Munhoos Se Masoom Tuk(5th)منحوس سے معصوم تک (پانچویں قسط)

 



منحوس سے معصوم تک

قسط نمبر 005

دیبا نے پھر سے ڈنڈے سے شیرو کی پٹائی کرنی چاہی مگر ماہرہ نے اسے روک لیا اور اسے اس کے کمرے میں بھیج دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس کے بعد شیرو کو سہارا دے کر اپنے کمرے میں لے آئی ۔ ۔ ۔،

دیبا نے بری طرح مارا تھا شیرو کو جس کی وجہ سے اس کا سارے جسم میں سوجن آ گئی تھی ۔ ۔ ۔

ابھی جو کچھ بھی ہوا تھا ماہرہ کو اس پر یقین نہیں تھا ۔ ۔ ۔

مگر پہلے شیرو کو سنبھالنا ضروری تھا اِس لیے ماہرہ اسے اپنے بیڈ پر لیٹا دیتی ہے اور اس کے جسم کی سکائی کے لیے پانی گرم کر کے لاتی ہے اور سکائی کرنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔

گرم احساس ہوتے ہی شیرو کراہنے لگتا ہے اور ماہرہ اسے دلاسہ دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

تھوڑی دیر تک اس کی سکائی کرنے کے بعد ماہرہ ہلدی والا گرم دودھ شیرو کو دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو منع کرتا ہے لیکن ماہرہ کے زور دینے پر پینے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اب بتا بات کیا ہے ؟

یہ سب کیا اور کیسے ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو : (روتے ہوئے )

میں نے کچھ نہیں کیا مامی میں بےقصور ہوں وہ سب اچانک ہو گیا میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

مجھے پوری بات بتا ۔ ۔ ۔

پھر شیرو شروع سے لے کر ساری بات بتا دیتا ہے جس سے سن کر ماہرہ کو دیبا پر غصہ آنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

تو ۔ ۔ ۔ تو نے باجی کے سامنے یہ سب بولا کیوں نہیں چُپ کیوں تھا تو ۔ ۔ ۔

شیرو : (روتے ہوئے )

مجھے بات پوری کرنے ہی کہاں دی اما نے ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

تو آرام کر میں باجی سے بات کرتی ہوں جا کر ۔ ۔ ۔

ماہرہ شیرو کی چوٹوں پر مرہم لگا کر اسے آرام کرنے کا بولتی ہے اور کمرے سے نکل جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ کے من میں ایک بات تھی کہ دیبا باجی نے زرا سی بات کو اتنا بڑھا کر کہ بتایا۔ ۔ ۔

اور شیرو کا کیا حال کر دیا کوئی بہت بڑا راز ہے جو دیبا باجی بتاتی نہیں ہے ۔ ۔ ۔

اور ہر وقت شیرو پر بڑھاس نکالتی رہتی ہے مجھے پہلے یہ راز پتہ کرنا ہی ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ دیبا کے کمرے میں گئی تو وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی چہرے کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے غصہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

کیا باجی آپ ہمیشہ اسے کوستی رہتی ہیں ۔ ۔ ۔

اور آج تو آپ اسے مار ہی ڈالتی اگر ہم نہ آتے تو ۔ ۔ ۔ ۔ بےچارے کی کیا حالت کر دی آپ نے ۔ ۔ ۔ ،

ایسا بھی کوئی کرتا ہے بھلا ۔ ۔ ۔ ؟

اگر اس سے غلطی ہو گئی تھی تو آپ اس سے بات کرتی اس سے ہوچھتی پہلے ۔ ۔ ۔ ۔

آپ نے تو سیدھا اسے مارنا پیٹنا شروع کر دیا ۔ ۔ ۔ ،

کیا آپ کے دِل میں ممتا نام کی کوئی چیز نہیں اتنا معصوم ہے وہ آپ کو زرا ترس نہیں آتا اس پر ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دیبا : ( غصے میں )

معصوم ہاں معصوم کسے معصوم کہہ رہی ہے تو ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

معصوم نہیں منحوس ہے وہ بدقسمت

سمجھی ؟

اور ممتا کی بات کر رہی ہو تم ؟

تو سن میرے اندر کی ممتا کی موت اسی بدقسمت نے کی ہے جسے تو معصوم کہہ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ بات سن کر ماہرہ کے سر پر جیسے بم ہی پھٹ گیا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ،

بھلا شیرو نے ایسا کیا کر دیا جو دیبا ایسا کہہ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ : ( حیرانی سے )

کیا کہا آپ نے ؟

ایسا کیا کر دیا اس نے جس سے آپ کی ممتا مر گئی ؟ ۔ ۔ ۔

دیبا : (چیخ کر )

اسی بدقسمت کی وجہ سے میں ماں نہیں بن پائی آج تک۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیرو کی وجہ سے آپ ماں نہیں بن پائی ؟ ۔ ۔ ۔ وہ کیسے ؟ ۔ ۔ ۔

دیبا :

وہ منحوس میری ہنستی کھیلتی زندگی میں گرہن بن کر آیا اور میرا سب کچھ تباہ ہوگیا

اتنا کہہ کر دیبا رونے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ بھی حیران ہو جاتی ہے کہ آخر ایسا کیا ہوگیا شیرو کے ہاتھوں جو دیبا ماں نہیں بن پائی آج تک ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ سب کچھ جاننا چاہتی تھی مگر دیبا نے رونا شروع کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ جانتی تھی آج اگر وہ نہیں جان سکی تو شاید پھر کبھی موقع نہ ملے کیوںکہ آج دیبا غصے میں سب بتا سکتی ہے جو آج تک چھپاتی رہی ہے ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

آخر اس نے ایسا کیا کر دیا کہ آپ ماں نہیں بن سکی ۔ ۔ ۔ ۔

وہ تو خود معصوم سا بچہ ہے بچپن سے آپ کے پاس ہے وہ بھلا آپ کی زندگی کو کیسے بگڑ سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

دیبا : (روتے ہوئے چیخ کر )

معصوم نہیں منحوس ہے وہ منحوس ۔ ۔ ۔ ،

تمھارے لیے ہوگا وہ معصوم میرے لیے تو منحوس ہی ہے۔ ۔ ۔ ۔

تو جانتی ہے میں آج تک ماں کیوں نہیں بن سکی ؟۔ ۔ ۔ ۔

جاننا چاہتی ہے تو سن۔ ۔ ۔ ۔

بات تب کی ہے جب میں شادی کر کہ اِس گھر میں خوشی خوشی دلدار کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

ہم دونوں بہت خوش تھے نائلہ باجی کا کوئی بچہ نہیں تھا اِس لیے دلدار چاہتے تھے کہ ۔ ۔ ۔ ۔

میں جلدی سے اِس گھر کو وارث دوں تاکہ اِس گھر کا آنگن خوشیوں سے مہکے ۔ ۔ ۔ ،

پھر ایک دن مجھے پتہ چلا کہ میں پریگننٹ ہوں ہم سب بہت خوش تھے ۔ ۔ ۔

اچانک ایک دن اِس بدقسمت کی سالگرہ پر ہماری ساس سسر اس کی سالگرہ منانے کے لیے گئے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ساتھ میں دلدار بھی تھے میں پریگنینسی کی وجہ سے گھر پر ہی روکی تھی ۔ ۔ ۔

اور باجی بھی میرے ساتھ گھر تھی ۔ ۔ ۔ ،

رات کو خبر آئی کہ سب کار ایکسڈینٹ میں مارے گئے ہیں بس یہ منحوس ہی بچا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

اپنی سالگرہ کے دن ہی یہ منحوس اپنے ماں باپ اور نانا نانی کو کھا گیا وہ تو دلدار پتہ نہیں کیسے زندہ بچ گئے ۔ ۔ ۔ ۔

مگر آدھے ادھورے ایکسڈینٹ کی خبر سنتے ہی ہماری تو دنیا ہی اجڑ گئی میں چکر کھا کر سیڑھیوں سے گر پڑی اور میرا بچہ پیٹ میں ہی مر گیا ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے جب ہوش آیا میں اسپتال میں تھی ڈاکٹر نے بتایا کہ ۔ ۔ ۔ ۔

میرا بچہ گرنے کی وجہ سے مر گیا میں بہت روئی میں کتنی خوش تھی کہ میں ماں بنوں گی مگر اِس منحوس کی وجہ سے سب اجڑ گیا ۔ ۔ ۔ ۔

اُدھر دلدار بھی اسپتال میں ایڈمٹ تھے سرور بھئیا اِس منحوس کو گھر لے آئے ۔ ۔ ۔ ۔

کچھ دنوں بعد جب دلدار گھر آئے اسپتال سے تو ایک اور قہر مجھ پر ٹوٹ پڑا ۔ ۔ ۔ ،

دلدار نے بتایا کہ اب وہ کبھی باپ نہیں بن سکیں گے کیوںکہ ان کا لنڈ ایکسڈینٹ میں ڈیمیج ہوگیا تھا یہ سنتے ہی میں تو مر ہی گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تم ہی بتاؤ ایک عورت کیسے رہ سکتی ہے شوہر کے پیار کے بنا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

تب سے لے کر آج تک میں کیسے جی رہی ہوں یہ صرف میں ہی جانتی ہوں ایسی کوئی رات نہیں جب میں کانٹوں پر نہ لیٹی ہوں صرف اِس منحوس کی وجہ سے۔ ۔ ۔ ۔

میرا بچہ مارا گیا صرف اِس منحوس کی وجہ سے۔ ۔ ۔ ۔

میں سہاگن ہوتے ہوئے بھی بیوہ ہو گئی صرف اِس منحوس کی وجہ سے ۔ ۔ ۔ ۔

اسے منحوس نہیں تو کیا کہوں ؟

میرا تو جی چاہتا ہے کہ اسے جان سے مار دوں یہ تو دلدار نے اپنی قسم دے رکھی ہے ورنہ کب کی اسے مار کر پھانسی چڑھ جاتی۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا دیبا کی باتیں سن کر کتنی نفرت کرتی ہے دیبا شیرو سے ان باتوں کی وجہ سے جس میں اس کا کوئی ہاتھ تھا ہی نہیں ۔ ۔ ۔ ،

بھلا وہ معصوم سا بچہ کیسے کسی کا برا کر سکتا تھا ۔ ۔ ۔ ،

ماہرہ ابھی دیبا کی باتوں کو سن کر اپنی ہی سوچوں میں گم تھی ۔ ۔ ۔

کچھ وقت تک دونوں خاموش رہتی ہیں تبھی ماہرہ اِس خاموشی کو توڑتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

باجی دنیا میں ایسا کون سا بیٹا ہوگا جو اپنی ماں کی جان لے لے ۔ ۔ ۔ بھلا کیسے کوئی اپنے ماں باپ کو مار سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ،

دنیا میں جو بھی ہوتا ہے سب قدرت کی مرضی سے ہوتا ہے اس میں کسی کا کیا قصور ۔ ۔ ۔ ۔

آپ نے صرف اپنا دکھ دیکھا کبھی یہ نہیں سوچا تقدیر نے اس کے ماں باپ ایک جھٹکے میں چھین لیے اس معصوم کے دِل پر کیا گزری ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔

اگر آپ نے اپنا بچہ کھویا تھا تو آپ شیرو کو اپنا کر اسے ہی اپنا بیٹا بنا لیتی اسے بھی ماں باپ کا پیار مل جاتا ۔ ۔ ۔ ۔

مگر آپ نے تو اسے اس جرم کے لیے مجرم مان لیا جو اس نے کیا ہی نہیں تھا ۔ ۔ ۔ ۔

زرا سوچیں آخر وہ اس وقت خود گود میں کھیلنے والا چھوٹا بچہ تھا اسے کیا معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور آپ اسے قصور وار مانتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچنا آخر اس میں اس کا یا کسی کا کیا قصور ہے یہ تو سب تقدیر کا کھیل ہے ۔ ۔ ۔ ۔

رہی بات ماں بننے کی ۔ ۔ ۔ ،

وہ تو بڑی باجی بھی نہیں بن پائی اور نہ ہی میں ابھی تک بن پائی تو اس میں ہم کس کو قصور دے بتائیں ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

کیا ہم بھی یہی سوچیں کہ کسی اور کی وجہ سے ہم ماں نہیں بن پا رہی ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ تو اپنی اپنی تقدیر ہے میں اور کچھ نہیں کہہ سکتی آپ خود سمجھدار ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ہاں مگر اتنا ضرور کہوں گی کہ آج جو آپ نے کیا وہ سراسر غلط تھا وہ بے چارہ تو آپ سے ہمارے بارے میں جاننے کے لیے آیا تھا ۔ ۔ ۔ ،

غلطی تو آپ کی تھی جو آپ دروازہ کھلا چھوڑ کر کپڑے بَدَل رہی تھی ۔ ۔ ۔ اور آپ نے اس پر کیسے کیسے الزام لگا دیئے اوپر سے اسے اتنی بری طرح مارا ۔ ۔ ۔ ۔

کبھی سوچا ہے آپ نے اِس گھر کا وہ ہی تو اکیلا وارث ہے کیا ہوگا اگر وہ کسی دن آپ کے اِس برتاؤ سے تنگ آ کر گھر چھوڑ کر چلا گیا بڑی باجی تو مر ہی جائے گی اور باقی سب کا دِل بھی ٹوٹ جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔

پھر یہ گھر گھر نہیں رہے گا ۔ ۔ ۔ ۔

زرا سوچنا آخر آپ اسے کس جرم کی سزا دے رہی ہیں ؟

اس نے کیا کبھی آپ کو کچھ کہا ؟ ۔ ۔ ۔

کیا اس نے آپ کو بڑی باجی کی طرح پیار نہیں دیا سوچنا ضرور ۔ ۔ ۔ ۔

اتنا کہہ کر ماہرہ کمرے سے نکل جاتی ہے مگر اس کی باتیں ابھی بھی دیبا کے دماغ میں گھوم رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

اور اسے یاد آنے لگا کہ کیسے شیرو جب چھوٹا تھا تو اپنی توتلی زُبان میں اسے امی کہہ کر اس سے لپٹ جاتا تھا ۔ ۔ ۔

مگر وہ اسے دور ہتا دیتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

کیسے بچپن سے لے کر آج تک وہ دیبا کے پیار کو ترستا رہا مگر اس نے کبھی شیرو کو پیار نہیں دیا بلکہ نفرت ہی دی ۔ ۔ ۔ ۔

مگر پھر اسے اپنے بچے اور شوہر کے ساتھ ہوئے حادثے کی یاد آ جاتی ہے اور اس کے منہ سے نکلتا ہے ۔ ۔ ۔

کوئی چاہے کچھ بھی کہے مگر میرے لیے تو وہ منحوس ہی ہے سب اسی کی وجہ سے ہوا ہے میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ دیبا کے کمرے سے نکال کر نائلہ کے کمرے میں جاتی ہے جہاں نائلہ جانے کب سے روئے جا رہی تھی چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ جب نائلہ کی حالت دیکھتی ہے تو جلدی سے نائلہ کو گلے لگا کر چُپ کروانے کی کوشش کرتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

یہ کیا کر رہی ہیں باجی بچوں کی طرح روئے جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ، سنبھالیں خود کو ۔ ۔ ۔

نائلہ :

( روتے ہوئے )

یہ سب کیا ہوگیا چھوٹی تو نے دیکھا نہیں دیبا نے کیا کہا ۔ ۔ ۔ ،

میرا بیٹا ایسا نہیں کر سکتا وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتا میں نے اسے پیدا نہیں کیا مگر اسے میں نے اپنے بیٹے جیسے ہی پالا ہے اس پر اٹھی ہوئی انگلی اس پر نہیں مجھ پر اٹھی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

نہیں وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

! چُپ ہو جائیں باجی چُپ ہو جائیں ۔ ۔ ۔ ۔

میں جانتی ہوں وہ ایسا نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس نے ایسا کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

دیبا باجی کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔ ۔ ۔

اتنا سن کر نائلہ ایکدم چُپ ہو جاتی ہے اور ماہرہ کو دیکھنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ہاں باجی ۔ ۔ ۔ ،

میں نے شیرو سے اور دیبا باجی سے بات کی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ دراصل شیرو ہَم دونوں کو گھر نہ پا کر دیبا باجی سے پوچھنے گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

اور اس وقت دیبا باجی کپڑے بَدَل رہی تھی کمرے میں بس یہ سب انجانے میں ہوا حادثہ ہے اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

تو سچ کہہ رہی ہے ؟

ماہرہ :

ہاں باجی ۔ ۔ ۔ ،

شیرو بھی یہی کہنا چاہتا تھا مگر آپ نے سنا ہی نہیں اور اس بےچارے کو مارنے لگ گئی ۔ ۔ ۔

نائلہ :

( روتے ہوئے )

میں نے اپنے پھول سے بچے پر ہاتھ اٹھایا میرے ہاتھ کیوں نہیں ٹوٹ گئے کتنی بری طرح مارا اسے کتنی چوٹ لگی ہوگی اسے ۔ ۔ ۔ ،

کہاں ہے وہ مجھے اس کے پاس جانا ہے ۔ ۔ ۔ ، مجھے اس کے پاس لے چلو ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

وہ یہیں ہے میرے کمرے میں ہے میں نے اسے دوا لگا دی ہے اور اسے پین کلر دے دی ہے ابھی وہ سو رہا ہے ۔ ۔ ۔

نائلہ اُٹھ کر ماہرہ کے کمرے میں بھاگتی ہوئی جاتی ہے جہاں شیرو بیڈ پر اُلٹا سو رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ اسے لگاتار دیکھی جا رہی تھی اور آنسو بہائے جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ پیچھے پیچھے ماہرہ بھی آ جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ نائلہ کو آنسو بہاتے دیکھتی ہے تو اسے چُپ کروانے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

رات ہونے کو آتی ہے دلدار اور سرور گھر لوٹ آتے ہیں ماہرہ اور دیبا كھانا لگا لیتی ہیں ۔ ۔ ۔

بختیار آج پھر کام کا بہانہ بنا کر نکل گیا تھا باہر سے ہی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نائلہ شیرو کے پاس ہی بیٹھی رہتی ہے ۔ ۔ ۔ جب سرور شیرو کے بارے میں پوچھتا ہے تو کوئی اسے اصلیت نہیں بتاتا بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ آج وہ جلدی سو گیا ۔ ۔ ۔ ۔

پھر ماہرہ نائلہ کو اس کے کمرے میں واپس بھیج دیتی ہے ۔ ۔ ۔ یہ کہہ کر کہ ۔ ۔ اگر وہ نہ گئی تو سرور بھئیا کو سچ پتہ چل جائے گا جس سے گھر کا ماحول بگڑ سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ سرور شیرو سے بہت پیار کرتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ نائلہ بھی بات کو سمجھ کر اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

مگر اس کا دِل نہیں تھا اِس لیے سرور کے سونے کے بعد وہ پھر لوٹ آتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

رات بھر دونوں جاگتی رہتی ہیں اور شیرو کا دھیان رکھتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ اپنے من میں سوچ رہی تھی کہ شیرو کیا سوچے گا اس کے بارے میں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کیسی ماں ہوں بنا اس کی بات سنے اسے مارنے لگی ۔ ۔ ۔ اگر اس کی سگی ماں ہوتی تو بھلا ایسا کرتی کہیں وہ مجھ سے روٹھ تو نہیں جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اگر وہ ناراض ہو کر مجھ سے دور چلا گیا تو میرا کیا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔

نہیں نہیں میں اسے کہیں نہیں جانے دوں گی وہ میرا بیٹا ہے میں اس کے بنا نہیں جی سکتی

ماہرہ اپنے من میں سوچ رہی تھی کہ شیرو کتنا اچھا ہے سب کا خیال رکھتا ہے سب کی بات مانتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر دیبا باجی اس سے کتنی نفرت کرتی ہے وہ بھی اس بات کے لیے جو شاید اسے پتہ بھی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور آج کتنا مارا بھی ہے ۔ ۔ ۔ کوئی کچھ بھی کہے جب تک میں ہوں شیرو کو کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دوں گی آج سے ۔ ۔ ۔ ۔ اسے میں پروٹیکٹ کروں گی اسے سب سمجھاؤں گی سکھاؤں گی ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہوشیار بناؤ گی ۔ ۔ ۔ ۔

ایسے ہی رات بھی گزر جاتی ہے صبح شیرو کی آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ اما اس کے سر کے پاس بیٹھی سو رہی ہے وہ سمجھ جاتا ہے اما ساری رات یہیں بیٹھی رہی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کی نظر پاؤں کی طرف جاتی ہے جہاں چھوٹی مامی سر رکھا کر سو رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو کی آنکھیں بھر آتی ہیں دونوں کے دِل میں اپنے لیے پیار دیکھ کر وہ چُپ چاپ اٹھنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ماہرہ کی آنکھ کھل جاتی ہے کیوںکہ اس کا سر شیرو کے پاؤں پر ہی تھا ۔ ۔ ۔ ،

وہ دیکھتی ہے کہ شیرو اٹھنا چاہ رہا ہے تو جلدی سے شیرو کو سہارا دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ماہرہ کچھ بولنے ہی والی تھی کہ شیرو اشارے سے اسے چُپ کروا دیتا ہے ۔ ۔ ۔ تاکہ نائلہ کی نیند نہ خراب ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ شیرو کو سہارا دے کر کمرے سے باہر لے چلتی ہے ۔ ۔ ۔ اس وقت شیرو کو چلنے میں تھوڑی تکلیف تھی کیوںکہ اس کے پاؤں اور ٹخنوں میں سوجن زیادہ تھی ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو کو باتھ روم جانا تھا تو ماہرہ اسے سہارا دے کر باتھ روم میں لے جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو اپنی چوٹ اور سوجن کی وجہ سے تِین دن تک گھر سے باہر نہیں نکلتا اِس دوران ماہرہ اور نائلہ شیرو کی ہر وقت خدمت کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ تِین دن کے بعد سوجن کم ہو جاتی ہے تو شیرو کالج جانے کی تیاری کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ نائلہ منع کر رہی تھی مگر شیرو نہیں مانتا اور کالج چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

کالج میں مہوش شیرو کو بریک میں جب دیکھتی ہے تو جلدی سے اس کے پاس چلی آتی ہے اور آنسو بہانے لگتی ہے ۔ ۔ ۔

مہوش :

کہاں چلے گئے تھے آپ بنا بتائے ؟

پتہ ہے میرا کیا حَال تھا کس بات سے ناراض تھے آپ ۔ ۔ ۔ ایک بار بتا تو دیتے میں نے سب سے پوچھا مگر کسی نے نہیں بتایا ۔ ۔ ۔ راجو کو آپ کے گھر بھی بھیجا مگر آپ وہاں بھی نہیں ملے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

وہ میں اچانک کسی ضروری کام سے شہر چلا گیا تھا جلدی میں بتا نہیں سکا ۔ ۔ ۔ ، کل ہی واپس آیا ہوں ۔ ۔ ۔

مہوش :

یہ آپ کے چہرے پر سوجن کیسی ہے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

وہ میں وہ گر گیا تھا زرا سی چوٹ ہے بس ۔ ۔ ۔ ۔

مہوش :

آپ سچ بول رہے ہیں نہ ؟ ۔ ۔ ۔

شیرو :

کیا تمہیں یقین نہیں مجھ پر ؟ ۔ ۔ ۔

مہوش :

خود سے زیادہ ہے ۔ ۔ ۔

اتنے میں بیل بج جاتی ہے مہوش ملنے کا پوچھتی ہے ۔ ۔ ۔ مگر شیرو ابھی ملنا نہیں چاہتا تھا۔ ۔ ۔ کیوںکہ ابھی مہوش کو اس کی چوٹوں کا پتہ چل سکتا تھا اِس لیے منع کر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مہوش مایوس ہو کر کلاس میں چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

کالج کے بعد شیرو راجو کے پاس جاتا ہے ۔ ۔ ۔

راجو :

یار کہاں غائب تھا میں تیرے گھر بھی گیا تھا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

مہوش سے ملا کہ نہیں بےچاری کتنی پریشان تھی ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

ہاں اس سے ملا تھا کالج میں ۔ ۔ ۔ ،

میں زرا ضروری کام سے کہیں گیا تھا باہر ماما کے ساتھ تو کل ہی آیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

تو سنا تجھے جو بولا تھا وہ کیا ؟ ۔ ۔ ۔

راجو :

ہاں وہ کام ہوگیا سمجھ یہ مینا تو رنڈی ہے کمینی میں نے اپنے ایک دوست کو اُس پر نظر رکھنے کا بولا تھا ۔ ۔ ۔ جو اس کے گھر کے ساتھ رہتا ہے ۔ ۔ ۔ اس نے بتایا ہے کہ مینا پہلے کھیتوں میں مزدوری کے لیے جاتی تھی مگر اب نہیں جاتی ۔ ۔ ۔ اور اس کے رشتے کا کوئی بھائی اس سے ملنے بہت آتا ہے آج کل ۔ ۔ ۔ تو بالکل سہی ٹائم پر آیا ہے آج اس کا وہ بھائی آنے والا ہے آج ہم رات کو سب چھپ کر دیکھیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میرا وہ دوست کہہ رہا تھا کہ کمینہ ہر پندرہ دن میں آتا ہے تین یا چار دن کے لیے ۔ ۔ ۔ اور جب وہ آتا ہے مینا کا گھر والا رات کھیتوں میں رہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور پیچھے دونوں رات کو مزے کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو : (حیرانی سے )

کیا مطلب ؟ مینا اپنے بھائی کے ساتھ بھی چدائی کرتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

راجو :

یار رات کو سب پتہ چل جائے گا تو آ جانا میرے پاس مل کر چلتے ہیں اور پتہ کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کمینی آخر کرتی کیا پھیرتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

مگر رات کو اما آنے نہیں دے گی ۔ ۔ ۔

راجو :

یار ایسا موقع ہاتھ سے جانا نہیں چاہیے تو کسی بھی طرح کرکے آ جانا ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

ٹھیک ہے میں ساڑھے نو بجے آ جاؤں گا ۔ ۔ ۔ ۔

پھر شیرو گھر لوٹ جاتا ہے ایسے ہی شام ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بختیار شام کو گھر آ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ شیرو جانتا تھا آج چھوٹے ماما گھر پر ہوں گے اس کا مطلب تھا راجو کی خبر پکی تھی۔ ۔ ۔ ۔

رات ساڑھے نو بجے جب سب اپنے کمروں میں سونے چلے گئے تو ۔ ۔ ۔ شیرو چُپ چاپ گھر سے نکل جاتا ہے مگر دو آنکھیں اسے دیکھ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

گھر سے نکل کر شیرو سیدھا راجو کی طرف جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جو اسے باہر ہی مل جاتا ہے اور دونوں دوست مل کر مینا کے گھر کی طرف چل پڑتے ہیں کھیتوں کے راستے۔ ۔ ۔ ۔

راستہ سنسان تھا مگر شیرو کو تو آج جیسے کسی بات کی پرواہ نہیں تھی وہیں راجو کی گانڈ پھٹ رہی تھی ۔ ۔ ۔ مگر شیرو کے ساتھ ہونے سے وہ بھی شیر بنا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

تھوڑی دیر میں دونوں دوست مینا کے گھر کے پاس پہنچ جاتے ہیں جہاں راجو کا دوست ان کا انتظار کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ راجو اسے دیکھتے ہی جیب سے شراب کی بوتل نکالتا ہے جسے دیکھ کر وہ لڑکا خوش ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

لڑکا :

واہ راجو بھائی آپ آ گئے میں کب سے انتظار کر رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔

راجو :

یہ لے تیرے لیے ہے جا موج کر اور سن وہ مینا ابھی کدھر ہے ۔ ۔ ۔

لڑکا :

وہ ابھی اس جھونپڑی میں ہے اس کا مرد کھیتوں میں ہے آج اس کا وہ بھائی آیا ہوا ہے ۔ ۔ ۔

راجو :

اچھا تو جا میں دیکھتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

لڑکا :

شکریہ راجو بھائی اور کوئی کام ہو تو بتانا ۔ ۔ ۔ ۔

اتنا کہہ کر وہ لڑکا بوتل لے کر نکل جاتا ہے اپنے راستے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

کمینے یہ کیا تو شراب کا کام کب سے کرنے لگا ۔ ۔ ۔

راجو :

یار چُپ کر یہ سب تو اپنا کام کروانے کی قیمت ہے اور کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ اب تو چُپ کر پہلے اپنا کام کرتے ہیں پھر بات کر لینا ۔ ۔ ۔

دونوں دوست پھر جھونپڑی کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور اندر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ،

جھونپڑی کے اندر لالٹین جل رہی تھی زمین پر بستر بچھا ہوا تھا۔ ۔ ۔ جس پر مینا کمر سے نیچے ننگی لیٹی ہوئی تھی اس کے اوپر ایک آدمی چڑھا ہوا تھا وہ بھی کمر سے نیچے ننگا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

مینا :

آہ ۔ ۔ ۔ س س س ۔ ۔ ۔ زور سے کرو ۔ ۔ ۔ اور زور سے اوہ ۔ ۔ ۔ ۔

آدمی :

زور سے ہی تو کر رہا ہوں میری رنڈی تیری چوت تو کمینی ہر وقت گیلی ہی رہتی ہے کتنی آگ ہے تیرے اندر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مینا :

کیا کروں ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔یہ آگ ۔ ۔ اف ف ۔ ۔ ۔ بجھتی ہی نہیں ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ ۔

آدمی :

کیوں تیرے پاس تو یہاں دو دو مرد ہیں ایک تیرا شوہر اور دوسرا وہ بھڑوا مالک ۔ ۔ ۔

مینا :

کیسے مرد کمینے دونوں بھڑوے ہیں ۔ ۔ آہ ۔ ۔ او ۔ ۔ زور سے کرو ۔ ۔ ۔

ایک تو کھیتوں میں مزدوری کر کے تھک جاتا ہے اور آ کر سو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ دوسرا وہ بھڑوا مالک آگ تو بجھا نہیں پتہ اُلٹا اور بڑھکا کر چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ہر بار انگلی کرنی پڑتی ہے بعد میں ۔ ۔ ۔ ۔

آہ ۔ ۔ ۔ اور زور سے ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ایسے ہی آہ ۔ ۔ ۔ ۔

آدمی :

کیوں اس کے لنڈ میں دم نہیں ہے کیا ۔ ۔ ۔

مینا :

لنڈ ہے ہی کہاں اس کے پاس پانچ انچ کی لولی ہے ۔ ۔ ۔ لنڈ تو تیرے پاس ہے ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ اور زور سے ۔ ۔ ۔

آدمی :

تو کیوں جاتی ہے پھر اس کے پاس ۔ ۔ ۔ ۔

مینا :

تو بھی بھڑوا ہے کمینہ اگر اس کے پاس نہیں جاوں گی تو اسے چوتیا کیسے بناؤں گی ۔ ۔ ۔ ۔آہ ۔ ۔ س س ۔ ۔ ۔ کمینہ باپ بننے کے قابل ہے نہیں اور بچہ ڈھونڈتا پھیرتا ہے میں یہ بات سمجھ گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ بس اسی لیے اس کے نیچے لیٹ گئی۔ ۔ ۔ اب دیکھنا تیرے بچے کو اس کا بچہ بتا کر میں اس کے حصے کی جائیداد اپنے بچے کے نام کروا لوں گی ۔ ۔ ۔ ۔

یعنی کہ ہمارے نام پھر دیکھنا ہم بھی امیر ہو جائیں گے پھر سب بیچ کر کہیں دور چلے جائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ اور نئی زندگی شروع کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔

آہ ۔ س س س ۔ ۔ اور تیز ز ز ۔ ۔ ۔ میرا ہونے والا ہے ایسے ہی اف ف ۔ ۔ اوئی ۔ ۔ ۔ ماں ۔ ۔ ۔

آدمی :

کمینی کتنی بڑی رنڈی ہے تو سب کو چوتیا بنا رہی ہے اگر اسے پتہ چل گیا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مینا :

کسی کو پتہ نہیں چلے گا کون بتائے گا بول کیا کبھی تیرے بارے میں کسی کو پتہ چلا ہے ۔ ۔ ۔ آں ۔ ۔ ۔ اوئی ۔ ۔ ۔ اب باتیں بند کر اور دھکے مار تیز ۔ ۔ ۔ س س س ۔ ۔ ۔ ایسے ہاں ۔ ۔ ۔ ۔آہ ۔ ۔ ۔

ایسے ہی تھوڑی دیر میں چدائی پروگرام ختم ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مگر شیرو تو کہیں گم سا ہوگیا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے چھوٹی مامی کا چہرہ گھوم رہا تھا بےچاری کی زندگی برباد ہو جائے گی ۔ ۔ ۔ ۔

راجو تو اپنا لنڈ ہلا رہا تھا اندر کا چدائی سین دیکھ کر مگر ۔ ۔ ۔ ۔ شیرو اپنے ہی خیالوں میں کھویا تھا اور آگے کی پلاننگ کر رہا تھا کہ کیا کیا جائے ۔ ۔ ۔ ۔

دونوں دوست چُپ چاپ وہاں سے نکل کر واپس گھر آ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ شیرو چپ چاپ بنا کوئی آواز کئے اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں پہلے سے ہی کوئی اس کا انتظار کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے ہی شیرو اپنے کمرے میں گھستا ہے سامنے دیکھ کر ہڑبڑا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

سامنے چھوٹی مامی بیڈ پر بیٹھی شیرو کا ہی انتظار کر رہی تھی جسے دیکھ کر شیرو ہڑبڑا گیا ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اب مامی کے سوالوں کا کیا جواب دے گا ۔ ۔ ۔ ،

وہیں ماہرہ من میں یہ سوچ رہی تھی کہ اتنی رات کو گھر سے باہر چوروں کی طرح جانے کا کیا وجہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں شیرو کچھ غلط تو نہیں کر رہا جو بھی ہو آج پوچھنا ہی پڑے گا ۔ ۔ ۔ ۔ کیا پتہ ایسا کب سے چل رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اتنی رات کو کہاں گیا تھا ؟

تو کب سے راتوں کو باہر جانے لگ گیا ہے ؟ ایسا کون سا کام ہے جو تو رات کے اندھیرے میں کرنے لگ گیا ہے ؟ ۔ ۔ ۔

شیرو :

وہ میں ۔ ۔ ۔ وہ ۔ وہ باہر گھومنے گیا تھا میرے پیٹ میں گیس ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اچھا گیس ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔ ، ، اب مجھ سے جھوٹ بولے گا کیا اتنی ہی عزت رہ گئی ہے میری اب ؟

سچ سچ بتا کہاں تھا کس کے ساتھ تھا ؟

شیرو :

مامی ایسا نہ کہو میں آپ کی کتنی عزت کرتا ہوں میرے دِل سے پوچھو ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

تو سچ کیوں نہیں بتاتا ۔ ۔ ۔ ۔ ، بول کہاں گیا تھا ؟

شیرو : (سنجیدہ ہوتے ہوئے )

مامی پلیز ایسا مت کہیں میں آپ کو سب سچ سچ بتاوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ابھی نہیں بتا سکتا آپ کو میری قسم ابھی کوئی سوال مت پوچھیں میں وقت آنے پر خود بتا دوں گا وعدہ کرتا ہوں بس اتنا سن لیجیے میں کچھ بھی غلط نہیں کر رہا ہوں جو کر رہا ہوں اِس گھر کی بھلائی کے لیے کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔

ماہرہ شیرو کی آنکھوں میں سچائی اور سنجیدگی دیکھ کر چُپ کر جاتی ہے ۔ ۔ ۔ اور کمرے سے بنا کوئی بات کرے نکل جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ، شیرو سوچنے لگتا ہے کہ مامی پتہ نہیں کیا کیا سوچے گی میرے بارے میں لیکن انہیں سچائی بھی تو نہیں بتا سکتا ۔ ۔ ۔ اگر انہیں سچائی پتہ لگی تو ان کا دِل ٹوٹ جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔

مگر اس مینا کا مجھے جلد ہی کچھ کرنا پڑے گا کیسے چھوٹے ماما کو بےوقوف بنا کر انہیں لوٹ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

یونہی سوچتے سوچتے شیرو کی آنکھ لگ جاتی ہے ۔ ۔ ۔

دوسری طرف ماہرہ بھی پریشان تھی مگر اسے اِس بات کی تسلّی تھی کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیرو کچھ غلط نہیں کر رہا ہے مگر بات ضرور کوئی بڑی ہے جو اس نے اپنی قسم دے دی سوال نہ پوچھنے کے لیے ۔ ۔ ۔ ۔

صبح صبح شیرو اپنی روٹین سے اکھاڑے چلا جاتا ہے گھر میں ماہرہ تیار ہو کر نائلہ کے کمرے میں جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

باجی آپ تیار ہیں ؟ جلدی کیجیے ہم کہیں لیٹ نہ ہو جائیں ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ اپنے بیڈ پر چادر تان کر لیٹی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ کی آواز سن کر ماہرہ کی طرف موڑتی ہے۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

ارے چھوٹی مجھے معاف کرنا میں نہیں جا سکوں گی تیرے ساتھ ۔ ۔ ۔ آج نہاتے وقت پاؤں پھسل گیا تھا زرا پاؤں میں موچ آ گئی ہے ۔ ۔ ۔ تو دیبا کو لے جا ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ نائلہ کی آواز سے اندازہ لگا لیتی ہے واقعی وہ تکلیف میں تھی ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

باجی یہ کیسے ہوگیا آپ نے مجھے آواز کیوں نہیں دی ۔ ۔ ۔

نائلہ :

بس اچانک پاؤں پھسل گیا تھا اور آواز کیا دیتی تب تمھارے جیٹھ جی یہیں تھے وہی مجھے یہاں تک لے آئے ۔ ۔ ۔ ، تو میری فکر نہ کر میں نے گولی کھا لی ہے تو دیبا کے ساتھ چلی جا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

نہیں باجی آپ کو دیکھ بھال کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ کو ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی ہم پھر چلے جائیں گے جب آپ ٹھیک ہو جائیں گی ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

نہیں چھوٹی تو جا ایسے کاموں میں دیر نہیں کرتے میں اپنا دھیان رکھ لوں گی تو جا یہ میرا حکم ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اگر دیبا باجی بھی میرے ساتھ چلے گی تو گھر کا كھانا کون دیکھے گا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

آپ کا دھیان کون رکھے گا ؟

نہیں نہیں آپ رہنے دیجیئے ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

نہیں چھوٹی تیرا جانا ضروری ہے تو ایک کام کر تو شیرو کو ساتھ لے جا اس کو بول آج کالج سے چھٹی کر لے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

لیکن باجی ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

لیکن ویکن کچھ نہیں تو ابھی اسے جا کر بول دے دیکھ آ گیا ہوگا وہ بھی ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اچھا باجی میں دیکھتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ شیرو کے کمرے میں جاتی ہے جہاں شیرو یونیفارم پہن کر تیار ہو رہا تھا کالج کے لیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ اسے جا کر بتا دیتی ہے کہ کپڑے بَدَل لے ۔ ۔ ۔ ۔

آج کالج سے چھٹی کر آج تجھے میرے ساتھ شہر جانا ہے ۔ ۔ ۔ ،

اتنا کہہ کر ماہرہ کچن میں شیرو کو ناشتہ بنا کر دینے چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو : ( من میں )

لگتا ہے چھوٹی مامی کل رات کی بات کے لیے غصہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھ سے آج اسی کے بارے میں بات کرے گی اب کیسے سمجھاؤں ان کو جو میں کر رہا ہوں انہی کے لیے کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

تھوڑی دیر میں شیرو کپڑے بَدَل کر کچن میں ناشتہ کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور ماہرہ اسے جلدی کرنے کو کہتی ہے ۔ ۔ ۔ ،

دونوں جلدی سے بس اسٹاپ جاتے ہیں اور شہر کے لیے بس پکڑ لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ بس میں ابھی ہجوم نہیں تھا سو دونوں کو سیٹ مل جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور دونوں شہر کو نکل جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

راستے میں دونوں میں سے کوئی بات نہیں کر رہا تھا پھر اِس خاموشی کو شیرو ہی ٹورتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

ہم ایسے اچانک کہاں جا رہے ہیں مامی ؟

سب ٹھیک تو ہے ؟

ماہرہ :

ہاں ہاں سب ٹھیک ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ،

اصل میں آج باجی جانے والی تھی میرے ساتھ مگر ان کے پاؤں میں موچ آ گئی صبح صبح اِس لیے ان کی جگہ تمہیں لے جا رہی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

اتنا سن کر شیرو سکون کی سانس لیتا ہے پھر اچانک اس کا دھیان موچ پر جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہڑبڑا کر پوچھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

کیا اما کو موچ آ گئی مگر کیسے ؟

کسی نے مجھے بتایا کیوں نہیں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

مجھے بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی بتایا انہوں نے ۔ ۔ ۔ ، وقت نہیں تھا اِس لیے نہیں بتا پائی ۔ ۔ ۔ ، ویسے گھبرانے والی بات نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تو فکر مت کر گھر پر دیبا باجی ہیں ان کے پاس ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

ویسے ہم شہر کس لیے جا رہے ہیں اگر اما کو موچ آ گئی تھی رہنے دیتے شہر جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

میں نے تو کہا تھا مگر باجی نہیں مانی ۔ ۔ ۔ ،

اصل میں پچھلی بار ہم دونوں جب شہر آئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر نے میرا چیک اپ کرنے کے لیے ٹیسٹ کئے تھے۔ ۔ ۔ آج ان کی رپورٹس دینی تھی انہوں نے اس لئے جانا ضروری تھا۔ ۔ ۔ ، اس لیے باجی نے تجھے ساتھ لے جانے کو کہہ دیا ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو : (فکر مندی سے پوچھتا ہے )

آپ کو کیا ہوا ہے کس چیز کا ٹیسٹ کروایا تھا آپ نے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ارے کچھ نہیں ہوا مجھے بس ہے کوئی ٹیسٹ وہ میں نہیں بتا سکتی تجھے اب بس کوئی اور بات کرو ۔ ۔ ۔ ۔

دونوں ایسے ہی ادھر اُدھر کی باتیں کرتے شہر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے رکشہ کر کے دونوں ڈاکٹر کے کلینک پہنچ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد ماہرہ کو ڈاکٹر کیبن میں بلاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک لیڈی ڈاکٹر تھی جو بےاولاد لوگوں کا علاج کرتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ شیرو کو باہر ہی روکنے کا بول کر اندر چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر ۔ :

آئیں ماہرہ بیٹھیں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

گڈ مارننگ ڈاکٹر پلیز بتائیں میری رپورٹس کیسی ہیں ؟

میں ماں تو بن سکتی ہوں نہ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر :

ارے بیٹھیں تو سہی ۔ ۔ ۔ ۔

دیکھیں میں نے آپ کی ساری رپورٹس چیک کرلی ہیں آپ بالکل پرفیکٹ ہیں آپ میں کوئی کمی نہیں ہے آپ پوری طرح سے صحت مند ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے لگتا ہے کہ کمی آپ کے شوہر میں ہے آپ ایک بار انہیں میرے کلینک لے آئیں ہم ان کو چیک کرلیں گے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اپنی رپورٹس کے بارے میں سن کر خوش ہو جاتی ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ماں بن سکتی ہے مگر ڈاکٹر کی دوسری بات سن کر اس کا چہرہ اُتَر جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

"نہیں ڈاکٹر وہ کبھی نہیں مانے گے بھلا کون مرد اپنی کمزوری مانے گا ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرے شوہر تو ویسے بھی بہت ضدی ہے" ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر :

دیکھیں میڈم آپ کی رپورٹس کے مطابق مجھے سو فیصد یقین ہے کمی آپ میں نہیں آپ کے شوہر میں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے میں ماں بننے کے دو ہی راستے ہیں آپ کے پاس ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

بتائیں ڈاکٹر میں کچھ بھی کروں گی پلیز آپ مجھے ماں بنا دیجیئے ۔ ۔ ۔ ۔ بتائیں کتنے پیسے لگیں گے ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر :

دیکھیں یہ تو ظاہر ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کے شوہر کے اسپرم میں جراثیم کی کمی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے آپ ماں نہیں بن پا رہی ایسے میں سیکنڈ اوپشن یہی ہوتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی دوسرے کے اسپرم کو آپ کی بچہ دانی میں شامل کر کے آپ کو ماں بنایا جائے ۔ ۔ ۔ ۔ اور اِس کام کے لیے میڈیکل سائنس نے آج کل بہت ترقی کر لی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایک چھوٹے سے آپْریشَن کے ذریعے آپ کی بچہ دانی میں اسپرم ڈالا جائے گا اور آپ کو پریگننٹ کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ڈاکٹر اس میں کوئی رسک تو نہیں ہوتا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر :

نہیں رسک والی کوئی بات نہیں ۔ ۔ ۔ ،

ہاں کئی بار ایک بار کی کوشش سے کچھ عورتیں مس بھی ہو جاتی ہیں تو انہیں پھر سے ایک موقع دیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ڈاکٹر اس سے بچہ تو سہی ہوتا ہے نہ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا مطلب ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر :

میں سمجھ گئی ۔ ۔ ۔ دیکھیں بچے میں فطرت تو اس کے ماں باپ سے ہی آتی ہے ۔ ۔ ۔ ، جیسی فطرت اس کے ماں باپ کی ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے ہی بچے میں ہوگی ۔ ۔ ۔ اب ہم اس کے بارے میں تو گارنٹی نہیں دے سکتے نہ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ڈاکٹر اس میں کتنا خرچ آئے گا ؟ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر :

یہی کوئی دو لاکھ سے چار لاکھ روپے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ ڈاکٹر سے آپْریشَن کی فیس سن کر حیران ہو جاتی ہے اور اسے سوچ کر بتانے کا کہہ کر باہر نکل آتی ہے ۔ ۔ ۔ ، ،

باہر شیرو مامی کاانتظار کر رہا تھا جب وہ باہر آتی ہے تو شیرو چپ چاپ اس کے ساتھ چل پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ خاموشی سے فکرمندی میں ڈوبی چلی جا رہی تھی ساتھ میں شیرو بھی چلا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ،

شیرو نے ڈاکٹر کی کیبن کے باہر کھڑے ہو کر ڈاکٹر کی باتیں سن لی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ مگر وہ ظاہر نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی سوال کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جانتا تھا مامی ٹینشن میں ہے اس لئے وہ مامی کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

کیا مامی آپ بھی بس بھاگے جا رہی ہیں آئیں کچھ کھا لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

نہیں شیرو میرا موڈ نہیں ہے تجھے بھوک لگی ہے تو تو کھا لے ۔ ۔ ۔

شیرو :

ایسے کیسے موڈ نہیں ہے آپ کو بھی میرے ساتھ چلنا ہوگا ۔ ۔ ۔ ،

بھول گئی آپ اُس دن آپ نے کیا کہا تھا ؟

ماہرہ :

کب ؟ کیا کہا تھا ؟

شیرو :

ارے میری سالگرہ پر آپ نے کہا تھا نہ کہ آپ کو پارٹی چاہیے !

آج تو موقع ہے چلیں آج میں پارٹی دیتا ہوں اپنے خاص دوست کو ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

نہیں شیرو پھر کبھی آج ہم گھر چلتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو نہیں مانتا اور اپنی قسم دے کر ماہرہ کو ساتھ لے جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ایک ریسٹورانٹ میں ماہرہ بھی اس کا من رکھنے کے لیے چل پڑتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

جہاں دونوں ہلکا پھلکا کھا لیتے ہیں پھر شیرو ماہرہ کو لے کر مارکیٹ میں چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں اسے اپنی پسند کی خوبصورت سی چپل لے کر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جب دونوں شاپ پر چپل لینے جاتے ہیں تو دوکاندار شیرو سے کہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

آئیں بھائی صاحب اپنے لیے لیں گے یا بھابھی کی لیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو شرما جاتا ہے مگر ماہرہ بات سنبھل لیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اصل میں شیرو پہلوانی کرنے کی وجہ سے اپنی عمر سے بڑا لگتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جسم سے بڑی عمر کا نظر آتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور ماہرہ ابھی چوبیس پچیس سال کی دکھتی تھی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ۔ ۔ ۔

اس کے بعد دونوں بس اسٹاپ بس پکڑنے چلے آتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ،

ماہرہ اپنے من میں شیرو کی وجہ سے بہت خوش تھی کہ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ کتنا اچھا کتنا کیئرنگ ہے کیسے اپنی باتوں میں لگا کر اس نے ساری ٹینشن ہی بھلا دی ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسے پتہ ہے کہ اپنے ساتھی کو کیسے خوش رکھنا ہے کتنی انڈر اسٹیڈنگ نیچر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کاش بختیار بھی ایسا ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔

کچھ دیر بعد دونوں بس میں سوار ہو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ بس میں بہت بھیڑ تھی دونوں کو سیٹ نہیں ملتی مجبوری میں کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

دیکھا میں نے کہا تھا نہ واپس چلتے ہیں اب دیکھ کتنی رش ہے اگر اس وقت آتے تو رش نہ ہوتی ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

مامی جی یہ رش تو ہر بس میں ملے گی ہی ۔ ۔ ۔ ،

زرا سوچیں ہم نے آج کیا کیا ۔ ۔ ۔كھانا پینا بھی ہوگیا شاپنگ بھی اور باتیں بھی ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

رہنے دے رہنے دے مجھے مت سمجھا ویسے تھینکس میں بہت خوش ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ تو نے مجھے شاپنگ کروائی اور كھانا بھی کھلایا ریسٹورانٹ میں ۔ ۔ ۔

شیرو :

ارے کیا مامی ہم تو دوست بھی ہیں نہ تو اس میں تھینکس کیسا ۔ ۔ ۔ آپ کو پارٹی تو دینی ہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

دونوں ایسے باتیں کرتے رہتے ہیں پھر اگلے اسٹاپ سے اور لوگ بس میں گھس آتے ہیں ۔ ۔ ۔ رش بڑھ جاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی شیرو پیچھے سے ماہرہ کے ساتھ چپک جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

ماہرہ بھی سمجھتی ہے کہ رش ہی اتنی ہے تو کوئی کیا کرے ۔ ۔ ۔ ۔

ایسے بس چلتی رہتی ہے بس کو جھٹکا لگتا ہے جس کی وجہ سے شیرو ماہرہ کے اوپر گرنے کو ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

ماہرہ شیرو کے وزن سے تھوڑا آگے جھک جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور شیرو کا لنڈ ماہرہ کے چوتڑوں کے درمیان پہنچ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں جب سیدھے ہوتے ہیں تو شیرو کا لنڈ ماہرہ کو اپنی گانڈ کے دراڑ میں محسوس ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

گانڈ کی گرمی سے شیرو کا لنڈ اٹھ گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر شیرو کا ابھی اِس طرف دھیان نہیں گیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ من میں سوچنے لگتی ہے کہ اب کیا کرے ۔ ۔ ۔ اسے شرم آنے لگتی ہے شیرو کو کیسے کہے ۔ ۔ ۔ ۔ دھیرے دھیرے شیرو کے لنڈ میں سختی بڑھتی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ اور وہ پُورا لوہے کی روڈ جیسا سخت سیدھا ماہرہ کی گانڈ کی بیچ میں گھس رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ لنڈ کی سختی سے چُداسی ہونے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آخر کتنے ہفتوں سے وہ چدی نہیں تھی ۔ ۔ ۔ ۔ لنڈ کی گرمی پا کر پھدی نے رونا شروع کر دیا تھا ۔ ۔ ۔

ماہرہ سے گرمی برداشت نہیں ہوتی نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ہوس کے سمندر میں بہنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ اپنی گانڈ کو تھوڑا اوپر اٹھانے کے لیے پاؤں کی ایڑیاں اٹھا لیتی ہے ۔ ۔ ۔ اور آگے کو تھوڑا جھکنے کی کوشش کرتے ہوئے پھدی کو لنڈ کے منہ پر سیٹ کرتی ہے ۔ ۔ ۔

شیرو کو بھی اپنے لنڈ پر جب دباو محسوس ہوتا ہے تو ۔ ۔ ۔ ۔اسے خیال آتا ہے کہ اس کا لنڈ پُوری طرح کھڑا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور مامی کے چوتڑوں میں گھسا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو پسینے میں بھیگنے لگتا ہے اور من میں ڈرنے لگتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔

مامی کیا سوچے گی کتنا گندا ہوں میں جو ایسے ان کا فائدہ اٹھا رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ مگر لاکھ کوششوں کے بعد بھی شیرو کا اپنے آپ پر قابو نہیں تھا اس کا لنڈ تو جیسے بغاوت پر اُتَر آیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ اپنی چوت پر دامدار لوڑے کو محسوس کر کہ لگاتار دباو بنائے جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ اسے تو کسی بھی قیمت پر چدائی چاہیے تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دامدار لنڈ سے اپنی چوت کی ٹھکائی چاہتی تھی وہ ۔ ۔ ۔ اس کا شوہر تو اسے ہاتھ بھی نہیں لگا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ آخر وہ کرے تو کیا کرے ۔ ۔ ۔

شیرو خود کو روک نہیں پا رہا تھا اِس لیے اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی ۔ ۔ ۔ مگر اندر ہی اندر اسے بھی مزہ آنے لگا تھا اور اس نے بھی اپنی کمر کو آگے دھکیلنا شروع کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے ہی دونوں ہوس میں ڈوبتے جا رہے تھے ۔ ۔ ۔ ماہرہ سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا اور کچھ ہی پل میں اس کی چوت کا بندھ ٹوٹ گیا ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی پینتی اس کی پھدی کے پانی سے بھیگ گئی ۔ ۔ ۔ اس کا جسم جھٹکے کھانے لگا اور اسے کھڑا رہنا مشکل ہوگیا ۔ ۔ ۔ ۔ تبھی ساتھ والی سیٹ خالی ہو جاتی ہے اور ماہرہ بےسدھ سی وہیں سیٹ پر گر جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ اپنے اِس مزے کا سواد لے رہی تھی اس کی آنکھیں بند تھی اور منہ سے دبی دبی سسکیاں چھوٹ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو بس حیرانی سے اسے دیکھے جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ منہ پر پسینہ دیکھ کر شیرو فکرمندی سے پوچھتا ہے مامی آپ ٹھیک تو ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ہاں میں ٹھیک ہوں بس کھڑے کھڑے تھک گئی تھی تو زرا چکر آ گیا۔ ۔ ۔ ۔

کچھ لمحے میں ماہرہ نارمل ہو جاتی ہے لیکن اس کی پینٹی سے اس کی منی بہنے لگتی اور اس کی رانوں اور چوتڑوں کو چپچپا کر دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

ماہرہ کے من میں کئی ساری باتیں چل رہی تھی جو اسے سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

ایک طرف اس ڈاکٹر کی باتیں یاد آ رہی تھی کھ ۔ ۔ ۔ ۔ کمی اس کے شوہر میں ہے ۔ ۔ ۔ ، آپْریشَن پر چار لاکھ خرچ آئے گا جو وہ اکھٹا نہیں کر پائے گی ۔ ۔ ۔ اگر کر بھی لیا تو اتنی بڑی رقم کیا کہہ کر دے گی اس کا شوہر پکڑ لے گا ۔ ۔ ۔ ۔

اوپر سے پتہ نہیں کس آدمی کا اسپرم ڈالیں گے ۔ ۔ ۔ کیسی اولاد ہوگی پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہی تھی ۔ ۔ ۔

پھر اس کا من شیرو کا معائنہ کرنے لگتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ شیرو کتنا اچھا ہے ہینڈسم ہے ۔ ۔ ۔

کتنا گھبرو جوان ہے کتنا کیئرنگ ہے ہر ایک گن اس میں ہے جو ایک پرفیکٹ لڑکے میں ہونے چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ اگر شیرو کا اسپرم مل جائے تو اس کا اور شیرو کا بچہ کتنا کیوٹ ہوگا کتنا سمجھدار ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اتنا سوچتے ہی اسے شیرو کے لنڈ کا احساس اپنی چوت پر ہونے لگتا ہے۔ ۔ ۔ اور وہ سوچتی ہے کہ اگر شیرو کا ہی اسپرم شامل کروانا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ ۔

کیوں نہ میں خود شیرو کا اسپرم ڈائریکٹ اپنے اندر لے لوں ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح پیسے بھی بچ جائیں گے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا ۔ ۔ ۔ ۔

مگر شیرو کبھی نہیں مانے گا وہ تو میری اتنی عزت کرتا ہے ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ہائے ہائے یہ میں کیا سوچنے لگی یہ غلط ہے ۔ ۔ ۔ ایسا نہیں ہو سکتا یہ گناہ ہے ۔ ۔ ۔ چھی ۔ ۔ ۔

شیرو بھی اپنے من میں بہت سی باتیں سوچ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ مینا کی باتوں اور ڈاکٹر کی باتوں سے ایک بات کنفرم تھی کہ بختیار ماما باپ نہیں بن سکتے ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے میں ماہرہ مامی بےچاری کی زندگی بانْجھ کے تانوں کو سن سن کر تباہ ہو جائے گی ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر سے ماما باہر منہ مارتا پھیرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

پھر شیرو کے دماغ میں آئیڈیا آتا ہے کہ ۔ ۔ ۔

بختیار کا مینا کے پیچھے جانے کی وجہ شاید بچہ نہ ہونا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں نہ ماما کو کسی طرح راضی کیا جائے کہ ۔ ۔ ۔ وہ مامی کا اور اپنا علاج کروائیں ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا تو وہ مانے گے نہیں مامی کا ہی کروا دیں ۔ ۔ ۔ ۔ تو کم سے کم ایک آپْریشَن سے مامی ماں بن جائے گی اور پھر ماما بھی مینا کے چکر میں نہیں پھنس پائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔

ایسے ہی دونوں اپنی اپنی سوچوں میں کھوئے گھر پہنچ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔

گھر آنے کے بعد تھوڑی دیر آرام کر کے شیرو راجو سے ملنے کے لیے نکل جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ماہرہ بھی نائلہ کے پاس چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

چھوٹی کیا کہا ڈاکٹر نے ؟

ماہرہ :

کچھ نہیں باجی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ۔ ۔ ۔ میں ماں بن سکتی ہوں مجھ میں کوئی کمی نہیں ہے کمی بختیار میں ہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

سچ ؟ اس کا مطلب تم ماں بن سکتی ہو ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

کہاں باجی ۔ ۔ ۔ ۔ ،

بختیار ہی جب مجھے ماں نہیں بنا سکتے تو میں اکیلی ماں کیسے بن سکتی ہوں ۔ ۔ ۔

نائلہ :

ارے اس کا کوئی علاج تو بتایا ہوگا ڈاکٹر نے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

آپ کو تو پتہ یہ مانے گے نہیں ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ : کیسے نہیں مانے گا ۔ ۔ ۔ ، میں سمجھاؤں گی اسے ۔ ۔ ۔ تیرے جیٹھ جی سے کہلواتی ہوں ۔ ۔ ۔ ، بچے کے نام پر دیکھنا کیسے نہیں مانتا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ من میں ۔ ۔ ۔ ۔

( نہیں باجی وہ نہیں مانے گا اب تو وہ مجھے ہاتھ بھی نہیں لگاتا پتہ نہیں کہاں جاتا ہے رات رات)

اُدھر شیرو راجو سے مل کر مینا کو کیسے قابو کرنا ہے اس پر مشورہ کرنے لگتے ہیں ۔ ۔ ۔ مگر کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا انہیں ۔ ۔ ۔ ۔

ایسے ہی رات ہونے لگتی ہے سب اپنے اپنے کمروں میں كھانا کھا کر سونے لگتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار ابھی گھر نہیں آیا تھا ۔ ۔ ۔

شیرو سوچتا ہے کہ کیوں نہ اما کی طبیعت کا پتہ کروں ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے پاؤں میں موچ آئی ہے کم سے کم ان کی مالش تو کر ہی سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

اکھاڑے میں کسی نہ کسی کو موچ تو آتی رہتی ہے ۔ ۔ ۔ استاد جی نے جو سکھایا ہے اس کا استعمال گھر پر بھی تو کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اسی سوچ سے شیرو تیل کی بوتل ساتھ لیے نائلہ کے کمرے میں چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔

 romantic urdu bold novels

new urdu bold novels

urdu bold novels list

most romantic and bold urdu novels list

husband wife bold urdu novels

bold romantic urdu novels kitab nagri

hot and bold urdu novels pdf

most romantic and bold urdu novels

most romantic and bold urdu novels list pdf