کی گانڈ کی بیچ میں گھس رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ لنڈ کی سختی سے چُداسی ہونے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آخر کتنے ہفتوں سے وہ چدی نہیں تھی ۔ ۔ ۔ ۔ لنڈ کی گرمی پا کر پھدی نے رونا شروع کر دیا تھا ۔ ۔ ۔

ماہرہ سے گرمی برداشت نہیں ہوتی نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ہوس کے سمندر میں بہنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ اپنی گانڈ کو تھوڑا اوپر اٹھانے کے لیے پاؤں کی ایڑیاں اٹھا لیتی ہے ۔ ۔ ۔ اور آگے کو تھوڑا جھکنے کی کوشش کرتے ہوئے پھدی کو لنڈ کے منہ پر سیٹ کرتی ہے ۔ ۔ ۔

شیرو کو بھی اپنے لنڈ پر جب دباو محسوس ہوتا ہے تو ۔ ۔ ۔ ۔اسے خیال آتا ہے کہ اس کا لنڈ پُوری طرح کھڑا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور مامی کے چوتڑوں میں گھسا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو پسینے میں بھیگنے لگتا ہے اور من میں ڈرنے لگتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔

مامی کیا سوچے گی کتنا گندا ہوں میں جو ایسے ان کا فائدہ اٹھا رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ مگر لاکھ کوششوں کے بعد بھی شیرو کا اپنے آپ پر قابو نہیں تھا اس کا لنڈ تو جیسے بغاوت پر اُتَر آیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ اپنی چوت پر دامدار لوڑے کو محسوس کر کہ لگاتار دباو بنائے جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ اسے تو کسی بھی قیمت پر چدائی چاہیے تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دامدار لنڈ سے اپنی چوت کی ٹھکائی چاہتی تھی وہ ۔ ۔ ۔ اس کا شوہر تو اسے ہاتھ بھی نہیں لگا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ آخر وہ کرے تو کیا کرے ۔ ۔ ۔

شیرو خود کو روک نہیں پا رہا تھا اِس لیے اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی ۔ ۔ ۔ مگر اندر ہی اندر اسے بھی مزہ آنے لگا تھا اور اس نے بھی اپنی کمر کو آگے دھکیلنا شروع کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے ہی دونوں ہوس میں ڈوبتے جا رہے تھے ۔ ۔ ۔ ماہرہ سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا اور کچھ ہی پل میں اس کی چوت کا بندھ ٹوٹ گیا ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی پینتی اس کی پھدی کے پانی سے بھیگ گئی ۔ ۔ ۔ اس کا جسم جھٹکے کھانے لگا اور اسے کھڑا رہنا مشکل ہوگیا ۔ ۔ ۔ ۔ تبھی ساتھ والی سیٹ خالی ہو جاتی ہے اور ماہرہ بےسدھ سی وہیں سیٹ پر گر جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ اپنے اِس مزے کا سواد لے رہی تھی اس کی آنکھیں بند تھی اور منہ سے دبی دبی سسکیاں چھوٹ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو بس حیرانی سے اسے دیکھے جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ منہ پر پسینہ دیکھ کر شیرو فکرمندی سے پوچھتا ہے مامی آپ ٹھیک تو ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ہاں میں ٹھیک ہوں بس کھڑے کھڑے تھک گئی تھی تو زرا چکر آ گیا۔ ۔ ۔ ۔

کچھ لمحے میں ماہرہ نارمل ہو جاتی ہے لیکن اس کی پینٹی سے اس کی منی بہنے لگتی اور اس کی رانوں اور چوتڑوں کو چپچپا کر دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

ماہرہ کے من میں کئی ساری باتیں چل رہی تھی جو اسے سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

ایک طرف اس ڈاکٹر کی باتیں یاد آ رہی تھی کھ ۔ ۔ ۔ ۔ کمی اس کے شوہر میں ہے ۔ ۔ ۔ ، آپْریشَن پر چار لاکھ خرچ آئے گا جو وہ اکھٹا نہیں کر پائے گی ۔ ۔ ۔ اگر کر بھی لیا تو اتنی بڑی رقم کیا کہہ کر دے گی اس کا شوہر پکڑ لے گا ۔ ۔ ۔ ۔

اوپر سے پتہ نہیں کس آدمی کا اسپرم ڈالیں گے ۔ ۔ ۔ کیسی اولاد ہوگی پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہی تھی ۔ ۔ ۔

پھر اس کا من شیرو کا معائنہ کرنے لگتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ شیرو کتنا اچھا ہے ہینڈسم ہے ۔ ۔ ۔

کتنا گھبرو جوان ہے کتنا کیئرنگ ہے ہر ایک گن اس میں ہے جو ایک پرفیکٹ لڑکے میں ہونے چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ اگر شیرو کا اسپرم مل جائے تو اس کا اور شیرو کا بچہ کتنا کیوٹ ہوگا کتنا سمجھدار ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اتنا سوچتے ہی اسے شیرو کے لنڈ کا احساس اپنی چوت پر ہونے لگتا ہے۔ ۔ ۔ اور وہ سوچتی ہے کہ اگر شیرو کا ہی اسپرم شامل کروانا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ ۔

کیوں نہ میں خود شیرو کا اسپرم ڈائریکٹ اپنے اندر لے لوں ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح پیسے بھی بچ جائیں گے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا ۔ ۔ ۔ ۔

مگر شیرو کبھی نہیں مانے گا وہ تو میری اتنی عزت کرتا ہے ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ہائے ہائے یہ میں کیا سوچنے لگی یہ غلط ہے ۔ ۔ ۔ ایسا نہیں ہو سکتا یہ گناہ ہے ۔ ۔ ۔ چھی ۔ ۔ ۔

شیرو بھی اپنے من میں بہت سی باتیں سوچ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ مینا کی باتوں اور ڈاکٹر کی باتوں سے ایک بات کنفرم تھی کہ بختیار ماما باپ نہیں بن سکتے ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے میں ماہرہ مامی بےچاری کی زندگی بانْجھ کے تانوں کو سن سن کر تباہ ہو جائے گی ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر سے ماما باہر منہ مارتا پھیرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

پھر شیرو کے دماغ میں آئیڈیا آتا ہے کہ ۔ ۔ ۔

بختیار کا مینا کے پیچھے جانے کی وجہ شاید بچہ نہ ہونا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں نہ ماما کو کسی طرح راضی کیا جائے کہ ۔ ۔ ۔ وہ مامی کا اور اپنا علاج کروائیں ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا تو وہ مانے گے نہیں مامی کا ہی کروا دیں ۔ ۔ ۔ ۔ تو کم سے کم ایک آپْریشَن سے مامی ماں بن جائے گی اور پھر ماما بھی مینا کے چکر میں نہیں پھنس پائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔

ایسے ہی دونوں اپنی اپنی سوچوں میں کھوئے گھر پہنچ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔

گھر آنے کے بعد تھوڑی دیر آرام کر کے شیرو راجو سے ملنے کے لیے نکل جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ماہرہ بھی نائلہ کے پاس چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

چھوٹی کیا کہا ڈاکٹر نے ؟

ماہرہ :

کچھ نہیں باجی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ۔ ۔ ۔ میں ماں بن سکتی ہوں مجھ میں کوئی کمی نہیں ہے کمی بختیار میں ہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

سچ ؟ اس کا مطلب تم ماں بن سکتی ہو ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

کہاں باجی ۔ ۔ ۔ ۔ ،

بختیار ہی جب مجھے ماں نہیں بنا سکتے تو میں اکیلی ماں کیسے بن سکتی ہوں ۔ ۔ ۔

نائلہ :

ارے اس کا کوئی علاج تو بتایا ہوگا ڈاکٹر نے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

آپ کو تو پتہ یہ مانے گے نہیں ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ : کیسے نہیں مانے گا ۔ ۔ ۔ ، میں سمجھاؤں گی اسے ۔ ۔ ۔ تیرے جیٹھ جی سے کہلواتی ہوں ۔ ۔ ۔ ، بچے کے نام پر دیکھنا کیسے نہیں مانتا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ من میں ۔ ۔ ۔ ۔

( نہیں باجی وہ نہیں مانے گا اب تو وہ مجھے ہاتھ بھی نہیں لگاتا پتہ نہیں کہاں جاتا ہے رات رات)

اُدھر شیرو راجو سے مل کر مینا کو کیسے قابو کرنا ہے اس پر مشورہ کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ ۔ مگر کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا انہیں ۔ ۔ ۔ ۔

ایسے ہی رات ہونے لگتی ہے سب اپنے اپنے کمروں میں كھانا کھا کر سونے لگتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار ابھی گھر نہیں آیا تھا ۔ ۔ ۔

شیرو سوچتا ہے کہ کیوں نہ اما کی طبیعت کا پتہ کروں ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے پاؤں میں موچ آئی ہے کم سے کم ان کی مالش تو کر ہی سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

اکھاڑے میں کسی نہ کسی کو موچ تو آتی رہتی ہے ۔ ۔ ۔ استاد جی نے جو سکھایا ہے اس کا استعمال گھر پر بھی تو کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اسی سوچ سے شیرو تیل کی بوتل ساتھ لیے نائلہ کے کمرے میں چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سرور :

آؤ بیٹے کیسے آنا ہوا اِس وقت ؟

شیرو :

میں تو اما کے پاؤں کی موچ ٹھیک کرنے آیا ہوں بابا ۔ ۔ ، میرے ہوتے ہوئے اما کے پاؤں میں موچ آ جائے کیا فائدہ میری پہلوانی کا ۔ ۔ ۔ میں ابھی مالش کر کے ٹھیک کر دوں گا ۔ ۔ ۔ ۔

سرور : (ہنستے ہوئے )

دیکھ لینا کہیں پہلوانی والی مالش کر کے پاؤں کو توڑ ہی نہ دینا ۔ ۔ ۔ ۔ عورتیں نازک ہوتی ہیں پہلوان ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

کیسی باتیں کرتے ہے آپ ایک بیٹا بھلا ماں کو چوٹ پہنچا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ اور میرا بیٹا تو لاکھوں میں ایک ہے ۔ ۔ ۔ ، کتنی فکر ہے اسے میری ۔ ۔ ۔ ۔

سرور :

ہاں بھائی اسے ہی فکر ہے اور تو کسی کو ہے نہیں ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

ارے بابا آپ یہ کیا کہہ رہے ہے میں تو آپ دونوں کی ہی فکر کرتا ہوں بولو تو آپ کی بھی مالش کر دیتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

سرور :

ارے نہیں بھائی میں ٹھیک ہوں تو مجھے معاف کر ۔ ۔ ۔ بس اپنی اما کی خدمت کر

اتنا کہہ کر سرور دوسری طرف منہ کر کے لیٹ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور شیرو نائلہ کے پاؤں کے پاس بیٹھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

اما شلوار تھوڑا اوپر کر لو تیل سے خراب نہ ہو جائے ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ اپنی شلوار کو تھوڑا اوپر کھینچ لیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور شیرو پاؤں میں تیل لگا کر مالش شروع کر دیتا ہےدونوں ہاتھوں سے ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ نے پاؤں میں پائل ڈالی ہوئی تھی جو اس کے سُندر پاؤں کو چار چاند لگا رہی تھی ۔ ۔ ۔ رنگ گورا ہونے سے شیرو کو یہ نظارہ بہت ہی پیارا لگ رہا تھا ۔ ۔ ۔ حالاںکہ اس کے من میں کوئی گندا خیال نہیں تھا ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ کو بھی مالش سے سکون ملتا ہے تھوڑی دیر کی مالش کے بعد وہ شیرو کو اب سونے کا بول دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

شیرو نائلہ کے کمرے سے نکلتا ہے تو اسے بختیار ماما نشے میں جھومتا اپنے کمرے میں جاتا ہوا نظر آتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

شیرو کے من میں جانے کیا آتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ وہ بختیار ماما کے کمرے کے پاس ان کی باتیں سننے چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

آپ شراب پی کر آئے ہو ؟

اب یہ بھی کام شروع کر دیا آپ نے ؟

بختیار :

چُپ کمینی بانْجھ کہیں کی تیرے باپ کے پیسوں سے نہیں پی ہے اپنے پیسوں سے پی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو کمینہ فقیر ہے مادر چود بھڑوے بڈھے نے میری زندگی برباد کر دی ۔ ۔ ۔ ۔

بانْجھ کو میرے پلے باندھ دیا ہے ۔ ۔ ۔

یہ سن کر ماہرہ رونے لگتی ہے۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ : (روتے ہوئے )

میرے ماں باپ کو کیوں گالی دیتے ہے آپ ؟

ان کا کیا قصور ہے اگر میں ماں نہیں بنی تو قصور آپ کا بھی تو ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار :

کیا کہا میرا قصور ہے ۔ ۔ ۔ ، ، کمینی کتیا زُبان چلاتی ہے ۔ ۔ ۔

اتنا کہہ کر تین چار تھپڑ ماہرہ کے گالوں پر رکھ دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو سے برداشت نہیں ہوتا وہ اندر جانا چاہتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اِس وقت کسی کے بیڈروم میں میاں بِیوِی کے درمیان جانا بھی سہی نہیں تھا ۔ ۔ ۔

بختیار :

کمینی کمی تجھ میں ہی ہے جتنا میں نے تجھے چودا ہے اگر بھینس کو بھی چودتا تو وہ ماں بن جاتی ۔ ۔ ۔ ۔ تو مجھ میں قصور نکالتی ہے ۔ ۔ ۔

روک جا تھوڑے دن پھر اِس گھر میں بیٹا آئے گا جو میرے خون سے میرے لنڈ کے دھر سے پیدا ہونے والا ہے ۔ ۔ ۔ ، ،

تو تو کمینی بانجھ ہے مگر دنیا کی سب عورتین بانجھ نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے اپنے لیے دوسری ڈھونڈ لی ہے اور جلد ہی وہ میرے بیٹے کو پیدا کرنے والی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ایک بار میرا بیٹا آ جائے پھر تجھے اِس گھر سے لات مار کر نکال دوں گا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ بختیار کی باتوں کو برداشت نہیں کر پاتی ۔ ۔ ۔ اسے لگتا ہے کہ اب اس کی دنیا لوٹ گئی ہے ۔ ۔ ۔ سب ختم ہوگیا اب وہ جی کر کیا کرے گی ۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر روتی رہتی ہے پھر اچانک وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے کے ارادے سے کمرے سے باہر نکال کر بھاگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی وہ آرام سے بیڈ پر سو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو کمرے میں دونوں کی بات چیت ختم سمجھ کر ابھی اپنے کمرے کی طرف جا ہی رہا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز آتی ہے وہ اچانک پلٹ کر دیکھتا ہے تو اسے چھوٹی مامی باہر جاتے نظر آتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو جلدی سے سیڑھیاں اتر کر باہر کی طرف بھاگتا ہے ۔ ۔ ۔ اسے تھوڑی ہی دور مامی بھاگتی ہوئی نظر آ جاتی ہے ۔ ۔ ۔ شیرو جلدی سے اس کے پیچھے بھاگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ روتے روتے بھاگتے جا رہی تھی اس کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی اب وہ کس منہ سے اِس گھر میں رہے گی ۔ ۔ ۔ ۔ تھوڑے دنوں میں بختیار اسے گھر سے ویسے بھی نکالنے والا ہے تو وہ کہاں جائے گی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بےآسرا بےچاری بس مرنے کے لیے نہر کی طرف بھاگے جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو اسے روکنے کے لیے آواز دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ماہرہ کو تو جیسے کوئی آواز سن ہی نہیں رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو تیزی سے اس کا پیچھا کر رہا تھا مگر دونوں میں جو فاصلہ تھا وہ اتنا جلدی طے نہیں ہونے والا تھا ۔ ۔ ۔ پھر بھی شیرو پُورا زور لگا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

جیسے ہی ماہرہ نہر کے کنارے پہنچتی ہے اور چھلانگ لگانے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ شیرو پیچھے سے اسے پکڑ لیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

یہ کیا کر رہی ہو مامی آپ کا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا ۔ ۔ ۔

ماہرہ : (روتے ہوئے )

چھوڑ مجھے جانے دے مجھے ۔ ۔ ۔ ،

میں جینا نہیں چاہتی میں اجڑ گئی میں لوٹ گئی ۔ ۔ ۔ میں ایک بانْجھ ہوں مجھے مر جانے دے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

پاگل مت بنو مامی یہ کیا الٹی سیدھی بکواس کئے جا رہی ہو ۔ ۔ ۔ کون کہتا ہے آپ بانجھ ہو ۔ ۔ ۔ بھول گئی ڈاکٹر نے کیا کہا تھا ؟

آپ ماں بن سکتی ہو ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

وہ سب جھوٹ ہے ڈاکٹر کچھ نہیں جانتا ۔ ۔ ۔ میں بس مر جانا چاہتی ہوں تو مجھے جانے دے ۔ ۔ ۔

شیرو مامی کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوتا دیکھ کر ایک تھپڑ زور سے مار دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور ماہرہ اتنا زور کا تھپڑ پڑنے سے بےہوش ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو گھبرا جاتا ہے اور نہر سے پانی لے کر ماہرہ کے منہ پر ڈالتا ہے ۔ ۔ ۔ جلدی ہی ماہرہ ہوش میں آ جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

مجھے معاف کر دو مامی ۔ ۔ ۔ مگر میں کیا کرتا آپ ہوش میں نہیں تھی ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ : (سسکتے ہوئے )

تو نے مجھے کیوں روکا شیرو ۔ ۔ ۔ اب میرا سب کچھ لوٹ گیا ہے میں جینا نہیں چاہتی ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

آپ کو میری قسم آپ پرسکون ہو جائیں ۔ ۔ ۔ اور خبردار اگر دوبارہ مرنے کی بات کی تو ۔ ۔ ۔ کیا ایک پل بھی آپ نے سوچا کہ میرا کیا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ اما کا کیا ہوگا گھر کی کتنی بدنامی ہوگی ۔ ۔ ۔ آپ بس چلی آئی مرنے ۔ ۔ ۔ ۔

ویسے تو مجھے دوست کہتی ہو کیا اتنا بھی بھروسہ نہیں تھا مجھ پر ۔ ۔ ۔ ۔ ،

ارے ماما تو نشے میں الٹا سیدھا بول رہے تھے آپ تو ہوش میں ہو ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ شیرو کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

میں نے سب سن لیا ہے ۔ ۔ ۔ ،

اور میں پہلے سے جانتا تھا یہ سب ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ایک بات آپ بھی سن لو بختیار ماما ایک سازش کا شکار ہے ۔ ۔ ۔ وہ جسے اپنا بچہ سمجھ رہے ہیں وہ ان کا نہیں کسی اور کا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور کل رات میں اسی بات کا پتہ لگانے گیا تھا باقی باتیں میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا پہلے آپ گھر چلو ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ شیرو کی باتوں کو سن کر حیران تھی ۔ ۔ ۔ ،

شیرو کو سب کچھ پتہ ہے پہلے ہی اور یہ بھی کہ ۔ ۔ ۔ ۔ بختیار جسے اپنا بچہ سمجھ رہا ہے وہ بختیار کا نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ، ،

ماہرہ کے من میں کئی سوال تھے مگر فی الحال وہ چُپ چاپ شیرو کے ساتھ گھر لوٹ آتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس کا اپنے کمرے میں جانے کا دِل نہیں کرتا اسے نفرت ہو گئی تھی بختیار سے ۔ ۔ ۔ ۔ آج اس نے نہ صرف اسے گالیاں دی تھی نہ صرف اس پر ہاتھ اٹھایا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ اس کے ماں باپ کو بھی گالیاں دی تھی جو کوئی بھی لڑکی برداشت نہیں کرتی ۔ ۔ ۔ ۔

اس لئے ماہرہ شیرو کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

شیرو بہت کوشش کرتا ہے مگر ماہرہ نہیں مانتی ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو ہار کر اس لئے بھی مان جاتا ہے کہیں وہ پھر سے نہ باہر بھاگ جائے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو اور ماہرہ دونوں شیرو کے کمرے میں آتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

کمرے میں آ کر شیرو چھوٹی مامی کو بیڈ پر بیٹھاتا ہے ۔ ۔ ۔ ، اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ۔ ۔ ۔ وہ ان حالات میں مامی کو کیسے سمجھائے ۔ ۔ ۔ ، زندگی میں پہلی بار آج اس نے چھوٹی مامی کو روتے ہوئے دیکھا تھا وہ چہرہ جو آج تک ہمیشہ ہنستا ہی دیکھا تھا اس نے ۔ ۔ ۔ ۔ آج اسے دیکھ کر شیرو کا دِل دَرْد میں ڈوب گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

کتنی سچائی تھی ماہرہ کی آنکھوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی ایک ایک بات سچ تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ، آخر بختیار ماما کی طرف سے اسے گھر سے نکالے جانے کی صورت میں اس کے پاس کوئی اور ٹھکانا بھی تو نہیں تھا ۔ ۔ ۔ ، ،

اس کے ماں باپ پہلے ہی کتنے غریب ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ، شیرو کو مینا پر تو غصہ تھا ہی اب اسے بختیار ماما بھی کسی مجرم سے کم نہیں لگ رہے تھے ۔ ۔ ۔ مگر اب جو حالات بن گئے تھے ان سے کیسے نپٹا جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

اگر مینا کا کوئی علاج ڈھونڈ بھی لیا جائے تو اس کا کیا بھروسہ کہ ۔ ۔ ۔ ۔ بختیار ماما پھر کسی دوسری عورت کے پیچھے نہیں جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ،

ویسے بھی اتنا آسَان نہیں ہوگا اس سے پیچھا چھوڑانا ۔ ۔ ۔ ۔ ماما تو اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے اسے اپنا ہی سمجھ رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو اپنی سوچ میں ہی گم تھا کہ ماہرہ نے اِس خاموشی کو توڑا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

یہ تم نے اچھا نہیں کیا شیرو ۔ ۔ ۔ ،

آخر کیوں بچایا تم نے مجھے ؟

کیوں نہیں مر جانے دیا مجھے ؟

اب اِس گھر میں میرا رہ ہی کیا گیا ہے ؟

میری زندگی تو پہلے ہی جہنم بن گئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کم سے کم مجھے اِس جہنم سے آذاد تو ہونے دیتے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

بتاؤ آخر مجھے مرنے کیوں نہیں دیا تم نے ؟

ماہرہ روتے ہوئے چیخ چیخ کر پوچھ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ شیرو اس کے آنسوؤں میں ڈوبے چہرے کو دیکھے جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو : ( روتی آواز میں)

کیا ماما کے علاوہ اِس گھر میں آپ کا اور کوئی نہیں ؟

کیا آپ ہمیں اپنا نہیں مانتی ؟

ماما نے اگر غلطی کی ہے تو کیا اس کی سزا آپ ہمیں دیں گی ؟

بس ایک لمحے میں ہی ہم سب کو غیر بنا دیا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

تو نہیں سمجھے گا شیرو کہ میں کس جہنم میں جی رہی ہوں ۔ ۔ ۔ ، ایک عورت اپنے شوہر کے سہارے ساری دنیا سے لڑ کر بھی ہنسی خوشی زندگی جی سکتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

عورت کو صرف سچا پیار کرنے والا شوہر چاہئیے ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ پھر چاہے حالات کیسے بھی ہو وہ گزارا کر لیتی ہے ۔ ۔ ۔ ،

شوہر کے بعد اگر عورت کی زندگی میں کسی کی اہمیت ہے تو وہ ہے اس کی اولاد ۔ ۔ ۔ اگر شوہر سے پیار نہ بھی ملے تو عورت اپنے بچوں کو دیکھ کر ہی جی لیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

مگر میں ایسی منحوس ہوں جسے نہ شوہر کا پیار ہی ملا نہ ہی قدرت نے مجھے ماں بننے کا سکھ دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ،

تو ہی بتا آخر میں ایسی زندگی کا کیا کروں ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

ایسا کیوں کہتی ہو مامی کہ ۔ ۔ ۔ آپ ماں نہیں بن سکی ۔ ۔ ۔ ۔ ،

میں آپ کا بیٹا بھی ہوں ؟

کیا میں نے آپ کو ایک ماں کے جتنی عزت نہیں دی؟

ماما اگر غلط چکروں میں پھنس گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آپ کو پیار نہیں کرتے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

تم نے تو مجھے ہمیشہ پیار اور عزت دی ہے۔ ۔ ۔ ۔ مگر تو میری اولاد تو نہیں ہے نہ۔ ۔ ۔ اور ایک عورت کے ماتھے پر بانْجھ ہونے کا داغ اسے جینے نہیں دیتا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سمجھ بانْجھ کو کبھی عزت نہیں دیتا کوئی منہ پر نہ کہے مگر پیٹھ پیچھے ہر کوئی باتیں بناتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور تو کیا جانتا ہے اپنے ماما کے بارے میں تو نے دیکھا ہی کیا ہے ؟

میں ہمیشہ سے چُپ رہی مگر کیا میں نہیں جانتی تھی کہ ۔ ۔ ۔ تیرا ماما اپنے دوستوں کے ساتھ کیا کیا کرتا پھیرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

مگر میں تو سب کچھ برداشت کرتی رہی ۔ ۔ ۔ ،

اب تو حد ہوگئی ہے وہ مجھے بانْجھ ہونے کا تانے دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ،

میری شکل دیکھنا اسے پسند نہیں اوپر سے اب مجھے گھر سے نکالنے والا ہے ۔ ۔ ۔ اور نکال بھی دے گا کوئی کچھ نہیں کر پائے گا ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

کیا آپ کو ہم سب پر بھروسہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کیا آپ کو لگتا ہے ماں بابا انہیں ایسا کرنے دیں گے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

نہیں شیرو اگر وہ مجھے گھر پر رکھ بھی لے تو ۔ ۔ ۔ ۔ بختیار مجھے اپناے گا نہیں میری اِس گھر میں حیثیت ایک نوکرانی کی ہی رہ جائے گی ۔ ۔ ۔

میں اچھی طرح جانتی ہوں بختیار کو وہ کتنا ضدی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

آپ فکر مت کرو مامی سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ۔ ۔ ،

ماما کو میں سیدھے راستے پر لا کر رہوں گا ۔ ۔ ۔ کسی بھی طرح ۔ ۔ ۔ اور رہی بات آپ کی ماں بننے کی تو ڈاکٹر نے جیسا کہا ہے آپ آپْریشَن کروا لیں ۔ ۔ ۔ ۔پھر ماما آپ کو چھوڑ کر باہر نہیں جائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

نہیں شیرو میں اب ایسا کچھ نہیں کرنے والی ۔ ۔ ۔ ایک تو اس میں اتنا پیسہ لگے گا دوسرا بختیار نہیں مانے گا اگر میں ایسے ماں بن بھی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ اس بچے کو قبول نہیں کرے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ،

شیرو :

ایسا نہیں ھوگا آپ ایک کام کرنا آپ انہیں اس کے بارے میں بتانا ہی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

نہیں شیرو میری زندگی میں اب ایک ہی راستہ بچہ ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ ہے موت ۔ ۔ ۔ ،

اور میں اب زندہ رہنا بھی نہیں چاہتی ۔ ۔ ۔

شیرو :

بس اتنا ہی پیار ہے آپ کو مجھ سے جو میری قسم کے بعد بھی آپ مرنا چاہتی ہے ۔ ۔ ۔ ،

کیا یہی تھی آپ کی دوستی بس اسی لیے مجھے دوست بنایا تھا ؟

دوست تو ہر اچھے برے وقت میں ساتھ نبھاتے ہے ۔ ۔ ۔ اور آپ ایک ہی جھٹکے میں میرا ساتھ چھوڑ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

تو ۔ ۔ ۔ تو ہی بتا کیا کروں میں ؟

کیا تو میرے ماتھے سے اِس داغ کو مٹا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بول کرے گا میری مدد ؟

دوست کہتا ہے نہ مجھے بتا میری مدد کرے گا ؟

بنائے گا مجھے ماں ؟

بھارے گا میری سونی کوکھ کو ؟

یا تو مجھے ماں بنا دے یا مجھے مرنے دے ۔ ۔ ۔ ۔ فیصلہ اب تیرے ہاتھ میں ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ نے جذبات میں بہتے ہوئے شیرو کو اپنا فیصلہ سنا دیا تھا ۔ ۔ ۔ مگر ماہرہ کی ان باتوں نے شیرو کے سر پر بم پھاڑ دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ،

شیرو کے پاس اِس بات کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ ۔ ۔ آخر وہ کیسے یہ سب کر سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ،

وہ تو یہ سب سن کر بُت ہی بن گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

نہیں کر سکتا نہ ؟

باتیں کرنا آسَان ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ دوسرے کے دکھ میں باتوں سے تعزیت کرنے تو سب آ جاتے ہیں مگر ساتھ کوئی نہیں دیتا ۔ ۔ ۔

باتوں سے کسی کا دکھ کم نہیں ہو جاتا شیرو ۔ ۔ ۔ تو ان فضول کی باتوں میں پھنسا کر مجھے اِس جہنم میں جینے پر مجبور مت کر ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ صرف مشورے دیتے ہیں بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ تم نے ابھی دنیا نہیں دیکھی میں نے دیکھی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اِس لیے کان کھول کر سن لو میں یہاں سے بہت دور چلی جاوں گی ۔ ۔ ۔ جہاں سے میری خبر تک تم لوگوں تک نہ پہنچے ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہیں میری قسم اگر تو نے مجھے روکا یا کسی کو بتایا تو میرا مرا ہوا منہ دیکھو ۔ ۔ ۔

شیرو کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ۔ ۔ ۔ ماہرہ نے اسے اپنی قسم دے دی تھی کسی کو نہ بتانے کی ۔ ۔ ۔ ۔ اور اب وہ روکے گی بھی نہیں ایک ہی پل میں جیسے سارے راستے اس نے بند کر دیئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ اب شیرو کے پاس کوئی راستہ نہیں بچہ تھا ۔ ۔ ۔

شیرو کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے تھے ۔ ۔ ۔ آخر کتنا بےبس کر دیا تھا ماہرہ نے اسے قسم دے کر ۔ ۔ ۔ ۔ اور خود ماہرہ کے دِل پر کیا گزر رہی ھوگی اس کا بھی اسے اندازہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔

کچھ لمحے یونہی دونوں خاموش آنسوں بہائے جا رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ماہرہ پیچھے پلٹ کر کمرے سے باہر جانے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ کو جاتا دیکھ کر شیرو کو لگتا ہے ۔ ۔ ۔ جیسے ماہرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے دور جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ،

جیسے اس کے سگے ماں باپ کی طرح چھوٹی مامی بھی اسے چھوڑ کر جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اِس گھر میں نائلہ کے بَعْد ماہرہ ہی تھی جو اس کے اتنے قریب تھی ۔ ۔ ۔ ،

کتنا پیار جھلکتا تھا اس کے ہر انداز میں کتنی ہنس مکھ ۔ ۔ ۔ کتنی چلبلی تھی ماہرہ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر آج وہی ماہرہ دنیا بھر کے غم اپنے اندر سمائے ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے اِس دنیا کو الوداع کہہ کر جانے والی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ،

شیرو کا دِل چیخ چیخ کر اسے روکنے کے لیے کہہ رہا تھا ۔ ۔ ۔

اب تو ایک ہی را ستہ بچہ تھا اسے روکنے کا اور وہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ کو ماں بنانا جو کہ سراسر غلط تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ،

شیرو کی تربیت اِس بات کی بالکل بھی اِجازَت نہیں دیتی تھی ۔ ۔ ۔ آخر وہ کیسے اپنی ہی مامی کے ساتھ یہ سب کر سکتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جس مامی کو ہمیشہ ماں کے برابر عزت دی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے اس کے ساتھ وہ سب کر سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ایک سچ یہ بھی تھا کہ ۔ ۔ ۔ کسی بھی قیمت پر شیرو کو ماہرہ کا یوں جانا برداشت نہیں تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ،

اِسی لمحے میں جیسے پوری زندگی کا فیصلہ کرنا تھا اسے ۔ ۔ ۔ ۔ جسے کل پر ٹالا نہیں جا سکتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ کیوںکہ اسے کوئی مہلت تک تو نہیں دی تھی اس نے سوچنے کی ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ جیسے ہی آگے بڑھنے لگی اچانک شیرو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

اِس گھر میں آپ ڈولی میں آئی تھی نہ ؟

اور لوگ کہتے ہیں عورت جس گھر میں ڈولی میں بیٹھ کر آتی ہے پھر اس گھر سے ڈولی میں ہی نکلتی ہے ۔ ۔ ۔ ،

اور میرے ہوتے ہوے آپ کو میں کچھ ہونے نہیں دوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں آپ کی زندگی کی کمی کو پُورا کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ کے ماتھے سے اِس داغ کو مٹاؤں گا ۔ ۔ ۔ ۔

میں آپ کو “ماں ” بناؤں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ کہتے ہوئے شیرو کا گلا بھر آیا تھا اور آنکھوں سے لگاتار آنسو جاری تھے ۔ ۔ ۔ ۔

وہیں ماہرہ کے کانوں سے ہوتے ہوئے ایک ایک لفظ سیدھا اس کے دِل میں اُتَر گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ کتنی تڑپ کتنا پیار تھا شیرو کے ایک ایک لفظ میں ۔ ۔ ۔ ۔

واقعی میں اس کا پیار سچا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے سے منہ نکلے پیار سے شربور ان لفظوں نے ماہرہ کو پگھلا دیا ۔ ۔ ۔ اور اچانک پلٹ کر شیرو کے سینے سے لگ کر رونے لگی ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

کتنا پیار کرتا ہے مجھ سے پاگل ۔ ۔ ۔ ،

اتنے پیار سے اگر تو روکے گا تو میں موت کو لوٹا دوں گی ۔ ۔ ۔

میں سرخرو ہوگئی تجھے پا کر ۔ ۔ ،

سرخرو ہے وہ ماں جس نے تجھے پیدا کیا ۔ ۔ ۔ ۔ میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں اپنے اِس عظیم پیار کی تھوڑی سی بوند مجھے دے کر مجھے ماں بنا دے مجھے ماں بنا دے ۔ ۔ ۔

دونوں ہی ایک دوسرے سے گلے ملے روئے جا رہے تھے ۔ ۔ ۔ مگر اب تو آگے بڑھنا ہی تھا اب شیرو کو ماہرہ کو وہ دینا ہی ہوگا جس کی اسے سب سے زیادہ ضرورت تھی ۔ ۔ ۔ ۔

تبھی شیرو ماہرہ کو خود سے الگ کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

romantic urdu bold novels

new urdu bold novels

urdu bold novels list

most romantic and bold urdu novels list

husband wife bold urdu novels

bold romantic urdu novels kitab nagri

hot and bold urdu novels pdf

most romantic and bold urdu novels

most romantic and bold urdu novels list pdf