منحوس سے معصوم تک
قسط
نمبر 004
اندر
اس کا چھوٹا ماما اور مینا دونوں پورے ننگے تھے شیرو پہلی بار کسی عورت کو یوں
ننگا دیکھ رہا تھا اسے پسینہ آنے لگتا ہے اور اِس نظارے سے اس کا لنڈ پھنکار اٹھتا
ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اندر
چھوٹے ماما مینا کے مموں کو کس کر مسل رہے تھے اور مینا کی سیسکاریاں نکل رہی تھی ۔
۔ ۔ ۔
مینا :
آہ
۔ ۔ ۔ سائیں ۔ ۔ ایسے ہی مسلو ۔ ۔ آہ ۔ ۔ زور سے مسلو ۔ ۔ ۔ تبھی تودودھ اترے گا
ان میں آں ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔
بختیار :
فکر
نہ کر مینا ان میں اتنا دودھ بھر دوں گا کہ کبھی کمی نہیں ہوگی بچے کو دودھ کی ۔
۔ ۔
مینا :
آہ
۔ ۔ او ۔ ۔ سائیں ایسے ہی رگڑو ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ کمی نہیں ہونی چاہیے ۔ ۔ آہ
۔ ۔ آپ کے ہونے والے بچے کو دودھ
کی کمی نہیں ہونے دوں گی ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ اوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلو زور سے ۔ ۔ ۔
مینا
کی بات سن کر شیرو حیران ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔
شیرو
(من میں ) :
یہ
کیا ڈرامہ ہے کیا مینا ماما کے بچے کی ماں بننے والی ہے مگر یہ تو پہلے سے ہی شادی
شدہ ہے
۔ ۔ ۔
بختیار
:
ہاں
میری رانی میرے بچے کو کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے دیکھنا بیٹا ہی ہوگا ۔
۔ ۔ ۔
تو
مجھے میرے خاندان کا وارث دے میں تجھے پیسوں میں تول دوں گا ۔
۔ ۔ ۔
مینا :
آہ
۔ ۔ ۔ باتیں ہی کرتے ہو کرتے کچھ نہیں ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ اوں ۔ ۔ ۔
میں
آپ کے لیے اتنا کر رہی ہوں آپ کے لیے بیٹا پیدا کروں گی مگر آپ میرا خیال ہی نہیں
رکھتے ۔ ۔ ۔ اوں ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ س س ۔ ۔ ۔ ۔
بختیار
:
بول
کیا چاہیے تجھے ۔ ۔ ۔ ،
تیرے
ایک حکم پر ہر چیز تیرے قدموں میں لا کر رکھ دوں گا ۔ ۔ ۔
مینا :
رہنے
دو باتیں آں ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ اوھ ۔
۔ ۔
تم
تو کہہ رہے تھے تمہیں سونے کا ہار دوں گا وہ تو آیا نہیں ابھی تک ۔
۔ ۔ ۔
بختیار :
ہار
تو لے آیا ہوں میری رانی ۔ ۔ ،
تیرا
حکم ہو اور میں پُورا نہ کروں ۔ ۔ ۔
اتنا
کہہ کر بختیار اپنے کپڑوں سے سونے کا ہار نکالتا ہے اور مینا کو پہنا دیتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
مینا :
کتنا
پیارا ہے یہ ۔ ۔ ۔
دیکھنا
آپ کا بھی ایسا ہی چمکدار بچہ پیدا ہوگا میری اِس چوت سے ۔ ۔ ۔ ۔
اتنا
کہہ کر مینا ٹانگیں پھیلا کر اپنی چوت رگڑ کر دیکھانے لگتی ہے ۔
۔ ۔
وہیں
شیرو کے تو ہوش ہی گم تھے مینا کی اداؤں کو دیکھ کر شیرو کا ہاتھ اپنے آپ لنڈ پر
چلا جاتا ہے اور وہ اسے مسلنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔
بختیار :
ہاں
میرے ہونے والے بچوں کی ماں ہمارا بیٹا ایسا ہی چمکدار ہوگا تیری یہ چوت لاجواب ہے ۔
۔ ۔ ۔
اسی
چوت سے میرا بیٹا پیدا ہوگا ۔ ۔ ۔
یہ
کہہ کر بختیار مینا کی چوت کو مسلنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
مینا :
آں
۔ ۔ س س ۔ ۔ ۔ اف ف ۔ ۔ بس بھی کرو اب برداشت نہیں ہوتا جلدی سے مجھے ٹھنڈا کرو
اور اپنے بیٹے کو طاقت دو ۔ ۔ ۔ ۔
بختیار
مینا کو وہیں رکھی چارپائی پر لیٹا کر اس کی ٹانگوں کو اوپر اُٹھا کر اس کی چوت
میں لنڈ گھسا دیتا ہے ۔ ۔ ۔
مینا :
آہ ۔
۔ ۔ دھیرے کرو آپ کا لوڑا تو جان
نکل دیتا ہے ۔
۔ ۔
آہ
۔ ۔ اف ف
۔ ۔ پتہ نہیں آپ کی بیوی کیسے
لیتی ہے اسے ۔
۔ ۔ ۔
بختیار :
اس
کی بات مت کر بانْجھ کمینی اتنے سالوں میں ایک بچہ نہیں دے پائی مجھے ۔
۔ ۔ ۔
مینا :
آں
۔ ۔ ۔ س س س ۔ ۔ ۔ ایسے ہی زور سے کرو اور زورر سے ۔ ۔ اف ف ف ۔ ۔ ۔
بختیار :
لے
میری رانی اور زور سے یہ لے ۔ ۔ ۔
ٹھپ
ٹھپ ۔ ۔ ٹھپ ٹھپ ۔ ۔ ۔
ایسی
آوازیں گونجبے لگتی ہیں شیرو کو اور برداشت نہیں ہوتا اور وہ الٹے پاؤں بھاگ جاتا
ہے ۔ ۔ ۔ ۔
راجو
شیرو کا انتظار کر کے چلا گیا تھا اس نے سوچا کہ شیرو چلا گیا ہوگا ، ،
شیرو
بھی پسینے سے بھیگا ہوا تیز قدموں سے گھر پہنچ کر سیدھا اپنے کمرے میں گھس جاتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
اپنے
کمرے میں بیڈ پر لیٹا ہوا شیرو چھوٹے ماما اور مینا کی چدائی کو یاد کر رہا تھا ۔
۔ ۔ ۔
اس
کی آنکھوں کے سامنے وہ سب بار بار گھوم رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
زندگی
میں پہلی بار آج اس نے کسی عورت کا ننگا جسم دیکھا تھا اور چدائی کا منظر تو اس کی
آنکھوں کے سامنے ابھی بھی چل رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
کا خود پر کنٹرول نہیں تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کے جسم میں اتنی بےچینی
کیوں ہو رہی ہے اس کا لنڈ تو جیسے پھٹا جا رہا تھا کتنی ہی دیر تک شیرو آج کی
چدائی کے سین کو یاد کرتے ہوے اپنے لنڈ کو مسلتا رہتا ہے ۔ ۔ ۔ ،
تبھی
اس کے دماغ میں مینا اور بختیار کی باتیں یاد آتی ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔
مینا
بختیار ماما کے بچے کی ماں بننے والی ہے اور مینا کو خوش کرنے کے لیے سونے کا ہار
لائے تھے
۔ ۔ ۔
شیرو
: (من میں )
اس
کا مطلب چھوٹے ماما حساب میں گڑبڑ کر کے سارا پیسہ مینا پر لوٹا رہے ہے۔ ۔
۔
اگر
ایسے ہی چلتا رہا تو ماما سب کچھ لوٹا دیں گے اور جب بڑے ماما اور سرور ماما کو
پتہ چلا تو گھر ٹوٹ جائے گا ۔ ۔ ۔ ، ،
پھر
شیرو کی آنکھوں کے سامنے چھوٹی مامی کا خوبصورت معصوم چہرہ آ جاتا ہے ۔
۔ ،
کتنی
پیاری ہے وہ کتنی خوبصورت ہے ماما کا تو دماغ خراب ہوگیا ہے جو مامی کو چھوڑ کر اس
مینا کے چکر میں گھوم رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
جب
مامی کو ماما اور مینا کا پتہ چلے گا تو ان کے دِل پر کیا گزرے گی ۔
۔ ۔
ان
کی تو دنیا ہی تباہ ہو جائے گی ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
خود سے :
نہیں
نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا مجھے ماما کو کسی بھی طرح روکنا ہوگا ۔
۔ ۔ ۔
پھر
ماما کی بات اسے یاد آتی ہے کہ چھوٹی مامی ایک بچہ نہیں پیدا کر سکتی وہ بانجھ ہے ۔
۔ ۔
شیرو
کو یہ بات بہت بری لگتی ہے اور وہ اپنے کمرے سے نکل کر سیدھا چھوٹی مامی کے کمرے
کی طرف چل پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
کمرے
میں چھوٹی مامی اکیلی بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
دیکھتا ہے کہ مامی کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی ہے کہیں مامی کو کچھ پتہ تو نہیں چل گیا
ماما کے بارے میں ۔ ۔ ۔ ۔
اِس
وقت مامی کا چہرہ اُداس تھا مگر پھر بھی کتنا معصوم تھا اب تو شیرو کو اپنے ماما
پر غصہ آنے لگا تھا مگر پھر شیرو آگے بڑھتا ہے اور مامی کو آواز دیتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
شیرو :
کہاں
کھوئی ہو مامی میں کب سے آپ کو بلا رہا ہوں اور آپ ہو کہ سن ہی نہیں رہی ۔
۔ ۔ ۔
شیرو
کی آواز سے ماہرہ اپنی سوچ سے باہر آتی ہے اور ہڑبڑا کر جواب دیتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
کیا
۔ ۔ ۔ کیا کہا تم نے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
میری
پیاری مامی کس سوچ میں گم ہو ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
کسی
سوچ میں نہیں میں تو بس ایسے ہی بیٹھی ہوں ۔ ۔ ۔
شیرو :
ویسے
مامی آپ مجھ سے تو سب پوچھ لیتی ہو دوستی کے نام پر مگر مجھے کچھ نہیں بتاتی ۔ ۔ ۔
۔ ۔ اب سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
نہیں
نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں بس وہ اپنے امی ابو کے بارے میں سوچ رہی تھی بڑے دن
ہوئے ان سے نہ بات ہوئی نہ کوئی خبر ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
سمجھ جاتا ہے بات کچھ اور ہے مامی بات کو ٹال رہی ہے ۔ ۔ ۔
شیرو :
تو
ایسا کریں آپ اپنے میکے چکر لگا آئیں ماما کو ساتھ لے جا کر ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
اپنے من میں :
وہ
تو اب میری شکل بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے اب تجھے کیا بتاؤں میری تو دنیا ہی اجڑ
گئی ہے
۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
وہ
کیا ہے نہ تیرے ماما کو بہت کام ہوتا ہے آج کل اس لئے وہ نہیں جا سکتے ۔
۔ ۔ ،
ویسے
بھی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے میکے جانے کی وہ تو بس ایسے ہی آج ان کی یاد آ رہی
تھی ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
مامی
آپ کو میری قسم سچ سچ بتاؤ بات کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
اپنی
قسم مت دے شیرو پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دے ۔ ۔ ۔ ۔
اتنا
کہہ کر چھوٹی مامی رونے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
سے ان کا رونا دیکھا نہیں جاتا اور وہ آگے بڑھ کر مامی کو گلے لگا لیتا ہے اور
انہیں چُپ کروانے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
مامی
اگر آپ کی نظروں میں میری کوئی قیمت ہے تو پلیز مجھے بتائیں کہ ۔
۔ ۔ ۔
آخر
کیا بات ہے اگر آپ مجھے واقعی دوست مانتی ہیں تو دوستی کے ناتے ہی سہی بتا دیجیئے ۔
۔ ۔ ۔ ،
میں
آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا پلیز آپ کو میری قسم مجھے بتائیں آخر بات
کیا ہے
۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
: (روتے ہوئے )
میں
کیسے بتاؤں تجھے میری تو دنیا ہی اجڑ گئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
میں
ایک بانجھ ہوں بانجھ ۔ ۔ ۔ ۔
جو
ایک بچہ پیدا نہیں کر سکتی میں عورت کے نام پر دھبہ ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
اِس
گھر کو ایک وارث تک نہیں دے پائی اور اسی وجہ سے اب تیرے ماما میرے پاس تک نہیں
آتے ۔ ۔ ۔ ۔
وہ
اب میری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتے ۔ ۔ ۔ ،
میری
زندگی برباد ہو گئی اگر تیرے ماما نے مجھے گھر سے نکال دیا تو میں کہاں جاوں گی
میرا کیا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ،
میں
تو میکے بھی نہیں جا سکتی وہ بےچارے تو پہلے ہی دو وقت کی روٹی مشکل سے کھاتے ہیں
میں اپنا منحوس چہرہ لے کر ان کے پاس بھی نہیں جا سکتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ
کہتے ہوئے مامی اور بھی زیادہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
کا کلیجہ پھٹا جا رہا تھا مامی کی باتوں کو سنتے ہوئے اور اس کی آنکھوں میں خون
اُتَر آیا تھا اپنے چھوٹے ماما اور مینا کے نام پر ۔ ۔ ۔
شیرو :
میرے
ہوتے ہوے ایسا کچھ نہیں ہوگا میں دیکھتا ہوں کیسے ماما آپ کو گھر سے نکالتے ہیں ۔
۔ ۔ ،
اور
کون کہتا ہے کہ آپ بانجھ ہو آج کل دنیا میں ہر چیز کا علاج ہے آپ ڈاکٹر کو
دیکھائیں دیکھ لینا آپ بھی ماں بن جاو گی ۔ ۔ ۔ ،
آپ
تو پڑھی لکھی ہیں پھر بھی آپ ایسی باتوں پر اپنا قصور نکال رہی ہے آپ کل ہی شہر جا
کر اپنا ٹیسٹ کروائیں ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
کے آنسوں تھامنے لگتے ہیں اور اس کے دماغ میں بھی یہ بات گھس جاتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
آخر
سہی تو کہا تھا شیرو نے آج کل بھلا کس بیماری کا علاج نہیں ہوتا ۔
۔ ۔ ،
اتنی
پڑھی لکھی ہو کر بھی کیسے جاہلوں جیسا سوچنے لگی تھی وہ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
: ( آنسوں پونچھتے ہوئے )
تو
سہی کہہ رہا ہے میں جاوں گی ڈاکٹر کے پاس یہ بات پہلے کیوں نہیں آئی میرے دماغ میں ۔
۔ ۔ ۔
شیرو :
بالکل
ابھی آپ رونا بند کرو کیونکہ آپ روتی ہوئی بندریا لگتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
شیرو کی بات سن کر ہنسنے لگتی ہے اور اسے ہلکے ہاتھ سے مارتے ہوئے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
کیا
کہا بندریا لگتی ہوں ٹھہر تجھے ابھی بتاتی ہوں میں ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
ارے
سوری سوری مامی جی سچ تو یہ ہے کہ آپ کے چاند سے چہرے پر یہ آنسوں کسی گرہن کے
جیسے لگتے ہیں ۔ ۔ ۔
آپ
بس ہنستی رہا کیجیے جب آپ ہنستی ہے تو لگتا ہے جیسے باغوں میں بہار آ گئی ہو ۔
۔ ۔ ۔
پلیز
آپ ان آنکھوں میں کبھی آنسو مت لایا کرو میرے لیے آپ ہنستی رہا کرو ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
: ( شرما کر )
دھت ۔
۔ ۔ ۔ ، ایسی باتیں تو صرف مہوش کو
سنایا کر ۔
۔ ۔ ،
میں
تیری مامی ہوں گرل فرینڈ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
ارے
مامی اس میں گرل فرینڈ والی بات کہاں سے آ گئی میں نے تو بس وہی کہا جو سچ ہے ۔
۔ ۔ ۔
اگر
آپ کو اپنی تعریف اچھی نہیں لگی تو دوبارہ سے نہیں کرتا ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
اپنی
تعریف بھلا کسے اچھی نہیں لگتی ایسے تو تیرے ماما نے بھی کبھی میری تعریف نہیں کی ۔
۔ ۔ ۔
واقعی
میں شیرو تم بہت اچھے ہو آج سے میں اپنی ہر بات تم سے ڈسکس کروں گی تم آج سے میرے
بیسٹ فرینڈ ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پھر
دونوں ہاتھ ملاتے ہیں تھوڑی دیر ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد شیرو راجو سے
ملنے کا کہہ کر گھر سے نکل جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
کے جانے کے بعد ماہرہ سوچنے لگتی ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
کتنا اچھا ہے اور کتنا ہینڈسم بھی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش
اگر شیرو سے اتنی امپریس ہے تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں شیرو کی ایسی نیچر اور
اخلاق کی وجہ سے کوئی بھی لڑکی کیسے خود کو روک سکتی ہے شیرو کو چاہنے سے ۔
۔ ۔ ،
شیرو
کے بارے میں سوچتے ہوئے من ہی من ماہرہ بھی جیسے شیرو کو اب چاہنے لگی تھی ۔
۔ ۔
اُدھر
شیرو گھر سے نکل کر راجو کے پاس جاتا ہے اور راجو کو لے کر نہر کے کنارے چلا جاتا
ہے ۔ ۔ ۔ ۔
راجو :
یار
کچھ بتائے گا بھی کے بات کیا ہے ۔ ۔ ۔
شیرو :
کیسے
بتاؤں یار بتانے میں بھی شرم آ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
راجو :
ایسی
کون سی بات ہے جو تجھے مجھ سے شرم آ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
بات
ہی کچھ ایسی ہے ۔ ۔ ۔
راجو :
دوستوں
سے شرمانا اچھی بات نہیں چل سیدھا بات بتا کیا مسلہ ہے ۔ ۔ ۔
شیرو :
تجھے
مینا کا پتہ ہے ؟ ۔ ۔ ۔
راجو :
کون
مینا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
وہی
یار جو اپنے کھیتوں کے پاس بنے گھر میں رہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،
جس
کا شوہر ہمارے ہی کھیتوں میں مزدوری کرتا ہے ۔ ۔ ۔
راجو :
وہ
سانولی سی ۔ ۔ ۔ جس کی گانڈ باہر کو نکلی رہتی ہے ۔ ۔ ،
تیرا
کیا مسلہ ہے اس کے ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
میرا
کیا مسلہ ہوگا اس سے ۔ ۔ ۔ ،
مجھے
لگتا ہے وہ چالو قسِم کی عورت ہے اور چھوٹے ماما کو اپنے چکر میں پھنسا کر لوٹ رہی
ہے ۔ ۔ ۔ ۔
راجو :
او
تیری تو
۔ ۔ ۔ ،
یہ
تو کیا کہہ رہا ہے ۔ ۔ ۔ ،
تجھے
کیسے معلوم کیا تو نے کچھ دیکھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
آج
جب ہم نہر کے کنارے گئے تھے تب میں نے اسے ماما کے ساتھ جنگل میں جاتے دیکھا ۔
۔ ۔ ۔
اور
پھر شیرو ساری بات راجو کو بتا دیتا ہے جو اس نے دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔
راجو
کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
راجو :
کمینی
رنڈی پھدی کے راستے پیسہ جمع کر رہی ہے اس کا تو کچھ کرنا پڑے گا ۔
۔ ۔ ۔
شیرو :
اور
وہ ماما کو بول رہی تھی کہ وہ ماما کے بچے کی ماں بننے والی ہے ۔
۔ ۔ ۔
راجو
: ( حیرانی سے )
اس
کی ماں کی ۔ ۔ ۔ کمینی یہ تو ایسے تمھارے کھیتوں کو اپنے نام کروا لے گی ۔
۔ ۔
شیرو :
یہی
تو میں بھی سوچ رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ،
ماما
تو اس کے بھروسے میں ہی سب کچھ دیتا جائے گا اور بےچاری چھوٹی مامی کی زندگی برباد
ہو جائے گی
۔ ۔ ۔ ۔
اور
میں جیتے جی یہ سب نہیں ہونے دوں گا ۔ ۔ ۔ ۔
راجو :
تو
بس بول کیا کرنا ہے پھر دیکھتے ہیں اِس رنڈی کو کون بچاتا ہے۔ ۔
۔ ۔
شیرو :
سب
سے پہلے تو ایک کام کر آج سے تو مینا پر نظر رکھ اس کی ساری تفصیل پتہ کر اور ہو
سکے تو کسی اور سے بھی مدد لے لینا مگر ماما کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں چلنا
چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔
راجو :
تو
فکر نہ کر تیرے گھر کی عزت میری عزت ہے میں سب پتہ کرتا ہوں ۔
۔ ۔ ۔
شیرو :
مجھے
صرف تم پر ہی بھروسہ ہے میرے یار بڑے ماما سے بھی کچھ نہیں کہہ سکتا نہیں تو گھر
میں لڑائی جھگڑا ہو جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔
راجو :
میں
سب سمجھتا ہوں تو فکر نہ کر میں اس کی پوری تفصیل نکال کر تجھے بتاؤں گا تو بس
پریشان نہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
اور راجو تھوڑا ادھر اُدھر کی باتیں کر کے گھر لوٹ جاتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔
ادھر
گھر میں ماہرہ بھی نائلہ سے بات کرتی ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ
ایک بار ڈاکٹر سے اپنا علاج کروانا چاہتی ہے تاکہ وہ بھی ماں بن سکے ۔
۔ ۔ ۔
نائلہ
ماہرہ کو حامی بھر دیتی ہے اور ماہرہ نائلہ کو اس کے ساتھ کل شہر چلنے کو راضی کر
لیتی ہے
۔ ۔ ۔ ۔
ایسے
ہی دن گزر جاتا ہے اور رات كھانا کھانے کے بعد سب اپنے کمروں میں سو جاتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔
اگلے
دن صبح اپنی روٹین کے مطابق شیرو اکھاڑے سے لوٹ کر كھانا کھا کر اسکول چلا جاتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
اور
پیچھے سے نائلہ ماہرہ کے ساتھ شہر چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اسکول
میں مہوش لنچ بریک میں شیرو سے ملتی ہے دونوں الگ الگ کلاس میں تھے اس لئے لنچ
بریک میں ہی مل سکتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش :
سنو
آپ کیا آج مجھے نہر کے کنارے ملے گے دوپہر کو ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
کوئی
کام تھا کیا ۔ ۔ ۔ ،
یہیں
بتا دو
۔ ۔ ۔
مہوش
:
وہ
۔ ۔ ۔ وہ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی
تھی
شیرو
:
بات
تو تم اب بھی بتا سکتی ہو ۔ ۔ ۔ ،
کہو
کیا بات ہے
۔ ۔ ۔ ۔
مہوش :
آپ
سمجھیں نہ
۔ ۔ ۔ ،
وہ
بات یہاں نہیں بتا سکتی ۔ ۔ ۔
شیرو :
ایسی
کون سی بات ہے جو یہاں نہیں بتا سکتی ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش :
دراصل
میں آپ سے اکیلے میں ملنا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔
شیرو :
تو
یہ بات ہے
۔ ۔ ۔ ، مطلب پھر سے مجھے گلے لگنا
چاہتی ہو ۔
۔ ۔
مہوش
شرما جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
میں
نہیں آؤں گا ملنے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش
: ( چونک کر )
کیوں
؟ کیوں نہیں آؤ گے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
کیوںکہ
تم تو وہاں بھی ایسے ہی شرماتی رہو گی تو پھر بات کیا کرو گی۔ ۔
۔ ۔ ۔
مہوش
: ( شرما کر )
آپ
مجھے تنگ کر رہے ہے نہ ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
اچھا
اچھا ٹھیک ہے آ جاؤں گا مگر میری ایک شرط ہے ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش :
وہ
کیا ۔ ۔ ۔
شیرو :
مجھے
ایک پپی دینی ہوگی تبھی میں آؤں گا ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش
: ( شرما کر )
بھلا
ایسی بات کرتا ہے کوئی ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
:
منظور
ہے تو بولو ورنہ میں نہیں آؤں گا ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش
: ( اٹھتے ہوئے )
ٹائم
سے آ جانا
۔ ۔ ۔ ۔
یہ
کہہ کر مہوش بھاگ جاتی ہے اور شیرو اس کی معصوم اداؤں کو سوچ کر مسکرانے لگتا ہے ۔
۔ ۔
اور
اس کے ساتھ ہی لنچ ٹائم ختم ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
چھٹی
کے بعد شیرو گھر آتا ہے تو اسے بڑی مامی اور چھوٹی مامی دونوں ہی گھر نظر نہیں آتی
تو ۔ ۔ ۔ ۔
ان
کا پوچھنے کے لیے شیرو دیبا مامی کے کمرے میں چلا جاتا ہے دروازہ کھلا تھا اس لئے
سیدھا اندر گھس جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اندر
گھوستے ہی شیرو کا منہ کھلا رہ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
سامنے
دیبا مامی اپنے کپڑے بَدَل رہی تھی ۔ ۔ ۔
اِس
وقت ان کے جسم پر صرف شلوار اور بلائوز تھا ۔ ۔ ۔
دروازے
کی طرف اس نے پشت کی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
ابھی اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ دیبا اپنی شلوار کا ناڑا کھول دیتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
اور
شلوار اس کے پاؤں میں گر جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شلوار
کے اندر اس نے لال پینٹی پہنی ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ،
کیا
گانڈ تھی ابھری ہوئی لال پینٹی میں قاتلانہ لگ رہی تھی نیچے گوری گوری رانیں ۔
۔ ۔ ۔
شیرو
کے نیچلے حصے میں جیسے فائر کرنے کے لیے مزائیل بلکل تیار پوزیشن میں تھا ۔
۔ ۔ ،
شیرو
کا لنڈ تو سامنے کا نظارہ دیکھ کر باہر آنے کو مارا جا رہا تھا ۔
۔ ۔ ۔
اور
شیرو کی حالت تو ایسی تھی جیسے سانپ سونگھ گیا ہو منہ کھلا تھا آنکھیں باہر ۔
۔ ۔ ۔
سامنے
دیبا نیچے جھک کر شلوار اُٹھاتی ہے جس سے اس کی گانڈ اور بھی ابھر آتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
شیرو
سے اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا مشکل ہو جاتا ہے اپنی ہمت کو اکھٹا کر کے وہ جلدی سے
کمرے سے نکل جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
مگر
دیبا کو احساس ہو جاتا ہے کہ ابھی کوئی جیسے کمرے سے بھاگ کر گیا ہو ۔
۔ ۔
وہ
جھٹ سے باہر نکل کر دیکھتی ہے تو شیرو اسے گھر سے باہر جاتا دِکھ جاتا ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔
دیبا
: ( من میں )
منحوس
حرامی کہیں کا مجھے ننگا دیکھ رہا تھا آج تجھے بتاتی ہوں ۔ ۔ ۔ ،
تیری
کھال نہ اتروا دی تو میرا نام دیبا نہیں ۔ ۔ ۔ ۔
اُدھر
شیرو گھر سے بھاگ کر سیدھا نہر کے کنارے پہنچ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اس
کا دِل جیسے ریل گاڑی سے بھی تیز بھاگ رہا تھا چہرہ پسینے سے بھیگ گیا تھا ۔
۔ ۔
اس
کی آنکھوں میں ابھی بھی دیبا مامی کی گانڈ اور مخملی رانیں نظر آ رہی تھی ۔
۔ ۔
کیا
خوبصورت گانڈ تھی ۔ ۔ ۔ ،
اگر
تھوڑی دیر اور ٹھہر جاتا تو کیا پتہ مامی پینٹی بھی اُتَار دیتی ۔
۔ ۔ ۔
پھر
تو آج ہارٹ ہی فیل ہو جانا تھا اس کا کتنی زبردست گانڈ ہے مامی کی ۔
۔ ۔
مامی
جتنا مجھ سے غصہ رہتی ہے اسے کہیں زیادہ قدرت نے انہیں خوبصورت بنایا ہے ۔
۔ ۔ ۔
پتہ
نہیں کب تک شیرو اپنے خیالوں میں ہی کھویا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔
اچانک
اسے کسی نے ہلایا اور وہ جیسے دنیا میں لوٹ آیا ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش
:
کیا
ہوا آپ کو کب سے آواز دے رہی ہوں آپ جواب ہی نہیں دے رہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
:
ک
ک ک ۔ ۔ ۔ کچھ بھی تو نہیں ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش
:
جھوٹ
مت بولو میں کب سے آواز دے رہی تھی آپ سن ہی نہیں رہے تھے ۔
۔ ۔
شیرو :
ارے
کچھ نہیں میں تو بس تمھارے ہی بارے میں سوچ رہا تھا ۔ ۔ ۔
مہوش
: ( شرما کر )
میرے
بارے میں
۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
:
ہاں
سچ ۔ ۔ ۔
مہوش
:
میرے
بارے میں کیا سوچ رہے تھے ۔ ۔ ۔
شیرو :
یہی
کہ آج تم مجھے ہونٹوں پر پپی دو گی تو کتنا مزہ آئے گا ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش
:
ہاۓ ۔
۔ ۔ ، بے شرم جائیں میں نہیں بات کرتی آپ سے میں جا رہی ہوں۔ ۔ ۔ ۔
یہ
کہہ کر مہوش موڑنے لگتی ہے تو شیرو اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیتا ہے اور اپنے سینے
سے لگا لیتا ہے ۔ ۔ ۔
شیرو
:
بس
اتنا ہی پیار ہے مجھ سے ایک کس تک نہیں دے سکتی مجھے ۔ ۔ ۔ ،
ٹھیک
ہے تو جاؤ میں بھی چلتا ہوں ۔ ۔ ۔
یہ
کہہ کر شیرو مہوش کو چھوڑ کر آگے بڑھنے لگتا ہے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش
شیرو کے پاؤں میں گر جاتی ہے اور کہتی ہے ۔ ۔ ۔
مہوش
: ( نم آنکھوں سے
)
میں
تو مذاق کر رہی تھی یہ دِل یہ جسم سب آپ کا ہی تو ہے میں آپ کو بھلا کیسے منع کر سکتی
ہوں ۔ ۔ ۔
مہوش
کی یہ بات سن کر اور اس کی آنکھوں کی نمی دیکھ کر شیرو پگھل جاتا ہے اور اسے اُٹھا
کر گلے سے لگا لیتا ہے ۔ ۔ ۔
شیرو :
پاگل
میں تو مذاق کر رہا تھا تم تو رونے لگی ۔ ۔ ۔
مہوش
:
آپ
نہیں جانتے میں آپ کو کتنا پیار کرتی ہوں آپ اگر مجھ سے روٹھ گئے تو میرا کیا ہوگا ۔
۔ ۔ ۔
شیرو :
ارے
پگلی تم سے بھلا کوئی روٹھ سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
یہ
کہہ کر شیرو مہوش کو کس کر اپنے سینے میں بھینچ لیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
دونوں
یوں ہی کچھ پل ایک دوسرے کے پیار میں ڈوبے ایک دوسرے کے گلے ملے کھڑے رہتے ہیں ۔
۔ ۔
شیرو
:
تو
اب مجھے میرا انعام ملے گا یا نہیں ۔ ۔ ۔
مہوش
:
مجھے
شرم آتی ہے آپ ہی لے لیجیے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
:
پکا
لے لوں
۔ ۔ ۔ ،
ناراض
تو نہیں ہوگی پھر ۔ ۔ ۔
مہوش
:
بالکل
بھی نہیں
۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
مہوش کو تھوڑا پیچھے ہٹا کر اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیتا ہے ۔
۔ ۔
اور
دھیرے دھیرے اپنا چہرہ اس کے چہرے پر جھکانے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش
کی آنکھیں ابھی بند ہی تھی شیرو کے ہونٹ مہوش کے ہونٹوں کے پاس آتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔
مہوش
کو شیرو کی گرم سانسیں محسوس ہونے لگتی ہیں اور اس کا جسم کانپنے لگتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
تبھی
اسے اپنے ہونٹوں پر شیرو کے گرم ہونٹوں کا احساس ہوتا ہے ۔ ۔ ۔
یہ
اس کے زندگی کی پہلی چومی تھی مہوش تو جیسے ہوا میں اُڑ رہی تھی اسے کچھ احساس ہی
نہیں تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ
کہاں ہے کہاں نہیں وہ تو بس مزے کی وادیوں میں کھوتی جا رہی تھی ۔
۔ ۔ ۔
شیرو
نے بھی پہلی بار ایسا نرم اور دلکش احساس محسوس کیا تھا مہوش کے ہونٹ جیسے
اسٹرابیری کی طرح ملائم اور رسیلے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
تو بس مزے سے اس کے ہونٹوں کا رس نچوڑنے میں لگا ہوا تھا دونوں تب تک ایک دوسرے کے
ہونٹ چوستے رہے جب تک کی ان کی سانسیں نہیں اُکھاڑ گئی۔ ۔ ۔ ۔
جب
سانس لینے کے لیے دونوں الگ ہوئے تو جیسے انہیں ہوش آیا ۔ ۔
۔ ،
مہوش
خود کو سنبھلتے ہوئے جلدی سے وہاں سے ہنستی مسکراتی ہوئی بھاگ جاتی ہے۔ ۔
۔ ۔
اور
شیرو اسے جاتا ہوا دیکھتا رہتا ہے اور سوچتا ہے۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
کتنی
بھولی اور چنچل ہے مہوش ۔ ۔ ۔ ،
اس
کی معصومیت پر تو سب قربان کر دوں ۔ ۔ ۔ ۔
پھر
شیرو راجو سے ملنے چلا جاتا ہے اور اسے مینا کے کام کے بارے میں پوچھتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
مگر
ابھی کچھ پتہ نہیں چلا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
شام
ہونے سے پہلے شیرو گھر لوٹ آتا ہے ۔ ۔ ۔
گھر
آتے ہی دیبا مامی ڈنڈے سے شیرو کی پٹائی شروع کر دیتی ہے گھر پر اِس وقت اور کوئی
نہیں تھا
۔ ۔ ۔
ماما
لوگ باہر دوستوں میں تھے اور بڑی مامی اور چھوٹی مامی کہیں باہر گئی تھی ۔
۔ ۔ ۔
دیبا
تو جیسے آج اگلا پچھلا سارا حساب کر دینا چاہتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ،
شیرو
چیلاتا رہتا ہے مگر دیبا نے اس کی ایک نہیں سنی ۔ ۔ ۔ ۔
ویسے
تو شیرو دیبا سے کہیں زیادہ طاقتور تھا مگر اس کی پرورش اسے جواب دینے نہیں دے رہی
تھی ۔ ۔ ۔ ۔
مگر
دیبا تو جیسے اس کی ہڈی پسلی توڑ دینا چاہتی تھی وہ لگاتار مارتی جا رہی تھی ۔
۔ ۔ ۔
اور
شیرو زور زور سے چیخ رہا تھا ۔ ۔ ۔
شیرو
:
مامی
پلیز مت مارو پلیز آخر مار کیوں رہی ہو میں نے ایسی کیا غلطی کر دی مت مارو مامی
پلیز مت مارو ۔ ۔ ۔ ۔
دیبا :
کمینے
حرامزادے شرم نہیں آتی مجھے ننگا دیکھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ حرامی آج تجھے بتاتی ہوں منحوس
کہیں کہ
۔ ۔ ۔ ۔
میری
زندگی برباد کر کے رکھ دی ہے تو نے اور اب مجھ پر گندی نظر رکھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لے
اور لے
۔ ۔ ۔ ۔
یہ
کہہ کر دے دانہ دان پھر سے ڈنڈے سے پیٹنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ،
دیبا
کی باتوں سے شیرو اتنا تو جان گیا تھا کہ ۔ ۔ ۔ مامی کو پتہ چل گیا کہ ۔ ۔ ۔ دوپہر کو میں نے انہیں کپڑے بدلتے دیکھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
تبھی
باہر کا دروازہ کھلتا ہے اور نائلہ اور ماہرہ گھر میں داخل ہوتی ہیں ۔
۔ ۔
سامنے
کا نظارہ دیکھ کر دونوں کے ہوش اُڑ جاتے ہیں شیرو نیچے زمین پر پڑا تھا اور دیبا
ڈنڈے سے اسے ایسے پیٹ رہی تھی جیسے کوئی کپڑے دھوتا ہے ڈنڈے سے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
بھاگ کر دیبا کے ہاتھ روک لیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور نائلہ شیرو کو سینے سے
لگا لیتی ہے ۔
۔ ۔
ماہرہ
: ( غصے سے )
یہ
کیا کر رہی ہو باجی ۔ ۔ ۔ ،
دماغ
تو ٹھیک ہے آپ کا کیوں مار رہی ہو بےچارے کو ۔ ۔ ۔ ۔
دیبا
: ( غصے میں )
بیچ
میں سے ہٹ جا چھوٹی آج میں اس کی کھال ادھیڑ دوں گی ۔ ۔ ۔ ،
یہ
بے چارہ نہیں ہوس کا بھوکا بھیڑیا ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ
: ( حیرانی سے )
آپ
یہ کیا کہہ رہی ہیں ؟
آپ
ہوش میں تو ہے۔ ۔ ۔ ۔
دیبا
:
ہاں
میں ہوش میں ہوں پوری ہوش میں ہوں پوچھ اس سے مجھے ننگا دیکھ رہا تھا کہ نہیں ۔
۔ ۔ ۔
پوچھ
اس سے میرے کمرے میں چپ چاپ گھسا تھا کہ نہیں ۔ ۔ ۔ ،
گھر
میں اکیلی دیکھ کر پتہ نہیں کیا کرنا چاہتا تھا یہ میرے ساتھ ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
چُپ
کیجیے آپ جو منہ میں آتا ہے بولے جا رہی ہے آپ ۔ ۔ ۔ ۔ ،
شیرو
ہمارا بچہ ہے ہم نے تربیت دی ہے اسے ۔ ۔ ۔
یہ
ایسا کچھ سوچ بھی نہیں کر سکتا ۔ ۔ ۔ ۔
دیبا
:
تو
کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں ۔ ۔ ۔ ،
تم
لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے اس نے تمہیں کہاں نظر آئے گا ۔
۔ ۔ ۔
نائلہ
: ( روتے ہوئے )
میرا
بیٹا ایسا نہیں کر سکتا تم جھوٹ بول رہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔
دیبا
:
میں
جھوٹ بول رہی ہوں تو پوچھو اس سے یہ میرے کمرے میں آیا تھا کہ نہیں ؟
پوچھو
اس سے کہ مجھے ننگا دیکھ رہا تھا کہ نہیں ؟
پوچھو
اسے کیا کرنے والا تھا یہ میرے ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ
: ( روتے ہوئے )
بتا
شیرو سچ کیا ہے تجھے میری قسم بتا تو نے ایسا کیا تھا کیا ۔
۔ ۔ ۔
دیبا
:
بول
کمینے اما کہتا ہے نہ باجی کو ۔ ۔ ۔ ،
کھا
اما کی قسم کے تو نے مجھے ننگا دیکھا کہ نہیں دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ
:
بول
بیٹا بتا جو یہ پوچھ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
تو بےچارا قسم میں پھنس گیا تھا اب جھوٹ بول کر قسم نہیں توڑ سکتا تھا ۔
۔ ۔
کیوںکہ
اسے ماں کا پیار تو بڑی مامی نے ہی دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
:
یہ
سچ ہے ماں لیکن ۔ ۔ ۔ ۔
اسے
آگے کچھ کہتا نائلہ نے غصے میں شیرو کے منہ پر تین چار تھپڑ کس کر جڑ دیئے ۔
۔ ۔
اور
روتی ہوئی اپنے کمرے میں بھاگ گئی ۔ ۔ ۔
جاری
ہے ۔ ۔ ۔ ۔
romantic urdu bold novels
new urdu bold novels
urdu bold novels list
most romantic and bold urdu novels list
husband wife bold urdu novels
bold romantic urdu novels kitab nagri
hot and bold urdu novels pdf
most romantic and bold urdu novels
most romantic and bold urdu novels list pdf