Showing posts with label منحوس سے معصوم تک. Show all posts
Showing posts with label منحوس سے معصوم تک. Show all posts

Munhoos Se Masoom Tuk(9th)منحوس سے معصوم تک (نویں قسط)

 


منحوس سے معصوم تک

قسط نمبر 009

صبح شیرو اپنے ٹائم سے اُٹھ کر اکھاڑے جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور اپنے استاد فہیم کو بتاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔اسے تحفے میں موبائل اور بائیک ملی ہے ۔ ۔ ۔ ،

فہیم اس کے لیے خوش ہوتا ہے اور ساتھ میں یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ اپنا دھیان کثرت میں ہی رکھنا کہیں ان چیزوں میں اپنا وقت برباد مت کرنا ۔ ۔ ۔ ۔

پھر فہیم اکھاڑے میں سب پہلوانی کر رہے لڑکوں کو بتاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔

اِس بار بسنت پر کشتی کے مقابلے پاس کے گاؤں میں ہو رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

جہاں شہر کے بڑے بڑے لوگ آئیں گے ۔ ۔ جیتنے والے کو بڑا انعام دیا جائے گا اس کے علاوہ یہ مقابلہ دونوں گاؤں کے مسائل کے لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے ۔ ۔ ۔ ۔

فہیم شیرو سے مقابلے میں حصہ لینے کے بارے میں پوچھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر شیرو صاف صاف بتا دیتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے کشتی مقابلے میں حصہ لینے کی اجازت گھر سے نہیں ملے گی ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ اما نے پہلے ہی اس کے لیے منع کر رکھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو گھر آکر تیار ہو کر کالج چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

کالج میں شیرو مہوش کو بائیک اور موبائل کے بارے میں بتاتا ہے ۔ ۔ ۔ جسے سن کے مہوش خوش ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو مہوش سے کہتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ کسی دن میں تمہیں بائیک پر گھماؤں گا ۔ ۔ ۔ ،

مہوش خوش ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

کالج کے بعد شیرو راجو کے پاس جا کر اسے بھی اپنی خوشی بتاتا ہے ۔ ۔ ۔ جسے سن کے راجو بھی بہت خوش ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

راجو :

تیری تو نکل پڑی یار ۔ ۔ ۔ موبائل بھی مل گیا اب بتا پارٹی کب دے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

جب تو بولے ۔ ۔ ۔ ۔

راجو :

چل ٹھیک ہے اِس بار بھی شہر چلتے ہیں ۔ ۔ ۔

شیرو :

مگر اِس بار شہناز اور مہوش کو مت بلانا ۔ ۔ ۔

راجو :

کیوں یار ۔ ۔ ۔ ،

اب وہ تیری ہونے والی بھابی ہے اس کے بنا میں کیسے پارٹی کر سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

اور ویسے بھی مہوش بھی تو خوش ہوگی نہ تیرے ساتھ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تیرا دِل نہیں کرتا اس کے ساتھ وقت گزارنے کا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

وہ بات نہیں ہے یار ۔ ۔ ۔ ۔ ،

وہ لڑکیاں ہے ان کی عزت پر داغ نہیں لگنا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ سوچ اگر کسی کو پتہ چل گیا تو ۔ ۔ ۔ ۔

راجو :

ہم پچھلی بار کی طرح الگ الگ جائیں گے ۔ ۔ ۔ کسی کو پتہ نہیں چلے گا ۔ ۔ ۔

تھوڑی بحث کے بعد شیرو من جاتا ہے اور پھر اسے اپنی بائیک پر تھوڑا گھماتا ہے ۔ ۔ ۔

اور پھر کھیتوں میں چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

وہیں دوسری طرف بختیار جب صبح گھر آیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو نائلہ اسے اپنے پاس بلاتی ہے بات کرنے کے لیے ۔ ۔ ۔

نائلہ :

بختیار تو کب سے رات رات بھر باہر رہنے لگ گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کون سی روٹین بنا لی ہے تو نے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار :

ارے بھابی وہ میرا ایک دوست کتنے سالوں کے بعد بیرون ملک سے آیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ پاس ہی کے گاؤں میں رہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بس اسی کے ساتھ آج کل وقت گزار رہے ہیں ہم دوست مل کر ۔ ۔ ۔ کچھ دنوں میں وہ لوٹ جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

اچھا اور تو یہ شراب پی کر کب سے گھر آنے لگا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تجھے گھر کے بڑوں کا لحاظ نہیں رہا ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار :

وہ بھابی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بس دوستوں نے زبردستی پیلا دی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

( ضرور ماہرہ نے شکایت کی ہے آج بتاتا ہوں اسے )

نائلہ :

اچھا تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔ ۔ ۔ ،

میں ماہرہ کو لے کر بڑی ڈاکٹرانی کے پاس گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے چیک اپ کے بعد کہا ہے کہ ۔ ۔ ۔ وہ ماں بن سکتی ہے بس کچھ وقت تک دوائی کھانی پڑے گی ۔ ۔ ۔ اِس لیے تو اب اس کا دھیان رکھا کر اور اس کو دوائی دلوا دے ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ اِس گھر میں ننھے منے بچوں کی آوازیں گونجے ۔ ۔ ۔ اور تو بھی باپ بن سکے ۔ ۔ ۔

ایک لمحے کو تو بختیار خوش ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مگر پھر سوچتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید یہ ماہرہ کی کوئی چال ہے ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار :

ہاں میں دیکھ لوں گا آپ فکر مت کرو ۔ ۔ ۔ ،

یہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

اس کے بعد کچھ اور باتیں کرنے کے بعد بختیار كھانا کھا کر پھر نکل جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ ماہرہ کو کہتی ہے کہ ۔ ۔ ۔ وہ اپنی دوائی ڈاکٹر سے لے آئے ۔ ۔ ۔

ماہرہ کے من میں خیال آتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

کیوں نہ شیرو کے ساتھ شہر جائے اور گھوم کر ۔ ۔ ۔ ۔ آئے کچھ وقت دونوں ساتھ گزاریں ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

باجی اگر آپ اجازت دیں تو میں شیرو کو ساتھ لے جاتی ہوں کل ۔ ۔ ۔ ،

ان کا ( بختیار ) تو بھروسہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ کتنے دن اور ایسے ہی نکال دیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور اب مجھ سے اور انتظار نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ پلیز آپ اجازت دے دیجیئے ۔ ۔ ۔ ۔ ہم بائیک سے جائیں گے اور جلدی آ جائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ :

ٹھیک ہے چلے جانا مگر بائیک سے کیوں جانا ۔ ۔ ۔ ۔ اتنا لمبا سفر ہے بس سے جاؤ کہیں کچھ ہو گیا تو ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

آپ بھی نہ باجی ۔ ۔ ۔ ،

شیرو بہت اچھی بائیک چلاتا ہے ۔ ۔ ۔ اور ویسے بھی بس میں جانے سے سارا دن نکل جاتا ہے سفر میں ۔ ۔ ۔ ۔ بائیک سے جائیں گے تو جلدی آ جائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نائلہ ماہرہ کی باتوں میں آ کر ہاں کر دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور ماہرہ خوش ہو کر اسے گلے لگا لیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شام کو سب مل کر كھانا کھاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

آج بختیار گھر پر ہی تھا صبح بھابی نے جو کہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

كھانا کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار :

تم نے بھابی سے میری شکایت کی تھی

ماہرہ :

نہیں تو ۔ ۔ ۔ ،

وہ باجی نے کل رات آپ کو آتے وقت دیکھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ صبح مجھ سے پوچھ رہی تھی میں نے کچھ نہیں بتایا ۔ ۔ ۔

بختیار :

اور یہ ڈاکٹر کا کیا ڈرامہ ہے یہ بھی تیری کوئی چل ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

جی نہیں وہ تو باجی مجھے لے کر گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ دن پہلے ڈاکٹر کے پاس تو اس نے چیک اپ کر کے بتایا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ماں بن سکتی ہوں ۔ ۔ ۔ بس تھوڑی دوا کھانی پڑے گی جو باہر سے آتی ہے ۔ ۔ ۔ جس سے کئی عورتیں ماں بن چکی ہیں ۔ ۔ ۔ اس سے عورتوں میں جو کمی ہوتی ہے وہ دور ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

دوا زرا مہنگی ہے اسی لیے میں لا نہیں پائی ۔ ۔ ۔ ۔ اتنے پیسے باجی کے پاس بھی نہیں تھے ۔ ۔ ۔

اب آپ ہی کچھ کیجئے میں بس ماں بننا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار :

کتنے پیسے لگیں گے ؟

ماہرہ :

جی ڈاکٹر نے کہا تھا ہفتے کی دوا چار ہزار کی آئے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار :

اور کتنی دیر کھانے کا بولا ہے ؟

ماہرہ :

جی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ کم سے کم تین مہینے تو کھانی پڑے گی ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار :

اتنے پیسے لگیں گے ۔ ۔ ۔ ،

یہ تو بہت زیادہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

کیا آپ نہیں چاہتے کہ ۔ ۔ ۔ ۔

میں ماں بنوں ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار :

لیکن اگر دوا کے بعد بھی ماں نہیں بنی تو ؟

ماہرہ :

جی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔

آج تک جس نے بھی دوا کھائی ہے وہ ماں ضرور بنی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم وہاں کئی عورتوں سے بھی ملے تھے جنہوں نے وہاں سے دوا کھائی تھی اور وہ ماں بنی ۔ ۔ ۔

بختیار :

ٹھیک ہے ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ مگر یاد رکھنا اگر ایسا نہ ہوا تو پھر مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔

پھر بختیار ماہرہ کو دس ہزار روپے دے دیتا ہے دوا کے لیے ۔ ۔ ۔ ۔ اور دونوں سو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ اندر سے بہت خوش تھی کہ ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار اس کی باتوں میں آ گیا ہے اب بس اسے آگے چوتیا کیسے بنانا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہی سوچ رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

اُدھر شیرو اپنے بیڈ پر لیٹا مینا کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی حقیقت کیسے ماما کے سامنے لائے ۔ ۔ ۔ پھر سوچتے سوچتے اس کا دھیان کل رات کو مامی کے ساتھ ہوئی دامدار چدائی کی طرف چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور اس کا لوڑا سر اٹھانے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اب تو شیر کے منہ کو خون لگ گیا تھا اب شیرو کا لوڑا چوت کی مانگ کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ شیرو من ہی من خود کو سمجھاتا ہے کہ نہیں یہ سب غلط ہے ۔ ۔ ۔ ۔

وہ بس چھوٹی مامی کی مدد کر رہا ہے ماں بننے کے لیے ۔ ۔ ۔ اور جب وہ چاہیں گی تبھی یہ سب ہوگا ۔ ۔ ۔ مگر اس کا لنڈ نہیں من رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ،

پھر اسے یاد آتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ کیسے کل رات چدائی کے وقت مامی کہہ رہی تھی کہ ۔ ۔ ۔ جب چاہے گا جہاں چاہے گا وہ مجھ سے چدائی کروائیں گی ۔ ۔ ۔

یونہی لنڈ کو مسلتا ہوا شیرو سو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اگلے دن اپنی روٹین کے مطابق شیرو اکھاڑے سے ہو کر آتا ہے ۔ ۔ ۔ اور جیسے ہی اپنے کمرے میں تیار ہونے جاتا ہے ماہرہ اس کے کمرے میں چلی آتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

جلدی سے اچھے کپڑے پہن لے ۔ ۔ ۔ ۔ آج تجھے میرے ساتھ شہر چلنا ہے ۔ ۔ ۔ کالج سے آج چھٹی کر ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

شہر ؟ آج کچھ خاص بات ہے ؟

ماہرہ :

(پاس آ کر مسکراتے ہوئے )

آج ہم دونوں شہر گھومیں گے ساتھ میں ۔ ۔ ۔ مگر گھر پر کچھ نہیں بولنا میں سب خود سنبھل لوں گی ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو سمجھ جاتا ہے مامی آج اس کے ساتھ مستی کرنا چاہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

اِس لیے وہ بھی نزدیک ہو کر ایک ہاتھ مامی کی کمر پر رکھا کر اسے اپنے ساتھ لگا لیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

لگتا ہے آج صبح صبح آپ کی نیت کچھ خراب ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

نیت تو ٹھیک ہے مگر لگتا ہے تمہاری نیت ٹھیک نہیں ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

آپ کو دیکھ کر تو کسی کی بھی نیت بگڑ جائے ۔ ۔ ۔ ۔

اتنا کہہ کر شیرو اپنے ہونٹ ماہرہ کے ہونٹوں سے چپکا دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور ایک ہاتھ اس کے سر کے پیچھے رکھ کر ایک ہاتھ کمر پر چلانے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

"ووم م م م ۔ ۔ ۔ ۔ ہم م م م ۔ ۔ ۔ م م م م" ۔ ۔ ۔

دونوں کی چوما چاٹی گہری ہونے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ شیرو تو کل رات سے ہی گرم تھا ۔ ۔ ۔ اور ماہرہ کو بھی اب شیرو کا ہی مست لنڈ ہر وقت چاہیے تھا ۔ ۔ ۔ ۔

اِس لیے وہ بھی گرم ہونے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

چند لمحے یونہی کسسنگ کے بعد ۔ ۔ ۔ ماہرہ شیرو کو خود سے دور کرتی ہے ۔ ۔ ۔ اور اپنا حلیہ ٹھیک کر کے باہر جانے سے پہلے شیرو کو جلدی تیار ہو کر نیچے آنے کا بولتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

آدھے گھنٹے میں ناشتہ کر کے دونوں تیار تھے جانے کے لیے ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ شیرو کو بائیک نکلنے کا بولتی ہے ۔ ۔ ۔ تو شیرو خوش ہو جاتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ آج وہ پہلی بار اپنی نئی بائیک سے شہر جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دونوں بائیک پر بیٹھ کر نکل پڑتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ گاؤں سے باہر نکلتے ہی ماہرہ پیچھے سے شیرو کے ساتھ چپک جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنے دودھ شیرو کی پیٹھ پر چبانے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو بھی مست ہونے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

تو بتائیں آج کیا اِرادَہ ہے ؟

کہاں چلنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

آج سارا دن بس تمھارے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔ ،

آج کا دن خاص بنانا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔ ،

آج میں اپنی زندگی کھل کر جینا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

بتائیں میں کیسے آپ کا یہ دن یادگار بنا سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے کیا کرنا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

میرے دِل میں ہمیشہ سے ایک تمنا تھی کہ ۔ ۔ ۔ ۔ میں بھی معشوقہ کی طرح اپنے عاشق کے ساتھ گھوموں پھیروں ۔ ۔ ۔ مستی کروں پیار کروں مووی دیکھنے جاؤں شاپنگ کروں ہوٹل میں کھاؤں ۔ ۔ ۔ پارک جاؤں ۔ ۔ ۔

شیرو :

ارے بس بس ۔ ۔ ۔ ،

اتنی لمبی لسٹ یہ سب ایک دن میں کیسے ہوگا ؟

چلیں کوئی بات نہیں میں آج آپ کا دن حَسِین بنانے کی پوری کوشش کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

کیا سچ میں تم ایسا کرو گے ؟

شیرو :

آپ کے لیے اتنا تو کر ہی سکتا ہوں ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

یہ کیا آپ آپ لگا رکھا ہے ۔ ۔ ۔ اگر تو واقعی مجھے خوشی دینا چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ تو آج تم سارا دن مجھے میرے نام سے پکارو گے ۔ ۔ ۔ جیسے ایک عاشق معشوق کو بلاتا ہے ۔ ۔ ۔

شیرو :

مگر میں کیسے آپ کو نام سے بلا سکتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ آپ میری مامی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

مامی گھر پر ہوں سب کے سامنے ۔ ۔ ۔ اکیلے میں تو میں تیری داسی ہوں ۔ ۔ ۔ تیرے ہونے والے بچوں کی ماں ۔ ۔ ۔ ،

اب مجھے کچھ نہیں سننا تو بس مجھے میرے نام سے بلائے گا ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو ماہرہ کو انکار نہیں کر سکتا تھا ۔ ۔ ۔ آخر اس کی خوشی کا سوال تھا ۔ ۔ ۔

پھر دونوں شہر پہنچ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ پہلے ماہرہ شیرو کو میڈیکل شاپ پر لے کر چلتی ہے ۔ ۔ ۔ اور شیرو کو وہاں سے کچھ دوائیاں لینے کو بولتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

یہ کس چیز کی دوا ہے ؟

ماہرہ :

اس میں نیند کی گولیاں ہیں ۔ ۔ ۔

شیرو :

وہ کس لیے ؟

ماہرہ :

تیرے ماما کے لیے ۔ ۔ ۔ تاکہ میں آرام سے تیرے پاس آ سکوں ہر رات ۔ ۔ ۔

دوائیاں لینے کے بعد دونوں شاپنگ کرنے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں ماہرہ شیرو کو جینس اور ٹی شرٹ لے کر دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ان کپڑوں میں تو بالکل ہیرو لگے گا ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

آپ بھی اپنے لیے کچھ لو ورنہ مجھے نہیں چاہیے یہ سب ۔ ۔ ۔ ۔

پھر شیرو ماہرہ کو بھی ایک سوٹ خرید کر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ، اس کے بعد دونوں ریسٹورانٹ میں اچھا كھانا کھاتے ہیں ۔ ۔ ۔ پھر کچھ وقت وہ دونوں پارک میں جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ جہاں دوپہر کو صرف کچھ کالج کے لڑکے اور لڑکیاں ہی موجود تھے ۔ ۔ ۔ ۔ جو تنہائی میں اپنے پیار کا مزہ لے رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ،

ان کو دیکھ کر ماہرہ کا من بھی مچلنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ اور وہ شیرو کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ایک معشوقہ کی طرح چلنے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

پارک کے اندر گھنے پیڑ کے نیچے دونوں کو ایک عاشق معشوق نظر آتے ہے ۔ ۔ ۔ جو ایک دوسرے کے ہونٹوں کو چُوسنے میں لگے تھے ۔ ۔ ۔

اور لڑکا لڑکی کے دودھ مسل رہا تھا ۔ ۔ ۔ ،

ماہرہ کی آنکھوں میں لالی آ جاتی ہے اور اس کے جسم میں ہوس حاوی ہونے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ کس کر شیرو کا بازو پکڑ لیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو سمجھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اور وہ ماہرہ کو ایک پیڑ کے پیچھے لے جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسے کس کرنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ کی ہوس بڑھتی جا رہی تھی مگر یہ جگہ سہی نہیں تھی ۔ ۔ ۔ اِس لیے دونوں اپنے من کو سمجھا کر باہر نکل جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اب ہمیں چلنا چاہیے کافی وقت ہو گیا ہے ۔ ۔ ۔ جلدی گھر چلو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پھر دونوں گاؤں کی طرف نکل پڑتے ہیں ۔ ۔ ۔ مگر پارک میں ہوئے واقعیات سے دونوں کے اندر ہوس کی آگ بھڑک چکی تھی۔ ۔ ۔ ۔

اس کا آثار یہ ہوتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ پیچھے بیٹھی ماہرہ اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جا کر شیرو کے لنڈ پر رکھ دیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ہاتھ لگتے ہی شیرو کا لوڑا سر اُٹھا کر چدائی کے لیے للکارنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ اور ماہرہ لگاتار اسے مسلے جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

دن ڈھلنے لگا تھا شیرو بھی کل رات سے گرم تھا ۔ ۔ ۔ اوپر سے صبح کی کسسنگ پھر پارک کا ماحول ۔ ۔ ۔ ۔ اور اب ماہرہ کا لنڈ کو مسلنا ۔ ۔ ۔ ۔

اس سے برداشت نہیں ہوتا اور وہ سنسان جگہ دیکھ کر بائیک سڑک سے نیچے اُتَر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ اور درختوں کے پیچھے لے جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

کیا ہوا یہاں کدھر لے آیا بائیک کو ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو کچھ نہیں بولتا بس بائیک سائڈ لگا کر ۔ ۔ ۔ ۔ ماہرہ کو کھینچ کر پیڑ کے ساتھ لگا دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور اس کے ہونٹوں کو چُوسنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

"ووم م م ۔ ۔ ۔ ہم م م م ۔ ۔ ۔ ۔ م م م م" ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ بھی گرم تھی وہ بھی والہانہ جواب دینے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

"ہم م م م ۔ ۔ ۔ ووم م م ۔ ۔ ۔ م م م م" ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

اب اور برداشت نہیں ہو رہا ماہرہ میرے اندر آگ لگی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ہم م م ۔ ۔ ۔ ۔ میرا بھی یہی حَال ہے مگر ابھی پہلے گھر تو چلو ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

گھر جانے تک تو میں اِس آگ میں جل جاؤں گا ۔ ۔ ۔ ۔

اتنا کہہ کر شیرو ماہرہ کے دودھ زور زور سے مسلنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور ماہرہ کے منہ سے سسکیاں نکلنے لگتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

آہ ۔ ۔ ۔ م م م م ۔ ۔ ۔ اں ۔ ۔ ۔ اوئی ۔ ۔ ۔ آہاں ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو جانتا تھا یہ جگہ یہ وقت سہی نہیں تھا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اب اسے یہ گرمی برداشت نہیں ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔ وہ جلدی سے ماہرہ کو گھماتا ہے اور ماہرہ کو جھکا دیتا ہے ۔ ۔ ۔

ماہرہ نہ نہ کرتے ہوئے بھی جھک جاتی ہے اور پیڑ کو پکڑ لیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو جلدی سے اس کی قمیض کمر تک اٹھاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور اس کی شلوار نیچے کر کے پینٹی گھٹنوں تک نیچے کر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور اگلے ہی لمحے اپنے لنڈ کو ماہرہ کی پھدی کے منہ پر سیٹ کر کے اس کی کمر کو پکڑ کر ایک زوردار دھکا مارتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اِس زوردار دھکے کے ساتھ پُورا لنڈ ایک ہی بار میں اندر گھس جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور سیدھا ماہرہ کی بچہ دانی میں لگتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ اِس دھکے کو سہہ نہیں پاتی اور درد کی وجہ سے ۔ ۔ ۔ ایک تیز چیخ اس کے منہ سے نکل جاتی ہے ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

آہ ۔ ۔ ۔ مار ڈالا ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ س س ۔ ۔ ۔ مر گئی ۔ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو کو جیسے اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔ ۔ ۔ اس کے سر پر تو سیکس کا بھوت سوار تھا ۔ ۔ ۔ اور وہ تیزی سے دھکے مارنے شروع کر دیتا ہے ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

آں آں آں آں ۔ ۔ ۔ ۔آہ ۔ ۔ ۔ م م م ۔ ۔ س س س ۔ ۔ ۔ اوئی ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو تیز دھکے مارتے جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

چند لمحوں میں ہی ماہرہ کی چوت میں پانی آنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ اور اسے بھی اب چدائی کا مزہ آنے لگتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ایک طرف اسے ڈر تھا کہ ۔ ۔ ۔ کہیں کوئی آ نہ جائے ۔ ۔ ۔ ۔

دوسری طرف ایسے کھلے میں چدائی کرنے سے اسے مزہ بھی بہت آ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جس کی وجہ سے جلدی اس کی چوت ڈسچارج ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کی ٹانگیں کانپ نے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

مگر شیرو تو لگاتار دھکے مارتا جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اسے بس اپنا پانی نکالنا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو ایسے ہی چند منٹ کی دھواں دار چدائی کر کے اپنا پانی نکال دیتا ہے ۔ ۔ ۔ اور ماہرہ جلدی سے اپنی حالت ٹھیک کر لیتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

دونوں گھر کی طرف چل پڑتے ہیں ۔ ۔ ۔ ،

گھر آکر ماہرہ جلدی سے اپنے کمرے میں گھس جاتی ہے ۔ ۔ ۔

کہیں کسی کو شک نہ ہو جائے اور پھر ایسے ہی رات ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ،

رات کا كھانا کھا کر سب اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ بختیار کو دوائیاں دیکھا کر کہتی ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ دوا لے آئی ہے اور ڈاکٹر نے ایک گولی آپ کو بھی کھانے کو کہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار چپ چاپ گولی کھا لیتا ہے ۔ ۔ ۔

جوکہ اصل میں نیند کی گولی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

کچھ دیر بعد ماہرہ کچن میں برتن دھونے کا بول کر چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور جب وہ واپس آتی ہے تو دیکھتی ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار بےسدھ سویا پڑا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

بختیار کو اچھی طرح چیک کرنے کے بعد ۔ ۔ ۔ ماہرہ شیرو کے کمرے میں چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

کیوں جناب آج بہت گرمی چڑھ رہی تھی باہر آپ کو ۔ ۔ ۔ اب دیکھتی ہوں تمہیں ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

(مسکرا کر )

وہ گرمی بھی تو آپ نے ہی لگائی تھی ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

تو چلو آؤ پھر تمہاری پوری گرمی نکالتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس کے بعد دونوں پھر سے شروع ہو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

اور آدھے گھنٹے تک چدائی چلتی ہے دونوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ چدائی ختم ہونے کے بعد جب ماہرہ جانے لگتی ہے ۔ ۔ ۔ تو شیرو اسے روک لیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

مامی جی روک جائیں ۔ ۔ ۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

کیا بات ہے ؟

شیرو :

وہ اصل میں مجھے بختیار ماما کے بارے میں بات کرنی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

چھوڑو اسے وہ جو کرتے ہیں کرنے دو مجھے اب ان سے کوئی مطلب نہیں ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے صرف اب تم سے ہی مطلب ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

مامی جی یہ سنجیدہ مسلہ ہے ۔ ۔ ۔ اگر ہم نے کچھ نہیں کیا تو ماما جی سب کچھ برباد کر دیں گے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

کیا مطلب ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو پھر مینا کے بارے میں سب بتاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اس نے مینا کے منہ سے سنا تھا وہ بھی بتاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اس کا مطلب وہ حرام زادی اپنی چوت دیکھا کر سب کچھ ہتھیانا چاہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور تیرا ماما چوتیا بن کر سب لٹا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

ہاں مامی جی زرا سوچیں ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ماما نے سب ایسے لٹا دیا تو ۔ ۔ آپ کے بچوں کو کیا ملے گا ۔ ۔ ۔ اور یہ گھر بھی تباہ ہو جائے گا ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

نہیں شیرو یہ سب تیرا ہے تو ہی اِس ساری جائیداد کا وارث ہے ۔ ۔ ۔ میرے بچے بھی تو تیرے ہوں گے ۔ ۔ ۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے یہ سب تیرے لیے ہے ۔ ۔ ۔ اور میں تیری امانت کسی کو برباد نہیں کرنے دوں گی ۔ ۔ ۔ ،

اس حرام زادی کو پہلے ٹھیک کرنا ہوگا اور تیرے ماما کو تو ایک جھٹکے میں لائن پر لے آوں گی ۔ ۔ ۔ ۔

تو نے اپنے کانوں سے سب کچھ سنا تھا نہ ؟

شیرو :

جی مامی ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

وہ آدمی اس کا کوئی رشتےدار ہے جس کا بچہ مینا کے پیٹ میں ہے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

جی مامی ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

اب سب سے ضروری ہے کہ ۔ ۔ ۔ اِس بات کا ٹھوس ثبوت اکھٹا کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے لیے ان کے منہ سے نکلوانا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔

کچھ دیر سوچ کر ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

ایک راستہ تو ہے مگر ہے تھوڑا مشکل ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

آپ بتائیں میں کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

دیکھ تو نے دیکھا ہے نہ مینا کو اپنے اس بھائی سے چدائی کرتے ہوئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

میں نے بتایا تو ہے ابھی آپ کو ۔ ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

تو ایک کام کر تیرے پاس اب تو نیا موبائل ہے ۔ ۔ ۔

اس میں تو ریکارڈ کر سکتا ہے سب کچھ ۔ ۔ ۔ ۔

جب اگلی بار وہ اپنے بھائی سے چدائی کر رہی ہو ۔ ۔ ۔ تو اس کی ریکارڈنگ کر لینا ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنے ماما پر بھی نظر رکھنا ۔ ۔ ۔ ۔

یہ بھی جب مینا کے ساتھ چدائی کر رہے ہوں تو ریکارڈ کر لینا ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

مینا کا تو سمجھ آیا ۔ ۔ ۔ مگر ماما کی کیوں ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

وہ اِس لیے کے اگر کہیں تیرا ماما ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ہوشیاری کرے تو اسے ڈرانے کے لیے ۔ ۔ ۔ ہمارے پاس ثبوت ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔

شیرو :

ٹھیک ہے مامی جی ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ریکارڈنگ کرنے کے بعد کیا کرنا ہے ۔ ۔ ۔

ماہرہ :

وہ بعد میں دیکھیں گے ۔ ۔ ۔ پہلے تو یہ کام کر اور جلدی کرنا ۔ ۔ ۔ کیا پتہ وہ رنڈی تب تک کوئی اور مسلہ نہ کر دے ۔ ۔ ۔ ۔

پھر ماہرہ شیرو کو کس کر کے اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور شیرو بھی سو جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

اگلی صبح شیرو کالج جانے سے پہلے راجو سے ملتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

اور اسے اپنا موبائل دے کر کہتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چھوٹے ماما پر نظر رکھے ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہ کہیں مینا کے ساتھ کچھ کریں تو ریکارڈ کر لینا ۔ ۔ ۔ ۔

راجو سے مل کر شیرو کالج چلا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 pk saqi novels pdf

pk saqi novels pdf download

best pakistani novels in urdu pdf download

best novels pakistan

pk saaqi novels book download

pk saaqi novels ever written

pk saaqi novels list

pk saaqi novels new releases

pk saaqi novels online

pk saaqi novels order

pk saaqi novels online pdf