منحوس سے معصوم تک
قسط
نمبر 003
شیرو
جیسے ہی گھر میں داخل ہوتا ہے سامنے نائلہ کھڑی تھی جو بھاگ کر شیرو کو گلے لگا
لیتی ہے اور پیار سے اسے غصہ دیکھا کر ڈانٹنے لگتی ہے۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ
:
کہاں
رہ گیا تھا اتنی دیر سے کہاں تھا ؟
تجھے
کہا تھا نہ کہ دوپہر تک لوٹ آنا تجھے میری کوئی پرواہ ہے کہ نہیں ؟
بول
کہاں رہ گیا تھا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ
کو ایسے حال میں دیکھ کر شیرو بھی اس کی ممتا کو دیکھ کر اس کے چہرے کو ہی دیکھے
جا رہا تھا منہ سے کوئی الفاظ نہیں نکل رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
وہ
سوچنے لگا ابھی تھوڑی ہی دیر سے آیا تو یہ حال ہے اگر میں کہیں دور چلا جاؤں تو
کہیں ماں جدائی میں ہی مر جائے گی ۔ ۔ ۔ ۔
کتنا
پیار اور کتنی ممتا تھی نائلہ کی آنکھوں میں ۔ ۔ ۔ ۔
تبھی
پیچھے کھڑی ماہرہ کی نظر شیرو کے بازو پر بندھی پٹی پر جاتی ہے جو خون سے تھوڑی
لال ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔
ماہرہ
من میں سوچتی ہے کہ اگر باجی نے دیکھ لیا تو سب کی شامت آ جائے گی ۔
۔ ۔
سب
سے زیادہ تو اس کی واٹ لگے گی اور پھر نائلہ دوبارہ کبھی شیرو کو شہر جانے بھی
نہیں دے گی ۔ ۔ ۔
اس
لئے وہ جلدی سے آگے آتی ہے اور نائلہ سے کہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
کیا
باجی دروازے پر ہی کلاس لگا دو گی ۔ ۔ ۔
اب
صبح سے گھر سے گیا ہے اتنا سفر کر کے آیا ہے تھک گیا ہوگا پتہ نہیں کچھ کھایا بھی
ہے یا نہیں
۔ ۔ ۔
اپنے
لال کو پہلے کچھ کھلا پلا دو پھر کرتی رہنا باتیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اتنا
کہہ کر ماہرہ شیرو کے اس بازو کو چھپا لیتی ہے جہاں چوٹ لگی تھی اور شیرو کو کمرے
میں لے جانے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ
بھی ممتا میں ڈوبی جلدی سے کچن میں جاتی ہے شیرو کے لیے کچھ کھانے کو لینے ۔
۔ ۔
ابھی
تک اس کی نظر شیرو کی چوٹ پر نہیں گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
(
جلدی سے شیرو کو کمرے میں لے جا کر کہتی ہے )
تمہاری
کلاس تو میں بعد میں لوں گی جا پہلے اپنی شرٹ چینج کر اگر یہ زخم باجی نے دیکھ لیا
باجی سارا گھر سر پہ اٹھا لے گی ۔ ۔ ۔
شیرو
کو بھی یاد آتا ہے وہ کیسے بھول گیا کم سے کم پٹی تو اُتَر دیتا ۔
۔ ۔ ۔
پھر
شیرو جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگتا ہے اور جا کر شرٹ چینج کر کے واپس چھوٹی
مامی کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔
اتنے
میں نائلہ گرما گرم دودھ اور کھانے کے لیے چاول لے آتی ہے ۔
۔ ۔
شیرو :
ارے
اما میرا پیٹ بھرا ہوا ہے ضرورت نہیں کسی کی ۔ ۔ ۔
نائلہ :
چُپ
چاپ دودھ پی اور یہ چاول کھا
پتہ
ہے مجھے بھوک ہے کہ نہیں ۔ ۔ ۔
شیرو
چُپ چاپ دودھ کا گلاس پکڑ کر پینے لگتا ہے اور چاول کھاتا ہے ۔
۔ ۔
نائلہ :
یہ
مت سوچنا کہ میں ناراض نہیں ہوں
تجھے
اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گی تو جو مستی کرنا پھیرتا ہے باہر مجھے سب پتہ ہے ۔
۔ ۔
تبھی
نائلہ کا دھیان شیرو کی شرٹ پر جاتا ہے۔ ۔ ۔
نائلہ :
ابھی
تو تو نے دوسری شرٹ پہنی تھی یہ کب بَدَل لی ۔ ۔ ۔
نائلہ
کی بات سن کر شیرو ہڑبڑا جاتا ہے مگر ماہرہ درمیان میں بول پڑتی ہے ۔
۔ ۔
ماہرہ :
وہ
کیا ہے نہ باجی وہ میرے ہاتھ سے تیل کی بوتل شیرو کے اوپر گر گئی تھی آتے ہی تو اس
لئے میں نے کہا کہ جا پہلے شرٹ چینج کر لے ۔ ۔ ۔
یہ
سن کر شیرو سکون کی سانس لیتا ہے اور نظروں سے چھوٹی مامی کو تھینکس کہتا ہے بات
سنبھالنے کے لیے۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ :
اب
بتا پہلے کہ اتنا وقت کہاں لگ گیا تجھے ؟ ۔ ۔ ۔
شیرو :
وہ
وہ ۔ ۔ اما ۔ ۔ وہ کیا ہے نہ کے تمہیں پتہ ہے نہ کے بس دو گھنٹے بعد چلتی ہے شہر
سے گاؤں کے لیے ۔ ۔ ۔ ،
وہ
دوپہر والی بس دو منٹ پہلے نکل گئی تھی اس لئے وہ چھوٹ گئی اور ہم دو گھنٹے بس اسٹاپ
پر اگلی بس کے انتظار میں بیٹھے رہے بس اس لیے دیر ہو گئی ۔
۔ ۔
نائلہ
:
تو
دھیان رکھنا چاہیے تھا نہ ٹائم کا اب اگلی بار ایسی غلطی دوبارہ نہیں ہونی چاہیے ۔
۔ ۔
شیرو
:
اما
میں اگلی بار سے دھیان رکھوں گا ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
باجی
میں کیا کہتی ہوں کہ ہم شیرو کو ایک بائیک لے دیں تاکہ بس کا جھنجھٹ ہی ختم ہو جاۓ ۔
۔ ۔
ویسے
بھی اگر کہیں کبھی ضروری جانا پڑ جائے تو شیرو ہمیں لے جا سکے گا اور کوئی کام بھی
ہو تو دیکھ لے گا اب تو بڑا ہو گیا ہے ۔ ۔ ۔
نائلہ :
پھر
تو شہزادے صاحب گھر پر بیٹھیں گے ہی نہیں ایسے ہی گھومتے رہیں گے ۔ ۔
۔ ۔
ماہرہ :
کیا
باجی تم بھی !
کیا
تمہیں بھروسہ نہیں اپنے بیٹے پر ۔ ۔ ۔
شیرو :
نہیں
چھوٹی مامی مجھے ضرورت نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ،
ویسے
بھی ماما کے پاس بائیک تو ہے نہ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
تو
چُپ رہ
۔ ۔ ،
تیرے
ماما کے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا ہمارے لیے ۔ ۔ ۔
کم
سے کم تو ہی ہمارے چھوٹے چھوٹے کم کر دیا کرے گا ۔ ۔ ۔
شیرو :
تو
آپ کو یہ بائیک اپنے لیے چاہیے نہ کے میرے لیے ۔ ۔ ۔
ماہرہ
بڑی بڑی آنکھیں نکالتی ہے شیرو کو دیکھ کر ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
ہاں
ایسا ہی سمجھ لے ۔ ۔ ۔ تو کیا ہمارا کام نہیں کرے گا بول ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
ارے
ایسا بھلا ہو سکتا ہے کبھی آپ سب تو میرے لیے سب سے پہلے ہیں ۔
۔ ۔ ۔
نائلہ :
میرا
بچہ
(
شیرو کو گلے لگاتے ہوئے )
تو
تو اِس گھر کی جان ہے سب کچھ تیرا ہی تو ہے ۔ ۔ ۔
ایسے
ہی تھوڑی بہت باتوں کے بعد شام کا كھانا بنانے کا وقت ہو جاتا ہے اور تینوں مل کر
كھانا بناتی ہیں ۔ ۔ ۔
تینوں
ماموں بھی لوٹ آتے ہیں اور رات کا كھانا کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے
جاتے ہیں
۔ ۔ ۔
رات
کو بختیار دوست کے ضروری کام کا بہانہ بنا کر اپنے دوست سے ملنے نکل جاتا ہے تو
ماہرہ سوچتی ہے کہ ابھی سب اپنے کمروں میں ہیں یہی سہی وقت ہے شیرو سے پوچھنے کا
کہ آخر اسے چوٹ کیسے لگی ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
دھیرے دھیرے چپکے سے شیرو کے کمرے میں چلی جاتی ہے تو دیکھتی ہے کہ ۔
۔ ۔ ۔
شیرو
بیڈ پر لیٹا چھت کو دیکھ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ،
اصل
میں شیرو آج مہوش کے ساتھ ہوئے بس والے حادثے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ آخر کیوں
وہ خود پر کنٹرول نہیں کر پا رہا تھا وہ کیا سوچ رہی ہوگی میرے بارے میں ۔
۔ ۔
تبھی
ماہرہ کمرے میں داخل ہوتی ہے اور دروازہ بند کر کے شیرو کے پاس آتی ہے ۔
۔ ۔
ماہرہ :
تو
بتا آج کیا کر کہ آیا ہے ۔ ۔ ۔ ،
اور
کہاں سے چوٹ لگی ہے ؟
شیرو
خیالوں کی دنیا سے باہر آتا ہے اور چھوٹی مامی کو دیکھ کر چونک جاتا ہے ۔
۔ ۔
شیرو :
ارے
مامی اِس وقت آپ یہاں ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
کیوں
کیا نہیں آ سکتی میں یہاں ۔ ۔ ۔
شیرو
:
ارے
نہیں نہیں میرا وہ مطلب نہیں ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
تو
میری بات کا جواب دے پہلے کہ کہاں سے چوٹ لگی ہے دیکھا مجھے کتنی چوٹ ہے ۔
۔ ۔
شیرو
منع کرتا رہتا ہے لیکن ماہرہ شیرو کی شرٹ اتروا کر بازو دیکھنے لگتی ہے ۔
۔ ۔
پٹی
ہٹا کر جب زخم دیکھتی ہے تو اسے ایک کٹ نظر آتا ہے
شیرو
:
ارے
کچھ نہیں مامی وہ بس ایسے بس میں خاروچ لگ گئی تھی دروازے سے ۔
۔ ۔
ماہرہ
شیرو کی آنکھوں کو پڑھنے کی کوشش کرتی ہے ۔ ۔ ۔ ،
شیرو
ضرور کچھ چھپا رہا ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
اچھا
مامی سے بولنے میں ڈر رہا ہے تو دوست کو ہی بول دے ۔ ۔ ۔
دوستوں
سے کوئی بات چھپائی نہیں جاتی ۔ ۔ ۔
شیرو :
ارے
مامی کچھ بھی تو نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔ ۔ ۔
ماہرہ
اٹھ جاتی ہے بیڈ سے اور باہر جانے کو موڑتی ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
ٹھیک
ہے اگر تو مجھے اپنا دوست نہیں سمجھتا تو میں چلتی ہوں ۔ ۔ ۔
شیرو
اچانک اُٹھ کر مامی کا ہاتھ پکڑ کر واپس کھینچ کر بیڈ پر بیٹھا لیتا ہے ۔
۔ ۔
شیرو :
اچھا
بابا بتاتا ہوں مگر پہلے وعدہ کرو یہ بات کسی کو پتہ نہیں چلنی چاہیے اور نہ ہی آپ
غصہ کرو گی۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
وعدہ
! میں کسی کو نہیں بتاؤں گی اور نہ غصہ کروں گی ۔ ۔ ۔
پھر
شیرو سارا واقعہ بتا دیتا ہے کہ کیسے اس نے عورت کی مدد کی اور چوٹ لگی ۔
۔ ۔
ماہرہ
حیرانی سے دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھا کر کہتی ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
ہاے
۔ ۔ ۔ اگر تجھے کچھ ہو جاتا تو کبھی سوچا ہے ۔ ۔ ۔
کیا
ضرورت تھی ہیرو بننے کی اگر چوٹ کہیں اور لگ جاتی تو ۔ ۔ ۔ ،
اگر
تمہاری جان پر بن آتی تو سوچا ہے کہ باجی کا کیا ہوتا ۔ ۔ ۔
تمھارے
ذرا لیٹ ہونے پر سارا گھر سر پہ اٹھا لیا تھا ۔ ۔ ۔ سوچ ان کا کیا ہوتا ۔
۔ ۔
شیرو :
مامی
جی یہ بھی تو سوچیں اگر اس عورت کی جگہ آپ ہوتی یا اما ہوتی یا دیبا مامی ہوتی تو
کیا میں ایسا نہیں کرتا ۔ ۔ ۔
ماہرہ
چُپ ہو جاتی ہے آخر شیرو ایک غیرت مند لڑکا تھا پھر وہ کیسے برداشت کرتا کہ اس کے
سامنے کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہو جائے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
تو
تو لاکھوں میں ایک ہے سب کو تیرے جیسا بیٹا ملے ۔ ۔ ۔
اچھا
یہ تو بتا پھر کیا کیا کیا سارا دن کون کون تھا ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا جواب دے ۔ ۔ ۔ ،
مہوش
کے بارے میں بتائے یا نہیں ۔ ۔ ۔
شیرو
کو سوچتے دیکھ کر ماہرہ بولتی ہے۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
اتنا
سوچنے کی کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ ،
جو
بھی ہے دِل کھول کر بتا میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی ۔ ۔ ۔ ۔
کوئی
تو بات ضرور ہے تیرے دِل میں جو تو ایسے سوچ میں گم تھا ۔ ۔ ۔ ، ،
چل
بتا جلدی سوچ مت ۔ ۔ ۔
شیرو
پھر مہوش اور شہناز کے ساتھ جانے کے بارے میں بتا دیتا ہے اور یہ بھی کہ یہ پلان
راجو کا تھا شہناز کے ساتھ اس کی سیٹنگ کرنے کا ۔ ۔ ۔
شیرو
کو مہوش کا خط یاد آ جاتا ہے اور وہ جلدی سے اپنے کپڑے جو وہ بَدَل چکا تھا اس میں
سے خط نکال کر دیکھاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
مہوش کا خط شیرو سے لے کر پڑھنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
خط
پڑھتے پڑھتے ماہرہ کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔ ۔ ۔ ،
شیرو
حیرانی سے چھوٹی مامی کو دیکھتا جا رہا تھا کو ایسا کیا لکھا ہے خط میں ۔
۔ ۔
تھوڑی
دیر بعد ماہرہ خط پڑھ کر اپنی آنکھوں کو دوپٹے کے پلو سے صاف کر کے شیرو کو دیکھتی
ہے اور کہتی ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
تم
نے یہ خط پڑھا تھا یا نہیں ؟ ۔ ۔ ۔
شیرو
نہ میں گردن ہلا دیتا ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
اِس
خط کا ایک ایک لفظ اس نے اپنے دِل کے خون سے لکھا ہے ۔ ۔ ۔ ،
بہت
پیار کرتی ہے وہ تمہیں پلیز اس کا دِل مت توڑنا ایسا پیار تو لاکھوں میں کسی کسی
کو ملتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔
کل
ہی جا کر اسے ہاں بول دے میری پوری سپورٹ ہے ۔ ۔ ۔ ۔
میں
سب دیکھ لوں گی تو فکر مت کرنا ۔ ۔ ۔
شیرو
حیرانی سے ماہرہ کی باتیں سن رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
:
یہ
آپ کیا کہہ رہی ہو مامی آپ کو تو پتہ ہے میں ان سب سے دور رہتا ہوں اور آپ خود
مجھے یہ کرنے کو بول رہی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
ہاں
میں کہہ رہی ہوں ۔ ۔ ۔ ،
تو
کیا سمجھے گا سچا پیار کسے کہتے ہیں۔ ۔ ۔ ،
تو
کیا جانے ایک لڑکی جب کسی کو اپنے من کا راجہ بنا لیتی ہے تو پھر اور کسی کو قبول
نہیں کرتی
۔ ۔ ۔ ۔
تو
بس اسے ہاں کر دے اس کے پیار کی لاج رکھ لے اگر میری باتوں کی کوئی اہمیت ہے تو
اسے اداس مت کرنا ۔ ۔ ۔
اتنا
کہہ کر چھوٹی مامی اپنی آنکھوں کے آنسو صاف کر کے کمرے سے نکل جاتی ہے ۔
۔ ۔ ،
شیرو
اکیلا بیٹھا جانے کب تک مہوش اور مامی کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہتا ہے اور
ایسے ہی سو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹی مہوش کے خط کو دیکھتے ہوئے سوچتی رہتی ہے کہ ۔
۔ ۔ ۔
مہوش
کتنی اچھی لڑکی ہے اور خوبصورت بھی ہے اور کتنا پیار کرتی ہے شیرو کو اس کے خط کا
ایک ایک لفظ اِس بات کی گواہی دے رہا ہے یوں ہی دیر تک سوچتی رہتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
بختیار
بھی گھر نہیں لوٹا تھا ۔ ۔ ۔
اچانک
ماہرہ کو یاد آتا ہے کہ شیرو کو تو چوٹ لگی ہے اوپر سے کوئی دوا بھی تو نہیں لگائی
اس نے کہیں آدھی رات کو اسے درد ہونے لگا تو ۔ ۔ ۔
اتنا
سوچ کر ماہرہ ایک پین کلر لے کر شیرو کے کمرے کی طرف بڑھتی ہے ہر طرف اندھیرا تھا۔ ۔
۔ ۔
رات
کا ایک بج رہا تھا ماہرہ فکر میں کھوئی فٹا فٹ شیرو کے کمرے کی طرف جاتی ہے کہ
شاید ابھی جاگ رہا ہو ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
جب شیرو کے کمرے میں پہنچتی ہے لائٹ جلا کر جیسے ہی شیرو کی طرف دیکھتی ہے تو اس
کا حلق خشک ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
دراصل
آج دن کے واقعہ سے شیرو کا لنڈ غصے میں سر اٹھائے کھڑا تھا ۔
۔ ۔
شیرو
تو سو رہا تھا مگر لوڑا غصے میں پھنکار رہا تھا شاید شیرو خواب میں بس والا منظر
دیکھ رہا تھا ۔ ۔ ۔
ماہرہ
ٹک ٹکی باندھ کر شیرو کی شلوار کے ابھار کو دیکھ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ،
شلوار
کے ابھار سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کوئی معمولی لنڈ نہیں ہے ۔
۔ ۔ ،
یہ
تو ایک تگڑا لوڑا ہے ۔ ۔ ۔
اتنی
چھوٹی عمر میں ایسا تگڑا لنڈ بہت حیرانی کی بات ہے مگر ہو بھی کیوں نہ باڈی بھی تو
کتنی بنائی ہوئی ہے شیرو نے پہلوانی کرتا ہے تو لنڈ کیسے تگڑا نہ ہو ۔
۔ ۔ ۔
ایسا
لوڑا اگر مہوش جیسی کنواری لڑکی کی پھدی میں جائے گا تو وہ بے چاری ہسپتال پہنچ
جائے گی
۔ ۔ ۔ ۔
مہوش
کیا اگر میری جیسی شادی شدہ عورت کی پھدی میں بھی گھس جائے تو بھوسڑا بنا کر ہی
نکلے گا
۔ ۔ ۔
اتنا
سوچتے ہی ماہرہ کی پھدی گیلی ہونے لگتی ہے ۔ ۔ ۔
تبھی
اس کے من میں دوسرا خیال آنے لگتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔
ہائے
ہائے یہ میں کیا سوچنے لگی شیرو تو میرے بیٹے جیسا ایسا سوچنا بھی گناہ ہے ۔
۔ ۔
اتنا
سوچتے ہی ماہرہ جلدی سے لائٹ بند کر کہ ۔ ۔ ۔
اپنے
کمرے میں بھاگ جاتی ہے ۔ ۔ ۔
اپنے
کمرے میں آ کر بیڈ پر لیٹ جاتی ہے اور سونے کی کوشش کرتی ہے مگر بار بار اس کی
آنکھوں کے سامنے شیرو کے لنڈ کا ابھار آنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
کتنا
فرق تھا بختیار اور شیرو کے لوڑے میں
کہاں
بختیار کا پانچ انچ کا پتلہ سا لنڈ کہاں شیرو کا موٹا تگڑا لنڈ ۔ ۔
۔ ۔
نہ
چاہتے ہوئے بھی وہ دونوں کے لوڑوں کا مقابلہ کرنے لگتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
اور
ہوس میں ڈوبنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔
کب
اس کا ہاتھ نیچے پھدی پر چلا گیا اسے پتہ ہی نہیں چلا ۔ ۔ ۔
دھیرے
دھیرے شلوار کو رانوں تک اتار کر ایک ہاتھ سے پھدی کو سہلانے لگتی ہے ۔
۔ ۔
اِس
وقت اسے چدائی کی سخت ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے مگر بختیار تو گھر پر نہیں تھا ۔
۔ ۔
ویسے
بھی کئی ہفتوں سے بختیار نے ماہرہ کو چودا نہیں تھا جب کے شادی کے بعد روزانہ
بختیار دو تین بار اسے چود دیتا تھا مگر پچھلے ایک سال سے اب بختیار بہت زور ڈالنے
پر ہی ماہرہ کی چدائی کرتا تھا ۔ ۔ ۔
شیرو
کے لنڈ کو یاد کرتے کرتے ماہرہ اپنی پھدی کو زور زور سے سہلاتی جا رہی تھی ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
او
۔ ۔ آہ ۔ ۔کتنا بڑا لنڈ ہے ۔ ۔ ۔
س
س س ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ ایک بار میں ہی پھدی کا بھوسڑا بنا دے گا ۔
۔ ۔
ک
ک ک ۔ ۔ کہاں رہ گیا بختیار ۔ ۔ ۔
آو
چودو ۔ ۔ ۔ مجھے دیکھو میری چوت کیسے آنسو بہا رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
کہاں
چلے گئے بختیار ۔ ۔ ۔
آہ
جلدی آؤ چودو مجھے ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ کتنا بڑا لوڑا ہے آہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور
تیز رفتاری سے انگلی اپنی پھدی میں چلانے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
آہ
ہ ہ ۔ ۔ ۔ اف ف ف ۔ ۔ ۔ ۔ بختیار ۔ ۔ ۔ چودو مجھے ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ آہ ۔
۔ ۔ ۔
ایسے
انگلی کرتے کرتے اس کا پانی نکل جاتا ہے اور وہ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے ۔
۔ ۔
جیسے
ہی ٹھنڈی ہوتی ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ اس نے ابھی اپنے بانجھے کا نام لے کر پانی
نکالا اس کے لوڑے کو یاد کر کے وہ فارغ ہوئی ہے تو خود سے ہی شرمندہ ہونے لگتی ہے
کافی دیر بعد اس کی بھی آنکھ لگ جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اگلی
صبح شیرو اکھاڑے سے ہو کر گھر آتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
آج صبح سے ہی مہوش اور چھوٹی مامی کی باتوں کی وجہ سے سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ آخر
اسے کیا کرنا چاہیے ۔ ۔ ۔
کیا
اسے مہوش کے پیار کو قبول کر لینا چاہیے یا پھر اپنی کثرت اور پڑھائی پر فوکس کرنا
چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔
یونہی
خیالوں کی دنیا میں پھنسا ہوا شیرو ناشتہ کر کے گھر سے نکل جاتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
شیرو
نے اِرادَہ کر لیا تھا کہ وہ مہوش سے اِس بارے میں ایک بار بات کرے گا یہی سوچ کر
وہ اسکول کی طرف چل پڑتا ہے ۔ ۔ ۔
کیوںکہ
مہوش کا گھر اسکول کے پاس ہی تھا ۔ ۔ ۔
خوش
قسمتی سے مہوش گھر سے کپڑے دھونے کے لیے نہر پر جانے کے لیے گھر سے نکل ہی رہی تھی
تو شیرو اسے اشارہ کرتا ہے ۔ ۔ ۔
اور
مہوش بھی اشارے سے اسے نہر پر چلنے کا بتا دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش
تو من ہی من خوش ہو رہی تھی کہ شیرو خود اس سے ملنے آیا ہے مطلب اس نے اس کے پیار
کو قبول کر لیا ۔ ۔ ۔
تھوڑی
دیر میں ہی دونوں نہر کنارے پہنچ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ،
مہوش
جان بوجھ کر آج تھوڑا دور نکل آئی تھی اس جگہ سے جہاں سب عورتیں کپڑے دھوتی تھی
تاکہ کوئی انہیں دیکھ نہ سکے ۔ ۔ ۔
شیرو
جب دیکھتا ہے کہ آس پاس کوئی نہیں ہے تو وہ مہوش سے بات چیت شروع کرتا ہے ۔
۔ ۔
شیرو :
مہوش
کیا تم سچ مچ مجھ سے پیار کرتی ہو ؟ ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش :
کیا
ابھی بھی یقین نہیں تمہیں ؟
کیا
تمہیں میرے پیار پر کوئی شک ہے ؟
تو
بتاؤ میں تمہیں کیسے یقین دلواؤں ۔ ۔ ۔
شیرو :
میرے
کہنے کا مطلب ہے کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ تمہیں مجھ سے پیار ہے جب کہ میرے دِل
میں تو ایسی کوئی جذبات نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔
مہوش :
میں
نے جب سے ہوش سنبھالا ہے بس تمھارے سوا اور کسی کو نہ دیکھا نہ سوچا ہے ۔
۔ ۔ ،
میرے
دل و دماغ میں صرف تمہاری ہی پرچھائی ہے ۔ ۔ ۔ ،
تمھارے
بغیر میں زندگی جینے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔ ۔ ۔
شیرو :
ایسے
مت کہو مہوش زندگی کسی ایک کے لیے نہیں ہوتی ہمیں سب کے لیے خود کی خوشیوں کو
قربان کر کے بھی جینا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ،
تم
میرے لیے یوں زندگی برباد مت کرو میرا کیا ہے اپنے مامووں کے رحم و کرم پر ہوں ۔
۔ ۔ ،
میری
زندگی کے فیصلے میں نہیں کر سکتا اور اوپر سے ابھی مجھے اور پڑھنا ہے بڑا آدمی
بننا ہے ابھی سے شادی بیاہ کے چکر میں میں پھنسنا نہیں چاہتا۔ ۔
۔ ۔ ۔
مہوش :
میں
یہ تو نہیں کہہ رہی کہ تم مجھ سے شادی کرلو ابھی ۔ ۔ ۔
میں
تو بس اتنا چاہتی ہوں کہ تم مجھے تھوڑا سا اپنا پیار دے دو مجھے اپنے دِل میں
تھوڑی جگہ دے دو ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
مہوش
اگر کسی کو پتہ چل گیا تو گاؤں میں بدنامی ہو جائے گی ۔ ۔ ۔ ۔
مہوش :
مجھے
کچھ نہیں پتہ مجھے بس تمہارا پیار چاہیے پھر چاہے مجھے موت ہی کیوں نہ آ جائے ۔
۔ ۔
شیرو :
(
اچانک سے مہوش کے منہ پر ہاتھ رکھا کر )
نہیں
نہیں ایسا مت کہو مہوش تمہیں تو میری بھی عمر لگ جائے ۔ ۔ ۔ ،
واقعی
میں قسمت والا ہوں کہ مجھے اتنا پیار کرنے والی لڑکی ملی ۔ ۔ ۔ ۔
اتنا
سنتے ہی مہوش کا روم روم کھل اٹھتا ہے اور وہ شیرو کے گلے لگ جاتی ہے ۔
۔ ۔ ،
دونوں
ایسے ہی ایک دوسرے کے پیار کو محسوس کر کے ایک دوسرے سے گلے ملے اِس انوکھے احساس
میں کھوئے جانے کتنی دیر یونہی ایک دوسرے کی بانہوں میں جھولتے کھڑے رہتے ہیں ۔
۔ ۔ ۔
پھر
شیرو تھوڑا پیچھے ہٹ کر مہوش کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں پکڑتا ہے ۔
۔ ۔
اور
مہوش کی آنکھوں میں دیکھنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ،
پھر
پیار سے مہوش کے ماتھے کو چوم لیتا ہے ۔ ۔ ۔
مہوش
تو جیسے خوابوں میں کھوئی ہوئی تھی اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کوئی خواب ہی ہے
مگر جلدی ہی خواب ٹوٹ جاتا ہے کھیتوں کی طرف سے آہٹ سن کر شیرو مہوش کو الگ کر
دیتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔
جاؤ
جہاں سب کپڑے دھوتے ہیں اسی جگہ کپڑے دھو لو تم بھی جا کر ۔ ۔
۔ ،
لگتا
ہے اِس طرف کوئی آ رہا ہے ۔ ۔ ۔
مہوش
وہاں سے دوسری جگہ چلی جاتی ہے شیرو وہیں کھڑا رہتا ہے تھوڑی دیر تک ۔
۔ ۔ ۔ ۔
تاکہ
مہوش پہلے وہاں پہنچ جائے ۔ ۔ ۔ ،
ابھی
شیرو وہیں کھڑا ہی تھا کہ اس کھیت کی طرف سے چھوٹے ماموں یعنی کہ بختیار نکلتا ہوا
دکھائی دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
وہیں سائڈ میں چھپ جاتا ہے اور بختیار وہاں سے نکل جاتا ہے ۔
۔ ۔ ،
شیرو
من میں سوچنے لگتا ہے چھوٹے ماموں کو بھلا اس کھیت میں کیا کام اِس طرف تو کوئی
بھی نہیں آتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ابھی
شیرو سوچ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے ایک اور شخص کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور شیرو چھپ
کر دیکھنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ،
وہ
شخص ایک عورت تھی گاؤں میں ہی رہتی تھی جس کا نام مینا تھا اس کا شوہر ماموں کے
کھیتوں میں مزدوری کرتا تھا۔ ۔ ۔
مینا
کی عمر 36 سال ہے اور رنگ سانولا ۔ ۔ ۔
شیرو
سوچنے لگتا ہے یہ بھی کھیت سے آ رہی ہے ابھی ماما نکلے ہیں مطلب کچھ تو گڑبڑ ہے
پتہ لگانا پڑے گا آخر ماجرہ کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔
مینا
کے جانے کے بعد شیرو وہاں سے نکل کر اپنے کھیتوں میں چلا جاتا ہے جہاں دلدار ماموں
درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھے تھے شیرو ان کے پاس چلا جاتا ہے ۔
۔ ۔
دلدار :
آؤ
آؤ بارخوردار کہاں سے آ رہے ہو ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
بس
گھر سے ہی آ رہا ہوں ماموں جی سوچا آپ کا ہاتھ بٹا دوں ۔ ۔ ۔ ۔
دلدار :
یہ
اچھا کیا تم نے ۔ ۔ ۔ ،
بڑے
بھئیا کو تو جرگے والے ہی آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے کبھی کہیں کبھی کہیں لے جاتے
ہیں فیصلوں پر یا میٹنگس پر اور بختیار پتہ نہیں کہاں آج کل دوستوں کے ساتھ نکل
جاتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
کیا
بات کر رہے ہیں ماموں جی چھوٹے ماموں کھیتوں میں نہیں آتے آپ کے ساتھ۔ ۔
۔ ۔
دلدار :
ارے
آتا تو ہے مگر پتہ نہیں کہاں کون سے دوستوں سے ملنے نکل جاتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
شیرو :
(
من میں سوچتا ہے اس کا مطلب چھوٹے ماموں روز مینا کے
ساتھ اس جنگل والے کھیت میں جاتے ہیں
)
ماموں
جی کیا آپ نے کبھی نہیں پوچھا کہ کون سے دوستوں کے پاس جاتے ہیں ۔
۔ ۔
دلدار
:
اب
وہ کوئی بچہ تو ہے نہیں کہ میں اس سے پوچھوں وہ سب چھوڑ تو ۔
۔ ۔ تو پڑھنے لکھنے میں ہوشیار ہے
یہ لے بھائی کھاتا ذرا فصل کا حساب تو لگا کہ کتنا خرچہ ہوا کتنی آمدن ہوئی اور
حکومت کے کھاتے سے اپنا کھاتا ملا کر دیکھ میں تو پڑھا کم ہوں مجھے سمجھ نہیں آتا
پہلے بڑے بھئیا کرتے تھے حساب ان کے پاس وقت نہیں ہوتا اب ذمہ داری بختیار کی ہے
مگر وہ بھی غائب رہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،
تو
ہی چیک کر لے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
بھی کھاتا پکڑ کر حساب کرنے لگتا ہے اور ساتھ میں حکومت کے کھاتے کو ملاتا ہے کافی
دیر تک حساب کتاب کرنے کے بعد شیرو کو کھاتے میں کچھ گڑبڑ لگتی ہے ۔
۔ ۔
شیرو :
ماموں
جی کیا اِس سال کھاد پچھلے سال سے زیادہ ڈالی ہے کھیتوں میں ۔
۔ ۔
دلدار
:
نہیں
تو ۔ ۔ ۔ ،
کھاد
تو اتنی ہی ڈالی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
مگر
یہ تو کھاد پچھلے سال کے مقابلے میں ایک لاکھ روپے زیادہ بتا رہا ہے ۔
۔ ۔
دلدار :
(
چونک کر
)
کیا
! ! مگر ہم نے تو کھاد اتنی ہی منگوائی تھی ۔ ۔ ۔
شیرو :
کھاد
کون لینے جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
دلدار :
وہ
کام تو بختیار ہی کرتا ہے ۔ ۔ ۔
شیرو :
اور
یہ دو لاکھ روپے حکومت سے آپ نے کس لیے ۔ ۔ ، لیے تھے ۔ ۔ ۔
دلدار
:
(حیرانی سے شیرو کو دیکھتا ہوا )
ہم
نے تو کوئی پیسہ نہیں لیا حکومت سے اِس سال ۔ ۔ ۔ ،
زرا
دھیان سے دیکھ کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
نہیں
ماموں جی یہ کھاتا اپنے جو دیا یہ یہی بتا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
دلدار
:
یہ
کیسے ہو سکتا ہے ؟
لگتا
ہے کھاتے میں کوئی غلطی ہو گئی ہے میں بختیار کو بولوں گا کہ کھاتا ٹھیک کروا کر
آئے حکومت کے پاس جا کر ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
من میں سوچتا ہے ہو نہ ہو یہ پیسوں کی گڑبڑ چھوٹے ماموں ہی کر رہے ہیں اور کہیں نہ
کہیں مینا اس میں شامل ہے مجھے پتہ لگانا ہوگا ۔ ۔ ۔
یونہی
کچھ وقت گزارنے کے بعد شیرو گھر کی طرف چل پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ،
گھر
آ کر كھانا کھاتا ہے تو اس کے من میں خیال ہے کہ ۔ ۔ ۔
آج
صبح سے چھوٹی مامی نہیں دیکھی ان سے ملتا ہوں اور ان سے پتہ لگانے کی کوشش کرتا
ہوں چھوٹے ماموں کی حرکتوں کا ۔ ۔ ۔
شیرو
كھانا کھا کر چھوٹی مامی کے کمرے میں جاتا ہے جہاں چھوٹی مامی اپنی سوچ میں گم
آئینے کے سامنے بیٹھی تھی ۔ ۔ ۔
شیرو
:
اب
بس بھی کیجیے مامی جی کیا خود کو نظر لگائیں گی ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
ہڑبڑا جاتی ہے اچانک سے ۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
شیرو
تم کب آئے
۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
میں
تو کتنی دیر سے کھڑا دیکھ رہا ہوں کہ مامی جی خود کو ہی دیکھے جا رہی ہیں آئینے
میں ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
ارے
ایسی کوئی بات نہیں آ بیٹھ کیا کام تھا بتا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
کام
تو کچھ نہیں میں تو دیکھنے آیا تھا کہ چھوٹی مامی آج صبح سے نظر نہیں آئی بات کیا
ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ
من میں سوچتی ہے کہ اب کیا بتاؤں میں تو خود سے ہی شرمندہ ہوں کل رات کی حرکت کی
وجہ سے
۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
ارے
کچھ نہیں میں تو یہیں تھی ۔ ۔ ۔
شیرو :
اچھا
یہ بتائیں مامی جی کے بختیار ماموں آج کل کہاں مصروف رہتے ہیں کھیتوں میں بھی کم
جاتے ہیں
۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
کیا
؟ ؟ کھیتوں میں نہیں جاتے تو پھر کہاں جاتے ہیں ؟ ۔ ۔ ۔
شیرو :
دلدار
ماموں بتا رہے تھے کہ آج کل دوستوں کے ساتھ زیادہ مل جول بڑھا رکھا ہے ماموں نے ۔
۔ ۔
ماہرہ :
ہاں
کئی بار رات کو بھی نکل جاتے ہیں دوستوں کے ساتھ پارٹی کا بہانہ بنا کر کل رات بھی
گھر نہیں تھے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
چھوٹی مامی کے جواب سے چونک جاتا ہے مطلب ماموں ساری رات گھر نہیں تھے اور صبح
جنگل والے کھیت سے نکل رہے تھے کچھ تو گڑبڑ ہے مجھے پتہ لگانا ہی ہوگا اور یہ دوست
اور کوئی نہیں مینا ہی ہے جس کے پاس جاتے ہیں ماموں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
اچھا
وہ بات چھوڑو آپ مجھے یہ بتاؤ کہ مہوش کے ساتھ مجھے کیا کرنا چاہیے ۔
۔ ۔
ماہرہ :
کیا
کرنا چاہیے مطلب !
تو
چپ چاپ سیدھے سیدھے اس کے پیار کو قبول کرلے پاگل ایسا پیار نصیب سے ملتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
شیرو :
اب
آپ اتنا اصرار کر رہی ہیں تو بھلا میں کیسے انکار کر سکتا ہوں ۔
۔ ۔
ماہرہ :
اس
کا مطلب تو اسے ہاں بول دے گا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
ہاں
بول دوں گا نہیں ، ہاں بول دیا ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
(
حیرانی سے دیکھتی ہوئی )
کیا
مطلب ۔ ۔ ۔
شیرو
:
مطلب
مامی جی میں اس سے مل کر آ رہا ہوں اور میں نے اسے ہاں بول دیا ہے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
اچھا
! ! تو کیا کہا اس نے اس کا ری ایکشن کیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
وہ
تو بےچاری بہت بھولی ہے اگر تھوڑی دیر اور اسے نہ بتاتا تو شاید رونے ہی لگتی ۔
۔ ۔ ۔
مگر
جب میں نے اس کے پیار کو قبول کرنے کی بات کہی تو وہ میرے گلے لگ گئی اور پتہ نہیں
کب تک ہم گلے ملے رہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
واہ
میرے شیر گلے بھی لگا لیا پہلی ہی ملاقات میں ۔ ۔ ۔ ،
کچھ
اور بھی کیا یا نہیں ۔ ۔ ۔
شیرو
:
اور
بھلا کیا کرتا میں ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
ارے
بدھو لڑکیاں کچھ نہیں کرتی جو کرتا ہے لڑکا ہی کرتا ہے ۔ ۔ ، تو نے اسے کس کیا ؟
شیرو :
(شرما کر )
کیا
نہ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
(
مزے لیتے ہوئے )
کہاں
کس کیا
۔ ۔ ۔
شیرو :
کہاں
کرتا ؟ اس کے ماتھے پر اور کہاں ۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
تو
بدھو ہی رہے گا ۔ ۔ ۔ ، معشوقہ کو بھلا ماتھے پر کس کرتے
ہیں ۔
۔ ۔ ، اسے تو گالوں پر اور ہونٹوں پر کس کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
اتنا
سن کر شیرو شرما کر نظریں نیچے کر لیتا ہے وہیں ماہرہ بھی بول تو گئی تھی مگر اب
اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے کیا کہہ دیا اور وہ بھی ہڑبڑا جاتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
شیرو :
کیا
مامی آپ ہر وقت میری کھینچائی کرتی رہتی ہو ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
(
مزے لیتے ہوئے )
کیا
کروں ہمارا ہیرو ہے ہی اتنا کیوٹ کہ ستانے میں مزہ آتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
شیرو :
کیا
مامی میں اب کوئی چھوٹا بچہ تھوڑا ہوں اب میں بڑا ہوگیا ہوں ۔
۔ ۔
ماہرہ
:
ہاں
ہاں مجھے پتہ ہے تو کتنا بڑا ہوگیا ہے ۔ ۔ ۔
اتنا
کہتے ہی ماہرہ کی آنکھوں کے سامنے کل رات والا شیرو کے لنڈ کا ابھار آ جاتا ہے اور
نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی نظر شیرو کی پینٹ پر لنڈ والی جگہ پر چلی جاتی ہے اور لنڈ
کے ابھار کو کھوجنے لگتی ہے مگر ابھی تو لنڈ سو رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو :
اچھا
مامی میں چلتا ہوں کل سے کالج شروع ہو رہے ہیں زرا راجو سے مل کر آتا ہوں ۔
۔ ۔ ۔
اتنا
کہہ کر شیرو اُٹھ کر چلا جاتا ہے اور ماہرہ پھر سے خود کو کوسنے لگتی ہے اپنی اِس
حرکت پر
۔ ۔ ۔
یونہی
دن نکل جاتا ہے اور رات کا كھانا کھا کر سب اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں ۔
۔ ۔
ماہرہ
:
سنیے
جی کتنے دن ہوگئے آج کچھ کیجیے نہ ۔ ۔
بختیار
:
چپ
چاپ سو جاؤ مجھے نیند آ رہی ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
آپ
ایسے ہی ہر بار بہانہ بنا دیتے ہیں میرا بھی تو سوچیے میں کیا کروں میری بھی
ضرورتیں ہیں ۔ ۔ ۔
بختیار
:
میں
نے کہا نہ مجھے سونے دو میں تھکا ہوا ہوں مجھے نیند آ رہی ہے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
اور
میرا کیا ۔ ۔ ۔ ، میری طرف آپ کا کوئی فرض نہیں ؟ ۔ ۔ ۔
میں
دن رات تڑپتی رہتی ہوں اور مجھے ہاتھ بھی نہیں لگاتے ۔ ۔ ۔ ،
پہلے
تو پیچھے ہی پڑے رہتے تھے اب تو پاس بھی نہیں آتے ۔ ۔ ۔
بختیار :
بچوں
جیسی باتیں مت کرو چپ چاپ سو جاؤ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
آخر
کیا بات ہے آج میں پوچھ کر رہوں گی ۔ ۔ ۔ ،
آخر
کیوں میرے پاس نہیں آتے آپ بتائیں ۔ ۔ ۔
بختیار :
میں
نے کہا نہ سو جاؤ مجھے نیند آ رہی ہے ۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
آج
آپ کو بتانا ہی پڑے گا آخر کیا وجہ ہے ۔ ۔ ۔
بختیار
:
وجہ
جاننی ہے تمہیں وجہ جاننی ہے تو سن تو ایک بانجھ ہے ایک بچہ نہیں دے سکی مجھے اتنے
سالوں میں
۔ ۔ ۔ ،
میری
تو قسمت ہی خراب ہے جو تو میرے پالے پڑ گئی ۔ ۔ ۔ ،
اس
لیے تیرے پاس نہیں آتا میں مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں تجھ میں ۔
۔ ۔
اتنا
کہہ کر بختیار نے جیسے ماہرہ کے سر پر بم پھاڑ دیا ہو ۔ ۔ ۔ ،
اس
کی آنکھوں سے جھڑ جھڑ آنسوں بہنے لگتے ہیں آخر تھی تو یہ سچائی کہ اتنے سالوں میں
ماہرہ ماں نہیں بن پائی تھی مگر کمی کس میں ہے اس کا فیصلہ کون کرے گا دنیا تو
عورت کو ہی دوش دیتی ہے کمی چاہے مرد میں کیوں نہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ،
اس
کے بعد ماہرہ اور کچھ نہیں کہہ پاتی بس چُپ چاپ آنسو بہاتی رہتی ہے اور جانے کب رو
رو کر آخر سو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اگلی
صبح شیرو اپنی روٹین سے اُٹھ کر اکھاڑے جاتا ہے اور واپس آ کر ناشتہ کر کے تیار ہو
کر کالج چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ،
دسمبر
ایگزامس کی چھٹیوں کے بعد آج کالج کھلے تھے آج سب کو ان کے پیپر بھی دیکھائے جانے
تھے اور شیرو بھی اپنی اسٹڈی پروگریس کی رپورٹ کارڈ دیکھنے کے لیے بےچین تھا ۔
۔ ۔
حالاںکہ
پڑھائی میں وہ ہمیشہ اول ہی رہتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
اُدھر
گھر پر صبح سے ماہرہ کمرے سے نہیں نکلی تھی نائلہ کو اس کی فکر ہو رہی تھی اس لئے
نائلہ ماہرہ کے کمرے میں جاتی ہے ۔ ۔ ۔
نائلہ :
کیا
بات ہے شہزادی صاحبہ آج بیڈ سے اٹھنا نہیں ہے کیا کہیں دیوار جی نے رات کو جگائے
تو نہیں رکھا ۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ
کی آواز سن کر جیسے ہی ماہرہ نائلہ کی طرف گھومتی ہے نائلہ اس کی آنکھوں کی سوجن
دیکھ کر سہم جاتی ہے اور جلدی سے ماہرہ کے چہرے کو ہاتھوں میں پکڑ کر بولتی ہے ۔
۔ ۔ ۔
ماہرہ :
کیا
ہوا چھوٹی تو نے یہ کیا حَال بنا رکھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
(
خود کو سنبھلتے ہوئے )
کچھ
نہیں باجی ۔ ۔ کچھ بھی تو نہیں ہوا بھلا مجھے کیا ہوگا ۔ ۔ ۔
نائلہ
:
جھوٹ
مت بول تیری آنکھیں بتا رہی ہیں تو رات بھر روتی رہی ہے ۔ ۔ ،
بتا
مجھے آخر کیا بات ہے کیا بختیار نے تم پر ہاتھ اٹھایا ہے بتا مجھے کیا بات ہے ۔
۔ ۔
ماہرہ
:
نہیں
باجی ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ ۔ ۔
نائلہ :
دیکھ
چھوٹی اگر تیرے دِل میں میری ذرا سی بھی عزت ہے تو بتا کیا بات ہے ۔
۔ ۔
ماہرہ
:
ایسے
مت کہو باجی میں نے آپ کو ہمیشہ اپنی بڑی بہن مانا ہے آپ سے نہیں کہوں گی تو کس سے
کہوں گی
۔ ۔ ۔
نائلہ :
تو
بتا کیا بات ہے کس لیے تیری آنکھوں میں آنسو ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ
:
باجی
میری قسمت ہی خراب ہے اتنے سالوں میں ۔ ۔ ۔ میں اِس گھر کو ایک وارث نہیں دے پائی
بس اسی لیے یہ مجھ سے ناراض ہیں اور کل رات کو مجھے بانجھ کہہ دیا انہوں نے اب تو
میرے پاس بھی نہیں آتے ۔ ۔ ۔ ۔
اتنا
کہہ کر ماہرہ پھر آنسو بہانے لگتی ہے ۔ ۔ ۔
نائلہ :
(
غصے میں
)
کیا
اس کی اتنی ہمت ۔ ۔ ،
اسے
کوئی شرم نہیں کوئی لحاظ نہیں رشتوں کی ۔ ۔ ۔ ۔ ،
یہ
تو اوپر والے کا کام ہے جسے چاہے بچہ دے چاہے نہ دے اس میں تیری غلطی کیا ہے ۔
۔ ۔
میں
اور دیبا بھی تو ماں نہیں بن پائی مگر ہمارے شوہروں نے کبھی ہم سے ایسی بات نہیں
کی ۔ ۔ ۔ ،
آنے
دے بختیار کو میں کان کھنچتی ہوں اس کے۔ ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
رہنے
دو باجی اس سے بات بڑھ جائے گی وہ مجھ ہی دوش دے رہے ہیں اگر آپ بات کریں گی تو
بھی مجھ پر ہی الزام لگائیں گے ۔ ۔ ۔ ،
میں
نہیں چاہتی کہ گھر کا ماحول خراب ہو ۔ ۔ ۔
نائلہ :
مگر
ایسا کیسے چلے گا کب تک تو یونہی گھٹتی رہے گی اندر ہی اندر مجھے بات کرنے دے اس
سے ۔ ۔ ۔
ماہرہ :
نہیں
باجی آپ کو میری قسم آپ کچھ نہیں کہے گی ۔ ۔ ۔ ۔
نائلہ
چُپ ہو جاتی ہے اور ماہرہ کو پھر ایسے ہی تسلّی دیتی رہتی ہے اس کا من ہلکا کرنے
کے لیے
۔ ۔ ۔ ۔
اُدھر
کالج میں سب کو پیپرز دکھا دیئے گئے تھے اِس بار بھی شیرو اپنی کلاس میں ٹاپ پر
تھا ۔ ۔ ۔
شیرو
اپنا رپورٹ کارڈ لے کر رکھ لیتا ہے سائن کروانے کے لیے ۔ ۔ ۔
کالج
سے چھٹی کے بعد شیرو اور راجو گھر جانے کے لیے نکل ہی رہے تھے کہ راجو اسے نہر پر
چلنے کو بولتا ہے مگر شیرو انکار کر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
راجو
نہیں مانتا اور زبردستی شیرو کو ساتھ لے کر نہر پر چل پڑتا ہے ۔
۔ ۔ ،
دراصل
راجو یہاں شہناز سے ملنے آیا تھا اِس لیے شیرو کو ساتھ لایا تھا کہ وہ خیال رکھ
سکے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
شہناز کو دیکھ کر سمجھ جاتا ہے مگر کہتا کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ ،
راجو :
دیکھ
یار تیری بھابی سے تھوڑی دیر اکیلے میں بات کرنی ہے تو ذرا خیال رکھنا میں ابھی
آیا ۔ ۔ ۔
شیرو :
کمینے
مجھے چوکیدار بنا کر لایا ہے یہاں میں چلا گھر ۔ ۔ ۔
راجو :
شیرو
پلیز یار اگر تو نہیں مدد کرے گا تو کون کرے گا پلیز مان جا ۔
۔ ۔ ۔
شیرو :
اوکے
اوکے ڈرامہ بند کر مگر دس منٹ سے زیادہ میں نہیں روکوں گا اِس لیے جلدی آ جانا ۔
۔ ۔ ۔ ۔
راجو :
میں
بس ابھی آیا ۔ ۔ ۔
اتنا
کہہ کر راجو شہناز کے پس چلا جاتا ہے ۔ ۔ ،
شیرو
یونہی اکیلا کھڑا تھا کہ اسے مینا دکھتی ہے جنگل والے کھیت کی طرف جاتی ہوئی اور
اس کے پیچھے کچھ ہی دوری پر چھوٹے ماموں بھی آ رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
چھپ کر دیکھنے لگتا ہے اور سوچتا ہے کہ آج اچھا موقع ہے پتہ لگانے کا ۔
۔ ۔ ،
ان
دونوں کے جاتے ہی شیرو بھی آہستہ آہستہ احتیاط سے ان کے پیچھے چلنے لگتا ہے ۔
۔ ۔ ۔
آگے
جا کر جنگل شروع ہو جاتا ہے اور سورج کی روشنی بھی کم نظر آتی ہے ۔
۔ ۔
یونہی
چلتے چلتے اسے جنگل کے درمیان ایک جھونپڑی نظر آتی ہے اور مینا کا ہاتھ تھامے
چھوٹے ماموں اس جھونپڑی میں گھس جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
جھونپڑی کے چاروں طرف گھوم کر اندر دیکھنے کی جگہ تلاش کرتا ہے تو اسے ایک جگہ مل
جاتی ہے جہاں سے وہ اندر دیکھ سکتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
شیرو
جیسے ہی اندر دیکھتا ہے اس کا حلق خشک ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری
ہے ۔ ۔ ۔ ۔
romantic urdu bold novels
new urdu bold novels
urdu bold novels list
most romantic and bold urdu novels list
husband wife bold urdu novels
bold romantic urdu novels kitab nagri
hot and bold urdu novels pdf
most romantic and bold urdu novels
most romantic and bold urdu novels list pdf